امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدرؒ ان علماے دین میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی تعلیم وتعلم اور تصنیف وتالیف میں بسرکی۔ آپ نے ۹۵ سال کی عمر پائی اور تقریباً چوالیس کتب تصنیف فرمائیں۔ ان تصانیف میں آپ ایک محقق کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ تحقیق کوبطور طرز زندگی اپنانا، سچی لگن، مختلف علوم سے واقفیت، اہم اور بنیادی مصادرومراجع تک رسائی، حصول مواد کے ذرائع سے واقفیت، حقائق کی تلاش اور چھان پھٹک، مواد کی ترتیب وتنظیم اور کتاب کی بہتر تسوید اور پیش کش کو تحقیق کے بنیادی لوازم اور حق گوئی، غیر متعصبانہ وغیر جانبدارانہ تحقیق کو دنیاوی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہ بنانا، دلچسپی اور محنت، وسعت مطالعہ، نقد کی صلاحیت کوایک محقق کے بنیادی اوصاف شمار کیا جاتا ہے۔ اصول تحقیق کے ان اصولوں اور قواعد کی روشنی میں جب حضرت شیخ الحدیث ؒ کی تصنیفات کو دیکھا جاتا ہے تو قاری بلاتردد یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آپ کی تمام تالیفات وتصنیفات تحقیق کے اعلیٰ معیار پر پوری اترتی ہیں۔
حضرت امام اہل سنت کی اکثر تصانیف ان عقائد ومسائل سے متعلق ہیں جو اہل سنت اور دوسرے مکاتب فکر کے مابین مختلف فیہ ہیں۔ مختلف فیہ موضوعا ت پر لکھنا عام موضوع پر لکھنے سے مشکل ہوتاہے، تاہم آپ کی ہر تحریر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ نے متعلقہ موضوع پرقلم اٹھانے کاحق ادا کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کی کتاب ’’ تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور‘‘ احوال برزخ سے متعلق ہے۔ جمہور اہل سنت کے نزدیک عالم برزخ میں اعادۂ روح ہوتاہے، سماع موتی کی حقیقت کو تسلیم کیا گیاہے، قبر میں جسم وروح دونوں کو عذاب ہوتا ہے اور دعا میں انبیاے کرام اور صالحین امت کا توسل درست ہے جب کہ بعض مکاتب فکر کے نزدیک یہ تمام عقائد درست نہیں ۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے سب سے پہلے ان عقائد کے بارے میں یہ ثابت کیا ہے قدیم وجدید اکابر علما نے انھیں اپنی اپنی کتب میں تحریر کیا ہے اور انہیں اہل سنت کے عقائد میں شمار کیا ہے۔ اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے علامہ طاہر بن احمد الحنفیؒ (م ۵۴۲ھ) کی ’’خلاصۃ الفتاویٰ‘‘ سے لے کر مولانا اشرف علی تھانویؒ (م۱۹۴۳ء) کی تصانیف ’’نشرالطیب‘‘ اور ’’التکشف‘‘ تک عربی، فارسی اور اردو زبان کے درجنوں مآخذ سے حوالہ جات پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ان عقائد کو اسلام کے بنیادی مصادر قرآن وحدیث سے ثابت کیا گیا ہے۔ مثلاً توسل کے بارے میں علماے اسلام کے نظریات پیش کرنے کے بعد آیت ’’استفتاح‘‘ اور آیت وسیلہ کو توسل کے جواز میں بطور دلیل پیش کیا گیا اور متعدد احادیث اور آثار صحابہ سے اپنے دعویٰ کو مبرہن کیا گیا ہے۔ (تسکین الصدور، ص۴۲۲)
تحقیق میں اقتباس کو بہت اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اقتبا س پیش کرنے سے کسی جماعت، گروہ یامصنف کے نقطہ نظر کا تجزیہ کرکے اس کی تردید کرنے، دو متضاد خیالات کا جزوی موازنہ کرنے اور اپنے دعویٰ کی توضیح واثبات کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ کسی بھی کتاب کا حوالہ اصل عبارت نقل کرنے کے علاوہ مفہومی عبارت کی صورت میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے ا س کتاب میں مفہومی اقتباس کی بجائے اصل اقتباسات نقل کرنے کو ترجیح دی ہے۔ جب عقائدونظریات کا موازنہ یاتردید مقصود ہوتو اصل اقتباس ہی تحقیق کی ضرورت ہوتاہے، لہٰذا آپ نے بھی اسی طریقہ کواختیار کیا۔
جس طرح اقتباسات تحقیق کے معیار کو بلند کرتے ہیں، اسی طرح متعلقہ مآخذ کا حوالہ دینے سے بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ قاری اصل مآخذ تک آسانی سے رسائی حاصل کر لے۔ قدیم علما اقتباس کے لیے کبھی محض کتاب کانام ذکر کرتے اور کبھی مصنف کے نام پر اکتفا کرتے ہیں، جبکہ جدید علما کتاب کانام اور متعلقہ جلد وصفحہ بھی نقل کرتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے تسکین الصدور میں موخرالذکر طریقہ اختیار کیا ہے۔ آپ ہر اقتباس کے شروع میں مصنف کانام مع سال وفات اور اقتباس کے آخر میں کتاب کانام اور جلد وصفحہ نمبر تحریر کرتے ہیں۔ بعض مقامات پرکتاب کے نام کے ساتھ باب کا نام بھی تحریر کرتے ہیں، جیسے عذاب وراحت قبر کے اثبات کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م۱۱۷۶ھ) کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ کے ’’باب اختلاف احوال الناس فی البرزخ‘‘ کی بابت بھی تحریر کیا ہے۔ (تسکین الصدور، ص ۱۴۵)
جدید محققین اپنی تصنیف کے آخر میں مصادر ومراجع کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ اس کی ضرورت اس لیے محسوس کی جاتی ہے کہ مصادر ومراجع کے دیکھنے سے ہی کتاب کی تحقیقی نوعیت کا اظہار ہو جاتاہے۔ حضرت محدث اعظم ؒ نے اس کتاب میں سینکڑوں کتب کے حوالہ جات دیے ہیں، لیکن مصادر ومراجع کی صورت میں فہرست تیار نہیں کی۔ مصادر ومراجع کاکسی کتاب میں نہ ہونا محقق کے تحقیقی مقام پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتا، تاہم یہ قارئین کی سہولت کے لیے ہوتا ہے۔ بہرحال جدید طرز تحقیق میں تصنیف وتحقیق کے لیے اسے لازمی تصور کیا جاتا ہے۔ حضرت ؒ کے علمی ورثا اگر اس کتاب کی طبع جدید کے وقت مصادر ومراجع کی فہرست درج کرنے کا اہتمام کر لیں تو کتاب جدید تحقیق کے ظاہری معیارات کے لحاظ سے بھی مکمل ہو جائے گی۔
جد ید تحقیق میں ایک محقق دوسرے محقق کے نظریات کا رد مثبت انداز میں ہی کرتا ہے اور کوئی ایسا لفظ استعمال کرنا جس میں مخالف کی تضحیک ہو، درست نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ علما کے ہاں ایسے الفاظ کے استعمال کی روایت رہی ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ بھی اس روایت پر عمل پیرا نظر آتے ہیں، چنانچہ حیات انبیا کے بارے میں فریق مخالف کا نظریہ پیش کرنے کے بعدفرماتے ہیں: ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘‘۔ (تسکین الصدور، ص۲۸۷) محقق کی طرف سے ایسے جملوں کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب فریق مخالف یا فریق ثانی کے دلائل انتہائی کمزور ہوں اور وہ اپنے کمزور دلائل کے باوجود دعویٰ کو بدستور قائم رکھے ہوئے ہو۔
بہرحال حضرت امام اہل سنتؒ کی شخصیت علمی اور تحقیقی میدان میں مسلمہ حیثیت کی حامل ہے۔ مسائل میں آپ کا تحقیقی انداز بے مثل تھا۔ یہ انداز تحقیق صرف اسی کتاب میں نہیں بلکہ آپ کی تمام تصنیفات میں دکھائی دیتا ہے، اس لیے آپ کی تمام تصنیفات نہ صرف علمی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں بلکہ محققین کے لیے تحقیق میں روشنی کا مینار ہیں۔