محترم ناناجان کے بارے میں جملہ اقارب خاصی تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ میں صرف اپنے حوالے سے بعض یادداشتیں تحریر کرنا چاہوں گی۔
جب میری نسبت برطانیہ میں طے ہوئی تو میں یہ سوچ کر بہت آزردہ تھی کہ ملک چھوڑ کر اپنوں سے دور جانا پڑے گا۔ ناناجان کو معلوم ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ تم تو بہت خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تمھیں اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے اور تم کفار کے ملک میں جا کر دین کی خدمت کرو گی۔ جب برطانیہ روانگی کا وقت قریب آیا تو میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ نانا جان فرمانے لگے کہ وہاں مدرسہ میں جو بھی اسباق پڑھاؤ گی، خلوص دل سے پڑھانا اور دنیا کا لالچ مت رکھنا۔ دنیا خود تمہارے پاس آئے گی۔ پھر دین ودنیا میں کامیابی کے لیے دعا فرمائی۔ برطانیہ جا کر نانا جان کی اس بات کا عملی مشاہدہ بھی کیا۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آئی، اللہ تعالیٰ نے غیبی مدد فرمائی۔
جب برطانیہ میں مسلمان خواتین کے نقاب پہننے کے خلاف مہم چلی تو پاکستان کے اخبارات میں بھی اس کا چرچا ہوا۔ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں پاکستان آئی تو نانا جان سے ملاقات ہونے پر ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ ’’کڑیے! توں تے پردہ نئیں چھڈ دتا؟‘‘ (بیٹی، کہیں تم نے تو پردہ کرنا نہیں چھوڑ دیا؟) میں نے انھیں اطمینان دلایا کہ الحمد للہ پردہ اسی طرح قائم ہے اور رہے گا۔ یہ انھی بزرگوں کی دین سے محبت اور ہمارے دادا جان حضرت مولانا قاضی عبداللطیف نور اللہ مرقدہ کی پردے سے متعلق ہماری ذہن سازی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسانیاں پیدا فرمائیں اور ناچیز نے پردے کا اہتمام کرتے ہوئے برطانیہ کی یونی ورسٹیوں میں تعلیم بھی حاصل کی اور سرکاری اداروں میں مختلف کورسز بھی کیے۔
جب بھی پاکستان آنا ہوتا اور میں نانا جان کو ان کورسز کے متعلق تفصیل بتاتی تو بہت خوش ہوتے اور باقاعدہ ہاتھ اٹھا کر دعا فرماتے۔ ایک سوال ہمیشہ پوچھتے کہ تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟ میں بتاتی تو فرماتے کہ پاؤنڈوں میں نہیں، پاکستانی روپوں میں بتاؤ۔ پھر پوچھتے کہ وہاں کے اخراجات کیسے ہوتے ہیں؟ مہنگائی زیادہ ہے یا کم؟ پھر برکت کی دعا فرماتے۔
برطانیہ میں زیر تعلیم طالبات اردو زبان سے ناآشنا لیکن نانا جان کے مقام اور ان کی دینی خدمات سے بخوبی واقف ہوتی تھیں اور اکثر اس خواہش کا اظہار کرتی تھیں کہ ان کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ وہ بھی ان سے استفادہ کر سکیں۔ گزشتہ سال حج سے واپسی پر میں نے نانا جان سے عرض کیا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں آپ کی اجازت سے آپ کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہوں گی۔ آپ نے فرمایا کہ ضرور کرو۔ پھر پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی کتاب کا ترجمہ کرو گی؟ میں نے عرض کیا کہ آپ جس کے بارے میں حکم فرمائیں، ویسے میرا ارادہ کسی مختصر رسالے سے ابتدا کرنے کا ہے۔ فرمایا کہ ڈاڑھی کے مسئلے پر میرے رسالے سے شروع کرو اور اسے وہاں برطانیہ میں بھی تقسیم کرنا، کیونکہ وہاں ڈاڑھی کے حکم پر عمل ناپید ہے۔ پھر بڑے آزردہ انداز میں فرمایا کہ اب تو اسلامی ممالک میں بھی یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کو ہدایت نصیب فرمائیں۔
نانا جان ٹی وی کے سخت خلاف تھے۔ ہمارا ماموں زاد محمد اکرم (جو کم عمری میں ہی انتقال کر گیا) ٹی وی کا بہت شوقین تھا۔ ایک مرتبہ وہ ٹی وی دیکھنے کے لیے ہمسایوں کے گھر چلا گیا۔ اس کی والدہ کو پتہ چلا تو انھوں نے اس کی پٹائی کرنا شروع کر دی۔ ہماری چھوٹی نانی جان بہت نرم دل اور سادہ مزاج تھیں۔ وہ انھیں منع کرنے لگیں کہ اسے مت مارو۔ خاص طور پر انھیں یہ ڈر تھا کہ کہیں نانا جان کو پتہ نہ چل جائے۔ اتنے میں نانا جان مغرب کی نماز پڑھا کر گھر آ گئے۔ انھوں نے ممانی جان کو محمد اکرم کی پٹائی کرتے دیکھا تو پوچھا کہ کیوں مار رہی ہو؟ ممانی جان کے بولنے سے پہلے ہی نانی جان نے بچے کا دفاع کرنا چاہا اور بڑی سادگی سے کہنے لگیں کہ ہاں، میں بھی اسے کہہ رہی ہوں کہ اسے مت مارو۔ بچہ ہے، کیا ہوا جو ٹی وی دیکھنے چلا گیا۔ اس پر اس طرح پٹائی تو نہ کرو۔ نانا جان ٹی وی کا نام سنتے ہی فوراً چوکنا ہو گئے اور فرمایا کہ اچھا، یہ ٹی وی دیکھنے گیا تھا؟ اسے اور مارو۔
میں طالبات کو ایک بات بڑے فخر سے بتایا کرتی ہوں کہ میں نے نورانی قاعدہ سے لے کر دورۂ حدیث تک تمام اسباق اپنی والدہ محترمہ سے پڑھے ہیں۔ وہ حیرت سے پوچھتی ہیں کہ انھوں نے کن سے پڑھا ہے تو میں بتاتی ہوں کہ اپنے والد شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ، اپنے چچا اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ اور اپنے سسر حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے پاس۔
میں فقہ سے خصوصی شغف کی بنا پر ہمیشہ فقہ کی کوئی نہ کوئی کتاب ضرور پڑھاتی ہوں۔ ایک موقع پر میں کتاب الاختیار پڑھا رہی تھی تو نانا جان سے مجھ سے کہا کہ اس کے مصنف کا نام اور حالات زندگی بتاؤ۔ پہلی مرتبہ تو میرے ذہن میں یہ چیزیں نہیں تھیں، لیکن اگلی مرتبہ آئی تو یہ چیزیں خوب رٹ کر آئی کہ نانا جان پوچھیں گے اور جواب نہ آنے پر ڈانٹ پڑے گی۔
ایک مرتبہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ انگریزی میں گرینڈ فادر (Grandfather) کسے کہتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ دادا یا نانا کو۔ فرمانے لگے کہ شکر ہے۔ میں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا تو انھوں نے بتایا کہ (نانا جان کے نواسہ اور ہمارے پھوپھی زاد) رضوان کی بیٹی آئی تھی تو وہ مجھے گرینڈ فادر کہہ رہی تھی۔ میں سمجھا کہ یہ انگریزی میں کوئی گالی دے رہی ہے۔
گزشتہ سال اللہ کے فضل وکرم سے مجھے حج کی سعادت حاصل ہوئی اور میں سفر پر جانے سے پہلے ملاقات کے لیے نانا جان کے پاس حاضر ہوئی تو بہت خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ بڑا عمرہ (جعرانہ سے احرام باندھ کر) ضرور کرنا اور پوری امت مسلمہ کے لیے دعا کرنا۔ حج سے واپسی پر نانا جان سے جو ملاقات ہوئی، وہ زندگی کا ایک یادگار سرمایہ رہے گی کیونکہ اس موقع پر میں نے آخری مرتبہ والد محترم اور نانا جان کو اکٹھے دیکھا۔ ان دونوں کی بھی یہ آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ والد صاحب داغ مفارقت دے گئے اور اس کے بعد دو ماہ سے بھی کم عرصے میں نانا جان کی جدائی کا صدمہ بھی ہمیں سہنا پڑا۔
یادیں اور باتیں تو بہت سی ہیں، لیکن میں انھی پر اکتفا کرتی ہوں۔ تمام پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں، ہمارے سب بزرگوں کے درجات کی بلندی کے لیے دعا فرمائیں اور مجھے اور میرے بچوں کو بھی اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب ہستیوں کے درجات بلند فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو بھی راہ راست پر قائم رکھیں اور انھیں عالم باعمل بن کر دین کی خدمت کرنے اور اپنے باپ دادا کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین