حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا ہے کہ ہماری نشست وبرخاست کیسے لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے؟ آپ نے فرمایا: من ذکرکم باللہ رؤیتہ وزاد فی علمکم منطقہ وذکرکم بالآخرۃ عملہ (رواہ البزار) ’’وہ شخص جس کو دیکھ کر تمھیں خدایاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کودیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو۔‘‘ ہمارے حضرت شیخؒ اس حدیث کا کامل مصداق تھے۔ انہیں جب بھی دیکھا، خدا یاد آیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر علم میں اضافہ ہوا۔ آپ کی مجلس میں اکثر وبیشتر کسی علمی موضوع پر بات چیت ہوتی تھی یا کسی حدیث کا ذکر ہوتا۔ ایک مرتبہ ہم تین ساتھی حضرت کی بیمار پرسی کے لیے گکھڑ منڈی گئے۔ کچھ ڈاکٹر صاحبان تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی نے کہا، حضرت! ہم صرف بیمار پرسی کے لیے آتے ہیں۔ حضرت نے ہمارے فاضل دوست مولانا عبدالرحیم بلوچ سے فرمایا کہ مولانا! الماری سے فلاں کتاب پکڑیں، فلاں صفحہ نکالیں اور درمیان صفحہ میں فلاں صحابی سے منقول حدیث پڑھیں۔ وہ عیادت مریض سے متعلق دو حدیثیں ہیں:
۱۔ عن ثوبان رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: ان المسلم اذا عاد اخاہ المسلم لم یزل فی خرفۃ الجنۃ۔
’’حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو جب تک وہ عیادت میں مشغول رہتاہے، گویا وہ جنت کے باغ میں پھل چن رہا ہوتا ہے۔ ‘‘
۲۔ ثویر اپنے والدسے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت علیؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اورفرمایا چلو حسین کی عیادت کے لیے چلیں۔ حضرت ابو موسیٰ بھی وہیں تھے۔ حضرت علیؓ نے پوچھا کہ اعائدا جئت یا ابا موسی ام زائرا؟۔ ابوموسیٰ! آپ صرف ملاقات کی نیت سے آئے ہیں یا عیادت کے لیے؟ حضرت ابوموسیٰ نے جواب دیا کہ عیادت کے لیے۔ حضر ت علیؓ نے فرمایا:
سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ما من مسلم یعود مسلما غدوۃ الا صلی علیہ سبعون الف ملک حتی یمسی وان عادہ عشیۃ الا صلی علیہ سبعون الف ملک حتی یصبح، وکان لہ خریف فی الجنۃ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ اور اگر رات کو عیادت کرے توصبح تک اس کے لیے دعاے مغفرت کرتے ہیں۔ نیز اس کے لیے جنت میں ایک باغ بھی لگایا جائے گا۔‘‘
حضرت نے جب ان دو احادیث کی طرف توجہ دلائی تو تمام شرکا بہت خوش ہوئے اور عجب کیف محسوس ہوا۔
ایک مرتبہ بندہ حاضر خدمت ہوا توفرمانے لگے،سورۃ الحج میں و منکم من یرد الی ارذل العمر کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر نے حضرت انس سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں: وکان اسیر اللہ فی ارضہ۔ تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث مجھے سنائیں۔ بندہ نے درج ذیل حدیث حضرت کو سنائی:
مسند احمد اورمسند ابی یعلی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا، اس کے نیک اعمال والد یاوالدین کے حسا ب میں لکھے جاتے ہیں اور اگر کوئی برا عمل کرے تو وہ نہ اس کے حساب میں لکھا جاتا ہے اور نہ والدین کے۔ پھر جب وہ بالغ ہو جاتا ہے تو قلم حساب اس کے لیے جاری ہو جاتا ہے اور دو فرشتے جو اس کے ساتھ رہنے والے ہیں، ان کو حکم دیا جاتاہے کہ اس کی حفاظت کریں اور اس کو قوت بہم پہنچائیں۔ اس کو تین قسم کی بیمار یوں، جنون، جذام اور برص سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی خصوصی توفیق عطا فرماتے ہیں۔ جب سترسال کی عمرکو پہنچتاہے تو سب آسمان والے ا س سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حسنات لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں۔ پھر جب نوے سال کی عمر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے گھروالوں کے حق میں شفاعت کرنے کاحق دیتے ہیں اوراس کی شفاعت قبول ہوتی ہے اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض ٹھہرتا ہے۔ اور جب ارذل عمر کو پہنچ جائے تو اس کے تمام وہ نیک اعمال نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت وقوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا۔ اور اگر اس سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تووہ لکھا نہیں جاتا۔
اس حدیث پر حافظ ابن کثیرؒ نے سند کے حوالہ سے کلام بھی فرمایاہے، لیکن اس کے باوجود امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں اس حدیث کو موقوفاً ومرفوعاً نقل فرمایا ہے۔ جب حضرت نے حدیث کے الفاظ: وکان اسیر اللہ فی الارض سنے تو بہت خوش ہوئے۔ ایک دوسرے موقع پر بندہ نے جب اس حدیث کا تذکرہ کیا اور عرض کیاکہ حضرت آپ تو اس حدیث کامصداق ہیں تو فرط مسرت سے آبدیدہ ہوگئے۔
قرآن وحدیث حضرت کا اوڑھنا بچھوناتھا۔ حضرت کی صحت کے زمانہ میں جب بھی عصرکے بعدحضرت کی زیارت کے لیے برادرمحترم مولانا یوسف،ا ستاد حدیث جامعہ الرشید کی معیت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تو تلاوت یا مطالعہ یا ذکر واذکار میں مشغول پایا۔
حضرت وعدے کے بہت پکے تھے۔ ایک مرتبہ بندہ نے عرض کیا کہ حضرت، میں یہ قلم خرید کر لایا ہوں، آپ لے لیں اوراپنا مبارک قلم مجھے عنایت فرما دیں۔ فرمانے لگے کہ جب کراچی گیا تھا توایک مولوی صاحب نے مجھے یہ قلم دیا تھا اور شرط یہ لگائی تھی کہ یہ کسی کونہیں دینا۔ میرے پاس ایک نیا پن آیاہے، اس سے ایک دودن لکھ کر وہ آپ کو دے دوں گا۔ میں یہ سمجھا کہ حضرت نے ٹرخا دیا ہے۔ اتنی بڑی اور مصروف شخصیت کو کہاں یاد رہے گا، لیکن ٹھیک دو دن بعد بندہ اسباق پڑھا رہا تھا کہ نصرۃ العلوم سے ایک طالب علم آیا اور مجھ سے کہا کہ حضرت شیخ ؒ نے بھیجا ہے اور آپ کے لے یہ پنسل دی ہے۔ بندہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وعدہ پورا کرنے کا یہ احساس! اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں میں بڑا اثر رکھا تھا۔ بخاری شریف کے سبق کے بعد بندہ نے اپنی زمین کے مقدمہ کے حوالہ سے دعاکے لیے کہا تو حضرت ؒ نے سب ساتھیوں کومتوجہ کر کے بڑی لجاجت کے ساتھ دعا فرمائی۔ شام کو برادر کبیر جناب شبیر احمدمیواتی نے خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں کر دیا ہے۔
حضرت خوش طبع بھی بہت تھے ۔ ایک مرتبہ بندہ حکیم محمد کوثر صاحب کے ساتھ حاضرہوا تو فرمانے لگے حکیم صاحب کتنے مریض آجاتے ہیں؟ انہوں نے کوئی تعداد بتلائی تو فرمانے لگے کہ ان میں سے کتنو ں کو قبرستان بھیجتے ہیں؟ پھرفرمانے لگے کہ ماہانہ کتنے پیسے کما لیتے ہیں؟ حکیم صاحب نے آمدن بتائی تو فرمایا کہ یہ پیسے کہاں رکھتے ہو؟ پھر فوراً ہی فرمایا کہ ڈریں مت، اب میں چل پھر نہیں سکتا۔
میں دیکھے ہوئے خواب بھول جاتا ہوں، لیکن ایک خواب آج بھی حافظہ پر نقش ہے۔ ایک مرتبہ بند ہ نے حضرت مدنی ؒ کو خوا ب میں دیکھا کہ نصرۃ العلوم کی مسجد کے برآمدہ کھڑے ہیں اور ساتھ ہی استاد محترم مولانا عبدالقیوم ہزاروی مدظلہ تشریف فرما ہیں۔ کسی نے حضرات شیخین کا ذکر کیا تو حضرت مدنی فرمانے لگے کہ ان کو تکلیف نہ دیں، وہ بہت قیمتی کام کر رہے ہیں۔ بعد میں کسی نے کہا کہ حضرت دارالحدیث میں سبق پڑھائیں گے۔ بندہ نے جا کر دیکھا تو ایک بچہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا اور حضرت مدنیؒ خاموشی کے ساتھ تلاوت سن رہے تھے۔ اس خواب سے بشارت ملی کہ حضرت مدنیؒ حضرات شیخین کے کام اور خدمات سے بہت خوش ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حضرت کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
جب امریکہ اور اتحادیوں نے افغانستان میں طالبان کی اسلامی ریاست پر ناجائز حملہ کیا تو حضرت بہت زیادہ افسردہ رہتے تھے۔ بندہ نے عرض کیا کہ طاغوتی اور شیطان قوتیں افغانیوں کی اسلام اورعلما سے وابستگی کو کہاں برداشت کرسکتے ہیں! س پر بندہ نے علامہ اقبال ؒ کے اشعار سنائے:
یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
کچھ دنوں کے بعد جب دوباری حاضری ہوئی تو فرمانے لگے، مولانا اقبال ؒ کے وہ اشعار کیا تھے، دوبارہ سناؤ۔ بندہ نے دوبارہ سنائے تو بہت خوش ہوئے۔
حضرت کی اصل غذا علم تھا۔ کسی بھی دینی وعلمی بات پر بہت خوش ہوتے،لیکن مضبوط حوالے کے ساتھ۔ حوالے کے بغیر بات کو قبول نہیں فرماتے تھے۔
بندہ نے تین مرتبہ باقاعدہ دورۂ تفسیر میں شرکت کی ہے اور پندرہ پارے دورۂ حدیث والے سال حضرت سے پڑھے ہیں۔ حضرت کادورہ تفسیر منفر د خصوصیات کا حامل ہوتاتھا۔ ہر بات مستند حوالہ جات کے ساتھ ہوتی۔ تمام سبق میں مغز ہی مغز ہوتا تھا۔ کوئی رطب ویا بس نہیں ہوتی تھی۔ حوالہ دیتے وقت تمام تفسیروں کا باقاعدہ نام لیتے اور آخر میں فرماتے، ’’حتیٰ کہ جلالین شریف تک میں یہ بات موجود ہے۔‘‘ پھر کسی طالب کو کھڑا کرتے جس کے پا س جلالین کا نسخہ موجود ہوتا اور اس سے سنتے۔ اگروہ عبارت پڑھنے میں غلطی کرتا تو فرماتے، مولانا آپ نے دال دلیہ کیا ہے، حلوہ نہیں بنایا۔
دورۂ حدیث میں الحمد للہ بخاری شریف جلد اول کی عبارت پڑھنے کی سعادت بندہ کو حاصل ہوئی۔ اگر کوئی بات پہلے گزر چکی ہوتی تو فرماتے کہ یہ بات پہلے گزرچکی ہے، اگر کوئی صاحب باحوالہ بتلا دیں تو پانچ روپے انعام ملے گا۔ ہمارے بہت سے ساتھیوں نے انعامات حاصل کیے۔ بندہ کو بھی کئی مرتبہ سعاد ت حاصل ہوئی۔ ہمارے ساتھی مولانا احمد سعید لکی مروت نے پانچ روپے ا ب تک محفوظ رکھے ہوئے ہیں اور وصیت کی ہے کہ میری وفات کے بعد اس کو میرے ساتھ میرے کفن میں رکھ دیا جائے، جبکہ بندہ کوجب بھی انعام ملا، میں نے ان بابرکت پیسوں سے ناشتہ کیا۔
قرآن پاک کے ترجمہ میں آیت وما اختلف الذین اوتوا الکتاب الا من بعد ما جاء ہم العلم بغیا بینہم میں ایک علمی سوال وجواب ہے۔ حضرت ؒ اس کی بڑی عمدہ تشریح فرمایا کرتے تھے۔ اس آیت میں دوقسم کے اشکال ہیں، ایک نحوی اور ایک علم معانی کا۔ نحوی اشکا ل یہ ہے کہ الا کا ماقبل الا کے مابعد میں عمل نہیں کرتا۔ا س آیت میں بغیا، اختلف کا مفعول لہ ہے جو کہ الا کے بعد واقع ہے اور اختلف اس میں عامل ہے جو کہ اس سے پہلے واقع ہے۔ علم معانی کا اشکال یہ ہے کہ حکم چاہے اثبات کا ہو یا نفی کا، جب وہ کسی شے پر لگایا جاتاہے تو اگر وہ شے مقید بالقید ہو تو حکم راجع الی القید ہوتا ہے۔ اس مقام پر اختلف مقید بقید البغی ہے تو معنی ہوگا کہ انہوں نے بغیا اختلاف نہیں کیا، بلکہ رشد وہدایت ی وجہ سے اختلاف کیا ہے، حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ اس کا ایک جواب علامہ سیوطی نے دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس میں تقدیم وتاخیر ہے۔ ای ما اختلف من بعد ماجاءتھم البینات بغیا بینہم الا الذین اوتوہ۔ کشاف، بیضاوی اور روح المعانی وغیرہ میں اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہاں الا کے بعد اختلفوا محذوف ہے، ای اختلفوا بغیا بینہم۔
حضرت نے مذکورہ تقریر فرمائی۔ پھر دوسرے موقع پر جب یہ آیت آئی تو حضرت نے فرمایا کہ یہاں ایک سوال اور جواب ہے، اگر کوئی صاحب یہ سوال وجواب بتلا دیں توان کو پانچ روپے انعام ملے گا۔ احقر نے بتلایا تو دیرتک تحسین فرماتے رہے۔
دورۂ تفسیر کے دوران کبھی کبھی آیت کے مناسب یا حدیث کے مناسب واقعات ولطائف بھی سناتے تھے۔ کلموا الناس علی قدر عقولہم پر یہ لطیفہ سنایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ کی دارالعلوم دیوبند کے گیٹ پر ایک مولی بیچنے والے نے پٹائی کردی۔ مدرسہ میں یہ خبرپہنچی تو طوفان کھڑا ہو گیا۔ طلبہ دوڑتے ہوئے گیٹ پر پہنچے تو حضرت نے فرمایا اس کو کچھ نہ کہو، اس کا قصور نہیں ہے، بلکہ میری منطق کا قصور ہے۔ ہوا یہ کہ حضرت نے مولی کا بھاؤ معلوم کیا اور دیکھا کہ مولی کے پتے زیادہ ہیں اورمولی کم ہے تو فرمانے لگے، مقصود بالذات کم ہے اور مقصود بالعرض زیادہ ہے۔ اتفاق سے مولی فروش کانام مقصود تھا ۔ اس نے یہ سمجھا کہ مولانا مجھے گالی دے رہے ہیں کہ مقصود بد ذات ہے۔ فرمانے لگے، اس منطق نے میر ی پٹائی کروائی ہے۔ مدرسہ کے طلبہ وعلما خوب محظوظ ہوئے۔
من صمت نجا پر واقعہ سنایا کہ غالباً پاکستان بننے سے پہلے حضرت مولانا غلام محمد لدھیانوی کے علاقہ لدھیانہ میں ایک انگریز آیا۔ وہ ایک تالاب کے کنارے کھڑا ہو کر کسی پرفضا مقام کی تصویر لے رہاتھا کہ پاؤں پھسلا اور وہ تالاب میں جا گرا۔ تیرنا آتا نہیں تھا۔ چیخا چلایا تو ایک چرواہا جو قریب ہی اپنے جانور چرا رہاتھا، دوڑا ہوا آیا اور تالاب میں چھلانگ لگاکر انگریز کو باہر نکالا۔ انگریز نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے کہا کہ تھینک یو۔ چرواہے نے سمجھا کہ یہ کہہ رہا ہے پھینکو تو اس نے انگریز کو دوبارہ دھکا دے دیا۔ انگریز پھر چیخا چلایا تو چرواہا کہنے لگا، انگریز بڑا الو کا پٹھا ہے۔ خود ہی کہتا ہے تھینک یو اور پھرشور بھی مچاتا ہے۔ چرواہے نے پھر چھلانگ لگائی اور اس کو نکال کر کنارے پر کھڑا کر دیا۔ اب انگریز نے خاموشی اختیار کرنے میں عافیت سمجھی۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد من صمت نجا (جس نے خاموشی اختیار کی، اس نے نجات پائی) سے ایک کافر کو بھی فائدہ ہوا۔
گکھڑمنڈی میں جب ہمارے استادزادہ مولانا حما دالزاہراوی کی کوششوں سے دورہ تفسیر شروع ہوا تو استاد محترم حضرت مولانا زاہدالراشدی دامت برکاتہم کے ساتھ بندہ ناچیز کو بھی اس میں تدریس کی سعادت حاصل ہوئی۔ دورۂ تفسیر کے دوران تقریباً روزانہ حضرت کی زیارت کی سعادت حاصل ہوتی۔ کبھی کبھار بندہ کوئی ہدیہ لے کر جاتا توفرماتے، مولانا آپ تکلف نہ کیا کریں، میں آپ سے بہت خوش ہوں۔ ایک مرتبہ ہم صبح صبح حضرت کا درس سننے کے لیے گکھڑ پہنچ گئے۔ درس کے بعد ہم حضرت کے ساتھ گھر گئے۔ حضرتؒ نے اپنے صاحبزادوں میں سے کسی صاحبزادے سے ناشتہ کے لیے فرمایا۔ ناشتہ بڑا پرتکلف تھا اور اکثر لوازمات باہرسے منگوائے گئے تھے۔ میں نے بعدمیں ہدیہ دینا چاہا تو فرمانے لگے، مولانا یہ نہ کریں، میں اتنا حریص نہیں ہوں۔ چونکہ ناشتہ کے بعد ہدیہ پیش کیا گیا تھا، اس لیے حضرت نے یہ سمجھ لیا چونکہ ہم نے ناشتہ کروایا ہے، اس لیے یہ ہدیہ پیش کر رہے ہیں۔
حضرت کی سب سے بڑی خواہش مولانا محمد اسلم شیخوپوری کے مضمون سے معلوم ہوئی جو یہ تھی کہ مجھے شرح تہذیب سے نیچے درجہ کے اسباق پڑھانے کاموقع مل جائے، کیوں کہ میں نے شرح تہذیب اوراس کے اوپر کے اسباق پڑھائے ہیں۔
حضرت کو جب یہ بتلایا جاتا کہ فلاں مسجد میں درس قرآن یا ترجمہ شروع ہوا ہے تو حضرت بہت خوش ہوتے۔ بندہ کے زیر نگرانی تین مساجد میں ترجمہ قرآن کا سلسلہ چل رہاہے اور تینوں مساجد میں حضرت نے قدم رنجہ فرمایا۔ حضرت کی کرامت دیکھی کہ حضرت کی تشریف آوری کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مساجد کا ماحول بہت ہی پرسکون بنادیا۔ جب بھی حاضری ہوتی، ترجمہ قرآن کریم کے بارے میں پوچھتے اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے۔ ہمارے دوست مفتی ایاز صاحب نے جو عسکری کی مسجد میں ہیں، درس شروع کیا تو حضرت بڑے اہتمام کے ساتھ دریافت فرماتے، بڑی مسرت کا اظہار فرماتے اور بہت زیادہ دعائیں دیتے۔ گکھڑ میں حضرت کے صاحبزادے مولانا حماد الزہراوی کی کوششوں سے جب دورۂ تفسیر شروع ہوا تو اس پربے حد مسرت کا اظہار فرماتے اور غیر ملکی طلبہ کے بارے میں خصوصاً پوچھتے ۔ لہٰذا حضرت کے تلامذہ اور عقیدت مندوں سے گزارش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ترجمہ قرآن کی کلاسز قائم کی جائیں اورحضرت ؒ کی تصنیفات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔ یہ حضرت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے ۔