امامِ اہلِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کی پہلی دفعہ زیارت اس وقت ہوئی تھی جب میں دارالعلوم کبیر والا میں غالباً درجہ حفظ میں زیرِ تعلیم تھا۔ حضرت شیخ تقریب ختمِ بخاری کے موقع پر تشریف لائے تھے ۔ اس وقت چونکہ حضرت کا نام بھی پہلی دفعہ سنا تھا اور زیارت بھی پہلی دفعہ ہوئی تھی اور ساتھ ذہن بھی کچا تھا، اس لیے نہ تو حضرت کے چہرے کے نقوش ذہن میں رہے اور نہ باتیں یاد رہیں۔
۲۰۰۰ء میں جب میں نے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں تجوید میں داخلہ لیا تو اس وقت حضرت سے استفادہ کا موقع ملا اور قرآنِ مجید کے ابتدائی بیس پارے سماع کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا ۔ اس وقت واضح ہوا کہ حضرت کتنی بڑی شخصیت کے مالک ہیں۔ پھر جوں جوں حضرت کی خدمت میں رہنے اور استفادہ کرنے کا موقع ملتا رہا، توں توں عقیدت و محبت بھی بڑھتی گئی۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک روزانہ زیارت اور درس میں بیٹھنے کی سعادت اور کبھی کبھار جسم دبانے کا موقع بھی ملتا رہا۔ پھر زیادہ علیل ہونے کی وجہ سے آپ نے مدرسہ نصرت العلوم کو خیر باد کہہ دیا ۔
امام اہل سنت جتنی بڑی شخصیت کے مالک تھے، اس سے کہیں زیادہ ان کے اندر عاجزی و انکساری پائی جاتی تھی۔ سبق کے دوران جب کسی مسئلہ کی تحقیق کرتے تو ضروری وضاحت کے بعد فرماتے کہ تفصیل کے لیے میری فلاں کتاب کا مطالعہ کریں جس میں برصغیر پاک و ہند کے جید علماے کرام کی تقریظات موجود ہیں۔ پھر فرماتے کہ اس میں میر ا کیا کمال ہے، یہ سب میرے اکابرین کی برکات و ثمرات ہیں۔ اور فرماتے ’’ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ‘‘۔ اللہ اکبر! اتنی بڑی شخصیت اپنے لیے ایسے الفاظ و محاورات استعمال کرتی ہے۔
امامِ اہلِ سنت صرف ایک مدرس اور محقق نہیں بلکہ اپنے وقت کے بہت بڑے ولی اللہ بھی تھے۔ غالباً ۲۰۰۵ء میں روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے ہفتہ وار میگزین ’’بچوں کا اسلام‘‘ میں حضرت کے ایک شاگرد نے اپنے مضمون میں یہ واقعہ لکھا کہ ایک موقع پر وہ پندرہ شعبان کو ملاقات کی غرض سے حضرت کے ہاں حاضر ہوئے۔ جوں ہی کمرے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت زارو قطار رو رہے ہیں۔ انھوں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ روؤں نہ تو کیا کروں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، آج تک میرا پندرہ شعبان کا روزہ کبھی نہیں چھوٹا تھا، آج پہلی دفعہ چھوٹ گیا ہے۔ اس وقت تک حضرت پر فالج کے تین حملے ہوچکے تھے اور معا لجین نے روزہ رکھنے سے منع کیا تھا۔ ویسے بھی دو تین گھنٹے سے زیادہ بھوک برداشت نہیں کرسکتے تھے۔
غالباً ۹۸۔۱۹۹۷کی بات ہے۔ ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں مدرسہ کے ناظم صاحب نے صبح جنرل حاضری کے وقت حضرت کو پرچی دی کہ اکثر طلبہ کی فجر کی جماعت چھوٹ جاتی ہے اور کچھ طلبہ کی نماز بالکل رہ جاتی ہے ۔ حضرت نے فرمایا: لاحول ولا قوۃ الا با للہ۔ مسجد کے اندر رہ کر اور دین کے طالب علم ہوکر پھر بھی تمہاری جماعت چھوٹ جاتی ہے۔ پھر اپنا واقعہ سنایا کہ ۱۹۳۴ء میں جب میں مدرسہ انوار العلوم شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا توایک دفعہ میری فجر کی ایک رکعت چھوٹ گئی۔ میرے استاد محترم مولانا عبد القدیر صاحبؒ نے پوچھا کہ سرفراز، تیری ایک رکعت کیوں چھوٹ گئی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ رات دیر تک مطالعہ کرتا رہا، اس وجہ سے صبح آنکھ دیر سے کھلی اور رکعت چھوٹ گئی۔ اس پر استادِ محترم نے فرمایا کہ اس مطالعہ کا کیا فائدہ جس کی وجہ سے تمہاری رکعت چھوٹ جائے ! فرماتے تھے اس دن سے لے کر آج تک کبھی میری تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی۔ اللہ اکبر! اس سے بڑا ولی اور کون ہو سکتا ہے جس کی ساٹھ سال تک کبھی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی اور اپنے استاد کی نصیحت کو ایسا پلے باندھا کہ زندگی بھر رات کو عشا کے بعد جلدی سونے اور صبح تہجد کے وقت اٹھ جانے کا معمول رہا۔
وقت کی پابندی کے حوالے سے ایک لطیفہ بھی سنایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ استاد محترم حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب ؒ نے ایک دفعہ مجھے جامع مسجد شیر انوالہ باغ میں درس دینے کا حکم فرمایا۔ درس آدھ گھنٹے کا ہوتا تھا۔ میں نے جو مضمون شروع کیا تھا، وہ وقت سے دو منٹ پہلے ختم ہوگیا تو میں نے درس ختم کردیا۔ ایک آدمی فوراً بولا کہ ابھی وقت ختم ہونے میں دو منٹ باقی ہیں۔ میں نے ان کے دینی ذوق کو دیکھ کر دوسرا مو ضوع شروع کر دیا۔ جب وقت سے دو منٹ اوپر ہوئے تو وہ آدمی پھر بولا کہ دو منٹ اوپر ہو گئے ہیں۔
حضرت شیخ اپنے وقت کے صاحب کرامت ولی تھے اور ولیوں کی کرامات ہمارے نزدیک مسلم ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست مولانا محمد عیسیٰ صاحب، جو حضرت کے شاگردِ خاص بھی ہیں ، انہوں نے بار ہا یہ واقعہ مجھے سنایا کہ میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو استادِ محترم نے ہی بچے کا نام محمد داؤد تجویز فرمایا۔ بچہ بہت روتا تھا تو ایک دن اہلیہ نے کہا کہ یا تو خود کوئی تعویذ بنادو یا گکھڑ حضرت شیخ سے کوئی تعویذ بنو اکر لے آؤ۔ لیکن مصروفیت کی وجہ سے چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا اور حضرت کے پاس جانا نہ ہوا۔ اسی دوران میری مسجد کے ایک نمازی حضرت شیخ کی ملاقات کے لیے گئے تو حضرت نے ان کو ایک تعویذ لکھ دیا اور فرمایا کہ یہ مولوی عیسیٰ کو دے دو کہ بچے کے گلے میں ڈال دیں۔ اس صاحب نے تعویذ لا کر مجھے دے دیا کہ یہ حضرت شیخ نے دیاہے۔ شاید آپ نے کہا ہوگا۔ میں نے کہا کہ چھ ماہ سے میں حضرت کے پاس گیا ہی نہیں۔ ہاں، ہمارے گھر میں اس کا تذکرہ ضرور ہوتا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور اگلے دن میں حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تعویذ کا ذکر کیا تو فرمایا ہاں بھیجا تھا۔ یہ حضرت شیخ کی واضح کرامت تھی۔
امامِ اہل سنت اپنے وقت کے بہت بڑے معبر بھی تھے۔ یہ بات ہمیں سبق کے دوران آپ کے بھتیجے مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے بتلائی تھی، جبکہ بندہ اس سے پہلے خود اس کا مشاہدہ کر چکا تھا۔ غالباً ۲۰۰۰ء میں، میں نے خواب میں ایک بہت بڑا اور خوفناک سانپ دیکھا۔ وہ اتنا خوفناک اور جسیم تھا کہ اس کی دہشت کی وجہ سے میری زبان بند ہوگئی۔ صبح سارا خواب تحریر کرکے حضرت کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے تعبیر فرمائی کہ ’’سانپ کی تعبیر مال ہوتا ہے جس میں حقوق پورے ادا نہ کیے گئے ہوں۔ وقتاً فوقتاً آپ کو مال ملتا رہے گا۔‘‘ حضرت کی یہ تعبیر ہو بہو پوری ہوئی اور بندہ آہستہ آہستہ مالی لحاظ سے خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو غضب کا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ تدریس کے آخری سالوں میں فرمایا کرتے تھے کہ اب میرا حافظہ کمزور ہوچکا ہے، جوانی میں میرے حافظے پر لوگ رشک کیا کرتے تھے۔ تقریباً آٹھ نو برس صاحبِ فراش رہے۔ اتنی طویل علالت اور ضعف کے باوجود آپ کی یادداشت بالکل برقرار تھی۔ نظر کمزور ہونے کی وجہ سے پہچانتے نہیں تھے۔ جب تعارف کروایا جاتا تو فوراً پہچان لیتے، بلکہ جزئیات تک دریافت کرتے تھے۔ تقریباً دو سال قبل بندہ جماعت کے ساتھ گکھڑ گیا تو موقع کو غنیمت جانتے ہوئے امیر صاحب سے عرض کیا کہ سب ساتھیوں کی حضرت سے ملاقات کروائی جائے۔ امیر صاحب نے اجازت دی تو کچھ ساتھیوں کو لے کر میں حاضرِ خدمت ہوا۔ آپ نے اپنی عادت کے مطابق پوچھا ، کہاں سے آئے ہو، کیا نام ہے، کیا کرتے ہو ؟ میں نے عرض کیا تلونڈی کھجور والی سے آیا ہوں، جامع مسجد عثمانیہ (اونچا دارا)میں امامت خطابت کے فرائض سر انجام دیتا ہوں۔ حضرت نے فوراً پوچھا کہ وہاں ایک ماسٹر صادق صاحب ہوتے ہیں۔ میں نے کہا وہ بھی یہاں جماعت کے ساتھ (بحیثیت امیر) آئے ہوئے ہیں، تھوڑی دیر تک آپ کے پاس ملاقات کے لیے آرہے ہیں ۔ حضرت کی اس بات سے مجھے بہت حیرت ہوئی کہ آپ اس وقت تک اپنے تمام متعلقین سے کس قدر باخبر ہیں۔
ویسے تو حضرت شیخ کی طبیعت میں جمال کی صفت غالب تھی، مگر کبھی کبھی جلال بھی طاری ہوتا تھا۔ اس وجہ سے کبھی کبھار طلبہ کو ناپسندیدہ حرکات پر ڈانٹ بھی پلاتے تھے اور خصوصاً غیر حاضری پر سخت ناراض ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت دوران سبق تعویذ لینے کے لیے آئی تو حضرت نے تعویذ لکھ کر دے دیا۔ عورت نے پرہیز پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال بنائی ہیں، وہ سب کھاؤ اور حرام کے قریب نہ جاؤ۔ مگر عورت نے دوبارہ سہ بارہ یہی سوال دہرایا تو آپ نے جلال میں آکر فرمایاکہ بی بی میرا دماغ نہ کھاؤ، باقی سب کچھ کھاؤ۔
موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کسی ذی روح کو مفر نہیں۔ جو بھی اس دنیا میں آیا، جانے کے لیے آیا، مگر کچھ جانے والے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان کی یادیں ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ کچھ جانے والے اپنے پیچھے چند افراد کو سوگوار اور یتیم چھوڑ جاتے ہیں مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پیچھے ایک پورا عالم سوگوار اور یتیم ہوجاتا ہے۔ امامِ اہلِ سنت کی شخصیت بھی انہی میں سے ایک تھی۔ حضرت کے جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت اور ہزاروں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھ کر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک شخص لاکھوں کو یتیم کر گیا۔