شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی ذات علم وحکمت کا ایسا آفتاب تھی جس سے روشنی پانے والا ہر خوش نصیب دعوت وعزیمت کے افق پر ماہ تاباں بن کر چمکا۔ جسے آپ کے جام معرفت کا ایک گھونٹ بھی نصیب ہو گیا، اس کی باقی عمر قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں دیتے، زندانوں کے سناٹوں میں شور سلاسل برپا کرتے اور گلی گلی، کوچے کوچے میں حق کی آواز لگاتے گزری۔ انہی خوش نصیبوں میں سے دو خوش نصیب میرے دادا جان مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ اور میرے نانا جان مولانا قاضی مظہر حسینؒ تھے۔ دونوں حضرات علم ومعرفت کے اس دھواں دھار بادل سے سیراب ہوئے او ر خوب ہوئے۔ پھر اس شراب طہور کے نشے سے کچھ ایسے مخمور ہوئے کہ دنیالاکھ رنگ بدل کر انہیں بلاتی رہی، دورحاضر کی جدت طرازیاں بار ہا انہیں رنگ بدلنے پر آمادہ کرتی رہیں، مگر یہ اپنے محبوب استاد کی روش چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ اسی کھدر پوشی میں زندگی بتا دی اور اسی قلندرانہ رنگ میں اس دنیاے فانی کو الوداع کہہ کر دار آخرت کو چل دیے۔
چمن کا رنگ گو تونے سراسر اے خزاں بدلا
نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا
مے خانہ مدنی ؒ کے ان مے خواروں نے ساقی کے جلووں اور اس کی دنیاے جنون کو اپنی آنکھوں سے انتہائی قریب سے دیکھا اورا ن کے دل نے فیصلہ کیا کہ دنیا وآخرت کی کامرانی اور اتباع سنت کا نور اگر کہیں ہے تو اسی پاکباز استاد کے نقش قدم پر چلنے میں ہے۔ انہوں نے انھی نقوش پا کو رہ گزار حیات بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنے فیصلہ میں اس قدر مستقیم ثابت ہوئے کہ روے مدنیؒ کی دید کے مشتاقان آ آکر ان کے چہروں کے جمال کی زیارت سے نظروں کی پیاس بجھانے لگے۔ انہوں نے دار العلوم دیوبند کے دارالحدیث سے جو سبق سیکھا، آخری سانس تک بڑی استقامت سے اس پر قائم رہے۔ استاد نے مالٹا اور نینی تال جیل سے جو سبق دیا، شاگردوں نے اس پر چلتے ہوئے سنٹرل جیل ملتان، سنٹرل جیل لاہور اور اڈیالہ جیل راولپنڈی کوآ باد کیا۔ زنجیروں کی قیدمیں کلمہ حق کہنے کی جو روایت استاد نے زندہ کی تھی، وفادار شاگردوں نے بھی دارورسن کو چوم کر استاد کی اس روایت کو برقرار رکھا۔
مدت ہوئی اک دیوانے نے جب ساز سلاسل چھوڑا تھا
اب جب دیکھوزندانوں میں اک شور سلاسل ملتا ہے
اگرچہ وقت کے تمام عقل مندوں اور شہر خرد کے سبھی مفتیوں کا فتویٰ یہی تھا کہ یہ دور رواداری اور امن پسند ی کادور ہے، اس دور میں اگر کوئی ’’محقق‘‘ صحابہ کرام کو برابھلا کہے، اسلاف امت کی پگڑیاں اچھالے، اپنے زور قلم سے کوے کو سفید اور سورج کو سیاہ ثابت کرنے کی کوشش کرے اور ’’دلائل قاہرہ‘‘ کے زور پر حق وباطل کو خلط ملط کرنے کی سعی کرے تو ہونٹوں پر تالے لگا کر زبان کو سی لو، امن وامان اور بھائی چارے کی فضا قائم رکھو، گالی گلوچ اور بدزبانی توناروا ہے، لیکن اگر کوئی علمی حدود میں رہتے ہوئے مہذب انداز میں صحابہ کرام پر تحقیقی اعتراضات کرے اورا ن کے معیارحق ہونے پر سوالیہ نشان کھڑا کرے یا اسلاف امت پر بداعتمادی کا راستہ کھولے تو عالی ظرفی اور بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرو، اگر غصہ یااشتعال پیدا ہو تو اسے دبا دو اور ایک منافقانہ مسکرا ہٹ چہرے پر سجا کر اپنی روشن خیالی کا ثبوت دو۔ کارپردازان شہر تحقیق نقارے بجا بجا کر چہار سو یہ اعلان پھرتے کر رہے ہیں کہ اگر کوئی حق یا اہل حق کا دفاع کر کے اشتعال انگیزی کا مرتکب ہوا تو اس پر امت میں توڑپیدا کرنے کی دفعہ لگا کر شہر تحقیق سے جلاوطن کر دیا جائے گا اور باز نہ آنے کی صورت میں وہ تعزیر مزید کا مستوجب قرار پائے گا۔
روشن خیالی کے بلند مناروں اور تحقیق کے اسپیکروں سے یہ واویلا کچھ اس زور سے برپا گیا کہ بہت سے قلم اپنی چال بھول گئے۔ بہت سی شعلہ نوا زبانوں کو اپنا انداز ہی یاد نہ رہا۔ حق کو حق کہنا یا اسے دلائل سے ثابت کرنا معیوب اور گھٹیا سمجھا جانے لگا۔ بلند علمی تحقیقات کے حامل افراد مناظرانہ لہجے اور مناظرے کو بے وقعتی کی نظر سے دیکھنے لگے اور اکابر کے مسلک کانام لینا تنگ نظری کی علامت سمجھا جانے لگا۔ ان سب حالات میں جب ان دونوں صاحبان ؒ نے نظراٹھا کر اپنے پاک باز استاد کی طرف دیکھا تو انہیںیہی منظر نظر آیا کہ ان کا استاد عین حالت جنگ میں ہے۔ ایک طرف وہ انگریز کے ساتھ نبردآزما تھا، دوسری طرف ’’الشہاب الثاقب‘‘ اور ’’مودودی دستوراور عقائد کی حقیقت‘‘ لکھ کر مبتدعین کی بیخ کنی میں مصروف تھا اور تیسری طرف تحریک مداح صحابہؓ میں جانبازانہ حصہ لے کر روافض کی چیرہ دستیوں کے سامنے بند باندھ رہاتھا۔ انہوں نے اپنے استاد کے اس طرز عمل سے یہی انمول سبق حاصل کیا کہ کفار اور مشرکین سے دفاعی طرز کا معاہدہ تو کیا جا سکتا ہے، مگر اسلام کا نام لینے والے مبتدعین اور ضالین کو قطعاً کسی صورت بھی مسلمانوں میں اپنے ملحدانہ نظریات پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ ان دونوں نے اپنے قلم سے ’’راہ سنت‘‘، ’’خارجی فتنہ‘‘، ’’تسکین الصدور‘‘، ’’سنی مذہب حق ہے‘‘، ’’ارشادالشیعہ‘‘، اور ’’مودوی مذہب‘‘ جیسی بے شمار کتابیں تصنیف فرما کر احقاق حق کا فریضہ سرا نجام دیا۔
وہ دیوبند گئے تو وہاں سے رنگا رنگ سوغاتوں سے جھولیاں بھر کر لائے۔ جہاں ایک طرف دیوبند کے دارالحدیث کا علم مدنی مسجد چکوا ل کے منبر اور نصرۃ العلوم کی مسند حدیث پر جھلکتا تھا، وہاں مدنی منزل دیوبند کی مہان نوازی اور سادگی بھی چکوال اور گکھڑ کے مہمان خانوں میں نمایاں تھی۔ منبر رسول پر آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر بولنے کا اندا زبھی وہی تھا اور پابجولاں ہو کر حاکم وقت کے سامنے سینہ تان کر چلنے کا انداز بھی وہی تھا۔ شب کی خلوتوں میں آہ وزاریاں اور محبوبانہ راز و نیاز بھی وہی تھااور دن کی محفلوں میں ہنستا مسکراتا شگفتہ چہر ہ بھی وہی۔ غرض یہ کہ انہوں نے شیخ مدنیؒ کی اداؤں کو کچھ اس طرح اپنی ذات میں سمو لیا کہ خود شیخ مدنی ؒ کی تصویر بن گئے۔
میں نے شعور کی آنکھ کھولتے ہی اپنے گھر میں ان دونوں بزرگوں کا تذکرہ انتہائی عقیدت سے سنا اور ہوش سنبھالتے ہی دونوں کی عقیدت سے دل کو معمور پایا۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن کے ان انمول دنوں میں جب ہمارا چکوال یا گکھڑ کا چکر لگتا تو گویا ہمیں عید کی نوید سنائی جاتی اور ہم بے شمار معصوم خواب آنکھوں میں سجائے دادا جان ؒ یا نانا جان ؒ سے ملاقات کو روانہ ہوتے۔ جب مزید سمجھ بوجھ پیدا ہوئی اور دونوں بزرگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ان کے بہت سے کمالات آشکارا ہوتے چلے گئے اور ہر بات پر ان کی محبت وعقیدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب میں تعلیم کی غرض سے گکھڑ رہایش پزیر ہوا توان کی آپس کی محبتوں کے نظارے بھی سامنے آئے، اگرچہ دونوں بزرگ اس وقت ملک شباب کی سرحدوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر پیری کی منزل کا بہت سا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ چنانچہ ان کی ملاقات کے ایک واقعہ کے سوا اور کوئی واقعہ میری یادداشت میں محفوظ نہیں۔
امی جان کے ماموں، جوا ب وفات پا چکے ہیں، گوجرانوالہ میں رہایش پذیر تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ کی وفات ہوئی تو نانا جی ؒ تعزیت کے لیے گوجرانوالہ تشریف لے گئے اور رات کو ان کے گھر پر قیام فرمایا۔ اگلے دن صبح سویرے عم مکرم مولانا ریاض خان سواتی تشریف لائے اور ناناجی ؒ سے نصرۃالعلوم میں درس دینے کی درخواست کی جسے ناناجی ؒ نے قبول فرما لیا۔ گاڑ ی میں نصرۃ العلوم کی جانب روانہ ہوئے۔ ہم بچے بچونگڑے بھی ساتھ تھے۔ نصرۃ العلوم پہنچ کر آپ ؒ نے طلبہ میں طویل بیان فرمایا۔ تھوڑی دیر کے بعد دادا جان بھی تشریف لے آئے اور طلبہ کے ہجوم میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ مجھے ان دونوں بزرگوں کی ملاقات کو د یکھنے اور ان کی باتیں سننے کا بہت شوق تھا، مگر جرم طفولیت کی بنا پر آگے جگہ نہ پا سکا اور منبر پر چڑھ کر پنجوں کے بل کھڑا ہونے کے باوجود ان کی ملاقات کی ایک جھلک ہی دیکھ سکا۔ دونوں بزرگ کھڑے ہو کر معانقہ فرما رہے تھے اور خوشی ومسرت سے دونوں کے چہرے تمتما رہے تھے۔ طلبہ کرام بھی اچک اچک کر اس حسین ودل آویز کو نظروں میں سمونے کی کوشش کر رہے تھے۔ بڑے لطف کا منظر تھا جو میری زندگی کی یادگاروں میں سے ایک یادگار ہے۔
داداجان ؒ ، مولانا عبداللطیف جہلمیؒ اور ناناجان ؒ ، تینوں بزرگوں کا آپس کا تعلق بڑا گہرا تھا۔ تینوں ایک مدرسہ کے فیض یافتہ تھے، نظریات اور خیالات بھی ایک جیسے تھے اور عقائد اہل سنت کا تحفظ اور فرق باطلہ کی سرکوبی تینوں کا محبوب مشن تھا۔ اس ہم مزاجی کی بنا پر ان کے تعلقات دلی محبتوں، جلسوں میں اکٹھے شرکت اور گھریلو میل ملاپ سے بڑھتے ہوئے خاندانی رشتہ داریوں تک جا پہنچے، چنانچہ پہلے میری منجھلی پھپھو کا نکاح مولانا عبداللطیف کے فرزند مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ سے ہوا جو چند ماہ قبل اس دارفانی کو الوداع کہہ کر داراصلی کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ پھر پھپھو جان کی تحریک پر میرے والدین کا رشتہ وجود پذیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ان محبتوں اور رشتوں کو بخوبی نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
یوں تو ناناجانؒ اوردادا جا ن ؒ کی محبتوں کے گواہ بہت سے واقعات ہیں جو حافظے کی اسکرین پر جھلملا رہے ہیں، مگر یہ مختصر صفحات ان سب کا تحمل نہیں کرسکتے، اس لیے صرف چند ایک کا تذکرہ کرتا ہوں۔
امی جان نے بتایا کہ ان کی شادی کے کچھ ہی عرصہ کے بعد داداجان ؒ بیمار ہو گئے۔ بیماری معمولی نوعیت کی تھی، کوئی شدید یا مہلک بیماری نہیں تھی، لیکن جب ناناجان ؒ کو خبر ملی توانہو ں نے عیادت کے لیے تمام اہل خانہ سمیت گکھڑ کا سفر فرمایا اور داداجان کی عیاد ت کی۔ جب نماز کا وقت ہوا تو دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے سے امامت کروانے کے لیے اصرار فرمایا۔ کافی دیر تک دونوں طرف سے یہ اصرار ہوتا رہا۔ آخر ناناجی ؒ نے فرمایا کہ میں معذوری کی وجہ سے پڑھا نہیں سکتا، چنانچہ داداجانؒ نے نماز پڑھائی۔ اگرچہ یہ دونوں حضرات ہم عصر اور ہم عمر تھے مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ہر ایک کا برتاؤ د وسرے کے لیے ایسا تھا جیسا مرید کا مرشد کے لیے ہوتا ہے۔ ناناجانؒ ، داداجان ؒ کو حضرت شیخ الحدیث صاحب کے نام سے یاد فرماتے تھے اور داداجان ؒ انہیں حضرت قاضی صاحب کے نام سے یاد فرماتے تھے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے بارے میں گفتگو کا لہجہ انتہائی مودبانہ ہوتا تھا اور گفتگو ’’وہ فرماتے ہیں‘‘، ’’انہوں نے ارشاد فرمایا‘‘، ’’ان سے عرض کریں‘‘ جیسے الفاظ کے گرد گھومتی تھی۔
جب دادا جانؒ مفتی محمد جمیل خان شہید کے ساتھ سفر حرمین کے لیے تشریف لے گئے تو واپسی پر ایک روز فرمایا کہ ’’میں اوتھے قاضی صاحب تے صوفی صاحب واسطے رو رو کے دعاواں منگدا رہیاں۔‘‘ صوفی صاحب سے مراد ہمارے چھوٹے دادا جان ؒ حضر ت مولانا عبدالحمید خان سواتی تھے ، جن سے دادا جان ؒ کو بہت پیار تھا۔ ان کے ساتھ حرم شریف کی خاص الخواص دعاؤں اور آہ وزاریوں میں جنہیں شریک فرمایا، وہ مولانا قاضی مظہرحسین ؒ تھے۔ نانا جی ؒ کی وفات کے بعد امی جی نے، جنھوں نے پہلے ناناجی ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، دادا جان سے عرض کیا کہ میں پہلے ابا جی سے بیعت تھی، اب آپ سے بیعت کی درخواست کرنا چاہتی ہوں، مگر داداجانؒ نے ان کی بات کاٹ کر بڑے زور دار سے فرمایا کہ وہی کافی ہے اور امی جی کو بیعت نہیں فرمایا۔ اور سنا ہے کہ حضرت لاہوریؒ بھی حضرت مدنی ؒ کی وفات کے بعد آپ کے مریدوں کو ازروے تواضع بیعت نہیں فرماتے تھے۔
آخری عمر میں جب نانا جان ؒ کی کمر کمان کی طرح جھک چکی تھی اور آپ کو کرسی پر بٹھا کر ادھر ادھر لے جایاجاتاتھا، دو شخصیات ایسی تھیں جن کے استقبال کے لیے نانا جان ؒ جھکی ہوئی کمر کے ساتھ گلی سے باہر خود چل کر تشریف لائے۔ ناناجی کے انتقال کے بعد دادا جی نے شدید بیماری اور معذوری کے باوجود بھیں کی پہلی سنی کانفرنس میں، جو ناناجی کے آبائی گاؤں ضلع چکوال میں منعقد ہوتی ہے، شرکت فرمائی۔ گزشتہ سال شعبان میں جب میں داداجان کی خدمت میں گکھڑ قیام پذیر تھا، ایک روز حضرت مولانا حبیب الرحمن سومرو مدظلہ، جو ناناجی ؒ کے واحدخلیفہ مجاز ہیں، تشریف لائے۔ داداجان ؒ نے فرمایاکہ ان کو بڑی کرسی پر بٹھاؤ۔ داداجان ؒ کے کمرے میں عام مہمان تو نیچے ز مین پر بچھے ہوئے قالین پر بیٹھتے تھے، خواص کو فولڈنگ کرسی دی جاتی تھی جو داداجا ن کی چارپائی کے ساتھ رکھی رہتی تھی، جبکہ اخص الخواص مہمانوں کو بڑی کرسی پر بٹھایا جاتا تھا۔ چنانچہ انہیں بھی بڑی کرسی پر بٹھایاگیا اور داداجانؒ ان سے ا س طرح گفتگو فرما رہے تھے جیسے بڑے بزرگوں سے کرتے ہیں، حالانکہ وہ عمر میں شاید میرے والد محترم سے بھی چھوٹے ہوں۔ دادا جان نے مجھے فرمایا کہ پانی لاؤ۔ میں پانی لایا تو حضرت کو فرمایا کہ مجھے پانی دم کر دیں۔ انھوں نے تعمیل حکم میں دم کیا تو فرمایا کہ آپ تھوڑا سا پانی پی کر مجھے دے دیں۔ پھر ان کا بچا ہوا پانی دادا جان نے نوش فرمایا۔ پھر شاید فرمایاکہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میرا خا تمہ ایمان پر ہو۔ اتنا ادب چھوٹوں میں سے داداجان کو کسی کسی کا کرتے دیکھا،مثلاً حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی، حضرت مولانااسعدمدنیؒ اور چند دیگر چیدہ چیدہ حضرات۔ اسی طرح جب ناناجی ؒ کے جانشین اور میرے ماموں جان مولانا قاضی ظہور حسین صاحب تشریف لائے تو ان کابھی بہت اکرام فرمایا اور فرمایا کہ قاضی مظہرحسین کے طریقے پر چلتے رہنا، اور اکابر کا یہی طریقہ تھا۔ جب دادا جان ہماری کسی خدمت پر خوش ہوتے تو رقت آمیز لہجے میں ہاتھ اٹھا کر فرماتے، یا اللہ! یہ میرے پاس قاضی صاحب کی نشانی ہے، انھیں ان کا جانشین بنا۔
باری تعالیٰ! آپ خوب جانتے ہیں کہ ہم کتنے ناکارہ اور نالائق ہیں۔ اے ہمارے مولا! ہماری نالائقیوں اور گناہوں سے درگزر فرما اور اپنی رحمت سے اپنے اس بندے کی زبان سے نکلے ہوئے بول کی لاج رکھ۔ ہمیں اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلا اور پھر ہمیں وہ ایمانی حرارت دے جو تونے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرصدیق اور دیگر صحابہ کرام کو عطافرمائی۔ آمین