یوں تو ہر دور میں علماے امت نے دین کی تعلیم وتعلم کے شعبے میں مثالی خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن عالم اسلام اور بالخصوص برصغیر پاک وہند میں اللہ تعالیٰ نے دار العلوم دیوبند سے جو کام لیا، اس کی شان ہی نرالی ہے۔ بانی دار العلوم حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ سے لے کر دور حاضر کے اکابر علماے دیوبند تک ایسے علما کی ایک طویل فہرست ہے جو صحیح معنی میں حضرات انبیا کے وارث کہلانے کے مستحق ہیں۔ دار العلوم دیوبند کی کہکشاں کے انھی ستاروں میں درخشاں ستارہ امام اہل سنت، محدث العصر حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدر کی ذات گرامی بھی ہے جن کی شخصیت عالم اسلام اور بالخصوص دینی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ حضرت نے ستر سال تک دینی علوم کی تدریس کی اور چالیس سال مسند حدیث پر بیٹھ کر طلبہ دین کے سینوں کو علم حدیث سے منور کیا۔ آپ نے اہم دینی، علمی اور نظریاتی عنوانات پر پینتالیس کے لگ بھگ کتب تصنیف فرمائیں۔ اپنے تو اپنے، غیر بھی حضرت کی دینی، علمی، تدریسی اور تصنیفی خدمات کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
جہلم کے حوالے سے حضرت شیخ کا تذکرہ یوں کرنا چاہوں گا کہ جہلم، گوجرانوالہ اور چکوال کا آپس میں ایک مثالی دینی تعلق رہا۔ چند سال پہلے تک گوجرانوالہ میں حضرت امام اہل سنتؓ، چکوال میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ اور جہلم میں بندہ کے جد امجد حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب جہلمیؒ کی صورت میں علماے حق کی عظیم نشانیاں موجود تھیں۔ کیا سنہری دور تھا جب یہ تینوں جامع الصفات شخصیات آپس میں مل بیٹھتی تھیں۔ تینوں کا دار العلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کرنے کا زمانہ بھی تقریباً ایک اور اساتذہ وشیوخ بھی ایک ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کی دینی ، مسلکی ونظریاتی فکر میں وحدت پائی جاتی تھی۔ پھر ان حضرات کا یہ مبنی بر اخلاص تعلق ان کی اولاد کے باہمی ازدواجی رشتوں کی صورت میں باقاعدہ ایک خاندان کی شکل اختیار کر گیا۔ ان حضرات نے اپنے اپنے حلقہ اثر میں دین حق کی دعوت وتبلیغ، قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح عقائد ونظریات کی ترجمانی وتحفظ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں جو عظیم خدمات سرانجام دیں اور راہ حق میں بڑے بڑے فتنوں اور آزمایشوں کے سامنے جس صبر واستقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنے اس عظیم مشن کو جاری رکھا، اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔
حضرت شیخ دیگر اکابر علما کی طرح ہر سال باقاعدگی کے ساتھ جامعہ کے سالانہ جلسے میں تشریف لاتے رہے۔ جامعہ کے شعبہ کتب کے سالانہ امتحانات کے لیے بھی بطور ممتحن آپ کی تشریف آوری ہوتی رہی۔ ۲۰۰۰ء کے سالانہ جلسے میں دورۂ حدیث شریف سے فراغت کے موقع پر میری دستار بندی تھی۔ ان دنوں حضرت شیخ ضعف اور علالت کے باعث بہت کم کسی پروگرام میں تشریف لے جاتے تھے، جبکہ اس سے دو سال قبل جد امجد حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب جہلمیؒ کا وصال ہو چکا تھا۔ ان کی جدائی کے احساس نے اس اشتیاق میں مزید شدت پیدا کر دی کہ کم از کم اس سال حضرت شیخ الحدیثؒ سالانہ جلسے میں ضرور تشریف لائیں، لیکن حضرت نے بیماری کا عذر کر دیا۔ اتفاقاً اسی سال بندہ کے ماموں زاد بھائی حافظ ممتاز الحسن خان احسن کی بھی حفظ قرآن مجید کی دستار بندی تھی اور ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پریشان تھے۔ اس دوران میں، میں نے اپنے ماموں مولانا عبد الحق خان بشیر سے مشورہ کیا اور یہ طے پایا کہ اگر ہم دوران جلسہ حضرت شیخ کو لانے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائیں تو شاید بات بن جائے۔ گکھڑ منڈی پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت ایک دینی پروگرام کے سلسلے میں گوجرانوالہ شہر تشریف لے گئے ہیں۔ یہ سن کر کچھ امید پیدا ہوئی کہ آج حضرت کی طبیعت کچھ بہتر ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت واپس تشریف لائے تو چہرے سے شدید تھکاوٹ اور تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ کچھ دیر آرام کیا۔ پھر ماموں نے مدعا عرض کیا تو حضرت نے انکار فرما دیا۔ ہم نے کہا کہ آپ دوسروں کے ہاں تو چلے جاتے ہیں، کیا گھر والوں کا کوئی حق نہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ دوسروں کو میری تکلیف کا احساس نہیں، اس لیے ان کے اصرار پر چلا گیا، لیکن تمہیں تو احساس ہونا چاہیے۔ یہ جواب سن کر مزید کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی، البتہ یہ سبق ضرور ملا کہ بزرگوں سے عقیدت اور ملاقات کی خواہش تو اپنی جگہ درست ہے، لیکن ان کی تکلیف کا احساس اور آرام کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔
بندہ کے والد گرامی مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ کا حضرت سے چند ماہ قبل انتقال ہوا جس پر حضرت شدید غمگین تھے۔ والد صاحب مرحوم کے اچانک انتقال کی خبر سننے کے بعد دو روز تک گھر والوں سے گفتگو نہ فرمائی اور اکثر آنکھیں اشکبار رہتی تھیں۔ ہم پہلے ہی عظیم صدمے سے دوچار تھے، حضرت کی یہ کیفیت سن کر شدید پریشانی لاحق ہوئی اور والد صاحب کی تعزیت کے لیے آنے والے والوں کا ہجوم کم ہوتے ہی بندہ اپنی بڑی ہمشیرہ کے ہمراہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ والدہ صاحبہ چونکہ عدت میں تھیں، اس لیے ساتھ نہ جا سکیں لیکن وہ بھی اپنے والد ماجد سے ملنے کے لیے مضطرب تھیں۔ اگرچہ ایسی کیفیت میں رات گھر سے باہر نہ گزارنے کی شرط پر بعض علما کے نزدیک سفر کرنے کی گنجایش نکلتی ہے، لیکن طے ہوا کہ حضرت سے پوچھ لیا جائے۔ ہم نے حضرت سے پوچھا تو انگلی کے ساتھ نفی کا اشارہ فرمایا کہ شرعاً گنجایش نہیں ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک طرف بیٹی کا عظیم صدمہ ہے لیکن حضرت شرعی حکم کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی ہی ملاقات کے لیے آنے سے منع فرما رہے ہیں۔
بہرحال حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمۃ سمیت ہمارے خاندان کے یہ تینوں بزرگ ایک سال کے قلیل عرصے میں یکے بعد دیگرے ہم سے رخصت ہو گئے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں سب سے زیادہ جامعہ حنفیہ متاثر ہوا کہ حضرت جہلمیؒ ، پھر حضرت قاضی صاحب اور پھر حضرت والد صاحب کے بعد حضرت امام اہل سنتؒ کا سایہ شفقت بھی ہمارے سروں سے اٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام اکابرین کی دینی وعلمی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے علمی وروحانی فیض کو تاقیامت جاری وساری فرمائے۔ ہمیں یہ بھی عہد کرنا ہوگا کہ ہم ان کے مقدس مشن کو ان شاء اللہ بتوفیقہ تعالیٰ زندہ رکھیں گے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات کو پورے عالم میں پھیلائیں گے۔ ان شاء اللہ