اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں مختلف نوعیت کی صلاحتیں ودیعت کی ہوتی ہیں جن کا اظہار ان کی زندگی میں ہوتا ہے، مگر ان کی کچھ صلاحیتیں ایسے انداز سے ظاہر ہوتی ہیں کہ لوگوں کی نظر ان ہی پر منحصر ہو جاتی ہے اور دیگر صلاحیتوں کی جانب توجہ نہیں رہتی۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو پروردگار نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ رات بھر میں نماز میں پورا قرآن کریم ختم کر لیا کرتے تھے۔ (الخیرات الحسان لابن حجر مکی ص ۸۵۔ تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۳۵۶ وغیرہ) ان کو فن حدیث میں بہت بلند مقام حاصل تھا، چنانچہ امام ابن عبد البر المالکیؒ لکھتے ہیں کہ مشہور محدث حماد بن زید نے فرمایا: روی عن ابی حنیفۃ احادیث کثیرۃ (الانتقاء ص ۱۳۰) امام ابوحنیفہ سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ علامہ عبد الوہاب شعرانی نے لکھا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے ایک نوجوان کو غسل کرتے دیکھا تو اس کو غسل کے بعد بلا کر نصیحت فرمائی کہ آئندہ زنا نہ کرنا۔ اس نے کہا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا تو امام صاحب نے فرمایا کہ جس پانی سے تو نے غسل کیا ہے، اس پانی میں مجھے زنا کے آثار نظر آئے ہیں۔ اس نوجوان نے اقرار کیا اور امام صاحب کے ہاتھ پر توبہ کی۔ (بحوالہ فتح الملہم ج ۱ ص ۴۰۹) ان عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ اپنے دور کے عظیم المرتبت حافظ قرآن، بلند پایہ محدث اور صاحب کشف بزرگ بھی تھے، مگر ان کو زیادہ تر لوگ فقہ واجتہاد کے دائرے ہی میں دیکھتے ہیں، اس لیے کہ عوام الناس کے سامنے ان کی صلاحیتیں فقہ واجتہاد میں ہی زیادہ نمایاں ہوئی ہیں۔
حضرت امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اردو ادب میں وہ مقام حاصل تھا کہ بڑے بڑے ادیب ان کی تحریر سے دم بخود رہ جاتے۔ اپنے نظریہ کو ثابت کرنے اور مخالف کے نظریہ کی تردید میں باحوالہ دلائل کا ایسا مجموعہ پیش فرماتے کہ بڑی بڑی وسیع المطالعہ شخصیات کی عقلیں دنگ رہ جاتیں۔ اہل علم حضرات کے لیے ایسے علمی نکات ذکر فرماتے کہ وہ عش عش کر اٹھتے۔ بات سمجھانے کا ان کو ایسا ملکہ حاصل تھا کہ معمولی ذہن کا آدمی بھی بآسانی سمجھ جاتا۔ وہ اپنے دور کے صرف کہنہ مشق، تجربہ کار اور تمام فنون میں مہارت کھنے والے مدرس ہی نہیں، بلکہ مدرس گر بھی تھے اوران کو تصوف وولایت میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ایک مجلس میں پیر طریقت حضر ت سید نفیس الحسینی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت کو لوگ ایک عالم اور مصنف کی حیثیت سے جانتے ہیں، حالانکہ ان کو ولایت میں بھی بہت بلند مرتبہ حاصل ہے۔
جب راقم الحروف نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے درس نظامی کا کورس مکمل کیا اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ نے استاد محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی دام مجدہم کے مشورے سے اپنے اسی مادر علمی میں مدرس کی حیثیت سے میرا تقرر فرمایا تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے جن باتوں کی تلقین فرمائی اور ان کی پابندی کا حکم فرمایا اور وقتاً فوقتاً ان کی یاددہانی بھی کراتے رہے، ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک عظیم مدرس ہی نہیں، ایک اعلیٰ درجہ کے مدرس گر بھی تھے۔ یقیناًمیرے علاوہ اپنے دیگر متعلقین کو بھی وہ انھی باتوں کی تلقین فرماتے ہوں گے اور جن حضرات نے حضرت سے پڑھا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ انھوں نے خود بھی ان باتوں کی پابندی فرمائی۔
★ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمھیں ایسے ادارے میں تدریس کا موقع دیا ہے جہاں مکمل درس نظامی پڑھایا جاتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ تمھیں ہر فن کے اسباق پڑھانے پڑیں گے، اس لیے تمام فنون میں پہلے خود مہارت حاصل کرو۔ جن فنون میں کمزوری محسوس کرتے ہو، وہ کتابیں کسی استاد سے دوبار ہ پڑھو۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ۱۹۵۵ء میں تدریس شروع کی۔ اس سے پہلے وہ گکھڑ میں اپنی مسجد میں ہی پڑھاتے تھے۔ مشکوٰۃ شریف تک اسباق ہوتے تھے اور حضرت اکیلے پڑھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ایک ایک دن میں تیس تیس اسباق بھی پڑھائے ہیں جن میں سب سے چھوٹا سبق شرح تہذیب ہوا کرتا تھا۔ استاد محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی دام مجدہم (سابق استاذ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ وحالاً شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ اسلام آباد) اور حضرت مولانا صوفی محمد سرور دام مجدہم (شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور) جیسی شخصیات نے گکھڑ میں ہی تعلیم حاصل کی۔ جب حضرت کا تقرر مدرسہ نصرۃالعلوم میں ہوا تو اس کے بعد بھی کچھ عرصہ گکھڑ میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر جو طلبہ گکھڑ پڑھنے کے لیے آتے، ان کو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہونے کی تلقین فرما دیتے اور گکھڑ میں طلبہ کا تعلیمی سلسلہ جو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے قائم کر رکھا تھا، وہ ختم کر دیا گیا۔ البتہ مقامی طالبات کی تعلیم کا سلسلہ حضرت کی شدید بیماری سے پہلے تک جاری رہا۔ بہت دفعہ حضرت کو یہ کہتے سنا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے علمی ترقی اور زیادہ افادہ واستفادہ کے لیے نصرۃ العلوم جیسے ادارے میں موقع عطا فرمایا۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے طالب علمی کے دور میں ہی پڑھانا شروع کر دیا تھا اور فراغت سے قبل ہی عربی فاضل کے اسباق بڑی کامیابی اور اطمینان سے پڑھاتے تھے ۔ گکھڑ میں تمام فنون کے اسباق پڑھاتے رہے۔ حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی دام مجدہم فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت سے ہدایہ چند ماہ میں مکمل کیا۔ نیز فرماتے تھے کہ حضرت طالب علم کے وقت کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ اگر کوئی طالب علم یہ کہتا کہ میرے پاس وقت کم ہے، میں ایک ہی سال میں اسباق پڑھنا چاہتا ہوں تو اس کو کئی کئی سال کے اسباق ایک ہی سال میں مکمل کرا دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا کہ حضرت کو تمام فنون میں کس قدر مہارت تامہ حاصل تھی۔
حضرت کی وفات کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں خدمات شیخین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ دام مجدہم نے، جن کی ساری زندگی درس وتدریس میں گزری ہے، فرمایا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جب بخاری شریف کا درس دیتے تو لغوی، کلامی، حدیثی اور فن بلاغت وبدیع سے متعلق ابحاث ایسے بیان فرماتے کہ پتہ چلتا کہ اندر خزانہ ہے اور زبان کے تالے کھل گئے ہیں اور وہ خزانہ بکھرتا جا رہا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بخاری شریف کا آخری سبق حضرت نے پڑھایا۔ اس تقریب میں بہت سے ایسے بڑے بڑے علما موجود تھے جنھوں نے بیس بیس سال سے زائد عرصہ بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھائی۔ حضرتؒ نے ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب بیان فرمایا۔ بعد میں علما کی مجلس میں حضرت مولانا نظام الدین شامزئ رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ استاد استاد ہی ہوتا ہے۔ حضرت نے اپنے بیان مین وہ علمی نکات بیان فرما دیے ہی کہ ہم کئی کئی مہینوں کے مطالعہ سے بھی وہ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت مولانا مفتی محمد اویس صاحب دام مجدہم نے بھی بیان فرمایا کہ ایک بہت بڑے عالم نے حضرت کا بیان سننے کے بعد فرمایا کہ استاد استاد ہی ہوتا ہے۔ بعد والے جتنی بھی ترقی کر لیں، استاد تک نہیں پہنچ سکتے۔
جب فارغ التحصیل علما حضرت سے ملاقات کرتے تو حضرت ان سے پوچھتے کہ کیا کرتے ہو؟ جب کوئی بتاتا کہ میں پڑھاتا ہوں اور کسی ایسے مدرسے کا نام لیتا جہاں بڑی بڑی کتابیں پڑھائی جاتی ہوں تو فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرو۔ برادر مکرم حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی دام مجدہم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے فراغت کے بعد مدرسہ انوارالعلوم میں پڑھاتے رہے، پھر کسی وجہ سے تدریس چھوڑ دی تو حضرت کو اس کا بہت ملال رہا۔ پھر جب ان کا مدرسہ نصرۃ العلوم میں پہلے اعزازی اور پھر مستقل مدرس کی حیثیت سے تقرر ہوا تو حضرتؒ اتنے خوش تھے کہ گویا ان کو گم شدہ خزانہ حاصل ہو گیا ہو۔ اس سے بخوبی انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت کو تدریس کے شعبہ سے کس قدر لگاؤ تھا اور اس شعبہ کی ان کے ہاں کس قدر اہمیت تھی۔ اسی لگاؤ اور اہمیت کی بدولت ان کو تمام فنون میں مہارت تامہ حاصل تھی جس کی اوروں کو بھی تلقین فرماتے تھے۔
★ فرمایا کہ ہر سبق کا مطالعہ خوب کرنا اور سبق پڑھانے سے پہلے پوری تیاری کرنا تاکہ سبق پڑھانے میں خود اعتمادی ہو۔ پہلے کتاب کی عبارت کا مطلب خود سمجھو اور پھر طلبہ کو سمجھاؤ۔ اپنے بارے میں فرماتے تھے کہ میں نے کبھی مطالعہ کیے بغیر سبق نہیں پڑھایا۔ کئی کئی سال مسلسل جو کتابیں پڑھائی ہیں، ان کا بھی مطالعہ ضرور کرتا ہوں۔ ایک موقع پر فرمایا کہ مجھے چالیس سے زائد سال ترجمہ قرآن کریم پڑھاتے ہو گئے ہیں، اس کے باوجود میں درس اور سبق کے لیے مطالعہ ضرور کرتا ہوں اور بالخصوص حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا ترجمہ ضرور دیکھتا ہوں۔ راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت کے رات کے مطالعہ کے لیے ہر روز عصر کے بعد ہی لالٹین اور لیمپ کا انتظام کیا جاتا، ان کے فیتے درست کیے جاتے، ان میں تیل ڈالا جاتا اور ان کے شیشے صاف کیے جاتے، کیونکہ اس دور میں ہمارے کرایے کے مکان میں بجلی کا انتظام نہیں تھا۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد گھر تشریف لانے پر لیمپ یا لالٹین حضرت کی میز پر رکھ دی جاتی تھی اور حضرت آتے ہی پہلے کھانا کھاتے اور پھر مطالعہ میں مصروف ہو جاتے تھے۔ ہم ماسٹر خوشی محمد صاحب کے مکان کے ساتھ ان ہی کے ایک مکان میں کرایہ پر رہتے تھے جو قبرستان کے قریب تھا۔ جب گھر میں مہمان آ جاتے جن میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے اور لالٹین ان کے لیے رکھ دی جاتیں تو حضرت کتابیں لے کر مسجد میں چلے جاتے اور کبھی کبھی اسٹیشن پر چلے جاتے اور وہاں جلنے والی ٹیوب کی روشنی میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے اور پھر گھر واپس آ جاتے۔
حضرت اپنے مطالعہ کے شوق کا خود ذکر فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم مدرسہ انوار العلوم میں پڑھتے تھے تو عصر کی نماز کے بعد باقی ساتھی چہل قدمی کے لیے باہر چلے جاتے اور میں مسجد میں مطالعہ کرتا رہتا تو ہمارے استاد مولانا عبد القدیر رحمہ اللہ مجھ سے کتاب چھین لیتے اور فرماتے، کتابی کیڑے! اس وقت تو مطالعہ چھوڑ دے، اور زبردستی مجھے بھی چہل قدمی کے لیے باہر بھیج دیتے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی وسیع لائبریری، گکھڑ میں انجمن اسلامیہ کے کتب خانہ اور آپ کی ذاتی کتب کو دیکھا جائے تو ہر کتاب پر حضرت کے نوٹس لکھے ہوئے ہیں جو ان کے وسیع المطالعہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ بالخصوص درسی کتابوں مثلاً التوضیح والتلویح وغیرہ پر حضرت کے عربی میں بہترین حواشی ان کے قلم سے لکھے ہوئے ہیں۔ اسباق کے لیے تیاری بھی خوب ہوتی تھی۔ اگر کوئی طالب علم دوران سبق کوئی سوال کرتا اور اس کا جواب حاشیہ میں مذکور ہوتا تو ازراہ تفنن فرماتے کہ مولوی صاحب، ذرا مطالعہ کی عادت بھی ڈالو اور پھر حاشیہ کا حوالہ دے کر جواب دیتے۔ اگر حاشیہ میں جواب نہ ہوتا تو پھر بھی اس کا بہترین انداز میں جواب دیتے۔
★ فرمایا کہ سبق میں طلبہ کا لحاظ رکھنا، ایک تو اس لحاظ سے کہ آواز ان تک پہنچے اور دوسرا یہ کہ تقریر طلبہ کے معیار کے مطابق ہو اور سمجھانے میں ادنیٰ ذہن کے طلبہ کا لحاظ رکھنا۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح طلبہ پر لازم ہے کہ وہ سبق کے دوران اپنے استاد کی تقریر کی جانب ہمہ تن متوجہ ہوں، اسی طرح استاد کا فرض ہے کہ آواز تمام طلبہ تک پہنچائے۔ اگر اپنی آواز پہنچ جائے تو بہتر، ورنہ اسپیکر کا انتظام کیا جائے۔ ایک دفعہ کسی مدرسہ کے مدرس سے پوچھا کہ تمہاری کلاس میں کتنے طلبہ ہیں؟ انھوں نے خاصی تعداد بتائی تو فرمایا کہ تمہاری آواز ان تک پہنچ جاتی ہے؟ وہ کہنے لگے کہ پیچھے بیٹھنے والوں کو دقت ہوتی ہے تو فرمایا کہ یا تو تمام طلبہ تک آواز پہنچانے کا انتظام کرو یا پھر داخلہ محدود کردو۔
راقم الحروف نے جب تدریس کا آغاز کیا تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے مجھ پر پابندی تھی کہ آواز اتنی نکالو کہ مجھے اپنی درس گاہ میں تمہاری آواز آئے او رپھر حضرتؒ نے استاد محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی دام مجدہم سے فرمایا تھا کہ اس کا سبق وقتاً فوقتاً سنا کرو اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہو، اس کی اصلاح کر دیا کرو۔ حضرت کے ارشاد کی وجہ سے حضرت استاد محترم دام مجدہم بھی میرے سبق کا جائزہ لیتے۔ اس وقت سے اونچی آواز میں سبق پڑھانے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ اب اس عادت کو ترک کرنا بھی چاہتا ہوں تو نہیں کر پاتا۔ اب اونچی بولنے سے کچھ تکلیف بھی ہو جاتی ہے اور پھر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ میری اونچی آواز کی وجہ سے میرے ارد گرد قریب کوئی مدرس سبق نہیں پڑھا سکتا جس سے مجھے کوفت ہوتی ہے، مگر کوشش کے باوجود میں اپنی اس عادت کو چھوڑ نہیں سکا۔
جب تک حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی صحت ٹھیک رہی، بغیر اسپیکر کے بھی حضرت کی آواز پورے مدرسے میں گونجتی تھی اور یہی حال عم مکرم حضر ت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی دام مجدہم کا تھا، اس لیے ابتدائی دور میں اسپیکر کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ جب بیماریوں نے گھیر لیا تو اسپیکر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اسپیکر کا انتظام جس کے ذمے ہوتا، اس کو سختی سے اسپیکر کا نظام درست رکھنے کی تلقین فرماتے۔ دورۂ تفسیر قرآن کریم شروع کرنے سے پہلے اسپیکر کے نظام کا جائزہ لیتے اور طلبہ سے پوچھتے کہ کیا آواز سب تک پہنچ رہی ہے یا نہیں؟ اگر کچھ خلل ہوتا تو اسپیکر کے نظام کو وسیع کرنے کی تلقین فرماتے اور سبق شروع کرنے سے پہلے اسپیکر میں تین دفعہ پھونک مار کر اطمینان کر لیتے کہ اسپیکر درست کام کر رہا ہے یا نہیں۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو قدرت نے یہ کمال بھی عطا فرمایا تھا کہ ایک ہی موضوع پر تقریر سامعین کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی۔ قرآن کریم کے ایک ہی رکوع پر عوام الناس کے سامنے تقریر اور کافیہ تک پڑھے ہوئے طلبہ کے سامنے اور انداز میں، اور دورۂ تفسیر میں فارغ التحصیل علما کے سامنے تقریر اور انداز میں ہوتی تھی۔ اسی طرح دیگر اسباق میں بھی ہوتا تھا اور تقریر میں ادنیٰ ذہن کے طلبہ کا لحاظ رکھتے تھے۔ بعض جملوں کو کئی کئی بار دہراتے اور پھر طلبہ سے ان کو دہرانے کا فرماتے تاکہ تسلی ہو جائے کہ طلبہ بات کو سمجھ گئے ہیں۔ ہمارے ساتھ شرح عقائد اور خیالی میں پیر طریقت حضرت مولانا خواجہ خان محمد دام مجدہم کے صاحب زادے مولانا عزیز احمد مدظلہ بھی تھے۔ صاحبزادہ صاحب کم گو تھے۔ ایک دفعہ سبق میں حنفی محدث اور فقیہ قاسم بن قطلوبغا کا قول نقل فرمایا تو صاحب زادہ صاحب سے دو دودفعہ اس کا تلفظ ادا کروایا۔
★ فرمایا کہ سبق میں تقریر بہت لمبی نہ ہو بلکہ ضرورت کے مطابق بحث ہو جس سے نفس کتاب حل ہو جائے اور طالب علم کو کتاب میں مذکور عبارت کا مفہوم سمجھ آ جائے۔ جن حضرات نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ خود حضرت کا اپنا معمول بھی یہی تھا۔ تقریر سادہ کتاب کے مطابق اور دل نشیں ہوتی تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بزرگوں حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا اعزاز علی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا بھی یہی انداز تھا۔ لمبی تقریر سے گریز کرتے تھے۔ اگر محسوس فرماتے کہ کوئی طالب اس میں زیادہ معلومات چاہتا ہے تو اس کو کتاب کا حوالہ دے دیتے کہ فلاں کتاب اس بحث کو دیکھ لیا جائے، وہاں تفصیل موجود ہے۔ جو کتابیں حضرت سے پڑھی ہیں، ان کو پڑھانے کے دوران حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کانوں میں گونجتی ہے اور جہاں حضرت نے کسی کے ساتھ مزاح کیا یا کسی کو ڈانٹا یا کوئی قصہ بیان فرمایا، وہ نظارہ سامنے آ جاتا ہے۔
پیر فیض علی فیضی صاحب جو کہ راول پنڈی محکمہ اوقاف کے ڈسٹرکٹ خطیب اور بریلوی مسلک کے تھے اور گکھڑ اور وزیر آباد کے درمیان داد والی خانقاہ کے گدی نشین کی حیثیت سے فوت ہوئے اور ہمارے تعلق دار حکیم محمد صادق صاحب مرحوم کے داماد تھے، ان کے پاس ایک دفعہ حضرتؒ نے مجھے ایک کام کی غرض سے بھیجا۔ میں عشا کے بعد ان کے ہاں پہنچا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ ان کی مسجد میں پہنچ کر خادم سے پوچھا تو اس نے کہا کہ فیضی صاحب اپنے گھر چلے گئے ہیں۔ ان کا گھر مسجد کے ساتھ بالائی منزل پر تھا۔ خادم نے کہا کہ اب ان سے ملاقات نہیں ہو سکتی، ان سے ملاقات صبح ہی ہوگی۔ میں نے خادم سے کہا کہ آپ یہ کاغذات فیضی صاحب کو ابھی پہنچا دیں اور مجھے آ کر بتا دیں کہ کاغذ ان تک پہنچ گئے ہیں تو میں چلا جاؤں گا۔ خادم نے کانپتے کانپتے کاغذات لیے، کیونکہ ڈسٹرکٹ خطیب ہونے کی وجہ سے فیضی صاحب خاصے بارعب تھے۔ اس نے جا کر کاغذات فیضی صاحب کو دیے تو میں نے دیکھاکہ خادم کے ساتھ ساتھ فیضی صاحب خود بھی سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے آ رہے ہیں اور سامنے آتے ہی کہنے لگے ’’اوئے میرا ویر آیا، میرے استا د دا پتر ایا‘‘ (میرا بھائی اور میرے استاد کا بیٹا آیا ہے)۔ فیضی صاحب کے اس انداز سے میں بھی حیران ہوا اور خادم بھی۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اوپر مکان میں لے گئے۔ اجنبی ماحول میں مجھے پریشانی تھی، لیکن میرے کمرے میں بیٹھتے ہی محترم جناب حکیم صادق صاحب مرحوم تشریف لے آئے۔ ان کو دیکھ کر میری پریشانی جاتی رہی، کیونکہ حکیم صاحب سے تو اکثر ملاقات ہوتی تھی۔ گکھڑ میں ان کا مطب تھا اور ہم انھی سے دوائی لایا کرتے تھے۔ وہ پیر کوٹ سے روزانہ آتے اور نمازیں بھی اکثر ہماری مسجد میں ادا فرماتے تھے۔ میرے لیے کھانا لایا گیا، پھر گرم دودھ لایا گیا۔ فارغ ہو کر حکیم صاحب مرحوم اور فیضی صاحب میرے پاس کافی دیر بیٹھے رہے۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے کہ میں نے حضرت صاحب سے چند کتابیں پڑھی ہیں۔ جو کتابیں پڑھی ہیں، وہ آج بھی کھولتا ہوں تو حضرت صاحب کی تقریر کانوں میں گونجتی ہے۔ ان کے پڑھانے کا انداز ہی نرالا تھا۔ میں رات وہیں رہا اور صبح ناشتے کے بعد واپس آیا۔
★ فرمایا کہ صرف سبق کا خیال نہ رکھا جائے بلکہ طالب علم کابھی خیال رکھا جائے۔ دوران سبق طلبہ کو دیکھا جائے کہ کہیں وہ کسی اور شغل میں تو مصروف نہیں۔ وقتاً فوقتاً کسی طالب علم سے اپنی بات دہرانے کا کہا جائے تاکہ طلبہ سبق کی جانب ہی متوجہ رہیں اور طالب علم سے پوچھا جائے کہ بات سمجھ میں آ گئی ہے یا نہیں۔ اگر اس کی سمجھ میں بات نہ آئی ہو تو دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ اگر طالب علم کوئی اشکال پیش کرے یا کوئی اعتراض کرے تو اس کے اعتراض کو غور سے سنا جائے اور جواب دیا جائے۔ اگر جواب ذہن میں نہ ہو تو پھر بتانے کا کہہ دیا جائے یا اس کو کہہ دیا جائے کہ کسی اور استاد سے پوچھ لو یا کسی کتاب کا حوالہ دے دیا جائے کہ اس کتاب میں دیکھ لو۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے سبق میں کسی طالب علم کو مجال نہ ہوتی تھی کہ وہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔ حضرت کی نظر ہر طرف گھومتی تھی۔ کوتاہی کے مرتکب کو مناسب تنبیہ فرماتے۔ دورۂ حدیث کے علاوہ باقی اسباق میں طلبہ کو اپنی بات دہرانے کا حکم فرماتے اور غلطی پر اصلاح فرماتے اور جب محسوس فرماتے کہ طلبہ کو بات سمجھ میں نہیں آئی تو دوبارہ سمجھاتے۔ بعض دفعہ سمجھانے کا انداز بھی بدل دیتے۔ طالب علم کا اعتراض انتہائی توجہ سے سنتے اور عادت یہ تھی کہ جب کوئی طالب علم اعتراض کرتا تو حضرت اپنا سر نیچے جھکا لیتے اور پورے غور سے اس کی بات سنتے۔ جب وہ بات کر رہا ہوتا تو اس کی جانب نہیں دیکھتے تھے تاکہ وہ جھجھک محسوس نہ کرے۔ جب طالب علم اپنا اعتراض مکمل کر لیتا تو پھر مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتے۔
مولوی محمد عقیل قریشی صاحب اور مولوی نور حسین صاحب حضرت سے شرح عقائد پڑھتے تھے اور مولوی محمد عقیل صاحب نے صبح جو عبارت پڑھنی ہوتی تھی، وہ رات کو راقم الحروف کے پاس درست کر لیتے۔ جب جزء لا یتجزی کی بحث آئی تو میں نے مولوی محمد عقیل صاحب سے کہا کہ حضرت سے پوچھنا کہ آج کی سائنس نے ایٹم کو توڑ کر جزء لایتجزی کا نظریہ باطل کر دیا ہے۔ پھر مجھے بتایا کہ حضرت نے کیا جواب دیا ہے۔ مولوی صاحب موصوف بڑے خوش ہوئے کہ میں صبح حضرت سے اعتراض کر کے اس کا جواب پوچھوں گا۔ جب سبق میں عبارت پڑھ لی گئی اور حضرت نے اس کے مطابق تقریر فرما لی تو مولوی محمد عقیل صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بڑے پرجوش انداز میں کہا کہ حضرت! یہاں اعتراض واقع ہوتا ہے۔ تو حضرات نے اپنی عادت کے مطابق سر نیچے جھکا لیا اور اعتراض سننے کے لیے کان لگا دیے۔ کافی دیر گزر گئی مگر مولوی صاحب کچھ نہ بولے تو حضرت نے سر اٹھایا اور فرمایا ’’سنگیا ، کیہہ اعتراض ای، بولدا کیوں نئیں؟‘‘ (دوست، کیا اعتراض ہے، بولتے کیوں نہیں؟) تو مولوی صاحب نے اپنی ہندکو زبان میں کہا کہ ’’مکو بسر گیا اے‘‘ (مجھے بھول گیا ہے)۔ یہ سن کر حضرتؒ بھی اور سارے طلبہ بھی ہنس پڑے۔
دورۂ حدیث کے طلبہ اکثر تحریر کے ذریعے سے سوالات کرتے تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ جو اعتراض وسوال سبق سے متعلق ہوتا، اس کا جواب دے دیتے اور جو کسی دوسری بحث سے متعلق ہوتا تو فرما دیتے کہ یہ بات اپنے مقام پر آ جائے گی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت اپنے سبق میں طالب علم کو کس طرح سوال کا حق دیتے تھے۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا حافظہ غضب کا تھا۔ طلبہ کے تعلیمی دور کے بعض واقعات بھی ان کو یاد دلایا کرتے تھے۔ ایک مولوی صاحب نے بتایا کہ ہم مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھتے تھے تو ہمارا ہدایہ اول کا سہ ماہی امتحان حضرت کے پاس رکھا گیا۔ میں نے عبارت پڑھی، ترجمہ کیا ۔ اس میں یہ عبارت بھی تھی کہ ’اتی سباطۃ قوم‘ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کی کوڑی (کوڑا کرکٹ کے ڈھیر) کے پاس گئے۔ میں نے اس کا ترجمہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سباطہ قوم کے پاس آئے۔ حضرت نے پوچھا کہ سباطہ کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ یہ قوم کا نام ہے تو حضرت نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ وہ قوم کہاں آباد ہے؟ حضرت کے انداز سے اور ساتھ والے ساتھی کے کہنی مارنے سے مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ اس واقعہ کو بارہ سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ گکھڑ میں حضرت سے ملاقات کے لیے آیا تو حضرت نے پوچھا کہ کون سے اسباق پڑھاتے ہو؟ میں نے کہا کہ آج کل میرے پاس مختصر المعانی، مقامات حریری اور ہدایہ اول وغیرہ کتابیں ہیں۔ تو فرمانے لگے کہ اب تو آپ کو معلوم ہو گیا کہ سباطہ قوم کہاں آباد ہے۔ میں شرمندہ بھی ہوا اور مجھے حضرت کے حافظہ پر تعجب بھی ہوا۔
حضرت مولانا عبد المہیمن رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت سے گکھڑ میں بھی پڑھتے رہے اور نصرۃ العلوم میں بھی پڑھا اور پھر کچھ عرصہ مدرسہ نصرۃ العلو م میں مدرس بھی رہے (چند سال قبل ہری پور میں وفات پائی) انھوں نے اپنا واقعہ بیان فرمایا کہ جب ہم حضرت سے پڑھتے تھے تو ایک حدیث ’من سکن البادیۃ فقد جفا‘ سبق میں آئی، جس کامطلب یہ ہے کہ جس نے دیہاتی زندگی اختیار کی، اس نے زیادتی کی۔ حضرت نے اس کا مفہوم بیان فرمایا مگر میں نے سوال کیا کہ شہری زندگی کی بہ نسبت تو دیہاتی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ ہوا خوش گوار، تازہ سبزی اور ہر جانب سبزہ، تو اس کے باوجود دیہاتی زندگی کو جفا کیوں کہا گیا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ دیہاتوں میں تعلیم کے مواقع، علاج معالجہ کی سہولتیں اور ضروریات زندگی کے اسباب کم پائے جاتے ہیں، اس لیے اس کو جفا فرمایا گیا ہے۔ وقتی طور پر میں خاموش تو ہو گیا مگر تسلی نہ ہوئی۔ اس کو حضرت نے بھی محسوس کر لیا۔ تقریباً بائیس سال کے عرصہ کے بعد یہ واقعہ پیش آیا کہ حکومت نے کرنسی نوٹ تبدیل کر دیے۔ میں اس وقت اپنے علاقہ تربیلہ کے ایک دیہات میں ایک مسجد کا امام تھا اور وہیں بعض طلبہ کو پڑھا تا تھا۔ مجھے اس سلسلے میں کچھ خبر نہ ہوئی اور حکومت کی مقرر کردہ میعاد ختم ہو گئی۔ میں نے اپنی ہنگامی ضروریات اور اپنی رہایش کی تعمیر کے لیے کچھ رقم جمع کر رکھی تھی۔ اچانک میں انھی دنوں ہری پو ر آیا تو معلوم ہوا کہ نوٹ تبدیل ہو چکے ہیں اور پرانے نوٹوں کی حیثیت اب کاغذ سے زیادہ نہیں رہی۔ مجھے اس پر بڑا افسوس ہوا مگر تقدیر سمجھ کر صبر کیا۔ اس واقعہ کے بعد گکھڑ حضرت کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو حضرت نے حالات معلوم کیے اور میں نے اس دوران نوٹ ضائع ہو جانے کا واقعہ بھی بیان کیا۔ حضرت فرمانے لگے کہ نوٹ ضائع ہونے پر افسوس تو ہے مگر آپ کو ’من سکن البادیۃ فقد جفا‘ کا مفہوم تو خوب سمجھ آ گیا ہوگا۔ مولانا عبد المہیمن صاحب فرماتے تھے کہ میں اتنا زور سے ہنسا کہ حضرت کی موجودگی کا بھی احساس نہ رہا۔ حضرت کے اس ایک جملہ نے میری ساری پریشانی دور کر دی اور میں سوچنے لگاکہ شاید اللہ تعالیٰ نے حدیث کا مفہوم سمجھانے کے لیے ہی مجھے اس آزمایش میں ڈالا۔
★ فرمایا کہ ہر روز نہیں تو ہفتہ میں ایک دفعہ طلبہ سے پچھلا پڑھا ہوا سبق ضرور سننا۔ دورۂ حدیث کے علاوہ حضرت کے پاس جو اسباق ہوتے تھے، ان میں حضرت کا معمول یہ تھا کہ روزانہ پچھلے سبق کی کوئی نہ کوئی بات ضرور کسی طالب علم سے پوچھتے اور جمعرات کو ہفتہ بھر کے پڑھے ہوئے اسباق کو سنا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک طالب علم سے فرمانے لگے کہ یہ سمجھو کہ تم مدرس ہو اور طلبہ کو پڑھا رہے ہو تو بتاؤ یہ سبق کیسے پڑھاؤ گے۔ یہ کہہ کر عبارت اس کے سامنے رکھ دی اور خود سر جھکا کر کان اس کی طرف لگا دیے۔ اس نے اس عبارت کی بہترین انداز میں وضاحت کی تو حضرت نے اس کو انعام بھی دیا اور اس کے حق میں دعا بھی فرمائی۔ حضرت اچھی کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو اپنے پاس سے انعام بھی دیا کرتے تھے۔
★ فرمایا کہ اسباق کا تسلسل قائم رکھنا، ناغوں سے تسلسل قائم نہیں رہتا جس سے طلبہ کا نقصان ہوتا ہے۔ حضرت بلاوجہ ناغہ کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور خود معمول یہ تھا کہ جب تک صحت تھی، سال بھر میں ایک ناغہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ بعض قریبی علاقے کے اہم رشتہ داروں کی وفات پر جنازہ کا ایسا وقت مقرر کرنے کا فرماتے جس کی وجہ سے سبق کا ناغہ نہ ہو۔ خود فرماتے تھے کہ عموماً میں گکھڑ اپنی مسجد میں درس دے کر صبح کے وقت ریل گاڑی پر گوجرانوالہ پہنچتا۔ اگر ریل گاڑی نکل گئی ہوتی تو بس پر پہنچتا۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوتا کہ اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بس کے پیچھے سیڑھی پر کھڑے کھڑے سفر کرنا پڑتا اور اڈے سے کبھی پیدل اور کبھی تانگے پر مدرسہ پہنچتا۔ سخت بارش میں بھی ناغہ نہ ہوتا۔ شلوار اٹھائے ایک ہاتھ میں بوٹ اور ایک ہاتھ میں چھتری پکڑے مدرسہ میں داخل ہوتا تو طلبہ حیرا ن رہ جاتے۔
★ فرمایا کہ بوقت ضرورت اگر اردو شرح دیکھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں مگر اردو شروحات پر مکمل بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بزرگوں نے عربی وفارسی میں کتابوں پر جو حواشی لکھے ہیں، ان سے اور ان کتابوں کی شروحات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ آئندہ سال جو اسباق لینے کا ارادہ ہو، ان کتابوں کا سالانہ چھٹیوں میں ضرور مطالعہ کر لینا چاہیے تاکہ آسانی ہو جائے۔ جس دور میں حضرت فنون کی کتابیں پڑھاتے تھے، اس دور میں تو اردو شروحات کا رواج ہی نہ تھا۔ یہ تو قریب زمانے میں شروع ہوا ہے۔ حضرت کتابوں کے حواسی کے ساتھ ساتھ زیادہ تر اپنے اساتذہ کی تقریر کو ملحوظ رکھتے تھے جو انھوں نے دوران تعلیم سنی ہوتی تھیں۔ اپنے تمام اساتذہ کے قدر دان تھے مگر فنون میں حضرت مولانا محمد اسحاق رحمانی رحمۃ اللہ علیہ، جن سے وڈالہ سندھواں میں پڑھا، مولانا غلام محمد لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ جن سے جہانیاں منڈی میں پڑھا اور حضرت مولانا عبد القدیر کیمبل پوری رحمۃ اللہ علیہ جن سے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں پڑھا، ان حضرات کے تدریسی انداز سے بہت متاثر تھے اور اکثر تعریف کیا کرتے تھے۔
★ جب راقم الحروف نے اپنے تدریسی دور کا آغاز کیا تو پہلے ہی سال میرے پاس پڑھنے والی کلاس میں میرے برادر عزیز عبد الحق خا ن بشیر سلمہ اور اس سے اگلے سال برادران عزیز قاری حماد الزہراوی سلمہ اور مولوی رشید الحق خان عابد سلمہ شامل تھے۔ مجھے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے خصوصیت سے تلقین فرمائی کہ باقی طلبہ کی بہ نسبت اپنے عزیزوں پر کنٹرول زیادہ رکھنا اور ان سے نرمی کا مظاہرہ نہ کرنا تاکہ ان کا مزاج بھی نہ بگڑے اور دوسرے طلبہ کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ جو بات حضرت نے مجھے فرمائی، میں نے اپنی عملی زندگی میں مشاہدہ کیا کہ حضرتؒ خود بھی اس پر سختی سے کاربند تھے۔ ہم تمام بھائیوں نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کی۔ باقی طلبہ سے درگزر کا معاملہ ہو جاتا تھا، مگر ہمارے لیے درگزر حضرت کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔
میں ۱۹۶۸ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخل ہوا۔ میرے ہدایۃ النحو کی کلاس کے اسباق تھے جبکہ برادر محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی دام مجدہم کے آخری سال تھے۔ برادر محترم دوران تعلیم بھی خاصے متحرک اور جمعیۃ علماے اسلام کے فعال کارکن تھے۔ دور دراز کے سفر بھی کرتے مگر صبح جنرل حاضری میں ضرور حاضر ہو جاتے تھے جو حضرت رحمۃ اللہ علیہ خود لیا کرتے تھے۔ اگر ہم میں سے کوئی کسی وجہ سے کسی دن حاضر نہ ہو سکتا تو اگلے دن تمام طلبہ کے سامنے ہمیں کھڑا کر کے پوچھا جاتا کہ کل کہاں تھے؟ اس رسوائی سے بچنے کے لیے جرات ہی نہیں ہوتی تھی کہ غیر حاضری کی جائے۔ اسی طرح ہمارے جو اسباق حضرت کے پاس ہوتے تھے، ان میں اسباق سننے یا امتحان کے طور پر کوئی بات پوچھنے میں ہمیں ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا تا تھا، بلکہ بعض اوقات یہ سلسلہ ہم سے ہی شروع کیا جاتا تھا اور کوتاہی پر ساری جماعت کے سامنے ہماری صاحب زادگی کو یوں نچو ڑدیا جاتا کہ ایک بوند بھی ہمارے اندر نہ رہی۔
ایک بزرگ جنھوں نے اپنی زندگی میں تقریباً پچاس سال تدریس کے فرائض سرانجام دیے، انھوں نے ایک موقع پر گفتگو کے دوران فرمایا کہ آج کل طلبہ میں تعلیمی کمزوری کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب صاحبزادگی بھی ہے کہ صاحب کی جانب سے مدرس کو آرڈر آجاتا ہے کہ صاحب زادہ صاحب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صاحب زادہ صاحب کلاس کے آداب وشرائط سے مستثنیٰ قرار پاتے ہیں جس کا اثر دیگر طلبہ پر بھی پڑتا ہے اور مدرس بھی بد دل ہو جاتا ہے اور بددلی کے ساتھ پڑھائے گئے اسباق کا نتیجہ وہ نہیں نکلتا جو نشاط قلب کے ساتھ پڑھانے کا ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ طریق کار رہا ہے کہ وہ جب اپنے بچوں کو کسی مدرس کے سپرد کرتے تو اس کو ذمہ داری کا احساس دلاتے تھے کہ اب اس کی تعلیم اور اس کے اخلاق سنوارنے کی ذمہ داری تم پر ہے۔ سختی اور نرمی کا اختیار مدرس کو ہی ہوتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب گکھڑ میں استاد محترم قاری محمد انور صاحب دام مجدہم کا شعبہ حفظ میں تقرر ہوا اور ہم پہلی دفعہ حضرت قاری صاحب سے پڑھنے کے لیے گئے تو اتفاق سے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ صبح کے درس سے فارغ ہو کر مسجد سے نکل رہے تھے تو مجھے دیکھ لیا۔ پھر مجھے بازو سے پکڑ کر قاری صاحب کے پاس لے گئے اور فرمایا کہ مجھے اس کے چمڑے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پڑھائی کی ضرورت ہے۔ حضرت قاری صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ منظر مجھے آج بھی یاد ہے او رکئی دفعہ حضرت قاری محمد انور صاحب دام مجدہم نے بعد میں بھی اس کا ذکر فرمایا۔ پھر حضرت قاری صاحب دام مجدہم نے ہمارے چمڑے کی نہیں بلکہ ہماری پڑھائی کی ایسی فکر کی کہ اب وہ ہم جیسے نالائق شاگردوں پر مسجد نبوی میں چھتری کے سایے میں بیٹھ کر اپنے دوستوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب دام مجدہم کا سایہ صحت وعافیت کے ساتھ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
گھر میں تعلیمی سلسلہ
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے گھر کو بھی شروع ہی سے مدرسہ بنا رکھا تھا جو محض رضاے الٰہی کے لیے تھا۔ گکھڑ کے چھوٹے بچے اور بچیاں قاعدہ، ناظرہ اور حفظ قرآن کریم کے لیے آتے تو ان کی تعلیم کی ذمہ داری محترمہ والدہ مرحومہ سرانجام دیتی تھیں۔ گکھڑ کے سیکڑوں حضرات وخواتین نے انھی سے قرآن کریم پڑھا ہے۔ ان میں سے بہت سے اعلیٰ عہدوں پرفائز ہوئے اور بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں کہ ہم نے بڑے خالہ جی سے پڑھا ہے۔ جو بچیاں ترجمہ قرآن کریم یا کتابیں پڑھنا چاہتیں تو ان کو حضرت رحمۃ اللہ علیہ خود پڑھاتے تھے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے اسباق پڑھا کر گھر تشریف لے جاتے تو ظہر سے مغرب تک یہ تعلیمی سلسلہ جاری رہتا۔ اس دوران حضرت مطالعہ بھی فرماتے اور تحریری سلسلہ بھی جاری رہتا اور طالبات کو بھی پوری توجہ سے تعلیم دیتے۔ اتنی ذمہ داریو ں کو نبھانا حضرتؒ ہی کی ہمت تھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو مرحمت فرمائی تھی۔
ہماری بڑی ہمشیرہ محترمہ نے میزان الصرف سے بخاری شریف تک تمام کتابیں حضرت سے پڑھی ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر طالبات میں وہ خاتون بھی تھی جو آج مولوی خان محمد صاحب کی اہلیہ اور مفتی محمد طیب صاحب کی والدہ محترمہ ہیں۔ ہماری چھوٹی بہنوں نے بھی کئی کئی سال حضرت سے پڑھا اور گکھڑ کی بے شمار لڑکیوں نے حضرت سے پڑھا جن میں خصوصیت کے ساتھ محترم جناب منیر احمد شاہ صاحب مرحوم کی بیٹی اور اس کی ہم سبق طالبات اور محترم جناب صابر شاہ صاحب کی بیٹی اور اس کی ہم سبق طالبات نمایاں ہیں جنھوں نے اول سے آخر تک مکمل کتابیں حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں اور اب وہ پڑھا رہی ہیں۔ جن طالبات نے حضرتؒ سے پڑھا، وہ بڑے وثوق واعتماد سے آج فقہ، ادب، لغت اور حدیث کی کتابیں پڑھا رہی ہیں۔ حضرتؒ سے پڑھنے والی ایک خاتون محترمہ اقبال بیگم صاحبہ جو محترم جناب صوفی تاج دین صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں، انھوں نے حضرت سے ترجمہ قرآن کریم اور حدیث کی چند کتابیں پڑھیں او رپھر محکمہ تعلیم سے اعلیٰ ڈگری حاصل کر کے کالج میں پڑھاتی رہیں۔ انھوں نے کئی دفعہ اس کا اظہار کیا کہ مجھ سے زیادہ ڈگریاں حاصل کرنے والی اور سینئر معلمات بھی جب مجھے قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث پڑھاتے سنتی ہیں تو تعجب سے پوچھتی ہیں کہ تم نے کس سے پڑھا ہے؟ تو میں بڑے فخر سے کہا کرتی ہوں کہ میں نے اپنے استاذ محترم مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر سے پڑھا ہے۔ یہ وہی خاتون ہیں جن کے شوہر رانا محمد اقبال نے اپنی وزارت کے دنوں میں جامع مسجد نور کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کی کوشش کی تھی۔
مجھ پر خصوصی نوازش
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی طبیعت عطا فرمائی تھی کہ ہر قرابت دار یہ سمجھتا کہ حضرت کو مجھ سے ہی زیادہ تعلق اور لگاؤ ہے اور ہر طالب علم اور طالبہ یہ سمجھتے کہ ہم نے ہی حضرت سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ اسی خوش فہمی میں، میں بھی مبتلا ہوں۔ میں نے جب حفظ مکمل کر لیا تو چند ماہ بعد رمضان المبارک آ گیا اور حضرت استاد محترم قاری محمد انور دام مجدہم کے حکم سے میں نے مسجد شاہ سلیمان گکھڑ میں نماز تراویح میں ایک حافظ صاحب کا قرآن کریم سننا شروع کیا تو وہ بے چارہ چوتھے پارے میں ہی بے بس ہو گیا اور آگے سنانے سے انکار کر دیا۔ مسجد کی انتظامیہ نے مجھے آگے کھڑا کر دیا تو میں نے اس رات چھ رکعتیں پڑھائیں۔ اب مسجد کے نمازیوں نے اصرار کیا کہ باقی دنوں کی تراویح بھی تم ہی پڑھاؤ۔ میں نے کہا کہ ابا جی سے پوچھ لیں۔ اگر انھوں نے اجازت دی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ صبح حاجی محمد صادق صاحب مرحوم سمیت نمازیوں کا ایک وفد حضرت کے پاس گیا تو حضرت نے ڈائری نکالی اور میری تاریخ پیدایش دیکھی تو فرمایا کہ یہ چاند کے حساب سے تو بارہ سال کا ہو چکا ہے مگر شمسی حساب سے تین ماہ کم ہے۔ مجھ سے پوچھا کہ کیا تم بالغ ہو؟ تو میں بالکل چپ رہا اور کوئی جواب نہ دیا۔ پھر حضرت نے ایک دو کتابیں دیکھ کر ان حضرات سے فرمایا کہ اگر تمہارا اصرار ہے تو یہ تراویح پڑھا دیا کرے لیکن فرض نماز اور وتر پڑھانے میں احتیاط کرے۔ جب میں نے تراویح میں قرآن کریم مکمل سنا دیا تو حضرت کو میری منزل کے بارے میں اطمینان ہو گیا اور حضرت قاری محمد انور صاحب دام مجدہم نے بھی اطمینان دلایا تو رمضان المبارک کے بعد مجھے گکھڑ میں ہی قاری کلاس میں داخل کرا دیا گیا۔
قاری کلاس میں دو انتہائی محنتی اساتذہ کا تقرر کیا گیا تھا۔ تجوید کے اسباق حضرت مولانا قاری عبد الحلیم سواتی دام مجدہم اور درس نظامی کے اسباق حضرت مولانا غلام علی اعوان رحمۃ اللہ علیہ فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ پڑھاتے تھے۔ حضرت والد صاحب نے مجھ پر پابندی لگا دی کہ ہر روز مغرب کی نماز کے بعد تم میری بیٹھک میں بیٹھ کر سبق یاد کیا کرو گے اور ایک دو زائد سبق مجھ سے پڑھا کرو گے۔ ابتدا میں حضرت نے مجھے میزان الصرف شروع کرائی اور گردانیں یاد کرانے کا یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ مجھے سلیٹ لے کر دی اور فرماتے کہ جو گردان پڑھی ہے، اس کو یاد کر کے کتاب بند کر کے زبانی سلیٹ پر لکھ کر مجھے دکھاؤ اور خود اپنے مطالعہ میں مصروف ہو جاتے۔ کبھی کبھی مخفی نظر سے دیکھتے کہ کہیں یہ کتاب سے دیکھ کر تو نہیں لکھ رہا۔ جب میں گردان لکھ کر لے جاتا تو دیکھ کر فرماتے کہ اس کو مٹا کر دوبارہ لکھ کر لاؤ، حتیٰ کہ بعض دفعہ بیس سے بھی زائد دفعہ لکھنا پڑتا۔ جوں جوں سبق آگے بڑھتا، سلیٹ پر لکھائی بھی زیادہ ہوتی جاتی۔ جب میزان الصرف کی تمام گردانیں یاد ہو گئیں اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے سن لیں تو پھر صیغوں کی باری آئی کہ فلاں گردان کا فلاں صیغہ اور فلاں گردان کا فلاں صیغہ لکھ کر لاؤ۔ بیک وقت چھ سات صیغے لکھا دیتے اور میں سامنے کرسی پر بیٹھ کر سوچ سوچ کر وہ صیغے لکھ کر لاتا۔ درست ہوتا تو خوش ہوتے اور غلطی ہوتی تو اصلاح فرما دیتے۔ پھر اسی طریقے سے دستور المبتدی پڑھائی اور پھر نحو میر پڑھائی۔
اجرا کا یہ انداز اختیار فرماتے کہ سامنے پڑی کسی کتاب کا صفحہ نکال کر فرماتے کہ اس صفحہ میں مرکب اضافی، غیر منصرف اور جمع سالم وغیرہ دیکھ کر بتاؤ۔ اسی طرح باقی مسائل سے متعلق ہوتا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی اور میں جملوں کا تعین کر کے اور دیگر باتوں کا تعین کر کے بتاتا۔ اس طرح ابتدائی صرف ونحو میں مجھے ایک قسم کا اعتماد پیدا ہو گیا۔ جب میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخل ہو گیا تو ابتدائی دو سال روزانہ گکھڑ چلا جاتا تھا اور رات کو حضرت کی بیٹھک میں ہی مجھے پڑھنا ہوتا تھا۔ بعض دفعہ کوئی کتاب دے کر فرماتے کہ اس صفحہ میں جو جملے شرطیہ ہیں، ان میں شرط اور جزا کا تعین کرو اور کبھی یوں ہوتا کہ فرماتے کہ بتاؤ ، اس عبارت میں پہلا جملہ کہاں ختم ہوا ہے اور دوسرا جملہ کہاں سے شروع ہوا ہے۔ میں اس کا اتنا عادی ہو گیا کہ مجھے اس انداز سے دلچسپی پیدا ہو گئی اور جی چاہتا تھا کہ مجھ سے اس جیسے مزید سوال کیے جائیں۔ میں نے فقہ میں مالابد منہ قاری کلاس میں پڑھی تھی۔ جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے نور الایضاح پڑھی تو ہر پانچ سات صفحات کے بعد حضرت میرا امتحان یوں لیتے کہ جو مسئلہ نور الایضاح میں بیان کیا گیا ہے، اگر وہ مسئلہ مالابد منہ میں بھی ہے تو نور الایضاح کی عربی عبارت اور مالابد منہ کی فارسی عبارت لکھ کر لاؤ ۔ اس کے لیے مجھے ایک دن کا وقفہ بھی دیا جاتا تھا۔ میں دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر عبارتیں لکھ کر پیش کر تا جو اکثر ٹھیک ہی ہوتی تھیں تو بڑے خوش ہوتے تھے۔ غلطی پر اصلاح فرما دیتے۔ اس سے مسائل کی جانب توجہ کے ساتھ ساتھ میری لکھائی بھی کافی حد تک درست ہو گئی۔
میں نے حضرت والد صاحبؒ سے ترجمہ وتفسیر قرآن کریم تقریباً پانچ دفعہ پڑھا۔ بخاری شریف مکمل، ترمذی شریف از اول تا کتاب البیوع، شرح نخبۃ الفکر، شرح عقائد، خیالی، سراجی، ہدایۃ النحو، شرح تہذیب، اصول الشاشی، نفحۃ العرب، نورالایضاح، علم الصیغہ، میزان الصرف، دستور المبتدی، تعریف الاشیاء اور نورانی قاعدہ ویسرنا القرآن کا کچھ حصہ پڑھا ہے۔ سراجی پڑھنے کے دوران اس کی شرح شریفیہ کا مطالعہ مجھ پرلازم قرار دیا۔ میں نے کئی دفعہ سراجی اسی انداز میں پڑھائی۔ اب جی چاہتا ہے کہ طلبہ کے فائدہ کی خاطر اس انداز میں سراجی کی شرح کر دی جائے، مگر وقت اور صحت اجازت نہیں دے رہے۔ شرح تہذیب میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اپنی جماعت کے ساتھ مل کر حضرت مولانا مفتی جمال احمد رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی تھی مگر تسلی نہ تھی۔ سالانہ چھٹیوں میں حضرت سے دوبارہ پڑھی۔ حضرت نے فن منطق سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے مجھے پہلے تعریف الاشیاء یاد کرائی جس میں علم منطق کی تمام اصطلاحات اور ان کی تعریفات ذکر کی گئی ہیں۔ پھر اس کے بعد مجھے تقریباً ڈیڑھ ماہ میں شرح تہذیب مکمل کرا دی اور پھر مجھ سے مکمل سنی۔
بخاری شریف اور ترمذی شریف میں انداز
جو حدیث پہلی مرتبہ آتی تو اس کا ترجمہ فرما دیتے اور جب وہی حدیث دوبارہ آتی تو فرما دیتے کہ یہ فلاں باب میں گزر چکی ہے۔ اگر کوئی جملہ یا کوئی لفظ نیا آتا تو اس کا ترجمہ فرما دیتے۔ امام بخاریؒ کے تراجم ابواب میں ان کے فقہی نظریہ کی وضاحت فرماتے اور اس کے تحت ذکر کی گئی حدیث کی باب سے مطابقت ذکر فرماتے اور حدیث کے متعلق فقہی، اصول حدیث اور ادب کے اعتبار سے مناسب بحث فرماتے۔ ابتدا سے اختتام تک ایک ہی انداز ہوتا تھا۔ بخاری شریف کی ابتدا میں ہی فرما دیتے کہ بھائی، وقت تھوڑا ہونے کی وجہ سے ہر باب کی مکمل بحث تو نہیں کی جا سکتی اور میں یہ بھی مناسب نہیں سمجھتا کہ چند ابحاث پر تفصیلی بحث کر دی جائی اور باقی ابحاث کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے، اس لیے طلبہ کی ضرورت کے مطابق ہر باب کی مناسب بحث کی جائے گی۔
بخاری شریف پڑھاتے وقت اس کا حاشیہ جو ابتدائی پچیس پاروں کا حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اور آخری پانچ پاروں کا قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے، اس کو حضرت خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھتے اور طلبہ کو بھی اس کے مطالعہ کی تلقین فرماتے۔ اس کے ساتھ بخاری کی شروحات میں سے علامہ کرمانی، علامہ قسطلانی، علامہ ابن حجر اور علامہ عینی رحمہم اللہ کی شروحات کے حوالہ جات اکثر دیتے اور بعض دفعہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوریؒ کی عبارات کابھی حوالہ دیتے۔ بخاری شریف میں فن حدیث اور ترمذی شریف میں فقہی ابحاث کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔ اپنے نظریہ کی مدلل بحث اور مخالف نظریہ کے جوابات فریق مخالف کے مسلمات کی روشنی میں بیان فرماتے۔ برصغیر میں چونکہ احناف کے فریق مخالف غیر مقلد حضرات ہیں، اس لیے علامہ امیر یمانیؒ ، قاضی شوکانیؒ ، نواب صدیق حسن خانؒ ، مولانا نذیر حسین دہلویؒ او رمحدث مبارک پوریؒ کی عبارت پیش فرماتے تاکہ فریق مخالف پر حجت تام ہو جائے کہ ان کی مسلمہ شخصیات نے یہ فرمایا ہے۔ حضرتؒ کی تقریر ترمذی جو ’’خزائن السنن‘‘ کے نام سے مطبوعہ ہے، اس کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت نے انھی حضرات کے حوالہ جات بکثرت دیے ہیں۔
حضرت اپنی انفرادی رائے قائم نہیں کرتے تھے بلکہ سلف صالحین میں سے جس کی رائے کو دلیل کے لحاظ سے راجح سمجھتے، اسی کو اپناتے اور جمہور کی راے کو ترجیح دیتے تھے۔ اگر اہل علم میں سے کسی کی انفرادی رائے کسی مسئلے کے متعلق ہوتی تو اس کو تفرد قرار یتے اور فرماتے کہ تفردات کی اتباع درست نہیں ہے۔ کئی دفعہ حضرت سے سنا، فرماتے تھے کہ ہر عالم کی انفرادی رائے کو تفرد نہیں کہا جا سکتا، بلکہ ایسا عالم جو اپنے دور میں علمی لحاظ سے اس مقام پر ہو کہ اصول مسلمہ کی روشنی میں جدید مسائل میں اجتہاد اور فتویٰ کی اہلیت رکھتا ہو، اس کی انفرادی رائے کو تفرد کہا جا سکتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور علامہ انور شاہ کشمیریؒ جیسے حضرات اس کے اہل تھے۔ ہر مولوی کی انفرادی رائے کو تفرد کا نام نہیں دیا جا سکتا، ورنہ تو کسی مولوی کی مخالفت کی کوئی وجہ ہی نہیں رہتی۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش
حضرت کے خصوصی خدمت گاروں میں سے محترم جناب میر لقمان صاحب نے ایک دفعہ راقم الحروف کی موجودگی میں حضرت سے پوچھا کہ حضرت! آپ کی خواہش کیا ہے؟ تو فرمایا کہ میری ایسی حالت ہو جائے کہ میں دوبارہ پڑھانے کے قابل ہو جاؤں۔ علما کے ایک وفد سے باتیں کرتے ہوئے، جن میں مولانا محمد اسلم شیخوپوری مدظلہ بھی تھے، اپنی خواہش کا اظہار فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں میزان الصرف اور نحو میر وغیرہ ابتدائی کتابیں طلبہ کو پڑھاؤں۔ شدید بیماری کی حالت میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی اس خواہش سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت کو تدریس کے شعبہ سے کس قدر لگاؤ اور محبت تھی۔ یقیناًاس کی وجہ حضور علیہ السلام کا یہ فرمان مبارک ہے کہ علم کا فائدہ مرنے کے بعد بھی آدمی کو پہنچتا رہتا ہے اور جتنے لوگ اس علم کو پھیلائیں گے اور اس پر عمل کریں گے، مرنے والے کے نامہ اعمال میں اس کی نیکی لکھی جاتی رہے گی۔ حضرت کے چالیس ہزار کے لگ بھگ مرد اور سیکڑوں کی تعداد میں خواتین شاگرد ہیں۔ اس دور میں کسی عالم دین کے شاگردوں کی اتنی تعداد ملنا مشکل ہے۔ ان شاگردوں کے ذریعے سے پھیلنے والے علم کی وجہ سے ان شاء اللہ العزیز تاقیامت حضرت کا نامہ اعمال نیکیوں میں بڑھتا رہے گا اور ہر دم درجہ بدرجہ بلند ہوتا رہے گا۔
آخری سبق
علالت کے باعث کئی سال سے حضرت نے پڑھانا چھوڑ دیا تھا۔ فروری ۲۰۰۹ء کے آخری عشرے میں حضرت راقم الحروف کے ہاں تشریف لائے اور پانچ دن قیام فرمایا۔ اس دوران مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث شریف میں شریک طلبہ جن کی تعداد ایک سو کے قریب ہے اور ان میں راقم الحروف کے دو بیٹے عزیزم حبیب القدوس خان معاویہ اور عزیزم عبد الوکیل خان مغیرہ بھی شامل ہیں، ان کو گھر بلا کر بخاری شریف کا سبق پڑھایا۔ چند منٹ بیان فرمایا اور حدیث کی اجازت دی اور دعا بھی فرمائی۔ یہ حضرت نے طلبہ کی کلاس کو آخری سبق پڑھایا۔
اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے اور حضرت کے پس ماندگان کو ان کے مشن پر قائم رہتے ہوئے اس مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔