میرے والد (اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے‘ کبھی زندگی میں ان کی کسی نماز کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی تھی) صابن سازی کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ بڑے زاہد ومتقی اور حضرت امام اہل سنتؒ و حضرت صوفی صاحبؒ کے قدموں میں بیٹھنے والے تھے۔ اسی صحبت صالح کا اثر تھا کہ ہم سبھی بہن بھائیوں کو انہوں نے دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔
۱۹۸۴ء میں راقم الحروف جامعہ نصرۃ العلوم سے سند و دستار لے کر فارغ ہوا۔ ختم بخاری کے موقع پر ہمیں بخاری شریف کی آخری حدیث شیخ العقول والمنقول حضرت مولانا محمد موسیٰ خان ؒ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نے پڑھائی۔ ۹۸۴ء۱ میں ہی والد مرحوم اور ہمارے محسن شیخ محمد یوسف صاحب زید مجدہم (اللہ ان کی زندگی میں خیروبرکت و آسانیاں پیدا فرمائے) کے مشورہ سے میں نے طاہر سوپ کے نام سے صابن سازی کی ایک فیکٹری لگائی جس کے افتتاح کے لیے اپنے شیخ و مربی حضرت امام اہل سنتؒ کی خدمت میں وقت لینے کے لیے حاضر ہوا۔ فرمایا ’’سنگیاں توں دوسرا بندہ ایں جیہڑا فارغ التحصیل ہو کے صابن بنان لگا اے‘‘۔ عرض کی پہلا آدمی کون تھا؟ فرمایا، ’’حضرت مولانا قاضی شمس الدین ؒ دا صاحبزادہ تے دو جاتوں۔‘‘ بات سمجھانے کا انداز بھی کیسا نرالا ہے کہ دین پڑھ کر اس کو آگے پڑھاؤ اور اس کی خدمت کرو نہ کہ دنیا کمانے میں لگ جاؤ۔
بہرحال فرمایا کہ کل اسباق سے فارغ ہو کر بجے چلیں گے، مگر ڈرائیور اکرم سے پوچھ لینا کہ مدرسہ سے لے کر تمہارے گھر تک اور پھر وہاں سے جی ٹی روڈ گوندلانوالہ چوک تک گاڑی کا کتنا پٹرول خرچ ہو گا، وہ تم گاڑی میں ڈلوا دینا کیونکہ گاڑی اور اس میں جلنے والا پٹرول مدرسہ کے کھاتہ کا ہے جبکہ یہ کام تمہارا ہے۔ گھر جاتے ہوئے شیخوپورہ موڑ پر شیخ یونس کے پٹرول پمپ سے میں نے دس لیٹر تیل ڈلوانے کی کوشش کی مگر حضرت نہیں مانے۔ فرمایا صرف اتنا ڈلواؤ جتنا خرچ ہو گا اور اگر زیادہ خرچ کا شوق ہے تو مدرسہ کے فنڈ میں پیسے جمع کرواؤ۔ہم گھر پہنچے تو ان دنوں عرفات کالونی حیدری روڈ پر سڑکوں اور گلیوں کی حالت اچھی نہیں تھی۔ چنانچہ راستہ خراب ہونے کی بنا پر گاڑی گھر سے دور چھوڑنی پڑی۔ حضرت شیخ ؒ پیدل گھر تک تشریف لائے اور صابن کے کڑاہے میں تیل ڈال کر آپؒ نے افتتاح کیا۔ دعاے خیر کے بعد فیکٹری سے متصل گھر کے اندر تشریف لے گئے جہاں تواضع احباب کا سادہ سا اہتمام تھا۔ میرے کمرے میں میں الماریوں میں خاصی تعداد میں کتابیں بھی موجود تھیں۔ حضرت شیخ ؒ کافی دیر تک کتابوں کو دیکھتے رہے، پھر فرمایا کہ ان کو کبھی پڑھتے بھی ہو یا صرف الماریوں کی زینت اور ڈیکوریشن ہی بنا کر رکھا ہوا ہے؟ اس کے بعد واپسی سے قبل حضرت شیخ المکرمؒ نے حضرت مولانا قاضی شمس الدین ؒ کے بارے میں پوچھا جو کہ ان دنوں علیل تھے۔ حضرت ان کی عیادت کے لیے جانا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت ان کا گھر یہاں سے کچھ دور ہے اور گاڑی بھی اس وقت ان کے دروازے تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ چلو پید ل ہی چلتے ہیں، ان کی عیادت ضرور کرنی ہے۔ حضرت ؒ نے مجھے اپنی جیب سے پیسے دے کر تین کلو مٹھائی منگوائی اور پھر حضرت قاضیؒ صاحب کے گھر ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس موقع پر دونوں بزرگوں کی آپس میں کچھ علمی گفتگو بھی ہوئی۔
اگست ۱۹۸۶ء میں میری منگنی کلر سیداں ضلع راولپنڈی میں ہوئی۔ شروع سے خواہش تھی کہ نکاح حضرت امام اہل سنتؒ سے ہی پڑھواؤں گا ۔ رخصتی سے قبل نکاح کا پروگرام بن گیا۔ جب حضرت شیخ ؒ سے ناچیز نے بات کی اور حضرت سے راولپنڈی جانے اور نکاح پڑھوانے کے لیے وقت مانگا تو آپ نے انکار فرما دیا کہ سنگیا، بہت دور کا سفر ہے اور میں بیمار آدمی ہوں اور ویسے بھی میرے معمولات متاثر ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’توں زاہد (مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ) نوں لے جا‘‘۔ میں نے کہا کہ نہیں، نکاح تو آپ سے پڑھوانا ہے۔ یہ میری دلی خواہش ہے‘ نہیں تو میں شادی ہی نہیں کرواتا۔ بہرحال حضرت ؒ نے کمال شفقت سے مسکراتے ہوئے پھر معذوری ظاہر کی۔ میں تیسرے روز پھر نصرۃ العلوم پہنچ گیا۔ حضرت اسباق سے فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا جوتا اٹھا کر باہر رکھ دیا۔ آپ مسجد کے ستون کے ساتھ ہاتھ رکھ کر جوتا پہنتے تھے یا پھر جوتا رکھ کر پاس کھڑے ہوئے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جوتا پہنتے اور ساتھ ہی جوتا رکھنے والے سے پوچھتے کہ ’’ہاں وائی سنگیا خیر ای؟‘‘ یعنی کوئی کام وغیرہ ہے تو بتاؤ۔ اس روز بھی آپ حسب معمول مسجد سے نکلے، اور جوتا پہننے سے قبل مجھے ہمیشہ کی طرح مسکرا کر شفقت و ہمدری سے ایسے دیکھا کہ ساری تھکان ایسے دور ہوئی کہ روح تک کھل اٹھی۔ آپ اسی طرح پرخلوص میٹھی اور پیار بھری مسکراہٹ و شفقت سے ہر کسی سے ملتے کہ ملنے والا یہی سمجھتا کہ حضرتؒ کو سب سے زیادہ مجھ سے ہی پیار ہے اور آج یہی بات زبان زدعام ہے۔ مجھ سے فرمایا ’’سنگیا اج فیر آ گیا ایں‘‘ (آج پھر آ گئے ہو، خیر ہے؟) میں نے عرض کی کہ حضرت نکاح کی تاریخ طے ہو چکی ہے۔ آپ کی شفقت کے لیے حاضر ہوا ہوں اور آپ کے انکار سے قبل ہی میں نے جلدی سے اپنا مدعا یوں بیان کر دیا کہ استاد جی، تین ماہ قبل مولانا عبدالحق صاحب (حضرت شیخ ؒ کے صاحبزادے اور میرے ہم مکتب) کی شادی پر آپ ان کی بارات کے ساتھ چکوال تشریف لے گئے تھے، حالانکہ آپ ان دنوں کچھ بیمار بھی تھے اور اب تو ماشاء اللہ آپ کی صحت ٹھیک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مولانا عبدالحق صاحب آپ کی حقیقی اولاد ہیں اور ہم آپ کی روحانی اولاد ہیں۔ حضرت نے فوراً اپنی آنکھ کے چھوٹے چشمے سے مجھے بڑے غور سے مگر لاڈ و پیار سے دیکھا اور مسکرا دیے اور پھر خوب مسکرا کر فرمایا، ’’اچھا بھائی سنگیا! جس طرح تیری مرضی۔ جاؤ تیاری کرو، ان شاء اللہ میں نکاح پڑھانے کے لیے چلوں گا۔‘‘ چنانچہ یہ میری خوش قسمتی اور اعزاز ہے کہ میرا نکاح پڑھانے کے لیے آپ ۹؍ اگست ۱۹۸۶ء ء کو ہمارے ہمراہ کلر سیداں ضلع راولپنڈی تشریف لے گئے۔ ہمارے ساتھ برادرم قاری عبیداللہ عامر اور میرے والد مرحوم بھی شریک سفر تھے۔ صبح آٹھ بجے گکھڑ سے روانگی ہوئی، راستہ میں حضرت نے ایک جگہ طہارت اور وضو فرمایا، ایک دو جگہ پانی چائے وغیرہ بھی پی۔ بارہ بجے کلر سیداں پہنچے۔ نکاح سے فارغ ہو کر آپ نے وہاں کی جامع مسجد شیخاں والی میں ظہر کے بعد درس بھی دیا۔ پھر واپسی پر عصر کی نماز قاری اختر صاحب مرحوم کے ہاں پنجن کسانہ میں پڑھی اور مغرب سے قبل گکھڑ پہنچ گئے۔ میرے والد مرحوم نے حضرت کی خدمت میں کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہا تو فرمایا کہ میں نکاح اور تقریر کے پیسے نہیں لیا کرتا، بلکہ الٹا اپنی جیب سے مجھے ایک سو روپے دیے۔
حضرت بڑی ہی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ ہمیشہ سفید شلوار قمیص زیب تن کیا کرتے۔ قمیص کی سامنے کی جیب اور بین پر مشینی دھاگے سے سلائی سی ہوئی ہوتی تھی۔ سامنے والی جیب میں ایک قلم اور تعویزات کے لیے کاغذات ہوتے۔ ایک اندر کی جیب ہوتی جس میں زنجیر والی گھڑی ہوتی تھی۔ سر پر پگڑی یا پھر کپڑے کی سادہ سفید ٹوپی پہنتے جو آپ کے نورانی و روحانی چہرے کو چار چاند لگا دیتی۔ نظر قریب اور دور کی دونوں کمزور تھیں، اس لیے ہمیشہ صاف ستھری عینک پہنتے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسی صاف ستھری اور نفیس شخصیت نہیں دیکھی۔
آپ انتہائی ملنسار ‘ خوش اخلاق اور مہمان نواز تھے۔ زمانہ طالب علمی میں راقم الحروف اور برادرم مولانا ظہور احمد رانجھا حضرت شیخ ؒ سے ملنے گکھڑ چلے گئے۔ آپ ہم سے بغلگیر ہو کر ایسے ملے جیسے مہینوں کے بچھڑے باپ بیٹے ملتے ہیں۔ آپ نے ہمیں بیٹھک میں بٹھایا اور خود باہر تشریف لے گئے۔ جب دس پندرہ منٹ تک آپ تشریف نہ لائے تو ہم سمجھے کہ شایدحضرت ہمیں بٹھا کر بھول گئے یا کسی اور کام میں مصروف ہو گئے ہیں۔ ہم واپسی کے لیے گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حضرت شیخ ہمارے لیے دکان سے مشروب لے کر آ رہے تھے۔فرمایا سنگیو، کتھے چلے او؟ میں تو تمہارے لیے پانی لے کر آ یا ہوں، کیونکہ کوئی بچہ گھر پر نہیں تھا تو میں نے کہا کہ مہمان کو اکرام کے بغیر نہیں جانا چاہیے۔
آپ بڑی باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ ہمارا صابن سازی کا کاروبار تھا۔ میں نے ایک دفعہ حضرت سے پوچھا کہ صابن میں مردار جانور کی چربی استعمال ہوتی ہے، کیا یہ درست ہے اور کیا اس صابن سے کپڑے پاک ہو جاتے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا، میرے نزدیک تو درست نہیں، لیکن فتویٰ مفتی صاحب سے لو۔ میں نے عرض کی کہ مفتی صاحب سے پوچھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ درست ہے اور ایسے صابن سے کپڑے پاک ہو جاتے ہیں۔ آپ مسکرانے لگ گئے اور فرمایا ’’سنگیا سچ سچ دسیں، مفتی صاحب نوں کناں صابن دتا ای؟‘‘ (سچ سچ بتانا، مفتی صاحب کو کتنا صابن دیا ہے؟) یہ حقیقت ہے کہ وہ ہمارے دور کے انسان ہی نہیں تھے۔ وہ کسی اور دور کے انسان تھے جو ہمارے دور میں پیدا ہو گئے اور یہ ہم پر اللہ کی بہت بڑی نعمت اور احسان عظیم تھا۔ مگر بدقسمتی ہم نے نہ تو ان کی قدر کی، نہ ان سے فیض حاصل کر سکے اور نہ ہی ان کی خدمت کر سکے۔