اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں

ام عمار راشدی

یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے۔ ہمارے ابا جی ڈاکٹر محمد دین سرکاری ملازم تھے۔ ابا جی کی ٹرانسفر برنالی گاؤں میں ہوئی جو ایک نہایت پس ماندہ علاقہ تھا۔ وہاں حکومت کی طرف سے ابا جی کو جو ملازم ملا تھا، وہ پینے کے لیے پانی دوسرے گاؤں سے لایا کرتا تھا۔ یہ ایک بزرگ ملازم تھا جو ہماری فیملی کی خدمت پر مامور تھا۔ پانی ایک گدھی پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ پانی لا کر وہ باباجی گدھی کو باندھ کر اپنے کوارٹر میں جا کر سو جایا کرتے تھے۔ ایک دن ہم بہن بھائی کھیل رہے تھے کہ میری نظر گدھی پر پڑی۔ میں نے اس کی رسی کھولی اور ایسے ہی اس کے اوپر بیٹھ گئی۔ گدھی نے سمجھا کہ شاید اب ریس لگانی ہے۔ وہ اتنی تیزی سے بھاگی کہ پکی سڑک کے درمیان میں مجھے پٹخ کر گرا دیا۔ اس دوران میں میرے چھوٹے بھائی نے گھر والوں کو آگاہ کیا۔ امی او رابا جی گھر پر نہیں تھے۔ دادی محترمہ کو، جنھیں ہم بے جی کہا کرتے تھے، بتایا گیا کہ آپ کی لاڈلی گدھی سے گر کر سڑک پر پڑی رو رہی ہے۔ بے جی جلدی سے کوارٹر سے باہر نکلیں اور مجھے اٹھا کر کوارٹر کے اندر لے جایا گیا۔ پکی سڑک پر گرنے کی وجہ سے چوٹیں خوب لگی تھیں۔ مرہم پٹی کر کے مجھے چارپائی پر لٹا دیا گیا۔

شام کو جب امی اور ابا جی آئے تو بے جی ان کے سامنے رونے لگیں اور اپنے مخصوص انداز میں پنجابی میں کہنے لگیں ’’محمد دینا! ایہدا کج کر لے۔ ایہہ اج اپنی لنگ تروڑ لین لگی سی آ‘‘ (محمد دین! اس کا کچھ کر لو۔ یہ آج اپنی ٹانگ توڑ بیٹھنے لگی تھی)۔ ابا جی بہت پریشان ہوئے اور سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ یہ لڑکی بھائیوں کے ساتھ رہ کر لڑکوں والے کام کرنے لگی ہے، اس کا کچھ حل ہونا چاہیے۔ دوسرے دن وہ گجرات کے مدرسہ حیات النبی میں مولانا نذیر اللہ خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے مشورہ کر سکیں۔ مولانا نذیر اللہ خان ابا جی کے پیر بھائی تھے اور دونوں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے بیعت تھے۔ گزشتہ تیس پینتیس برس سے ابا جی کا معمول تھا کہ ان کا جہاں کہیں بھی تبادلہ ہوتا، وہ جمعہ گجرات میں مولانا نذیر اللہ خان کے پیچھے ہی پڑھتے تھے۔ ابا جی نے ان سے کہا کہ کیا میری بچی آپ کے زیر سایہ آپ کی بچیوں کے ساتھ قرآن کی تعلیم حاصل کر سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس تو اس کا انتظام نہیں ہے کیونکہ طالبات کا مدرسہ نہیں ہے، البتہ گکھڑ میں مولانا سرفراز خان صفدر کے گھر طالبات کی تعلیم ہوتی ہے اور مولانا کی کی اہلیہ محترمہ بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی ہیں۔ ابا جی نے ایڈریس لیا اور گکھڑ میں مولانا سرفراز خان صفدر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مدعا بیان کیا۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ ہمارے گھر میں تعلیم تو ہوتی ہے مگر شہری طالبات ہوتی ہیں جو پڑھ کر شام کو گھر چلی جاتی ہیں۔ ہم بچی کو گھر میں رکھنے سے معذور ہیں، کیونکہ ہمارا گھر لڑکوں والا ہے۔ البتہ اگر آپ ہمارے بڑے بیٹے زاہد کے لیے رشتہ دے دیں تو آپ کا تعلیم کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

ابا جی یہ بات سن کر خاموش ہو گئے۔ گھر واپس آ کر انھوں نے والدہ صاحبہ سے بات کی جو پہلے پہل تو نہیں مانیں لیکن پھر ابا جی نے انھیں قائل کر لیا۔ اُدھر مولانا سرفراز صاحب نے اپنے اہل خانہ کو بتایا کہ گجرات کے ایک ڈاکٹر صاحب اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے آئے تھے اور میں نے انھیں رشتے کے لیے کہا ہے۔ گھر والوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، دیکھ لیتے ہیں۔ اگر اچھے شریف لوگ ہیں تو رشتہ طے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مولانا سرفراز صاحب نے کہا کہ پھر آپ ان کے گھر کا ایک چکر لگا لیں۔ اس پر مولانا سرفراز صاحب کی دونوں بیگمات، بٹ دری فیکٹری کے مالک اللہ دتہ صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ شادی وال گئے جہاں ان دنوں ابا جی کا تبادلہ ہو چکا تھا۔ وہاں سے ابا جی ان مہمانوں کو ساتھ کر براستہ لالہ موسیٰ ہمارے آبائی گاؤں گلیانہ پہنچے، جو لالہ موسیٰ سے پانچ سات کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں ہمارے گھر والوں سے مہمانوں کی ملاقات ہوئی اور انھوں نے ہمارے گھر والوں کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ واپس جا کر انھوں نے مولانا صاحب کو بتایا کہ باقی سب تو ٹھیک ہے، لیکن لڑکی بہت چھوٹی ہے۔ اس پر مولانا نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں، کھائے پیے گی تو بڑی ہو جائے گی۔

اس کے بعد مولانا صاحب اور ان کے گھر والوں کی دعوت پر ہمارے گھر سے دس بارہ خواتین گکھڑ گئیں۔ ان میں خالہ، پھوپھیاں، ممانی او رچچی شامل تھیں۔ یہ خواتین واپس آئیں تو انھوں نے ابا جی کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ فیملی بہت بڑی ہے او ربرادری بھی دوسری ہے۔ پھر بچی کم عمر ہے، اس لیے یہ رشتہ مناسب نہیں۔ خصوصاً بے جی نے کہا کہ ’’محمد دینا! اک سس ای نئیں ، اوتھے دو سساں نیں‘‘ (دیکھ لو، وہاں ایک نہیں، دو ساسیں ہیں)۔ ابا جی نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ چاہے چار ساسیں ہوں، ہماری خوش بختی کے لیے یہ کافی ہے کہ اتنے اچھے، شریف، سلجھے ہوئے اور علم سے وابستہ خاندان کے ساتھ رشتہ قائم ہو جائے گا۔ چنانچہ دونوں طرف کی رضامندی سے چھوٹی موٹی تیاری کے بعد ٹھیک ایک ماہ بعد یہ شادی ہو گئی۔ والدین نے مجھے نصیحت کی کہ ہمیں شکایت نہیں ملنی چاہیے۔ دونوں ساسیں تمہاری مائیں ہیں اور اب تمہارا جینا مرنا وہیں ہے۔ الحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے اتنی ہمت دی کہ میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی ہمت سے بڑھ کر خدمت کرنے کی کوشش کی۔ گکھڑ آ کر میں ماؤں اور مولانا صاحب کی شفقت اور بہن بھائیوں کا پیار پا کر اپنے ماں باپ، بہن بھائی کو بالکل بھول گئی۔ اپنے گھر چھ بھائی، تین بہنیں اور والدین چھوڑ کر آئی تھی، اللہ نے یہاں تین بہنیں، آٹھ بھائی، دو مائیں اور ایک ابا جی عطا فرمائے۔ ان میں سے چھ بھائی اور ایک بہن مجھ سے چھوٹے اور باقی بڑے تھے۔ 

شادی کے بعد میں نے بڑی امی کے پاس قرآن مجید حفظ کیا۔ ۱۹۷۳ء میں میرے ہاں بیٹی کی پیدایش ہوئی جبکہ ۱۹۷۴ء میں قرآن مجید حفظ مکمل ہوا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد چھوٹے دیوروں عابد اور حماد کے ساتھ میں نے ابا جی کے پاس صرف ونحو پڑھی۔ کچھ عرصہ میں نے اور چھوٹی امی نے مل کر ابا جی کے پاس پڑھا۔ ہم جب سبق پڑھنے جاتے تو جیسے ہی ابا جی کے کمرے میں داخل ہوتے، ابا جی ہنسنے لگ جاتے۔ امی ذرا ٹھہر ٹھہر کے پڑھتیں یا کبھی اٹک کر پڑھتیں تو ابا جی پنجابی میں کہتے ’’چٹا چاٹا تے آٹا خراب‘‘، جس کی وجہ سے امی کو سبق کے لیے جانے سے پہلے فکر ہوتی کہ سبق اچھی طرح یاد ہو، ورنہ ابا جی پھر مذاق اڑائیں گے۔ ابا جی امی کو کہتے کہ پہلے تم صرف بیوی تھیں، اب شاگرد بھی ہو تو امی کہتیں، اف ماری گئی۔ جب ابا جی سبق پڑھاتے تو میں فوراً دہرا لیتی او رمجھے جلدی یاد ہو جاتا، لیکن امی کو فوراً یاد نہ ہوتا اور یاد کرنے میں وقت لگتا تھا، لیکن بعد میں، میں جلدی بھول جاتی جبکہ انھیں آموختہ، یاد رہتا تھا۔

حساب کتاب میں بڑے سخت تھے۔ نہ کسی کی ایک پائی خود رکھتے تھے اور نہ کسی کو لینے دیتے تھے۔ ان کا وقت طے تھا کہ سال میں کب گھر والوں کو کپڑے لے کر دینے ہیں۔ گندم، چاول، مہینے کا راشن، جوتے وغیرہ وہ خود حساب سے منگوا کردیتے تھے، جبکہ روزانہ کا خرچ بڑی امی کے سپرد کر دیتے تھے۔ ما شاء اللہ دونوں بیویوں کا اتفاق تھا اور کسی کو اعتراض نہ تھا کہ خرچہ بڑی امی کے پا س کیوں ہے یا کچن میں زیادہ وقت چھوٹی امی کیوں گزارتی ہیں۔ گھرکے معاملات میں انصاف اور آپس میں پیار تھا جس کی بڑی وجہ ابا جی کے اصول تھے۔ دونوں امیوں کا آپس میں بہت اتفاق تھا اور بہوؤں کے ساتھ اس قدر پیار اور شفقت کا رویہ تھا کہ باہر سے آنے والا یہ جان نہیں پاتا تھا کہ بہو کون سی ہے او ربیٹی کون سی۔ گھر کے کام میرے اور چھوٹی امی کے ذمے ہوتے تھے۔ امی کھانا بناتی تھیں اور اباجی ان کے ہاتھ کا کھانا پسند کرتے تھے۔ میں صفائی کے علاو ہ برتن اور کپڑے دھونے کا کام کرتی تھی۔ بڑی امی پڑھنے پڑھانے کا کام کرتی تھیں اور گھر کا برآمدہ اور کمرے ان کے شاگردوں سے بھرے ہوتے تھے، اس لیے ہم نے انھیں گھر کے کاموں کے جھنجھٹ سے فارغ کیا ہوا تھا۔ بڑی امی دنیاوی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک بے شمار لوگ ایسے ہیں جنھوں نے قرآن پاک کی تعلیم بڑی امی سے حاصل کی ہے۔

آپس میں ہنسی مذاق اور مل بیٹھنے کو ابا جی بہت پسند کرتے تھے اور بعض اوقات میری طرف اشارہ کر کے امیوں سے کہتے تھے کہ پہلا تُکا تو ٹھیک لگ گیا ہے، آگے پتہ نہیں کیا ہوگا۔ اس پر اللہ دتہ بٹ صاحب کی اہلیہ، بے جی کہتیں کہ مولوی صاحب! آپ خود اور آپ کی بیویاں بہت اچھی ہیں، اس لیے آگے بھی ان شاء اللہ اچھا ہی معاملہ ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ ابا جی کی سب بہوویں ایک سے بڑھ کر ایک اچھی ہیں، خدمت گزار او رملنسار ہیں۔ یہ اس گھرانے کی بڑی خوش قسمتی تھی۔ ہم سب بہووں کا آپس میں بہت اتفاق او رپیار ہے۔ جب بھی کسی موقع پر ملنا ہوتا ہے تو اچھی طر ح ملتی ہیں، ایک دوسرے سے ہنسی مذاق اور گپ شپ خوب ہوتی ہے۔ اس پر ابا جی بہت خوش ہوتے تھے اور ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہتے تھے۔

باہمی اتفاق او رپیار ومحبت میں ابا جی کا گھرانہ مثالی تھا اور لوگ مثال دیا کرتے تھے کہ دو مائیں ہیں اور ان کے بچے بھی ایک ہی گھر میں اکٹھے پلے بڑھے ہیں۔ ایسا ابا جی کے انصاف او رپیار وشفقت ہی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جس طرح اپنی اولاد کے ساتھ ان کی محبت مثالی تھی، اسی طرح بلکہ ا س سے بھی زیادہ ان کی اپنے بھائی سے محبت مثالی تھی۔ بچپن سے بڑھاپے تک ان کا پیار اور ایک دوسرے کے احترام حیران کن حد تک مثالی تھا۔ دونوں بھائیوں کے والد کم عمری میں ہی ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ اس کے بعد صوفی صاحب کی ہر قسم کی ذمہ داری ابا جی نے خود اپنے سر لے لی اور ہمیشہ اس کو نبھایا۔ صوفی صاحب، ان کی اولاد اور ان کی اہلیہ بھی ابا جی کی بہت عزت کرتے تھے۔ صوفی صاحب اپنے اہل خانہ سے کہتے تھے کہ گھر کے معاملات میں بھائی صاحب نے جیسے کہہ دیا ہے، ویسے ہی کریں۔ ساری زندگی صوفی صاحب کے اہل خانہ نے ان کی اس بات کو سر آنکھوں پر رکھا اور ابا جی کے ہر حکم کی اطاعت کی۔ 

صوفی صاحب بہت کم گکھڑ جاتے تھے۔ میں ۹ سال گکھڑ رہی۔ اس دوران وہ دو یا تین مرتبہ گکھڑ آئے۔ جب کبھی صوفی صاحب آتے تو ان کے آنے سے پہلے ہی ابا جی ہدایات دیتے کہ صوفی نے آنا ہے، اس کا پورا خیال رکھنا۔ دونوں امی کہتیں کہ ٹھیک ہے، پہلے بھی خدمت کرتے تھے، اب بھی کریں گے۔ اگر کسی سے بھی کسی قسم کی کمی بیشی ہو جاتی تو ابا جی ڈانٹ پلاتے تھے۔ ایک مرتبہ صوفی صاحب نے آنا تھا۔ حسب عادت ابا جی نے ہدایات دیں تو میں نے کہا، ٹھیک ہے، ہم سب ان کی خدمت کریں گے، بلکہ جہاں آپ کے اور صوفی صاحب کے جوتے پڑے ہوئے ہیں، وہیں بیٹھ جائیں گے، لیکن آپ کو بھی ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ بولے، پتر وہ کیا؟ میں نے کہا کہ اگر کوئی کوتاہی ہو گئی تو صوفی صاحب کے سامنے مت ڈانٹیے گا۔ ابا جی نے کہا کہ تم لوگ کوئی کوتاہی کرنا ہی نہ۔ میں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ڈانٹ تو پڑے گی ہی پڑے گی، تو ابا جی ہنسنے لگے۔

دونوں بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ابا جی کے رعب اور دبدبے کی وجہ سے ان کے اپنے بچے، بیٹے اور بیٹیاں صوفی صاحب کے ساتھ زیادہ بے تکلف تھیں۔ صوفی صاحب ابا جی کی بیٹیوں سے بڑی تفصیل سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ جب کبھی ابا جی کی بیٹیاں آتیں تو وہ ان سے ان کے اور ان کے سسرال کے متعلق بہت تفصیل سے دریافت کرتے اور مناسب مشورے بھی دیتے تھے۔ اسی طرح ابا جی کی بہووں سے ہمارے میکے کے متعلق بات چیت کرتے تھے۔ ہم سب بے تکلفی سے ہر موضوع پر ان کے ساتھ بات کر لیتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے ساتھ زیادہ قرب محسوس کرتے تھے۔ 

ابا جی کی اولاد کی پیدایش تو گکھڑ میں ہوئی لیکن سب نے تعلیم صوفی صاحب کے زیر سایہ گوجرانوالہ میں حاصل کی اور انھوں نے سب بچوں کے سر پر اپنا دست شفقت رکھا۔ نہ صرف صوفی صاحب ہمیشہ ان کا بہت خیال رکھتے اور ہمیشہ مشفقانہ برتاؤ کرتے تھے، بلکہ چچی صاحبہ نے بھی سب کا بہت خیال رکھا۔ ابا جی کی سب اولاد کو صوفی صاحب کے گھر میں ہر طرح کی آزادی اور سہولت میسر تھی اور کھانے پینے یا کسی بھی معاملے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ چچی صاحبہ کی شفقت صوفی صاحب کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی قائم ہے۔ 

ابا جی او رصوفی صاحب کی طرح چچی صاحبہ اور ابا جی کی دونوں بیگمات میں بھی پیار محبت کا مثالی تعلق تھا اور وہ گھر الگ الگ ہونے کے باوجو د ہر کام باہمی مشورے سے کرتی تھیں۔ صوفی صاحب اپنی بھاوجوں کا بہت احترام کرتے تھے اور ابا جی بھی اپنی بھاوج کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان کو پیار سے ’’جوہری‘‘ (زہرہ) کہتے تھے۔ جب تک ابا جی نصرۃ العلوم آتے رہے، چچی ہمیشہ اچھے انداز سے ان کا استقبال کرتی تھیں۔ صوفی صاحب نے اپنی اولاد کی تربیت بھی کی تھی کہ وہ بھی ابا جی کا بہت احترام کرتے تھے۔ صوفی صاحب کے بچے جب بھی گکھڑ جاتے تو ابا جی انھیں بہت پروٹوکول دیتے تھے۔ بار بار پوچھتے کہ بچوں نے کچھ کھایا ہے؟ اور بچوں سے بھی معلوم کرتے۔

جب میری شادی ہوئی تو کچھ دن کے بعد صوفی صاحب گکھڑ آئے او رمجھے بلوایا۔ میں گئی تو میرے سر پر ہاتھ پھیرا، مجھ سے میری تعلیم اور بہن بھائیوں کے بارے میں پوچھا۔ میرے والد ڈاکٹر محمد دین صاحب کی سروس کے بارے میں بھی دریافت کیا، حتیٰ کہ دادا دادی کے بارے میں بھی پوچھا کہ کیا وہ زندہ ہیں؟ میں اپنی معلومات کے مطابق انھیں جواب دیتی رہی۔ صوفی صاحب نے مجھ سے میرے دادا کا نام پوچھا تو میں نے نظام دین بتایا۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ اچھا وہ جو ریڈیو پر کام کرتے ہیں؟ میں نے کہا، نہیں وہ تو میرے والد صاحب کے بچپن میں وفات پا گئے تھے۔ بعد میں، میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ دادا کا نام نظام دین نہیں بلکہ امام دین تھا۔ جتنی دیر تک صوفی صاحب میرا انٹرویو کرتے رہے، ابا جی پاس بیٹھے ہلکے ہلکے مسکراتے رہے۔ پھر صوفی صاحب نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے پچاس روپے سلامی دی۔ اس وقت ڈیڑھ سو روپے کا ایک تولہ سونا آ جاتا تھا۔ عام رواج دو یا تین روپے کی سلامی کا تھا اور اس لحاظ سے پچاس روپے کی سلامی بہت زیادہ تھی۔ میں نے امی کو بتایا کہ صوفی صاحب نے اتنے زیادہ پیسے مجھے دیے ہیں تو میں ان کا کیا کروں؟ انھوں نے کہا کہ اللہ دتہ بٹ صاحب کی اہلیہ آئیں گی تو ان کے ذریعے سے تمھیں سونے کی انگوٹھی بنوا دیں گے، کیونکہ میرے پاس صرف ایک انگوٹھی تھی۔ ایسا ہی ہوا اور پورے پچاس روپے کی ایک سونے کی انگوٹھی بن گئی۔

ابا جی کی طرح صوفی صاحب بھی خوب ہنسی مزاح کیا کرتے تھے، بلکہ ابا جی کی بہ نسبت زیادہ کھل کر ہنستے اور قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ وفات سے پانچ چھ ماہ پہلے میں ان کے گھر گئی اور چچی صاحبہ کے گھر سے مشروب وغیرہ پی کر اوپر حاجی فیاض صاحب کی رہایش گاہ پر چلی گئی تو صوفی صاحب نے چچی سے کہا کہ اس کو کوئی دانہ پانی ڈالا ہے یا نہیں؟ چچی نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ کوئی مرغی ہے جو اسے دانہ پانی ڈالوں؟ صوفی صاحب کی محبت اور شفقت کا انداز آخری وقت تک قائم رہا۔ جب بھی ہم ملنے جاتے، وہ ایک ایک فرد کا پوچھتے۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی یادداشت بہت متاثر ہو چکی تھی، لیکن پھر بھی جب میں ملنے جاتی تو پوچھتے کہ زاہد کہاں ہے؟ ملک میں ہے یا ملک سے باہر؟ راشدی صاحب سے انھیں خاص لگاؤ تھا۔ کہتے تھے کہ یہ میرا بڑا بیٹا ہے۔ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے حاجی فیاض صاحب کی شادی اپنے بھائی کی پوتی یعنی میری بیٹی کے ساتھ کی جبکہ سب سے چھوٹے بیٹے عرباض سواتی کی شادی ابا جی کی نواسی یعنی جہلم والی بھتیجی کی بیٹی سے کی۔ جب صوفی صاحب نے حاجی فیاض صاحب کے لیے رشتے کی بات کی تو راشدی صاحب بہت خوش ہوئے۔ وہ اس بات پر بہت فخر محسوس کرتے تھے کہ چچا جی نے مجھے اس قابل سمجھا اور مجھ پر اعتماد کیا۔ چچا بھتیجے کا فیصلہ ماشاء اللہ بہت کامیاب رہا۔ اللہ تعالیٰ سب کی بیٹیوں کا تعلق ایسے ہی گھرانوں کے ساتھ جوڑے۔ چچی اکثر صوفی صاحب کی یہ بات دہراتی ہیں کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سمدھی نہیں سمجھا۔ جس طرح حاجی فیاض صاحب کی شادی سے پہلے تعلقات تھے، اسی طرح اب بھی ہیں۔ ہمارا ماں بیٹی کا تعلق ہے اور میں اکثر چچی صاحب سے ایسا مذاق بھی کر لیتی ہوں جو بے تکلف سہیلیاں ہی آپس میں کر سکتی ہیں۔ اب ہمارے بزرگوں میں سے چچی صاحبہ ہی بچی ہیں۔ اللہ ان کا سایہ صحت اور عافیت کے ساتھ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین

ابا جی نے اپنی زندگی بہت نظم وضبط کے ساتھ گزاری ہے۔ ان کا چوبیس گھنٹے کا ٹائم ٹیبل مقرر تھا اور وہ اس کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے۔ ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہیں ہونے دیتے تھے۔ سحری کے وقت وہ بیدار ہوتے اور گھر میں گیزر اور موٹر ہونے کے باوجود ساری زندگی نلکے سے تازہ پانی خود نکال کر صبح غسل کرتے تھے۔ غسل کے بعد نفل پڑھتے۔ اس کے بعد بڑی امی ناشتہ بناتی اور ابا جی فجر کی اذان کے وقت ناشتہ کرتے تھے۔ وہ ناشتے میں ایک پراٹھا اور دو کپ چائے پیتے تھے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ مسجد میں جا کر نماز پڑھاتے اور درس قرآن دیتے تھے۔ جب واپس آتے تو اتنے میں گوجرانوالہ سے مدرسہ نصرۃ العلوم سے ڈرائیور گاڑی لے کر پہنچ جاتا تھا۔ ڈرائیور ناشتہ کر کے ابا جی کو ساتھ لے جاتا جہاں سے دس، گیارہ بجے کے قریب ان کی واپسی ہوتی۔ اس وقت تک ان کا کھانا تیار ہو چکا ہوتا تھا۔ عام حالات میں گھر داخل ہو کر السلام علیکم کہتے تھے، لیکن کبھی کسی کام سے دیر ہو جاتی اور ان کی بھوک شدید تر ہو چکی ہوتی تو گھر میں داخل ہوتے ہی آواز لگاتے ’’کھانا لاؤ، السلام علیکم‘‘۔ کھانے سے فارغ ہو کر دوپہر کو پابندی کے ساتھ آرام کرتے تھے۔ ان کی نیند بہت ہلکی تھی۔ جتنی دیر وہ آرام کرتے، ہم صحن سے چڑیوں اور کووں کو اڑاتے رہتے تھے کیونکہ ان کی آواز سے ابا جی کی نیند خراب ہو جاتی تھی۔ 

ظہر کی نماز پڑھا کر ابا جی آتے تو قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔ ظہر اور عصر کے بعد دم کرانے والے حضرات اور خواتین کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہتا تھا۔ عصر کی نماز جبکہ سردیوں میں مغرب کی نماز نارمل اسکول جا کر پڑھاتے تھے اور اس کے بعد درس قرآن دیتے تھے۔ نارمل اسکول ان کے گھر سے ایک یا سوا میل کے فاصلے پر تھا۔ ابا جی روزانہ پیدل وہاں جاتے تھے اور سردی ہو یا گرمی، کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔ 

مغرب کی نماز پڑھا کر آتے تو گرمیوں میں باہر صحن میں جبکہ سردیوں میں اپنے کمرے میں بیٹھتے تھے۔ صحن آدھا کچا اور آدھا پختہ فرش والا تھا۔ (یہ آج سے پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے) کچے صحن میں پودے لگے ہوتے تھے اور ایک ترتیب سے چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔ رات کا کھانا سب وہیں کھاتے تھے۔ روزانہ رات کو ابلے ہوئے چاول پکتے تھے۔ ساتھ دودھ، دہی اور دال ہوتی تھی تاکہ اپنی اپنی پسند کے مطابق جو فرد جو کھانا چاہے، کھا لے۔ ابا جی کے لیے الگ شوربہ بنتا تھا، کیونکہ وہ ہلکی نمک مرچ کھاتے تھے۔ دال چاول انھیں بہت مرغوب تھے۔ ابا جی کو کبھی مزید چاول لینے ہوتے تو کہتے کہ بڈھی سے کہو ایک ٹکے کے چاول دو۔ شروع میں مجھے سمجھ نہیں آتی تو میں دوبارہ پوچھتی کہ کتنے چاول لاؤں؟ وہ کہتے کہ بڈھی سے کہو۔ کبھی کہتے دو ٹکے کے چاول لاؤ۔ امیوں کو اندازہ ہوتا تھا کہ ایک ٹکے کتنی مقدار ہے اور دو ٹکے کتنی۔ کھانے کے بعد پھل ضرور کھاتے تھے۔ تبخیر کے مریض تھے، اس لیے موسمی بہت پسند کرتے تھے اور زیادہ پابندی کے ساتھ کھاتے تھے۔ 

ابا جی اپنے استعمال میں صرف دو تین جوڑے رکھتے تھے۔ اس سے زائد کپڑے ان کے استعمال میں نہیں ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بس ٹھیک ہے، ان سے گزارا ہو جاتا ہے۔ امی ان سے پوچھے بغیر ایک آدھ سوٹ سلوا کر رکھ لیتی تھیں کہ اگر اچانک کہیں جانا پڑ جائے تو آسانی ہوگی۔ ابا جی عید یا کسی شادی وغیرہ کے موقع پر بھی نئے کپڑے نہیں بنواتے تھے۔ ایسے موقع پر امی کا بن پوچھے بنوایا ہوا جوڑا کام آ جاتا۔ ابا جی کا معمول تھا کہ سردیوں میں سوموار اور جمعے کو جبکہ گرمیوں میں روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر کپڑے تبدیل کرتے تھے۔ ان کے کپڑوں سے کبھی پسینے کی بو نہیں آتی تھی، بلکہ تین یا چار دن کے پہنے ہوئے کپڑے بھی جب دھوئے جاتے تو سونگھنے سے ان سے ہلکی ہلکی خوشبو آتی تھی۔ ان کے کمرے سے بھی ہمیشہ مدھم مدھم خوشبو آتی تھی۔ وضو وہ اپنے کمرے کے ساتھ ملحقہ ڈیوڑھی میں ہی کرتے تھے۔ ان کا ایک بڑا سا لوٹا تھا جس میں عام سائز کے تین چار لوٹوں جتنا پانی سما جاتا تھا۔ یہ جہازی سائز کا لوٹا سلور کا بنا ہوتا تھا جسے راشدی صاحب گوجرانوالہ سے لے کر جاتے تھے۔ 

سونے کا ان کا اپنا انداز تھا۔ دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر سوتے تھے۔ گرمیوں میں باہر صحن میں تہبند اور کرتی پہن کر اور سر پر رومال باندھ کر سوتے تھے اور ہمیشہ دائیں کروٹ پر سوتے تھے۔ سردیوں میں رضائی سارے سر پر لپیٹ کر اور تھوڑا سا چہرہ باہر نکال کر سوتے تھے۔ اپنے کمرے او راپنی چارپائی سے انھیں بہت انس تھا۔ موقع کوئی بھی ہو، وہ اپنے کمرے میں اپنی چارپائی پر ہی سوتے تھے۔ جب وہ بیمار ہوئے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کی آب وہوا تبدیل کی جائے۔ ان کے کہنے پر راشدی صاحب نے بھی بہت کوشش کی کہ وہ گوجرانوالہ آ جائیں اور بھائی عبد الحق صاحب نے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ ابا جی کچھ دنوں کے لیے ہی سہی، گجرات آ جا ئیں لیکن وہ نہیں مانے۔ البتہ شاید مدرسہ نصرۃ العلوم کے ساتھ پرانی یادیں وابستہ ہونے کی وجہ سے وہ بیماری کے دوران دو مرتبہ تقریباً دس دس دن کے لیے قارن صاحب کے گھر رہنے کے لیے آئے۔ ہم سب نے کوشش کی کہ وہ ہمارے ہاں رہیں، لیکن ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ میرا کمرہ اور میری چارپائی، بس مجھے وہیں پہنچاؤ۔ وہ اپنے کمرے میں واپس جانے کے بہانے تلاش کرتے تھے، کیونکہ انھیں وہیں جا کر سکون ملتا تھا۔ ان کا کمرہ بہت یادگار کمرہ ہے۔ انھوں نے اپنی تمام کتابیں وہیں بیٹھ کر لکھیں، بہت سی اہم شخصیات کے ساتھ ملاقات بھی اسی کمرے میں ہوئی اور بہت سے اہم فیصلے بھی وہیں ہوئے۔ 

اپنے کمرے میں مخصوص چارپائی کے علاوہ کوئی دوسری چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان کی چارپائی سیبے کی رسی سے بنی ہوتی تھی اور وہ اپنی چارپائی خود اس طرح کستے تھے کہ ابا جی کے بیٹھنے سے بھی وہ ڈھیلی نہیں ہوتی تھی۔ ان کی عادت تھی کہ گرمیوں میں چارپائی پر بستر نہیں بچھاتے تھے، بس پائنتی پر ایک دری ڈال لیتے تھے۔ البتہ سردیوں میں نیچے گدا اور چادر بچھاتے تھے۔ ان کے کمرے میں گنی چنی چند چیزیں پڑی ہوتی تھیں۔ دو چارپائیاں، دو کرسیاں اور ایک میز۔ ایک قالین نماز جاے نماز، دو یا تین گاؤ تکیے، ایک لکڑی کی پھٹی جس پر وہ قرآن مجید رکھ کر پڑھتے اور تصنیف کا کام کرتے تھے۔ دو یا تین لاٹھیاں اور دروازے کے پیچھے ایک بڑا ڈنڈا اور ایک کلہاڑی رکھی ہوتی تھی۔ یہ آج سے تیس سال پہلے کی بات ہے جب میں گکھڑ میں ہی رہتی تھی۔ ابا جی کھانا جاے نماز پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔ ان کے کھانے کے بھی مخصوص برتن تھے۔ سٹیل کا ٹرے، ایک گلاس اور ایک پلیٹ۔ سادہ برتن پسند کرتے تھے۔ کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہمیشہ ہم ان کے ہاتھ دھلاتے تھے۔ جگ یا گلاس میں پانی لے کر ساتھ ایک بڑا برتن لے جاتے جس میں وہ ہاتھ دھوتے تھے۔ ان کے پاس دستی رومال موجود ہوتا تھا جس سے وہ اپنے ہاتھ خشک کرتے تھے۔ 

سردیوں میں سردی سے بچاؤ کا بہت اہتمام کرتے تھے کہ اگر میں بیمار ہو گیا تو پڑھنے پڑھانے میں خلل آئے گا۔ سردیوں میں ان کا لباس یہ ہوتا تھا کہ صدری یا کرتی، پھر قمیص اور اس کے اوپر پورے بازو کی جرسی، اوپر واسکٹ اور اس کے اوپر موٹا کوٹ پہنتے تھے۔ یہ اچکن کی طرز کا ایک لمبا سا کوٹ ہوتا تھا۔ اگر بارش ہوتی تو گرم چادر یعنی دھسا بھی لے لیتے تھے۔ پہلے کبھی کبھی کالی پگڑی باندھتے تھے، جبکہ گرمیوں میں لون کی سفید رنگ کی پگڑی باندھتے تھے۔ موٹی جرابیں پہنتے تھے۔ زنجیر والی گھڑی ہمیشہ جیب میں رکھتے تھے، کلائی والی گھڑی استعمال نہیں کرتے تھے۔ موٹے شیشوں کی عینک پہنتے تھے۔ 

ابا جی سب بچوں کے ناخن خود کاٹتے تھے۔ ایک دفعہ سب کے ناخن کاٹ رہے تھے تو میر ے بھی کاٹے۔ مجھے بہت جھجھک محسوس ہو رہی تھی۔ امیوں نے سمجھا یا کہ سب کے ناخن وہی کاٹتے ہیں، کچھ نہیں ہوتا تو میں نے بھی کٹوا لیے، لیکن ابا جی نے اس قدر رگڑ کر ناخن کاٹے کہ ایک مہینے تک ناخن نہیں بڑھے اور کئی دن تک میرے انگلیوں کے پور درد کرتے رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک مرتبہ پھر ابا جی سب کے ناخن کاٹ رہے تھے تو مجھے بھی ناخن کٹوانے کے لیے بلایا۔ میں نے خوف زدہ ہو کر ہاتھ بغلوں میں دبا لیے کہ ہاے ابا جی نہیں، پہلے بھی میری انگلیوں میں ورم ہو گیا تھا۔ اس پر امی نے بھی میری حمایت کی کہ آپ چھوڑیں، یہ خو دکاٹ لے گی۔ تب میری جان بخشی ہوئی۔

ہم تقریباً نو سال تک گکھڑ رہے۔ جب تک میں گکھڑ میں رہی، ابا جی کو کسی بڑی بیماری میں مبتلا نہیں دیکھا۔ البتہ انھیں دل کی تکلیف رہتی تھی۔ دن یا رات کو جب بھی تکلیف زیادہ ہوتی تو اونچی اونچی آواز نکالتے تھے۔ سب گھر والے بھاگے ہوئے آتے۔ کوئی ہاتھ ملتا تو کوئی سر۔ کبھی آدھے گھنٹے کے بعد آرام آ جاتا اور کبھی دو دو گھنٹے تک تکلیف رہتی۔ یہ تکلیف کبھی دو تین ماہ کے وقفے سے ہوتی تھی اور کبھی مہینے میں ایک دو بار بھی ہو جاتی تھی۔ اس تکلیف کے لیے خمیرہ گاؤزبان سادہ کا نسخہ گوجرانوالہ سے لے کر جاتے اور چھوٹی امی اسے تیار کرتیں۔ دو دن اس کی تیاری میں لگ جاتے تھے۔ پکانے کے بعد پیتل کے ایک بڑے برتن میں چھان کر اسے سارا دن گھوٹنا پڑتا تھا۔ پھر اس کی رنگت سیاہ سے سفید ہو جاتی۔ ابا جی کو دکھایا جاتا تو وہ انگلی سے چیک کر کے کہتے کہ ابھی اسے مزید گھوٹا جائے۔ چھوٹی امی کہتیں، ہائے مولوی صاحب، اب تو ہمارے بازو بھی رہ گئے ہیں۔ ابا جی کہتے کہ جب رہ جائیں تو پھر بس کر دینا، لیکن ابھی اس کو مزید گھوٹو۔ کبھی کبھی گرمی کے موسم میں باہر صحن میں بیٹھ جاتے اور کہتے کہ میرے سامنے گھوٹو۔ جب خمیرہ تیار ہو جاتا تو چینی کے مرتبان میں ڈال کر اپنے کمرے میں الماری میں رکھ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ تیار کیا ہوا خمیرہ مہینے یا ڈیڑھ مہینے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ روزانہ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر ایک چمچ کھایا کیا کرتے تھے۔ چونکہ ہمیں معلوم ہوتا تھا، اس لیے جیسے ہی وہ عصر کی نماز پڑھا کر گھر آتے، ہم پانی اور چمچہ ان کے کمرے میں لے جاتے۔ عشا کی نماز کے بعد ابا جی اپنے اسباق کا مطالعہ کرتے تھے اور دونوں امیاں تقریباً ایک گھنٹے تک ان کا جسم دباتی تھیں۔ اس کے بعد وہ سو جاتے تھے۔ رمضان میں تراویح سے فارغ ہو کر جلدی سو جاتے تھے۔

ابا جی ایک ہی درزی سے کپڑے سلواتے، ایک ہی موچی سے جوتا بنواتے اور ایک ہی حجام سے بال کٹواتے تھے۔ ہر جمعہ کو چھت پر ایک چارپائی رکھ دی جاتی تھی۔ حجام کے آنے سے گھنٹہ آدھ گھنٹہ پہلے ابا جی چھت پر چلے جاتے اور اپنے اور بچوں کے ناخن کاٹتے تھے اور ٹیوزر کے ساتھ چہرے کے فالتو بال بھی صاف کرتے تھے۔ پھر حجام آتا اور وہ استرے سے اپنا سر منڈواتے تھے۔ کبھی کسی نے ابا جی کے سر پر بال نہیں دیکھے۔ نہ اولاد نے او رنہ کسی اور نے، البتہ امیوں نے ممکن ہے کبھی دیکھے ہوں۔ ایک دفعہ حجام کی آمد پر لطیفہ سا بن گیا۔ عید کے موقع پر ابا جی کی سب بہوویں اور بیٹیاں گکھڑ میں جمع ہوتی تھیں۔ ایک دفعہ عید کے دوسرے یا تیسرے دن جمعہ تھا اور ہم سب وہاں جمع تھے۔ حجام آیا تو ہمیں معلوم تھا کہ اب ابا جی بچوں کو بھی اوپر بلائیں گے اور جن کے سر پر بال ہوئے، ان کی خیر نہیں۔ مجھے ٹنڈ اچھی نہیں لگتی تھی، اس لیے میں نے سب بچوں کو بہلا پھسلا کر گھر سے باہر بھیج دیا اور کہا کہ جب تک حجام گھر میں ہے، تم نے اندر نہیں آنا۔ سب کو بھیج کر میں مطمئن ہو گئی۔ اتنے میں چھوٹی امی نے آواز دی کہ ارے ادھر تو دیکھو۔ ادھر جو دیکھا تو میرا اپنا بیٹا عمار خان ناصر مزے سے اپنی چمکتی ہوئی ٹنڈ پر ہاتھ پھیرتا ہوا سیڑھیوں سے اتر رہا تھا۔ سب خواتین جن کے بچوں کو میں نے گھر سے باہر بھیجا تھا، ہنسنے لگیں اور میں اپنا سر پکڑ کر رہ گئی۔

ابا جی اپنی جوتی گوجرانوالہ کے ایک موچی سے خصوصی طور پر بنواتے تھے۔ ہماری شادی پر بھی اسی موچی سے اسپیشل جوتا تیار کرایا تھا جو وہ بارات پر پہن کر آئے تھے۔ مجھے اس موچی کے بنائے ہوئے جوتے بالکل پسند نہیں تھے۔ ایک مرتبہ ابا جی اپنا نیا جوتا تیار کرا کر لے گئے تو کہا کہ پتر، یہ جوتے سنبھال دو۔ میں نے بے ساختہ کہا کہ افوہ، ابھی یہ موچی مرا نہیں! ابا جی نے کہا: لا حول ولا قوۃ الا باللہ، تم کیوں اس بے چارے کو مارنا چاہتی ہو۔ میں نے کہا کہ آپ کے صاحبزادہ صاحب بھی اسی سے بے سرے بوٹ بنوا لیتے ہیں۔ اس پر ابا جی بہت ہنسے اور کہا کہ کبھی جوتے بھی سر کے یا بے سرے ہوتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں بازار میں ہر سر کے جوتے ہوتے ہیں، لیکن جب تک یہ موچی زندہ ہے، آپ باپ بیٹا نے سر کے جوتے نہیں پہننے۔ کافی عرصے کے بعد یہ موچی فوت ہو گیا تو ابا جی ایک دن گوجرانوالہ سے گئے اور کہا کہ پتر، اب زاہد سر کے جوتے پہنے گا۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے؟ تو کہا کہ بابا موچی بے چارہ فوت ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کا کوئی بیٹا تو یہ کام نہیں کرتا؟ ابا جی نے کہا کہ ہاں، کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ پھر اپنے بیٹے کو اس کے متعلق نہ بتائیے گا۔

ابا جی کا مزاج اپنے چھوٹے بھائی صوفی صاحب کی بہ نسبت گھریلو معاملات میں سخت تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جیسے میں ہر کام کو وقت پر مکمل کرتا ہوں، ایسے ہی سب کریں۔ لیکن سخت مزاجی کے باوجود ہنسی مزاح چلتا رہتا تھا۔ ابا جی اپنی دونوں بیویوں کو ’’بڈھی‘‘ کہتے تھے۔ کبھی مجھے کہتے کہ بڑی بڈھی کو بلاؤ تو میں شرارت سے چھوٹی امی کو بھیج دیتی، اور کبھی کہتے کہ چھوٹی بڈھی کو بلاؤ تو میں بڑی امی کو بھیج دیتی۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مذاق ابا جی کے ساتھ چلتے رہتے تھے۔ بعض دفعہ ابا جی اتنی سنجیدگی سے مذاق کرتے تھے کہ بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ میرے آنے سے پہلے گھر میں رنگ روغن مرد کرتے تھے او ر سامان کو ادھر ادھر کرنے اور پھر پردے کی وجہ سے کافی مسئلہ ہوتا تھا۔ ایک بار میں نے اباجی سے کہا کہ آپ سامان منگوا دیں، ہم خود روغن کر لیں گے۔ ابا جی نے کہا کہ یہ بہت مشکل کام ہے، تم لوگوں کے بس کا نہیں، لیکن میرے اور چھوٹی امی کے اصرار پر ابا جی نے سامان منگوا دیا اور ہم نے خود ہی روغن کیا۔ اس کے بعد میں اور چھوٹی امی خود ہی یہ کام کرتے تھے۔ لیکن پہلی مرتبہ جب روغن کیا تو اناڑی پن کی وجہ سے ہاتھوں کی انگلیوں میں سوراخ ہو گئے، لیکن کام جیسے تیسے مکمل کر لیا۔ ابا جی کو پتہ چلا تو کہنے لگے کہ پتر، بگدا یعنی ٹوکا لاؤ۔ میں ٹوکا لے کر آئی تو ابا جی ٹوکا اٹھا کر میرے ہاتھ کاٹنے لگے۔ میں نے چیخ مار کر امی کو آواز دی تو چھوٹی امی بھاگتی ہوئی آئیں۔ ان کے ہاتھوں میں بھی سوراخ تھے۔ میں نے ان کو آگے کر دیا کہ ان کے ہاتھوں میں بھی سوراخ ہیں، پہلے ان کے کاٹیں۔ 

گھر میں ایک ہی بیت الخلا تھا اور وہ بھی دوسری منزل پر۔ اس پر چھت بھی نہیں تھی۔ ایک دفعہ بارش ہوئی تو ابا جی نے کہا کہ چھتری لاؤ۔ اتفاق سے چھتری کوئی لے کر گیا ہوا تھا۔ اب امی پریشان ہوئیں کہ کیا کریں، مولوی صاحب چھتری مانگ رہے ہیں اور چھتری موجود نہیں۔ میں بھاگ کر اسٹور سے گندم صاف کرنے والا چھاج لے گئی۔ ابا جی نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ میں تو ویسے ہی مذاق میں لے کر گئی تھی، لیکن ابا جی وہی چھاج لے کر اوپر بیت الخلا میں چلے گئے۔ بعد میں کبھی بارش ہوتی اور ابا جی کہتے کہ لاؤ، مجھے چھاج دو تو ہمیں پتہ چل جاتا کہ انھوں نے بیت الخلا میں جانا ہے۔ 

ایک بار ابا جی غسل کر کے آئے تو تہبند باندھا ہوا تھا۔ ان کا وجود بھاری تھا اور تہبند پیٹ سے اوپر کر کے باندھتے تھے۔ سر پر تولیہ لٹکایا ہوا تھا۔ ہم ابا جی کو دیکھ کر ہلکا سے مسکرا پڑیں اور پھر اپنے دھیان میں لگ گئیں۔ اچانک ابا جی نے اتنے زور سے ’’حق‘‘ کہا کہ ہم بے اختیار ایک دوسرے پر گر پڑیں۔ چھوٹی امی نے کہا کہ آئے ہائے مولوی صاحب، کبھی کبھی تو آپ حد ہی کر دیتے ہیں۔ ہنس کر کہنے لگے، یہ شیر کی للکار ہے۔

جب کبھی عید کا یا خوشی کا موقع ہوتا اور میں سب گھر والوں کے جوتے اکٹھے کر کے پالش کر رہی ہوتی تو ابا جی دیکھ لیتے اور کہتے، اچھا موچن اپنے کام پر لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح جب کپڑے دھونے بیٹھتی تو کہتے کہ دھوبن لگی ہوئی ہے۔ گھر کے باہر کی نالی بھی رات کے وقت، جب گلی خالی ہوتی، میں ہی صاف کیا کرتی تھی۔ جب میں میکے جاتی تو ابا جی کہتے کہ ’’کڑی گئی اے تے نالی بھری اے‘‘۔ جب میں واپس آتی اور نالی کی صفائی کرتی تو کہتے، لگتا ہے ویرو آ گئی ہے۔ ویرو ہمارے گھر کا کوڑا اٹھانے والی مسیحی خاتون کا نام تھا۔ 

ابا جی کے پاس ہر طرح کی خواتین اور مرد ملنے کے لیے آتے تھے اور خواتین اپنے مسائل بتا کر تعویذ لے کر جاتی تھیں۔ کبھی کبھی جب ابا جی کا موڈ خوشگوار ہوتا تو صحن میں بیٹھ کر لوگوں کے لطیفہ نما واقعات سنایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ یہ واقعہ سنایا کہ کسی گاؤں سے ایک عورت کسی مولوی صاحب کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ میر اشوہر میرے حقوق پورے نہیں کرتا۔ مولوی صاحب نے پوچھا کہ کیا خرچہ نہیں دیتا؟ اس نے کہا کہ دیتا ہے۔ پھر پوچھا کہ کہیں جانے نہیں دیتا؟ اس نے کہا کہ نہیں، ہر جگہ لے کر جاتا ہے۔ مولوی صاحب نے پوچھا کہ کیا مارتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ پھر پوچھا کہ کیا تمہارے بچے ہیں؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ بی بی، پھر وہ کون سے حقوق ہیں جو وہ پورے نہیں کرتا؟ کہنے لگی کہ وہ یہ سب کام تو کرتا ہے، لیکن میرے حقوق پورے نہیں کرتا۔ وہ اپنی ماں کو ’’بے بے‘‘ کہتا ہے اور مجھے بے بے نہیں کہتا۔ ابا جی نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ لا حول ولا قوۃ، اس نے اسے اپنے بچوں کی بے بے بنایا اور اب یہ اس کی بھی بے بے بننا چاہتی ہے۔

راشدی صاحب جب بھی گھر آتے تو وہی موچی والے بوٹ ڈیوڑھی میں زور سے زمین پر مارتے جس سے ان کے آنے کا پتہ چل جاتا۔ ایک دفعہ وہ اسی طرح آئے اور اپنے بوٹ زور سے زمین پر مارے تو سب بہن بھائی خوشی سے پکارنے گے کہ بھائی جان آ گئے، بھائی جان آ گئے۔ میں بھی بھاگتی ہوئی چھوٹی امی کے پاس گئی اور کہا کہ بھائی جان آ گئے۔ امی نے کہا کہ کون سے بھائی جان؟ میں نے کہا کہ بھائی جان زاہد تو امی نے کہا تیرا بیڑا تر جائے، تم تو اسے بھائی جان نہ کہو۔ میں نے کہا کہ کیوں! سعیدہ او رطاہرہ بھی تو کہتی ہیں۔ امی نے مجھے سمجھایا کہ جس کے ساتھ شادی ہوئی ہو، اسے بھائی جان نہیں کہتے۔ بعد میں یہ واقعہ میری چھیڑ بن گیا اور اب بھی جب میں دادی اور نانی بن چکی ہوں، سب مجھے یہ بات یاد دلا کر چھیڑتے ہیں۔ امی نے یہ لطیفہ سب کو بتایا، حتیٰ کہ ابا جی اور راشدی صاحب کو بھی۔ ایک دن ابا جی صحن میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہنسی مزاح ہو رہا تھا تو چھوٹی امی نے کہا کہ آپ کی بہو کا ایک لطیفہ بھی ہے۔ امی نے جیسے ہی بات شروع کی، میں شرم سے بھاگ کر اندر چلی گئی۔ ابا جی نے پیچھے سے آواز دے کر بلایا۔ میں شرم سے باہر نہیں نکل رہی تھی تو امی مجھے پکڑ کر باہر لائیں۔ ابا جی بہت زیادہ ہنس رہے تھے۔ وہ ہنستے ہوئے آواز نہیں نکالتے تھے، لیکن جسم بھاری ہونے کی وجہ سے ہنستے ہوئے ہلتا تھا اور وہ ہنستے ہوئے بہت اچھے لگتے تھے۔ ان کے سامنے کے دو دانتوں میں خلا تھا جو بہت خوب صورت لگتا تھا۔ جب میں باہر آئی تو کہا کہ کوئی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے۔

جب ہم گوجرانوالہ منتقل ہو گئے تو ایک دفعہ ابا جی شیرانوالہ باغ کی جامع مسجد میں آئے۔ وہ پروگراموں کے سلسلے میں اکثر آیا کرتے تھے۔ ہماری رہایش اوپر تیسری منزل پر تھی۔ ابا جی جب بھی آتے تو اوپر ہمارے گھر بھی آتے تھے۔ ایک مرتبہ جلدی کی وجہ سے مسجد میں آئے لیکن اوپر ہمارے گھر نہ آئے،حالانکہ میں نے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد چھوٹی امی آئیں تو میں نے ان سے گلہ کیا کہ ابا جی آئے تھے، لیکن مسجد سے ہو کر چلے گئے، گھر نہیں آئے اور کھانا بھی نہیں کھایا، اس لیے میں ان سے ناراض ہوں۔ وہ گکھڑ واپس گئیں تو جا کر ابا جی کو بتایا کہ آپ کی بہو ناراض ہے۔ ابا جی نے پوچھا کہ کس بات پر؟ تو امی نے بتایا کہ آپ مسجد سے ہی واپس آ گئے جبکہ اس نے کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ ابا جی نے کہا، اچھا اور خاموش ہو گئے۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ایک دن ابا جی اچانک ہمارے گھر آ گئے۔ اس دن راشدی صاحب بھی گھر پر ہی تھے۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر جلدی جلدی آئے اور کہنے لگے کہ ابا جی آئے ہیں۔ میں بہت حیران ہوئی۔ ابا جی نے اپنے مخصوص انداز میں ’السلام علیکم‘ کہا۔ میں نے بھی اٹھ کر سلام کا جواب دیا تو ابا جی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ سنا ہے، تم ناراض ہوئی بیٹھی ہو۔ میں نے کہا کہ ہاں، اس دن ہم آپ کا انتظار کرتے رہے او رآپ نہیں آئے۔ تو کہنے لگے کہ پتر، یہ کون سی بات ہے ناراض ہونے کی۔ لو میں آ گیا ہوں، لاؤ مجھے جو کچھ کھلانا ہے، کھلاؤ۔ میں نے کہا کہ ابا جی، اہتمام تو میں نے اس دن کیا تھا، آج تو گھر میں صرف کڑھی پکی ہے۔ کہنے لگے کہ واہ واہ، ماشاء اللہ، پھر میں تو بالکل ٹھیک دن آیا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ مجھے کڑھی بہت پسند ہے۔ ایک دفعہ گکھڑ میں مجھ سے پوچھا کہ کڑھی کھاتی ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ کہنے لگے کہ کیوں؟ میں نے بتایا کہ ہمارے گھر میں نہیں بنتی۔ بہت حیران ہو کر کہنے لگے کہ تمہارے گھر میں تو گائیں بھینسیں بھی ہیں، پھر بھی کڑھی نہیں بناتے؟ اگر ہمارے بڑے کڑھی نہ کھاتے تو پھٹ کر مر جاتے۔ کڑھی ابا جی کو واقعی بہت پسند تھی۔ جب گھر میں کالے چنے یا کڑھی پکتی تو ابا جی کہتے کہ ثرید بنا دو۔ ہم روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے شوربے یا کڑھی میں بھگو دیتے۔

ابا جی کی عادت تھی کہ بہو یا بیٹی یا کوئی پوتا پوتی، نواسہ نواسی ان سے ملنے جاتے تو عام حالات میں بھی وہ اپنی گنجایش کے مطابق کچھ نہ کچھ پیسے ضرور دیتے تھے۔ جب تک وہ تندرست رہے، بہت پابندی سے اپنی ساری اولاد کو عیدی بھی دیتے رہے۔ وہ الگ الگ لفافوں میں رقم ڈال کر عیدی بھیجا کرتے تھے۔ ساتھ پرچی ہوتی تھی جس پر لکھا ہوتا تھا کہ اتنی بچوں کی عیدی ہے اور اتنی بچوں کی ماں کی۔ جب وہ بیمار ہوئے تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔ ہمارے گھر عیدی ہمیشہ قاری اشرف خان ماجد مرحوم کے ہاتھ بھیجتے تھے۔ ایک بار وہ عیدی لے کر آئے تو لفافے میں صرف بچوں کی عیدی تھی، میری نہیں تھی۔ اگلی عید پر جب ماجد بھائی آئے تو لفافے میں بچوں کے ساتھ ساتھ میری عیدی بھی تھی۔ میں نے بچوں کی رکھ لی اور اپنی واپس کر دی اور کہا کہ جب میں عید کے موقع پر ملنے آؤں گی تو لے لوں گی۔ ماجد بھائی نے جا کر اسی طرح ابا جی کو بتا دیا۔ جب میں گکھڑ گئی تو ابا جی کے کمرے میں داخل ہو کر جونہی سلام کیا، انھوں نے پوچھا کہ ماجد عیدی لے کر گیا تھا تو واپس کیوں کی تھی؟ میں نے کہا کہ میری پچھلی عیدی بھی رہتی ہے، وہ بھی دیں گے تو لوں گی۔ اباجی نے کہا کہ میں نے تو بھیجی تھی۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں ملی، صرف بچوں کی ملی تھی۔ ابا جی نے ماجد بھائی کو بلوا کر ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ آپ نے جو جو لفافے جس جس کے نام دیے تھے، میں نے اسی طرح پہنچا دیے تھے۔ ابا جی نے کہا کہ اچھا، میں ڈائری دیکھتا ہوں۔ ان کا معمول تھا کہ وہ رات کو ڈائری پر دن بھر کی اہم باتیں نوٹ کیا کرتے تھے۔ جب انھوں نے ڈائری دیکھی تو اس میں واقعتاً سب کے نام تھے لیکن میرا نام نہیں تھا۔ ابا جی نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم نے ٹھیک کہا، میں بھول گیا تھا، کیونکہ ڈائری پر بھی تمہارا نام درج نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کی پہلی بہو تھی اور آپ مجھے ہی بھول گئے۔ یہ تو زیادتی ہے۔ اب مجھے ڈبل عیدی دیں۔ تب ابا جی نے مجھے دگنی عیدی یعنی ایک ہزار روپے دیے۔

ابا جی کو اپنی چوتھی نسل دیکھنے کا موقع بھی ملا، لیکن بڑی امی اور چھوٹی امی بہت جلد دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ وہ اپنے بچوں اور پوتوں کی خوشیوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی تھیں اور جتنے بچے تھے، وہ دونوں انھیں دیکھ دیکھ کر جیتی اور خوش ہوتی تھیں۔ اگر وہ زندہ ہوتیں تو اپنی چوتھی نسل دیکھ کر یقیناًان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔ ابا جی اس لحاظ سے بھی بہت خوش قسمت تھے کہ دونوں بیویاں انتہائی خدمت گزار ملیں اور ان کے بعد بیٹوں، بیٹیوں اور بہووں نے بھی بہت خدمت کی۔ ایک دن ابا جی گوجرانوالہ سے پڑھا کر واپس گئے تو سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ بڈھیو! دونوں تیاری کر لو۔ چھوٹی امی سمجھیں کہ شاید کہیں جانا ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ کہاں کی تیاری؟ ابا جی نے کہا کہ اگلے گھر کی، اللہ کے پاس جانے کی۔ دونوں امیاں خاموشی سے ابا جی کا چہرہ دیکھنے لگیں۔ ابا جی نے بتایا کہ میں نے گزشتہ رات خواب میں دیکھا ہے کہ چلتے ہوئے میری ایک جوتی اتر گئی ہے اور چند قدم چلنے کے بعد دوسری جوتی بھی اتر گئی ہے۔ یہ خواب تم دونوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بڑی امی نے کہا کہ سو بسم اللہ، تیاری ہی تیاری ہے۔ وہ جب چاہے بلا لے۔ بڑی امی زیادہ وقت ذکر اذکار میں صرف کرتی تھیں، لیکن چھوٹی امی پریشان ہو کر کہنے لگیں کہ مولوی صاحب، میرے تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بڑی امی کہنے لگیں کہ پھر کیا ہوا؟ وہ مائیں بھی تو ہوتی ہیں جو دودھ پیتے بچوں کو چھوڑ جاتی ہیں۔ جب بھی اللہ کا بلاوا آئے، ہم حاضر ہیں۔ ابا جی کا یہ خواب اور اس کی تعبیر اتنی درست تھی کہ کچھ ہی عرصے کے بعد بڑی امی بیمار ہو گئیں اور دو تین ماہ کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے کچھ ہی عرصے کے بعد چھوٹی امی بھی بیمار ہو گئیں۔ وہ شوگر کی مریضہ تھیں۔ بڑی امی کی وفات کے ایک سال بارہ یا تیرہ دن کے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ جب دونوں امیوں کا انتقال ہوا اور ہم سب رو رہے تھے تو ابا جی کہتے تھے کہ مت رو، وہ تمہارا کچھ نہیں لے کر گئیں، سب کچھ چھوڑ کر گئی ہیں، صرف اپنے اعمال ساتھ لے کر گئی ہیں۔ دونوں امیوں کی وفات کے درمیان تقریباً اتنا ہی وقفہ تھا جتنا اباجی اور صوفی صاحب کی وفات کے درمیان تھا۔ 

انھیں اپنی ساری اولاد سے پیار تھا، لیکن پہلا بیٹا اور پہلی بہو ہونے کی وجہ سے ہمارے گھرانے سے بہت زیادہ محبت تھی۔ بڑی اولاد ہونے کی وجہ سے ابا جی کی تیسری اور چوتھی پشت بھی ہمارے گھر سے شروع ہوئی۔ جب عمار کی شادی ہوئی تو ابا جی اپنی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے، لیکن میں نے نیت کی تھی کہ عمار کے ہاں جو بھی اولاد ہوگی، اسے گھٹی ابا جی کے ہاتھ سے ہی دلانی ہے، کیونکہ عمار کو بھی گھٹی ابا جی نے ہی دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے میری یہ خواہش پوری کی۔ جب ہمارا پہلا پوتا طلال پیدا ہوا تو راشدی صاحب اس وقت برطانیہ میں تھے۔ میں لیڈی ڈاکٹر سے اجازت لے کر نومولود کو لے کر سیدھی گکھڑ گئی۔ ابا جی کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ کی چوتھی نسل ہے۔ کہنے لگے، چوتھی نسل؟ میں نے کہا، ہاں۔ یہ آپ کا پڑپوتا اور عمار کا بیٹا ہے۔ ابا جی جلدی سے اٹھے اور ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہتے ہوئے بچے کو اپنی گود میں لیا، پیار کیا اور کچھ پڑھ کر پھونکا۔ میں گھٹی ساتھ لے کر گئی تھی جو حاجی فیاض صاحب سے کہہ کر صوفی صاحب سے تیار کرائی گئی تھی۔ صوفی صاحب زم زم اور کھجور یا زم زم اور شہد میں تھوڑا سا اپنا لعاب شامل کر کے خاص گھٹی تیار کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ گھٹی صوفی صاحب سے بنوائی ہے، آپ اپنے مبارک ہاتھوں سے اس بچے کو دیں۔ ابا جی نے طلال کو گھٹی دی اور یہ طلال کی خوش قسمتی ہے کہ دو اتنے بڑے بزرگوں کے ہاتھوں اسے گھٹی ملی۔ میرا چھوٹا بیٹا عامر چھ سال سے امریکہ میں مقیم ہے۔ ابا جی اس کے بارے میں ہمیشہ سوال کرتے تھے کہ عامر نے کب آنا ہے؟ راشدی صاحب ہر جمعہ کو گکھڑ جاتے تو ان سے بھی یہی سوال کرتے کہ عامر نے کب آنا ہے؟ ایک دو دفعہ راشدی صاحب نے فون پر اباجی کی عامر سے بات بھی کروائی۔ (عامر کو ابا جی کی وفات کی اطلاع اس سے اگلے دن ہوئی تو وہ بہت رنجیدہ تھا۔ کہنے لگا کہ میں بہت بدقسمت ہوں، میری عدم موجودگی میں دونوں دادا، نانا ابو اور پھوپھا جان (قاری خبیب احمد صاحبؒ ) وفات پا گئے اور میں ان میں سے کسی کا بھی آخری دیدار نہ کر سکا۔ )

ابا جی کو صحت کے زمانے میں بھی بچوں سے بہت پیار تھا، لیکن بیمار ہونے کے بعد تو بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ جو بھی پوتا یا نواسہ یا خاندان کا کوئی بھی بچہ ان کے پاس جاتا تو وہ اس کا ہاتھ منہ چومتے اور دعائیں دیتے تھے کہ اللہ تمہیں عالم بنائے، دین کی خدمت کرنے اور اکابر کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ بچوں سے پیار بھی بہت کرتے تھے اور ان کا خیال بھی بہت رکھتے تھے۔ خصوصاً سردی کے موسم میں کوئی بچہ ان کے پاس جاتا تو وہ چیک کرتے کہ اس نے گرم ٹوپی اور جرابیں پہن رکھی ہیں یا نہیں۔ سب مائیں اس ڈر سے بہت خیال رکھتی تھیں کہ ابا جی ناراض ہوں گے۔ جب بچے ان کے پاس جاتے تو بڑی دلچسپی سے ان سے پوچھتے کہ کون سی کلاس میں پڑھتے ہو، کون سے اسکول میں پڑھتے ہو یا کتنے پارے یاد ہو گئے ہیں؟ بڑے شوق اور پیار سے ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں اور سوالات پوچھتے تھے۔ ایک دفعہ ہم ان سے ملنے گئے تو ابا جی نے بڑے پوتے طلال سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟اس نے کہا، طلال خان آفریدی تو ابا جی نے انگلی کے اشارے سے منع کیا کہ یہ غلط بات ہے، اپنی خاندانی نسبت تبدیل نہیں کرتے۔ ہم سواتی ہیں، آپ لوگ بچے کو بتائیں کہ ہم آفریدی نہیں ہیں۔ یہ گناہ کی بات ہے۔ میں نے کہا کہ ابا جی، کرکٹ کا ایک کھلاڑی ہے شاہد آفریدی، وہ طلال کو بہت پسند ہے، اس لیے یہ بھی اپنے نام کے ساتھ آفریدی لگا لیتا ہے۔ ابا جی نے کہا کہ یہ غلط بات ہے۔ پھر انھوں نے طلال سے کہلوایا کہ کہو طلال خان سواتی۔ 

دونوں بھائیوں کی بڑی خوش قسمتی تھی کہ اولاد اچھی، تعلیم یافتہ، فرماں بردار اور خدمت گزار ملی۔ اباجی عام حالات میں وہ بہت مضبوط دل کے تھے، البتہ بیمار ہونے کے بعد پہلے تین چار سال تک تو کچھ حوصلے سے وقت گزارا، لیکن جب بیماری طویل ہو گئی تو بہت روتے تھے۔ جب بھی کوئی ملتا تو رو پڑتے تھے۔ ہم تسلی دیتے تو کہتے کہ میں اولاد کے لیے آزمایش بن گیا ہوں۔ ان کے بیمار ہونے کے تین یا چار سال بعد کی بات ہے، ایک بار ہم ان سے ملنے کے لیے گئے تو کہنے لگے کہ جب میں بیمار ہوا او رمیری بیماری طویل ہو گئی تو مجھے دل میں یقین تھا کہ اب میری اولاد مجھے اٹھا کرکسی ہسپتال میں چھوڑ آئے گی۔ میں نے کہا کہ ابا جی، استغفر اللہ، آپ کی اولاد کوئی نافرمان اولاد ہے؟ یہ بات آپ نے سوچی بھی کیوں؟ آپ کا خون اور حق حلال کی کمائی سے پرورش پانے والی اولاد ایسا کیسے کر سکتی ہے؟ آپ نے اولاد کی اتنی اچھی تربیت کی ہے۔ ابا جی خاموش ہو گئے۔ پھر کہنے لگے کہ الحمد للہ، راشد نے میری بہت خدمت کی ہے۔ اولاد میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے راشد سے بہت انس رکھتے تھے اور اسی کے پاس رہنا پسند کرتے تھے۔ فی الواقع بیماری کے آٹھ نو سال راشد اور اس کی فیملی نے ابا جی کی بہت خدمت کی ہے اور دن رات ابا جی کا خیال رکھا ہے۔ تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ خدمت کا اعزاز راشد کو ہی حاصل ہے۔ پہلے وہ اکیلا ہی ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری انجام دیتا تھا، پھر جب بیماری طویل ہو گئی تو راشدی صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ اور اس کی بچیاں بھی خدمت میں شریک ہو گئیں۔ وہ اکثر وہیں رہتی تھیں بلکہ چھوٹی ہمشیرہ نے اپنی ایک بچی کو مستقل طور پر ابا جی کی خدمت کے لیے مامور کر دیا تھا۔ خود بھی وہ دو چار دن کے بعد چکر لگا لیتی تھیں اور پھر کئی کئی دن کے لیے وہاں رہنا بھی پڑ جاتا، کیونکہ ابا جی کی طبیعت ایسی ہو چکی تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ان کے پاس موجود رہے۔ تنہائی سے گھبراتے تھے، اس لیے کوئی کتاب یا اخبار سنتے رہتے تھے۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ کوئی نہ کوئی میرے پاس موجود ہو، چاہے کوئی بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ 

ادھر چچی صاحبہ نے بھی صوفی صاحب کی بے حد خدمت کی ہے۔ آخری عمر میں وہ تقریباً پندرہ سولہ سال بیمار رہے اور اس عرصے میں چچی نے ان کی اتنی خدمت کی ہے کہ خود بیمار ہو گئیں۔ ہر آدھ پون گھنٹے کے بعد ان کے کھانے کے لیے کچھ بنانا، وضو کرانا، نماز کی تیاری او رکپڑے تبدیل کرنا بہت صبر آزما کام ہے اور بہت کم بیویاں اپنے شوہر کی اتنی خدمت کر سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس خدمت کا اجر دنیا اور آخرت میں عطا فرمائیں۔ ابا جی کی طرح صوفی صاحب کی اولاد نے بھی ان کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کی، بلکہ جیسے ابا جی کی اولاد میں سب سے چھوٹے بیٹے اور سب سے چھوٹی بیٹی نے بہت خدمت کی، اسی طرح صوفی صاحب کے چھوٹے بیٹے عرباض اور بیٹی نے بہت خدمت کی۔ انھیں نہلانا، کپڑے تبدیل کرنا، آخری ایام میں لیٹ لیٹ کر کمر پر بن جانے والے زخموں کی پٹی کی تبدیل کرنا، اور بالکل بچوں کی طرح بہلا کر انھیں جوس پلانا۔ وہ ضد کرتے تو عرباض کہتا کہ بس یہ آخری گھونٹ ہے۔ اسی طرح بہلاتے ہوئے انھیں کھلانا پلانا پڑتا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ’’نہ کر‘‘ کہتے رہتے اور عرباض ’’اچھا جی‘‘ او رکبھی ’’بس‘‘ جیسے الفاظ کہہ کر اپنا کام کرتا رہتا۔ اسی طرح پوتے ان کے پاس بیٹھتے اور ان سے باتیں کرتے تو وہ خوش ہوتے تھے او رپوتے بھی ان کی دل لگی کے لیے ہنسنے ہنسانے کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ صوفی صاحب بچوں کو روکنے ٹوکنے کے خلاف تھے اور پوتے پوتیاں جتنا چاہے شور کرتے، وہ برا نہیں مناتے تھے۔ 

دونوں بھائیوں کی اولاد کا آپس میں بھی بہت اچھا تعلق ہے اور ایک دوسرے کا ادب اور احترام کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کی خوشی اور غم کو اپنی خوشی اور غم سمجھتے ہیں۔ ابا جی کی طرح صوفی صاحب کے بچے بھی بڑے بھائی کو باپ کی جگہ دیتے ہیں اور ویسی ہی عزت سے پیش آتے ہیں۔

تین چار سال پہلے کا واقعہ ہے۔ میں اور راشدی صاحب گھر ابا جی کی زیارت کے لیے گئے تو میری نظر ابا جی کی لاٹھی پر پڑی جو ان کے کمرے میں لٹکی ہوئی تھی۔ میں نے اباجی سے تقاضا کیا کہ اپنی لاٹھی مجھے دے دیں۔ ابا جی مجھے ایک پرانی سی لاٹھی دینے لگے تو میں نے کہا کہ نہیں، جو آپ کے استعمال میں رہی ہے، وہ لاٹھی لینی ہے۔ ابا جی ہنس کر راشدی صاحب سے کہنے لگے کہ ’’ایہہ بڑی شے ای‘‘ (یہ بڑی چیز ہے)۔ پھر انھوں نے اپنے زیر استعمال لاٹھی مجھے دے دی جو میرے پاس بطور یادگار موجود ہے۔ ابا جی کے آدھ درجن رومال، تہبند، ٹوپیاں اور دستی رومال ان کے کمرے میں پڑے ہوئے تھے اور کمرے سے ملحق ڈیوڑھی میں گھر والوں نے دھو کر اور استری کر کے رکھے ہوئے تھے۔ ابا جی کے کرتے، صدریاں اور دوسرے بہت سے استعمال کے کپڑے وہاں تہہ لگا کر رکھے ہوئے تھے جو خواتین عقیدت مند اٹھا کرلے گئیں۔ اب بہت سے لوگ تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں یادگار کے طو رپر او ربرکت کے لیے کوئی ٹوپی یا رومال دے دیں، لیکن گھر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ 

راشدی صاحب کے معمولات میں ہر جمعہ کے روز گکھڑ حاضری دینا بھی تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ تین یا چار ماہ پہلے وہ ابا جی سے ملنے گکھڑ گئے تو ابا جی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ میرا جنازہ تم نے خود پڑھانا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا اور ان کے سر پر ہاتھ رکھنا۔ میرا دل اندیشوں میں الجھ گیا کہ ابا جی نے اس سے پہلے ایسی با ت کبھی نہیں کہی تھی۔ راشدی صاحب نے یہ بات گھر آ کر مجھے بتائی تو مجھے کھٹکا سا لگ گیا کہ معلوم نہیں وہ ابا جی کی اس وصیت کو پورا کر سکیں گے یا نہیں، کیونکہ وہ سال میں ایک آدھ سفر بیرون ملک کا بھی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ابا جی کی وفات سے چار دن پہلے وہ برطانیہ اور سعودی عرب کے دورے سے واپس پہنچ گئے اور اگلے روز ہم جمعہ کے بعد سب گھر والے ابا جی سے ملنے گکھڑ گئے۔ پہلے جب ہم ملنے جاتے تو ابا جی نہ صرف سلام کا جواب دیتے بلکہ یہ بھی پوچھتے تھے کہ کون ہو؟ اور پھر فرداً فرداً سب کی خیریت معلوم کرتے، لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہوا۔ ابا جی خاموش تھے اور کسی بات کا جواب نہیں دے رہے تھے۔ بس خاموشی سے ایک ایک کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ بچوں کو ان کے قریب کیا گیا تو پہلی سی گرم جوشی نہیں تھی۔ میں نے کھجوریں ان کی خدمت میں پیش کیں کہ راشدی صاحب عمرے کے لیے گئے تھے تو یہ لائے ہیں۔ انھوں نے دایاں ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کہ میرے بائیں طرف سرہانے کے قریب رکھ دو۔ میں ابا جی سے ملنے جاتی تو عام طور پر ان سے ان کی عمر کے بارے میں ضرور پوچھتی۔ وہ ہمیشہ بڑی تفصیل سے جواب دیتے کہ میں عیسوی سنہ کے اعتبار سے اتنے سال کا اور ہجری سنہ کے لحاظ سے اتنے سال کا ہوں۔ لیکن آخری ملاقات میں، میں نے متعدد بار ان سے یہ سوال کیا تو انھوں نے جواب نہیں دیا، بس غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھتے رہے۔ چھوٹی ہمشیرہ کہنے لگیں کہ کچھ دن سے ابا جی بہت خاموش ہو گئے ہیں او ربات کا جواب نہیں دیتے او رکھانا بھی بہت کم کھاتے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے ان کی خوراک ویسے بھی بہت کم ہو گئی تھی، لیکن آخری ایام میں تو خوراک بالکل مختصر ہو گئی تھی۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ کھانا بالکل نہ ہونے کے برابر کھاتے ہیں جس کی وجہ سے کمزوری ہو گئی ہے اور انھیں بات کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، چنانچہ میں نے چھوٹی ہمشیرہ سے کہا کہ اگر یہ کھانا نہیں کھاتے تو انھیں جوس یا دودھ یا کوئی لیکوڈ چیز دے دیا کریں تاکہ ان کو نقاہت تو نہ ہو۔ ہمشیرہ نے کہا کہ لیکوڈ بھی موڈ ہو تو پیتے ہیں، ورنہ انکار کر دیتے ہیں۔ اس دن رخصت ہوتے وقت ہم سب ابا جی کی زیارت کر کے اور ان کے ہاتھ پر بوسہ دے کر واپس آئے۔ ہم میں سے کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمارے لیے دعاؤں کایہ دروازہ اب بند ہونے والا ہے۔ 

پیر اور منگل کی درمیانی شب کو رات ایک بجے کے قریب راشدی صاحب کو گکھڑ سے فون آیا۔ میں نیند میں تھی۔ راشدی صاحب کی ہیلو کی آواز سے میں ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔ راشدی صاحب نے فون کانوں کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد کر رہے تھے۔ فون بند کر کے انھوں نے مجھے بتایا کہ ابا جی فوت ہو گئے ہیں۔ شدت غم سے ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یہ اتنا شدید جھٹکا تھا کہ لگتا تھا آسمان زمین پرگر پڑا ہے۔ سال بھر پہلے میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو اس وقت بھی اتنا شدید صدمہ نہیں ہوا تھا۔ شاید دل کو یہ تسلی تھی کہ ابا جی کا سایہ تو ہمارے سروں پر قائم ہے۔ نہ چاہنے کے باوجود میری چیخیں نکل گئیں۔ راشدی صاحب نے کہا کہ حوصلے، صبر او رہمت سے کام لینا ہے۔ ہم نے عمار اور اس کی اہلیہ کو کو اٹھا کر یہ روح فرسا خبر سنائی۔ پھر طے پایا کہ ہم دونوں اسی وقت گکھڑ جائیں گے جبکہ عمار اور اس کے بچے صبح آ جائیں گے۔ گکھڑ پہنچے تو قاری حماد صاحب، پیر عابد صاحب اور شاہد صاحب صحن میں ہی موجود تھے۔ انھیں دیکھ کر مجھے لگا کہ شدت غم سے دل پھٹ جائے گا۔ یہ خیال ہی سوہان روح تھا کہ اب ہم یتیم ہو گئے ہیں۔ میرے پاس انھیں تسلی دینے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ سب گھر والے گھر میں موجود تھے، لیکن اس شدت کا سناٹا تھا کہ گھر بالکل ویران لگتا تھا۔ گرتے پڑتے ابا جی کے کمرے میں پہنچے۔ ابا جی وہاں موجود تھے، لیکن ان کی مخصوص ’’کون ہے‘‘ کی آواز نہیں تھی۔ کمرے میں گھر کی خواتین کے علاوہ ہمسایوں کی خواتین بھی موجود تھیں۔ وہ ہمیں دیکھ کر رونے لگیں۔ ابا جی کے گھر کے بالکل ساتھ والے گھر کے ساتھ ہمارا بے حد قریبی تعلق ہے۔ وہ کم عمری میں ہی باپ کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے تھے ابا جی نے ان کا بہت خیال رکھا۔ وہ سب بھی ہماری طرح ابا جی کو ابا جی ہی کہتے تھے۔ روتے ہوئے ابا جی کی میت کے پاس پہنچے اور ان کے ماتھے کا بوسہ لیا تو یقین کیجیے، یوں لگتا تھا جیسے چارپائی پر کوئی فرشتہ یا معصوم بچہ لیٹا ہوا ہے۔ لگتا تھا کہ ابا جی ہر طرح کی پریشانیوں سے بے نیاز سو رہے ہیں، ابھی اٹھ جائیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کون رو رہا ہے۔ پھر کہیں گے کہ اونچی آواز نہ نکالیں، آواز کے ساتھ رونا منع ہے۔

ابا جی کے پاس ان کی چھوٹی بیٹی بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ابا جی کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی؟ اس نے بتایا کہ ہمیں تو بالکل اندازہ ہی نہیں ہوا۔ آخر وقت تک ابا جی ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ گیارہ بجے تک سب بیٹے اور بہوویں ابا جی کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ پھر باری باری سب اٹھ کر سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو میں بھی ابا جی کی چارپائی کے ساتھ نیچے لیٹ گئی۔ ابھی میں جاگ رہی تھی کہ ابا جی نے مجھے نام لے کر پکارا۔ میں نے جی ابا جی کہا تو کہا کہ پتر، مجھے لٹا دو۔ میں نے کہا کہ ابا جی، آپ لیٹے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے کہ نہیں، مجھے لٹا دو۔ میں نے ابا جی کے کندھوں پر ہاتھ پھیرا، ان کی ٹانگیں درست کیں اور کہا کہ میں نے آپ کو لٹا دیا ہے۔ ابا جی خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد پھر مجھے آواز دی اور میں نے جی ابا جی کہا تو کہا کہ مجھے لٹا دو۔ میں نے سرہانے کو ٹھیک کیا اور ابا جی کے جسم کو تھوڑا سا ہلایا اور پوچھا کہ اب ٹھیک ہے؟ ابا جی نے کہا ہاں۔ میں دوبارہ لیٹ گئی۔ پھر ابا جی نے تیسری دفعہ آواز دی تو میں نے کہا جی ابا جی۔ کہا کہ میری ٹانگیں سیدھی کرو۔ میں نے ٹانگیں درست کیں تو تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے کہ مجھے اٹھا کر بٹھا دو۔ میں نے جا کر بھائیوں کو بلایا اور انھوں نے آ کر ابا جی کو اٹھا کر بٹھا دیا اور دودھ یا جوس کا ایک گھونٹ ان کو پلایا۔ کچھ دیر کے بعد ابا جی نے قے کر دی جس میں خون کی آمیزش تھی۔ اس وقت بھی ہوش وحواس میں تھے۔ ہم نے ان کو دوبارہ لٹا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ابا جی نے میری بیٹی اور اپنی نواسی اقرا کو پکارا اور آنکھیں کھول کر غور سے کمرے کی چھت کو دیکھا۔ اس کے بعد ہماری طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس وقت تک بھی ہمیں بالکل اندازہ نہ تھا کہ یہ ابا جی کا آخری وقت ہے۔ چھوٹی ہمشیرہ نے بتایا کہ ابا جی کا سر میری گود میں تھا اور پھر ایک طرف ڈھلک گیا۔ بالکل یقین نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے اور ابا جی ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔

صبح فجر کے وقت وفات کا اعلان ہوا تو سب خواتین کی چیخیں نکل گئیں۔ اعلان کے کچھ دیر بعد لوگوں کی آمد شروع ہو گئی۔ دن چڑھا تو خواتین کا بہت زیادہ ہجوم ہو گیا۔ ایک بجے کے قریب ابا جی کو غسل کے لیے لے جایا گیا۔ اباجی کے کمرے کے ساتھ متصل ایک ڈیوڑھی تھی جو عام آمد ورفت کے لیے استعمال نہیں ہوتی تھی۔ وہاں ایک ٹونٹی بھی لگی ہوئی تھی۔ ساری زندگی ابا جی نماز اور تلاوت کے لیے وہیں وضو کیا کرتے تھے۔ ابا جی کو غسل دیا جا چکا تو ان کی چارپائی زیارت کے لیے ان کے کمرے میں ہی رکھ دی گئی۔ خواتین کا بے پناہ ہجوم تھا اور سب ہی چہرہ دیکھنے کے لیے بہت بے تاب تھیں۔ ہر کسی کو فکر تھی کہ کہیں میں محروم نہ رہ جاؤں۔ دھکم پیل میں خاصی بدنظمی بھی پیدا ہو گئی۔ ایک معمر خاتون نے میری ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر کہا کہ پتر، تم نے تو جی بھر کر چہرہ دیکھ لیا ہے، میری تو ٹانگیں قبر میں ہیں، مجھے ایک دفعہ قریب جا کر چارپائی کو ہاتھ لگا لینے دو، شاید اسی سے میری بخشش ہو جائے۔ مجھے اس خاتون پر ترس آ گیا اور میں نے انھیں چارپائی کے قریب جانے دیا۔ انھوں نے کفن کو ہاتھ لگا کر اپنے منہ پر اور اپنے جسم پر پھیرا اور کہا، ربا مجھے بخش دے۔ میں اس قدر عقیدت دیکھ کر حیران رہ گئی۔ 

غسل دینے سے ابا جی پر اس قدر روپ آ گیا تھا کہ مثال دینا مشکل ہے۔ ابا جی کی رنگت ویسے گندمی تھی، لیکن وفات کے بعد اتنے سفید اور صحت مند لگ رہے تھے کہ بالکل تازہ گلاب کا گمان ہوتا تھا۔ ابا جی بہت خوب صورت لگ رہے تھے اور سب ان کا چہرہ دیکھ کر ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہہ رہے تھے۔ میں نے ابا جی کو الوداعی کلمات کہے اور کہا کہ ابا جی، ہمارا دل تو آپ کو رخصت کرنے پر آمادہ نہیں، لیکن آگے بھی شدت سے آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ صوفی صاحب، دونوں امیاں، بھائی ماجد اور ان کے دونوں بیٹے اکرم اور اکمل آپ کے لیے پھولوں کی چادر لیے استقبال کو بے تاب ہوں گے۔ ہماری طرف سے امیوں کو اور سب عزیزوں کو سلام کہہ دیجیے گا۔ اس وقت ہر طرف سے یہی آوازیں آ رہی تھیں کہ ابا جی، ہم یتیم ہو گئے، مولوی صاحب ہم یتیم ہو گئے، اب گکھڑ ویران ہو گیا، اب ہمارا گکھڑ میں کیا کام! چچی صاحبہ بھی رو رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ مولوی صاحب! صوفی صاحب کے بعد ہمیں آپ کا سہارا تھا، اب آپ بھی اپنے بھائی کے پاس جا رہے ہیں۔ انھیں ہماری طرف سے سلام کہیے گا۔ چچی بہت مضبوط دل کی ہیں اور ہر مشکل کا حوصلے سے سامنا کرتی ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ان کو اتنا روتے ہوئے دیکھا۔ تین ساڑھے تین بجے ابا جی کی چارپائی اٹھا لی گئی اور ہم آہ وزاری کرتے ہوئے ابا جی کی چارپائی کو رخصت کر کے خالی دامن رہ گئے۔ 

یہ تمام یادیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ اب بھی جب گکھڑ جاتی ہوں تو امی مرحومہ کے ساتھ مل کر کام کرنے، برتن دھونے، صفائیاں کرنے، صحن میں کھانا لگانے اور گھر کے دوسرے سارے کاموں کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، بلکہ خواب میں بھی اکثر وہ جگہیں دکھائی دیتی ہیں جہاں بڑی امی سب کو کھانا ڈال کر دیتی تھیں اور جہاں چھوٹی امی کے ساتھ مل کر میں گھر کے کام انجام دیا کرتی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ سب دیور دیورانیاں بہت عزت کرتے ہیں اور اس پر بھی اللہ کا جتنا شکر کروں کم ہے کہ اللہ نے اتنی عزت بخشی اور اس خاندان میں اتنا احترام اور چاہت ملی۔ یہ سب بزرگوں کی خدمت کرنے اور ان کی دعائیں حاصل کرنے سے ہوا۔ میرے والد صاحب ڈاکٹر محمد دین سب کے سامنے اس بات پر ہمیشہ فخر کرتے تھے کہ میری بچی راشدی صاحب کے گھر میں ہے اور اسے اتنے بڑے علمی گھرانے کے ساتھ نسبت ہے۔ کبھی کبھی ہنس کر کہتے کہ یہ سب اس کھوتی کا کمال ہے جس سے تم گری تھیں اور جو تمہارے وہاں جانے کا ذریعہ بنی۔ ایک بار چھوٹی امی نے راشدی صاحب سے کہا کہ زاہد! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتنی عزت اور اتنی شہرت دے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ یہ انھی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ آج راشدی صاحب اباجی کی مسند پر بیٹھ کر، جہاں اباجی نے نصف صدی تک درس دیا، بخاری شریف پڑھاتے ہیں۔ ابا جی نے وصیت فرمائی تھی کہ میرا جنازہ زاہد پڑھائے گا، یعنی انھوں نے اپنی دستار اپنے بڑے بیٹے کے سر پر رکھ دی اور انھیں اپنے بعد خاندان کا سرپرست مقرر کیا کہ یہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھیں گے۔ ہمارے لیے یہ بڑی خوش بختی اور فخر واعزاز کی بات ہے۔ 

ابا جی کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کی چند جھلکیاں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کی یہ ایک حقیر سی کوشش تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کی اولاد نے ان کی جو خدمت کی ہے، اس کے طفیل اللہ سب کی بخشش فرمائیں۔ 

بدلا نہ میرے بعد بھی موضوع گفتگو

میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں




میرے والد صاحب، ڈاکٹر محمد دینؒ 

ہمارے خاندان کے تین بزرگ، ابا جی، صوفی صاحب او رمیرے والد صاحب، تیرہ ماہ کے مختصر عرصے میں ہم سے رخصت ہوئے۔ گزشتہ سال ۹؍اپریل کو صوفی صاحب کی وفات کے تین دن بعد بیاسی برس کی عمر میں میرے والد صاحب کا بھی انتقال ہو گیا۔ ابا جی پہلے سمدھی ہونے کے ناتے سے والد صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد جب میں گکھڑ گئی تو ابا جی نے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بہت نیک اور تہجد گزار تھے اور ہمارا آپس میں بہت اچھا وقت گزرا۔ ابا جی نے کہا کہ کل کی بات لگتی ہے جب ہم زاہد کی بارات لے کر گئے تھے۔ بڈھیاں (ابا جی کی بیویاں) بہت پریشان تھیں کہ غیر لوگ ہیں، گاؤں میں ہے، نجانے کیسا رویہ ہوگا، لیکن جب بارات واپس آئی تو سب نے بہت مبارک دی کہ مہمانوں کے لیے بہت اچھا انتظام تھا۔ کھانا دیسی گھی میں تیار کیا گیا تھا اور ساتھ پھل او ردہی بھی تھا۔ سب باراتی بہت خوش تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اتنی پرانی بات بھی ابا جی کو یاد ہے۔ 

جب سے میں نے ہوش سنبھالا، والد صاحب کی کالی ڈاڑھی نہیں دیکھی۔ سفید، گھنی اور لمبی ڈاڑھی تھی۔ کم سے کم ایک فٹ لمبی ہوگی۔ آخر میں کچھ کم ہو گئی تھی، لیکن پھر بھی آٹھ نو انچ ضرور ہوگی۔ دوسرے ان کو ہمیشہ دھان پان سا دیکھا۔ وہ کہتے تھے کہ میرا وزن کبھی چالیس کلو سے نہیں بڑھا، لیکن وہ بے حد چست اور پھرتیلے تھے۔ گھر کے بہت سے کام پیدل ہی چل کر انجام دیتے۔ گلیانہ میں اڈہ گھر سے خاصا دور تھا۔ سودا سلف وہاں سے لانا پڑتا تھا۔ پچھتر سال کی عمر تک سائیکل پر جاتے تھے، ا س کے بعد پیدل جانا شروع کر دیا۔

ابا جی اپنے بچپن او ریتیمی کے بہت سے واقعات سناتے تھے۔ بتاتے تھے کہ مولانا سرفراز صاحب اور صوفی صاحب کی طرح میرا بچپن بھی یتیمی میں گزرا، البتہ میرے حالات یوں مختلف تھے کہ میری والدہ اور سوتیلی پھوپھی کا وٹہ سٹہ تھا۔ میری پھوپھی کی، ماموں کے ساتھ نہ بنی تو میری والدہ کو بھی گھر والوں نے روک لیا۔ کہتے تھے کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ تھا اور مجھے اپنے والد کا چہرہ بھی یاد نہیں تھا۔ والد صاحب نے بہت کوشش کی کہ میری والدہ واپس آ جائیں لیکن میرے ننھیال والے نہ مانے۔ ایک آدھ مرتبہ والد نے چوری چوری ملنے کی کوشش کی تو مامووں نے مار کٹائی کر کے نکال دیا۔ جب میں آٹھ نو سال کا ہوا تو ننھیال والوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ اپنے والد سے ملنے نہ چلا جائے یا ان کے پاس ہی نہ چلا جائے۔ اس ڈر سے وہ مجھے لاہور میں یتیم خانہ میں چھوڑ آئے۔ میری والدہ ایسا نہیں چاہتی تھیں، مگر ان کی بات نہیں چلتی تھی۔ (البتہ میری والدہ نے مجھے تمام حالات سے آگاہ کر رکھا تھا)۔ میں نے یتیم خانہ میں ہی قرآن پاک بھی پڑھا اور اسکول کی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ وہاں لڑکوں کا ایک گروپ ایسا تھا جسے موسیقی سے بہت دلچسپی بھی تھی۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ ہم مختلف گانے گاتے اور مختلف گلوکاروں کی نقلیں اتارتے تھے۔ ۔ میری آواز زیادہ اچھی تھی۔ وہیں ایک صاحب تھے جو ہمیں کہتے کہ تمہاری آواز اچھی ہے، تم نعتیں پڑھا کرو ۔ وہ ہمیں نماز کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔ باقی لڑکوں نے تو نہیں، لیکن میں نے نعتیں بھی پڑھنا شروع کر دیں اور انھی صاحب سے نماز بھی یاد کی اور نماز کی ادائیگی پابندی سے شروع کر دی۔ بتاتے تھے کہ پہلی نعت جو میں نے پڑھی، وہ یہ تھی:

میں سو جاؤں یا مصطفی کہتے کہتے

کھلے آنکھ صل علیٰ کہتے کہتے

ابا جی نے مجھے یہ نعت پوری سنائی اور کہا کہ یہ نعت میں نے چودہ پندرہ سال کی عمر میں پڑھی تھی، اب اکیاسی سال کی عمر میں بھی مجھے یاد ہے۔

ابا جی نے بتایا کہ جب میں سولہ سترہ سال کا تھا تو میرے والد بیمار ہوگئے۔ پہلے پہل تو ان کو معلوم نہ تھا کہ میں یتیم خانے میں ہو۔ پھر جب معلوم ہوا تو میرے ننھیال والوں کو علم ہوئے بغیر کسی کو بھیج کر مجھے بلوا لیا۔ اسی طرح میں دو تین بار اپنے والد صاحب سے ملنے گیا اور وہ کسی کے ہاتھ مجھے کچھ خرچہ وغیرہ بھی بھجوانے لگے۔ ننھیال والوں کو ان سب باتوں کا علم نہیں تھا۔ پھر ایک مرتبہ والد صاحب نے آدمی بھیجا اور اس نے کہا کہ چلو، تمہارے والد صاحب بہت بیمار ہیں۔ میں گیا تو واقعی والد صاحب بیمار اور کافی کمزور تھے۔ انھوں نے کہا کہ بیٹا، میں نے تمہیں اس لیے بلوایا ہے کہ تمہاری ایک امانت میرے پاس ہے، وہ میں تمہارے سپرد کرنا چاہتا ہوں۔ میری کافی جائیداد زمینوں کی صورت میں ہے، اس کے تم اکیلے حق دار ہو۔ آج تک میں نے دوسری شادی بھی نہیں کی، کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس جائیداد کا کوئی اور وارث بنے۔ یہ تمہارا اور تمہاری ماں کا حق ہے او رتمہاری ماں کے بعد میں نے اپنے لیے دوسری عورت کو حرام سمجھا ہے۔ والد صاحب نے پٹواری اور اشٹام وغیرہ کا تمام انتظام کر رکھا تھا۔ اس طرح ساری جائیداد میرے نام منتقل ہو گئی اور کچھ عرصہ کے بعد والد صاحب وفات پا گئے۔ ابا جی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ کتنی جائیداد تھی، لیکن اب مجھے یاد نہیں۔

ابا جی کہتے ہیں کہ والد صاحب نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بیٹا، اب تم نے حوصلے کے ساتھ مرد بن کر رشتہ داروں کا سامنا کرنا ہے۔ اب یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ تم اس دادا کے پوتے ہو کہ سکھوں کے دور میں ان کا ایک گھوڑا ہماری فصلوں میں گھس کر انھیں خراب کیا کرتا تھا۔ تمہارے دادا نے کئی مرتبہ سکھوں کو شکایت لیکن شنوائی نہ ہوئی۔ ایک دن تمہارے دادا اکیلے جا کر فصلوں میں کھڑے ہو گئے اور سکھوں کے گھوڑے کے کلے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کے ساتھ گلے تک چیر دیے۔ دادا کا قد آٹھ نو فٹ تھا۔

ابا جی جن دنوں لاہور میں ہی تھے، رشتہ داروں نے والدہ کی دوسری شادی کر دی۔ ایک بھائی پیدا ہوا جو ماشاء اللہ حیات ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد میرے سوتیلے والد کا انتقال ہو گیا۔ ابا جی اور ان کے سوتیلے بھائی کی آپس میں بالکل سگے بھائیوں جیسی محبت تھی۔ بتاتے تھے کہ جب میں تعلیم مکمل کر کے واپس آیا تو اس دوران میں میرے سوتیلے والد کی بھابھی بھی وفات پا گئی تھیں، چنانچہ گھر والوں نے میری والدہ کی شادی دیور کے ساتھ کر دی تاکہ وہ سسرال میں ہی رہے۔ میری والدہ کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کی سرپرستی زیادہ تر میں نے ہی کی اور ان کی شادیاں بھی میں نے کیں۔ زمینوں کی دیکھ بھال میری والدہ اور سوتیلے دادا کیا کرتے تھے۔ میں جہاں تعیناتی ہوتی، وہاں چلا جاتا۔ میری عدم موجودگی میں والدہ صاحبہ، جن کو سب بے جی کہتے تھے، گلیانہ میں رہتی تھیں۔ سوتیلے والد اور بے جی مل کر زمین کی دیکھ بھال کرتے تھے اور کاشت کاری کرتے تھے۔ دادا جی کھیتی باڑی خود کرتے تھے۔ زمین سے گھاس خود کاٹ کر لاتے تھے۔ گھر میں بھی مشین پر خود ہی گھاس کاٹتے۔ ہمارے گھر کا صحن گائے، بھینس، بکری، گھوڑا، بیل وغیرہ مختلف جانوروں سے بھرا ہوتا تھا۔ ہماری مویشیوں والی حویلی تقریباً ۲۳ مرلے کی تھی جو بھری ہوئی ہوتی تھی۔ 

اسی عرصہ میں والد صاحب کی شادی میری خالہ کے خاندان میں ہو گئی۔ خالہ ابا جی کی ممانی بھی لگتی تھیں۔ انھوں نے اپنی نند کے بیٹے یعنی ابا جی کی شادی اپنی ہمشیرہ کے ساتھ کرائی۔ والد صاحب کئی پشتوں سے اکلوتے چلے آ رہے تھے، لیکن اللہ کے فضل سے ہم دس بھائی بہن ہوئے۔ چھ بھائی اور چار بہنیں۔ دادا اور دادی نے تقریباً سو سال کی عمر پائی۔ دادی کی وفات کو نو سال جبکہ دادا جی کی وفات کو چار سال ہو چکے ہیں۔ دادی تقریباً پانچ سال تک بستر علالت پر رہیں اور آخر عمر میں ان کی بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ابا جی نے اپنی والدہ کی بہت زیادہ خدمت کی۔ بچوں کی طرح ان کا خیال رکھتے تھے، حتیٰ کہ جب وہ چارپائی سے اترنے لگتیں تو انھیں جوتے خود پہناتے تھے۔ بے جی کا وجود بہت ہلکا پھلکا تھا اور ابا جی اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر انھیں ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر منتقل کرتے تھے۔ سردیوں میں دھوپ میں بٹھاتے، خود چمچ سے دوا پلاتے او روہ ضد کرتیں تو انھیں بچوں کی طرح بہلاتے تھے۔ کھانا بھی خود کھلاتے تھے کیونکہ بے جی کسی اور سے کھانا نہیں کھاتی تھیں۔ کہتی تھیں، محمد دینا آئے گا تو کھاؤں گا۔ وہ ابا جی کو محمد دینا ہی کہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی خدمت کا صلہ ابا جی کو یہ دیا کہ خود ان کے آخری وقت میں جب انھیں بہت زیادہ تکلیف تھی، بیٹوں اور بہووں نے ان کی بہت خدمت کی۔ کمزوری کی وجہ سے ابا جی جسم بہت دبواتے تھے اور میرے بھائی، اللہ ان کو جزاے خیر دے، گھنٹوں تک والد صاحب کو دباتے رہتے تھے۔ 

وہ باقاعدہ عالم تو نہیں تھے، لیکن مطالعہ بہت کرتے تھے۔ حدیث کی کتابیں بہت شوق سے پڑھتے تھے اور فقہ میں بھی بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ مسائل پر بات چیت اور بحث ومباحثہ گھنٹوں تک کر سکتے تھے اور مخاطب کو لاجواب کر دیتے تھے۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ سے بیعت تھے۔ میں ذکر کر چکی ہوں کہ مولانا نذیر اللہ خان ابا جی کے پیر بھائی تھے اور تیس پینتیس برس تک ابا جی کا یہ معمول رہا کہ وہ ڈیوٹی کے سلسلے میں پاکستان کے جس کونے میں بھی ہوتے، وہ جمعہ گجرات میں مولانا نذیر اللہ خان کے پیچھے ہی پڑھتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد کئی سال تک راشدی صاحب کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الحق خان بشیر کے پیچھے گجرات میں ہی جمعہ پڑھتے رہے۔ مولانا لاہوری کی وفات کے بعد انھوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب سے بیعت کر لی۔ آخری عمر میں تقریباً ساڑھے برس بیمار رہے۔ اس سے پہلے تک وہ تقریباً پینتیس سال تک روزانہ معمولاً ذکر بالجہر کرتے رہے۔ ان کا معمول تھا کہ سحری کے وقت اٹھتے تو اشراق کے وقت تک جاے نماز پر ہی رہتے تھے۔ اس کے علاوہ مغرب سے عشا تک مختلف وظائف پڑھتے تھے۔ اپنے لیے انھوں نے روزانہ کئی ہزار تسبیحات مقرر کر رکھی تھیں جن کی وہ بے حد پابندی کرتے تھے۔ قرآن مجید کا تیسواں پارہ، انتیسویں پارے سے سورہ مزمل، سورہ قیامہ اور سورہ جن، اس کے علاوہ سورہ یس مکمل اور سورۂ بقرہ کے کچھ حصے انھیں زبانی یاد تھے اور قرآن کی تلاوت بہت سریلی آواز سے کرتے تھے۔

والدین کا آپس میں بہت پیار تھا اور خاندان میں اس کی مثال دی جاتی تھی۔ ان کی رفاقت کا عرصہ تقریباً تینتالیس سال بنتا ہے۔ تیرہ برس پہلے والدہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا تو قدرتی طو رپر والد صاحب بہت تنہائی محسوس کرتے تھے۔ بہن بھائی بھی سب شادی شدہ اور اپنے اپنے بکھیڑوں میں مصروف تھے، اس لیے انھوں نے اپنے آپ کو پڑھنے پڑھانے اور وظائف میں بہت زیادہ مصروف کر لیا۔ سات آٹھ سال پہلے تک کیفیت یہ تھی کہ سال میں شاید دو یا تین ماہ بغیر روزے کے گزرتے تھے، ورنہ ہر ماہ کے لیے انھوں نے اپنے لیے روزوں کی ایک مخصوص گنتی مقرر کر رکھی تھی، حتیٰ کہ جون اور جولائی میں بھی روزے رکھتے تھے۔ دین کی برکت اور ذکر اذکار کے ثمرات تھے کہ اللہ نے ان کو ہمت اور استقامت عطا فرمائی تھی اور وہ بہت کمزور جسم کے مالک ہونے کے باوجود اتنی کثرت سے روزے بھی رکھتے تھے اور ذکر اذکار اور عبادت کے معمولات بھی انجام دیتے تھے۔

ان کی خوراک بہت کم تھی۔ سبزی یا شوربے کے ساتھ ایک چپاتی صبح اور ایک شام کو لیتے تھے، البتہ دودھ پتی بہت پسند تھی۔ پھلوں میں آم پسند تھے۔ معمولات کی کثرت اور خوراک کی قلت کی وجہ سے ان کے پھیپھڑے او رجگر متاثر ہو گئے جس کی وجہ سے سانس بہت پھولتی تھی۔ خود ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے پہلے پہل خود ہی اپنے لیے دوا تجویز کرتے رہے، لیکن افاقہ نہ ہوا تو ہومیو پیتھک اور چائینز طریقہ علاج سے فائدہ اٹھایا۔ میرا ایک چھوٹا بھائی طبیب ہے، اس نے بھی علاج کیا لیکن جو بھی علاج شروع کیا جاتا، شروع میں کچھ دن اس سے افاقہ محسوس ہوتا لیکن پھر تکلیف بڑھ جاتی۔

ان کی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے میں اور راشدی صاحب ان کی عیادت کے لیے گئے تو ہم نے اصرار کیا کہ آپ اتنے علاج کرا چکے ہیں، ایک دفعہ گوجرانوالہ آئیں۔ وہاں ایک بہت قابل ہومیو پیتھک معالج، ڈاکٹر جعفر امام ہوتے ہیں۔ ان سے علاج کرا کے دیکھیں۔ پہلے نہیں مانتے تھے، پھر بڑی مشکل سے آمادہ ہو گئے، لیکن ساتھ ہی یہ شرط لگا دی کہ میں آپ کے ہاں نہیں ٹھہروں گا، بلکہ سیدھا ڈاکٹر کے پاس جاؤں گا اور دوا لے کر واپس آ جاؤں گا۔ ہم نے کہا، ٹھیک ہے۔ جب وہ گوجرانوالہ آئے اور ڈاکٹر جعفر امام کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ میرا علاج کرانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کچھ دن یہاں رکیں۔ مجبوراً انھوں نے رہنے کی ہامی بھر لی اور علاج کے لیے تقریباً دو ماہ ہمارے پاس رہے۔ علاج سے کافی افاقہ ہوا۔ بھوک پیاس جو پہلے بالکل ختم ہو گئی تھی، اب کچھ بہتر ہو گئی۔ سانس پھولنا کم ہو گیا بلکہ لاٹھی کے بغیر چلنے لگے۔ پھر جس دن ان کی واپسی تھی، اس دن خود نیچے مسجد میں جا کر جمعہ پڑھا اور خود سیڑھیاں اتر کر گاڑی میں بیٹھے۔ لیکن گلیانہ جانے کے بعد کچھ دن تک تو طبیعت بحال رہی، لیکن پھر دن بدن بیماری بگڑتی گئی اور وفات سے تین چار ماہ پہلے وہ بالکل چارپائی کے ہو کر رہ گئے۔ بیت الخلا بھی خود نہ جا سکتے تھے۔ وفات سے آٹھ دس دن پہلے تک اشاروں سے نماز ادا کرتے رہے۔

والد صاحب ہمیشہ اس بات پر بہت حیران ہوتے تھے کہ ہمارے گھر میں مہمان داری اور اخراجات کا جو سلسلہ ہے، وہ محدود تنخواہ میں کیسے چلتا ہے۔ پھر خود ہی راشدی صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ یہ ان کی برکت کی وجہ سے ہی ممکن ہے، کیونکہ یہ دین کی اتنی مخلصانہ خدمت کر رہے ہیں۔ کسی لالچ کے بغیر پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتے سفر کرتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بستی میں پہنچتے ہیں۔ کہتے تھے کہ یہی دین کی اصل خدمت ہے کہ اپنے آرام کا خیال نہیں کرتے، گرمی سردی کے موسم کی پروا نہیں کرتے۔ ایک دفعہ راشدی صاحب گھر آئے تو گھٹنے سے شلوار پھٹی ہوئی تھی۔ گھٹنا بھی کچھ زخمی تھا او رلنگڑا کر چل رہے تھے۔ پوچھا تو بتایا کہ بس پر چڑھتے ہوئے ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی چلا جس کی وجہ سے وہ گر گئے تھے۔ ابا جی یہ سن کر بہت پریشان ہوئے تو میں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی دو تین مرتبہ ایسا ہوا ہے او رہم گھر والے ان کو بہت کہتے ہیں کہ اب شوگر کا عارضہ بھی ہے او ربلڈ پریشر بھی زیادہ رہتا ہے، اس لیے سفر کم کر دیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مجبوری ہے۔ میں نے پہلے کی نسبت سفر بہت کم کر دیا ہے، لیکن بعض جگہوں پر نا نہیں کی جا سکتی اور جانا پڑتا ہے۔

ابا جی بعد میں بھی روزانہ تقریباً دو تین بار اس بات کا ذکر کرتے تھے کہ یہ سفر والی صورت حال بہت پریشان کن ہے۔ راشدی صاحب سے بھی کہتے کہ اس کا کوئی بہتر انتظام ہونا چاہیے۔ راشدی صاحب کہتے کہ کوئی بات نہیں، میرے والد صاحب نے بھی دین کی خدمت اسی طرح کی ہے۔ وہ سائیکل اور تانگے او ربس پر بیٹھ کر دیہات میں دین کی تبلیغ کے لیے جاتے تھے اور ساری زندگی انھوں نے دین کی خدمت سہولتوں کے بغیر ہی کی ہے۔ ابا جی کہتے تھے کہ اچھی گاڑیوں میں سفر کرنے والے علما بھی دین کی خدمت کرتے ہیں، لیکن اصل خدمت تو یہ لوگ کر تے ہیں جو اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اپنے آپ کو فی سبیل اللہ وقف کیے ہو ئے ہیں۔ ابا جی کہتے تھے کہ اگر مجھے زندگی نے مہلت دی اور صحت ملی تو میں ان شاء اللہ ان کے لیے گاڑی کا انتظام کروں گا۔ مجھے ہمیشہ تلقین کرتے تھے کہ راشدی صاحب کی خوراک کا خصوصی خیال رکھا کرو، ان کی جسمانی اور دماغی مشقت بہت زیادہ ہے اور خوراک اس کے حساب سے کم ہے۔ میں کہتی کہ پہلے خوراک پھر بھی ٹھیک تھی، جب سے شوگر اور ہائی بلڈ پریشر ہوا ہے، بالکل سادہ غذا ہو گئی ہے اور گوشت تو بالکل چکھتے بھی نہیں۔ ابا جی کہتے کہ زیادہ سفر اور بے آرامی کی وجہ سے یہ دونوں تکلیفیں انھیں لاحق ہوئی ہیں۔

والد صاحب راشدی صاحب کے ساتھ بیٹوں سے بھی زیادہ انس رکھتے تھے۔ کبھی انھیں تم کہہ کر نہیں بلاتے تھے اور ہمیشہ احترام کرتے تھے۔ ان پر بہت فخر کرتے تھے اور لوگوں کو ان کے کالم پڑھ کر سناتے تھے کہ یہ بڑے عالم دین ہیں، عالم دین باپ کی نیک صالح اولاد ہیں اور میرے داماد ہیں۔ یہ بھی ذکر کرتے تھے کہ میری اپنے بیٹوں سے متعلق جو خواہش تھی، وہ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کی طرف سے پوری کر دی۔ جب بھی ہمارا گلیانہ جانا ہوتا تو ابا جی اپنے دوست احباب کو بلا لیتے کہ راشدی صاحب آ رہے ہیں۔ سب مل کر ان کے پاس بیٹھتے اور دیر تک ملکی حالات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے۔ جب تک صحت مند تھے، خود ان کے لیے اڈے سے جا کر ضرورت کی چیزیں لے کر آتے۔ اس قدر چاہت کرتے تھے کہ ان کو وضو کے لیے جوتے بھی خود لا کر دیتے۔ اگر لائٹ نہ ہوتی تو پمپ سے پانی بھی خود نکال کر دیتے۔ اگر کوئی اور ان کا کام کرنے لگتا تو روک دیتے اور کہتے کہ میں خود کروں گا۔

ابا جی کو بہت شوق تھا کہ ان کی اولاد عالم بنے۔ چھ بھائیوں میں سے تین حافظ قرآن تو بنے لیکن عالم کوئی نہ بن سکا۔ اس لیے وہ راشدی صاحب سے بہت پیار کرتے تھے۔ مجھے کہتے تھے کہ تم بہت خوش قسمت ہو کہ تم خود بھی حافظ ہو، تمہارے سسر بہت بڑے عالم اور تمہارا میاں بھی حافظ عالم، تمہارے دونوں بیٹے حافظ، بڑا بیٹا عالم بھی ہے، تمہارا داماد بھی حافظ عالم ہے اور دو نواسے او ربیٹی بھی دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے میرے بچوں کو ددھیال کی طرح ننھیال سے بھی بہت پیار ملا۔ ددھیال میں پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے اور ننھیال میں بھی یہ پہلی اولاد تھے، کیونکہ میرے بڑے بھائی کی شادی میری شادی کے بعد ہوئی جبکہ بڑی ہمشیرہ کی شادی تو مجھ سے پہلے ہو گئی تھی، لیکن بچے ان کی شادی کے سات سال بعد پیدا ہوئے۔ اس طرح ننھیال میں بھی میرے بچے ہی تیسری پشت کے پہلے بچے ہیں۔ 

والد صاحب کو گکھڑ والے ابا جی اور صوفی صاحب کے ساتھ بہت عقیدت تھی۔ اکثر دعا مانگتے تھے کہ یا اللہ، میری زندگی میں ان دونوں بزرگوں کو کچھ نہ ہو اور میں اپنی زندگی میں ان کی وفات کی خبر نہ سنوں۔ ان کی دعا آدھی قبول ہوئی اور آدھی نہیں ہوئی۔ صوفی صاحب کی وفات ان سے تین دن قبل ہوئی اور جب انھیں بتایا گیا تو وہ غنودگی کی کیفیت میں تھے، صدمے کا اظہار بھی ٹھیک طرح سے نہ کر سکے۔ پھر ۹؍ اپریل کو تقریباً ڈیڑھ بجے دوپہر گلیانہ سے فون آیا کہ ابا جی کا انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میری بھابھی نے بتایا کہ آخر وقت تک وہ ہوش میں رہے اور باتیں کرتے رہے۔ گھر کے ساتھ ہی ہسپتال ہے۔ کہنے لگے کہ مجھے ڈرپ لگواؤ جس پر گھر میں ہی ڈرپ لگوانے کا انتظام کیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد ان کے کہنے پر ڈرپ اتار دی گئی اور میرے بھائی نے انھیں اٹھا کر بٹھا دیا۔ بھابھی ٹانگیں دبانے لگی تو اسے منع کر دیا۔ اسی وقت انھوں نے منہ میں کچھ پڑھا تو بھابھی نے اپنے میاں سے کہا کہ ابا جی کو لٹا دو۔ ان کا سر ڈھلک گیا تھا اور بھابھی کو پتہ چل گیا تھا، لیکن بھائی یقین نہیں کر رہا تھا کہ ابا جی کا انتقال ہو گیا ہے۔ پھر ڈاکٹر کو بلایا گیا تو اس نے موت کی تصدیق کر دی۔

والد صاحب دو باتوں کی ہمیشہ تلقین کرتے تھے۔ ایک یہ کہ مجھے غسل جلدی دے دینا اور دوسرا یہ کہ جب بھی مجھے موت آئے، مجھے رات نہ رکھنا اور تدفین جلدی کر دینا، چنانچہ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین رات کو ہی کر دی گئی۔ 

وفات سے کافی عرصہ پہلے انھوں نے اپنی جائیداد میں سے چار کنال زمین مسجد اور مدرسے کے لیے وقف کر دی۔ مسجد ابھی زیر تعمیر ہے جہاں پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ کے علاوہ صبح کا درس اور بچوں کے لیے قرآن پاک کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب انتظام ابا جی کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس صدقہ جاریہ کو قبول فرمائے۔ 

مشاہدات و تاثرات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter