میرے والد سید حافظ حبیب اللہ شاہ، سید فتح علی شاہ صاحب کے بھتیجے تھے۔ سید فتح علی شاہ صاحب ، میرے دادا سید عبد اللہ شاہ کے سگے بھائی تھے۔ یہ دونوں بھائی بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے پہلے شاگرد تھے۔ مولانا ہزارویؒ نے جب مانسہرہ تحصیلاں میں مدرسے کا آغاز کیا تو دونوں بھائیوں نے وہاں داخلہ لے لیا۔ اس وقت تحصیل دار مانسہرہ نے وہاں قریب ہی ایک مسجد تعمیر کروائی تھی جو قادری مسجد کے نام سے مشہور تھی۔ ہمارے دادا سید عبد اللہ شاہ وہاں ایک سال تک امامت کرواتے رہے اور تحصیل دار کی طرف سے ان کی ماہانہ تنخواہ پانچ روپے مقرر کی گئی تھی۔
ایک مرتبہ مولانا غلام غوث ہزاروی قاغان جا رہے تھے او ر سید فتح علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ دونوں پیدل سفر کر رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ ایک سانپ نمودار ہو گیا اور مولانا ہزاروی کو ڈسنے لگا۔ سید فتح علی شاہ کی نظر پڑی تو انھوں نے لاٹھی کا وار کر کے سانپ کا کام تمام کر دیا جس پر مولانا ہزاروی نے فرمایا کہ آج تم نے میری زندگی بچا لی ہے۔
امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے اپنی خود نوشت میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’ایک نیک دل بزرگ نے مشورہ دیا کہ تمہارا وطن میں کیا دھرا ہے؟ کہیں جاکر علم حاصل کرو۔ چنانچہ راقم نے عزیزم عبد الحمید کو ساتھ لیا اور دونوں ۱۹۳۳ء کے لگ بھگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ‘‘ یہ نیک دل بزرگ سید محمود شاہ تھے جو میرے والد سید حافظ حبیب شاہ کے پھوپھا سید ولایت شاہ کے والد تھے۔ جس مقام پر سید محمود شاہ نے آپ کو حصول علم کی وصیت کی تھی، اس کا نام کوڑا پانی ہے۔ ہم جب بھی گکھڑ منڈی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ کوڑا پانی کے بارے میں ضرور پوچھا کرتے تھے۔ کوڑا پانی ہمارے گاؤں ریتڑہ سے تقریباً سو قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضرت نے اپنی خود نوشت میں ایک گاؤں شیڑ کا بھی ذکر کیا ہے جہاں وہ گوجروں کی امامت کراتے رہے۔ یہ گاؤں کوڑا پانی سے تقریباً دو میل دور اوپر پہاڑ کی جانب واقع ہے۔ عصر کا وقت تھا کہ آپ کوڑا پانی سے گزرتے ہوئے غالباً گاؤں شیڑ کی جانب جا رہے تھے۔ سید محمود شاہ اس وقت کوڑا پانی کے سامنے ایک بڑے پڑی نما پتھر پر عصر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ (ہماری ہندکو زبان میں پہاڑ میں نصب بڑے پتھر کو ’’پڑی‘‘ کہتے ہیں)۔ سید محمود شاہ کی نصیحت پر آپ نے اسی وقت پختہ ارادہ کر لیا کہ اس سال مکئی کی فصل پک جانے کے بعد وہ حصول علم کے لیے نکل جائیں گے۔
خاندان کے لوگوں سے سنا ہے کہ جب حضرت، گاؤں شیڑ میں گوجروں کی امامت کرواتے تھے تو گجر برادری کا ایک شخص، جس کا نام نور تھا، آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اس کا بیٹا شاہ مانہ کافی عرصہ پہلے محنت مزدوری کے لیے گھر سے گیا تھا اور واپس نہیں آیا تھا۔ باپ کو تشویش لاحق ہوئی تو وہ حضرت کے پاس آیا۔ آپ کے پاس اس وقت کوئی کتاب تھی۔ آپ نے کہا کہ میں حساب لگا کر بتاتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے کتاب کے صفحات الٹ پلٹ کر کوئی حساب لگایا اور اس شخص سے کہا کہ تمھاریبیٹے شاہ مانہ کو کسی نے قتل کر دیا ہے اور اس کا سر قیام گلی میں اور دھڑ قیام گلی سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا ہے۔
میں اکثر اپنے تایا مرحوم مولانا محمد عالم شاہ کے ساتھ گکھڑ حاضر ہوا کرتا تھا۔ حضرت شیخ رشتے میں تایا مرحوم کے ماموں لگتے تھے۔ تایا جان آپ کے سامنے مودب بیٹھ جاتے اور علمی مسائل پوچھتے رہتے تھے۔ آپ بڑی شفقت سے ان کے سوالات کا جواب دیتے رہتے۔ تایا مرحوم مدرسہ نصرۃ العلوم سے فارغ التحصیل تھے اور تقریباً اٹھائیس سال تک درس نظامی کی تدریس کرتے رہے۔
ایک مرتبہ میں ان کے ہمراہ گکھڑ حاضر ہوا۔ عید کا موقع تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب امریکہ نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان پرحملے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ تایا مرحوم نے دوران گفتگو آپ سے پوچھا کہ اگر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو کیا چین افغانستان کی مدد کرے گا؟ حضرت نے فرمایا کہ چین کبھی افغانستان کی مدد نہیں کرے گا، کیونکہ الکفر ملۃ واحد (تمام کفر ایک ہی ملت ہے)۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ یہ حکمران بے گناہ عوام کو مروائیں گے۔
ایک مرتبہ میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ گکھڑ حاضر ہوا۔ آپ نے انتہائی شفقت سے میرے والد اور والدہ کا حال دریافت کیا۔ میں نے سعادت سمجھتے ہوئے آپ کے پاؤں دبانے لگا۔ اسی دوران میں نے پوچھا کہ اس وقت عالم اسلام اور عالم کفر میں جو ٹکراؤ ہے، اس میں امت مسلمہ کے غلبے کا کوئی امکان ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بہت مشکل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔