دنیا میں جو بھی آیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن جانا ہے اور ضابطہ الٰہی : ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ (آلِ عمران:۱۸۵) (ہر جی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے) کے مصداق موت کا گھونٹ ہر ایک نے پینا ہے، اس لیے کہ: ’’کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘(رحمن:۲۷) (ہر ایک کو فنا ہے، بقا تو صرف تیرے رب کی ذات کو ہے جو بزرگی اور عظمت والی ہے) کے تحت دنیا سے ہر نیک و بد، مسلم و کافر، محبوب و مبغوض، عالم و جاہل کو ایک دن ضرور کوچ کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کی اس گھاٹی سے کون کامیاب ہوکر پار ہوا اور کون ناکام ہوکر؟ کیونکہ دنیا کی راحت، عافیت، عزت اور وجاہت یا یہاں کی تکلیف، مشقت، فقر اور ذلت معیارِ کامرانی و ناکامی نہیں، بلکہ حقیقی کامیابی و ناکامی کا اندازہ مرنے کے بعد ہوگا۔
جن لوگوں کو حقیقی عقل و شعور یا فہم و ادراک کی دولت میسر ہے، وہ اس دھوکا کے گھر اور عارضی چکا چوند پر فریفتہ نہیں ہوتے اور نہ ہی دنیا کی عزت و ذلت کی پروا کرتے ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونارضائے الٰہی اور قبر و آخرت کی فکر ہوتی ہے۔ وہ دنیا کے پیچھے نہیں، دنیا ان کے پیچھے بھاگتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا ومافیہا سے مستغنی اپنے حصہ کا کام کرتے ہیں اور خاموشی سے دنیا اور اس کے عیش و راحت کو لات مار کر راہی آخرت ہوجاتے ہیں، چنانچہ بہت سے مقربین بارگاہ الٰہی ایسے بھی ہوئے ہیں جن کو اہل دنیا ان کے جیتے جی پہچان تک نہ سکے، جبکہ بہت سے ایسے ہوئے جن کے خمول و گوشہ نشینی کی بنا پر اہلِ دنیا ان کے مرتبہ و مقام سے نا آشنا رہے۔ ہاں! کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی بندہ خدا سے کچھ خدمت لینا مقصود ہو، تو اس کا تعارف کرادیا جاتا ہے اور مخلوق خدا کو اس کے عنداللہ مرتبہ و مقام میں سے کسی قدر کوئی جھلک دکھادی جاتی ہے،۔ مقصود صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ خلق خدا اس کے فیوض و برکات اور علوم و معارف سے مستفید ہوسکے، مگر یہ سب کچھ منجانب اللہ ہوتا ہے۔ اس میں ان مقربین بارگاہ الٰہی کی مرضی، چاہت اور اختیار کا کوئی دخل نہیں ہوتا، جیسا کہ بانی دارالعلوم قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کا یہ ملفوظ مشہور ہے کہ: اگر علم کے دو حروف کی تہمت نہ ہوتی تو کسی کو خبر بھی نہ ہوتی کہ محمد قاسم نام کا بھی کوئی ہے۔ چنانچہ ’’بیس بڑے مسلمان‘‘ میں ہے: ’’ایک دن آپ فرماتے تھے کہ: ’’اس علم نے خراب کیا ورنہ اپنی وضع کو ایسا خاک میں ملاتا کہ کوئی بھی نہ جانتا۔‘‘ (ص:۱۱۷)
بلامبالغہ کچھ یہی شان امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس سرہ کی تھی جن کا ۵؍مئی ۲۰۰۹ء مطابق ۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ پیر اور منگل کی درمیانی شب سوا ایک بجے انتقال ہوگیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ باجل مسمّٰی۔
حضرت امام اہل سنتؒ کو اللہ تعالیٰ نے جہاں دوسرے بے شمار انعامات سے نوازا تھا، وہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اخفا اور استغنا سے بھی نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کو علم و تحقیق اور قلم و قرطاس کی نعمت سے سرفراز فرمایا تھا، اسی طرح آپ کی نسبی اولاد میں سے مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبدالقدوس قارن اور مولانا عبدالحق خان بشیر زیدت الطافہم کو بھی درس و تدریس کے علاوہ لکھنے لکھانے کے ذوق اور سلیقے سے سرفراز فرمایا ہے۔ حضرت امام اہل سنتؒ کی نسبی اولاد کے علاوہ روحانی اور علمی اولاد کا حلقہ بھی خاصا وسیع ہے اور ان میں سے بہت سے اربابِ ذوق، اصحاب تحریر اور عمدہ انشا پرداز ہیں جن میں سے بہت سے حضرات نے آپؒ پر لکھا، لکھ رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی ان کی زندگی کے مختلف گوشوں اور مخفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے اور یہ سب کچھ وہ اپنے آپ کو خریدارانِ یوسف کی صف میں شامل کرنے کے لیے کریں گے، ورنہ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ جس مرتبہ و مقام پر فائز تھے یا اب جہاں وہ پہنچ چکے ہیں، انہیں ایسی کسی مدح و توصیف کی نہ پہلے کبھی ضرورت تھی اور نہ اب ہے۔
اسی طرح اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کسی کا ان کی مدح و توصیف میں کچھ کہنا یا لکھنا نہ ان کے مرتبہ و مقام میں اضافہ کرسکتا ہے اور نہ انہیں اس سے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ہاں ان کو اگر کچھ نفع ہوگا تو دعاے خیر، ایصالِ ثواب، ان کی جاری کردہ حسنات اور ان کے مشن پر چلنے سے ہی ہوگا، تاہم یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم اپنی زبان، بیان، تحریر، قلم اور قرطاس کو ان کے ذکر خیر سے وابستہ کرکے اپنے قدو قامت اور قدروقیمت بڑھانے کی سعادت حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم جو لوگ اپنے قلم و قرطاس اور زبان و بیان کو ان کے ذکر خیر سے وابستہ کرنے کے باوجود بھی ان کی فکر وسوچ، علم و عمل، فہم و فراست، تحقیق و تدقیق اور زندگی بھر کے طرز عمل سے مخالفت کریں گے، نہ صرف یہ کہ ان کو اس سخن سازی سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ عین ممکن ہے کہ ان کی اس روش سے بجائے نفع کے انہیں نقصان ہو اور حضرت امام اہلِ سنتؒ کی پاکیزہ روح کو بھی اس سے تکلیف ہو، اس لیے اس وقت حضرت امام اہل سنتؒ سے محبت و عقیدت کے اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی بیان فرمودہ راہ اور قدروں پر سو فیصد عمل کیا جائے اور ان کے مشن کو زندہ و تابندہ رکھا جائے۔
امام اہل سنت قدس سرہ کسی اعتبار سے بھی اونچا اور عالی پس منظر نہیں رکھتے تھے۔ ان کو جس قدر رفعت و عظمت ملی، وہ علم و عمل، دین و شریعت، زہد و تقویٰ، خلوص و اخلاص اور وراثت نبوی کی مرہون منت تھی، اور آپ: ’’العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درہماً انما ورثوا العلم، فمن اخذہ اخذ بحظ وافر۔‘‘ (مشکوٰۃ:۳۴) (علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء اپنی وراثت میں دینار و دراہم نہیں چھوڑتے، ان کی وراثت علم ہوتی ہے، جس نے انبیاء کی وراثتِ علم حاصل کی، اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا) کے کامل و مکمل مصداق تھے، آپ نے ساری زندگی میراث نبوی کو سینے سے لگائے رکھا اور اتباع نبوی میں اس میراث نبوی کی تقسیم کے لیے فکر مند رہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے موفق للخیر بنایا تھا اور آپ کے اوقات میں غیر معمولی برکات رکھی تھیں، یہ اسی کا کرشمہ تھا کہ روزانہ ۱۵،۲۰ میل کا طویل سفر کرکے مدرسے آنا جانا، وہاں اسباق پڑھانا،ان تمام اسباق کا مطالعہ کرنا، بچیوں کو درسِ نظامی کی کتابیں پڑھانا، ٹیچر ٹریننگ کالج میں گھنٹہ بھر درس دینا اور وہاں بھی پیدل آنا جانا، مسجد کی پانچوں نمازوں کی امامت و خطابت، مسجد میں درسِ قرآن و درس حدیث دینا، اس کی مکمل تیاری کرنا، مسائل اور فتاویٰ لکھنا، اسی طرح اس مختصر وقت میں جامع مسجد گکھڑ میں تین چار بار قرآن کا درس مکمل کرنا، پھر وہاں صحاح ستہ، مستدرک حاکم اور دوسری حدیث کی کئی کتابوں کا درس دینا، وغیرہ سب خیر کی توفیق اور وقت میں برکت کی علامات ہیں۔
بحمداللہ! راقم الحروف کو حضرت امام اہل سنتؒ کے ساتھ متعدد بار حرمین کے سفر کی سعادت میسر آئی۔ آپ ہر معاملہ میں نہایت حزم و احتیاط سے کام لیتے، حتیٰ کہ اگر کوئی فقہی مسئلہ پیش آجاتا تو بجائے اس کے کہ اپنے علم و فہم اور تحقیق و افتا کی روشنی میں جواب دیتے، کسی اپنے شاگرد یا کسی دوسرے متعلقہ عالم دین سے مسئلہ معلوم کرکے اس پر عمل کرتے۔ چنانچہ ایسا کئی بار ہوا کہ کسی نے آپ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے راقم الحروف کو یاد فرمایا، حالانکہ راقم الحروف اکثر و بیشتر آپ سے ہی مسائل معلوم کرتاتھا۔
حضرت کا یہ معمول تھا کہ حتی الوسع آپ کسی سے جسمانی خدمت لینے سے احتراز فرماتے تھے، چنانچہ ہم نے حضرت کی زندگی کے آخری دور میں دیکھا، جبکہ اس وقت حضرت از خود اٹھ کر کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے، کہ اگر کبھی رات کو حضرت کو باتھ روم جانے کی ضرورت ہوتی تو دیوار کو پکڑ کر خود چلے جانے کی کوشش کرتے مگر حتی الوسع کسی کو نیند سے بیدار کرنے سے احتراز فرماتے۔ اسی طرح حضرت کو یہ بھی گوارہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی نیا آدمی آپ کے جسم اور پاؤں دبائے، خصوصاً علما اور اکابر کی اولاد سے بہت ہی احترام و عزت کا معاملہ فرماتے اور ان کو اپنے برابر میں بٹھاتے۔ اسی طرح آپ ہر آدمی سے ہدیہ لینے سے بھی احتیاط فرماتے، الا یہ کہ اس سے بے تکلفی ہو۔ اسی طرح جس آدمی کی کمائی کے بارے میں شک ہو، اس سے بھی ہدیہ لینے سے احتراز فرماتے۔ عام طور پر مال دار حضرات، علماے کرام کو مستحق اور ضرورت مند سمجھتے ہیں، اس لیے اگر حضرت کے متعلقین میں سے کوئی صاحبِ حیثیت آپ کو کچھ پیش کرتا تو استفسار فرماتے یہ کس لیے ہے؟ اگر کہا جاتا کہ آپ کے لیے ہے تو آپ کا اگلا سوال ہوتا یہ زکوٰۃ تو نہیں ہے؟ پھر فرماتے: زکوٰۃ کے مستحق اور مصرف غربا، فقرا اور مساکین ہیں، زکوٰۃ ان کو دی جائے۔ اگر کسی سے بے تکلفی ہوتی اور وہ ہدیہ وغیرہ پیش کرتا تو یہ کہتے ہوئے کہ یہ آپ کا ہمارے لیے تبرک ہے، نہایت بشاشت سے وصول فرماتے اور اسے لے کر جیب میں رکھ لیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت امام اہل سنتؒ کو حد درجہ کا استغنا، زہد، تقویٰ اور احتیاط عطا فرمائی تھی، آپ نے اتباع نبوی میں ساری زندگی قوت لایموت اور عسر و تنگی کے ساتھ گزاری مگر مال اور مال داروں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔
سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ جن دنوں وہ صدر پاکستان بنے تو انہوں نے خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی تو حضرت امام اہل سنت ؒ نے یہ کہہ کر ان کو آنے سے منع فرمادیا کہ جب آپ میرے پاس آئیں گے تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ صدر صاحب میرے عقیدت مند ہیں۔ پھر لوگ مجھ سے جائز و ناجائز کاموں کی سفارش کی درخواست کریں گے جو میرے اور آپ دونوں کے لیے مشکلات کا سبب ہوگا، اس لیے آپ نہ ہی آئیں۔
آپ دین اور دینی کاموں میں بہت ہی خوش دلی اور بشاشت سے خرچ فرماتے بلکہ اس کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے، چنانچہ شروع سے ہی حضرت کے نام پر ماہنامہ بینات اعزازی طور پر جاری تھا، مگر بایں ہمہ حضرتؒ کا اصرار رہتا کہ مجھ سے بینات کا زر سالانہ وصول کیا جائے اور میری وجہ سے ادارہ پر بوجھ نہیں پڑنا چاہیے، لیکن دوسری طرف حضرت بنوری قدس سرہ کا فرمان تھا کہ نہیں آپ کے نام بینات اعزازی ہی رہے گا۔ سوء اتفاق کہ ایک بار ناظم بینات نے سہواً آپ کے نام جانے والے شمارے پر زر سالانہ کے ختم ہوجانے کی مہر لگاکر بھیج دیا۔ اس پر حضرتؒ نے فوراً زر سالانہ بھیج دیا۔ دفتر بینات میں جب وہ رقم پہنچی تو دفتر سے واپس یہ عریضہ ارسال کیا گیا کہ حضرت آپ کا رسالہ تو اعزازی ہے، مگر غلطی کی بنا پر آپ کے رسالہ پر ارسال چندہ کی مہر لگ گئی تھی، لہٰذا آپ کا زر سالانہ واپس کیا جاتا ہے۔ اس پر حضرت نے نہ صرف یہ کہ چندہ واپس نہیں لیا بلکہ درج ذیل خط لکھ کر ادائیگی چندہ پر خوشی کا اظہار فرمایا۔ لیجیے، حضرت کی اولوالعزمی اور مال و زر سے بے اعتنائی ملاحظہ فرمایئے:
باسمہٖ سبحانہ
منجانب: ابی الزاہد
الیٰ محترم المقام جناب حضرت مولانا .....صاحب دامت برکاتہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مزاج سامی!
آپ کا محبت نامہ، شفقت بھرے الفاظ سے ملا، آپ کی اس حسن ظنی، کرم فرمائی اور ذرہ نوازی کا صمیم قلب سے صد شکریہ، محترم المقام! راقم نے پہلے بھی دوتین مرتبہ پیشکش کی تھی اور جب کراچی آیا تھا تو خاصا اصرار بھی کیا تھا کہ ماہنامہ بینات کا چندہ راقم سے لیا جائے، لیکن اکابر کی بزرگانہ شفقت اور حکم کی تعمیل میں بالآخر خاموش رہا۔
اب جب چندہ کا حکم آیا تو خوشی بھی ہوئی کہ راقم کا بوجھ ادارہ پر نہ رہا اور ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ ملکی حالات کے پیش نظر ادارہ کو مالی استحکام کی ضرورت درپیش ہوگی، بہرحال یہ رقم بڑی خوشی سے بھیجی ہے، ناگواری مطلقاً نہیں ہوئی۔ پاکستانی رسالوں میں صرف ’’بینات‘‘ ہی وہ رسالہ ہے ، جس کو راقم ذوق و شوق سے پڑھتا ہے اور خصوصاً ’’بصائر و عبر‘‘ کو تو بے حد مزے لے لے کر پڑھتا ہے اور اس کا انداز تحریر عالمانہ اور ناصحانہ مواعظ اور حق گوئی کا بے نظیر جذبہ دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور حضرت العلام مولانا سیّد محمد یوسف بنوری دامت برکاتہم اور دیگر اصحاب مضامین کے علمی اور تحقیقی جواہر پاروں کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات بڑی قیمتی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور بعض ایسے مسائل کی طرف توجہ ہوتی ہے جو وقت کے اہم اور علمی طور پر بڑے دقیق مسائل ہوتے ہیں اور راقم تو حضرت مولانا بنوری صاحب دامت فیوضہم کی علمی اور تحقیقی ابحاث کا اور خصوصیت سے وسعت نظری کا ویسے بھی قائل ہی نہیں بلکہ مداح ہے اور ’’بصائر و عبر‘‘ کے مضمون سے تو خوشہ چینی کا اور ایک گونہ ملاقات کا شرف حاصل ہوجاتا ہے، راقم آپ کا اور تمام حضرات کا تہہ دل سے ممنون ہے تمام حضرات کو درجہ بدرجہ سلام مسنون ارشاد فرمائیں اور دعوات صالحہ میں یاد رکھیں۔
والسلام
احقر ابو الزاہد محمد سرفراز از گکھڑ
۲۳؍صفر ۱۳۹۲ھ، مطابق ۸؍اپریل ۱۹۷۲ء
آخر ی کچھ سالوں سے حضرت امام اہل سنتؒ قریب قریب صاحب فراش ہوگئے تھے اور گزشتہ کچھ عرصہ سے آپ نے تقریباً کھانا پینا ترک کردیا تھا۔ حضرت فرماتے تھے کہ بھوک و پیاس نہیں لگتی۔ خدام، متعلقین اور معا لجین نے جب بہت اصرار کیا اور کہا کہ اس طرح تو کمزوری ہوجائے گی تو فرمایا ترمذی شریف لاؤ۔ ترمذی شریف لائی گئی تو آپ نے ابواب الطب کی درج ذیل حدیث کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ: مریض کو کھانے پینے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ حدیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اور یہ حدیث نکال کر دکھا دی:
’’عن عقبۃ بن عامر الجہنی رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تکرہوا مرضاکم علی الطعام فان اللّٰہ تبارک وتعالیٰ یطعمہم ویسقیہم، ہذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ الا من ہذا الوجہ۔‘‘ (ترمذی، ص:۲۵، ج:۲، ابواب الطب)
ترجمہ: ’’حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مریضوں کو کھانے پر مجبور نہ کیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتے اور پلاتے ہیں۔‘‘
ایک بار راقم الحروف نے عرض کیا : حضرت! بھوک لگتی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ دوبارہ عرض کیا: پیاس لگتی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ تب راقم نے عرض کیا :اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کواپنے شیخ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ سے اس اعتبار سے بھی مشابہت تامہ حاصل ہوگئی ہے کہ آپؒ نے بھی آخر میں کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ اس پر صرف مسکراکر خاموش ہوگئے۔ ایک اور مرحلہ پر جب آپ نے کھانے پینے سے صاف منع فرمادیا تو ازراہ بے تکلفی راقم نے عرض کیا: اس کا معنی یہ ہے کہ ملکوتی صفات کا غلبہ ہورہا ہے؟ فرمایا: یہ تمہاری سوچ ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے حضرتؒ کو غیر معمولی اوصاف و کمالات سے سرفراز فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔