اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ (۱) وَآتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہُ ہُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِیْ وَکِیْلاً (۲) ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّہُ کَانَ عَبْداً شَکُوراً (۳) وَقَضَیْْنَا إِلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ فِیْ الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیْراً (۴) فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولاہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْْکُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً (۵) ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً (۶) إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَہَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الآخِرَۃِ لِیَسُوؤُوا وُجُوہَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوہُ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیْراً (۷) عَسٰی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْراً (۸) إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْراً کَبِیْراً (۹) وأَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً (۱۰) وَیَدْعُ الإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَ ہُ بِالْخَیْْرِ وَکَانَ الإِنسَانُ عَجُولاً (۱۱) وَجَعَلْنَا اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ وَکُلَّ شَیْْءٍٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیْلاً (۱۲) وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآءِرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُورًا (۱۳) اقْرَأْ کَتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْْکَ حَسِیْباً (۱۴) مَّنِ اہْتَدَی فَإِنَّمَا یَہْتَدیْ لِنَفْسِہِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْْہَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُولاً (۱۵) وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیْراً (۱۶) وَکَمْ أَہْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ وَکَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوبِ عِبَادِہِ خَبِیْرَاً بَصِیْراً (۱۷) مَّن کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیْہَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلاَہَا مَذْمُوماً مَّدْحُوراً (۱۸) وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَءِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا (۱۹) کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰؤُلاءِ وَہٰؤُلاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا (۲۰) اُنظُرْ کَیْْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَلَلآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیْلاً (۲۱) لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّہِ إِلٰہاً آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوماً مَّخْذُولاً (۲۲)
ترجمہ: ’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، وہ کہ ہم نے برکت ڈالی اس کے آپس پاس تاکہ ہم دکھائیں اس کو اپنی نشانیوں میں سے بعض۔ بے شک وہ سمیع ہے بصیر ہے۔ اور دی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب اور بنایا ہم نے اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے لیے، یہ کہ نہ بناؤ تم میرے سوا کارساز۔ اولاد ان کی جن کو ہم نے سوار کیا نوح علیہ السلام کے ساتھ، بے شک تھے وہ بندے شکرگزار۔
اور فیصلہ سنا دیا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کے ذریعے کہ البتہ تم ضرور فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور البتہ تم سرکشی کرو گے سرکشی بڑی۔ پس جس وقت آیا ان میں سے پہلی دفعہ کا وعدہ، بھیجا ہم نے تم پر اپنے بندوں کو جو سخت گرفت والے تھے۔ پس گھس گئے وہ شہروں کے درمیان۔ اور تھا یہ وعدہ طے شدہ۔ پھر ہم نے لوٹائی تمہارے لیے باری ان پر اور مدد کی ہم نے تمہاری مالوں او ربیٹوں سے اور کیا ہم نے تمہیں نفری اور تعداد میں زیادہ۔ اگر نیکی کرو گے تو نیکی کرو گے اپنے نفوس کے لیے، اور اگر تم برائی کرو گے تو انھی نفوس کے لیے ہے۔ پس جس وقت آیا وعدہ دوسری مرتبہ کا تاکہ وہ اداس اور پریشان کر دیں تمہارے چہروں کو اور تاکہ وہ داخل ہوں مسجد میں جس طرح وہ داخل ہوئے اس میں پہلی مرتبہ، اور تاکہ وہ ہلاک کر دیں اس چیز کو جس پر غالب آجائیں ہلاک کرنا۔ قریب ہے کہ رب تمہارا تم پر رحم فرمائے، اور اگر تم لوٹو گے، ہم لوٹیں گے۔ اور بنائی ہم نے جہنم کافروں کے لیے قید خانہ۔ بے شک قرآن رہنمائی کرتا ہے اس طریقے کی جو درست ہے اور خوشخبری دیتا ہے مومنین کو وہ جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ بے شک ان کے لیے اجر ہوگا بڑا۔ اور بے شک وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے آخرت پر، تیار کیا ہم نے ان کے لیے عذاب دردناک۔
اور مانگتا ہے انسان شر جیسے مانگتا ہے خیر اور ہے انسان جلد باز۔ او ربنائیں ہم نے رات اور دن دو نشانیاں۔ پس مٹائی ہم نے نشانی رات کی اور بنائی ہم نے نشانی د ن کی روشن تاکہ تم تلاش کرو فضل اپنے رب کی طرف سے اور تاکہ تم جان لو گنتی سالوں کی اور حساب۔ اور ہر چیز کو ہم نے تفصیل سے بیان کیا تفصیل سے بیان کرنا۔
اور ہر انسان کو ہم نے لازم کر دیا ہے پروانہ اس کا اس کی گردن میں۔ اور نکالیں گے ہم اس کے لیے قیامت کے دن کتاب، ملے گا اس کو (اس حال میں کہ) کھلی ہوئی ہوگی۔ پڑھ اپنی کتاب کو۔ کافی ہے تیرا نفس آج کے دن تجھ پر حساب دان۔
جس نے ہدایت حاصل کی، پس پختہ بات ہے ہدایت حاصل کرے گا اپنے نفس کے لیے اور جس نے گمراہی اختیار کی، پس پختہ بات ہے اس کی گمراہی اس کے نفس پر پڑے گی۔ او رنہیں اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کے بوجھ کو۔ اور نہیں ہم سزا دینے والے یہاں تک کہ بھیجیں ہم پیغمبر۔
اور جس وقت ارادہ کرتے ہیں ہم اس کا کہ ہلاک کریں کسی بستی کو تو حکم دیتے ہیں وہاں کے آسودہ حال لوگوں کو، پس وہ نافرمانی کرتے ہیں اس بستی میں۔ پس لازم ہو جاتا ہے اس پر فیصلہ، پس ہلاک کرتے ہیں ہم اس کو ہلاک کرنا۔
اور کتنی ہلاک کیں ہم نے جماعتیں نوح علیہ السلام کے بعد۔ اور کافی ہے تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار بھی اور دیکھنے والا۔ جو شخص ارادہ کر تا ہے جلدی کے گھر کو، ہم اس کے لیے جلدی کر دیں گے اس میں جو ہم چاہیں، جس کے لیے چاہیں۔ پھر ہم بناتے ہیں اس کے لیے جہنم۔ داخل ہوگا اس میں مذمت کیا ہوا، پھٹکارا ہوا۔ اور جس نے ارادہ کیا آخرت کا، اور کوشش کی اس کے لیے کوشش کرنا اور ہے وہ مومن، پس وہ لوگ ہیں کہ ان کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ ہر ایک کو ہم امداد دیتے ہیں، ان کو بھی اور ان کو بھی، تیرے رب کے عطیے سے۔ اور نہیں ہے تیرے رب کا عطیہ روکا ہوا۔ دیکھ، کیسے ہم نے فضیلت دی ان میں سے بعض کو بعض پر، اور البتہ آخرت بڑی ہے ازروے درجوں کے اور بڑی ہے ازروے فضیلت کے۔ نہ بنا الٰہ ساتھ اللہ تعالیٰ کے، تو بیٹھا رہے مذمت کیا ہوا رسوا کیا ہوا۔‘‘
سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی
ربط: کل آپ نے پڑھا تھا: وَلاَ تَکُ فِیْ ضَیْْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُونَ (النحل آیت ۱۲۷) کہ یہ کافر جو مکر کرتے ہیں، تدبیریں کرتے ہیں، آپ ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہوں۔ اسی تنگ دلی کے سلسلے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ معراج سے آپ جب واپس تشریف لائے تو کافروں نے آپ کا امتحان لیا کہ مسجد اقصیٰ کے دائیں طرف، بائیں طرف اور آگے پیچھے کیا عمارت تھی۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ لم اثبتہ، میں ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کر سکا، نہ مجھے معلوم تھا۔ انھوں نے کہا کہ تو معاذ اللہ جھوٹ کہتا ہے۔ فکربت کربۃ لم اکرب مثلہ۔ اتنا پریشان ہواکہ مجھے اتنی پریشانی کبھی بھی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ میرے سامنے کردی۔ فطفقت اخبرہم، میں اس کو دیکھ کر ان کو بتاتا۔ تو ان تنگی کے مقامات میں ایک یہ واقعہ معراج کا بھی تھا جس کا ذکر آ رہا ہے۔
نام ہے اس کا سورۂ بنی اسرائیل۔ بنی اسرائیل کا ذکر اس میں ہے۔ معراج کے متعلق بحث تو بڑی طویل ہے۔ میں مختصر سی بات عرض کرتا ہوں۔ رجب کا مہینہ تھا اور مشہور روایات کے مطابق ۲۷ رجب تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آرام فرما تھے۔ آپ کے ایک طرف حضرت حمزہ اور دوسری طرف حضرت عقیل تھے۔ درمیان میں آپ تھے۔ نیچے سوئے ہوئے تھے۔ فرشتے آئے۔ آپس میں انھوں نے گفتگو کی کہ ہمارا مطلوب کون سا ہے؟ کہنے لگے: اوسطہم وہو افضلہم۔ یہ درمیان میں جو لیٹے ہوئے ہیں، یہ ہیں ہمارے مطلوب۔ مجھے اٹھایا گیا اور مکان کی چھت کو پھاڑا گیا۔ وہاں سے مجھے حجر اور حطیم میں بٹھایا گیا۔ حجر اور حطیم کعبے کا حصہ ہے۔ وہاں میرے سینے کو چاک کیا گیا اور سونے کی رکابی میں رکھ کر زم زم کے پانی سے دھویا گیا اور ملئ حکمۃ وایمانا، حکمت اور ایمان کی دولت اس میں بھر دی گئی۔ ایک جانور لایا گیا جو گدھے سے بھاری تھا اور خچر سے ذرا ہلکا تھا۔ اس کو براق کہتے ہیں۔ برق کے معنی بجلی کے ہیں۔ یہ بجلی انسانوں کی ایجا د ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ جو بجلی ہے، یہ ایک منٹ میں زمین کے ارد گرد پانچ سو مرتبہ چکر لگا سکتی ہے۔ یہ تو انسانوں کی ایجاد ہے تو جو رب کی برق ہے، اس کا کیا کہنا؟ آناً فاناً وہاں مسجد اقصیٰ پہنچا دیا گیا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے مسجد اقصیٰ میں تنہائی میں نماز تحیۃ المسجد پڑھی۔ پھر پہلے آسمان پر گئے۔ جبریل علیہ السلام نے دستک دی۔ پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا، میں جبریل ہوں۔ ساتھ کون ہے؟ کہا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔ پوچھا گیا کہ ارسل الیہ؟ کیا ان کی طرف پیغام گیا ہے؟ بلوائے گئے ہیں؟ فرمایا، ہاں۔ دروازہ کھولا تو سب نے مرحبا مرحبا کہی۔
پہلے آسمان کے اوپر دیکھا تو ایک بابا جی تشریف فرما ہیں۔ ان کے دائیں طرف اسودۃ، کچھ نشانات سے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، ہنس پڑتے ہیں۔ بائیں طرف بھی کچھ نشانات ہیں۔ ان کو دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ بابا جی کون ہیں؟ کہا گیا کہ آدم علیہ السلام ہیں۔ جا کر ان کو سلام کہیں۔ میں نے آدم علیہ السلام کو سلام کیا۔ انھوں نے کہا: مرحبا بالابن الصالح والنبی الصالح۔ میں نے کہا کہ وہ دائیں طرف والی مخلوق کیا ہے اور بائیں طرف والی کیا ہے؟ تو کہا کہ یہ دائیں طرف اصحاب الیمین ہیں، ان کی مثالی شکلیں ہیں۔ بائیں طرف والے اصحاب الشمال ہیں۔ باپ ہونے کی وجہ سے شفقت ان پر بھی ہے، افسوس ان پر بھی ہے۔ پھر دوسرے آسمان ، پھر تیسرے، پھر چوتھے، پانچویں، چھٹے، ساتویں آسمان پر گئے۔ سدرۃ المنتہی اور جنت دوزخ کی سیر کی گئی۔ یہ سارا کچھ جسم مبارک کے ساتھ بیداری میں ہوا۔ خواب کا واقعہ نہیں، کشف کا واقعہ نہیں اور کوئی الہامی بات نہیں، حقیقت ہے۔
پھر وہاں اللہ تعالیٰ نے تین تحفے دیے۔ ایک تو سورۂ بقرہ کا آخری حصہ آمن الرسول سے آخر تک بغیر جبریل علیہ السلام کی وساطت کے۔ دوسرا پچاس نمازیں۔ تیسرا تحفہ یہ کہ آپ کی امت میں جو میرے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائے گا، میں اس کو بخش دوں گا۔ نمازیں پچاس لے کر آپ آئے تو چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ کیا تحفے لائے؟ فرمایا، یہ تحفے ہیں۔ کہنے لگے حضرت! انی قد بلوت بنی اسرائیل۔ میں نے بنی اسرائیل کا بڑا تجربہ کیا ہے، وہ تو دو نمازیں پوری نہیں پڑھ سکے دن رات میں۔ تو آپ کی امت میں کمزو رلوگ بھی ہوں گے، پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکیں گے۔ آپ میرے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ ابھی اللہ تعالیٰ مہربان ہے۔ آپ جا ئیں، جا کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں اور نمازوں میں تخفیف کرائیں۔ ابو عوانہ کی روایت میں ہے کہ ایک چکر میں نے لگایا۔ فحط عنی خمسا۔ ایک چکر میں پانچ نمازیں معاف ہو گئیں۔ دوسرا چکر لگایا، پانچ مزید معاف ہو گئیں۔ نو چکر لگائے تو پینتالیس نمازیں معاف ہو گئیں، پانچ رہ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک چکر اور لگائیں تو بخاری کی روایت ہے، آپ نے فرمایا: استحییت من ربی، مجھے رب سے شرم اور حیا آتی ہے۔ کس بات کی شرم؟ کہ ہر چکر میں پانچ نمازیں معاف ہوتی رہیں۔ اب اگر ایک چکر اور لگائیں تو وہ پانچ بھی معاف ہو جائیں گی تو میں تحفہ کیا لے کر جاؤں گا؟ خالی ہاتھ تو جانا اچھی بات نہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تحقیق ہے جو اس مقام پر تفسیر ابن کثیر میں ہے اور البدایہ والنہایہ میں بھی ہے کہ واپسی پر فجر کی نماز آپ نے انبیاء علیہم السلام کو جماعت کے ساتھ پڑھائی تھی۔ وہاں سے آپ آئے تو اندھیرا ہی تھا۔ آپ غلس میں، اندھیرے میں ہی فجر کی نماز پڑھتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، حضرت دروازہ ویسے تو بند تھا۔ پیچھے سے کنڈی نہیں لگی ہوئی تھی اور میں نے دیکھا، فالتمستک علی فراشک فلم اجدک۔ میں نے آپ کی چارپائی پر دیکھا تو آپ نہ تھے؟ کہاں تھے؟ فرمایا کہ مجھے اللہ معراج پرلے گیا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا آمنت وصدقت۔ کفار نے نہیں مانا۔ یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو بستر پر تو آپ کا وجود پڑا ہوتا۔ وہ کہتے ہیں: التمستک فلم اجدک۔ میں نے تلاش کیا تو آپ بستر پر نہ تھے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب کوئی نرالی بات ہوتی ہے تو وہاں ہم بھی کہتے ہیں: سبحان اللہ۔ جب رب تعالیٰ سبحان کے لفظ سے کوئی بات بیان کریں تو وہ بڑی نرالی چیز ہوگی۔ اگر خواب کا واقعہ ہوتا تو کوئی نرالا نہ ہوتا۔ یہ لفظ سبحان اس بات کی الگ دلیل اور قرینہ ہے کہ معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوا۔ آگے فرماتے ہیں کہ بعبدہ میں لفظ عبد جسم اور روح دونوں کا نام ہے۔ باقی معراج کے متعلق عقلی ونقلی شبہات خاصے ہیں۔ اس پر ہماری ایک مستقل کتاب ہے ’’ضوء السراج فی تحقیق المعراج یعنی چراغ کی روشنی‘‘۔ اس میں ہم نے وہ عقلی ونقلی شبہات جو ہمارے سامنے آئے ہیں، ان سب کے جوابات دیے ہیں۔
الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ۔ وہ مسجد اقصیٰ جس کے ارد گرد ہم نے برکت کی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے اردگرد ظاہر ی برکت بھی ہے، باطنی برکت بھی ہے۔ ظاہری یہ کہ بڑا زرخیز علاقہ ہے، سرسبز علاقہ ہے، پانی کے چشمے ہیں، باغات ہیں۔ اور باطنی یہ کہ بے شمار پیغمبر یہاں آئے ہیں اور ان کی وہاں قبریں ہیں۔
لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا۔ تاکہ ہم دکھائیں اس کو اپنی نشانیوں میں سے بعض۔ من تبعیضیہ ہے۔
إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ۔ جمہور مفسرین کرام تو فرماتے ہیں کہ انہ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے، یعنی وہ ذات سمیع اور بصیر ہے۔ روح البیان والے اسماعیل حقی رحمہ اللہ مفسر ہیں، رطب ویابس سب کچھ لکھ دیتے ہیں۔ انھوں نے انہ کی ضمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے کہ بے شک وہ بندہ سمیع ہے بصیر ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے معاذ اللہ کہ جس معنی میں رب سمیع اور بصیر ہے، اسی میں آپ بھی ہیں۔ نہیں۔ جو آپ کے شان کے لائق سمیع ہے کہ وہاں جو باتیں ہوئیں، وہ بھی سنیں اور جو کچھ ہوا، وہ بھی دیکھا۔ وہ لوگ بڑے صاف عقیدے والے ہوتے تھے۔ ایسے لفظ بول کر وہ معانی نہیں لیتے تھے جو آج کل کے غالی مبتدعین اور مشرکین لیتے ہیں۔ تو اگرچہ یہ تفسیر مرجوح ہے، لیکن اس کا معنی بھی صحیح ہے کہ وہ بندہ سمیع ہے، اس نے سنا بھی ہے دیکھا بھی ہے۔
وَآتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَائیْلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِیْ وَکِیْلاً
ربط: اوپر ذکر تھا مسجد اقصیٰ کا۔ اب اس پیغمبر کا ذکر آیا جو مسجد اقصیٰ میں رہنے والی مخلوق کی طرف بھیجے گئے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے ۔ فرمایا ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی۔
وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَائیْلَ۔ اور بنایا ہم نے اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے لیے۔ بعض وجعلنہ کی ضمیر کتاب کی طرف لوٹاتے ہیں کہ کتاب ہدایت تھی بنی اسرائیل کے لیے۔ یہ بھی صحیح ہے۔ اور بعض اس ضمیر کو موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹاتے تھے کہ وہ ہدایت تھے بنی اسرائیل کے لیے۔ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِیْ وَکِیْلا، یہ کہ میرے بغیر تم کسی کو کارساز نہ بناؤ۔ کارساز، کام بنانے والا صرف پروردگار ہے۔
ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّہُ کَانَ عَبْداً شَکُوراً
ذُرِّیَّۃَ کا نصب ہے یا سے ہے جو محذوف ہے، ای یا ذریۃ۔ اے اولاد ان کی جن کو ہم نے کشتی میں نوح علیہ السلام کے ساتھ سوار کیا۔ نوح علیہ السلام تو بڑے شکر گزار بندے تھے تو تم کیوں ناشکری پر کمر بستہ ہو!
وَقَضَیْْنَا إِلَی بَنِیْ إِسْرَائیْلَ فِیْ الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیْراً۔
ربط: بنی اسرائیل کا ذکر تھا تو اب بنی اسرائیل کی شرارتوں کا ذکر ہے۔ ہم نے فیصلہ اپنا سنا دیا بنی اسرائیل کو کتاب کے ذریعے کہ تم زمین میں فساد مچاؤ گے دو مرتبہ اور سرکشی کرو گے تم سرکشی بڑی۔ تفسیر کبیر، ابن کثیر، خازن، معالم، وغیرہ تفسیروں میں یہاں بڑی بحث ہے، لیکن جتنی بسط سے بحث صاحب تفسیر حقانی نے کی ہے، شاید کسی اور نے نہیں کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ دو دفعہ بنی اسرائیل کی شرارتوں کا بدلہ رب نے ان کو دیا۔ ایک دفعہ بخت نصر (بُخْتَ نَصَّرَ) ایرانی کے دور میں، جو ایران کا بادشاہ تھا اور بڑا جابر وظالم تھا۔ اس کی فوجیں وہاں داخل ہوئیں اور لوگوں کو قتل کیا۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی اور اس سلسلے میں بڑا کچھ ہوا۔ تو پہلی دفعہ یہ ہے۔
فَإِذَا جَاء وَعْدُ أُولاہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْْکُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ۔ ان مرتین میں سے جب پہلی بار کا وعدہ آیا تو ہم نے اپنے بندے بھیجے، یعنی بخت نصر ایرانی اور اس کی فوجیں۔ وہ گھروں میں گھس گئے۔ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً، اور یہ وعدہ طے شدہ تھا۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْْہِمْ، پھر ہم نے تمہارے لیے باری ان پر لوٹائی۔ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْن، اور ہم نے تمہاری مدد کی۔ مال بھی دیے، پیسے بھی دیے۔َ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً، اور ہم نے تمہیں برادری کے لحاظ سے، نفری کے لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے زیادہ کر دیا۔ ہم نے کہہ دیا، إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَہَا۔ اگر نیکی کرو گے تو اپنے نفوس کے لیے کرو گے۔ برائی کرو گے تو وہ برائی تمہارے نفوس کے لیے مختص ہے۔
فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَۃِ۔ اب دوسری دفعہ کا وعدہ آیا۔ دوسری دفعہ طیطس (طَیْطَس) رومی کا دور تھا۔ طیطس رومی بھی لکھ دیتے ہیں، طیطاؤس رومی بھی لکھتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ عیسائی تھا، بعض کہتے ہیں کہ نہیں، مشرک تھا۔ اس طیطس رومی کے دور میں پھر ارض مقدسہ پر، بیت المقدس پر حملہ ہوا اور بے پناہ لوگ قتل کیے گئے، مسجد کی بے حرمتی ہوئی۔ اس کا ذکر ہے کہ جب وعدہ دوسری مرتبہ کا آیا۔ لِیَسُوؤُواْ وُجُوہَکُمْ۔ یہ لام عاقبت ہے۔ انجام یہ ہے کہ انھوں نے اداس کر دیے، پریشان کر دیے تمہارے چہرے، اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے جیسے پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے، اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک کر دیں جس پر وہ غالب آئے ہیں ہلاک کرنا۔ ما علوا ای ما غلبوا۔
رب تعالیٰ نے فرمایا: عَسَی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ۔ قریب ہے کہ رب تم پر رحم فرمائے گا۔ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا، اگر تم لوٹو گے شرارتوں کی طرف، فساد کی طرف، تو ہم لوٹیں گے سزا دینے کی طرف۔ تم شرارتیں کرو، ہم سزا دیں گے۔ یہ تو دنیا کی سزا ہے۔ آخرت کی سزا الگ ہے۔ وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْراً۔ ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ محاصرہ کا لفظ اسی سے بنا ہے۔
إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ
ربط: پہلے تورات کا ذکر تھا۔ اب اس کتاب کی مناسبت سے قرآن پاک کا ذکر فرماتے ہیں کہ یہ قرآن کریم رہنمائی کرتا ہے۔ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ، بعض کہتے ہیں: للطریقہ التی ہی اقوم، یعنی طریقۃ کو موصوف نکالتے ہیں۔ بعض خصلۃ نکالتے ہیں، للخصلۃ التی ہی اقوم۔ اس خصلت کی طرف، اس طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو درست ہے۔ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْراً کَبِیْراً، اور مومنوں کو خوشخبری دیتا ہے جو نیک کام کرتے ہیں، اس بات کی کہ ان کے لیے اجر کبیر ہے۔ وأَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً، اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے، ان کے لیے ہم نے عذاب الیم تیار کیا ہے۔
وَیَدْعُ الإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاء ہُ بِالْخَیْْرِ وَکَانَ الإِنسَانُ عَجُولاً
ربط: اوپر ذکر تھا کہ ہم نے کافروں کے لیے جہنم بنائی۔ جو قیامت کے منکر تھے ، وہ کہتے تھے کہ لاؤ نا وہ جہنم جو تم نے ہمارے لیے قید خانہ تیار کر رکھا ہے۔ کیوں نہیں لاتے؟ کاہے کی دیر ہے۔ رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مانگتا ہے انسان شر کو جیسے مانگتا ہے خیر کو۔ یہیں نوٹ کر لینا۔َ یَدْعُ جو ہے، یہ واؤ اس میں گر گیا۔ صرف تخفیف کے لیے۔ نہ کوئی ناصب ہے اور نہ کوئی جازم ہے۔ ایک یہ مقام ہے اور ایک آگے پچیسویں پارے میں آئے گا: وَیَمْحُ اللَّہُ الْبَاطِلَ (الشوریٰ، آیت ۲۴) وہاں یمحو سے واؤ گرا ہے، لیکن ناصب جازم کوئی نہیں۔ تیسرا سورۂ علق میں آئے گا: سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (العلق، آیت ۱۸)۔ وہاں بھی واؤ گرا ہے صرف تخفیف کے لیے، ناصب جازم وہاں بھی کوئی نہیں۔ روح المعانی وغیرہ میں اس کی تصریح ہے۔
دُعَاء ہُ بِالْخَیْْرِ۔ یہ جو نصب ہے، نزع خافض کی وجہ سے ہے، ای کدعاءہ بالخیر۔ جیسے خیر کو مانگتا ہے، ویسے ہی عذاب کو بھی مانگتا ہے۔ وَکَانَ الإِنسَانُ عَجُولاً، اور ہے انسان جلد باز۔
فرمایا : وَجَعَلْنَا اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ وَکُلَّ شَیْْءٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیْلاً۔ اور ہم نے رات اور دن کی دو نشانیاں بنائی ہیں۔ رات کی نشانی ہم نے مٹائی اور دن کی نشانی کو ہم نے روشن کیا، تاکہ دن کو تم اللہ کا فضل تلاش کرو۔ مزدوری کرو ، محنت کرو، کماؤ۔ اور رات او ردن کے ذریعے تم سالوں کی گنتی اور حساب جانتے ہو۔ ہر چیز کو ہم نے تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا۔
وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُوراً
وَکُلَّ إِنسَانٍ۔ کُلَّ کی نصب أَلْزَمْنَا کے ساتھ ہے۔ یہ نصب علیٰ شریطۃ التفسیر ہے، ای الزمنا کل انسان۔ ہر انسان کو لازم کر دیا ہم نے پروانہ اس کا۔ قیامت کے دن جب نکلے گا تو ہر آدمی کا جو نامہ عمل ہوگا، اس کے گلے میں لٹکا ہوگا۔ تو ہر آدمی کا جو پروانہ ہے، وہ اس کی گردن میں ہے۔ آپ نے وہ قرآن کریم دیکھا ہوگا جو ایک ہی ورق پر لکھا ہوا ہے۔ گو کہ ہر آدمی پڑھ نہیں سکتا، یا حفاظ پڑھیں گے یا خورد بین کے ساتھ پڑھا جائے گا، لیکن ایک ہی کاغذ پر لکھا ہوا آپ نے دیکھا ہوگا۔ اسی طرح تمام نامہ عمل انسان کا کھلا ہوا اس کے سامنے ہوگا۔ اور دنیا میں کوئی پڑھا ہو اہے یا ان پڑھ ہے، وہاں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اتنی بصیرت عطا فرمائیں گے کہ خود پڑھ لے گا۔ اقْرَأْ کَتَابَکَ، خود پڑھ۔ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْْکَ حَسِیْباً، کافی ہے تیرا نفس آج کے دن تجھ پر حساب دان۔
اوپر ذکر ہے کہ ہم نے قران ہدایت کے لیے بھیجا یعنی نازل کیا۔ آگے فرماتے ہیں کہ جس طرح اس قرآن پاک کے ذریعے ہم نے ہدایت کی، پیغمبر بھیجنے سے پہلے ہم سزا نہیں دیتے۔ کیوں؟ اگر پیغمبروں کے آنے سے پہلے سزا ہوتی تو اس سلسلے میں لوگ کہہ سکتے تھے کہ ہم بے خبر ہیں۔ چھٹے پارے میں آپ پڑھ چکے ہیں: لِئلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (النساء آیت ۱۶۵)
آگے فرماتے ہیں کہ: وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُواْ فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیْراً۔ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے آسودہ حال لوگوں کو حکم کرتے ہیں، پس وہ نافرمانی کرتے ہیں۔ پس ان پر بات لازم ہوتی ہے اور ہم انھیں ہلاک کر دیتے ہیں۔ یہاں أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا، اس جملے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خود رب نافرمانی کا حکم دے تو ان کا گناہ کیا ہے کہ ان کو ہلاک کیا گیا۔ جب رب حکم دیتا ہے تو ان بے چاروں کا قصور کیا ہے؟ وہ رب سے زیادہ قوت والے تو نہیں کہ رب کے حکم کو ٹال سکیں۔ اس اشکال کے تین جواب ہیں:
ایک جواب بخاری کتاب التفسیر میں اور تمام تفسیروں میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امرنا کے معنی ہیں کثرنا، جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو زیادہ کر دیتے ہیں آسودہ حال لوگوں کو۔ جب وہ زیادہ ہوتے ہیں تو نافرمانی کرتے ہیں، کیونکہ دولت کا یہ خاصہ ہے کہ: وَلَوْ بَسَطَ اللَّہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِیْ الْأَرْضِ (الشوریٰ، آیت ۲۷)۔
دوسری تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابن کثیر، ابن جریر، معالم التنزیل، در منثور، روح المعانی وغیرہ میں مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امرنا مترفیہا بالطاعۃ، ہم وہاں کے آسودہ حال لوگوں کو طاعت کا حکم دیتے ہیں، لیکن وہ نافرمانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر عذاب لازم ہو جاتا ہے۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ امر سے امر ہی مراد ہے، لیکن امر تشریعی نہیں، بلکہ امر تکوینی۔ امر تشریعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ حکم کریں کہ بدی کرو۔ یہ مراد نہیں۔ امر تکوینی کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خیر اور شر کرنے کی قوت دی ہے۔ اگر کوئی شخص شر کی طرف چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ (الصف آیت ۵) اور نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی (النساء آیت ۱۱۵)۔ تو أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا سے مراد تکوینی امر ہے کہ اچھا اس راستے کو تم اختیار کرتے ہو تو کرو۔
آگے رب تعالیٰ فرماتے ہیں: مَّن کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیْہَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِیْدُ
العاجلۃ، یہ صفت ہے الدار کی۔ دار عربی میں مونث ہوتا ہے۔ جو شخص دار عاجلہ چاہتا ہے، جلدی والا گھر، یعنی دنیا تو ہم اس کے لیے جلدی کر دیتے ہیں، جو چاہیں جس کے لیے چاہیں۔ یہ نہیں کہ ہر ایک ہی چیز مل جاتی ہے،بلکہ جس کے لیے ہم چاہیں، اس کو دے دیتے ہیں۔ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلاہَا مَذْمُوماً مَّدْحُوراً۔ پھر اس کے لیے جہنم ہے۔ اس میں داخل ہوگا مذمت کیا ہوا پھٹکارا ہوا۔
وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَۃَ ای الدار الآخرۃ۔ اور آخرت کے گھر کا ارادہ کرے گا اور نرا ارادہ ہی نہیں، وَسَعَی لَہَا سَعْیَہَا، اس آخرت کے لیے کوشش بھی کرے گا۔ نری کوشش ہی نہیں، وَہُوَ مُؤْمِنٌ، ایمان کی صفت سے موصوف بھی ہو۔ مومن آخرت کی کوشش کرے تو اس کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ باقی رہا دنیا کا معاملہ تو کُلاًّ نُّمِدُّ ہَؤُلاء وَہَؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّکَ۔ کُلاًّ میں تنوین عوض مضاف الیہ کے ہے، ای کل واحد منہما۔ یہ جو طالب دنیا ہے اس کو بھی اور جو طالب آخرت ہے اس کو بھی، ہر ایک کو ہم مدد دیتے ہیں۔ تیرے رب کے عطیے سے دنیا میں ان کو بھی رزق ملتا ہے اور ان کو بھی۔ وَمَا کَانَ عَطَاء رَبِّکَ مَحْظُورًا۔ تیرے رب کا عطیہ محظور نہیں۔ حظر یحظر کا معنی ہے روکنا۔ فقہ میں آپ نے الحظر والاباحۃ کا جو باب پڑھا ہے، وہ اسی سے ہے، یعنی ممانعت اور اباحت کا باب۔
انظُرْ کَیْْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَلَلآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیْلاً
اللہ نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، شکل میں، قد میں، علم میں، مال میں، اولاد میں اور بہت سی چیزوں میں۔
لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّہِ إِلَہاً آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوماً مَّخْذُولاً
ربط: اوپر ذکر تھا کہ آخرت کی کوشش کریں۔ اب آخرت کی کوشش میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّہِ إِلَہاً آخَرَ۔ اگر بالفرض تم نے الہ بنایا تو تمہاری مذمت کی ہوگی اور رسوا اور ذلیل ہو کر بیٹھے رہو گے۔