اس دار فانی سے رحلت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ روز اول سے جاری ہے اور ایک ایسا وقت آئے گا کہ کائنات میں کوئی بھی باقی نہ رہے گا۔اس کے بعد جزاو سزا کا دن قائم ہوگا اور بارگاہ ایزدی میں تمام بنی نوع انسان اپنے کیے کے حساب کتاب کے لیے حاضر ہوں گے۔ اس دن کے قریب آ لگنے کی جو علامات خاتم المعصومین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں، ان میں سے ایک علم کا اس دنیا سے اٹھ جانا ہے اور یہ علامت اہل علم کے اس دار فانی سے رحلت کی صورت میں پوری ہوگی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و العاص رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں سے علم کو ایک ہی دفعہ نہیں چھین لے گا، بلکہ علم کو اہل علم کے اٹھا لینے سے سلب کرے گا اور ایک ایسا وقت آئے گا کہ زمین پر ایک بھی عالم بھی باقی نہیں رہے گا۔ تب لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنائیں گے جن سے مسائل کے بارے میں پوچھا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے جن سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔
فداہ ابی وامی خاتم المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان قحط الرجال کے اس دور میں پورا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ چند ہی سالوں میں بڑے بڑے اصحاب علم وفضل، اہل معرفت اور تصوف کے میناروں کا اس دنیا سے اٹھ جانا، یہ صادق ومصدوق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا پورا ہونا ہے۔ امام اہل سنت الشیخ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر حمۃ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال کسی عام انسان کی موت یا وفات نہیں بلکہ ایک جبل علم وعمل اور وقت کے بہت بڑے عظیم محدث کی وفات ہے۔ ایسی شخصیات شاذ ونادر ہی پیدا ہوا کرتی ہیں۔ حضرت امام اہل سنتؒ ، امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنویؒ کے حقیقی جانشین تھے اور اس دور میں امام اہل سنت جیسا عظیم خطاب بھی حضرت شیخ کو ہی جچتا تھا۔ امام اہل سنت حضرت لکھنویؒ کی ایک امتیازی صفت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پھیلنے والے تمام فتنوں کا تعاقب کیا ہے اور ہر فتنہ کی بیخ کنی کے لیے سر توڑ کوششیں کی ہیں۔ اس راستہ میں ان پر مشکلات اور مصائب کے جو پہاڑ ٹوٹے ہیں، انہیں سن کر دور نبوت یاد آجاتا ہے اور اہل مکہ کی وہ کارستانیاں اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جانے والی سازشیں جو تاریخ کی کتب میں مرقوم ہیں، آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں۔
حضرت امام اہل سنت شیخ سرفراز صفدرؒ نے اپنے پیش رو امام اہل سنت حضرت لکھنویؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر فتنے کا تعاقب کیا ہے اور اس راستہ پر چلنے والوں اور کام کرنے والوں کی بھر پور حوصلہ افزائی اور سرپرستی فرمائی ہے۔ تردید فرق باطلہ کے عنوان پر حضرت کی کتب فرق باطلہ کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں اور ان کا جواب دینے کے لیے اہل باطل بے بس نظر آتے ہیں۔ حضرت الشیخ نے جب اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت پاکستان میں رافضیت کے جڑیں قدرے کمزور تھیں، مگر وہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ ہندوستان میں شیعہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف حربے آزما چکا تھا اور وہاں حضرت لکھنویؒ کے ہاتھوں بری طرح پٹ چکا تھا۔ حضرت الشیخؒ اس ساری صورت حال سے بخوبی واقف تھے، اس لیے انہوں نے اپنی پہلی تصنیف ’’الکلام الحاوی‘‘ میں اس فرقے کا کھل کر تعاقب فرمایا۔ گمراہ کن عقائد ونظریات کی تردید میں حضرت الشیخؒ کی دیگر کتب موجود ہیں، مگر اپنی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کے آغاز ہی میں ایک خط نقل فرمایا ہے جس میں حضرت امام اہل سنت سے شکوہ کیا گیا ہے کہ ’’آپ نے تمام فرق ضالہ کی تردید میں کتب تحریر فرمائی ہیں، اب ایک کتاب شیعیت کی تردید میں تحریر فرما دیں‘‘۔ حضرت امام اہل سنت اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’میری کتاب ’’الکلام الحاوی‘‘ کا اگر آپ نے مطالعہ کیا ہوتا تو آپ کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ پھر بھی آپ کی خواہش کے احترام میں کتاب تحریر کرتا ہوں‘‘۔ ارشاد الشیعہ کی اس عبارت کے پیش نظر اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حضرت امام اہل سنتؒ کی پہلی اور آخری تصنیف شیعیت کی تردید میں ہے۔
ملک میں رد رافضیت کے عنوان پر کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں موجود ہیں، مگر سپاہ صحابہؓنے بہت قلیل مدت میں اپنے مختلف انداز واطوار کی وجہ سے جو مقبولیت حاصل کی، وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوسکی۔ میں اس کی وجہ حضرات اکابرین کی شفقتوں، محبتوں اور دعاؤں کو سمجھتا ہوں۔ حضرت امام اہل سنتؒ کے سپاہ صحابہؓ کے ساتھ والہانہ تعلق اور سپاہ صحابہ کی قیادت پر بھرپور اعتماد اور پیار کو اس جماعت کی عنداللہ مقبولیت کی دلیل سمجھتا ہوں۔ میرا گکھڑ منڈی سے جب بھی گزر ہوا، ہمیشہ حضرت الشیخؒ کی زیارت کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہوئے ضرور حاضر ہوا۔ ہمیشہ ان کی صحبت میں بیٹھنے سے نیا سکون ملتا اور روحانی تسکین حاصل ہوتی۔ بوقت ملاقات ہمیشہ مجھ سے پہلا سوال یہی کرتے کہ حکومت نے سپاہ صحابہؓ کے لیے کوئی نرمی کی ہے؟ جواباً جب میں حالات وواقعات بیان کرتا تو حضرت امام اہل سنتؒ حکومتی زیادتیوں پر افسوس کا اظہار فرماتے اور جماعتی قربانیوں اور قائدین کی جرأت واستقامت پر خوشی کا اظہار فرماتے اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے۔
وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے جب ملک کی مختلف تنظیموں کا مشترکہ اجلاس جامعۃ منظور الاسلامیہ میں حضرت الشیخؒ کی صدارت میں ہو رہا تھا۔ دوران اجلاس ایک صاحب نے سپاہ صحابہؓ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سپاہ صحابہؓ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے علماے کرام اور بزرگان دین نے انہیں چھوڑ دیا ہے اور آج کوئی بھی بزرگ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ میں نے اس تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم دوران سفر جب بھی کسی خانقاہ، مدرسہ یا جامعہ کے قریب سے گزرتے ہیں تو ہم وہاں چلے جاتے ہیں اور بزرگان دین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے اندر آپ کو کوئی غلط بات نظر آئے توآپ ہماری اصلاح فرما دیں۔ اگر ہم غلط راستہ پر چل رہے ہیں تو آپ ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیں، مگر ہمارے ان سوالوں کے جواب میں کوئی بھی بزرگ یہ نہیں کہتا کہ تم نے اکابر کا راستہ چھوڑ دیا ہے یا تمہاری پالیسیاں غلط ہیں، بلکہ یہ کہا جاتاہے کہ آپ لوگ بڑے عظیم ہیں، آپ امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں اور بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں۔ ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ کہہ کر میں نے حضرت امام اہل سنتؒ کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ حضرت! آپ بتائیں کہ آپ کی ہمدردیاں، آپ کی محبت اور آپ کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں؟ حضرت امام اہل سنت ؒ نے کمال شفقت کا مظاہرہ فرماتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند کیا اور بآواز بلند فرمایا کہ میری تمام محبتیں، میری تائید اور میری دعائیں سب آپ حضرات کے ساتھ ہیں۔ میں نے پھر مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ جب امام اہل سنت کی ہمدردیا ں ہمیں حاصل ہیں اور ان کی تائیدہمارے حق میں ہے تو پھر اہل سنت کے دیگر تمام علماے کرام، بزرگان دین اور شیوخ کی تائید بھی ہمارے حق میں ہونی چاہیے اور جو لوگ ہمارے سامنے تو ہمارے فضائل بیان کرتے نہیں تھکتے اور ہمارے بعد ہمارے خلاف بولنے لگتے ہیں، ہمارے نزدیک وہ بزرگ نہیں ہیں۔ یہ باتیں کہہ کر میں حضرت امام اہل سنتؒ کے قریب بیٹھ گیا۔ حضرت امام اہل سنتؒ نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے تھپکی دی اور دعاؤں سے نوازا۔ اب جب بھی حضرتؒ کی یہ باتیں، یہ محبتیں اور یہ شفقتیں یاد آتی ہیں تو سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہیں سوجھتا۔
حضرت امام اہل سنت کی جدائی کے بعد ان کے متعلقین اور دیگر احبا وپیروکاربھی کہتے ہوں گے مگر میں یہ بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ حضرت ؒ کے جانے سے ہم یتیم ہوگئے ہیں۔میں نے ملک کے بڑے بڑے جنازوں میں شرکت کی ہے، مگر حضرت امام اہل سنتؒ کا جنازہ ایک تاریخی جنازہ تھا۔ حضرت امام اہل سنتؒ کے چہرہ مبارک کی زیارت کی تو محسوس ہوا کہ شیخ نے موت کوتحفہ سمجھ کر قبول کیا ہے۔ چہرے پر روحانیت اور اطمینان اتنا تھا کہ جیسے آنکھیں بندکرکے آرام فرما رہے ہیں اور کچھ دیر بعد جاگ جائیں گے۔ میں حضرت امام اہل سنتؒ کے تلامذہ، متعلقین اور بالخصوص حضرت کے صاحبزادگان سے اور ان میں سے بھی بالخصوص معروف اسلامی ا سکالر اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ، مولا نا عبد القدوس قارن صاحب مدظلہ اور مولانا عبد الحق خان بشیر صاحب مدظلہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ حضرت امام اہل سنتؒ کی طرح ہماری سرپرستی فرمائیں گے اور ہمیشہ اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں گے، کیونکہ حضرت امام اہل سنتؒ کے جانشین اور ان کے ورثا کی حیثیت سے یہ ان حضرات کی ذمہ داری بھی ہے اور ہمارا حق بھی۔
دعا گو ہوں کہ رب ذوالجلال حضرت امام اہل سنتؒ کے تمام عقیدت مندوں، چاہنے والوں اور اہل وعیال کو صبر جمیل عطا فرمائیں اور حضرت امام اہل سنتؒ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ (آمین)