والد محترم امام اہل سنت شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۵؍ مئی ۲۰۰۹ء بروز منگل رات ایک بج کر دس منٹ پر دارالفناء سے دار البقاء کی طرف کوچ فرما گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اور آج ان کو بچھڑے ہوئے کئی روز گزرگئے ہیں۔ یوں تو جدائی کے یہ لمحات ان کے لاکھوں شاگردوں اور عقیدت مندوں پر بھاری گزرے اور گزر رہے ہیں مگر ان کے سایۂ پدری میں ایام زیست گزرانے والوں خصوصاً ہمہ دم حاضر باش رہنے والوں پر ایک ایک لمحہ بار ہمالہ سے کم نہیں۔ گھر کے وہ درودیوار جو پچاس برس تک اپنی خوش نصیبی پر شادماں تھے، جنہوں نے ایک عرصہ تک ابو حنیفہؒ کی فقاہت، امام مالکؒ کی جرأت، احمد بن حنبلؒ کی استقامت، بخاریؒ کی روایت، ابن تیمیہؒ کی عزیمت، شاہ ولی اللہؒ کی بصیرت، نانوتویؒ کی حکمت، محمود الحسنؒ کی غیرت، حسین علیؒ کی خلافت اور مدنیؒ کی عظمت کو بہت قریب سے دیکھا، وہ حرماں نصیب درودیوار آج اداس اور سوگوار ہیں۔
ویران ہے میکدہ خم و ساغراداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
احقر نے اپنی تینتایس سالہ زندگی میں سے چالیس سالہ شعوری زندگی کے اندر قبلہ والد محترم کو ایسی ہمہ گیر صفات کا حامل اور مظہر پایا کہ وہ اپنی مثال آپ ہی تھے۔ ایک طرف عمومی زندگی میں جہاں ان کی فقاہت، روایت، درایت، خطابت اور خلافت کے چرچے تھے تو دوسری طرف عائلی زندگی میں وہ ایک انتہائی مشفق والد اور منتظم مربی بھی تھے۔ امانت، دیانت، شرافت، اور صداقت کے ایسے خوگر تھے کہ اولاد اور متعلقین میں سے ہر ایک کو اس کا مقام اور حق پوری دیانت داری اور انصاف کے ساتھ ادا فرماتے۔ جلال و جمال کے ایسے پیکر تھے کہ ایک طرف جگر گوشوں کی ہلکی سی تکلیف پر بے چین ہو جاتے، تو دوسری طرف احکام شرع میں تہاون وتکاسل کی بنا پر یہی جگر گوشے مہبط جلال بھی بن جاتے۔ دنیا وی معاملات میں اپنے بڑے سے بڑے حق سے بھی دستبردار ہو جاتے مگر دینی معاملات میں ذرہ بھر بھی مداہنت سے کام نہ لیتے ۔
کثرتِ ہجوم اور شدت ہموم کی وجہ سے اس مختصر کاوش میں شیخ کی حیاتِ مستعار کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنا تو ممکن نہیں، زندگی رہی تو ان شاء اللہ العزیز یہ سعادت آئندہ کبھی حاصل کروں گا۔ قبلہ والد محترم کے انتقال کے بعد تعزیت کے لیے آنے والے تقریباً ہر عقیدت مند کا چونکہ ایک ہی سوال تھا کہ حضرت کے آخری ایام اور آخری وقت کیسے گزرا؟ اس لیے بعض دوستوں نے اصرار کیا کہ ان قیمتی اور تاریخی اوقات کو قلم بند کر دو، شاید کہ شیخ کے متعلقین و متوسلین کے مضطرب اور محزون قلوب کے حزن و اضطراب کا کچھ مداوا ٰ ہو جائے۔ سو اسی سلسلے میں یہ چند سطور حاضر خدمت ہیں۔
راقم عزیز الرحمن خان شاہد اپنے بھائیوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ (اب چھٹے نمبر پر ہے، اس لیے کہ ایک بڑے بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد ۲۰۰۰ء میں انتقال کر چکے ہیں)۔ احقر اپنی پیدایش ۱۹۶۶ء سے لے کر ۱۹۸۶ ء کے اوائل تک گکھڑ میں رہ کر تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس عرصہ میں تقریباً مڈل تک اسکول، حفظ قرآن کریم اور معارف اسلامیہ اکیڈمی گکھڑ میں دو سالہ تجوید کا کورس مکمل کیا۔ پھر ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۱ء کے اوائل تک مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درس نظامی کا کورس مکمل کر کے مدرسہ نصرۃ العلوم اور وفاق المدارس العربیۃ سے شہادۃ العالمیہ حاصل کی۔ تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے کہ بحمد للہ احقر تجوید کے دونوں سالوں میں اول پوزیشن حاصل کرتا رہا، پھر مدرسہ نصرۃ العلوم میں نو سال کے عرصہ میں مدرسہ اور وفاق کے اکتیس امتحانات دئے جن میں سے تقریباً سولہ ۱۶ امتحانات کے اندر ناچیز نے پہلی پوزیشن، آٹھ یا نو امتحانات میں دوسری یا تیسری پوزیشن حاصل کی اور بقیہ امتحانات میں بھی اچھے نمبروں کے ساتھ کامیاب ہوا۔
۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۸ء تک (ماسوا ۱۹۸۶ء کے) پانچ سالوں میں رمضان المبارک کے اندر قبلہ والد محترم کے سامنے انہی کی مسجد میں کھڑے ہو کرقرآن کریم سنانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ۱۹۹۱ء کے اوائل میں درس نظامی سے فراغت کے بعد چند دنوں میں تیاری کر کے میٹرک کا امتحان بحمد اللہ فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور ساتھ ساتھ برادرمکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ تعالیٰ کے زیر سایہ مدرسہ انوار العلوم میں درس نظامی کے شعبہ میں اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف انتظامی امور میں خدمت انجام دیتا رہا۔ بد قسمتی سے ۱۹۹۲ء میں نامساعد حالات کی بنا پر جب ’’ضاقت علیہم الارض‘‘ کی کیفیت پیدا ہوئی تو اللہ رب العزت کا خصوصی کرم شامل حال ہوا اور برادرمکرم مولانا زاہدالراشدی صاحب کے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد صاحب نے سعودی عرب سے ویزہ بھیج دیا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ بھائی جان کی اجازت اور مشورہ سے احقر ارض مقدسہ کا عازم ہوا۔ ۱۰؍اکتو بر ۱۹۹۴ء تک وہیں رہا۔ بحمد اللہ دونوں سال حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر ۱۰؍اکتوبر ۱۹۹۴ء سے ۱۱؍اپریل ۲۰۰۳ء تک تقریباً ساڑھے آٹھ سال کا دور عملی زندگی کا وہ سنہری دور ہے جو احقر نے والد محترم کی معیت میں بھر پور انداز میں گزار ا۔ مرکزی جامع مسجد واپڈا ٹاؤن میں خطابت تھی اور معارف اسلامیہ اکیڈمی گکھڑ میں شعبہ درس نظامی کا مدرس تھا۔ ابتدائی سالوں میں جب والد صاحب کبھی کبھی بیمار ہوتے تھے اور بعد والے سالوں میں جب والد صاحب بیماری کی وجہ سے مستقلاً گھر میں نماز پڑھتے تھے، احقر کو ان کی امامت کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔ احقر صبح سات آٹھ بجے سے الیٰ مابین الظہر والعصر اسباق میں مشغول رہتا، گھر آکر کھانا کھاتا، مہان نہ ہوتے تو عصرتک آرام کا موقع مل جاتا، ورنہ متواتر رات گئے تک قبلہ والد محترم کے مہمانوں کی مہان نوازی میں مشغولیت رہتی۔ پھر اسباق کے مطالعے کے لیے بیٹھ جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ والد محترم تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو نا چیز مطالعہ ختم کر کے سونے کی کوشش کرتا۔
ایک سال جب احقر کے پاس تقریباً چودہ اسباق تھے، رات دیر تک مطالعہ کی وجہ سے صبح فجر کی نماز کے لیے ذرا تاخیر ہو گئی تو والدمحترم سے ڈانٹ پڑ گئی۔ عذر پیش کیا کہ رات شرح تہذیب کا مطالعہ ذرا دشوار تھا، اس لیے بے ترتیبی ہو گئی۔ فرمانے لگے کہ جب میں صحت مند تھا تو تیس تک اسباق پڑھاتا تھا اور سب سے چھوٹا سبق شرح تہذیب ہوتا۔ بہرکیف ۱۹۹۸ء میں جب برادر عزیز مولانا منہاج الحق خان راشد حفظہ اللہ تعالیٰ درس نظامی سے فراغت کے بعد گھر آگئے تو احقر کا بوجھ کم ہو گیا بلکہ رفتہ رفتہ عزیزم راشد نے اس سعادت کا ’’حظ وافر‘‘ اپنے دامن میں سمیٹنا شروع کر دیا۔
۲۰۰۱ء میں والد محترم پر فالج کا پہلا حملہ ہوا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بر وقت علاج معالج کی وجہ سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ ۱۱؍اپریل ۲۰۰۳ء میں احقر بعض مالی مشکلات کی بنا پر دوبارہ سعودی عرب چلا گیا۔ بد قسمتی سے احقر کے جانے کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد والد محترم پر دوبارہ فالج کا حملہ ہوا جو پہلے کی بہ نسبت سخت تھا جس کی وجہ سے والد محترم کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا بلکہ آہستہ آہستہ معذوری نے مکمل طور پر ان کو بے بس کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قبلہ والد محترم کی اولاد اور متعلقین میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے وقت اور انداز میں ان کی خدمت کی، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کا بدلہ عطا فرمائے آمین، مگر خدمت کے باب میں چند شخصیات ایسی ہیں کہ والد محترم کی زندگی کے آخری اور معذوری کے دور میں ان حضرات نے خدمت کا ایسا حق ادا کیا کہ ان کی خدمات تاریخ کا ایک حصہ بن گئی ہیں۔ان حضرات میں مفتی جمیل خان صاحب شہید، حاجی میر لقمان اللہ صاحب، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب، ڈاکٹر سہیل صاحب، مولانا محمد نواز بلوچ صاحب اور قاری اسماعیل صاحب کا نام سر فہرست ہے اور گھر والوں میں سے عزیزم مولانا منہاج الحق خان راشد اور ان کی اہلیہ جو کہ ہماری خالہ زاد بہن بھی ہیں، چھوٹی باجی ام داؤد خان نوید، ان کی بچیاں، خاص طور پر ان کی چھوٹی بیٹی اخت داؤد خان نوید تو انتہائی قابل ستایش ہیں کہ انہوں نے قبلہ والد محترم کی طویل بیماری کے ایام میں دن رات ان کی خدمت کر کے ایسی سعادتیں سمیٹی ہیں جو دونوں جہانوں میں ان کی سرخروئی کے لیے کافی ہیں۔
عزیز م مولانا راشد بچپن سے ہی طبعاً تیز، کام میں پھر تیلے اور ماشاء اللہ مضبوط جسم کے مالک تھے۔ اسی طرح اخت نوید بہ نسبت دوسری بچیوں کے صحت میں قوی اور مضبوط تھیں۔ پہلے تو یہ دونوں چیزیں سمجھ سے بالا تر تھیں مگر جب قبلہ والد محترم کی بیماری میں خدمت کا وقت آیا تو خدا تعالیٰ کی حکمت پھر سمجھ میں آئی کہ اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ بندے کی خدمت کا انتظام پہلے سے ہی فرما رکھا تھا، فجزاہما اللہ احسن الجزاء۔ اسی طرح گکھڑ میں مقیم برادر محترم جناب مولانا قاری حمادالزہراوی صاحب والد محترم کی بیماری کے بعد مرکزی جامع مسجد اہل سنت گکھڑ، معارف اسلامیہ اکیڈمی گکھڑ، شعبہ درس نظامی طلبہ و طالبات اور اسکول کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ، برادر عزیز قاری عنایت الوہاب خان ساجد اور برادر مکرم جناب قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم کے فرزند حافظ انصرخان بھی وقتاً فوقتاً اس سعادت کے پھول چنتے رہے۔اسی طرح برادر مکرم جناب مولانا عبدالحق خان بشیر کے بڑے صاحبزادے عزیز م احسن خدامی معارف اسلامیہ اکیڈمی گکھڑ میں اپنے تعلیمی قیام ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۳ء تک کے عرصہ میں اور بعدازاں چھٹیوں کے ایام میں اپنے چھوٹے بھائی عزیزم حمزہ کے ساتھ مل کر حضرت شیخ کی بھر پور خدمت کرتے رہے۔ اسی طرح برادر مکرم واستاد محترم جناب مولانا عبدالقدوس خان قارن صاحب کے صاحبزادگان عزیزم مولانا عمر خان، مولانا معاویہ خان اور قاری سالم خان اور چھوٹی باجی کے بیٹے مولانا داؤد خان نوید جب بھی گکھڑ تشریف لاتے، حضرت والد محترم کی خدمت کے لیے ان کا جذبہ دیدنی ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جزاے خیر عطا فرمائے، آمین۔
بہر حال ۲۰۰۳ء میں سعودیہ جانے کے بعد احقر کے دل میں ایک افسوس اور ایک خوف مسلسل رہا۔ افسوس اس بات کا کہ کاش والد محترم کی بیماری کا پہلے کچھ اندازہ ہوجاتا تو ان کو چھوڑ کر کبھی عازم سفرنہ ہوتا اور خوف اس بات کا کہ موت تو برحق ہے، کہیں آخری دیدار اور زیارت سے ہی محروم نہ ہو جاؤں۔ جب بھی حرم جاتے، صحت کی دعا کے ساتھ ساتھ اس بارے میں بھی دعا کرتے رہتے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی سال سوا سال کے بعد والد محترم یاد فرماتے، ہم بحمد اللہ ہر ترتیب کو نظرا نداز کر کے قدم بوسی کے لیے حاضر ہو جاتے اور تا حکم ثانی خدمت میں ہی رہتے۔ اس سال بچوں نے مطالبہ کیا کہ ہم نے کئی برس سے عید پاکستان میں نہیں کی، اس سال عید داد اابو کے پاس گزارنی ہے، سو ہمارا پکا پروگرام بن گیا کہ ۲۵ رمضان المبارک کے بعد جائیں گے اور اس سال دونوں عیدیں ان شاء اللہ گھر میں والد محترم کے ساتھ گزاریں گے۔ مگر محرم کے آخر میں والد محترم کا جدہ میں فون آیا۔ پہلے احقر سے بات کی، پھر ام ارسلان سے، پھر ارسلان ، امیمہ اور فائز، ہر ایک سے بات کی اور فرمایا کہ میں اداس ہوں۔ ہم نے اپنا پروگرام بتلایا تو خاموش اور اداس ہو گئے۔ پھر دو چار دن کے بعد دوبارہ فون آیا۔ اب کی بار ہماری ہمت جواب دے گئی۔ حسب معمول اپنی ترتیب الٹ پلٹ کر کے ۱۸ ؍مارچ ۲۰۰۹ء کے دن حاضر خدمت ہو گئے۔ ہمیں دیکھ کر خلافِ عادت چار یا پانج منٹ تک ’’اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا‘‘ کی صدا بلند فرماتے رہے۔ پھر قریب کر کے پوچھا کہ شاہد ہی ہو؟ عرض کیا جی۔ پھر ایک ایک بچے کو قریب کیا اور چومتے رہے۔ پھر فرمایا کہ مجھے امید نہیں تھی کہ زندگی میں تم مجھے دیکھ سکو گے یا میں تمہیں۔ ہم تو ان کلمات کو فرط جذبات کی ایک ادا سمجھتے رہے، مگر معلوم نہ تھا کہ ٹھیک اڑتالیس دن اور بار ہ گھنٹے کے بعد ان جملوں کی حقیقت آشکارا ہو جائے گی۔ خلاف معمول اس دفعہ چھٹیوں میں کہیں بھی جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ بعض دوستوں نے حسب معمول دعوتوں کے پروگرام بنائے، بعض نے بزم آرائیوں کے عندیے دیے مگر دل گھر کی چوکھٹ بھی پار کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کچھ ہو جائے گا۔ آخر ۵ مئی کو کچھ ہو ہی گیا۔
۱۸ مارچ سے ۵ مئی کے دو ران بہت سے لوگ اور بہت سی شخصیات قبلہ والد محترم کی ملاقات اور زیارت کے لیے تشریف لائیں۔ ان سب کا احاطہ اور ذکر تو ممکن نہیں، البتہ چند مجالس ایسی تھیں جو کسی نہ کسی وجہ سے منفرد اور نمایاں تھیں۔ ایک مجلس تو تقریباً ہر روز عصر کے لگ بھگ سجتی جس میں حاجی میر لقمان اللہ صاحب، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب، ڈاکٹر سہیل صاحب، مولانا نواز بلوچ صاحب،جناب قاسم بن حافظ بشیر احمد چیمہ صاحب، مولانا مدثر صاحب اور اکثر و بیشتر چوہدری احسن جاوید صاحب ایس ایس پی بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حضرات قبلہ والد محترم کا چیک اپ کرتے اور حاضرین مجلس مختلف موضوعات پر سوال کرتے۔ یہ مجلس بڑی دلچسپ ہوا کرتی تھی۔ ۳ ؍اپریل ۲۰۰۹ء کی وہ مجلس جس میں برادر مکرم مولانا زاہدالرشدی صاحب سمیت استاد محترم و برادرمکرم مولانا عبدالقدوس خان قارن صاحب، برادرمکرم مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب،برادرمکرم قاری حماد الزہروای صاحب،راقم عزیز الرحمن خان شاہد، عزیزم قاری عنایت الوہاب خان ساجد اور عزیز م مولانا منہاج الحق خان راشد سب بھائی شامل تھے، ماسوائے استاد محترم و برادرمکرم مولانا رشید الحق خان عابد صاحب ، والد محترم کے ساتھ جملہ برادران مکرم کی ایک ایسی مجلس تھی جو کہ آخری مجلس ثابت ہوئی۔ اس مجلس کے بعد جملہ برادران کرام والد محترم کی خدمت میں اکٹھے نہ ہوسکے ۔ اسی طرح ایک مجلس جس کو میں یاد گار سمجھتا ہوں، حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب کی مع رفقا وہ حاضری ہے جس میں انہوں نے قبلہ والد محترم کے سامنے اپنی جماعتی کار گزاری پیش کی اور شیخ نے اس کی تائید فرمائی۔ اسی طرح ۱۱؍ اپریل کے دن ایک مجلس ہوئی جس میں قائد جمعیت مولانا سمیع الحق صاحب، میاں محمد عارف صاحب، شاہ عبدالعزیز صاحب و دیگر رفقا تشریف لائے۔ یہ مجلس اس لحاظ سے ناقابل فراموش ہے کہ اس مجلس میں برادرمکرم مولانا زاہدالرشدی صاحب اور برادرمکرم قاری حماد الزہراوی صاحب کی مشاورت سے سوات کے پر خطر حالات کے متعلق گفت و شنید کے بعد ایک جامع لائحہ عمل تیار ہوا۔ اسی طرح ایک دن حضرت مولانا عبدالرؤف فاروقی صاحب ہمارے خالو محترم جناب حضرت مفتی رویس خان صاحب اور مولانا پیر سیف اللہ خالد صاحب تشریف لائے۔ یہ مجلس اس لحاظ سے اہم مجلس تھی کہ جناب خالو محترم نے منکرین حیاۃ الانبیاء کے متعلق جب متعدد سوالات کیے تو جواباً فرمایا کہ ہمارا نظریہ اور موقف وہ ہے جو مولانا مفتی مہدی حسنؒ کا فتویٰ ہے۔ اس کے علاوہ اس عرصہ میں اور بے شمار علماے کرام تشریف لائے جن میں مولانا فضلالرحیم صاحب از جامعہ اشرفیہ مولانا ظفر احمد قاسم از جامعہ خالد بن ولید وہاڑی، مولانا محب النبی صاحب از لاہور، مولانا معاویہ اعظم طارق از جھنگ، مولانا محمد الیاس صاحب از چناری، مولانا عبدالمالک از مظفر آباد، مولانا عبدالظاہر فاروقی اور مولانا سعید اعوان از بحریہ ٹاؤن راولپنڈی وغیرہم کے اسما نمایاں ہیں ۔
میں نے اپنی زندگی میں والد محترم سے زیادہ اوقات کا پابند علماے کرام میں سے کسی کو نہیں پایا۔ ان کی اوقات کی پابندی اتنی مشہور تھی کہ لوگ ان کو دیکھ کر گھڑیوں کے ٹائم درست کیا کرتے تھے، مگر معذوری اور لاچاری انسان کو کس قدر بے بس بنا دیتی ہے۔ مسلسل بیماری کی وجہ سے پوری پوری رات والد محترم کو نیند نہیں آتی تھی۔ عزیز م راشد، ان کی اہلیہ یا باجی ام داؤد خان نوید اپنی بیٹی سمیت پوری پوری رات جاگ کر تیمارداری میں مصروف رہتے۔بسا اوقات طبیعت میں اس قدر اضطراب ہوتا کہ نہ لیٹ کر آرام آتا نہ بیٹھ کر۔ کبھی فرماتے بٹھا دو، کبھی فرماتے لٹا دو۔ دو تین راتیں عزیزم راشد اور باجی کی عدم موجودگی میں احقر کو کچھ دیر یہ خدمت انجام دینے کا شرف ملا تو پتہ چلا کہ کس قدر مشکل اور بھاری ذمہ داری ہے۔ بیس منٹ میں تقریباً تیس دفعہ فرمایا، بٹھا دو، لٹا دو۔ دل سے دعا نکلی کہ اے اللہ، ان عزیزوں کو جزاے خیر عطا فرما جنہوں نے یہ حساس ذمہ داری قبول کر کے ہمیں سبک دوش کیا ہواہے۔ خصوصاً باجی کی حالت پر تو بہت رحم آتا کہ بے چاری خود بھی گھٹنوں کے درد کے باعث چلنے پھر نے سے معذور ہیں، لاٹھی کے سہارے بڑی مشکل سے دو چار قدم اٹھاتی ہیں۔ اللہ پاک سب کی خدمت کو قبول فرمائے اور ہماری طرف سے ان سب کو جزاے خیر عطا فرمائے، آمین۔
۲۴ اور ۲۵ ؍اپریل کی درمیانی رات دو بجے کے لگ بھگ عزیزم راشد نے، جو رات کو خدمت کی ڈیوٹی پر تھے، آکر میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا یا۔ میں جلدی سے اٹھا تو انہوں نے کہا کہ والد محترم کی طبیعت خراب ہے۔ احقر جب والد محترم کے پاس حاضر ہوا تو دیکھا کہ والد صاحب خون کی الٹیاں کر رہے ہیں۔ طبیعت میں بے چینی ہے۔کچھ دیر کے بعد جب افاقہ ہوا تو آرام کی غرض سے آنکھیں بند کر لیں۔ پوچھا کہ ڈاکٹر کو بلائیں تو فرمایا، آرام ہے، ضرورت نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ دل میں کھٹکا پیدا ہوا، تھوڑا سا کھانس کر اطمینان کرنا چاہا۔ آواز سن کر دوبارہ آنکھیں کھول کر دیکھا تو قدر ے اطمینان ہوا۔ عزیزم راشد کہنے لگے، آپ آرام کر لیں۔ اگر خدانخواستہ ضرورت محسوس ہوئی تو آپ کو دوبارہ اٹھا لو ں گا۔ بادل نخواستہ واپس ہوا، مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ صبح کا انتظار کرنے لگا۔ صبح اٹھ کر دیکھا کہ آرام فرما رہے ہیں تو دل کو تسلی ہوئی۔ اس قے کے بعد طبیعت اور مزاج میں دو تبدیلیاں آئیں۔ ایک تو مسلسل خاموشی طاری ہو گئی۔ پہلے آنے والوں سے حال احوال پوچھتے تھے، مگر اب خاموش رہتے۔ کوئی سوال کرتا تو کبھی جواب دے دیتے، کبھی خاموش رہتے،کبھی ہاتھ سے اشارہ فرمادیتے۔ دوسرے نمبر پر کھانا تو پہلے ہی تنادل نہ فرماتے تھے، تھوڑا سا دودھ یا جوس وغیرہ پی لیا کرتے تھے، مگر اب بالکل انکار فرما دیتے۔ فرماتے دل نہیں چاہتا ۔ ڈاکٹر حضرات نے چیک اپ کیا تو رپورٹ دی کہ خون کی مقدار کم ہے، اس لیے کھانے کی اشتہا نہیں ہوتی۔ چار دن مسلسل خون لگتا رہا، مگر فرق نہ پڑا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب فرمانے لگے کہ اگر غذا کے بارے میں یہی صورت حال رہی تو مصنوعی طریقے سے غذا کا انتظام کرنا پڑے گا۔ اس دوران ہسپتال لے جانے کا بھی مشورہ ہوا۔ عزیزم راشد نے سروسز ہسپتال لاہور اور اتفاق ہسپتال لاہور میں تقریباً بات بھی مکمل کر لی، مگر والد محترم آمادہ نہ ہوئے۔ بالآ خر یہ حربہ اختیار کیا گیا کہ حضرت کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ اگر غذا نہیں لیں گے تو مصنوعی طریقہ سے غذا دینا پڑے گی، یا تو ڈرپوں کے ذریعے یا ناک کے ذریعے اور پھرہسپتال بھی جانا پڑے گا۔ یہ حربہ کامیاب ثابت ہوا۔ اب قبلہ والد محترم نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ غذالینے لگے جس پر سب نے اطمینان کا اظہار کیا۔
یکم مئی بروز جمعۃا لمبارک برادرمکرم مولانا زاہدالرشدی صاحب، جو کہ برطانیہ اور سعودیہ کے تین ہفتے کے دورے پر تشریف لے گئے ہوئے تھے، بعد نماز عصر مع اہل وعیال تشریف لائے۔ ان سے مل کر قبلہ والد محترم کی طبیعت کچھ بحال ہوئی۔ بھائی جان نے مسندابی یعلیٰ موصلی پیش کی جس کا ذکر قبلہ والد محترم نے بھائی جان کے سامنے سفر پر جانے سے پہلے کیا تھا۔ والد محترم کتاب دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں قریب ہی کھڑا تھا، مجھے فرمایا کتاب الماری میں رکھ دو۔ افسوس کہ والد صاحب کو یہ کتاب بالتفصیل دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ رات گئے بھائی جان بمع اہل وعیال واپس تشریف لے گئے۔ یہ ان کی والد صاحب سے آخری ملاقات تھی۔
یکم اور ۲؍مئی کی درمیانی رات میں احقر نے خواب دیکھا کہ عمّ مکرم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی تشریف لاتے ہیں اور احقر کے سر پر پیار بھر ا ہاتھ پھیر کر دائیں ہاتھ کے بالمقابل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی اثنا میں ہماری دونوں والدہ تشریف لاتی ہیں۔ چھوٹی والدہ محترمہ ذرا آگے ہیں اور بڑی والدہ محترمہ ذرا ایک قدم پیچھے ہیں۔ چھوٹی والدہ محترمہ نے احقر کے سر پر شفقت بھر ا ہاتھ پھیر ااور فرمایا، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں، لیٹ جاؤ، آرام کرو۔ ایک سفید رنگ کی چادر اوڑھنے کے لیے دیتی ہیں اور پھر فرماتی ہیں کہ دوائی بھی پی لو، چنانچہ پانی میں دوائی ڈال کر دیتی ہیں۔ ابھی پی نہیں سکا کہ اہلیہ نے فجر کی نماز کے لیے بیدار کر دیا۔ صبح سب گھر والوں کے سامنے اس خواب کا تذکرہ کیا مگر تعبیر کوئی سمجھ نہ سکا۔ اسی دن شام کو استاد مکرم وبرادر محترم مولانا رشید الحق خان عابد بھی تشریف لے آئے۔ ان کے سامنے بھی خواب کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ فوراً کچھ صدقہ کر دو۔
ظہر کی نماز کے بعد عزیزم راشد صاحب نے والد محترم سے عرض کیا کہ برادرمکرم مولانا رشید الحق خان عابد آج تشریف لا رہے ہیں تو والد صاحب بہت خوش ہوئے۔ اس دن بھی طبیعت میں کچھ اضطراب تھا، مگر بحمدللہ دودھ، جوس اور پانی کی شکل میں کچھ نہ کچھ غذا لیتے رہے۔ عصر کے بعد حاجی میر لقمان اللہ صاحب، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب اور مولانا نواز بلوچ صاحب تشریف لائے۔ تھوڑی دیر کے بعد مولانا ریاض انور گجراتی بھی تشریف لے آئے اور حضرت والد محترم سے ملاقات کر کے تشریف لے گئے جو ان کی آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ شام کے وقت برادر مکرم مولانا رشیدا لحق خان عابد تشریف لائے تو ان سے مل کر قبلہ والد محترم کی طبیعت کچھ کھلی اور پھر کافی دیر تک ان سے گفتگو کرتے رہے۔ اگلے دن ۳؍ مئی ۲۰۰۹ء کو بھی برادر مکرم مولانا رشید الحق خان عابد یہیں تھے۔ گا ہے بگا ہے والد محترم کی خدمت میں حاضر ی دیتے رہے جس سے والد صاحب کی طبیعت کافی ہشاش بشاش رہی۔دن بھر والد صاحب سے ملاقات کے لیے لوگ تشریف لاتے رہے۔ عصر کے بعد حسب معمول حاجی لقمان اللہ صاحب اور ڈاکٹر فضل الرحمن تشریف لائے۔ حضرت کو تھوڑ ا سا جوس پلایا، چیک اپ کیا اور فرمایا کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کچھ نہ کچھ پلاتے رہیں۔
اگلے دن ۴ ؍مئی کو برادرمکرم مولانا رشید الحق خان عابد صاحب سے پروگرام پوچھا تو فرمایا کہ آج شام واپسی ہے۔ عصر کے وقت برادرمکرم قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم کے گھر تشریف لے گئے۔ احقر بھی کچھ دیر کے بعد ان کے پیچھے گیا، پھر خیال آیا کہ حاجی صاحب اور ڈاکٹر صاحب کے آنے کا وقت ہے، واپس گھر چلتا ہوں مگر باتوں میں مشغولیت کی وجہ سے کچھ دیر ہو گئی۔ واپسی سے پہلے جب برادرمکرم سے دوبارہ پروگرام پوچھا تو فرمانے لگے کہ آج رہوں گا۔ پھر احقر جب واپس گھر آیا تو پتہ چلا کہ حاجی صاحب اور ڈاکٹر صاحب تشریف لائے تھے، مگر خلاف معمول آج جلد واپس چلے گئے ہیں۔ بعد میں جب حاجی صاحب اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارا ارادہ تو بیٹھنے کا تھا، مگر جب حضرت کو جوس پلانے لگے تو حضرت نے باجی کو بلا بھیجا اور ہم اس لالچ میں اٹھ آئے کہ چلو ہم سے نہیں تو ان کے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ پی لیں گے۔
بہر کیف جب گھر پہنچا تو ڈاکٹر صاحب تو جا چکے تھے، البتہ برادرمحترم قاری حماد الزہراوی صاحب تشریف لائے ہوئے تھے جو کہ ۲۴ ؍اپریل کے بعد تقریباً ہر روز عصر کے بعد والد محترم کاحال احوال معلوم کرنے آتے تھے۔ وہ والد محترم سے ہم کلام تھے اور عرض کر رہے تھے کہ اگر بادل نخواستہ تھوڑا بہت دودھ نوش فرما لیا کریں تو بہت بہتر رہے گا کیونکہ دودھ دوا کی دوا اور غذا کی غذا ہے، مگر والد محترم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد ان کی آنکھ لگ گئی اور نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ اسی اثنا میں معارف اسلامیہ اکیڈمی گکھڑ کے دو طالب علم ناصر گجراتی صاحب اور ان کا ایک ساتھی قبلہ والد محترم کی عیادت کے لیے تشریف لائے، مگر برادرمکرم قاری حماد صاحب نے ان سے کہا کہ حضرت آرام فرما رہے ہیں، آپ پھر آ جائیں۔ چنانچہ وہ چلے گئے۔ شام کے بعد برادر مکرم مولانا رشید الحق صاحب گھر تشریف لائے۔ باجی اور ان کی صاحبزادی قبلہ والد محترم کے پاس تھیں۔ احقر اور برادر مکرم جب کھانا کھانے لگے تو باجی کو بھی دعوت دی۔ فرمانے لگیں کہ آپ لوگ کھالیں، ہم ابھی ابا جان کے پاس ہیں، بعد میں کھالیں گی۔ کھانے کے بعد برادرمکرم مولانا رشید الحق صاحب والد محترم کی خدمت میں چلے گئے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اخت نوید نے آکر مجھ سے کہا کہ نانا ابو آپ کو بھی بلا رہے ہیں۔ احقر جب والد محترم کے پاس پہنچا تو برادر مکرم کرسی پر تشریف فرما تھے۔ نا چیز نے والد محترم کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے عرض کیا، جی ابا جان۔ فرمانے لگے، ام نوید اور اخت نوید گوجرانوالہ اپنے گھر جانا چاہتی ہیں، ان کو روک لو، میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ احقر نے عرض کیا کہ ان کو رکنے کی درخواست کردیتے ہیں، چنانچہ والد صاحب کچھ خوش ہو گئے۔ میں کمرے سے باہر نکلا اور باجی سے بات کی تو انہوں نے کہا صرف ایک دو دن کے لیے جانا چاہتے ہیں تا کہ گھر کے کچھ ضروری معاملات سمیٹ سکیں۔ احقر نے عرض کیا کہ والد صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں،خلاف طبیعت کوئی کام اور بات نہ کریں، اگر کوئی ضروری کام ہے تو میں چلا جاتا ہوں۔ باجی مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ ٹھیک ہے، نہیں جاتے۔
پھر برادر مکرم مولانا رشید الحق خان عابد صاحب احقر کے بیٹے ارسلان کو لے کر براردمکرم قاری حماد الزہراوی صاحب کے گھر تشریف لے گئے اور نا چیز عشا کی نماز کے لیے وضو کرنے لگا۔ تھوڑی تاخیر ہو گئی اور مسجد میں جماعت ہوگئی۔ ا حقر نے باجی سے عرض کیا کہ والد محترم کی آنکھ لگی ہوئی ہے۔ آپ لوگ کھانا کھالیں، میں والد محترم کے کمرے میں نماز پڑھ لیتا ہوں۔ اسی اثنا میں کراچی سے دو مہمان آئے۔ احقر نے ان کو دوسرے کمرے میں بٹھا دیا۔ باجی اور اخت نوید کھانے میں مشغول ہو گئیں اور احقر قبلہ والد محترم کے کمرے میں نماز میں مشغول ہو گیا۔ چو تھی رکعت میں تھا کہ والد محترم نے اخت نوید کو آواز دی، جواب نہ ملا تو ادھر دیکھا اور پھر مجھے آواز دی۔ میں نے جلدی سے آخری رکعت مکمل کی اور حاضر خدمت ہوا۔ فرمایا مجھے بٹھا دو۔ میں نے بٹھا دیا اور عرض کیا کہ دو مہمان ہیں۔ فرمایا بلا لو۔ میں نے دونوں مہمانوں کو بلایا۔ ایک کا نام مولانا امداد اللہ صاحب تھا، دوسرے کا نام معلوم نہیں۔ دونوں حضرات کراچی سے جماعت میں وقت لگانے کے لیے رائے ونڈ تشریف لائے ہوئے تھے اور وہاں سے شیخ کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ یہ حضرات والد صاحب سے ملے اور حدیث کی اجازت چاہی۔ حضرت نے اجازت دے دی۔ یہ قبلہ والد محترم کی زندگی کے آخری مہمان اور اجازت حدیث لینے والے آخری خوش نصیب تھے۔
جب وہ لوگ چلے گئے تو والد محترم نے فرمایا، اخت نوید کو بلاؤ۔ اسے بلایا تو فرمایا مجھے لٹا دو۔ چنانچہ عزیزہ نے والد محترم کو پھر لٹا دیا۔ اس کے بعد عزیزم راشد نے والد محترم کا لباس اور بستر بدلا جو کہ خدمت کے باب میں ایک انتہائی دشوار مرحلہ ہوتا تھا۔ گھر والوں میں صرف عزیزم راشد ہی ایسے تھے جو مضبوط اور صحت مند ہونے کی وجہ سے اس خدمت کو بخوبی انجام دے سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر عطا فرمائے کہ آٹھ دس سال تک قبلہ والد محترم کو نہلانا، ان کے کپڑے اور بستر بدلنا اور بیت الخلا سے فراغت جیسی ذمہ داری کو نبھانا انہی کا خاصہ تھا۔ بہر کیف اس کے بعد باجی اور اخت نوید والد محترم کے کمرے میں چلی گئیں۔ تقریباً گیارہ بج کر تیس منٹ پر برادر مکرم مولانا رشید الحق خان عابد صاحب واپس تشریف لے آئے اور آرام کی غرض سے اوپر کمرے میں تشریف لے گئے۔ باقی گھر والے بھی اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے اور احقر قبلہ والد محترم کے کمرے کے سامنے برآمد ے میں ایک چار پائی پر لیٹ کر اس دن کے اخبار پڑھنے لگا۔ تقریباً بارہ بج کر سات منٹ پر عزیزہ اخت نوید دوڑتی ہوئی باہر آئی اور کہا، ماموں جلدی آئیں، نانا جان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ احقر دوڑتا ہوا اندر گیا تو دیکھا کہ والد محترم پھر خون کی قے کر رہے تھے، مگر مقدار بہت تھوڑی تھی۔ ہم نے پیچھے تکیے رکھ کر بٹھایا۔ والد صاحب کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ جلدی سے عزیزم راشد اور بھائی جان رشید الحق صاحب کو اٹھا دو۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ میری اہلیہ اور عزیزم راشد کی اہلیہ اور ان کی ہمشیرہ، جو مہمان آئی ہوئی تھیں، سب آناً فاناً جمع ہو گئے۔ ڈاکٹر حضرات کو فون کیے۔ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب اور حاجی میر لقمان اللہ صاحب نے، جو کہ گوجرانوالہ شہر میں رہتے ہیں، فرمایا ہم ابھی پہنچ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ہاتھ اور پاؤں کی مالش کی گئی تو طبیعت قدرے بحال ہوگئی۔ سب نے اطمینان کا اظہار کیا کہ بحمد اللہ طبیعت بہتر ہو گئی، چنانچہ والد صاحب کو سیدھا لٹا دیا گیا۔ سب نے دیکھا کہ والد صاحب ٹکٹکی باندھے چھت کی طرف دیکھ رہے تھے اور منہ سے کچھ بول یا پڑھ رہے تھے۔ ہلکی ہلکی آواز تو آرہی تھی، مگر ہم لوگ سمجھ نہیں سکے۔ تھوڑی دیر کے بعد قے کے لیے ابکائی آئی، اٹھا کر بٹھا یا مگر قے نہ آسکی۔ احقر نے پوچھا، ابا جان تکلیف ہے؟ فرمایا ہاں۔ پوچھا کس جگہ؟ کوئی جواب نہیں دیا۔ احقر نے باری باری سر، سینہ اور بازوؤں کی طرف اشارہ کیا تو فرمایا نہیں، جب پیٹ کی طرف اشارہ کیا تو فرمایا ہاں۔ برادر محترم مولانا رشید الحق صاحب فرمانے لگے، نیم گرم پانی میں شہد ملا کر لاؤ۔ چمچ کے ذریعے پلانے کی کوشش کی، مگر نہ پیا۔ احقر اور برادرمکرم رشید الحق صاحب سامنے تھے، دائیں جانب اخت نوید اور بائیں جانب ام نوید تھیں، عزیز م راشد بے چارے شٹل کاک کی طرح کبھی اندر کبھی باہر ڈاکٹروں کے انتظام میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔اس اثنا میں عزیزم مولانا مدثر صاحب بھی، جو کہ والد محترم کے پرانے خدمت گزار تھے، تشریف لے آئے۔ انہوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ کوئی ڈاکٹر مل جائے، مگر بدقسمتی سے رات کی وجہ سے کوئی ڈاکٹر نہیں مل رہا تھا۔ اس اثنا میں والد محترم نے باجی کو آواز دی جو بائیں جانب تھیں۔ انہوں نے کہا، جی ابا جان۔ پھر اخت نوید کو آواز دی۔ پھر اس حال میں کہ دایاں ہاتھ عزیزم راشد کے ہاتھ میں تھا، ایک نظر سب کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دائیں کند ھے کے بالکل سامنے دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے جان جاں آفریں کے سپرد کر دی اور آسمان علم کا وہ آفتاب جو برسوں جہالت کی ظلمتیں مٹاتا رہا،افق میں غروب ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے اسٹیتھو سکوپ کے ذریعے دل کی دھڑکن چانچنے کی بڑی کوشش کی مگر نا تجربہ کاری کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس اثنا میں گکھڑ کے ڈاکٹر عصمت اللہ علوی صاحب تشریف لائے، انہوں نے چیک کیا۔ عزیزم راشد نے ان کے کہنے پر مصنوعی تنفس کی بھی کوشش کی، مگر بے سود۔ پھر ڈاکٹر صاحب ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے، زبان سے کچھ نہ کہہ سکے، مگر ان کا چہرہ وہ سب کچھ کہہ گیا جو زبان نہ کہہ سکی۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر فضل الرحمن اور حاجی لقمان صاحب بھی تشریف لے آئے، چیک کیا، ’’اناللہ‘‘ پڑھا اور آنسوؤں کی برسات میں ہمیں وہ سندیسہ دے دیا جو رہتی دنیا تک ہمیں تڑپاتا رہے گا۔
رات دن محنت سے جس کو اس جہاں میں کام تھا
ہرگھڑی جہد ومشقت جس کا شغلِ عام تھا
زندگی میں اپنی جو وقفِ غم وآلام تھا
چین سے سوتا نہ تھا بے گانۂ آرام تھا
وہ گیا ہے عالم برزخ میں سونے کے لیے
رہ گئے ہم اس جہاں میں آج رونے کے لیے