ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش

محمد عمار خان ناصر

میں چار سال کا تھا جب ہم گکھڑ سے گوجرانوالہ منتقل ہو گئے۔ اس کے بعد گکھڑ جانے کا موقع عام طور پر عید کے دنوں میں یا کسی دوسری خاص مناسبت سے پیدا ہوتا تھا۔ ابتدائی سالوں کی زیادہ باتیں یادداشت میں محفوظ نہیں ہیں، البتہ ایک آدھ واقعہ اب بھی ذہن کی اسکرین پر جھلملاتا ہے۔

دادا محترم، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو گھر میں عام طور پر ’’ابا جی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ہم بچے بھی انھیں اسی نام سے یاد کرتے تھے۔ ابا جی ہر جمعہ کے دن گھر کی چھت پر بیٹھ کر حجام سے سر منڈواتے اور اپنے اور گھر کے بچوں کے ناخن تراشتے تھے۔ انھوں نے اپنے پاس حاضر ہو کر ناخن ترشوانے والے بچوں کے لیے انعام کا بھی اعلان کر رکھا تھا اور مجھے کم سے کم ایک مرتبہ ان سے ناخن ترشوا کر ایک روپے کا بالکل نیا نوٹ انعام میں لینا یاد ہے۔ اسی عمر میں ابا جی سے زندگی کا پہلا اور آخری تھپڑ کھانا بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ ابا جی کے کمرے کی کھڑکی جس گلی کی طرف کھلتی ہے، اس کے آگے ایک خاصا وسیع خالی پلاٹ ہے جو محلے کے بچوں کے لیے کھیل کے میدان کا کام دیتا ہے۔ پلاٹ کی دوسری طرف شیشم کے گھنے درخت کے نیچے ایک قبر تھی جہاں ’’رحما ماچھی‘‘ نام کا ایک ملنگ صبح صبح آکر جھاڑو دیا کرتا اور اللہ ہو اللہ ہو کے نعرے بلند کیا کرتا تھا۔ ا س کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے پاس جن ہیں، چنانچہ ہم بچے تجسس سے اس کے مخصوص وقت پر گلی میں جا کر کھڑے ہو جاتے تھے اور اس کی آوازیں سنا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کچھ شرارتی بچوں نے ذرا قریب جا کر اس کو چھیڑا اور شاید کچھ بدتمیزی کی جس پر وہ ناراض ہو کر بچوں کے پیچھے ہو لیا۔ باقی بچے تو بھاگ کر ادھر ادھر چلے گئے، لیکن میں گھر میں داخل ہو کر ابا جی کے کمرے میں چلا گیا تاکہ کھڑکی سے دیکھ سکوں کہ رحما ماچھی کیا کرتا ہے۔ وہ سیدھا ابا جی کے کمرے کی کھڑکی کے پاس آیا اور آ کر ابا جی کو شکایت کی کہ ان بچوں نے مجھے گالیاں دی ہیں۔ ابا جی کو اس پر غصہ آیا اور چونکہ اس سے ذرا پہلے میں ہی بھاگتا ہوا آ کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا تھا، اس لیے انھوں نے مجھے شریک جرم سمجھتے ہوئے ایک خاصا وزنی تھپڑ میرے منہ پر جڑ دیا۔

جب وہ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹے ہوتے تو بچے او رنوجوان مختلف اوقات میں ان کے پاس جا کر ان کا جسم اور ٹانگیں دبانے کو سعادت سمجھتے تھے۔ ان کا جسم مضبوط اور گٹھا ہوا تھا اور وہ عام طور پر بچوں سے مزاح کے انداز میں کہتے تھے کہ ذرا زور لگاؤ۔ چچا زاد اور پھوپھی زاد بہن بھائی ان کے پاس اکٹھے جاتے تو وہ عام طور پر دل لگی کرتے ہوئے یہ ضرور پوچھتے تھے کہ تم میں سے ’لالہ‘ (بڑا بھائی) کون ہے؟ اگر لڑکا اور لڑکی ہوتے تو پوچھتے کہ تم ’لالہ‘ ہو یا یہ ’ددے‘ (بڑی بہن) ہے؟ 

ان کے دبدبے اور احترام کی کیفیت بھی بچپن سے ہی ذہن پر نقش ہے۔ والدہ بتاتی ہیں کہ گکھڑ میں جب وہ دوپہر کے وقت آرام کر رہے ہوتے تھے تو گھر کی خواتین ساری دوپہر باہر صحن سے پرندوں کو اڑانے میں مصروف رہتی تھیں کہ کہیں ان کی آوازوں سے ابا جی کی نیند خراب نہ ہو۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم بچے کھیلتے ہوئے کسی وقت دوسری منزل پر اباجی کے کمرے کے اوپر بنے ہوئے کمرے میں چلے جاتے تو دادی محترمہ یا گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوراً پیچھے پہنچ جاتا کہ چھت پر اچھلنے کودنے کی آوازیں نیچے ابا جی کے آرام میں خلل پیدا نہ کریں۔ گھر کے افراد کبھی ان کے سامنے ننگے سر نہیں جاتے تھے، بلکہ والدہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن والد گرامی عشا کے بعد سونے کے کپڑوں میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے کہ اتنے میں سرہانے رکھے ہوئے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ والد گرامی نے فون اٹھایا اور السلام علیکم کہتے ہی ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئے اور بے اختیار پاس رکھی ہوئی ٹوپی اٹھا کر سر پر رکھ لی۔ پتہ چلا کہ ابا جی کا فون تھا۔ خاندان کے بزرگ بتاتے ہیں کہ ڈاڑھی کے معاملے میں وہ اپنی اولاد پر سخت نظر رکھتے تھے اور انھوں نے تنکے کے ساتھ ہر فرد کی ڈاڑھی کی باقاعدہ پیمایش اپنے پاس رکھی ہوئی تھی جس کی مدد سے وہ وقتاً فوقتاً یہ چیک کرتے رہتے تھے کہ کسی نے ڈاڑھی چھوٹی تو نہیں کی۔ تیسری پشت کے نوجوانوں کے ساتھ ان کا رویہ سخت گیر نہیں رہا، لیکن ڈاڑھی کترنے والے نوجوان، ان سے چھپتے پھرتے تھے یا ان کے سامنے جاتے ہوئے ٹھوڑی کو اچھی طرح لپیٹ کر جانے کا اہتمام کرتے تھے۔ 

ابا جی کی مہمان نوازی ضرب المثل تھی۔ باہر کے مہمانوں کا کیا ذکر، بچپن میں ہم خوردوں میں سے بھی اگر کوئی جاتا اور ان کے پاس سلام کے لیے حاضر ہوتا تو وہ بتاکید پوچھتے کہ کچھ کھایا پیا ہے؟ نہیں تو گھر والوں کو بلا کر انھیں مہمانی اور تواضع کاحکم دیتے۔ عام طو رپر رخصت ہوتے وقت پچاس یا سو روپے کا تبرک ضرور دیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ ٹھہرنے کا موقع نہ ہوتا تو مشروب کے لیے الگ پیسے دیتے اور کہتے، یہ تمہاری بوتل کے پیسے ہیں۔ اس ضمن میں اکرام نفس کا اتنا خیال ہوتا تھا کہ ایک دفعہ رخصت ہوتے وقت انھوں نے مجھے صرف دس روپے دیے تو ساتھ یہ وضاحت کی کہ ان دنوں مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے خرچہ بہت ہوا ہے، اس لیے صرف دس روپے دے رہا ہوں، بلکہ عم مکرم مولانا عزیز الرحمن خان شاہد کا روایت کردہ ایک واقعہ، جو بظاہر ایک لطیفہ لگتا ہے، ابا جی کے محسوسات کی نہایت درست عکاسی کرتا ہے۔ اباجی کے گھر میں مہمان داری کا سلسلہ بہت زیادہ تھا اور مہمان نوازی کے لیے عام طور پر دوکان سے ٹھنڈے مشروب لائے جاتے تھے۔ ذمہ داری چونکہ کسی ایک فرد کی نہیں تھی، اس لیے بعض اوقات دکان دار کے ساتھ حساب کتاب میں کچھ الجھن پیش آجاتی تھی۔ پھر بعض اوقات بازار جانے کے لیے کوئی فرد بھی میسر نہیں ہوتا تھا۔ جب ڈبے کے جوس نئے نئے متعارف ہوئے تو کسی نے ابا جی کو یہ مشورہ دیا کہ مہمانوں کے لیے جوس کے ڈبے اکٹھے منگوا کر رکھ لیے جائیں تاکہ آسانی رہے۔ ابا جی کو تجویز اچھی لگی اور ایسا ہی کیا گیا، لیکن پھر انھیں خیال ہوا کہ کہیں مہمان یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں ہلکے معیار اور کم قیمت کا مشروب پلایا جا رہا ہے۔ چنانچہ جب مہمان آتے اور انھیں مشروب پیش کیا جاتا تو ابا جی ان کے سامنے باقاعدہ وضاحت کرتے کہ آپ مشروب لیجیے، اس کی قیمت بھی اتنی ہی ہے جتنی بوتل کی۔


ابا جی کو اپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کی تعلیم وتعلم کے سلسلے سے بھی بے حد دلچسپی رہتی تھی اور وہ اس کی پوری پوری خبر رکھا کرتے تھے۔ اس ضمن میں کسی بھی اہم پیش رفت پر ان کی خوشی اور جذبہ تشکر دیدنی ہوتا تھا۔ فروری ۱۹۸۵ء میں میرا حفظ قرآن مکمل ہوا تو جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ابا جی کے علاوہ حضرت مولانا عبید اللہ انور اور حضرت مولانا محمد اجمل خان رحمہما اللہ بھی تشریف لائے۔ مجھے یاد ہے کہ ابا جی نے اس موقع پر تفصیلی تقریر فرمائی اور اپنی اولاد میں حفظ قرآن کا سلسلہ آگے بڑھنے کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے تھے۔ اسی طرح طالب علمی کے ابتدائی زمانے میں، میں ایک دفعہ ان کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ آپ کے پاس ابن الندیم کی فہرست ہے؟ کیونکہ مجھے اس سے ایک حوالہ دیکھنا ہے۔ یہ حوالہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف کے کسی نسخے سے متعلق تھا جس کے بارے میں ابن الندیم نے بیان کیا ہے کہ اس میں معوذتین بھی موجود تھیں۔ ابا جی نے کہا کہ کتاب تو میرے پاس ہے، لیکن کیا تم حوالہ تلاش کر لو گے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ اس پر انھوں نے کتاب نکال کر مجھے دی۔ میں نے فہرست دیکھ کر صفحات الٹے پلٹے اور مطلوبہ حوالہ نکال کر ان کو دکھایا جس پر وہ بہت خوش ہوئے۔

ابا جی سے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل کرنے کا موقع غالباً ۱۹۸۸ء میں ملا جب میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ تفسیر میں شریک ہوا۔ اس کے بعد ۹۱ء سے ۹۴ء تک درس نظامی کے آخری تین سالوں کی تعلیم میں نے نصرۃ العلوم ہی میں مکمل کی اور اباجی نے تفسیر قرآن کے علاوہ دورۂ حدیث کے سال صحیح بخاری اور جامع ترمذی کا ایک ایک حصہ پڑھا۔ 

ان کے سامنے بخاری شریف کی عبارت پڑھنے کی ذمہ داری میری تھی۔ عبارت پہلے سے اچھی طرح تیار کر کے لانا پڑتی تھی۔ ایک آدھ دفعہ ایسا ہوا کہ جتنی عبارت کا مطالعہ کیا گیا تھا، اس سے زیادہ پڑھنا پڑی اور بحمد اللہ کوئی غلطی بھی نہیں ہوئی، لیکن ان کی تیز نگاہ فوراً بھانپ گئی اور سبق کے بعد انھوں نے کہا کہ عبارت زیادہ دیکھ کر آیا کرو۔ ایک دفعہ دوران سبق میں فرمایا کہ عبارت پڑھنے والے میں تین خوبیاں ہونی چاہییں: ایک یہ کہ صحیح پڑھے، دوسری یہ کہ تیز پڑھے اور تیسری یہ کہ بلند آواز سے پڑھے۔ یہ صحیح بھی پڑھتا ہے، تیز بھی پڑھتا ہے لیکن اس کی آواز اونچی نہیں ہے۔ ایک دن غالباً میرا گلا خراب تھا۔ سبق سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے فرمایا کہ میرے ساتھ گکھڑ چلو۔ گھر پہنچ کر انھوں نے اپنی الماری سے شہتوت کے شربت کی ایک بوتل نکال کر مجھے دی اور کہا کہ اسے استعمال کرو تاکہ گلا جلدی ٹھیک ہو جائے۔ 

صحیح بخاری کے سبق میں وہ وقتاً فوقتاً اس بات کا امتحان لیتے رہتے تھے کہ جو روایت پڑھی جا رہی ہے، وہ اس سے پہلے امام بخاریؒ نے کہاں نقل کی ہے۔ بعض اوقات حوالہ بتانے پر انعام بھی دیا کرتے تھے۔ اہم باتوں سے متعلق حوالے وہ باقاعدہ نوٹ کرا دیا کرتے تھے۔ اسی طرح وہ اہم مقامات پر مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کے حاشیہ بخاری کی طرف بھی متوجہ کیا کرتے تھے اور بعض اوقات اس کی عبارت بھی باقاعدہ پڑھی جاتی تھی۔ اس ضمن میں انھوں نے ایسے مقامات خوب ذہن میں رکھے ہوئے تھے جو تنبہ کے بغیر فوراً پڑھنے پر مزلہ اقدام ثابت ہو سکتے ہیں۔ یاد ہے کہ ایک دفعہ انھوں نے حاشیے سے ایک عبارت پڑھی اور پڑھتے پڑھتے اچانک رک گئے اور کہا کہ آگے پڑھو، کیا لکھا ہے؟ آگے ’قلت او کثرت‘ کے الفاظ تھے، لیکن میں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ محشی اپنی طرف سے کوئی نکتہ بیان کرنا چاہتا ہے، فوراً ’قلت‘ (بصیغہ مونث غائب از قل یقل) کو ’قلت‘ (بصیغہ متکلم از قال یقول) پڑھ دیا۔ ابا جی نے فوراً ٹوکا اور کہا کہ یہ ’قلت‘ نہیں، ’قلت‘ ہے۔ 

دوران سبق میں، کم سے کم دو مواقع یاد ہیں جب انھوں نے بعض ماثور دعاؤں میں عام طو رپر پڑھے جانے والے ایسے الفاظ پر تنبیہ کی جو روایات میں ثابت نہیں ہیں۔ ایک مرتبہ اذان کے بعد کی دعا کے بارے میں فرمایا کہ دعاؤں کی عام کتابوں میں ’آت محمدان الوسیلۃ والفضیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ وابعثہ مقاما محمودا الذی وعدتہ وارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ‘ کے جو الفاظ نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے ’والدرجۃ الرفیعۃ‘ اور ’وارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ‘ کے الفاظ حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ (ابن حجر نے تلخیص الحبیر ۱/۲۱۰ میں ’والدرجۃ الرفیعۃ‘ کے بارے میں اس کی تصریح کی ہے)۔ اسی طرح ایک موقع پر نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعا ’اللہم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والکرام‘ کا ذکر آیا تو ابا جی نے پوچھا کہ کسی کو یہ دعا یاد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ ہم اپنے ننھیال (موضع گلیانہ، ضلع گجرات) میں گھر کے قریب جس مسجد میں نماز کے لیے جاتے تھے، وہ بریلوی مکتب فکر کی تھی اور میں نے ہر نماز کے بعد امام صاحب سے سن سن کر یہ دعا جیسے یاد کی ہوئی تھی، اسی طرح پڑھ کر سنا دی: ’اللہم انت السلام ومنک السلام والیک یرجع السلام حینا ربنا بالسلام وادخلنا دار السلام تبارکت یا ذا الجلال والاکرام‘۔ جیسے ہی میں نے دعا پوری کی، اباجی نے فوراً کہا: سب ’’خرافات‘‘ یاد کی ہوئی ہے۔ پھر بتایا کہ ’والیک یرجع السلام حینا ربنا بالسلام وادخلنا دار السلام‘ کے الفاظ حدیث میں نہیں آئے۔ (ملا علی القاری نے ’المصنوع‘ رقم ۴۷۲ میں اس کی تصریح کی ہے۔ البتہ ان میں سے ’حینا ربنا بالسلام‘ کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بعد کے ذکر میں تو منقول نہیں، لیکن بعض روایات میں ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر ’اللہم انت السلام ومنک السلام فحینا ربنا بالسلام‘ کے کلمات پڑھا کرتے تھے۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۸۹۹۵، ۸۹۹۸) اسی طرح بزار نے ایک ضعیف روایت میں نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج نکلنے کے بعد جو دعا پڑھنے کی تلقین کی، اس میں ’اللہم انت السلام ومنک السلام والیک یعود السلام‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ (مجمع الزوائد ۱۰/۱۱۵) ابو حاتم نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ (علل ابن ابی حاتم، ۲۰۶۶)

مدارس کے طلبہ کے مزاج، نفسیات اور عادات کے بارے میں پر مزاح جملے بھی ان کے سبق کا حصہ ہوتے تھے۔ دوران سبق میں سونے والے طالب علموں کے لیے فرماتے کہ نیند اگر میدان جنگ میں آئے تو وہ سکینہ ہوتی ہے اور اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے، لیکن اگر سبق کے دوران میں آئے تو شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ امام سبکی کی ’طبقات الشافعیۃ الکبریٰ‘ کے حوالے سے فرماتے کہ اس میں ولی کی بے شمار نشانیاں بیان کی گئی ہیں جن میں سے ایک زیادہ کھانا، کھانا بھی ہے۔ پھر طلبہ سے کہتے کہ آپ خوش ہو جائیں کہ کم از کم ولایت کی یہ نشانی تو آپ میں بھی پائی جاتی ہے۔ بتاتے تھے کہ ایک دفعہ میں امتحان لینے کسی جگہ گیا۔ ترجمہ قرآن کے امتحان میں، میں نے سورۂ فاطر کی پہلی آیت ’الحمد للہ فاطر السموات والارض‘ طالب علم کے سامنے رکھی تو اس نے ترجمہ کیا: ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے فتور مچا رکھا ہے آسمانوں اور زمین میں۔‘‘ عم مکرم مولانا عزیز الرحمن شاہد کی روایت ہے کہ ایک دفعہ رجسٹر پر طلبہ کی حاضری درج کرتے ہوئے ان کے قلم کی سیاہی خشک ہو گئی۔ ایک طالب علم نے اپنا قلم دیا تو جیسے ہی انھوں نے اس کی نوک کاغذ پر رکھی، اس کی سیاہی پھیل گئی۔ ابا جی نے مزے سے یہ کہہ کر قلم واپس کر دیا کہ بھئی! یہ لے لو، اسے طالب علموں والی بیماری ہے۔ طلبہ کو کسی بات کی تحقیق کی ترغیب دیتے ہوئے یہ خاص جملہ اکثر دہراتے تھے کہ ’’ذوق اور شوق دو بھائی تھے۔ عرصہ ہوا کہ فوت ہو گئے، رحمہما اللہ‘‘۔ یہ بھی فرماتے کہ آپ حضرات ’’طلباء‘‘ نہیں بلکہ ’’طلبہ‘‘ بنیں، اور پھر وضاحت کرتے کہ ’’طلباء‘‘ اسم فاعل کا، جبکہ ’’طلبہ‘‘ صفت مشبہہ کا صیغہ ہے جس میں دوام اور استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ایک دفعہ دوران سبق میں سینما کا ذکر آیا تو فرمایا کہ میں نے آج تک زندگی میں کبھی سینما نہیں دیکھا، البتہ ’’آپ جیسے ثقہ بزرگوں‘‘ سے سنا ہے کہ اس میں یہ اور یہ ہوتا ہے۔

بعض دفعہ دلچسپ علمی لطائف بھی سناتے تھے۔ ’ولا الضالین‘ میں ضاد کے تلفظ پر یہ لطیفہ سناتے کہ گکھڑ میں ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ اس کا صحیح تلفظ ’ولا الدالین‘ ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی، یہ بتاؤ کہ آپ جب نماز کے لیے اپنے اعضا دھوتے ہیں تو کیا کہتے ہیں: میں نے ’’وضو‘‘ کیا یا میں نے ’’ودو‘‘ کیا؟ اس نے کہا کہ ’’وضو‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ خدانخواستہ آپ کی اہلیہ کو کوئی خطرناک بیماری لگ جائے تو آپ کیا کہیں گے: میری بیوی کو ایک موذی مرض لگ گیا ہے یا ایک موذی ’’مرد‘‘ لگ گیا ہے؟ جب باقی ہر جگہ ضاد ہی بولتے ہو تو ولا الضالین میں بھی یونہی پڑھو۔ اسی طرح بتاتے کہ ایک دفعہ سفر کے دوران میں گاڑی میں کوئی شیعہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور سیدنا علی رضی الہ عنہ کی فضیلت پر گفتگو شروع کر دی۔ دوران گفتگو میں اس نے کہا کہ علی کی تو قرآن میں بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ دلیل کے طور پر اس نے ’انہ لعلی حکیم‘ یا ’وہو العلی العظیم‘ جیسی کچھ آیات سنائیں۔ ابا جی کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا: قرآن میں تو یزید کا بھی بڑا رتبہ بیان ہوا ہے۔ اس نے کہا، وہ کہاں؟ میں نے کہا، قرآن میں ہے: ویزیدہم من فضلہ۔ اس نے کہا کہ یہ ’یزید‘ کے بعد ’ہم‘ ضمیر کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا کہ اس سے مراد بنوامیہ ہیں، یعنی بنو امیہ کا یزید اللہ کے فضل میں سے ہے۔ بتاتے تھے کہ گورنمنٹ نارمل اسکول گکھڑ میں درس قرآن کے دوران ایک صاحب نے کہا کہ مولانا! یہ ڈاڑھی تو ایک غیر فطری چیز ہے، اسے کیوں ضروری قرار دیا جاتا ہے؟ پوچھا گیا کہ یہ کیسے غیر فطری ہے تو انھوں نے کہا کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کی ڈاڑھی نہیں ہوتی۔ ابا جی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ جب آپ پیدا ہوئے تھے تو آپ کا ایک بھی دانت نہیں تھا، اس لیے آپ اپنے سارے دانت نکلوا دیں۔ پھر پیدایش کے وقت آپ بالکل ننگے تھے، اس لیے اگر فطری یا غیر فطری کا معیار یہی ہے تو اب بھی آپ اپنے کپڑے اتار دیجیے۔

وہ تفسیر میں حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے تلمیذ تھے اور ان کا ذکر ’’ہمارے حضرت مرحوم‘‘ کے الفاظ سے کیا کرتے تھے۔ بعض مقامات پر میانوالی کی بولی میں ان کا ترجمہ خاص طور پر سنایا کرتے تھے۔ مثلاً فبہت الذی کفر (البقرۃ ۲۵۸ ) کے تحت ان کا یہ ترجمہ سناتے تھے کہ ’’کافر بھڑوی دا پچی تھی گیا‘‘ (نامراد کافر لا جواب ہوگیا)۔ اسی طرح ’قال اخسؤا فیہا ولا تکلمون‘ (المومنون ۱۰۸) کا ترجمہ یہ سناتے کہ ’’چخے تھیوو، نہ باں باں کرو۔‘‘ اپنے درس تفسیر میں قرآنی مضامین کے باہمی ربط کو واضح کرنے کا بھی خاص اہتمام کرتے تھے، البتہ ان کے ہاں اس حوالے سے مولانا حسین علی صاحب کے مخصوص تفسیری ذوق کے بجائے عمومی رنگ غالب دکھائی دیتا تھا۔ ربط مضامین کو واضح کرنے کے لیے وہ دوسری تفسیروں کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ’’سبق الغایات فی نسق الآیات‘‘ اور ’’بیان القرآن‘‘ کا حوالہ بکثرت دیا کرتے تھے۔ 

کمزور اور پر تکلف تاویل پر مبنی تفسیری آرا کی تردید بھی ان کے درس کا خاص حصہ ہوتی تھی۔ مثلاً ’ورفعنا فوقکم الطور‘ (البقرہ ۶۳) ضمن میں مولانا مودودیؒ کی اس راے کا ذکر کرتے کہ یہ پہاڑ حقیقتاً اپنی جگہ سے بلند نہیں کیا گیا تھا، بلکہ بنی اسرائیل کو صرف ڈرایا گیا تھا کہ دیکھو، اگر نہیں مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا۔ پھر فرماتے کہ اگر یہ مراد ہے تو ’واذ نتقنا الجبل فوقہم کانہ ظلۃ‘ (الاعراف ۱۷۱) کا کیا مطلب ہے جہاں صاف طور پر پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑنے اور اسے سائبان کی طرح ان کے سروں پر معلق کر دینے کا ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح سورۂ بقرہ کی آیت: ’فخذ اربعۃ من الطیر فصرہن الیک‘ (البقرہ ۲۶۰) کی تفسیر میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کی یہ راے بیان کرتے کہ ابراہیم علیہ السلام کو ان چار پرندوں کو ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ وہ ان پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کریں اور اس کے بعد ان میں سے ہر پرندے کو ایک ایک پہاڑ پر چھوڑ کر انھیں پکاریں تو یہ تیزی سے ان کے پاس پہنچ جائیں گے۔ پھر فرماتے کہ مولانا نے یہاں ٹھوکر کھائی ہے اور ان کی یہ تاویل باطل ہے، کیونکہ یہاں سیاق میں زیر بحث سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں، جبکہ مولانا کی تاویل کی صورت میں اس واقعے کا احیاے موتی کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔ 

قرآن مجید کے مختلف نصوص سے گمراہ فرقوں کے استدلالا ت کا جواب بھی وہ اہتمام سے ذکر کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ’جاہد الکفار والمنافقین‘ (التوبہ ۷۳) کے تحت اہل تشیع کے اس استدلال کی تردید کرتے ہوئے کہ ’والمنافقین‘ میں واؤ مع کے معنی میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ اے نبی، آپ ان منافقین (یعنی نعوذ باللہ صحابہ) کے ساتھ مل کر کفار کے ساتھ جہاد کریں، وہ صاحب ’متن متین‘ علامہ عبد الرسولؒ اور کافیہ کے شارح رضی استراباذی کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ یہ دونوں صراحت کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں نصاً وصراحتاً مفعول معہ کی کوئی مثال موجود نہیں۔ فرماتے تھے کہ یہ دونوں غالی شیعہ ہیں، لیکن نحو کے امام ہیں۔ متن متین کا حوالہ وہ ’وارجلکم الی الکعبین‘ (المائدہ ۶) کے تحت پاؤں پر مسح کرنے کے شیعی موقف کے جواب میں بھی دیا کرتے تھے کہ قرآن مجید میں جر جوار کا اسلوب کہیں نہیں پایا جاتا۔ متن متین شاید ان کی پسندیدہ کتاب تھی۔ فرماتے تھے کہ یہ نحو کی ادق ترین کتاب ہے۔ (یہ کافیہ کی طرز پر چھوٹے چھوٹے اور مغلق جملوں میں تصنیف کردہ کتاب ہے اور کسی دور میں تکمیل فنون کے اسباق میں پڑھائی جاتی رہی ہے۔ بالعموم دست یاب نہیں، البتہ ابا جی کے پاس ایک موقع پر اس کا نسخہ دیکھنا مجھے یاد ہے۔) اسی طرح ’لیذہب عنکم الرجس اہل البیت‘ (الاحزاب ۳۳) کے ضمن میں اہل تشیع کا یہ استدلال بیان کرتے کہ یہاں جمع مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات شامل نہیں ہیں۔ پھر بتاتے کہ عربیت کے لحاظ سے جمع مذکر کی ضمیر واحد مونث کے لیے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ اس پر قرآن مجید کی آیت: ’رحمت اللہ وبرکاتہ علیکم اہل البیت‘ (ہود ۷۳) کے علاوہ ’وان شئت حرمت النساء سواکم‘ اور ’فلا تحسبی انی تخشعت بعدکم‘ جیسے اشعار بطور نظیر پیش کرتے۔ 

بے انتہا وسعت مطالعہ کے باوجود علمی نکات کی تحقیق اور معلومات میں اضافے کے ضمن میں وہ ’حیث وجدہا فہو احق بہا‘ کے اصول پر عمل پیرا تھے۔ عم مکرم مولانا عبدالحق خان بشیر نے ۱۹۷۷ء میں گوجرانوالہ جیل میں قید کی یادداشتوں میں بیان کیا ہے کہ جیل میں ان کی بیرک کی صفائی پر ایک پاگل مامور تھا جو اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا، لیکن تاریخ کا وسیع مطالعہ رکھتا تھا اور اس کی یادداشت قائم تھی۔ ابا جی اس سے استفادے کے لیے اس کی پسند کے مطابق سگریٹ اور بسکٹ کے ڈبے منگوا لیتے چائے، بنوا کر اس کے سامنے رکھ دی جاتی، اور وہ تاریخی معلومات اگلنا شروع کر دیتا۔ اس طرح کئی نشستوں میں اباجی نے اس سے انقلاب فرانس، انقلاب ترکی، جنگ عظیم اول ودوم اور تاریخ کے دوسرے بہت سے اہم مراحل کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس سلسلے میں وہ نہایت منصف مزاج بھی تھے اور مسلکی یا دینی اختلاف ان کے لیے کسی کے علم وفضل کا اعتراف کرنے میں مانع نہیں بنتا تھا، چنانچہ ایک مرتبہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کے بارے میں گفتگو ہوئی تو فرمایا کہ وہ علم حدیث میں کمزور تھے، لیکن باقی علوم کے ماہر تھے۔ ان کے متواضع مزاج کا اظہار علم کے معاملے میں بھی ہوتا تھا اور وہ اپنے خوردوں سے بھی کوئی مفید بات لینے میں حجاب محسوس نہیں کرتے تھے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے زمانہ طالب علمی میں، ایک مرتبہ مجھے اس نکتے کی تحقیق کی ضرورت پیش آئی کہ اہل نحو جملے کے اعراب میں حرف ’لما‘ کا کیا محل بیان کرتے ہیں۔ میں نے ابا جی سے دریافت کیا تو غالباً انھوں نے کہا کہ مجھے مستحضر نہیں، تم خود دیکھو۔ میں نے مختلف کتابوں کی مراجعت کی تو ’تاج العروس‘ میں یہ وضاحت مل گئی کہ ’لما‘ جملے میں واقع فعل کا ظرف ہوتا ہے، البتہ اس کا عامل کبھی جواب شرط کی صورت میں اس سے موخر ہوتا ہے (جیسے لما ورد ماء مدین وجد علیہ امۃ) اور کبھی اس سے مقدم (جیسے استعد القوم لقتال العدو لما احسوا بہم)۔ اگلے دن ابا جی اپنے اسباق سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ بات ان کے سامنے پیش کی۔ وہ کھڑے تھے، فوراً بیٹھ گئے اور جیب سے اپنا قلم اور کاغذ کی ایک چٹ نکال کر کہا کہ ذرا دوبارہ بتاؤ، تاج العروس میں کیا لکھا ہے؟ میں نے بتایا تو انھوں نے اسے باقاعدہ نوٹ کر کے اپنے پاس جیب میں رکھ لیا۔ 


ابا جی کے روز مرہ معمولات میں دم کرنا اور تعویذ لکھنا بھی شامل تھا۔ دوران سبق میں ایک مرتبہ تعویذات کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ زیر بحث آیا تو انھوں نے مشکوٰۃ المصابیح منگوائی اور اس میں سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث باقاعدہ پڑھ کر سنائی جس میں ذکر ہے کہ وہ ’اعوذ بکلمات اللہ التامات من غضبہ وعقابہ وشر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون‘ کے کلمات اپنے بڑے بچوں کویاد کرا دیتے تھے جبکہ چھوٹے بچوں کے گلے میں لکھ کر لٹکا دیا کرتے تھے۔ (ترمذی، رقم ۳۴۵۱ و مسند احمد، رقم ۶۴۰۹) ایک زمانے میں جب میرے ذہن میں تعویذات کے جواز کے سلسلے میں تردد پیدا ہوا تو میں نے ابا جی نے دریافت کیا تھا کہ اس روایت کی سند میں تو محمد بن اسحاق ہے جس پر آپ نے احسن الکلام میں شدید ترین جرح نقل کی ہے۔ ابا جی نے فرمایا کہ اس کی روایت احکام میں قبول نہیں لیکن تاریخ کے دائرے میں قابل استدلال ہے۔ یاد نہیں کہ میں نے اس پر مزید یہ اشکال پیش کیا تھا یا نہیں کہ اس روایت سے تو ایک شرعی حکم ہی کے ضمن میں استدلال کیا جا رہا ہے، اس لیے اس پر تاریخ کا اصول کیونکر لاگو ہو سکتا ہے؟ بہرحال مجھے بے شمار دفعہ انھیں تعویذ لکھتے ہوئے دیکھنے کا اور ایک آدھ دفعہ ان کے کہنے پر تعویذ کو تہہ کرنے کا موقع ملا۔ عام طور پر وہ تعویذ میں ۷۸۶ کے بعد ’رب الناس اذہب الباس‘ کے کلمات لکھا کرتے تھے، جبکہ دم کرتے ہوئے بالعموم ان کی زبان سے ’بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیء‘ کے الفاظ سننے میں آتے تھے۔ گکھڑ میں عصر کے بعد کا وقت عام طور پر اسی مقصد کے لیے حاضر ہونے والے حضرات وخواتین کے لیے مخصوص تھا، لیکن تعویذات کا کاروبار کرنے والے عاملین کے برعکس ان کی ساری کوشش تعویذ پر لوگوں کا یقین بنانے کے لیے نہیں بلکہ اس سے ہٹانے کے لیے ہوتی تھی۔ وہ کم وبیش ہر آنے والے سے کہتے تھے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہے گا تو دم یا تعویذ میں اثر پیدا کر دے گا۔ وہ خود گھٹنوں کے درد میں مبتلا تھے اور کئی دفعہ دم کی تاثیر کے اللہ کی مشیت پر منحصر ہونے کو واضح کرنے کے لیے کہتے تھے کہ میں خود ایک طویل عرصے سے گنٹھیا کا شکار ہوں، اگر میرے پاس کوئی شرطیہ دم ہوتا تو پہلے اپنا علاج نہ کر لیتا؟ میر ے سامنے کی بات ہے کہ ایک مولوی صاحب ان کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ میرے پاس ایک ایسا دم ہے جس سے بیمار کو یقینی طور پر آرام آ جاتا ہے۔ ابا جی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے گھٹنوں میں پرانا درد ہے، آپ ذرا اپنا دم آزمائیں۔ انھوں نے ایک دفعہ دم کیا اور پوچھا کہ کچھ افاقہ ہے؟ ابا جی نے کہا، نہیں۔ انھوں نے دوسری دفعہ دم کیا تو ابا جی نے کہا، کوئی فرق نہیں۔ تیسری دفعہ دم کے بعد زور سے کہا کہ ذرہ برابر بھی آرام نہیں ہے۔ وہ صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ 

ہر مسئلے کا حل تعویذ میں تلاش کرنے والوں کے لیے بعض دفعہ وہ دلچسپ تبصرے بھی کیا کرتے تھے۔ بچپن میں ایک دفعہ والدہ نے مجھے ان کے پاس بھیجا کہ اپنے لیے پڑھائی کا تعویذ لے کر آؤ۔ یاد نہیں کہ ابا جی نے تعویذ دیا یا نہیں، لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’پتر، پڑھائی پڑھن نال ہوندی اے‘‘ (بیٹا، پڑھائی پڑھنے سے ہوتی ہے)۔ ایک صاحب آئے اور انھوں نے اپنے گھٹنوں کے درد کا ذکر کیا۔ ابا جی نے کہا کہ عمر کتنی ہے؟ اگر چالیس سال سے زیادہ ہے تو پھر یہ درد ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی ان کے طنز ومزاح کا خاص طور پر ہدف بنے رہتے تھے اور وہ بعض توہم پرست لوگوں کے دلچسپ واقعات بھی سنایا کرتے تھے۔ بتاتے تھے کہ ایک دفعہ ایک میجر صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھ پر کسی نے جادو کر دیا ہے، اس کے لیے تعویذ دے دیں۔ میں نے کہا کہ میں تعویذ دے دیتا ہوں، لیکن عام طور پر لوگ خواہ مخواہ جادو کے وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، مجھے یقین ہے کہ مجھ پر جادو کیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ انھوں نے کہا، میرے پاخانے سے بدبو آتی ہے۔ ابا جی نے کہا کہ اس پر میں نے لاحول ولا قوۃ پڑھی اور کہا کہ بھائی، وہ پاخانہ ہے، کوئی کستوری تو نہیں۔ ایک دفعہ سبق میں فرمایا کہ ’’میں نے آج تک نہ کوئی جن دیکھا ہے اور نہ جنوں کا عامل دیکھا ہے، البتہ ٹھگ بڑے سنے ہیں کہ فلاں ہے اور فلاں ہے۔‘‘ ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی سناتے کہ جھنگ میں کسی شخص نے خود کشی کر لی تو اس کے بہن بھائی باقاعدہ سفر کر کے ان کے پاس گکھڑ آئے اور کہا کہ ہم نے آپ کی ایک تقریر سنی تھی جس میں آپ نے معجزات اور کرامات کا برحق ہونا بیان کیا تھا، اس لیے ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ ’’کرامت‘‘ دکھا کر ہمارے مردہ بھائی کو زندہ کر دیں۔

دوران سبق میں کوئی خاتون دم یا تعویذ کے لیے آجاتی تو انھیں ناگوار گزرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک خاتون سبق کے دوران میں آ گئی تو ابا جی نے بادل نخواستہ اسے پاس بلا لیا۔ اس نے اپنی کوئی تکلیف بتائی اور ابا جی نے اس کی بات سن کر اسے تعویذ دے دیا۔ اب وہ پوچھنے لگی کہ میں پرہیز کیا کروں؟ ابا جی نے کہا کہ کوئی پرہیز نہیں، ساری حلال چیزیں کھاؤ۔ اس نے دو تین بار یہی سوال کیا تو ابا جی نے کہا کہ بی بی! میرا دماغ نہ کھاؤ، باقی سب کچھ کھاؤ۔ اسی طرح اسباق سے فار غ ہونے کے بعد صوفی صاحب کے گھر میں خواتین ان کے انتظار میں بیٹھی ہوتی تھیں۔ جمعرات کو انھیں خاص طو رپر واپسی کی جلدی ہوتی تھی، کیونکہ ان کا معمول تھا کہ وہ ہر جمعرات کو پیٹ کی صفائی کے لیے جلاب لیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی خاتون نے غالباً تعویذ کے لیے اپنی لمبی چوڑی کتھا سنانا شروع کر دی تو ابا جی نے جھلا کر کہا کہ بی بی، مختصر بات کرو، میں نے جا کر جلاب بھی لینا ہے۔ بتاتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے اسی طرح جانے کی جلدی تھی کہ نکلتے نکلتے ایک خاتون آ گئی۔ میں نے غصے میں اسے خالی کاغذ تہہ کر کے تعویذ کے طو رپر دے دیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ خوش خوش آئی اور کہنے لگی کہ مولوی صاحب، آپ کے تعویذ کی برکت سے میرا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ 

یہاں یہ بات بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ دم اور تعویذ کے لیے آنے والی خواتین کے معاملے میں ان کے طرز عمل سے پتہ چلتا تھا کہ وہ چہرے کے پردے کے بارے میں متقدمین احناف کے موقف کے قائل ہیں، کیونکہ انھوں نے کبھی مدرسے میں یا گھر میں آنے والی کسی خاتون کو، خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھی، چہرہ چھپانے کے لیے نہیں کہا۔ کئی مرتبہ ہم گھر کے نوجوان ان کے پاس ہوتے اور ہماری موجودگی میں خواتین دم کے لیے آ جاتیں تو وہ کبھی ہم سے باہر جانے کے لیے نہیں کہتے تھے۔ ان کی اپنی اولاد میں چچا زاد، ماموں زاد اور پھوپھی زاد لڑکے لڑکیاں بعض دفعہ ان کے پاس جا کر اکٹھے بیٹھ جاتے تو وہ اس پر بھی کبھی کوئی نکیر نہیں فرماتے تھے۔ ابا جی کے گھر میں دیور بھابھی، چچی بھتیجا اور ممانی بھانجا وغیرہ کے مابین پردے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا، البتہ بہت بعد میں بعض خواتین نے اپنے ذاتی ذوق سے ایسا کرنا چاہا تو ابا جی نے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں فرمایا۔ ابا جی کے مذکورہ طرز عمل کے علاوہ ’الا ما ظہر منہا‘ (النور ۳۱) کے تحت انھوں نے ا س مسئلے کی وضاحت میں جو کچھ فرمایا، اسے بھی یہاں لفظاً نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فرمایا:

’’اس میں خاصا اختلاف ہے کہ عورتوں کا چہرہ، ان کے ہاتھ اور ان کے قدمین، یہ عورت ہیں یا نہیں۔ پھر یہ کہ فی الصلوٰۃ وفی غیر الصلوٰۃ کوئی فرق ہے یا نہیں۔ تیسرا کہ اجنبی یا غیر اجنبی کا بھی کوئی فرق ہے یا نہیں۔ کبیری میں ہے کہ عورت کا چہرہ، یدین اور قدمین عورت نہیں ہیں، لا فی الصلوۃ ولا فی غیر الصلوۃ، لا فی حق الاجنبی ولا فی حق غیر الاجنبی۔ وعلیہ الاتفاق۔ فقہاے احناف کا اس پر اتفاق ہے۔ ہاں پردہ کرنا مستحب ہے، واجب نہیں۔ [لیکن] عوام کے سامنے یہ بات بیان نہ کرنا۔‘‘

یقین سے یاد نہیں کہ بات کا پس منظر کیا تھا، لیکن ایک دفعہ دوران سبق میں انھوں نے مفتی رشید احمد صاحب لدھیانویؒ کے حوالے سے فرمایا کہ وہ ہمارے ساتھی ہیں، لیکن بعض امور میں تشدد سے کام لیتے ہیں۔ 


ابا جی کی تصنیف وتالیف کا موضوع زیادہ تر اختلافی مسلکی مسائل رہے اور انھوں نے مختلف مباحث کے ضمن میں پچاس کے لگ بھگ تصانیف میں اکابر دیوبند کے نقطہ نظر کی بھرپور اور مدلل علمی ترجمانی کی خدمت انجام دی۔ مجھے چونکہ ان بحثوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، اس لیے زمانہ طالب علمی میں ابا جی کی کتابوں سے بھی کچھ زیادہ اعتنا نہیں رہا، بلکہ ایک لطیفے کی بات یہ ہوئی کہ ۸۹ء میں ہم نے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا آغاز کیا تو ابا جی کی تصانیف میں سے بھی کوئی نہ کوئی انتخاب ہر ماہ شامل کیا جاتا تھا اور چونکہ ’الشریعہ‘ کے موضوعات اور دائرۂ کار سے مسلکی اختلافات کو خارج رکھنے کی باقاعدہ پالیسی طے کی گئی تھی، اس لیے ابا جی کی تصانیف سے انتخاب کرتے ہوئے بھی اس کا لحاظ کیا جاتا تھا کہ تحریر عمومی نوعیت کے کسی موضوع سے متعلق ہو۔ اس ضمن میں ایک موقع پر میں نے تفنن کے انداز میں والد گرامی سے یہ کہا کہ ہم ابا جی کی کتابوں میں سے اپنی ترجیحات کے مطابق انتخاب واقتباس آخر کب تک کر سکیں گے؟ والد گرامی نے یہ بات اباجی کے گوش گزار کر دی۔ پھر ایک موقع پر خود میں نے بھی ابا جی کے سامنے یہی بات دہرانے کی حماقت کی تو انھوں نے فرمایا کہ میری کتابوں میں اتنا مواد ہے کہ تم ساری زندگی بھی اس میں سے انتخاب کرتے رہو تو مواد ختم نہیں ہوگا۔ ان کی یہ بات درست تھی، البتہ مجھ پر اس کی اہمیت بہت بعد میں اس وقت واضح ہوئی جب اصول فقہ اور اصول حدیث وغیرہ کے ساتھ باقاعدہ علمی اشتغال کا موقع ملا اور میں نے دیکھا کہ ابا جی کی تصانیف میں جگہ جگہ بہت سی اہم علمی واصولی بحثوں کا ایک گراں قدر ذخیرہ موجود ہے، چنانچہ میں نے ان مباحث کو اس خیال سے نشان زد کرنا شروع کر دیا کہ اگر انھیں مربوط طریقے سے الگ یکجا کر دیا جائے تو اصول فقہ، اصول حدیث، اصول تفسیر اور اصول عقائد سے متعلق مستقل مجموعے تیار ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک مجموعہ ’’فن حدیث کے اصول ومبادی‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ مرتب بھی ہو چکا ہے اور ان شاء اللہ جلد زیور طبع سے آراستہ ہو جائے گا۔ 

جہاں تک ابا جی کے طرز بحث کا تعلق ہے تو اس کی خصوصیات پر کئی پہلووں سے مفصل گفتگو کی جا سکتی ہے، لیکن مجھے اپنے ذوق کے لحاظ سے اس میں دو باتیں بے حد نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ دوسرے فریق کا موقف نہایت دیانت داری سے اور پوری تفصیل کے ساتھ خود اس کے اپنے الفاظ میں نقل کرتے ہیں،بلکہ ان کی بعض تصانیف میں اگر فریق مخالف کی نقل کی جانے والی تحریروں کا تناسب کتاب کی کل ضخامت سے دیکھا جائے تو وہ ایک چوتھائی سے کم نہیں ہوگا۔ دوسری بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بحث کے دوران میں کہیں بھی اصل نکتے کو چھوڑ کر کسی غیر متعلق بات کے درپے ہونے، کسی بحث طلب نکتے کو نظر انداز کرنے، دوسرے فریق پر اس کی غلطی واضح کرنے کے بجائے قارئین کو الفاظ کے ہیرپھیر میں ڈالنے یا اس نوعیت کے دوسرے مناظرانہ ہتھکنڈے اختیار نہیں کرتے۔ غالباً عم مکرم مولانا عبدالحق خان بشیر زید مجدہم کو ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کبھی یہ سمجھ کر گفتگو نہ کرو کہ تمہاری بات کو صرف تمہارے موافقین سنیں اور پڑھیں گے، بلکہ یہ ذہن میں رکھو کہ تمہارے مخالفین بھی گفتگو کے مخاطب ہیں اور تمہاری بات سے ان کے اندر اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کے لیے آمادگی پیدا ہونی چاہیے۔ 

یہ اسی جذبے اور داعیے کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے کہیں بھی کسی نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے محض موافقین کی ذہنی واعتقادی وابستگی کو اپیل کرنے جبکہ مخالف کے علمی استدلالات سے صرف نظر کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ مثال کے طور پر اگر وہ ’’صرف ایک اسلام‘‘ میں حدیث کے بارے میں ڈاکٹر برق مرحوم کے نظریات بیان کر کے ان کے سارے اعتراضات اور استدلالات کو یہ کہہ کر جھٹک دیتے کہ ’’دیکھو، یہ شخص تو منکر حدیث ہے، اس لیے اس کی کسی بات یا استدلال کی کیا وقعت ہو سکتی ہے!‘‘ یا ’’چراغ کی روشنی میں‘‘ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعواے نبوت اور دیگر کفریہ نظریات درج کر کے فرماتے کہ ’’کیا ایسے شخص کی پیش کردہ کوئی بات یا دلیل مذہبی لحاظ سے قابل توجہ ہو سکتی ہے؟‘‘ تو عوام الناس کو گمراہی سے بچانے کی حد تک یہ طریقہ کافی اور موثر ہوتا، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ ان دونوں کتابوں میں اور اس کے علاوہ اپنی ہر تصنیف اس بات کی کوشش کی ہے کہ فریق مخالف کے استدلال میں جو جو نکتہ بھی علمی طور پر وضاحت کا تقاضا کرتا ہے، اسے زیر بحث لایا جائے اور محض مذہبی قارئین کے ذہنی تعصبات کو اپیل کرنے کے بجائے علمی طو رپر مخالف نقطہ نظر کی غلطی واضح کی جائے۔ 

کسی بیہودہ سے بیہودہ بات پر بھی ابا جی کا قلم غصے کے چھینٹے اڑاتا دکھائی نہیں دیتا۔ وہ تحمل اور سنجیدگی کا خود التزام کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے لکھنے والوں کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے۔ ۱۹۹۶ء میں میری اولین تصنیف ’’امام اعظم ابو حنیفہؒ اور عمل بالحدیث‘‘ کے زیر عنوان مدرسہ نصرۃ العلوم کے ادارۂ نشر واشاعت کے زیر اہتمام شائع ہوئی جس میں، میں نے امام ابو حنیفہؒ کی آرا پر جلیل القدر محد ث امام ابن ابی شیبہؒ کے ایک سو پچیس اعتراضات کا ایک طالب علمانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ ابا جی نے اس پر مجھے تفصیلی خط لکھا اور کتاب میں موجود بہت سی اغلاط کی نشان دہی کرتے ہوئے ان الفاظ میں حوصلہ افزائی فرمائی کہ ’’اگر اس کتاب کی صحیح معنی میں تصحیح اور خدمت ہو جائے تو ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہوگا‘‘ ، جبکہ بعد میں زبانی شاباش دیتے ہوئے خاص طور پر اس بات کی تحسین کی کہ کسی بھی بات کا جواب دیتے ہوئے تمہیں غصہ نہیں آیا، ورنہ بعض جگہ غصے کا آ جانا ناگزیر ہے۔ 

نامعقول باتوں کی نامعقولیت واضح کرنے کے لیے وہ غصے اور جذباتی پن کے اظہار کے بجائے ظرافت کا سہارا لیتے تھے، چنانچہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم نے اپنی کتاب ’’دو اسلام‘‘ میں مذہبی لباس اور وضع قطع کے بارے میں بعض استہزائیہ جملے لکھے تو ابا جی نے اس کے جواب میں لکھا:

’’ہم برق صاحب سے عرض کرتے ہیں کہ آپ ازراہ انصاف یہ فرمائیں کہ بجاے اسلامی صورت اور سیرت کے اگر ایک شخص ڈاڑھی منڈوا کر جیسے چھیلی ہوئی گنڈیری ہوتی ہے، کرزن فیشن کی مونچھیں رکھ کر (جو دور سے ایسے معلوم ہوتی ہیں کہ گویا ناک کے سامنے مکھی بیٹھی ہوئی ہے)، گلے میں سانپ (نکٹائی) لٹکا کر، منہ میں سگریٹ لے کر، سر پر ہیٹ رکھ کر اور ٹخنوں سے نیچے پتلون لٹکا کر (جیسے سارنگی پر غلاف چڑھا ہوا ہوتا ہے اور جس میں پیچھے سے چلتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ چوتڑ باتیں کر رہے ہیں) اور پاکٹ میں مسواک کی جگہ خنزیر کے بالوں کی برش ڈال کر .....حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہو تو کیا آپ ایسے شخص کو مسلمان اور اپنا امتی تصور فرمائیں گے؟‘‘ (صرف ایک اسلام، ص ۲۷، ۲۸)

مزاح اور ظرافت ویسے بھی ان کی طبیعت کا حصہ تھا اور وہ ایسے برجستہ اور فی البدیہہ جملے کہا کرتے تھے کہ دیر تک ان کا لطف باقی رہتا تھا۔ بچپن میں میرے چھوٹے بھائی عزیزم ناصر الدین خان عامر سلمہ کا نام اس کے گول مٹول جسم کی وجہ سے انھوں نے ’’ڈڈو‘‘ رکھا ہوا تھا اور وہ عام طور پر پیار سے اسے اسی نام سے پکارتے تھے۔ والد گرامی کے شب وروز کے اسفار کی وجہ سے ابا جی نے ان کے لیے ’’دابۃ الارض‘‘ کا لقب تجویز کیا ہوا تھا۔ میری کتاب ’’امام ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث‘‘ چھپی تو ابا جی نے مجھے پانچ سو روپے بطور انعام دیے اور خط میں لکھا کہ ’’تمہاری قیمت تو بہت زیادہ ہے، لیکن میں یتیم ہوں، اس لیے صرف پانچ سو روپے انعام دے رہا ہوں۔‘‘ گکھڑ میں انھیں اپنی مسجد کے لیے حفظ کے استاذ کی ضرورت تھی۔ ابا جی نے کسی سے قاری کی تلاش کے لیے کہا تو ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’’یہ دیکھ لینا کہ وہ یہاں سے اوپر اوپر قاری ہو۔‘‘ سفر حج میں اباجی کو اطلاع ملی کہ ان کی پھوپھی زاد بہن کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے اور اس کا نام بلال رکھا گیا ہے تو انھوں نے اپنے خط میں اس کی مبارک باد دی اور لکھا کہ ’’دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو صحیح معنی میں بلال بنائے، بغیر اس کے کہ وہ کالا ہو۔‘‘ برادرم عبدالقیوم طاہر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد کافی دیر تک ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تو وہ ابا جی کے پاس تعویذ کے لیے حاضر ہوئے۔ ابا جی نے تعویذ دیا اور کہا کہ بھئی، تعویذ تو یہ لو، لیکن خود بھی محنت کرنی ہے۔ خود محنت کرتے نہیں اور تعویذ لینے آ گئے ہو! دوران سبق میں بعض دفعہ فرماتے کہ ہر زبان میں کسی آنے والے کے استقبال کے لیے کوئی نہ کوئی خاص کلمہ بولا جاتا ہے، مثلاً عربی میں ’مرحبا‘ کہا جاتا ہے، فارسی میں کہتے ہیں: ’’خوش آمدید‘‘، پنجابی میں ’’جی آیاں نوں‘‘ رائج ہے، جبکہ انگریزی میں کہتے ہیں: ’وَیْلَکُمْ‘ (Welcome)۔ ایک موقع پر جنات کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ہم جنات کو دیکھ نہیں سکتے، لیکن جہاں ہم بیٹھے ہیں، وہاں انسانوں سے زیادہ جنات موجود ہیں، اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ انسانوں کی شکل میں آ کر ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں۔ اب یہ آپ دیکھ لیں کہ وہ آپ میں سے کون کون ہیں! ان کے سامنے کسی عیسائی کا یہ اعتراض ذکر کیا گیا کہ شیطان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ہمارے پاس تو خدا کے بیٹے کا سہارا ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟ ابا جی نے کہا کہ اس سے کہو: ’’تہاڈے کول پتر اے تے ساڈے کول پیو اے۔‘‘


اباجی کے نزدیک دین کی خدمت کا اہم ترین ذریعہ تعلیم وتعلم اور درس وتدریس تھا اور وہ اسی کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ والد گرامی بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر انھوں نے اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کے لیے کچھ دوستوں سے قرض لے کر کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے افتتاح کے موقع پر دعا کے لیے ابا جی کو دعوت دی۔ ابا جی آئے، افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے اور دعا بھی کی، لیکن متعدد وجوہ سے یہ کاروبار چل نہ سکا اور خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ والد گرامی نے اس صورت حال سے ابا جی کو آگاہ کیا اور عرض کیا کہ میں نے آپ سے کاروبار کی کامیابی کے لیے دعا کی درخواست کی تھی، لیکن لگتا ہے کہ آپ نے دعا نہیں کی۔ ابا جی نے فرمایا کہ تم بالکل درست سمجھے ہو۔ میں تمہارے کہنے پر آیا تھا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھائے تھے، مگر دعا نہیں کی تھی،اس لیے کہ میں نے تمہیں سالہا سال تک دینی تعلیم کاروبار کرنے کے لیے نہیں دلوائی تھی، بلکہ اس لیے پڑھایا تھا کہ قناعت سے کام لیتے ہوئے دین کی خدمت کرو۔ 

عم مکرم قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم نے ایک موقع پر یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ کراچی جا کر ٹرک ڈرائیور بننا چاہتے ہیں اور اس سے انھیں ایک ہزار روپے ماہانہ آمدن ہوگی۔ ابا جی نے انھیں سختی سے ڈانٹ دیا اور انھیں پابند کیا کہ وہ یہیں کسی مسجد میں بیٹھ کر قرآن مجید کی تعلیم دیں۔ عم مکرم مولانا رشید الحق خان عابد کے تعلیم وتدریس کے سلسلے سے الگ ہو جانے کا انھیں شدید قلق تھا اور وہ کئی دفعہ اس تاثر کا اظہار کیا کرتے تھے کہ تعلیم وتدریس میں ان بھائیوں میں سب سے زیادہ لائق وہی تھا، لیکن افسوس کہ وہ اس لائن کو ہی چھوڑ گیا ہے۔ والد گرامی کو ’الشریعہ‘ کا ڈیکلریشن ملا تو اکتوبر ۱۹۸۹ء سے اس کی باقاعدہ اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں ان دنوں بائبل اور مسیحی لٹریچر کے مطالعے سے دلچسپی رکھتا تھا۔ والد گرامی کی تحریک پر میں نے عیسائیت کے حوالے سے بعض مضامین لکھے جو الشریعہ میں شائع ہوئے۔ یہ میرا درجہ خامسہ کا سال تھا۔ ابا جی نے یہ مضامین پڑھے تو ایک چٹ لکھ کر مجھے بھیجی (جو افسوس ہے کہ مجھے اپنے کاغذات میں نہیں ملی)۔ مضمون کم وبیش یہ تھا کہ ’’میں نے تمہارے مضامین دیکھے ہیں۔ دیکھو، ملک چیخنے چلانے والوں سے بھرا پڑا ہے جبکہ مدرس علما کی کمی ہے۔ تم ماشاء اللہ ذہین بھی ہو اور محنتی بھی، اس لیے فی الحال لکھنے لکھانے کا سلسلہ ترک کر کے پوری توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز کرو۔‘‘ یاد نہیں کہ اس نصیحت کا مجھ پر کیا اثر ہوا تھا، لیکن عملاً یہی ہوا کہ میرا لکھنے لکھانے کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اس کے بعد تقریباً پانچ سال تک میں نے کسی موضوع پر کچھ نہیں لکھا۔ 

دوران تعلیم میں وہ کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمیوں کے سخت خلاف تھے جو تعلیم میں حارج ہوں۔ طلبہ کو سختی کے ساتھ تاکید کیا کرتے تھے کہ تعلیم کا کام تبلیغ سے زیادہ اہم ہے، اس لیے دوران سال میں تعلیم چھوڑ کر تبلیغ کے لیے جانا ہرگز درست نہیں، البتہ چھٹیوں میں ضرور تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانا چاہیے۔ ایک موقع پر جماعت کے بزرگ راہ نما حضرت مولانا سعید احمد خانؒ گکھڑ تشریف لائے۔ اتفاق سے میں بھی وہیں موجود تھا۔ مجھ سے دریافت کیا گیا کہ میں کیا کرتا ہوں اور آیا میں نے اللہ کے راستے میں وقت لگایا ہے یا نہیں؟ میں اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھاتا تھا اور جماعت کے طریقے اور مزاج کے ساتھ طبعی عدم مناسبت کی وجہ اس میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ (اب بارہ تیرہ سال کے بعد اس کے ساتھ دل تو رکھتا ہوں، لیکن چسپی اب بھی نہیں ہے)۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو غالباً خود مولانا سعید احمد خان یا شاید ان کے کسی ساتھی کی طرف سے مجھے ’’وصول‘‘ کرنے کی فرمایش کی گئی۔ اس فرمایش پر صاف انکار کرنا میرے لیے مشکل تھا، تاہم ابا جی نے فوراً مداخلت کی اور فرمایا کہ یہ مدرسے میں پڑھاتا ہے اور دوران تدریس میں اس کے یوں چلے جانے سے طلبہ کا نقصان ہوگا، اس لیے یہ اس وقت نہیں جا سکتا، البتہ چھٹیاں ہوں گی تو دیکھا جائے گا۔

کسی بھی معاملے میں دو ٹوک بات کہنا اور بالخصوص اگر مسئلہ فقہ اور شریعت کا ہو تو اس میں کسی کی کوئی رعایت نہ کرنا ویسے بھی ان کے طرز فکر اور طرز عمل کا ایک نہایت نمایاں پہلو تھا۔ والد گرامی بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۰ء میں دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر ابا جی اور صوفی صاحب دیوبند گئے تو اس موقع پر دونوں بزرگ دیوبند کے قبرستان میں اکابر دیوبند کی قبروں پر بھی حاضری دی۔ ابا جی نے تو دعا اور فاتحہ پر اکتفا کی، جبکہ صوفی صاحب آگے بڑھ کر حضرت مدنی کی قبر پر مراقب ہو کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر گزری تو اباجی نے کہا کہ ’’اٹھا ایس بدعتی نوں، جھول مار کے بیہہ گیا اے۔‘‘ (اٹھاؤ اس بدعتی کو، یہ کیا سر ٹانگوں میں دے کر بیٹھ گیا ہے)۔ ان کے سامنے اس بات کا ذکر ہوا کہ ایک صوفی سلسلے میں ایک خاص طرح کے روحانی عمل کے ذریعے سے، جس میں حبس دم کرنا پڑتا ہے، حالت بیداری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ ابا جی نے کہا کہ جتنی دیر وہ سانس روکتے ہیں، اتنی دیر میں ویسے بھی کچھ نہ کچھ دکھائی دینے لگتا ہے۔ عم مکرم مولانا عزیز الرحمن شاہد کی روایت ہے کہ ایک موقع پر نماز فجر کے درس میں انھوں نے ذکر کی اجتماعی مجالس کے ’’بدعت‘‘ ہونے کا مسئلہ واضح کیا۔ اس پر حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا کہ حضرت مولانا عبید اللہ انور تو اہتمام کے ساتھ اجتماعی مجالس ذکر منعقد کرتے ہیں۔ ابا جی نے کہا کہ ہم نے کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے، مولانا عبید اللہ انور کا نہیں۔ 

قاضی محمد رویس خان ایوبی صاحب، جو ابا جی کے ہم زلف بھی ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر ابا جی گکھڑ سے مدرسہ نصرۃ العلوم کی گاڑی پر گوجرانوالہ آ رہے تھے تو وہ بھی اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ ساتھ بیٹھنے کے لیے آگے بڑھے، لیکن ابا جی نے یہ کہہ کر انھیں روک دیا کہ یہ گاڑی مدرسے والوں نے مجھے لینے کے لیے بھیجی ہے اور میں نے کسی اور کو اپنے ساتھ سوار کرانے کی اجازت مدرسے والوں سے نہیں لی۔ پھر ابا جی نے انھیں اپنی جیب سے کرایہ نکال کر دیا اور کہا کہ آپ بس میں بیٹھ کر آجائیں۔ ابا جی کے ایک قریبی عزیز، جو کسی سرکاری مسجد میں خطیب مقرر تھے، ان سے ملنے آئے تو ابا جی نے پوچھا کہ آج کل کیا کرتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ کوئی خاص ذمہ داری تو نہیں ہے، بس جا کر تنخواہ لیتا رہتا ہوں۔ ابا جی نے کہا، پھر تو تم بہت حرام خور ہو۔ ایک دفعہ گکھڑ کے ایک قریبی تعلق رکھنے والے گھرانے کی شادی کے موقع پر نکاح کے لیے ابا جی بارات کے ساتھ گئے۔ دولہا ان کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بوتل پی کر عام عادت کے مطابق اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا اور بوتل نیچے رکھ دی۔ ابا جی نے کہا کہ یہ بوتل اٹھاؤ اور اسے ختم کرو، اور پھر ہچکچاہٹ اور شرمندگی کے باوجود دولہا کو ساری بوتل ختم کرتے ہی بنی۔ 


ابا جی اپنی آرا اور نظریات میں جمہور اہل علم کے موقف کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کسی بھی علمی یا فقہی مسئلے میں جمہور امت جس راے کی تائید کریں، وہی اقرب الی الحق اور قرین صواب ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی تصانیف میں زیر بحث آنے والے کم وبیش تمام مسائل کی تحقیق میں اسی زاویہ نگاہ کو ملحوظ رکھا ہے اور اپنے تلامذہ اور متعلقین کو بھی یہی ہدایت کرتے تھے کہ مختلف گمراہ کن نظریات کے اثرات سے بچنے کے لیے جمہور علماے امت کی تحقیقات کا دامن تھامے رکھنا ہی محفوظ ترین اور محتاط ترین راستہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دین کے معاملے میں بزرگوں پر اعتماد کرنے اور عوام الناس میں اس اعتماد کو قائم رکھنے کو بے حد ضروری قرار دیتے تھے اور اس ضمن میں انھیں اگر کسی بات سے علمی نوعیت کا اختلاف ہوتا تو اس کے اظہار میں بھی ا س کا لحاظ رکھتے تھے۔ ۲۰۰۱ء میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں میرا ایک مضمون شائع ہوا جس میں، میں نے اس معروف تفسیری واقعے پر سند اور متن کے اعتبار سے نقد کیا تھا جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک منافق کو اس بنیاد پر قتل کر دیا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر مطمئن نہیں تھا اور آپ کی عدالت سے فیصلہ سننے کے بعد اپنا مقدمہ سیدنا عمر کے پاس لے کر گیا تھا۔ ابا جی نے یہ مضمون پڑھا اور چند دنوں کے بعدجب میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ تمہاری تنقید درست ہے، لیکن بات یہ ہے کہ یہ واقعہ بہت سی معروف اور متداول تفسیروں میں بیان کیا گیا ہے، جبکہ تمہاری تنقید سے عوام کا اعتماد ان بزرگوں اور کتابوں کے بارے میں مجروح ہوگا۔ پھر انھوں نے مجھ سے کہا کہ میری الماری سے تفسیر جلالین کا نسخہ نکالو۔ میں نے کتاب نکالی تو کہا کہ فلاں صفحہ کھولو۔ وہاں انھوں نے کتب تفسیر میں عام طور پر بیان کی جانے والی ایک روایت پر، جس میں ایک معروف صحابی کے اخلاق وکردار منفی رنگ میں سامنے آتا ہے، اپنی تنقید ایک الگ صفحے پر تحریر کر کے رکھی ہوئی تھی۔ اباجی نے لکھا تھا کہ یہ واقعہ دراصل اس معروف اور مخلص صاحب ایمان صحابی کا نہیں بلکہ ایک منافق کا تھا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ معروف روایت کی سند میں ایک شیعہ راوی ہے جس نے غالباً صحابی کو بدنام کرنے کے لیے اس واقعے میں ان کا نام ذکر کر دیا ہے۔ ابا جی نے مجھ سے کہا کہ میری تحقیق یہ ہے، حالانکہ تمام مفسرین اس واقعے کو اسی طرح بیان کرتے ہیں، لیکن میں نے کبھی اپنی اس تنقید کو شائع نہیں کیا کہ اس سے اکابر کی تحقیق کے بارے میں لوگوں کا اعتماد مجروح ہو سکتا ہے۔ البتہ میرے سوال پر انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کا اختلاف یا تنقید سبق کے دوران میں طلبہ کے سامنے بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ 

تاہم ابا جی کا یہ طرز عمل علمی نوعیت کی باتوں میں ہوتا تھا، جبکہ ایسے امور میں جو کسی اعتقادی یا شرعی مسئلے سے متعلق ہوں اور ان سے عوام الناس کے ایمان واعتقاد پر منفی اثر پڑنے کا خدشہ ہو، وہ مذکورہ مصلحت کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح اگر مسئلہ شرعی نوعیت کا ہوتا تو وہ بڑے بڑے علما کے ہاں طبقاً عن طبق چلی آنے والی کسی غلط فہمی کی تردید میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر امام طحاویؒ کی ایک عبارت سے حنفی فقہا کی ایک بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی چلی آ رہی ہے کہ امام صاحب بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینے کے جواز کے قائل ہیں۔ ابا جی نے تحقیق کی تو واضح ہواکہ امام صاحب کامدعایہ نہیں ہے، چنانچہ انھوں نے ’’الکلام الحاوی فی تحقیق عبارۃ الطحاوی‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل کتاب تصنیف فرمائی۔ اس میں لکھتے ہیں:

’’اب ہم ان بعض حضرات کے حوالے بتلاتے ہیں جن کی عبارات ہماری نظر سے گزری ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ امام طحاوی جواز کے قائل ہیں: ۱۔ علامہ عبد الحئ اور چند وہ بزرگ جن کے نام مجموعہ فتاویٰ میں درج ہیں، ۲۔ شارح ملتقی الابحر، ۳۔ مصنف النہر الفائق، ۴۔ علامہ برجندی عبد العلیؒ ، ۵۔ علامہ شرنبلالیؒ ، ۶۔ الیاس زادہؒ ، ۷۔قہستانیؒ ، ۸۔ صاحب العرف الشذی، ۹۔ سید جلال الدین الخوارزمی کرمانی، صاحب الکفایہ شرح ہدایہ، ۱۰۔اور صاحب فتاویٰ برہنہ وغیرہ‘‘۔ (ص ۹۹)

’’طحاوی کے سب باب کو اول سے آخر تک بغور مطالعہ کریں۔ کہیں صراحۃً یا کنایۃً ایک بھی ایسی جزئی نظر نہ آئے گی جس سے یہ سمجھا جائے کہ امام طحاویؒ جواز کے قائل یا مائل الی الجواز ہیں۔ یہ ان بعض حضرات کی بھیڑ چال تھی۔ سامحہم اللہ تعالیٰ بعموم فضلہ کہ ایک کو غلطی ہوئی تو پھر دوسرے بزرگوں نے اس کو نقل کرنا شروع کر دیا اور امام طحاوی کے قول ’فبہذا ناخذ‘ کو محرف کر کے بالجواز ناخذ کر دیا جس سے مطلب کیا سے کیا ہو گیا۔‘‘ (ص ۱۰۶)

علمی وفقہی معاملات میں وہ اکابر دیوبند کی تحقیقات کی پابندی کو خاص طور پر ضروری سمجھتے اور اس دائرے سے باہر جانے کو کسی حال میں گوارا نہیں کرتے تھے۔ ۲۰۰۱ء میں ’الشریعہ‘ میں میرے بعض مضامین شائع ہوئے جن میں، میں نے عبادات اور معاملات سے متعلق بعض فقہی مسائل کے ضمن میں حلقہ دیوبند کے معروف مفتیان کرام کے موقف کے برعکس نقطہ نظر کو علمی طور پر ترجیح دی تھی۔ مجھے اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے مطالعہ وتحقیق اور علمی استفادے کو اہل علم کے کسی مخصوص دائرے تک محدود کر دینے کا فلسفہ بدو شعور سے ہی اپیل نہیں کرتا تھا اور اس کے بجاے ’’تمتع ز ہر گوشۂ یافتم‘‘ کا رجحان میرے مزاج کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ تھا۔ زمانہ طالب علمی میں ایک موقع پر مدرسہ نصرۃ العلوم کی انجمن طلبہ کے زیر اہتمام ایک تربیتی مناظرے کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع تقلید کا جواز یا عدم جواز تھا۔ مجھے عدم جواز کے نقطہ نظر کی ترجمانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس موقع پر دلائل کی ترتیب اور تنقیح کے مرحلے میں جو چیز میرے ذہنی رجحان کی حتمی تعیین میں فیصلہ کن ثابت ہوئی، وہ یہ تھی کہ خود احناف کے ہاں صرف امام ابوحنیفہؒ کے اقوال کی پابندی نہیں کی جاتی، بلکہ دلیل کے وزن اور عملی ضرورت کے لحاظ سے ان کے تلامذہ کا قول اختیار کرنے کی بھی گنجایش موجود ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ جب ائمہ احناف کی آرا میں اخذ وانتخاب اور ترجیح کی گنجایش موجود ہے تو اس حوالے سے امت کے دوسرے فقہا کو ’’اچھوت‘‘ قرار دینے کا کیا جواز ہے؟ بعد میں ایک موقع پر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ کے اس ارشاد نے میرے اس رجحان کو تقویت دی کہ اگر کوئی شخص علمی دلائل کی روشنی میں دوسرے فقہا کے موقف پر اطمینان محسوس کرتا اور اسے اختیار کرتا ہے تو ایسا کرنے سے وہ حنفیت سے خارج نہیں ہوتا۔ مطالعہ وتحقیق کا دائرہ وسیع ہونے سے ماضی اور حال کے مختلف ومتنوع فکری دھاروں سے زیادہ قریبی واقفیت پیدا ہوئی اور بالخصوص استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی صحبت میں آیت من آیات اللہ، ترجمان القرآن حضرت امام حمید الدین فراہیؒ (جن کی قرآنی بصیرت کے اعتراف میں سید سلیمان ندویؒ ، مناظر احسن گیلانیؒ ، عبد الماجد دریابادیؒ اور سید ابو الحسن علی ندویؒ جیسے بلند پایہ اہل علم رطب اللسان ہیں) کے مدرسہ فکر اور قرآنی علوم ومعارف میں اس کی تحقیقات وخدمات سے متعارف ہونے کا موقع ملا تو اس رجحان میں مزید پختگی پیدا ہوتی چلی گئی۔

خیر، اباجی نے ’الشریعہ‘ میں میرے مضامین پڑھے تو مجھے طلب فرمایا۔ میں حاضر ہوا تو انھوں نے تنہائی میں محبت اور شفقت سے بھرپور لہجے میں گفتگو کی۔ فرمایا کہ دیکھو! جب زاہد نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور مختلف نظریات کے لوگوں اور جماعتوں سے ملنا جلنا شروع کیا تو ہمیں اس بات کا شدید اندیشہ تھا کہ وہ کہیں اپنے بزرگوں (یعنی اکابر دیوبند) کے مسلک سے ہٹ نہ جائے، لیکن الحمد للہ زاہد نے ہمیں اس معاملے میں شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اب تمہارے جو مضامین شائع ہوئے ہیں، ان میں تم نے بعض ایسی باتیں لکھی ہیں جو ہمارے بزرگوں کی تحقیق کے خلاف ہیں، جبکہ ان کی تحقیقات حد درجہ غور وفکر اور احتیاط پر مبنی ہوتی ہیں اور ان کے علم وفہم کے مقابلے میں میرے اور تمہارے علم یا راے اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ابا جی نے اسی نوعیت کی چند مزید باتیں بھی ارشاد فرمائیں۔ ان کی باتیں دماغ کو تو جتنا اپیل کر سکتی تھیں، اتنا ہی کیا، لیکن ان کے محبت وشفقت میں ڈوبے ہوئے لہجے نے، سچی بات یہ ہے کہ دل کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ میرا ان سے بحث کرنے کا پہلے بھی ہرگز کوئی ارادہ نہیں تھا اور زیر بحث مسائل بھی بالکل جزوی اور فروعی نوعیت کے تھے، چنانچہ میں نے عرض کیا کہ آپ جن باتوں کو غلط سمجھتے ہیں، ان کی نشان دہی کر دیں، میں ان شاء اللہ آئندہ شمارے میں وضاحت کر دوں گا۔ اباجی اس پر بے حد خوش ہوئے اور دعا دے کر مجھے رخصت کر دیا۔ بعد میں انھوں نے متعدد بار میرے رویے پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میرا خیال تھا کہ وہ اپنی بات پر اڑ جائے گا اور بحث کرے گا، لیکن اس نے بڑے برخوردارانہ طرز عمل کا اظہار کیا ہے۔ چند دنوں کے بعد انھوں نے میری تحریروں میں سے بعض مسائل کی نشان دہی کر کے ان کے حوالے سے اپنا موقف بتایا اور فرمایا کہ ان کی وضاحت تم اپنے قلم سے خود لکھو، کیونکہ تم ادیب ہو۔ میری یہ وضاحت ’الشریعہ‘ کے اگلے شمارے میں ’’چند علمی مسائل کی وضاحت‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئی۔

فقہی معاملات میں ابا جی کے اس زاویہ نظر کا دائرہ روز مرہ کے عام مسائل تک محدودنہیں تھا، بلکہ وہ اجتماعی سطح پر قانون سازی کے ضمن میں بھی قدیم فقہی ذخیرے کی من وعن پابندی کو ضروری سمجھتے تھے اور اس ضمن میں حالات کے تغیر اور عملی ضروریات کی روشنی میں بھی کسی قسم کی کوئی لچک پیدا کرنے کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا کو دینی مقاصد کے لیے ذریعہ ابلاغ کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے ان کا موقف معروف ہے۔ اسی طرح ایک موقع پر والد گرامی نے انھیں جمعیۃ علماے اسلام کے منشور کا مسودہ تصدیق وتائید کے لیے بھجوایا تو اباجی نے جوابی خط میں لکھا:

’’جمعیۃ علماے اسلام کا جو منشور ہے، وہ اپنی کوشش اور اخروی نجات کے لیے ضرور ہونا چاہیے، مگر اس میں بعض چیزیں تو محض شیخ چلی کے پلاؤ کا مصداق ہیں۔ عملاً ان کا پتہ چلے گا، کاغذی کاروائی سے کیا معلوم ہو سکتا ہے؟ اقلیتی فرقوں میں بعض مرتد اور زندیق ہیں، ان کے لیے شرعاً ہم مسلک لوگوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی گنجایش کہاں ہے؟ اور پاکستان میں آزاد ومنصفانہ انتخابات کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اس میں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو قابل فہم اور قابل عمل نہیں ہیں اور ’’۲۲ نکات کی روشنی میں ترامیم کی جائے گی‘‘ کے جملہ کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ گویا یہ اس کے رد کے مترادف ہے۔ بینکوں میں مضاربت، سرکاری اداروں کا تعلیمی نصاب اور زکوٰۃ وعشر کے نظام پر نظر ثانی ایک چیستان ہے۔‘‘

افغانستان کے طالبان کے طرز حکومت کی تائید میں انھوں نے جو تحریر لکھی، اس میں یہ بات خاص طور پر نمایاں کی کہ:

’’طالبان کو قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ صدیوں سے ہدایہ وغیرہا کی صورت میں ان کے قانون پہلے ہی سے بنے ہوئے ہیں اور قانون سازی کی چپقلش سے وہ فارغ ہیں۔ کتاب نکالی اور فوراً اس کا نفاذ کر دیا۔ جب کہیں کسی نئی چیز میں ان کو ضرورت پیش آئے گی تو بحمد اللہ تعالیٰ جید علماے کرام ان کے ساتھ ہیں جو شوریٰ کی شکل میں اس مشکل کو بھی حل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘‘

مجھ جیسے ’’تجدد پسند‘‘ اس پر کتنی ہی بے اطمینانی کیوں نہ محسوس کرتے ہوں، لیکن ابا جی کا موقف بہرحال یہی تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جسے وہ پورے اعتدال اور توازن کے ساتھ ملحوظ رکھتے تھے۔ وہ اس نکتے کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے کہ بلند فکری اور ذہنی معیار رکھنے والے اہل علم اور محققین بسااوقات کسی مسئلے میں عام راے پر اطمینان محسوس نہیں کرتے اور ان کا غور وفکر انھیں معروف اور مانوس نقطہ نظر سے مختلف رجحان اختیار کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے، چنانچہ وہ ایسے اہل علم کے لیے جن کی علمی حیثیت مسلم ہو، عام آرا سے اختلاف یا تفرد کا حق بھی پوری طرح تسلیم کرتے تھے، بشرطیکہ اس اختلاف کو علمی حدود میں رکھا جائے اور اس کی وجہ سے جمہور اہل علم پر طعن وتشنیع کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ اپنی کتاب ’’سماع الموتی‘‘ میں انھوں نے اپنے اس موقف کی تفصیلاً وضاحت کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ہم نے نہ تو یہ کہا ہے اور نہ ہمارا یہ موقف ہے کہ جمہور شرع کی پانچویں دلیل ہے۔ ادلۃ الشرع صرف چار ہیں، لیکن ان ادلہ اربعہ میں سے جس دلیل کو جمہور بیان کرتے اور اس پر عمل کرتے چلے آئے ہوں، اس کو کوئی بھی دیانت دار اورمنصف مزاج عالم کبھی بھی جمہور زنبور کہہ کر ٹرخاتا بھی نہیں رہا اور نہ حضرات جمہور کے خلاف ایسے گندے الفاظ کسی نے زبان وقلم سے نکالے ہیں۔ یہی ہوا ہے کہ جمہور کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھ کر علمی طور پر دوسرے پہلو کو ترجیح دی ہے۔‘‘ (ص ۵۵) ’’حضرت شیخ الہند کا ارشاد بھی صحیح ہے۔ وہ جمہور اور اکثریت کے قول کو تسلیم کر کے راجح اور مرجوح کا فرق اور لفظ ہمیشہ تحریر فرما کر اسے بیان فرماتے ہیں جو ایک خالص علمی اور تحقیقی بات ہے۔‘‘ (ص ۶۱) ’’الغرض اختلافی مسائل میں اکثریت اور جمہور کے قول کو اگر معمول بہ نہ بھی بنایا جائے اور کسی معقول اور قوی وجہ سے اس کے مد مقابل قول کو لیا جائے، تب بھی جمہور کو زنبور کہہ کر ان کو ہدف ملامت بنانا بھی تو کسی عالم کا کام نہیں ہے۔‘‘ (ص ۶۳) ’’بلاشبہ ہمارے پیر ومرشد قدس اللہ تعالیٰ سرہ اور حضرت شاہ صاحبؒ اور شیخ الہندؒ اور حضرت نانوتویؒ وغیرہ حضرات نے اپنے علم وتحقیق کی بنا پر اپنے تفردات کو بھی لیا ہے، مگر یقین جانیے کہ نہ تو انھوں نے جمہور کو زنبور کہا ہے اور نہ ان کامذاق اڑایا ہے اور نہ انھوں نے یہ فرمایا ہے کہ علماء حق کے ہاں جمہورکی حیثیت کیا ہے؟‘‘ (ص ۶۴)

ایسی انفرادی اور اچھوتی آرا کی بنا پر وہ نہ تو ان شخصیات کے مرتبہ ومقام اور احترام میں تقصیر کو گوارا کرتے تھے اور نہ ان کی علمی حیثیت کو کلیتاً مجروح کرنے یا یا ان کی دینی خدمات کی نفی کرنے کو درست سمجھتے تھے۔ وفات سے چند ماہ قبل کی بات ہے کہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گفتگو کے دوران میں، میں نے کہا کہ آپ علمی مسائل میں جمہور کی راے کی پابندی پر بہت اصرار کرتے ہیں، لیکن بہت سے اکابر اہل علم، مثلاً امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاں متعدد مسائل میں عام موقف سے ہٹ کر راے پیش کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ (امام ابن تیمیہ کی ایسی آرا کی تعداد تین درجن کے قریب شمار کی گئی ہے) کیا یہ حضرات جمہور کی راے کی اہمیت سے واقف نہیں تھے اور کیا ان کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی منفرد راے قائم کریں؟ انھوں نے فرمایا، ہاں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ایسا کرنے سے وہ گمراہی کا ارتکاب کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا، نہیں۔ میں نے کہا کہ کیا ایسا کرنے کے باوجود وہ اہل سنت کے دائرے میں ہی رہتے ہیں؟ انھوں نے کہا، ہاں۔ ابا جی نے اپنی تصانیف میں بھی ہر جگہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ذکر ہر جگہ نہایت ادب واحترام سے ’’امام‘‘ اور ’’شیخ الاسلام‘‘ وغیرہ کے القاب کے ساتھ کیا ہے۔ ’’راہ ہدایت‘‘ میں لکھتے ہیں: 

’’اکثر اہل بدعت مشہور محدث حافظ ابن تیمیہؒ المتوفی ۷۲۸ھ اور حافظ ابن القیمؒ کی رفیع شان میں بہت ہی گستاخی کرتے ہیں، مگر ملا علی القاری الحنفیؒ ان دونوں بزرگوں کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ .... یہ دونوں اہل السنت والجماعت کے اکابر میں اور اس امت کے اولیا میں تھے۔‘‘ (ص ۱۲۰، ۱۲۱) 

جمہور سے ہٹ کر منفرد آرا قائم کرنے والے سبھی اہل علم کے بارے میں ان کے ہاں یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر مشہور مورخ ابن خلدونؒ نے تاریخی زاویے سے بعض ایسی روایات پر بھی تنقید کی ہے جو محدثین کے ہاں مستند سمجھی جاتی ہیں، مثلاً حضرت آدم کا قد ساٹھ ہاتھ ہونے کی روایت اور امام مہدی کے ظہور سے متعلق روایات۔ اس کے باوجود امام اہل سنت نے ہر جگہ ان کا ذکر ’’علامہ‘‘ اور ’’مورخ اسلام‘‘ کے القاب سے کیا ہے۔ تسکین الصدور میں ابن حزمؒ کی جمہور سے بالکل ہٹی ہوئی ایک راے بیان کرتے ہوئے اور اسے ’’غلط نظریہ‘‘ قرار دیتے ہوئے بھی انھوں نے ان کے لیے ’’علامہ‘‘ کا لقب استعمال کیا ہے۔ نواب صدیق حسن خانؒ کے ہاں مشرک کے ذبیحہ کے حلال ہونے، چار سے زائد عورتوں سے نکاح کے جواز اور نکاح متعہ کی حلت جیسے بہت سے تفردات پائے جاتے ہیں، لیکن ابا جی نے اپنی تصانیف میں بے شمار جگہ پر ان کی آرا کا حوالہ دیا ہے اور صرف الزامی بحثوں میں نہیں، بلکہ خالص تحقیقی امور میں بھی ان کی راے سے استناد کیا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے بعض تفردات اور شاذ آرا کے تناظر میں ان کی شخصیت حلقہ دیوبند میں خاصے بحث ونزاع کاموضوع ہے اور خود ان کے دفاع میں قلم اٹھانے والے بزرگ، مثال کے طو رپر استاذ گرامی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب سواتی نور اللہ مرقدہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ’’مرجوح اور شاذ‘‘ آرا موجود ہیں۔ برادرم مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے ایک مکتوب میں اس ضمن میں استفسار کیا تو ابا جی نے انھیں لکھا کہ ’’مولانا سندھیؒ کے بعض نظریات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، لیکن ان پر کوئی فتویٰ نہیں لگتا۔‘‘ مولانا شبلی نعمانی ؒ کے بارے میں مولانا علی میاںؒ کی کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں یہ تبصرہ ایک مرتبہ انھوں نے خود مجھے دکھایا کہ وہ کلامی مسائل میں معتزلی تھے، لیکن اپنی کتابوں میں شبلی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے ہر جگہ ’’علامہ‘‘ کا لقب استعمال کیا ہے، بلکہ ایک جگہ ’’دور حاضر کے مشہور اور معتبر مورخ حضرت مولانا شبلی نعمانی‘‘ کے الفاظ بھی لکھے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی بہت سی تفسیری آرا کو اہل علم نے نقد وجرح کا موضوع بنایا ہے اور خاص طور پر مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے ان کے اسلوب تفسیر پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کا ذکر سرسید احمد خان اور علامہ عنایت اللہ مشرقی کے ساتھ کیا ہے، لیکن استاذ گرامی مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب گورمانی نے ابا جی سے کہا کہ بعض اہل علم مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تو فرمایا: مولانا حسین احمد مدنیؒ کے درس میں ایک طالب علم نے رقعہ لکھا جس میں مولانا ابوالکلام آزاد کو برا بھلا کہا گیا تھا۔ حضرت مدنی نے رقعہ پڑھ کر کہا کہ یہ کس گدھے نے لکھا ہے؟ ہمارے استاد شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ تحریک آزادی میں مولانا آزاد کی خدمات کو سراہتے اور ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی منفرد تفسیری آرا اور رجحانات بھی کسی سے مخفی نہیں، لیکن ابا جی نے ان کا ذکر بھی ’’حضرت مولانا امین احسن اصلاحی‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے۔ البتہ اختلاف کی بنیاد پر طعن وتشنیع کرنے والے حضرات کے معاملے میں ان کی روش مختلف تھی، چنانچہ مشہور معتزلی نحوی اور لغوی زمخشری کے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ لغت اور نحو کا امام ہے، لیکن اہل سنت کے بارے میں سخت تعصب رکھتا ہے۔ پھر بتاتے تھے کہ ایک جگہ اس نے اپنے مسلک کی وکالت کرتے ہوئے اہل سنت کے بارے میں ’کالحمیر الموکفۃ‘ کے الفاظ لکھے ہیں۔ فرماتے تھے کہ جب سے میں نے یہ الفاظ پڑھے ہیں، اس کے بعد سے میں زمخشری کے لیے رحمہ اللہ کا جملہ مستقلاً استعمال نہیں کرتا۔ 

اسی طرح بہت سے اکابر کے ہاں بعض ایسی آرا اور تعبیرات ملتی ہیں جو بظاہر شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض اور قابل گرفت ہیں۔ حضرت انھیں قابل اعتراض ہی سمجھتے تھے اور ان کے بے جا دفاع کی روش اختیار نہیں کرتے تھے۔ اپنی تصنیفات میں انھوں نے متعدد جگہ اس ضمن میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ ’’دل کا سرور‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’علماء دین کی غلطیاں اور لغزشیں عین ایمان ہرگز نہیں ہوا کرتیں۔‘‘ (ص ۱۸۱) مزید فرماتے ہیں: ’’اگر کسی بزرگ کا کوئی قول کسی جگہ مجمل ہے تو ان ہی کی عبارت میں دوسری جگہ اس کی تفصیل بھی عموماً موجود ہے۔ اگر بالفرض اس کی کوئی مناسب تاویل آپ کو نہیں مل سکتی تو قرآن کریم اور احادیث اور اجماع امت کے مقابلے میں ان کی وہ بات مردود ہوگی، نہ یہ کہ ا س پر دین کی اور خصوصاً عقیدہ کی عمارت استوار ہو سکتی ہے۔‘‘ (ص ۲۱۹) میں نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ کیا صوفیا کا تصور وحدت الوجود قرآن وسنت کے مطابق ہے؟ انھوں نے کہا: ’’کھینچ تان کر ہی مطابق بنایا جاتا ہے‘‘، لیکن اس تصور کے سب سے بڑے ترجمان امام محی الدین ابن العربی کا ذکر انھوں نے اپنی تصانیف میں بے حد احترام کے ساتھ کیا ہے۔ ایک دوسرے موقع پر اس نوعیت کی بعض تعبیرات کے تناظر میں میرے استفسار کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ ہمارا طریقہ بحمد اللہ اعتدال کا طریقہ ہے۔ ہم نہ اہل بدعت کی طرح اکابر کی غلطیوں کو مذہب اور مسلک بناتے ہیں اور نہ غیر مقلدین کی طرح انھیں طعن وتشنیع کا ہدف بناتے ہیں۔ 

مذکورہ امور کی روشنی میں، میرے نزدیک ابا جی کے موقف اور نقطہ نظر کی درست تعبیر یہ بنتی ہے کہ وہ اصولی طور پر جمہور اہل علم کی آرا اور تعبیرات ہی کو درست سمجھتے اور اپنے لیے اس کی پابندی کو بالعموم ضروری تصور کرتے تھے، تاہم اہل علم کے لیے دلائل کی روشنی میں انفرادی رجحانات کا حق بھی تسلیم کرتے تھے اور جمہور سے محض علمی اختلاف کو اہل سنت کے منہج سے انحراف یا گمراہی قرار نہیں دیتے تھے، حتیٰ کہ اگر کسی صاحب علم یاکسی طبقے کی کوئی بات فی الواقع جادۂ صواب سے ہٹی ہوئی اور علمی وشرعی معیارات کی روشنی میں قابل تنقید ہوتی تو اس راے پر تنقید کے باوجود صاحب راے کی دینی وعلمی خدمات کی نفی کرنے یا اس کی شخصیت کے مقام اور احترام کو نظر انداز کرتے ہوئے فتویٰ بازی اور طعن وتشنیع کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ میرے نزدیک جمہور سے اختلاف کرنے والے اصحاب علم کے معاملے میں یہی مسلک، مسلک اعتدال ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ اصولی رویے کو صرف روایتی مذہبی حلقوں میں معروف اور مانوس اہل علم تک محدود رکھنے کے بجاے کسی بھی علمی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اصحاب علم کے حوالے سے اس کی پابندی کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ 


ابا جی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ مشفقانہ تعلق رکھتے تھے اور اپنے اپنے دائرے میں ان کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے دعاگو بھی رہتے تھے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ ان کی بے اعتدالیوں پر بھی پوری طرح نظر رکھتے اور موقع ومحل کی مناسبت سے ان کی طرف توجہ بھی دلاتے رہتے تھے۔ 

تبلیغی جماعت کے کام کی وہ بڑی قدر کرتے اور اس کے اثرات ونتائج پر خوشی کا اظہار فرماتے تھے، لیکن اس سے وابستہ بہت سے حضرات کے فکری غلو کی بھی واضح طور پر تردید کرتے تھے۔ ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں:

’’بعض کم فہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مجموعی طور پر ساری امت پر دعوت الی اللہ لازم ہے، مگر ایسا نہیں ہے بلکہ امر بالمعروف والنہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، یہ تو امت کے ہر فرد کا فریضہ ہے اور یہ کام انفرادی طور پر بھی باحسن وجوہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہر گھر کے سربراہ، ذمہ دار، کفیل، استاد اور صاحب اثر کا کام ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو، بیوی بچوں کو، چھوٹے بہن بھائی اور شاگرد اور زیر اثر لوگوں کو نیکی کرنے کا حکم اور ترغیب دے اور برائی سے منع کرے۔ ...... اس کے لیے اجتماع، اشتہار، منادی اور باہر نکلنا، گشت کرنا اور اکٹھ کرنا ضروری نہیں۔ ایک آدمی بھی یہ کر سکتا ہے اور ایک ایک کو بھی امر ونہی کر سکتا ہے۔ اور دعوت الی اللہ ساری امت پر لازم نہیں ہے۔ (’’دعوت الی اللہ کی ضرورت، اہمیت اور چند اصول‘‘، ماہنامہ نصرۃ العلوم، نومبر ۹۵ء، ص ۱۳، ۱۴)

اسی مضمون میں آگے چل کر فرماتے ہیں:

’’حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: ......’’مجھے اندیشہ ہے کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ مدرسین وطلبہ پڑھنا پڑھانا چھوڑ دیں بلکہ اس کو اپنے بزرگوں سے پوچھو کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے۔‘‘ .... جو حضرات نئے نئے تبلیغی بنتے ہیں، ان کو بھی حضرت تھانویؒ کے یہ ارشادات پیش نظر رکھنے چاہییں کہ جو علما یا طلبا درس وتدریس کے اوقات میں باہر نہیں نکلتے تو ان کو حقارت کی نگاہ سے ہرگز نہ دیکھیں، اس لیے کہ وہ بھی مبلغ بلکہ اصل مبلغ ہیں۔ اسلام میں افراط وتفریط اور غلو بری چیز ہے۔‘‘ (ص ۱۵،۱۷)

افغانستان کی تحریک طالبان کے ساتھ انھیں بہت زیادہ قلبی لگاؤ تھا۔ ملا محمد عمر کی قیادت میں امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد وہ باقاعدہ افغانستان کے دورے پر گئے اور ملا محمد عمر سے ملاقات کی۔ انھوں نے طالبان کی تائید اور حمایت کے لیے ایک باقاعدہ تحریر بھی لکھی جو مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہوئی۔ تاہم وہ جہادی تنظیموں کی طرف سے شرعی وفقہی اصول وضوابط سے ہٹ کر کیے جانے والے اعلانات، فتووں اور نعروں کی تائید نہیں کرتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں کشمیر میں شروع کی جانے والی جہادی سرگرمیوں کی شرعی وفقہی حیثیت کے بارے میں وہ تحفظات رکھتے تھے اور ایک دفعہ دوران سبق میں انھوں نے اس کا اظہار بھی کیا، لیکن ساتھ یہ فرمایا کہ جو نوجوان مخلصانہ جذبے سے جا کر شہید ہو رہے ہیں، انھیں ان کی نیت کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر ملے گا۔ محمد اسلم معاویہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک ملاقات میں انھوں نے اباجی سے پوچھا گیا کہ مولانا مفتی نظام الدین شامزئ صاحبؒ نے فتویٰ دیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے، آپ کی اس کے بارے میں کیا راے ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ مفتی صاحب کو اس فتوے سے رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ ہندوستان میں بھی بڑے بڑے علما موجود ہیں جو وہاں کی صورت حال کو بہتر سمجھتے ہیں۔

سپاہ صحابہ کے متشددانہ طرز عمل کی بھی انھوں نے کبھی تائید یا حمایت نہیں کی، بلکہ اس کی قیادت کے نام ایک باقاعدہ خط لکھ کر انھیں اصلاح طلب امور کی طرف توجہ دلائی۔ ۲۳/جنوری ۱۹۹۱ء کو لکھے گئے اس خط میں وہ فرماتے ہیں:

’’نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور جذبات میں بہت کچھ کر او رکہہ جاتے ہیں۔ شدت اور سختی سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے او رنہ قوت اور طاقت سے کسی فرد یا نظریہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ... اس لیے گزارش ہے کہ نوجوانوں کو قولاً اور فعلاً شدت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ روکیں۔ رافضیوں کے کفر میں تو شک نہیں، مگر در ودیوار پر کافر کافر لکھنے اور نعرہ بازی سے بجاے فائدہ کے نقصان ہوگا۔‘‘

مذہبی جماعتوں میں انھیں سب سے زیادہ شکایت مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے تھی اور وہ جمعیۃ علماے اسلام کے راہ نماؤں کے شخصی اختلافات، گروہ بندی کی سیاست اور مفاد پرستی کے طرز عمل سے سخت نالاں تھے۔ ۲۳؍نومبر ۱۹۹۴ء کو والد گرامی کے نام لکھے گئے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’جمعیۃ کے دو دھڑے پہلے ہی موجود ہیں اور دونوں کسی نہ کسی بہانہ اور عذر سے حکومت وقت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں او ریہ کہا جائے کہ اس کے خصیہ بردار ہیں تو غلط نہ ہوگا اور تم نے یہ فارمولا تیار کیا ہے کہ ’’میں نے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا فارورڈ بلاک قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ یہی تفریق کی شکل میں تیسرا دھڑا بنے گا اور اس کو کندھا دینے کے لیے ضرور چند مجنوں مل جائیں گے۔ .... دونوں صاحبزادوں کی عداوت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ ان کا آپس میں ملنے کا امکان بھی نہیں ہے اور ان دونوں کو پہلے تو عہدوں سے الگ کرنا ہی مشکل ہے۔ اگر بالفرض الگ کر بھی دیے گئے تو ہر ایک کے مفاد پرست احباب انھیں سے چمٹے رہیں گے اور ان میں سے ہر ایک اس کا مدعی ہوگا کہ اصلی جمعیۃ تو میری ہے، دوسرا دھڑا غاصب ہے۔‘‘


غالباً ۲۰۰۲ کے اواخر میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ ایک حد تک معذور ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے کم وبیش سات سال اسی کیفیت میں بستر علالت پر گزارے۔ اس دوران میں ان کے روز مرہ کے معمولات کا نقشہ بالکل بدل گیا، تعلیم وتدریس کا سلسلہ منقطع ہوا، مطالعہ اور تصنیف وتحقیق کو جاری رکھنا ناممکن ٹھہرا، اور عوارض کے ہجوم نے انھیں مسلسل ایک صبر آزما صورت حال سے دوچار کیے رکھا، لیکن اگر کسی چیز میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا تو وہ ان کی علمی جستجو اور گرد وپیش کے حالات سے باخبر رہنے کا اشتیاق تھا۔ گو ان کے لیے علم وتحقیق کے میدان میں بذات خود گرم دم جستجو ہونے کا موقع باقی نہیں رہا تھا، لیکن ان کے پا س تھوڑی دیر بیٹھنے اور ان کی گفتگو سننے والا ہر شخص اندازہ کر سکتا تھا کہ علم کے لیے ان کے تجسس اور اشتیاق کا کیا عالم ہے۔ یہ محرومی ان کے لیے جسمانی صحت کی محرومی سے کہیں بڑھ کر تھی۔ وہ اپنی صحت یابی کی خواہش رکھتے تھے اور بارہا یہ سوال کرتے تھے کہ کیا میں دوبارہ چل پھر سکوں گا، لیکن ان کی اس خواہش کے پیچھے بھی یہی آرزو کار فرما دکھائی دیتی تھی کہ وہ ایک بار پھر مطالعہ اور تحقیق کا سلسلہ شروع کر سکیں اور کتابوں سے استفادے کے لیے دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔ میں جب بھی کبھی حاضر ہوتا اور عیادت کرنے والوں کی آمد ورفت مانع نہ ہوتی تو ان کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ میں انھیں نئی طبع ہونے والی کتابوں کے بارے میں بتاؤں یا الماری سے کوئی عربی کتاب لے کر اس کے اقتباسات انھیں سناؤں۔ فرماتے تھے کہ عربی کی کتابیں سننے کو جی چاہتا ہے، لیکن میرے پاس موجود جو بچیاں مجھے کتاب پڑھ کر سناتی ہیں، وہ عربی نہیں پڑھ سکتیں۔ کسی نئی کتاب کے بارے میں بتایا جاتا تو تین باتیں اہتمام سے دریافت کرتے تھے: ایک یہ کہ کتاب کتنی جلدوں میں ہے، دوسری یہ کہ کہاں سے طبع ہوئی ہے، اور تیسری یہ کہ کیا یہ تمہارے کتب خانے میں موجود ہے؟ بعض اوقات بڑی حسرت سے فرماتے کہ جب صحت تھی تو بہت سی کتابیں دستیاب نہیں تھیں، اور اب کتابیں ملتی ہیں تو صحت ساتھ چھوڑ گئی ہے ۔ ایک دفعہ میں اپنا لیپ ٹاپ لے کر گیا اور انھیں بتایا کہ اس میں حدیث، تفسیر، فقہ، رجال اور تاریخ کے تمام معروف مآخذ موجود ہیں۔ وہ حیرانی سے مختلف کتابوں کے بارے میں پوچھتے رہے اور بعض چیزوں کے بار ے میں فرمایا کہ رجال کی کتابوں میں دیکھ کر مجھے بتاؤ کہ ان کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ 

ابا جی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں نصف صدی تک صحاح ستہ اور بالخصوص صحیح بخاری کا درس دیتے رہے، چنانچہ صحیح بخاری کی محدثانہ خصوصیات ان کی دلچسپی کا خاص موضوع تھیں اور امام بخاری کے استنباطات ، احادیث کے اطراف اور دیگر معلومات کے حوالے سے ان کا حافظہ بڑھاپے اور علالت کی اس کیفیت میں بھی قابل رشک تھا۔ اپنے پاس حاضر ہونے والے طلبہ اور علما سے وہ جو مختلف علمی سوال کرتے تھے، ان کا مرکز بھی عام طور پر صحیح بخاری ہوتی تھی۔ ایک دن میری موجودگی میں چند طلبہ حدیث کی سند حاصل کرنے کے لیے آئے تو ابا جی نے ان میں سے ایک دوست سے پوچھا کہ صحیح بخاری میں ثلاثیات کتنی ہیں؟ وہ اس کا جواب نہ دے سکے جس پر ابا جی نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے ’’احسان الباری‘‘ میں صحیح بخاری کی ثلاثیات کے مواقع جلد اور صفحہ کے حوالے کے ساتھ درج کر دیے ہیں، لیکن اگر ان روایا ت کا متن بھی الگ کر کے شائع کر دیا جائے تو طلبہ کو اس سے فائدہ ہوگا۔ ان کی اس فرمایش کی تعمیل میں، میں نے برادرم مولانا وقار احمد (فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) سے گزارش کی اور انھوں نے صحیح بخاری کی ثلاثی روایات کے متن اور ترجمہ کے ساتھ ساتھ ان روایات کے راویوں کے مختصر تعارف پر مشتمل ایک مختصر رسالہ مرتب کر دیا جسے الشریعہ اکادمی کی طرف سے شائع کر کے دورۂ حدیث کے طلبہ میں تقسیم کیا گیا۔

ابا جی کی وفات سے چند ماہ پہلے ایک ملاقات میں، میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ایک مرتبہ دوران سبق میں صالحین کے ساتھ توسل کے جواز کے لیے جو یہ تاویل ذکر کی تھی کہ ’’بزرگوں کے ساتھ عقیدت ومحبت بھی ایک نیک عمل ہے اور نیک عمل کا بطور وسیلہ ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جا سکتی ہے‘‘، اس کی کیا ضرورت ہے اور براہ راست نیک لوگوں کی ذات کا حوالہ دے کر دعا کرنا کیوں جائز نہیں؟ ابا جی نے فرمایا کہ ہاں، وہ بھی ٹھیک ہے اور ایک حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ ابا جی نے اس ضمن میں ’کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یستفتح بصعالیک المہاجرین‘ کی روایت کا حوالہ دیا، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقراے مہاجرین کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا مانگا کرتے تھے۔ (یہ روایت حافظ مقدسی کی الاحادیث المختارۃ، رقم ۱۵۰۷ اور طبرانی کی المعجم الکبیر، رقم ۵۸۷ میں امیہ بن خالد بن اسید سے مرسلاً مروی ہے، البتہ عام طو رپر علما نے اسے فقراے مہاجرین سے دعا کرانے کے مفہوم میں لیا ہے (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ۲/۲۶۔ سیوطی، الجامع الصغیر، رقم ۵۷۸) جو توسل بالذات سے مختلف صورت ہے۔)

ایک دن میں نے ان کی بیماری کے پیش نظر ان کا دل بڑھانے کے لیے عرض کیا کہ سنا ہے کہ نیک لوگوں کو آخری عمر میں علالت اور معذوری کی جس کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ان کے لیے رفع درجات کا ذریعہ بن جاتی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ یہ سامنے کی الماری کے فلاں شیلف میں فلاں کتاب رکھی ہے، اس کی دوسری جلد کا صفحہ نمبر ۸ کھولو۔ میں نے وہ صفحہ کھولا تو وہاں اسی مضمون کی حدیث موجود تھی۔ (اپنا حال یہ ہے کہ اب کتاب کا نام بھی ذہن میں نہیں رہا) پھر انھوں نے پوچھا کہ یہ روایت کس صحابی سے مروی ہے اور کس کتاب کے حوالے سے نقل کی گئی ہے؟ میں نے بتایا کہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ راوی ہیں اور مسند احمد میں روایت ہوئی ہے۔ انھوں نے مجھے مسند احمد کی متعلقہ جلد بتائی اور کہا کہ اس میں عبد اللہ بن مغفل کے مسند میں یہ روایت تلاش کرو۔ میں نے تلاش کر کے بتائی تو اس کا صفحہ نمبر پوچھا۔ میرے بتانے پر انھوں نے صفحہ نمبر دہرایا اور اسے گویا اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا۔ ایام علالت میں ہی چند دنوں کے لیے گوجرانوالہ، عم مکرم مولانا عبد القدوس خان قارن کی رہایش گاہ پر تشریف لائے تو یہاں بھی مدرسہ نصرۃ العلوم کی لائبریری سے مختلف کتابیں منگوا کر سنتے رہے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کی آٹھویں جلد انھوں نے اسی موقع پر منگوائی اور مجھ سے کہا کہ اس کے فلاں صفحہ پر دیکھو، مولانا شبلی نعمانی کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ میں نے وہ صفحہ کھولا تو وہاں علی میاں کا یہ تبصرہ درج تھا کہ شبلی، کلامیات میں معتزلہ کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ غرض یہ کہ علم، مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ ان کا اشتغال آخر وقت تک قائم رہا اور اس معاملے میں بحمد اللہ ان کی یادداشت بھی پوری طرح قائم رہی۔ یہ سلسلہ غالباً وفات سے چند ہی دن قبل منقطع ہوا۔ والد گرامی سعودی عرب کے حالیہ سفر سے ان کی فرمایش پر مسند ابی یعلیٰ کا نسخہ لائے تھے۔ انھوں نے کتاب پیش کی تو ابا جی نے اشارے سے فرمایا کہ اسے الماری میں رکھ دیا جائے، لیکن غالباً انھیں اس سے استفادہ کا موقع نہیں مل سکا۔ 

مارچ کے آخر یا اپریل ۲۰۰۹ کے شروع کی بات ہے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ابا جی اپنی صحت کے زمانے کی طرف واپس لوٹ چکے ہیں اور اسی طرح ہشاش بشاش اور متحرک ہیں جیسے وہ اپنی علالت سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ پھر اسی خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں نے ابا جی کے سامنے اپنا یہ خواب بیان کیا ہے اور ابا جی مجھے اس کی تعبیر یہ بتاتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب میں جلد دنیا سے چلا جاؤں گا۔ ابا جی کو خواب کی تعبیر کے فن میں جو غیر معمولی درک حاصل تھا، یہ شاید اسی کا ایک نمونہ تھا کہ خواب میں بتائی ہوئی ان کی تعبیر بھی بالکل درست ثابت ہوئی اور اس کے لگ بھگ ایک ماہ کے بعد ۴ اور ۵ مئی کی درمیانی شب کو سوا بجے کے قریب وہ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ میری ان سے آخری ملاقات والد گرامی، والدہ محترمہ اور اپنی فیملی کے ساتھ اس سے تین روز قبل جمعۃ المبارک کے دن ہوئی۔ اس وقت وہ کھانا پینا اور گفتگو کرنا کم وبیش بند کر چکے تھے، البتہ یادداشت قائم تھی اور بہت اصرار پر ایک آدھ لفظ میں بات کا جواب دیتے تھے۔ 

علالت کے ان سات آٹھ سالوں میں گھر کے لوگوں میں سے بطور خاص عم مکرم مولانا منہاج الحق خان راشد اور ان کے اہل خانہ، ہماری چھوٹی پھوپھی اور ان کی بیٹیوں اور وقتاً فوقتاً برادرم ممتاز الحسن احسن اور برادرم سرفراز حسن حمزہ نے جبکہ اباجی کے مخلص معتقدین میں سے حاجی لقمان میر صاحب، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب اور مولانا محمد نواز بلوچ نے اپنی اپنی بساط اور توفیق کے مطابق ان کی پرخلوص خدمت کی اور ان کی دعاؤں سے وافر حصہ پایا۔ جنازے کے موقع پر ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب بلک بلک کر روتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کے حقیقی والد فوت ہو گئے ہوں۔ ان سب حضرات کے لیے باپاں اجر، ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص، محبت اور عقیدت کے ساتھ صحیح معنوں میں ابا جی کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضرت صوفی صاحبؒ 

گزشتہ سال ۶؍ اپریل کو ہمارے خاندان کے دوسرے بڑے بزرگ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ کی وفات پر ماہنامہ نصرۃ العلوم کے ’’مفسر قرآن نمبر‘‘ کے لیے چند سطور تحریر کی گئی تھیں۔ چند اضافوں کے ساتھ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انھیں یہاں بھی درج کر دیا جائے:

استاذ گرامی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف خاندان کے ایک بڑے بزرگ اورسرپرست کی حیثیت سے تو بچپن ہی سے تھا اور مجھے یاد ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں والد محترم نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض مختصر احادیث کا متن اور ترجمہ یاد کرایا تو ایک موقع پر مجھے لے کر صوفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں نے ایک آدھ حدیث اور اس کا ترجمہ سنا کر ان سے برکت کی دعا حاصل کی، تاہم مجھے انھیں نسبتاً قریب سے دیکھنے اور ان سے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی شفقت اور عنایت سے بہرہ ور ہونے کا موقع ان کی آخری عمرمیں ہی ملا۔ ان کی حیات کا بڑا حصہ جو تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور سیاسی سرگرمیوں سے بھرپور رہا ہے، میرے براہ راست مشاہدے میں نہیں رہا، چنانچہ ان کے کمالات واوصاف کا کوئی جامع مرقع کھینچنا میرے لیے اپنے محدود اور جزوی مشاہدے کی بنا پر ممکن نہیں، البتہ ان کی غیر معمولی شخصیت کے بعض نہایت نمایاں نقوش یقیناًمیرے محسوسات وتاثرات میں مرتسم ہیں اور انھیں قارئین تک منتقل کرنا بھی شاید کسی حد تک ممکن ہے۔

صوفی صاحب چھوٹوں اور بڑوں، سب کے بزرگ تھے۔ ان کی بزرگانہ شفقت سے ہر شخص اپنا حصہ پاتا تھا اور میری طرح غالباً ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ اسے ان کی خاص توجہ اور عنایت حاصل ہے۔ ۱۹۹۱ء میں، میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم کے درس نظامی کے شعبے میں درجہ سادسہ میں داخلہ لیا تو صوفی صاحب پیرانہ سالی کے تقاضے سے تدریسی مصروفیات کو دورۂ حدیث اور موقوف علیہ کے دو تین اسباق تک محدود کر چکے تھے۔ والد گرامی سے سن رکھا تھاکہ صوفی صاحب عربی ادب کے ساتھ خاص شغف رکھتے ہیں اور ایک عرصے تک درسی وغیر درسی کتب ادب کی تدریس خاص ذوق کے ساتھ فرماتے رہے ہیں۔ میں نے اسی مناسبت سے فرمایش کی کہ میں آپ سے ’السبع المعلقات‘ پڑھنا چاہتا ہوں۔ طبعی طور پر تدریس ان کے لیے اب کوئی خاص دلچسپی کی چیز نہیں رہ گئی تھی، لیکن انھوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کیا اور مدرسے کی تعطیلات کے دنوں میں صرف ایک طالب علم کو ادب جاہلی کے سات طویل قصیدے پڑھانے کی زحمت گوارا فرمائی۔ استاذ گرامی کی شفقت کا یہ سلسلہ اس کے بعد آخر دم تک قائم رہا۔دورۂ حدیث کے سال وہ اپنی جیب خاص سے ہر ماہ مجھے تبرک عنایت فرماتے تھے۔ ایک موقع پر میں نے اس پر تردد ظاہر کیا تو فرمایا کہ ’’جب تک پڑھ رہے ہو، تب تک ہی ملیں گے۔ پھر کون دے گا؟‘‘ 

صوفی صاحب اپنے مزاج کے لحاظ سے تواضع اور انکسار کا پیکر تھے۔ وہ علمی وعملی مسائل کے حوالے سے سوچی سمجھی اور دوٹوک رائے رکھتے تھے اور اس کے اظہار میں بھی کسی رو رعایت سے کام نہیں لیتے تھے، لیکن انھوں نے کبھی اپنی علمی حیثیت اور اپنا بزرگانہ استحقاق جتلانے یا اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔ مدرسہ نصرۃ العلوم صوفی صاحب کی یادگار ہے۔ مدرسے کے قیام کے بعد جلد ہی اس کا انتظام وانصرام ان کے سپرد کر دیا گیا تھا اور ملک بھر بلکہ دنیابھر میں اسے جو تعارف حاصل ہے، وہ بلاشبہ صوفی صاحب کے علم، استقلال، خلوص اور للہیت کا ثمر ہے، لیکن انھوں نے اسے اپنی ذات کو نمایاں کرنے کا ذریعہ نہیں بنایا، حتیٰ کہ اپنے علمی ذوق ورجحان اور تعلیمی تصورات کی تجربہ گاہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی جو ان کا ایک بالکل جائز حق تھا۔ دینی مدارس کے نصاب اور طرز تعلیم کے بارے میں ان کے خیالات ونظریا ت عام روش سے ہٹ کر تھے اور ’’ہمارا تعلیمی وتبلیغی لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے انھوں نے مدرسہ نصرۃ العلوم کا جو بالکل ابتدائی تعارف لکھا، اس میں ان کی بھرپور عکاسی ہوئی ہے، لیکن مدرسہ کے عملی نظام کی تشکیل انھوں نے اپنے تصورات کے مطابق نہیں کی جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اپنے وژن کو عملی صورت میں متشکل کرنے کے لیے ہم خیال اور ہم ذوق رفقا کی جو ٹیم درکار تھی، وہ غالباً انھیں میسر نہیں آ سکی، جبکہ مختلف ذوق اور جحانات کے حامل رفقا پر اپنے تصورات مسلط کرنا ان کے مزاج کے خلاف تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اپنی علمی دلچسپیوں، تحقیقی ذوق، شخصی مزاج اور افکار ونظریات کے حوالے سے صوفی صاحب نے ایک تنہا فرد کی زندگی بسر کی ہے۔ مدرسے کے مزاج اور ماحول کو اپنے رنگ میں رنگنا تو کجا، جب نصف صدی تک مدرسے کی خدمت کرنے اور اپنی جوانی اور بڑھاپا اس کی ترقی میں صرف کر دینے کے بعد عمر کے آخری دور میں بعض مسائل کے حوالے سے مدرسے کی قدیمی انتظامیہ کے ساتھ اختلاف پیدا ہو گیا تو صوفی صاحب نے محاذ آرائی یا تنازع کی کوئی صورت پیدا کیے بغیر خاموشی کے ساتھ اپنے خاندان سمیت مدرسے کے انتظامی اور تعلیمی معاملات سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کر لیا اور واقعہ یہ ہے کہ اگر شہر کے علما مدرسے کی بہی خواہی کے جذبے سے اس معاملے میں مداخلت نہ کر کے معاملات کا رخ نہ موڑتے تو صوفی صاحب اپنے اس فیصلے پر عمل کر گزرتے۔ 

انھیں اکابر دیوبند کے ساتھ بے پناہ محبت تھی اور وہ موقع بہ موقع ان بزرگوں بالخصوص شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور مولانا سید حسین احمد مدنی کے تقویٰ، للہیت، خلوص اور کردار کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے تھے۔ ایک موقع پر حدیث کے درس میں کسی مناسبت سے ان حضرات کا ذکر آ گیا تو گویا ان کے دل کے تار کسی نے چھیڑ دیے۔ اس دن کا سبق ان بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے تذکرے کے لیے وقف رہا۔ گفتگو کرتے کرتے ان پر رقت طاری ہو گئی اور انھوں نے اپنی محبت اور جذبات کے اظہار کے لیے کسی عرب باندی کے اس شعر کا سہارا لیا کہ:

سادتی ان شرقوا او غربوا ویلی 

وان عاشروا غیرنا ویل علیٰ ویل

’’میرے آقا (مجھے چھوڑ کر) مشرق کی طرف جائیں یا مغرب کی طرف، میرے لیے بربادی ہے۔ اور اگر وہ ہمارے علاوہ کسی اور کو اپنی رفاقت کے لیے منتخب کر لیں تو بربادی پر بربادی ہے۔‘‘

دورۂ حدیث کے سال ہمیں ان سے صحیح مسلم اور جامع ترمذی کے ایک حصے کے علاوہ حجۃ اللہ البالغہ پڑھنے کاموقع ملا۔ وہ طول طویل مباحث سے گریز کرتے تھے اور حوالہ جات اور دلائل کا انبار لگانے کے بجائے زیر بحث مسئلے سے متعلق اصل نکتے کی مختصر اور جامع وضاحت پر اکتفا کرتے تھے۔ طول بیانی انھیں ویسے بھی پسند نہیں تھی اور وہ مختصر اور متعین طرز گفتگو کو پسند کرتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یونانی فلاسفہ کے طریق استدلال پر امام غزالیؒ نے بھی نقد کیا ہے اور امام ابن تیمیہؒ نے بھی، ان میں سے کس کا نقد زیادہ وزنی ہے؟ فرمایا کہ ابن تیمیہ کا غزالی کے ساتھ کوئی تقابل نہیں۔ میں نے عقل ونقل کے مابین تعارض کے موضوع پر ابن تیمیہ کی طویل تصنیف پڑھی ہے۔ وہ تقریر لمبی چوڑی کرتے ہیں لیکن اس میں مغز تھوڑاہوتا ہے۔ مولانا حمید الدین فراہیؒ کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ وہ بڑے عالم تھے، لیکن مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی ’’تدبر قرآن‘ ‘میں بے جا طوالت پائی جاتی ہے۔ بیرون ملک سے ایک بزرگ عالم پاکستان تشریف لائے اور صوفی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ خاصی دیر نشست رہی جس میں وہ عالم بے تکان بولتے اور صوفی صاحب خاموش سنتے رہے۔ بعد میں یہ بے تکلف تبصرہ کیا کہ ان کے بارے میں سنتے آ رہے تھے کہ بڑے فاضل شخص ہیں، لیکن یہ تو نری باتوں کی پٹاری ہیں۔

وہ اپنے اختلاف رائے کا اظہار بالکل دوٹوک کرتے تھے اور اپنے احساس اور تاثر کا ابلاغ بھی کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر پوری وضاحت سے کر دیتے تھے۔ والد محترم کی روایت ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ وحدت الوجود کے حوالے سے شیخ ابن عربیؒ کے موقف سے شیخ احمد سرہندیؒ کے اختلاف کا ذکر کیا اور صوفی صاحب سے ان کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ صوفی صاحب نے بے تکلف فرمایا کہ ’’بھئی! جس کی سمجھ میں بات نہیں آئے گی، وہ یہی کہے گا۔‘‘ اپنی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی کے علوم وافکار‘‘ میں انھوں نے مولانا سندھی کے حوالے سے پائی جانے والی شدید مخالفانہ فضا میں ان کی ذات اور افکار وخیالات پر کیے جانے والے اعتراضات کا پورے اعتماد کے ساتھ سامنا کیا ہے اور مولانا سندھی کے موقف کی درست تفہیم کی کوشش کی ہے۔ اسی کتاب میں انھوں نے قیام پاکستان کے حوالے سے مسلم لیگ کے موقف کی تائید کرنے والے علما کے علم وتقویٰ کا پورا اعتراف کرتے ہوئے ان کے سیاسی موقف پر بے باک تبصرہ کیا ہے جس اس پر انھیں مخالف حلقے کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ 

وہ نہ صرف خود علمی اختلاف کا حق پورے اعتماد سے استعمال کرتے تھے، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے۔ ۱۹۹۶ء میں، مدرسہ نصرۃ العلوم کے شعبہ نشر واشاعت نے ’’امام ابوحنیفہؒ اور عمل بالحدیث‘‘ کے عنوان سے میری اولین تصنیف شائع کی جس کا موضوع امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی آرا پر دوسری صدی ہجری کے مشہورمحدث امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ کے وہ اعتراضات تھے جو انھوں نے اپنی کتاب ’’المصنف‘‘ کے ایک مستقل باب میں درج کیے ہیں۔ اس کتاب کا نام بھی حضرت صوفی صاحب ہی کے مشورے سے تجویز ہوا تھا۔ میں نے ابن ابی شیبہ کے اعتراضات کے جواب میں اپنے فہم کی حد تک امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر او ر استدلال واضح کرنے کی کوشش کی، تاہم بعض مقامات پر مجھے احناف کے استدلال پر اطمینان نہیں ہو سکا۔ اس ضمن میں حضرت صوفی صاحب سے بھی گفتگو ہوئی اور انھوں نے میرے اشکالات کے حوالے سے احناف کے استدلال کو واضح کیا، تاہم اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی مسئلے میں تمہارا احناف کے موقف پر اطمینان نہیں ہوتا اور تم علمی طور پر کسی دوسری رائے کو ترجیح دیتے ہو تو ایسا کرنے سے تم حنفیت سے خارج نہیں ہوگے۔

استاذ گرامی اور جد مکرم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے اپنی تدریسی وتصنیفی زندگی کے بالکل آخری دورمیں حیات ونزول مسیح علیہ السلام کے موضوع پر ’’توضیح المرام‘‘ تصنیف فرمائی۔ میں ان دنوں مدرسہ نصرۃ العلوم میں تدریس کے فرائض انجام دیا کرتا تھا۔ ایک دن مدرسے پہنچا تو صوفی صاحب اپنے معمول کے مطابق دفتر انتظام کے باہر چارپائی پر تشریف فرما تھے اور مدرسے کے سینئر استاذ مولانا عزیز الرحمن مرحوم ومغفور (آف ٹیکسلا) کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو مجھے بھی پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ بھئی! ہم شیخ الحدیث صاحب کی کتاب ’’توضیح المرام‘‘ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ تم بتاؤ، تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ میں نے اپنے تاثر کے اظہار میں ذرا جھجھک محسوس کی تو وہ سمجھ گئے اور فرمایا کہ کھل کر اپنی رائے بتاؤ، اس سے تمہارے دادا کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میں نے عرض کیا کہ ان کی سابقہ تصنیفات سے جو علمی وتحقیقی معیار سامنے آتا ہے، اس کتاب میں وہ ملحوظ نہیں رکھا جا سکا۔ صوفی صاحب نے اس سے اتفاق کیا اور فرمایا کہ ہم بھی یہی بات کر رہے تھے۔

اعتقادی تعبیرات اور ان کے ضمن میں تکفیر وتفسیق کے حوالے سے بھی ان کا اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر تھا۔ ۸۰ء کی دہائی کے آخر میں ہمارے ہاں سپاہ صحابہ نے تکفیر شیعہ کی مہم شروع کی تو اس کی تائید میں ایک فتوے پر ملک کے بہت سے علما کے دستخط کرائے گئے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدرؒ نے بھی اس پر تائیدی دستخط کیے۔ والد گرامی بتاتے ہیں کہ انھی دنوں میں وہ صوفی صاحب سے ملنے گئے تو انھوں نے پوچھا کہ بھئی، وہ شیعہ کے بارے میں ایک فتویٰ چل رہا ہے،تم نے کیا کیا ہے؟ والد گرامی نے عرض کیا کہ میں نے مشروط دستخط کیے ہیں کہ جو شیعہ تحریف قرآن کا قائل ہے، تکفیر شیخینؓ کرتا ہے اور قذف عائشہ کا مرتکب ہوتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہے۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو دستخط کیے ہی نہیں ہیں۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ مولوی صاحب (حضرت شیخ الحدیث) نے دستخط کر دیے ہیں، بس وہی کافی ہیں۔ صوفی صاحب نے اپنی بعض تصانیف اور خطبات میں بھی علی الاطلاق تکفیر شیعہ سے اختلاف کیا ہے اور ایک مرتبہ خود مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اہل تشیع ’’ملت کے دائرے میں داخل ہیں۔‘‘ 

ہمارے ہاں سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے مسئلے کو عام طور پر ایک اعتقادی مسئلہ سمجھا جاتا اور اس سے اختلاف کرنے والوں کی تکفیر تک کر دی جاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ سمیت بہت سے اکابر علما کا موقف یہی ہے، لیکن صوفی صاحب اس معاملے میں مولانا ابو الکلام آزادؒ اور مولانا سندھیؒ کے نقطہ نظر سے اتفاق رکھتے تھے جو اسے اعتقادی امور کا حصہ قرار دینے کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ صوفی صاحب نے اپنی کتاب ’’مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے علوم وافکار‘‘ میں بھی ان حضرات کے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے، جبکہ برادرم افتخار تبسم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۹۴ء میں ان کی مدرسہ نصرۃ العلوم میں حضرت صوفی صاحب سے ملاقات ہوئی تو اس مسئلے پر بھی گفتگو ہوئی۔ انھوں نے صوفی صاحب سے پوچھا کہ مولانا ابو الکلام آزادؒ او رمولانا سندھیؒ نزول مسیح کے قائل نہیں تو کیا اس پر ان کی تکفیر کی جائے گی؟ صوفی صاحب نے کہا کہ نہیں، وہ اپنے پاس دلائل رکھتے ہیں اور دلائل کی بنیاد پر یہ بات کہتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ لیکن اس مسئلے پر تو علما کا اجماع ہے تو صوفی صاحب نے کہا کہ یہ اجماع اس نوعیت کا نہیں ہے کہ اس سے اختلاف پر تکفیر وتضلیل کی جائے۔ (برادرم افتخار تبسم نے یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا ہے، تاہم صوفی صاحب نے اپنی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے علوم وافکار‘‘ میں مولانا سندھیؒ کی طرف نزول مسیح کے انکار کی نسبت کو درست تسلیم نہیں کیا۔ ان کی مذکورہ گفتگو غالباً اس مفروضے پر مبنی ہوگی کہ اگر یہ نسبت درست ہو تو بھی اس کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جا سکتی)۔

بریلوی علما کی اعتقادی تعبیرات کے ضمن میں بھی ان کا رجحان شاید یہی تھا او روہ ان سے اختلاف کے باوجود انھیں زیادہ بحث ومباحثہ کا موضوع بنانے کو مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ والد گرامی یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ الحدیثؒ اپنی کسی نئی کتاب کا مسودہ لے کر صوفی صاحب کے دفتر میں تشریف لائے اور بتایا کہ فلاں بریلوی عالم نے جو کتاب لکھی ہے، یہ اس کا جواب ہے۔ صوفی صاحب نے برادرانہ بے تکلفی سے فرمایا: ’’کیا قوم کو لڑانے پر کمر باندھ رکھی ہے! کبھی کسی کام کے موضوع پر بھی لکھ لیا کریں۔‘‘ حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا کہ لکھ لکھ کر میری انگلیاں گھس جاتی ہیں اور تم کہتے ہو کہ قوم کو لڑانے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ ڈاکٹر وفا راشدی ایک مرتبہ صوفی صاحب سے ملنے کے لیے حاضر ہوئے تو فرقہ وارانہ اختلافات پر گفتگو چھڑ گئی۔ صوفی صاحب نے کہا کہ ہمارے بھائی صاحب اس طرح کے اختلافات کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں، اب ہم نے ان کی کتابیں چھاپنا بند کر دی ہیں۔ (یہ بات غالباً ازراہ تفنن کہی گئی تھی، کیونکہ حضرت شیخ الحدیث کی تصانیف کافی عرصہ تک شعبہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم کے زیر اہتمام شائع ہوتی رہیں، پھر بعد میں انھوں نے ’’مکتبہ صفدریہ‘‘ کے نام سے اپنا ذاتی مکتبہ الگ قائم کر لیا تھا۔)

فروعی فقہی اختلافات کو نمایاں کرنے یا انھیں دعوت وتبلیغ کا موضوع بنانے سے بھی وہ سخت نفور تھے۔ محترم ملک عبدالواحد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے خطبہ جمعہ کے موقع پر ان کو رقعہ دیا جس میں رفع یدین کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا تو صوفی صاحب نے غصے سے فرمایا کہ مجھے ایسے رقعے نہ دیا کرو۔ جیسے تمہارے استاذ نے نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا ہے، اسی طرح پڑھ لیا کرو۔ اپنی کتاب ’’نماز مسنون‘‘ میں بھی انھوں نے احناف اور اہل حدیث کے اختلافی مسائل کے ضمن میں یہی متوازن موقف اپنایا اور احادیث کی روشنی میں دونوں نقطہ ہاے نظر کی گنجایش کو تسلیم کیا ہے۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ معروف حنفی مناظر مولانا محمد امین صفدر مرحوم نے شکایت کی کہ ہم محنت کر کے عوام کے ذہن کو حنفیت پر پختہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن صوفی صاحب کی کتاب ہماری ساری محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔

فقہی مسائل اور جزئیات کو دیکھنے کا بھی ان کا ایک اپنا زاویہ نگاہ تھا اور وہ فقہی کتابوں میں درج جزئیات کی لفظی پابندی کے بجائے فقہی اصولوں کی رعایت کا زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ مثلاً ان کی رائے یہ تھی کہ روزے کی حالت میں انجکشن لگوایا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس پر انھوں نے مفصل مقالہ لکھا جس میں فقہی اصولوں اور طبی معلومات کی روشنی میں اپنے نقطہ نظر کو استدلال سے واضح کیا ہے۔ اسی طرح فقہی کتابوں میں نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق کو اس شرط کے ساتھ جائز بتایا گیا ہے کہ اگر معاملہ طے کرتے وقت فریقین کے مابین ایک متعین قیمت طے پا جائے جس میں کمی بیشی کا امکان نہ رہے تو نقد کے مقابلے میں ادھار قیمت میں اضافہ کرنا درست ہے۔ معاصر اسلامی بینکنگ میں اسی بنیاد پر ’’مرابحہ‘‘کے عنوان سے چیزوں کو ادھار فروخت کر کے نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت لینے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ صوفی صاحب کی رائے یہ تھی کہ فقہا نے جس تناظرمیں اس معاملے کو جائز قرار دیا ہے، وہ مختلف ہے جبکہ معاصر تناظرمیں یہ طریقہ سودی کاروبار کو جواز فراہم کرنے کے لیے ایک حیلے کے طورپر استعمال ہو رہا ہے، اس لیے محض فقہی کتابوں میں مذکور جواز کو بنیاد بنانے کے بجائے موجودہ معاشی عرف کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ برادرم مولانا محمد یوسف کی روایت ہے کہ انھوں نے ایک موقع پر جبراً لی جانے والی طلاق کے واقع ہو جانے سے متعلق احناف کے موقف پر اپنا اشکال صوفی صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور کہا کہ جب قرآن مجید نے جبر واکراہ کے تحت کہے گئے کلمہ کفر کو بھی موثر تسلیم نہیں کیا تو دل کے ارادے اور مرضی کے خلاف دی جانے والی طلاق کیونکر موثر قرار دی جا سکتی ہے؟ صوفی صاحب نے فرمایا کہ اس جزئیے کا صحیح محل یہ ہے کہ قاضی یا حاکم کسی شرعی مصلحت کے تحت اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے کسی شخص کو اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کرے تو ایسی طلاق نافذ مانی جائے گی۔ 

مطالعہ ان کا بے حد محبوب ذوق تھا اور جب تک ان کے لیے ممکن رہا، انھوں نے اپنی دلچسپی کے موضوعات پر مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ آخری دنوں کی شدید علالت سے پہلے تک میں جب بھی ان کے پاس حاضر ہوا، بالعموم انھیں اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے ہوئے مطالعہ میں مصروف پایا، البتہ ان کی وسعت مطالعہ سے مستفید ہونے کے لیے ان کے خاص مزاج کا لحاظ رکھنا ضروری تھا۔ گفتگو میں بے تکلف بات سے بات پیدا ہوتی چلی جاتی تو وہ بھی سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے، لیکن اگر اندازہ ہو جاتا کہ ان سے ’’مستفید‘‘ ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ گریز کا طریقہ اختیار کر لیتے تھے۔ میرا تجربہ یہی ہے کہ میں نے اگر کبھی کسی مسئلے سے متعلق براہ راست ان کی رائے دریافت کر لی تو انھوں نے مختصر جواب دے کر فرمایا کہ تم اصل مآخذ سے مراجعت کر کے خود تحقیق کرو۔ ذاتی یا خاندانی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے یا کسی علمی مسئلے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انھوں نے کبھی مجھے اپنے بزرگ اور میرے طالب علم ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ وہ بات منوانے کی کوشش نہیں کرتے تھے اور نہ ان کا مطمح نظر اپنی رائے یا تبصرہ سے آگاہ کرنا ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ’’آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ یا ’’آپ کی اس معاملے میں کیا رائے ہے؟‘‘ اگر ان کی رائے وہی ہوتی جو میں عرض کرتا تو ’’ہاں‘‘ کہہ کر اطمینان ظاہر کر دیتے، ورنہ تردید کرنے کے بجائے اس کے حوالے سے اپنا سوال یا اشکال بیان فرما دیتے۔ وہ پوری توجہ سے بات سنتے تھے اور ان سے مکالمہ کرتے ہوئے اپنی ناچیز آرا کے بہت اہم اور قابل احترام ہونے کا احساس پیدا ہونے لگتا ہوتا تھا۔ 

صوفی صاحب کے ساتھ خاندانی، فکری اور روحانی رشتہ وتعلق کی جہتیں متنوع ہیں اور ان میں سے ہر جہت افتخار واعتزاز کا ایک الگ احساس پیدا کرتی ہے، لیکن ان کے ایک مشفق اور مہربان بزرگ ہونے کی جہت سب پر غالب ہے۔ میں جب بھی اپنے ذہن میں ان کی شخصیت کا کوئی تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس سے مختلف کوئی تاثر نہیں بن پاتا۔ ان کے الطاف وعنایات کی یاد اس دنیا میں بھی سرمایہ حیات ہے اور یقین ہے کہ جب وہ فردوس کے بلند وبالا مقامات میں اپنے رب کی نعمتوں کے حق دار قرار دیے جائیں گے تو ہم جیسے کوتاہ عمل بھی ان شاء اللہ اس نسبت کی برکات سے محروم نہیں رہیں گے: وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْْءٍ (الطور ۲۱)

دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں

کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو

مشاہدات و تاثرات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter