امام اہل سنّت حضرت مولانامحمدسرفراز خان صفدررحمہ اللہ تعالیٰ سے میراابتدائی تعارف حضرت الاستاذ مولانا سید لعل شاہ بخاری رحمہ اللہ الباری کے واسطہ سے ہوا جوپہلے محبت اور بعد میں عقیدت کی شکل اختیار کر گیا۔ حضرت الاستاذ مولانا سید لعل شاہ بخاری رحمہ اللہ الباری ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء میں اٹک کے نواحی قصبہ حاجی شاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ شیخ المشائخ حضرت مخدوم جہانیاں رحمہ اللہ کی اولادمیں سے تھے اورآپ کے آبا واجدادمیں کئی پشتوں سے علم وفضل اور تدریس وتصنیف کی پختہ روایت چلی آرہی تھی۔
آپ رحمہ اللہ۱۳۶۰ھ/۱۹۴۱ء میں دورہ حدیث کے لیے دارالعلوم دیوبندتشریف لے گئے جہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمدمدنی رحمہ اللہ کے حضورمیں زانوے تلمذ تہہ کرنے کی سعادت سے بہرہ یاب ہوئے۔ فراغت کے بعد مختلف مقامات پر تدریس فرماتے رہے۔ ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء سے لے کرتادمِ آخر واہ کینٹ میں خطابت وتدریس فرماتے رہے۔ وہیں ۲۳؍ذو الحجہ ۱۴۱۰ھ/ ۱۷؍جولائی ۱۹۹۰ء کووصال ہوا اور وصیّت کے مطابق وہاں کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وادخلہ فی الجنۃ بغیر حساب۔
حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کے متعلق حضرت الاستاذرحمہ اللہ فرماتے تھے کہ دارالعلوم دیوبندمیں ہم اکٹھے پڑھتے رہے۔ امتحان داخلہ پچاس نمبروں کا تھا۔ ایک ہندوستانی طالب علم نے،جوابتدائی درجہ سے ہی وہیں دارالعلوم میں پڑھ رہے تھے، امتحان میں اکاون نمبر لیے جبکہ حضرت الاستاذاورامام اہل سنّت رحمہمااللہ تعالیٰ دونوں نے اڑتالیس اڑتالیس یکساں نمبر لیے۔ فرماتے تھے کہ ہم تینوں کوجماعت میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنی رحمہ اللہ کے بالکل سامنے پہلی صف میں اکٹھے نشست ملی۔ دونوں حضرات کے یہ تعلقات دورطالب علمی کے بعدبھی نہ صرف باقی رہے بلکہ بڑھتے رہے۔ چنانچہ حضرت الاستاذرحمہ اللہ کی دعوت پراُن کے ہاں ’’مدنی مسجدواہ کینٹ‘‘میں کئی مرتبہ حضرت امام اہل سنّت رحمہ اللہ نے خطاب فرمایا۔
حضرت استاذرحمہ اللہ نے تردیدباطل میں میدان تقریرومناظرہ میں خاصاکام کیااورحضرت امام اہل سنّت رحمہ اللہ کی طرح باطل کے خلاف اپناقلم بھی استعمال فرمایا۔چنانچہ آپ رحمہ اللہ نے اہل بدعت اورنواصب کی تردید میں متعدد علمی وتحقیقی کتب لکھیں جن میں سے سترہ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ان تصانیف میں بھی آپ رحمہ اللہ نے کئی مقامات پرحضرت امام اہل سنّت رحمہ اللہ اوران کی تصانیف کاتذکرہ فرمایاہے۔ مثلاً:
۱: آپ رحمہ اللہ حیلہ اسقاط کے رد میں ایک مفصل تحقیق پیش فرماکرلکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالاکتابیں ،جن کے حوالہ جات درج کیے گئے،وہ سب تیرھویں صدی کے اندرلکھی گئی تھیں۔ اب بطورمشتے نمونہ ازخروارے چودھویں صدی کے علماے حق کے فتاویٰ درج کیے جاتے ہیں۔‘‘ (الکلام الموزوں : ۷۴۔۷۵،طبع دوم)
پھردلیل الخیرات، فتاویٰ دارالعلوم دیوبنداوراحسن الفتاویٰ کے حوالہ جات نقل فرماکرلکھتے ہیں:
’’۴۔راہ سنت:۔ محترم برادرحضرت مولاناسرفرازخان صاحب صفدر،جوراقم اسطورکے ہم سبق وہم عصر ہیں ، ’’المنہاج الواضح‘‘ یا راہ سنت اُن کی گرانقدرتصنیف ہے،انہوں نے بھی ’’دعاء بعدجنازہ‘‘ کاایک عنوان قائم کیا ہے اورنہایت واضح اورقاطع دلائل سے ثابت کیاہے کہ دعابعدجنازہ مکروہ اوربدعت ہے‘‘۔
یہاں آپ رحمہ اللہ نے حضرت امام اہل سنّت رحمہ اللہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کی محققانہ تصنیف ’’راہ سنت‘‘کے بارے میں بھی اپنی گرانقدر رائے کا اظہار فرما دیا۔
۲: اسی کتاب میں ایک جگہ’’ راہ سنّت‘‘ کا تذکرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے میں نے کتب فقہ کے علاوہ مندرجہ ذیل مستقل رسالے بھی دیکھے ہیں :
وجیز الصراط، نور الصراط، الاصابہ، غایۃ الاحتیاط، اراء ۃ الصراط، النشاط، الانبساط، حکم الاقساط، توثیق الکلام، ’’راہ سنّت‘‘ وغیرہ‘‘
۳: حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کااندازتصنیف نہایت محققانہ تھا اورمختلف علوم وفنون پرنہایت گہری نظررکھتے تھے۔چنانچہ زیرتحریر مسئلہ کے متعلق نہایت تحقیق وتدقیق کے بعدقلم اٹھاتے اورجب لکھناشروع فرماتے توبکثرت حوالہ جات سپرد قرطاس فرماتے۔ آپ رحمہ اللہ کی تصانیف میں مختلف علوم وفنون کی کتابوں کے بلامبالغہ ہزارہاحوالے ملتے ہیں۔ عادت مبارکہ یہ تھی کہ اصل کتاب دیکھے بغیرحوالہ قطعاًنہیں دیتے تھے۔ ذاتی کتب خانہ بھی بہت وسیع تھااورحوالہ جات کی تحقیق و تلاش کے لیے سفر بھی فرماتے رہتے تھے۔آپ رحمہ اللہ کے پورے ذخیرہ تصانیف میں ان دیکھے حوالہ کی صرف ایک مثال ہے اوروہ حضرت امامِ اہل سنّت رحمہ اللہ پرآپ رحمہ اللہ کے اعتمادکی بہترین مثال بھی ہے۔آپ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’تسکین السائل عن خمس مسائل‘‘ میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تیسیرالمقال‘‘ کا ایک حوالہ دینے کے بعدیوں ارقام فرماتے ہیں :
’تنبیہ:’’تیسیرالمقال‘‘چونکہ بندہ کے کتب خانہ میں نہیں ہے مگربندہ کویقین ہے کہ یہ حوالہ درست ہے ۔اس لیے کہ برادرمحترم مولاناصفدرصاحب نے بھی’’ راہ سنّت‘‘ میں یہ حوالہ پیش کیاہے۔‘‘ (تسکین السائل:۶۵،طبع اوّل مطبوعہ ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴ء)
حضرت الاستاذرحمہ اللہ اپنے اساتذہ کرام علیہم الرحمہ میں سے سب سے زیادہ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ سے متاثرتھے بلکہ وہ اُن کے عاشق زارتھے اورہمیشہ اُن کاتذکرہ کرتے ہوئے رودیتے تھے ۔اسی طرح آپ رحمہ اللہ تفسیرکے سبق میں اور ترجمہ قرآن کریم پڑھاتے ہوئے رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ کے افادات سناتے رہتے تھے۔ چنانچہ طالب علمی کے دورسے ہی ان اکابر علیہم الرحمہ سے ایک خصوصی قلبی تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ حضرت امام اہل سنّت رحمہ اللہ بھی انہی اکابرکی نسبتوں کے امین اوران کی عظمتوں کے وارث تھے، پھرحضرت الاستاذرحمہ اللہ سے ان کی تعریف بھی بے شمارمرتبہ سننے میں آچکی تھی، اس لیے اُن سے بھی محبت وعقیدت کاتعلق پیدا ہو جانا بالکل فطری بات تھی۔
آپ رحمہ اللہ نے زیادہ تر دفاع مذہب ومسلک اورتردیدباطل کے عنوان پرلکھا۔ خودفرماتے تھے کہ میں نے چومکھی لڑائی لڑی ہے۔ جہاں سے کوئی فتنہ اٹھا، میں نے اُس کا مقابلہ کیا۔ یوں آپ رحمہ اللہ اہل حق کے لیے دفاع وتردیدکے موضوع پربہت بڑا اور وقیع ذخیرہ چھوڑگئے۔ عام طورپردیکھنے میں آیاہے کہ بسیارنویسی معیارکومتاثرکرتی ہے اورجن اہلِ قلم نے بکثرت لکھا، وہ اپنا معیار برقرار نہیں رکھ سکے۔ مگریہاں بھی حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ منفردشان کے ساتھ نظرآتے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ نے بکثرت لکھا،مختلف عنوانات پرلکھامگرہمیشہ معیاری اورتحقیقی اندازمیں لکھا۔ممکن ہے آپ رحمہ اللہ کے موقف سے کہیں اختلاف کیا جا سکے،آپ کی اختیارکردہ کسی تعبیرسے اتفاق کرنامشکل نظرآئے یاآپ رحمہ اللہ کے پیش کردہ دلائل پر کہیں بات کی جا سکے، مگریہ کہنامشکل بلکہ ناممکن ہوگاکہ آپ رحمہ اللہ نے کوئی بات بے تحقیق لکھ دی یا سہل انگاری اور رواروی میں کوئی موقف اختیار فرما لیا۔ آپ رحمہ اللہ کاقلم اہل حق کاقلم تھااورآپ رحمہ اللہ نے ہمیشہ اہل حق کے قلم کی پاسداری کی ۔
آپ رحمہ اللہ نے زیادہ تر تردید ومناظرہ کے عنوان پرلکھااوریہ وہ میدان ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
یہاں پگڑی اُچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں
مگر نہ آپ رحمہ اللہ نے کسی کی پگڑی اُچھالی، نہ میخانہ کے رقصِ مستانہ کا حصہ بنے۔آپ رحمہ اللہ نے اہل حق کی شان کے مطابق سنجیدگی و متانت سے اوراپنے مخاطب کے مقام کوملحوظ رکھتے ہوئے پورے عالمانہ وقار کے ساتھ لکھا اور ناملائم پہلو سے ہمیشہ دامن بچاکے رہے۔
آپ رحمہ اللہ کاتعلق پٹھان قبیلے (یوسف زئی،سواتی) سے تھا اور پٹھانوں کوکبھی درست اردو بولتے نہیں دیکھا گیا، مگرآپ رحمہ اللہ کوثروتسنیم میں دُھلی ہوئی ایسی بہترین، شستہ اوررواں مگرادبی اردولکھتے ہیں کہ اہل زبان کوبھی کم نصیب ہوئی ہوگی۔ چلتے چلتے کہیں کوئی شعر استعمال فرماتے تویوں محسوس ہوتا جیسے موتی ٹانک رہے ہوں۔ کہیں اپنے مخاطب کے ہلکی سی چٹکی لیتے ہیں توادیبانہ اندازبھی قربان ہوتے نظرآتے ہیں۔ اگرخودمخاطب بھی اسے پڑھے تویقیناًلطف اندوز ہو۔
۱۴۱۱ھ/۱۹۹۰ء میں آپ رحمہ اللہ کے استاذشیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالقدیررحمہ اللہ کاوصال ہواتوآپ رحمہ اللہ اُن کی نمازجنازہ پڑھانے کے لیے اُن کے آبائی گاؤں مومن پور(نزدحضرو،ضلع اٹک)میں تشریف لائے۔ وہاں نمازجنازہ سے پہلے اوربعدمیں قبرپربھی حقیقی معنوں میں آپ رحمہ اللہ کے قدموں میں بیٹھنے اورپاؤں دابنے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ رحمہ اللہ نے بہت ہی زیادہ دعاؤں سے نوازا، الحمدللہ علیٰ ذالک۔
ایک مرتبہ برادرم حضرت مولاناحافظ نثاراحمدالحسینی مدظلہٗ کی معیّت میں آپ رحمہ اللہ کے دولت کدہ پرعیادت کے لیے حاضری کاموقع نصیب ہواتوڈرتے ڈرتے اجازتِ حدیث شریف کے لیے عرض کیا۔آپ رحمہ اللہ نے اساتذہ حدیث مبارکہ کے متعلق پوچھا، پھربکمالِ شفقت ومحبت اجازت حدیث شریف سے نوازااوراپنے مبارک ہاتھوں سے مطبوعہ سند اجازتِ حدیث مبارکہ بھی عنایت فرمائی۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ خیرا و أدام اللّٰہ تعالیٰ فیوضہ الی یوم الجزاء۔
اس بدنصیب و کوتاہ دست کو صرف دو بار کی زیارت ہی نصیب ہوئی۔ آپ رحمہ اللہ کی مجلس میں ایک خاص جاذبیّت اور کشش تھی کہ اٹھنے کو جی نہیں چاہتاتھااورآپ رحمہ اللہ کے چہرہ انورپہ وہ نورا نیّت تھی کہ نظریں ہٹانے کوجی نہ کرے۔ یقیناًیہ تقویٰ وطہارت اورخدمت دین مبین سے لبریززندگی کاثمرہ ہے۔
آج جب آپ رحمہ اللہ ہمارے درمیان میں نہیں رہے تومحسوس ہوتاہے کے یہ ساری خوبیاں بھی خوشبوکی طرح اپنے جلومیں لے گئے۔امت پہ ایساعجب دورآیاہے کہ جانے والااپنی جگہ خالی کرکے جاتا ہے اورجانے والی کی جگہ ہمیشہ کے لیے خالی ہی رہتی ہے۔ آپ جیسے باخدا عالم کے لیے صدیوں قرطاس وقلم راہ دیکھا کریں گے اورمنبر و محراب رویا کریں گے مگر کوئی اُنہیں چُپ کرانے والا نہیں ہوگا!
عمرہا در کعبہ وبت خانہ می نالد حیات
تاز بزم ناز یک داناے راز آید بروں
آپ رحمہ اللہ کے نمازجنازہ میں شمولیت کی سعادت بھی بفضلہ تعالیٰ سمیٹنے کاموقع ملا۔یقیناامام اہل سنت رحمہ اللہ اُن ’’رجال اللہ‘‘ میں سے تھے جن کے جنازہ میں شامل ہونے والے کی اپنی مغفرت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کے بعدان کی اولادِصالحہ ،جن کی اکثریت علما وحفاظ پرمشتمل ہے،بے شمارتلامذہ ومریدین اوردینی تصانیف کاعظیم ذخیرہ آپ رحمہ اللہ کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ رحمہ اللہ کی ان خدمات کو انتہائی طور پر قبول فرما کرآپ رحمہ اللہ کو درجات عظیمہ سے نوازے اور امت مرحومہ میں آپ رحمہ اللہ کے فیض کو جاری و ساری رکھے، آمین۔