جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء
خصوصی اشاعت بیاد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
― محمد عمار خان ناصر
امام اہل سنت، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے منظر عام پر آنے کے لیے ابتداءً ا جولائی کا مہینہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن بھرپور کوشش کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ ایک ضخیم اشاعت کی تیاری اور ترتیب وتدوین کی مشکلات کیا ہوتی ہیں اور کئی طرح کے اسباب تاخیر کا باعث بن ہی جایا کرتے ہیں۔ بہرحال قارئین کو دو ماہ تک انتظار کی جو زحمت اٹھانا پڑی، ا س کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ محدود وقت میں میسر حالات اور وسائل کے ساتھ اپنی بساط...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ‘ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد۔ ’’ہمارے مخلص اور مہربان بزرگ جناب خان محمد خواص خان صاحب دام مجدہم اعوان مقام ہیڑاں ڈاکخانہ اہل تحصیل مانسہرہ ضلع ہزارہ نے بار بار بزرگانہ خطوط تحریر فرمائے کہ میں علماے ہزارہ کے بارے کتاب لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے تم اپنے اور برادرِ خورد صوفی عبد الحمید کے حالاتِ زندگی اور خصوصیت سے تحصیل علم سے متعلق معلومات ضبط تحریر میں لاکر بھیجو۔ موصوف سے وعدہ بھی تھا مگر ایک ضروری سفر اور بے حد مصروفیت اور اس پر مستزاد گوناگوں بیماریاں اور کچھ ایسے ہی دیگر متعدد عوارض دامن گیر ہوئے...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
زمانہ طالب علمی کے واقعات۔ الحمد للہ میں نے آج تک سینما نہیں دیکھا اور آئندہ بھی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، کیونکہ ہمار ا یہ ذہن بنایا گیا تھا کہ تھیٹر نہیں دیکھنا، سینما نہیں دیکھنا۔ والد محترم کی ڈاڑھی سنت کے مطابق تھی، پکے نمازی او ربڑے مہمان نواز تھے، بالکل ان پڑھ۔ وہ ہمیں کہتے تھے بیٹے، تھیٹر نہیں دیکھنا، سینما نہیں دیکھنا۔ یہ ان کا دیا ہوا سبق مجھے آج تک یاد ہے، بھلایا نہیں ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۹۴)۔ ہمارے علاقہ میں جہاں میری پیدایش ہوئی ہے، لوگ بڑے جاہل تھے۔ اب الحمدللہ بڑے سمجھدار ہو گئے ہیں، تعلیم آگئی ہے۔ جہالت کے زما نے میں لوگ بزرگوں...
― مولانا محمد یوسف
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ پر منعم حقیقی کایہ خصوصی فضل وانعام تھاکہ ان کو اپنے وقت کی بلند پایہ اور گرانمایہ علمی شخصیتوں کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ کو جن اصحاب فضل وکمال کے دامن فضل سے وابستگی اور سر چشمہ علم وفن سے کسب فیض اور اکتساب علم کا شرف حاصل ہوا، ا ن میں سے اکثر اس زمانہ کے عبقری اور علم وفن کی آبرو تھے۔ چونکہ صاحب سوانح کی سوانح حیات اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ نہ ہو جن کے فیوض تعلیم وتربیت نے صاحب سوانح کی صلاحیتوں کو جلا بخشی، اس لیے ہم ذیل کی سطور میں آپ کے اساتذہ...
― مولانا قاضی نثار احمد
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القدیر مومن پوری رحمہ اﷲ۔ حضرت امام اہل سنت مولانامحمدسرفرازخان صفدررحمہ اﷲ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنی رحمہ اﷲ، امام المؤحدین حضرت مولاناحسین علی رحمہ اﷲ اور شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالقدیرمومن پوری رحمہ اﷲ اپنے فیوضات کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اﷲ نے حضرت مدنی رحمہ اﷲ سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض لیا، حضرت مولاناحسین علی رحمہ اﷲ سے تفسیراور تصوّف کا فیض لیااور مولاناعبدالقدیررحمہ اﷲ سے فقہ اور فنون کی پختگی حاصل کرنے کے ساتھ ان کی شفقتوں سے نوازے...
― قاری حماد الزہراوی
گوجرانوالہ اور وزیر آباد کے درمیان جی ٹی روڈ پر واقع گکھڑ ایک قدیم تاریخی مقام ہے۔ اسے ایک جنگ جو اور مہم جو قبیلے گکھڑ کی نسبت سے یہ نام دیاگیا ۔ اس کی وجہ تسمیہ کی بابت مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ برصغیر کے معروف عدل گستر، اعلیٰ پایے کے منتظم اور عظیم بادشاہ شیرشاہ سوری سے شکست کے بعد مغل خاندان کے چشم وچراغ نصیر الدین ہمایو ں نے جب ایران کا رخ کیا تو اس دورمیں گکھڑ قوم نے شیرشاہ سوری کے خلاف باغیانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ چنا نچہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے ہی شیر شاہ سوری نے دینہ کے قریب روہتاس کا قلعہ تعمیر کرایا۔ شیرشاہ...
― مولانا عبد القدوس خان قارن
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں مختلف نوعیت کی صلاحتیں ودیعت کی ہوتی ہیں جن کا اظہار ان کی زندگی میں ہوتا ہے، مگر ان کی کچھ صلاحیتیں ایسے انداز سے ظاہر ہوتی ہیں کہ لوگوں کی نظر ان ہی پر منحصر ہو جاتی ہے اور دیگر صلاحیتوں کی جانب توجہ نہیں رہتی۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو پروردگار نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ رات بھر میں نماز میں پورا قرآن کریم ختم کر لیا کرتے تھے۔ (الخیرات الحسان لابن حجر مکی ص ۸۵۔ تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۳۵۶ وغیرہ) ان کو فن حدیث میں بہت بلند مقام حاصل تھا، چنانچہ امام ابن عبد البر المالکیؒ لکھتے ہیں کہ مشہور محدث...
― مولانا محمد یوسف
قرآن حکیم کی درس وتدریس سے وابستہ ہوجانے والے خوش قسمت افراد کے مقام ومرتبہ کا صحیح صحیح عملی اظہار تو دارالجزاء ہی میں ہوگا جب وہ الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن (شکرہے اس خدائے پاک کا جس نے ہر قسم کا غم ہم سے دور کردیا) کی تلاوت کرتے ہوئے۔ رحمت خداوندی کے سایہ میں، خراماں خراماں جنت کے درجات عالیہ کی طرف محو پرواز ہوں گے۔وہ کیسا دلنشین منظر ہوگا جب خدائے رحمن کی زبان سے ’’سلام قولا من رب رحیم‘‘ کے رسیلے الفاظ ان کے کانوں میں رس گھول رہے ہوں گے اور فرشتے قطار در قطار کھڑے ہو کر ان کو ’’سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین‘‘ کے الفاظ سے سلام پیش...
― مولانا عبد الحق خان بشیر
امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اپنی علمی وتحقیقی زندگی میں چوالیس محققانہ تصانیف سپرد قلم فرمائیں، جبکہ بعض مفید علمی رسائل کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ذیل میں تاریخی ترتیب سے ان تصانیف وتراجم کا ایک مختصر اور اجمالی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
۱) الکلام الحاوی فی تحقیق عبارۃ الطحاوی (مطبوعہ: ۱۳۶۴ھ/۱۹۴۴ء)۔ یہ حضرت نور اللہ مرقدہ کی پہلی تالیف ہے جو ایک خالص علمی مسئلہ پر لکھی گئی۔ امام طحاوی (المتوفی ۳۲۱ھ) کی معروف کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی ایک عبارت سے بعض اکابر علما کو یہ شبہ گزرا کہ...
― حافظ عبد الرشید
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ؒ کی طالب علمانہ مسافرت اور بے سروسامانی میں گزری زندگی کی ابتدائی گھڑیوں کو جب قرار ملا تو کئی بے قراریاں ان کی راہ تک رہی تھیں۔ دین کی ترویج و اشاعت کی بے قراری، علومِ نبوت کی وراثت باہمت و اہل ہاتھوں کو منتقل کرنے کی بے قراری، تحریفِ دین کے حریصوں کا سدِ باب کرنے کی بے چینی، جہالت و بے علمی سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور کرنے کا اضطراب و بے اطمینانی اور سب سے بڑھ کر نفاذِ اسلام کی جدوجہد میں اپنا سرگرم کردار ادا کرنے کی فکر۔ غرض کسی بھی راستے سے دین پر آنے والے حرف کو مٹانا ان کی زندگی کا واحد...
― پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
امت مسلمہ کا ہمیشہ سے اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ قرآن مجید کے بعد حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دینِ اسلام کا دوسرا بنیادی مأخذ ہے۔ اگرچہ قرآن مجید ایک جامع کتاب ہے، تاہم قرآن کی جامعیت کا مفہوم صرف یہ ہے کہ قرآن میں جہاں بعض مسائل و احکام پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، وہاں زندگی کے اکثر معاملات کے بارے میں بنیادی اصولوں کے بیان پر ہی اکتفا کیا گیا ہے اوریہ منصب جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ تعالیٰ نے تفویض کیا ہے کہ وہ ان اصولوں کی وضاحت اس ’’حکمت‘‘ کی روشنی میں فرمائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کی ہے۔ حدیث و سنت دراصل اللہ...
― ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ (۱۹۱۴ء۔۲۰۰۹ء) بلاشبہ اس دور میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے تھے۔ (۱) زہدو تقویٰ، رسوخ فی العلم، اصابتِ فکر اور طرز استدلال میں ان کی مثال ملنا مشکل تھی۔ بالخصوص علم حدیث کے فنی پہلوؤں جیسے اسماء الرجال، جرح وتعدیل، اصولِ حدیث حجیت حدیث پر جس طرح ان کی گہری نظر اور فقیہانہ بصیرت تھی، اس سے قرونِ اولیٰ کے محدثین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ تدریس حدیث میں جوملکہ اور استحضار اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، وہ بہت کم علما کے حصے میں آیا ہے۔ عام طور پر یہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مدارس دینیہ میں تدریسی فرائض سرانجام...
― ڈاکٹر انوار احمد اعجاز
امام اہل سنت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا نام نامی ملت اسلامیہ میں اپنے تحقیقی وعلمی کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آپ نے ۵۰ کے قریب کتب یاد گار چھوڑی ہیں جن کا علمی وتحقیقی معیار نہایت بلند ہے۔ ۱۹۴۴ء میں آپ کی پہلی تصنیف ’’ الکلام الحاوی ‘‘ منظر عام پر آئی اور ۱۹۹۶ء تک، جب آپ کی آخری تصنیف ’’توضیح المرام فی نزول المسیح علیہ السلام‘‘ منظر عام پر آئی، آپ پوری تن د ہی کے ساتھ دین متین کے علمی وفکری زاویوں سے مرصع تصنیفات وتالیفات پیش کرتے رہے۔ یوں تو آپ کی ہر تالیف کاعلمی شکوہ چار دانگ عالم میں شہرہ رکھتا ہے، لیکن ’’احسن الکلام‘‘،...
― ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل
قیام پاکستان کے بعد گوجرانوالہ میں پادری ومسیحی مبلغین تبشیری واسلام مخالف سرگرمیوں میں بہت فعال رہے ہیں۔ ان میں پادری عبدالقیوم،اے۔ ڈیوڈ، خورشید عالم، نذیر یوسف، عنایت اللہ، آرا ارجیان، اسلم برکت، الیگزینڈر دیور، کینتھ سپارٹن، انور صدیق، ڈاکٹر کند ن لعل ناصر اور اب میجر (ر) ٹی ناصر بہت نمایاں ہیں۔ چرچ آف سینٹ پال، ڈسکہ روڈ، گوجرانوالہ؛ چرچ آف سینٹ فرانسیس زیونیر، حافظ آبا د روڈ، گوجرانوالہ، کامیاب کتابیں، معرفت سوسائٹی، بنیادی تعلیم بالغاں گوجرانوالہ؛ نرالی کتابیں، سول لائینز گوجرانوالہ اور تھیو لا جیکل سیمینری گوجرانوالہ کے علاقہ...
― حافظ محمد سلیمان
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس سرہ کی زندگی نسل نو کی تعمیر کے لیے مثالی زندگی تھی۔ حضرت کی حیات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی دینی وفکری اعتبار سے معاشرہ کی اصلاح کے لیے جدوجہد کے مختلف گوشے واضح طور پر سامنے آ جاتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی تدریس اور مختلف موضوعات پر تحریر کی جانے والی کتب کے علاوہ سلوک وتصوف پر بھی آپ کی نظر عمیق تھی۔ حضرت ؒ نے اگرچہ اس موضوع پر کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی، تاہم آپ کی تالیفات میں مختلف مناسبتوں سے سلوک وتصوف کے اہم مباحث بیان ہوئے ہیں جن کے مطالعہ سے سلوک وتصوف کے متعلق آپ کے نظریات پر خاصی روشنی...
― پروفیسر عبد الواحد سجاد
اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے بطل جلیل پیدا فرمائے جنہوں نے نہ صرف سنت و بدعت میں امتیاز کو نمایاں کیا بلکہ سنت کے نور کو بدعت کی ظلمت پرغالب کرنے کے لیے نامساعد حالات کے باوجود سرگرم کردار ادا کیا تاکہ دین کا نورانی چہرہ شرک و بدعت کی آلائشوں سے داغ دار نہ ہونے پائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے خانوادے کا یہ اعزاز ہے کہ اس نے ہندوستان میں سنت کے دائرے سے خرافات کے اخراج میں قائدانہ کردار ادا کیا جسے دارالعلوم دیو بند کے بیٹوں اور اس کے فضلا نے آگے بڑھایا۔ شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بزرگوں...
― ڈاکٹر محفوظ احمد
امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدرؒ ان علماے دین میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی تعلیم وتعلم اور تصنیف وتالیف میں بسرکی۔ آپ نے ۹۵ سال کی عمر پائی اور تقریباً چوالیس کتب تصنیف فرمائیں۔ ان تصانیف میں آپ ایک محقق کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ تحقیق کوبطور طرز زندگی اپنانا، سچی لگن، مختلف علوم سے واقفیت، اہم اور بنیادی مصادرومراجع تک رسائی، حصول مواد کے ذرائع سے واقفیت، حقائق کی تلاش اور چھان پھٹک، مواد کی ترتیب وتنظیم اور کتاب کی بہتر تسوید اور پیش کش کو تحقیق کے بنیادی لوازم اور حق گوئی، غیر متعصبانہ وغیر جانبدارانہ تحقیق کو دنیاوی...
― نوید الحسن
مولانا سرفراز خان صفدر کا شمار صاحب تصنیف و تحقیق علما میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مختلف عنوانات پر بہت سی کتب تحریر فرمائیں اور اپنے دور کے مسائل کو پیش نظر رکھ کر اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد و نظریات کو قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فریق ثانی کے باطل نظریات کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کا رد کیا۔ یہاں ہم مولانا کے اسلوب تحریر کی نمایاں خصوصیات کا اختصاراً تذکرہ کریں گے۔ ۱۔ مولانا سرفراز خان صفدر کا انداز تحریر آسان، عام فہم، دلچسپ اور مؤثر ہے۔ آپ کی تحریر میں عالم کو علمیت کی چاشنی، ادیب کو ادبی تسکین اور مسائل کے حل کے متلاشی کوان کا...
― مولانا مومن خان عثمانی
امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو اللہ تعالیٰ نے علوم ومعارف کا بہت بڑا ذخیرہ عطا فرمایا تھا۔ قرآن وحدیث، فقہ وتفسیر، جرح وتعدیل اور دیگر علوم وفنون پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا اور ہر فن میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ قوت حافظہ، دقت فہم، سیلان ذہن اور اعلیٰ فقاہت نے آپ کو زمانہ کے تمام اہل علم سے ممتاز بنا دیا تھا۔ رسوخ فی العلم، تصلب فی الدین اور قوت استدلال آپ کا خاصہ تھا۔ دوران تدریس مشکل مقامات اور دقیق نکات ایسے دل نشیں انداز میں بیان فرماتے کہ غبی سے غبی طالب علم بھی بآسانی مستفید ہو جاتا۔ اسی طرح آپ کو اردو ادب میں بھی کمال...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ میرے والد گرامی تھے‘استاد محترم تھے‘ شیخ و مربی تھے اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ بھی موجود تھا جو ہر باپ اور اس کے بڑے بیٹے کے مابین ہوتا ہے۔ ۵ مئی کو رات ایک سوا ایک بجے کے لگ بھگ وہ کم و بیش ایک صدی اس دنیا میں گزار کر دارالقضاء کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں خود ہجری اعتبار سے ۶۳ سال کا ہو چکا ہوں۔ میرے جذبات و تاثرات کا وہی عالم ہے جو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کا اپنے والد گرامی حضرت مولانا سید محمد زکریا بنوریؒ کی وفات پر تھا۔ وہ مولانا سید یوسف بنوریؒ کی وفات...
― قاضی محمد رویس خان ایوبی
امام اہل سنت تقویٰ کے پیکر مجسم، حلیم ومتواضع، علم وعمل کے بحر بیکراں تھے۔ ان کی اہلیہ آپا سکینہ اور میری اہلیہ، سہیل کی امی سگی بہنیں تھیں۔ یوں ایک کندۂ ناتراش مقدر کے قلم سے امام اہل سنت کا ہم زلف بن گیا۔ مولانا محمد فیروز خان (مہتمم دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ) نے میرے رشتہ کی بات چلائی۔ امام اہل سنت نے ان سے فرمایا کہ میری سب سے چھوٹی سالی ہے۔ نہایت شریف النفس، عاجز، منکسر المزاج لڑکی ہے۔ اس کے والد مولوی محمد اکبر مولانا محمد چراغ کے ہم وطن تھے۔ نہایت شریف النفس بزرگ تھے۔ فوت ہو گئے ہیں۔ میری سالی میری حقیقی بیٹیوں کی طرح ہے۔ میرا خیال ہے مولانا،...
― مولانا عبد الحق خان بشیر
حضرت والد محترم نور اللہ مرقدہ کے زیر سایہ و زیر تربیت ہم سب بہن بھائیوں نے اپنے اپنے ذوق و ظرف کے مطابق جو کچھ بھی حاصل کیا‘ وہی ہمارا اصل سرمایہ حیات ہے۔ اگر ہم اس سرمایہ کی حفاظت کر سکیں تو یقیناًہمارے لیے ہدایت و نجات کی منزلیں طے کرنا آسان ہو گا۔ انہوں نے اہل السنت والجماعت کے جن متواتر واجماعی اصول و ضوابط کی روشنی میں ہمارے افکار و نظریات کو پروان چڑھایا، ہم پر ان کی حفاظت ایک شرعی اور موروثی ذمہ داری ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں ان کی حفاظت کی توفیق بخشے۔ آمین۔ ہم سب بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں...
― مولانا شیخ رشید الحق خان عابد
’’داستانِ عہد گل را از نظیری می شنو، عندلیب آشفتہ تر میگوید ایں افسانہ را‘‘۔ آنحضرت جل سلطانہ نے امت مرحومہ کی جن چیدہ چیدہ شخصیات کو متبحر فی العلم، وسیع المطالعہ، متنوع الجہات دینی خدمات کی بنا پر نابغہ روزگار اور عبقری شخصیت بنایا، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں تھا۔ انھی کمالات کے ساتھ ساتھ مستزاد بریں خصوصی عنایت خداوندی ’ثم یوضع لہ القبول فی الارض‘ سے بھی بہرہ ور فرمایا، چنانچہ جب ہم نے ہوش سنبھالی تو والد صاحبؒ کو انھی اخلاق فاضلہ کی بنا پر ہر کہ ومہ کی نظر میں صاحب احترام واحتشام پایا۔ ماحول سے متاثر...
― مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
جزیمہ عراق کے بادشاہوں میں سے تھا۔ اس کے دو ندیم و مصاحب تھے، ایک کا نام مالک اور دوسرے کا نام عقیل تھا۔ وہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے، حتیٰ کہ اس کی مصاحبت میں چالیس سال اکٹھے رہے، لیکن واقعہ ردّت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ایک لشکری حضرت ضرار بن الازورؓ کے ہاتھوں مالک بن نویرہ قتل ہو گیا تو اس کے بھائی متمم بن نویرہ یربوعی نے اپنے بھائی مالک کے بارے میں ایک مرثیہ پڑھا۔ عربی ادب میں متمم کے مراثی کو ایک خاص مقام حاصل ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اشعار و مراثی کو حضرت عمرؓ بھی پسند فرماتے تھے۔ اس نے مالک...
― مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد
والد محترم امام اہل سنت شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ۵؍ مئی ۲۰۰۹ء بروز منگل رات ایک بج کر دس منٹ پر دارالفناء سے دار البقاء کی طرف کوچ فرما گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اور آج ان کو بچھڑے ہوئے کئی روز گزرگئے ہیں۔ یوں تو جدائی کے یہ لمحات ان کے لاکھوں شاگردوں اور عقیدت مندوں پر بھاری گزرے اور گزر رہے ہیں مگر ان کے سایۂ پدری میں ایام زیست گزرانے والوں خصوصاً ہمہ دم حاضر باش رہنے والوں پر ایک ایک لمحہ بار ہمالہ سے کم نہیں۔ گھر کے وہ درودیوار جو پچاس برس تک اپنی خوش نصیبی پر شادماں تھے، جنہوں نے ایک عرصہ تک ابو حنیفہؒ...
― ام عمران شہید
۵ مئی کی رات میرے لیے بہت ہی دکھوں بھری داستان چھوڑ گئی۔ تین چار دن پہلے چھوٹی بھابھی کا فون آیا کہ اباجان کی طبیعت خراب ہے اور وہ بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ لیکن ذہن نے یہ قبول نہیں کیا کہ میرے بابا جان ہم سب کو ایسے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ میں ملاقات کے لیے جانے کے پروگرام ہی بناتی رہی، لیکن مجبوریاں آڑے آ گئیں اور اصل تو یہ ہے کہ مقدر میں ملاقات تھی ہی نہیں۔ روزانہ فون کر کے پوچھتی تو جواب ملتا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف کمزوری ہے۔ اس شام کو جہلم میں چھوٹی ہمشیرہ سے بات ہوئی توا س نے بھی یہی کہا کہ بچے گئے تھے اور اباجان بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اس سے...
― اہلیہ قاری خبیب
انسان کی زندگی میں یہ کیسا عجیب امتزاج ہے کہ کبھی اس کا دل خوشیوں سے معمور ومسرور ہوتا ہے تو کبھی غموں کی آماج گاہ اور صدمات سے چور۔ تمام عمر انسان انہی کیفیات میں بسر کردیتا ہے، کبھی خوش تو کبھی رنجیدہ۔ دیکھا جائے تو انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ماں اور باپ کی محبت اور شفقت اور سب سے بڑا غم ان شفیق ہستیوں کی جدائی ہے۔ میں اور میرے بچے ان دنوں زندگی کے سب سے بڑے غم اور عظیم صدمہ کی حالت میں ہیں کہ یکم مارچ ۲۰۰۹ء کومیرے بچوں کے والد محترم اور د اس کے وماہ بعد میرے والد مکرم اس فانی دنیا کو چھوڑ کر عازم راہ جنت ہوئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔...
― ام عمار راشدی
یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے۔ ہمارے ابا جی ڈاکٹر محمد دین سرکاری ملازم تھے۔ ابا جی کی ٹرانسفر برنالی گاؤں میں ہوئی جو ایک نہایت پس ماندہ علاقہ تھا۔ وہاں حکومت کی طرف سے ابا جی کو جو ملازم ملا تھا، وہ پینے کے لیے پانی دوسرے گاؤں سے لایا کرتا تھا۔ یہ ایک بزرگ ملازم تھا جو ہماری فیملی کی خدمت پر مامور تھا۔ پانی ایک گدھی پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ پانی لا کر وہ باباجی گدھی کو باندھ کر اپنے کوارٹر میں جا کر سو جایا کرتے تھے۔ ایک دن ہم بہن بھائی کھیل رہے تھے کہ میری نظر گدھی پر پڑی۔ میں نے اس کی رسی کھولی اور ایسے ہی اس کے اوپر بیٹھ گئی۔ گدھی نے سمجھا کہ شاید اب...
― محمد عمار خان ناصر
میں چار سال کا تھا جب ہم گکھڑ سے گوجرانوالہ منتقل ہو گئے۔ اس کے بعد گکھڑ جانے کا موقع عام طور پر عید کے دنوں میں یا کسی دوسری خاص مناسبت سے پیدا ہوتا تھا۔ ابتدائی سالوں کی زیادہ باتیں یادداشت میں محفوظ نہیں ہیں، البتہ ایک آدھ واقعہ اب بھی ذہن کی اسکرین پر جھلملاتا ہے۔ دادا محترم، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو گھر میں عام طور پر ’’ابا جی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ہم بچے بھی انھیں اسی نام سے یاد کرتے تھے۔ ابا جی ہر جمعہ کے دن گھر کی چھت پر بیٹھ کر حجام سے سر منڈواتے اور اپنے اور گھر کے بچوں کے ناخن تراشتے تھے۔ انھوں نے اپنے...
― مولانا محمد عرباض خان سواتی
سترھویں صدی کے آغاز میں کچھ خاندان ریاست سوات کو چھوڑ کر ضلع ہزارہ میں آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ضلع ہزارہ پر ترکوں کا تسلط تھا۔ ترک وہاں پر ہر لحاظ سے مضبوط تھے۔ ان خاندانوں نے آہستہ آہستہ وہاں سے ترکوں کی عملداری کو ختم کردیا اور اپنا تسلط قائم کر لیا۔ انہی خاندانوں میں ایک خاندان ہمارے جد امجد حضرت گل داد خان سواتی ؒ کا تھا جو شنکیاری سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر شاہراہ ریشم کے کنارے ایک حسین وجمیل، سرسبز وشاداب ، درختوں سے ڈھکے ، بلند وبالا پہاڑ کی چھوٹی پر ایک گاؤں ’’چیڑاں ڈھکی‘‘ میں قیام پذیر ہوا۔ ہمارے جد امجد حضرت گل داد خان سواتی...
― مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
یوں تو ہر دور میں علماے امت نے دین کی تعلیم وتعلم کے شعبے میں مثالی خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن عالم اسلام اور بالخصوص برصغیر پاک وہند میں اللہ تعالیٰ نے دار العلوم دیوبند سے جو کام لیا، اس کی شان ہی نرالی ہے۔ بانی دار العلوم حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ سے لے کر دور حاضر کے اکابر علماے دیوبند تک ایسے علما کی ایک طویل فہرست ہے جو صحیح معنی میں حضرات انبیا کے وارث کہلانے کے مستحق ہیں۔ دار العلوم دیوبند کی کہکشاں کے انھی ستاروں میں درخشاں ستارہ امام اہل سنت، محدث العصر حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدر کی ذات گرامی بھی ہے جن کی شخصیت عالم اسلام اور...
― حافظ ممتاز الحسن خدامی
شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی ذات علم وحکمت کا ایسا آفتاب تھی جس سے روشنی پانے والا ہر خوش نصیب دعوت وعزیمت کے افق پر ماہ تاباں بن کر چمکا۔ جسے آپ کے جام معرفت کا ایک گھونٹ بھی نصیب ہو گیا، اس کی باقی عمر قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں دیتے، زندانوں کے سناٹوں میں شور سلاسل برپا کرتے اور گلی گلی، کوچے کوچے میں حق کی آواز لگاتے گزری۔ انہی خوش نصیبوں میں سے دو خوش نصیب میرے دادا جان مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ اور میرے نانا جان مولانا قاضی مظہر حسینؒ تھے۔ دونوں حضرات علم ومعرفت کے اس دھواں دھار بادل سے سیراب ہوئے او ر خوب...
― حافظ سرفراز حسن خان حمزہ
حضرت دادا جان رحمہ اللہ ایک مایہ ناز مدرس اور قابل فخر معلم تھے۔ ہزاروں تشنگانِ علم نے دور دور سے آکر آپ سے کسبِ فیض کیا۔ بالخصوص آپ کا شعبان رمضان کی سالانہ چھٹیوں میں منعقد ہونے والا چالیس روزہ دورۂ تفسیر تو ایسا مشہور ومقبول ہوا کہ اس کی مثال دیکھنے میں نہیںآتی۔ دارالعلوم دیوبند (ہندوستان)، بنگلہ دیش، ایران، سعودی عرب، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ، افغانستان اور برما سمیت دنیا بھر سے طلبہ جوق در جوق آپ کے دورۂ تفسیر میں شریک ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ آپ کے سینکڑوں شاگرد دنیا بھرمیں حدیث پاک کی خدمت میں مصروف ومشغول ہیں۔ کتب احادیث...
― حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ
دنیا کے شب روزمیں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ انسان کے پاس کسی کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ جانے والے کی باتیں، لب ولہجہ اور انداز شفقت ومحبت ہمیشہ کے لیے دل میں نقش بن کر رہ جاتی ہیں۔ کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان بھول جانے کی کوشش کرتاہے اور کچھ یادیں ایسی خوبصورت اور حسین وپرکشش کہ انسان انھیں ہمیشہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ ایسی ہی کچھ یادیں ہمارے دادا جی حضرت مولانا سرفرازخان صفدر ؒ کی ہیں جو اس دنیاے فانی کی فضاؤں کو توحید وسنت کی خوشبو سے معطر کر کے اپنے رب کریم کے دربار میں سرخرو ہو چکے ہیں۔ ہم سب گھروالے خوش نصیب...
― حافظ شمس الدین خان طلحہ
امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ وفات سے دوماہ پہلے ۲۴؍فروری ۲۰۰۹ ء بروز منگل آخری بار ہمارے گھر (متصل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) تشریف لائے اور پانچ دن ہمارے ہاں قیام کیا۔ ان ایام میں وقتاً فوقتاً مجھے ان سے سوال وجواب کرنے اور بعض اہم باتیں دریافت کرنے کا موقع ملا ۔ ان سوالات وجوابات کو ایک انٹرویو کی شکل میں پیش کرنا مناسب دکھائی دیتا ہے۔ طلحہ: آپ نے کتنے حج و عمرے کیے ہیں؟
حضرتؒ : پانچ حج اور دس عمرے۔ طلحہ: آپ نے کون کون سے ملک کا سفر کیا ہے؟ حضرتؒ : سعودی عرب، شام، برطانیہ، جنو بی افریقہ، بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش۔...
― ام عفان خان
دنیا میں آنے والا ہر انسان اللہ جل شانہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے اور ہر انسان، بالخصوص اہل ایمان کا حق ہے کہ ان نعمتوں کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائیں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں اور اس کے لیے خصوصی محنت کریں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھوں نے دنیا میں اپنی آمد کے مقصد: ’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘ کو پہچانا۔ انھی ہستیوں میں سے ایک ہستی ہمارے نانا جان حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی تھی جنھیں آج دنیا امام اہل سنت کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ یوں تو ان کا ہر عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ تھا اور وہ ان ہستیوں میں سے...
― ام ریان ظہیر
محترم ناناجان کے بارے میں جملہ اقارب خاصی تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ میں صرف اپنے حوالے سے بعض یادداشتیں تحریر کرنا چاہوں گی۔ جب میری نسبت برطانیہ میں طے ہوئی تو میں یہ سوچ کر بہت آزردہ تھی کہ ملک چھوڑ کر اپنوں سے دور جانا پڑے گا۔ ناناجان کو معلوم ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ تم تو بہت خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تمھیں اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے اور تم کفار کے ملک میں جا کر دین کی خدمت کرو گی۔ جب برطانیہ روانگی کا وقت قریب آیا تو میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئی۔ نانا جان فرمانے لگے کہ وہاں مدرسہ میں جو بھی اسباق پڑھاؤ گی، خلوص دل سے پڑھانا اور دنیا کا لالچ...
― ام حذیفہ خان سواتی
’’ہمارے بعد اجالا نہ ہوگا محفل میں، بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے‘‘۔ میری پیدایش ۱۹۷۳ء میں گکھڑ میں دادا جی کے گھر میں ہوئی تھی۔ ہم انہیں ابا جی کہتے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تک انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے ابو اس وقت جمعیت علماے اسلام میں سرگرم تھے اور سیاسی دوروں میں مصروفیت کی وجہ سے ہفتہ دس دن بعد ہی گھر آتے تھے، اس لیے گھر میں ہمارا زیادہ تر معاملہ دادا جی ہی کے ساتھ ہوتا تھا۔ پھر ہم جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ منتقل ہوگئے تو اس کے بعد کبھی کبھار ملاقات ہوتی۔ ہم گکھڑ جاتے رہتے۔ وہ بھی ہمارے گھر کئی بار آئے۔ میں ان کی...
― ام عدی خان سواتی
۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء ہمارے خاندان پر بہت بھاری گزرا ہے ،اور ہمارا خاندا ن صحیح معنوں میں یتیم ہو گیا ہے۔ ۶؍اپریل ۲۰۰۸ء بروز اتوار میرے سُسر مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی کا انتقال ہوا، یکم مارچ ۲۰۰۹ء بروز اتوار والد محترم حضرت مولانا قاری خبیب احمد عمر جہلمی دنیا سے رخصت ہو گئے، اور ۵؍ مئی ۲۰۰۹ء بروز منگل محترم نانا جان امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ آج محترم نانا جان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ذہن میں بہت سی باتیں ابھر آئیں جو اب ہمارے لیے صرف یادیں بن کر رہ گئی...
― بنت قاری خبیب احمد عمر
یوں تو دنیا فانی ہے۔ اس میں رہنے والا ہر آدمی چاہے وہ غریب ہو یا امیر، نیک ہو یا بد، طویل العمر ہو یا جوان، ہر کسی نے مقررہ وقت پر اپنے خالق کے پاس چلے جانا ہے۔ دوام وبقا صرف اس ذات کریمی کے ہی لائق ہے جو سب کو زندگی بخشتا ہے، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود توا س فانی دنیا سے چلے جاتے ہیں مگر ایسی باقیات صالحات چھوڑ جاتے ہیں جو انھیں ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں اوران کو ان کی دینی خدمات کی وجہ سے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ ۵؍مئی ۲۰۰۹ ء کو ہمار ے مشفق ومحترم نانا ابا امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا وصال بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔ بچپن...
― بنت حافظ محمد شفیق (۱)
مشہور ادیب ٹالسٹائی نے کیا خوب کہا ہے کہ میں انتہائی کوشش اور طویل جستجو کے باوجود زندگی کے معمے کا عشر عشیر بھی نہیں جان پایا۔ حقیقت کی جستجو فضول ہے۔ آخر کار مرجانا ہے۔ انسان کسی مسئلے پر کتنا ہی غور کیوں نہ کرے، وہ درحقیقت موت پر غور کر رہا ہوتا ہے۔ جہاں موت ہے، وہاں حقیقت کی کیا حیثیت ۔ یہ تو ایک غیر مسلم نے موت کے بارے میں کہا ہے، جبکہ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا ایمان ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت۔ موت ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی بھی بشر زندگی کے کتنے ہی سا ل گزار لے، آخر موت اسے ہم سے چھین لیتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی یہ کسی کو کتنا پیار اہے اور دنیا...
― اخت داؤد نوید
’’واے گل چین اجل کیا خوب تھی تیری پسند، پھول وہ توڑا کہ ویراں کر دیا سارا چمن‘‘۔ آج ہمیں جس ہستی کے ذکر نے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے، وہ ہماری محبوب، سب سے عظیم اور پیاری ہستی ہمارے پیارے نانا جان ؒ کی ہے اور جنہیں آج رحمۃ اللہ علیہ لکھتے وقت ہاتھوں میں کپکپاہٹ جاری ہے اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور جن کی وفات کا یقین آج تک نہیں ہوا۔ ’’زمیں کے تاروں سے ایک تارا فلک کے تاروں کو جا چکا ہے، مگر تری مرگِ ناگہانی کا مجھ کو اب تک یقیں نہیں ہے‘‘۔ نانا جان ؒ حقیقتاً آسمان کا ایک تارا تھے جو ۹۵ برس تک اپنی روشنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس دنیا میں بکھیرتے...
― بنت حافظ محمد شفیق (۲)
میں نانا جان کو ابو جی کہا کرتی تھی، جبکہ باقی سب گھر والے ابا جی کہتے تھے۔ ہم سب گھر والوں کو اپنے اپنے انداز سے ابو جی کی خدمت کا موقع ملا جو اب ہماری زندگیوں کا کل اثاثہ ہے، البتہ میں خاصا عرصہ مسلسل ابو جی کی خدمت میں رہی۔ ہم سب امتحان سے فراغت کے بعد چھٹیاں گزارنے ابو جی کے پاس گئے تو تعطیلات کے اختتام پر انھوں نے مجھے خدمت کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ امی جان نے بھی اس بات کو باعث سعادت سمجھا۔ میں چھوٹی تھی اور اتنی سمجھ نہیں تھی کہ خدمت کیسے کروں گی، لیکن ابو جی کی شفقتوں، محبتوں اور عنایتوں نے میرے لیے خدمت کے کام کو بہت سہل کر دیا۔ ابو جی کا...
― مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۔بعض شخصیات کو اللہ تبارک وتعالیٰ ایسی محبوبیت، قبول عام اور ہر دل عزیزی عطا فرماتے ہیں کہ ان کے تصور ہی سے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ ان سے ملاقات چاہے کم ہو، لیکن ان کا وجود ہی بذات خود تسلی اور ڈھارس کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ہمارے مخدوم بزرگ، استاذ الکل حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب قدس سرہ کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی جس سے محروم ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ عرصہ دراز سے صاحب فراش تھے اور عملی زندگی سے تقریباً کنارہ کش۔ ان کی زیارت وصحبت کے مواقع بھی ہم جیسے دور افتادگان کے لیے بہت کم رہ گئے...
― مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی
حضرت مولانا زاہد الراشدی دام مجدہ نے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے متعلق کچھ لکھنے کی فرمایش کی اور کہا کہ حضرت سے آپ کا تعلق ہم سے بھی پہلے کا ہے، اس لیے کچھ نہ کچھ ضرور تحریر کریں۔ میں نے پچاس سال سے زائد طویل عرصہ پر نظر ڈالی اور جیسے جیسے کوئی چیز یاد آتی گئی، لکھتا گیا۔ عند ذکر الابرار تنزل الرحمۃ (نیک بندوں کے تذکرہ سے رحمت کا نزول ہوتا ہے)۔ نزول رحمت کا یہ فیضان بھی دیکھا ہے کہ جب ارادہ کیا، حیران تھا کہ کیا لکھوں، لیکن فضل الٰہی نے دستگیری کی اور یہ چند حروف معرض تحریر میں آ گئے۔ وباللہ التوفیق۔ علمی مقام اور علما کا آپ سے استفادہ۔ تفسیر،...
― مولانا محمد عیسٰی منصوری
میرے شیخ طریقت مرشد کامل حضرت شاہ نفیس الرقمؒ کی وفات کے صدمہ کا زخم ابھی تازہ تھا کہ امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات کی خبر نے دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ حضرت تقریباً ۸، ۹ سال سے صاحب فراش تھے۔ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم اور دیگر احباب کے ذریعے وقتاً فوقتاً حضرت کی صحت کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا تھا۔ ایک ایسے دورمیں جب علم، دین اور نسبتیں کاروبار اور نمود ونمایش بنتی جا رہی ہیں، حضرت امام اہل سنت جیسی ہستی کے وجود کا خیال واحساس ہی دل کی تقویت وحوصلہ کا باعث تھا۔ اس دور میں نگاہیں سلف...
― مولانا سعید احمد جلالپوری
دنیا میں جو بھی آیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن جانا ہے اور ضابطہ الٰہی : ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ (آلِ عمران:۱۸۵) (ہر جی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے) کے مصداق موت کا گھونٹ ہر ایک نے پینا ہے، اس لیے کہ: ’’کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘(رحمن:۲۷) (ہر ایک کو فنا ہے، بقا تو صرف تیرے رب کی ذات کو ہے جو بزرگی اور عظمت والی ہے) کے تحت دنیا سے ہر نیک و بد، مسلم و کافر، محبوب و مبغوض، عالم و جاہل کو ایک دن ضرور کوچ کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کی اس گھاٹی سے کون کامیاب ہوکر پار ہوا اور کون ناکام ہوکر؟ کیونکہ دنیا کی راحت، عافیت، عزت اور وجاہت...
― مولانا مفتی محمد زاہد
حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ اپنے وقت کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جن میں پرانے زمانے کے علما اور بزرگانِ دین کی جھلک واضح طور پردیکھی جاسکتی تھی۔ ایسی کثیر الجہۃ شخصیات بہت کم وجود میں آتی ہیں۔ انہوں نے علماے سلف کی طرح حصولِ علم کے لیے نہ معلوم کہاں کہاں کی خاک چھاننے کے بعد آخر میں دارالعلوم دیوبند جیسے منبعِ صافی سے علمی پیاس بجھائی، بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں علم کی تشنگی بھڑکائی۔ درس وتدریس حضرت کی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے۔ حضرت ؒ کے پاس کچھ عرصہ بیٹھنے ہی سے آپ کے راسخ فی التدریس ہونے کا اندازہ ہو جاتا اور پتا چل جاتا...
― مولانا سید عطاء المہیمن بخاری
دیوبند ایک تحریک کا نام ہے اور تحریک اس وقت تک قائم رہے گی جب تک حق والے موجود ہیں ان شاء اللہ۔ کسی کے اٹھ جانے سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں اورنہ دم توڑتی ہیں۔ ہاں نشیب وفراز ضرور آتے ہیں ۔ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے صدمات ہی عطا فرمائے ہیں۔ یہ صدموں والی امت ہے۔سب سے پہلاصدمہ اس امت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اِس دنیا سے اُس دنیا میں منتقل ہونے سے ملا۔ اگر یہ حق کی تحریک اور یہ دین ختم ہونا ہوتا تو اُسی دن ختم ہو جاتا۔ صدمہ ضرور ہوا لیکن حق کا پیغام ختم نہیں ہوا۔اس پیغام کو سنبھالنے والے انبیاء علیہم الصلوۃ والتسلیمات...
― مولانا محمد جمال فیض آبادی
۷ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ کو پاکستان کے مشہور عالم دین، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد رشید حضرت مولانا ابو زاہد محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ شب وروز کے ہنگاموں میں نہ جانے کتنوں کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ وہ ہم سے رخصت ہو گئے، لیکن ایسے بہت کم ہوتے ہیں جن کی وفات کی خبر دلوں پر بجلی سی گرا دے، جن کا آفتاب زندگی مشرق میں غروب ہو تو مغرب والے اندھیرا محسوس کریں اور جن کی یاد ان لوگوں کے دل میں بھی ہوک پیدا کر دے جو ان سے رشتہ داری کا رسمی رابطہ بھی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ...
― مولانا محمد اسلم شیخوپوری
استاد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے تقریباً نصف صدی تک مسند درس کو رونق بخشی۔ درس نظامی کی کم و بیش ساری کتابیں خاص طور پر ترجمہ و تفسیر قرآن ‘ بخاری شریف اور ترمذی شریف انہیں بار بار پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر بھی دل میں حسرت ہی رہی کہ بعض کتابیں پڑھانے کا موقع نہ مل سکا۔ گزشتہ سال زیارت اور عبادت کے لیے حاضری ہوئی تو میں نے سوال کیا: حضرت کوئی ایسی حسرت جس کے ناتمام رہ جانے کا احساس ہوتا ہو؟ فرمایا: ’’بہت ساری ہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’ان میں سے کسی ایک کی نشاندی فرما دیجیے‘‘۔ فرمایا: ’’درس نظامی کی چھوٹی کتابیں نہیں پڑھا...
― پروفیسر غلام رسول عدیم
’’لماذا تبکی الاعین یا حبیبی، لماذا صارت افئدۃ ھواء؟‘‘ جس چیز کا آغاز ہے، اس کا انجام بھی ہے۔ تین چیزوں کے بارے میں کسی دور میں کسی بھی جگہ کبھی دورائیں نہیں رہیں: ایک یہ کہ موت ایک اٹل، حتمی اور یقینی امر ہے۔ نہ اس سے راہ فرار، نہ گریز کی کوئی سبیل۔ حتی یاتیک الیقین کے جاندار اور شاندار الفاظ اسی حقیقت کے یقینی ہونے پر دلالت کررہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کا وقت متعین ہونے کے باوجود اسے پردۂ خفا میں رکھا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کون سی ہے جب موت کا فرشتہ روح قبض کرے گا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ایک لمحے کی نہ تقدیم ہوگی، نہ تاخیر۔ افراد کے لیے...
― پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی
مورخہ ۵ مئی ۲۰۰۹ کو تقریباً ساڑھے گیارہ بجے حسب معمول جب میں دعوۃ اکیڈمی پہنچا تو کلاس میں داخل ہونے سے پہلے کلاس روم سے باہر طلبہ اور رفقاے دعوہ اکیڈمی کاایک ہجوم نظر آیا۔ یہ یہ لوگ آپس میں گفتگو کر ر ہے تھے اور پریشان نظر آرہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکے اوریہ افسوس ناک خبر سنائی کہ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر انتقال کر گئے۔ یہ اندوہناک خبر سنتے ہی طبیعت بوجھل ہو گئی اور مولانا کی صحبت میں بیتے ہوئے وہ سارے لمحات مستحضر ہو گئے جو اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ مولانا سرفراز خا ن صفدر دارالعلوم دیوبند کے اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے...
― حافظ نثار احمد الحسینی
کچھ شخصیات ان منٹ نشانات اوراپنے کردارکاایساتأثرچھوڑجاتی ہیں کہ ان کی یادکی خوشبوپھیلتی رہتی ہے۔ حضرت امامِ اہل سنت رحمہ اللہ کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صفات ودیعت کررکھّی تھیں کہ وہ اپنے کارناموں سے ہمیشہ یادرہیں گے اورامت کی ہدایت کے لیے جوشمعیں انہوں نے جلارکھی تھیں وہ ہمیشہ طالبان حق کی راہنمارہیں گی۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کی شخصیت اپنے وقت میں نیکی کے ہرنکتہ کامَرجع تھی۔ ہردینی محاذپروہ وہ سینہ سپر رہے۔ وہ راہنمائے راہنمایاں بھی تھے اورخادمِ امت بھی، وہ طلبہ دین کے استاذجی تھے اوراپنے حلقہ تلامذہ کے شیخ، سالکانِ طریقت...
― پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا سے علم یوں اٹھایا جائے گا کہ اہل علم دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے۔‘‘ حضرت مولانا سرفراز خاں صفدرؒ مرحوم کی وفات اسی حدیث کی عملی شکل دکھائی دیتی ہے۔ حضرت مرحوم میں علم اور عمل دونوں کا حسین امتزاج موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر تاثیر رکھی ہوئی تھی کہ سننے والے کے دل میں اتر جاتی۔ آپ کے اندازِ تقریر میں سادگی اور برجستگی تھی۔ گفتگو مسجع مقفع خطیبانہ لفاظی اور غیرضروری جوش خطابت سے بالکل مبرّا ہوتی لیکن دل میں اتر جاتی۔ جب میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ...
― مولانا ظفر احمد قاسم
’’وہ کیا گئے کہ رونق بزم چمن گئی، رنگ بہار دید کے قابل نہیں رہا‘‘۔ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نوراللہ مرقدہ کی کمالات سے لبریز زندگی پر قلم اٹھانے کا اصل حق تو ان کے اصحاب علم و فضل معاصرین کا ہے یا پھر جلیل القدر تلامذہ کرام کا۔ ’’انما یعرف ذا الفضل من الناس ذووہ‘‘ کا قاعدہ مسلم ہے، تاہم کچھ مقبولان بارگاہ خداوندی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہر شخص کی محبت و مودت کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے یہ عاجز بھی یاد یاراں کی اس غم زدہ محفل میں شرکت کو اپنے لیے تحصیل سعادت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ’’ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے‘‘۔ کے نظارہ سے لطف...
― حضرت مولانا عبد القیوم حقانی
۵ مئی ۲۰۰۹ء پیر اور منگل کی درمیانی شب رات کے تین بجے گوجرانوالہ سے بعض احباب نے موبائل فون پر اطلاع دی کہ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر انتقال فرماگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔صبح جامعہ ابوہریرہ کے ضروری اُمور نمٹانے کے بعدحضرت امام اہل سنّت کے جنازے میں شرکت کے لیے روانہ ہوا۔ گکھڑ کے ڈی سی ہائی سکول میں آپ کا جسدِ خاکی لایا جاچکا تھا۔ گراؤنڈ کو اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامنی کی شکایت تھی۔ ایک لاکھ سے زائد افراد پہنچ چکے تھے۔ باہر جی ٹی روڈ پر بھی عوام کا بے پناہ ہجوم تھا۔ وزیرآباد کے بعض بوڑھے ’’نوجوانوں‘‘ پروفیسر حافظ منیر...
― مولانا محمد احمد لدھیانوی
اس دار فانی سے رحلت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ روز اول سے جاری ہے اور ایک ایسا وقت آئے گا کہ کائنات میں کوئی بھی باقی نہ رہے گا۔اس کے بعد جزاو سزا کا دن قائم ہوگا اور بارگاہ ایزدی میں تمام بنی نوع انسان اپنے کیے کے حساب کتاب کے لیے حاضر ہوں گے۔ اس دن کے قریب آ لگنے کی جو علامات خاتم المعصومین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں، ان میں سے ایک علم کا اس دنیا سے اٹھ جانا ہے اور یہ علامت اہل علم کے اس دار فانی سے رحلت کی صورت میں پوری ہوگی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و العاص رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی...
― ڈاکٹر حافظ محمد شریف
بندہ گورنمنٹ پرائمری سکول منڈیالہ تیگہ میں تیسری کلاس کا طالب علم تھا۔ موسم گرماکی چھٹیاں گزارنے بلال پور سے اپنے ماموں کے ہاں گکھڑ منڈی کے قریب بھگت گڑھ آگیا تھا جہاں حضرت کی مسجد میں حفظ کلاس کامدرسہ تجویدالقرآن درجہ حفظ کے نام سے شروع تھا جس کے ناظم ماسٹر اللہ دین تھے۔ بلال پور گاؤں میں ماسٹر صاحب کا اپنی بیٹی کے ہاں آنا جانا تھا۔ آپ انتہائی نیک اور دین دار انسان تھے۔ وہاں سے کچھ بچوں کو مدرسہ داخلہ لینے سے متعلق تیار کیا جن میں بندہ کانام بھی شامل تھا۔ چنانچہ بھگت گڑھ سے سیدھا گکھڑ چلا آیا اورحضرت کے زیر سایہ مدرسہ میں داخل ہو گیا۔ ۱۹۶۱...
― مولانا ملک عبد الواحد
بندہ مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب مدظلہ کے حکم پر اپنی یادداشت میں محفوظ دو چار واقعات عرض کرتا ہے جن سے حضرت اقدس ؒ کے اعلیٰ اخلاق کی ایک جھلک سامنے آتی ہے۔ اس حقیر کو سب سے پہلے حضرت امام اہل سنت کی زیارت کا شرف ۱۹۶۰ء میں حاصل ہوا جب میری عمر تقریباً گیارہ برس تھی اور میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں شعبہ حفظ کا طالب علم تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے موجودہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب مد ظلہ اس وقت ہمارے استاد محترم حضرت قاری محمد یٰسینؒ صاحب روہتکی کے پاس قرآن پاک کی گردان کر رہے تھے۔ ۱۹۶۱ء میں جب حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری...
― مولانا داؤد احمد میواتی
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا ہے کہ ہماری نشست وبرخاست کیسے لوگوں کے ساتھ ہونی چاہیے؟ آپ نے فرمایا: من ذکرکم باللہ رؤیتہ وزاد فی علمکم منطقہ وذکرکم بالآخرۃ عملہ (رواہ البزار) ’’وہ شخص جس کو دیکھ کر تمھیں خدایاد آئے اور جس کی گفتگو سے تمہارا علم بڑھے اور جس کے عمل کودیکھ کر آخرت کی یاد تازہ ہو۔‘‘ ہمارے حضرت شیخؒ اس حدیث کا کامل مصداق تھے۔ انہیں جب بھی دیکھا، خدا یاد آیا اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر علم میں اضافہ ہوا۔ آپ کی مجلس میں اکثر وبیشتر کسی علمی موضوع پر بات چیت ہوتی تھی...
― مولانا گلزار احمد آزاد
مولانا محمد عمار خان ناصر نے ’’الشریعہ‘‘ کی اشاعت خاص کے لیے کچھ تحریر کرنے کا اشارہ فرمایا۔ ان کی حوصلہ افزائی سے سہارا ملا اور ہمت کر کے قلم اٹھا لیا، ورنہ اس حساس وادی کے نشیب وفراز سے سچی بات ہے کہ میں آشنا نہیں ہوں۔ مولانا عمار ناصر حضرت امام اہل سنت ؒ کے پوتے ہیں۔ ان کی زبان سے یہ لفظ سن کر کہ ’’حضرت امام اہل سنت ؒ اور مفسر قرآن مولانا عبدالحمیدخان سواتیؒ ، دونوں بھائیوں کے بارے میں جو جو واقعات آپ کے ذہن میں محفوظ ہیں، وہ لکھ دیں‘‘، ایک عجیب خوشی اور مسرت کا احساس ہوا کہ جیسے دونوں بھائیوں میں ز ندگی بھر باہمی تعلق اور محبت وپیار...
― مولانا محمد نواز بلوچ
میں نے ۱۹۷۹ء میں مدرسہ نصرت العلوم میں درجہ موقوف علیہ میں داخلہ لیا۔ داخلے کے کچھ دنوں بعد میں نے امام اہل سنت سے بیعت کا تعلق قائم کر لیا اور پڑھائی کے اوقات کے علاوہ توجہ حاصل کرنے کے لیے میں گکھڑ جا کر بھی ان سے ملتا رہتا تھا۔ حضرت صوفی صاحبؒ جلالی مزاج کے بزرگ تھے۔ ان کو ملتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ ایک دفعہ میں مٹھائی کا ایک ڈبہ بطورِ ہدیہ لے کر گیا تو حضرت نے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مجھے انقباض ہو جاتا ہے۔ کافی منت اور اصرار کے بعد حضرت نے وہ ہدیہ قبول کیا۔ لیکن حضرت شیخ ؒ جمالی مزاج کے مالک تھے۔ ملتے ہی آدمی کو ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی۔...
― حاجی لقمان اللہ میر
مخدوم العلماء، امام اہل سنت، قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ ان یگانہ روزگار ہستیوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام اوصاف کے ساتھ متصف کیا ہوتا ہے اور جو ظاہر وباطن کی خوبیوں سے مالامال ہوتے ہیں۔ حضرت بے مثال خطیب بھی تھے اور بے نظیر محدث بھی، بہترین ادیب اور مصنف بھی تھے اور تقویٰ وطہارت کے بادشاہ بھی، اعلیٰ پایے کے مدرس بھی تھے اور رہبر کامل بھی۔ انھوں نے ایک صدی کے لگ بھگ ایسی زندگی گزاری کہ اس کے کسی پہلو پر بدنمائی کا دھبہ نہیں ہے۔ تقریر فرماتے تو یوں لگتا تھا کہ علم کا سمندر موج زن ہے۔ تحقیق کے میدان میں ان...
― ڈاکٹر فضل الرحمٰن
حضرت اقدس کی ذات سے مجھے سب سے پہلے مجھے بھائی عبدالحمید صاحب نے متعارف کروایا۔ میں آٹھویں جماعت میں تھا جب بھائی عبدالحمید صاحب مجھے حضرت اقدس کی زیارت کے لیے ایک مسجد میں لے گئے جہاں حضرت کے لیے تشریف لائے تھے۔ حضرت منبریر تشریف فرماتھے۔خو بصورت، فرشتہ نما اور روحانیت سے مزین چہرہ، کالے فریم والی عینک، کالا عمامہ سر بکف کیے، سفید کپڑوں میں ملبوس ٹھیٹھ پنجابی میں درس دے رہے تھے۔ یہ میری زندگی میں حضرت کی پہلی زیارت تھی۔ احقر کے گھر کے ساتھ جامع مسجد گلی لانگریاں والی تھی جہاں فجر کے بعد ممتاز عالم دین مولانا مفتی خلیل احمد صاحب درس قرآن...
― مفتی خالد محمود
مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ کا امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر سے تعلق تو شروع ہی سے ہوگا کہ حضرت ہمارے ملک ہی کی نہیں، بلکہ عالم اسلام کی عظیم شخصیت تھے اور تبلیغ دین، اشاعت علوم دینیہ، باطل فتنوں کے مقابلہ، علماے حق علماے دیوبند کے دفاع، مسلک احناف کی تائید اور امام ابو حنیفہ کی طرف سے معاندین کے رد میں آپ کی خدمات بہت نمایاں اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ حضرت کی انہی خدمات کے اعتراف کے لیے مفتی احمد الرحمنؒ کی خواہش تھی کہ ایک علمی سیمینار منعقد کیا جائے جس میں حضرت کی خدمات کا اعتراف اور تصانیف کا تعارف کراتے ہوئے حضرت کو خراج تحسین...
― مولانا محمد ایوب صفدر
میرے جیسے ناکارہ کے بس کی بات نہیں کہ شیخین کریمین کی شخصیات پر قلم اٹھاؤں، لیکن استاذِ محترم مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کے ارشاد پر چند الفاظ تحریر کرنے کی ہمت کر رہا ہوں اور یہ خواہش بھی ہے کہ حضرت شیخ ؒ کے مداحوں میں میرا نام بھی آجائے، چاہے سوت کی اٹی اور یوسف ؑ کی مثال ہی کیوں نہ ہو۔ شیخ بحیثیت طالب علم۔ آپ کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتاہے کہ آپ کے استاد محترم شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے آپ کو صفدر کا لقب مرحمت فرمایا۔ یہ استاد کے اپنے شاگرد رشید پر کمال اعتماد کا اظہار ہے۔ پھر جب حضرت مدنی ؒ گرفتار...
― مولانا عبد القیوم طاہر
میرے والد (اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے‘ کبھی زندگی میں ان کی کسی نماز کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی تھی) صابن سازی کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ بڑے زاہد ومتقی اور حضرت امام اہل سنتؒ و حضرت صوفی صاحبؒ کے قدموں میں بیٹھنے والے تھے۔ اسی صحبت صالح کا اثر تھا کہ ہم سبھی بہن بھائیوں کو انہوں نے دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ ۱۹۸۴ء میں راقم الحروف جامعہ نصرۃ العلوم سے سند و دستار لے کر فارغ ہوا۔ ختم بخاری کے موقع پر ہمیں بخاری شریف کی آخری حدیث شیخ العقول والمنقول حضرت مولانا محمد موسیٰ خان ؒ شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نے پڑھائی۔...
― مولانا مشتاق احمد
احقر نے ۱۹۸۶ء یا ۱۹۸۷ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورہ تفسیر کے لیے داخلہ لیا۔ اس وقت حضرت مولانا عبدالقدوس قارن ناظم مدرسہ تھے۔ امام مسجد بھی وہی تھے۔ سب سے پہلے دارالاقامہ کی مشرقی جانب دوسری منزل پر ایک کمرہ کلاس روم کے طور پر تجویز ہوا۔ تعداد زیا دہ ہونے پر مسجد کے برآمد ہ میں کلاس ہونے لگی۔ طلبہ کی بکثرت آمدکی وجہ سے کلاس مسجد کی دوسری منزل پر منتقل ہوگئی اور دورہ تفسیر کے اختتام تک وہیں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ ایک دن دارالاقامہ کی دوسری منزل پر واقع درسگاہ میں جاری تھا کہ کوئی خاتون بچے کو اٹھائے ہوئے وہاں پہنچ گئی کہ بچہ کو دم کرانا ہے۔...
― صوفی محمد عالم
حضرت شیخ الحدیثؒ کی ہستی ایک مایہ ناز ہستی تھی۔ ان کے علمی کمالات سے دنیا خوب واقف ہے۔ میرے جیسا بے علم شخص ان کے علمی مقام کو کیا بیان کر سکتا ہے، لیکن اللہ رب العزت کا مجھ پر احسان عظیم ہے کہ دونوں بزرگ بھائیوں کے سایہ شفقت میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے دین کی سمجھ عطا فرمائی۔ ایک دن میں اورمیرا دوست حاجی محمد شریف مسجد نور سے حضرت صوفی صاحب ؒ کا درس سن کر باہر نکل رہے تھے اور آپس میں حضرات شیخین ؒ کے علمی کمالات کی بات ہو رہی تھی تو حاجی شریف صاحب کہنے لگے کہ یہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ میں نے جواباً کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ثم لتسئلن یومئذ...
― مولانا شمس الحق مشتاق
ہزارہ کی مردم خیز زمین نے ہر دور میں ایسے نامور اہل علم کو جنم دیا ہے جنہوں نے علمِ دین کی نشرو اشاعت، درس وتدریس اور تصنیف و تالیف کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ اُن شخصیات میں سے امام اہل سنت محدّث عصر استاذ العلماء شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ مولانا سرفراز خان صفدرؔ رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک تھے جنہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعے علم دین کی خدمت کرکے ۹۵ سال کی عمر میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپر د کر دی۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ ’’چنا ہے پھول عزرائیل نے ایسا گلستاں سے، کہ جس سے ہو گیا ساراچمن ہی دشت و...
― مولانا سید کفایت بخاری
امام اہل سنّت حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدررحمہ اﷲتعالیٰ سے میراابتدائی تعارف حضرت الاستاذ مولانا سید لعل شاہ بخاری رحمہ اﷲالباری کے واسطہ سے ہوا جوپہلے محبت اور بعد میں عقیدت کی شکل اختیار کر گیا۔ حضرت الاستاذ مولانا سید لعل شاہ بخاری رحمہ اﷲ الباری ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء میں اٹک کے نواحی قصبہ حاجی شاہ میں پیدا ہوئے۔ آپ شیخ المشائخ حضرت مخدوم جہانیاں رحمہ اﷲکی اولادمیں سے تھے اورآپ کے آبا واجدادمیں کئی پشتوں سے علم وفضل اور تدریس وتصنیف کی پختہ روایت چلی آرہی تھی۔ آپ رحمہ اللہ۱۳۶۰ھ/۱۹۴۱ء میں دورہ حدیث کے لیے دارالعلوم دیوبندتشریف لے گئے جہاں...
― قاری محمد اظہر عثمان
راقم کے جدِّ امجد حکیم حافظ احمد حسن مرحوم علیہ الرحمۃ المعروف حافظ جی عرق شربت والے گکھڑ منڈی کے محلہ نئی آبادی میں بریلوی مکتبِ فکر کی جامع مسجد حنفیہ غوثیہ المعروف دارے والی مسجد کے امام و مدرس تھے۔ راقم کے چچا جان عبداللطیف صاحب جو آج کل لاہور میں مقیم ہیں، راوی ہیں کہ میں پورے محلہ سے روٹیاں اور سالن اکٹھا کیا کرتا تھاجو اس دور میں معیوب نہ سمجھا جاتا تھا ۔ گیارھویں کا ختم اور اہلِ محلہ کی فوتگی وغیر ہ پر تو مزے ہوا کرتے تھے ۔ اسی دوران راقم کے والدِ ماجدحضرت مولوی بشیر احمد لدھیانوی علیہ الرحمۃ کو اللہ تعالیٰ نے امامِ اہل سنت شیخ الحدیث...
― مولانا الطاف الرحمٰن
اللہ تعالیٰ اپنے بعض خاص بندوں سے تھوڑے وقت میں دین کا بہت کام لے لیتے ہیں۔ ہمار ے حضرت بھی ان خاص بندوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت سے حق کی اشاعت کا بے حد کام لیا۔ حق سے ہر باطل کو جدا کر کے حضرت نے امت مسلمہ کی کتاب وسنت کی روشنی میں بہت عمدہ انداز میں رہنمائی فرمائی۔ حضرت نے ایک بار فرمایا، بحمداللہ کوئی ایسا باطل اور گمراہ فرقہ نہیں جس نے سر اٹھایا ہوا ور ہم نے اس کاتعاقب نہ کیا ہو۔ فرمایا کہ ہمارے اکابر نے ہمیشہ حق کی اشاعت کی اور توحید وسنت پر کار بند رہے۔ فرمایا کہ اکابر کے دامن کو کبھی نہ چھوڑنا، ہم نے اپنے اکابر کے دامن کوتھامے رکھا۔...
― حافظ محمد عامر جاوید
کسی بھی بڑی شخصیت کی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو چند صفات ایسی ملیں گی جن پر اس کی شخصیت کی تعمیر ہوئی ہوتی ہے۔ حضرت امام اہل سنت رحمہ اللہ کی پوری زندگی اور ان کے مختلف اور متنوع پہلووں میں دو چیزیں دو باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک رسوخ فی العلم اور دوسرے تقویٰ کا مزاج۔ حضرت اپنی یادداشت اور رسوخ فی العلم کے اعتبار سے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے مقام پر فائز تھے۔ ا ن کے ہم عصروں میں کوئی عالم یا محدث ایسا نظر نہیں آتا جو حافظہ کے اعتبا ر سے ان کے برابر ہو۔ استاد محترم مولانا زاہدالراشدی نے حضرت کی میت کو قبر میں اتارتے وقت بجا طور پر فرمایا...
― مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی
امامِ اہلِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کی پہلی دفعہ زیارت اس وقت ہوئی تھی جب میں دارالعلوم کبیر والا میں غالباً درجہ حفظ میں زیرِ تعلیم تھا۔ حضرت شیخ تقریب ختمِ بخاری کے موقع پر تشریف لائے تھے ۔ اس وقت چونکہ حضرت کا نام بھی پہلی دفعہ سنا تھا اور زیارت بھی پہلی دفعہ ہوئی تھی اور ساتھ ذہن بھی کچا تھا، اس لیے نہ تو حضرت کے چہرے کے نقوش ذہن میں رہے اور نہ باتیں یاد رہیں۔ ۲۰۰۰ء میں جب میں نے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں تجوید میں داخلہ لیا تو اس وقت حضرت سے استفادہ کا موقع ملا اور قرآنِ مجید کے ابتدائی بیس پارے سماع کرنے کا بھی شرف...
― ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی
مولانا قاری عبدالباری جامعہ اسلامیہ دارالعلوم سرحد پشاور سے فارغ التحصیل ہیں۔ راقم کے ہم سبق رہ چکے ہیں۔ ۱۹۸۷ء میں مدرسہ سے فراغت کے بعد علم کے ساتھ عمل کے میدان کو منور کرنے کے لیے حضرت مولانا قاری شیر محمد بونیری کی معیت میں سال کی جماعت کے ساتھ تبلیغ پر چلے گئے۔ اس کے بعد ان کا زیادہ تر وقت درس وتدریس اور تبلیغ میں گزرتا ہے۔ انتہائی ملنسار، پرہیزگار اور سیدھے سادے آدمی ہیں۔ آج کل پشاور یونیورسٹی میں فارسٹ کالج کی مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ نماز عشا کے وقت قرآن پاک کادرس بھی دیتے ہیں۔ خوش آواز بھی ہیں، اس...
― حافظ تنویر احمد شریفی
۱۷ ستمبر ۱۹۹۲ ء بمطابق ۱۹ ربیع الاول ۱۴۱۳ھ میری زندگی کا وہ مبارک دن تھا جب شیخ الحدیث حضرت العلام مولانا سرفراز خان صفدر کی پہلی زیارت ہوئی۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ دوپہر کے وقت کراچی کے ہوائی میدان پر اترے۔ آپ کے استقبال کے لیے علماے کرام کا ایک جم غفیر جمع تھا۔ استادمحترم حضرت مولانا حسن الرحمن یوسفی مدظلہ شفقت فرماتے ہوئے مجھے بھی اپنے ساتھ ہوائی میدان لے گئے۔ یہ وہ دورتھا کہ جب ہمارے اکابر تشریف لاتے تھے تو نظم وضبط کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ آج کل کی طرح جذبات میں بہہ کر استقبال کو ہنگامہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ اسی نظم وضبط کی وجہ سے حضرت شیخ الحدیث...
― ادارہ
(۱) حضرت کا نام نامی اسم گرامی بچپن ہی سے سن رکھا تھا۔ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے والے آزاد کشمیر کے بہت سے علما آ پ کے رفیق درس تھے۔ ان میں ہمارے علاقہ کے ممتاز عالم دین مولانا مفتی عبدالمتین (مرحوم)، مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا امیر الزمان خان کشمیری، حضرت مولانا عبدالحمید قاسمی، حضرت مولانا محمد اکبر صاحب ،مولانا نور حسین صاحب، مولانا حاجی عبدالہادی صاحب، مولانا سرفراز صاحب آف ملوٹ شامل ہیں۔ یہ حضرات، حضرت شیخ الحدیث کا نام نامی اور اسم گرامی ہر عوامی اجتماع میں ضرور لیتے اور ان کے علمی مقام کاتذکرہ فرماتے ۔ آپ کے تلامذہ میں حضرت مولانا...
― ڈاکٹر عبد الماجد ندیم
عند ذکر الصالحین تتنزّل الرحمۃ، ولِمَ لا؟ إنّ الصالحین تکون حیاتہم حافلۃ بذکر اللّہ سبحانہ و تعالی: الذّکر باللسان و الذّکر بالقلب و الذّکر بالجوارح، وکلُّ عملٍ یقومون بہ یعبّر عن وحدانیۃ اللّہ، ولسان کلّ من رآہم أو صاحبَہم أوحدّث عنہم أو سمع عنہم ینطلق ب کلمات سبحان اللّہ، و الحمد للّہ، ولا إلہ إلّا اللّہ، واللّہ أکبر وغیرہا من التسبیحات والتحمیدات، والتہلیلات، والتکبیرات. وإنّ ذکر اللّہ ہو المنبع لجمیع الرّحمات، وبالإضافۃ إلی ذلک شخصیات الأبرار توفّر لنا دروساً من حیاتہم الذاکرۃ، ونحن نجد فیہا أسوۃ نتأسّی بہا، وقدوۃً نقتدي بآثارہا،...
― ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر
الحمد للہ رب العالمین، والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ وبعد: فقد ورد عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال :ا لناس کابل ماءۃ، لا تکاد تجد فیہا راحلۃ (صحیح البخاری: ۲؍۹۶) لقد بین صلی اللہ علیہ وسلم فی ہذاالحدیث ان الشخصیات البارزۃ قلیلۃ فی کل شعب الحیاۃ، وانہا تتکون بعد مدۃ من الزمن۔ فالعلماء کثیرون ومتساوون فی اجسامہم ولباسہم وظواہرھم وحمل الشہادات، و لکن الراسخین فی العلم والمتفقہین فی الدین والعاملین بہ قلیلون، کما ان ماءۃ ابل فی ظواہرھا، فی اجسامہا والوانہا واشکالہا متساویۃ، ولکن الراحلۃ التی تتحمل...
― ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
ھو شیخنا المجیز العلامۃ المحدث الفقیہ الداعیۃ امام اھل السنۃ والجماعۃ الشیخ ابوزاھد محمد سرفراز خان صفدر بن نور احمد خان بن کل احمد خان بن المولوی کل خان، من قبیلۃ خوانین یوسف زئی، بقیۃ الصالحین، وخاتمۃ الفقھاء المحدثین، وعلم من اکابر اعلام العصر الربانیین، وقدوۃ صالحۃ موھوبۃ، ومن اشھر العلماء الداعین المصلحین۔ مولدہ: ولد سنۃ ثلاث وثلاثین واربع ماءۃ والف فی قریۃ جیران دھکی، من مدیریۃ مانسھرہ ھزارہ۔ طلبہ: قرا القرآن الکریم علی ابن عمتہ الشیخ السید فتح علی شاہ، واخذ مبادئ الاسلام، والمقدمۃ الشھیرہ فی النحو باللغۃ الفارسیۃ ’’نحو میر‘‘...
― مولانا طارق جمیل
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ الذی کتب الآثار ونسخ الآجال، القلوب لہ مفضیۃ والسر عندہ علانیۃ والحلال ما احل والحرام ما حرم والدین ما شرع والامر ما قضی والخلق خلقہ والعبد عبدہ وھو اللہ الرء وف الرحیم وھو الذی رفع العلماء الی اشرف المناصب ونشر فی الاقالیم اعلامہم واجری بالحکم اقلامہم وجعلھم فی الدنیا کالاعلام وہداۃ للانام۔ والصلوۃ والسلام علی من خصہ باجتباۂ واصطفاۂ وسماہ من اسمین من اسماۂ رء وفا ورحیما فمن تمسک بشریعتہ نال فضلا جسیما وحاز فی الجنۃ نضرۃ ونعیما۔ وعلی آلہ وصحبہ الذین انتقلوا ببرکۃ رسالتہ ویمن سفارتہ الی حال الاولیاء...
― مولانا عبد الحق خان بشیر
یہ ایک مسلمہ اور بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی مسئلہ کی تحقیق اور ریسرچ کے لیے ٹھوس اور پختہ اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناپختہ اور کمزور اصولو ں کی بنیاد پر کی جانے والی ہر تحقیق ناپائیدار ہو گی۔ اس اعتبارسے تحقیق وریسرچ کے لیے سب سے پہلے اصولوں کا تعین ضروری اور ناگزیر ہے، کیونکہ یہ ایک یقینی اور ناقابل تردید امر ہے کہ ٹھوس اور پختہ اصول ہی بے راہ روی سے بچا سکتے ہیں اور وہی اصول محفوظ ومضبوط فکر کی طرف صحیح راہنمائی کر سکتے ہیں۔ امت مسلمہ میں تحقیق کے لیے اصول متعین کرنے کے عام طور پر دو طرز متعارف ہیں۔ پہلایہ کہ تحقیق کرنے والا اپنے لیے اصول تحقیق...
― محمد عمار خان ناصر
گزشتہ صفحات میں قارئین نے عم مکرم جناب مولانا عبد الحق خان بشیر زید مجدہم کا مقالہ ملاحظہ فرمایا جس میں انھوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے اصول ونظریات کی وضاحت کرتے ہوئے والد گرامی مولانا زاہد الراشدی اور راقم کی بعض آرا کو بھی موضوع بحث بنایا اور ان پر ناقدانہ تبصرہ کیا ہے۔ یہ ایک علمی وتحقیقی موضوع ہے جس میں میرے یا والد گرامی کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنا کسی بھی صاحب علم کا حق ہے اور قارئین جانتے ہیں کہ ’الشریعہ‘ کے صفحات پر اس نوعیت کی تنقیدات اور اختلافی بحثیں ایک معمول کی حیثیت رکھتی ہیں، البتہ عم محترم نے اپنے...
― محمد عمار خان ناصر
سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی۔ ربط: کل آپ نے پڑھا تھا: وَلاَ تَکُ فِیْ ضَیْْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُونَ (النحل آیت ۱۲۷) کہ یہ کافر جو مکر کرتے ہیں، تدبیریں کرتے ہیں، آپ ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہوں۔ اسی تنگ دلی کے سلسلے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ معراج سے آپ جب واپس تشریف لائے تو کافروں نے آپ کا امتحان لیا کہ مسجد اقصیٰ کے دائیں طرف، بائیں طرف اور آگے پیچھے کیا عمارت تھی۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ لم اثبتہ، میں ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کر سکا، نہ مجھے معلوم تھا۔ انھوں نے...
― سید مشتاق علی شاہ
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے احقر کی پہلی ملاقات چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہوئی۔ اس کے بعد مسلسل تعلق قائم رہا۔ میں کافی عرصہ تک حضرت کے ترجمہ وتفسیر کے درس اور بخاری شریف کے سبق کا سماع کرتا رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے شعبہ نشر واشاعت میں ملازمت اختیار کر لی جو ۱۳ سال تک جاری رہی۔ اس دوران حضرت شیخ الحدیث اور حضرت صوفی صاحب سے استفادہ کا مسلسل موقع ملتا رہا۔ یہاں اس دوران اپنے مشاہدے میں آنے والی چند باتیں اور تاثرات تحریر کیے جا رہے ہیں۔ ۱۔ جس دن میں نے ملازمت اختیار کی، اس سے اگلے دن حضرت شیخ نے مجھے بلا کر...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَالْبٰقِیٰتُ الصَّالِحَاتُ خَیْْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْْرٌ أَمَلاً (سورۃ الکہف، آیت ۴۶)۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتابوں میں جو درجہ، شان، رتبہ قرآن کریم کا ہے، اور کسی کتاب کا نہیں۔ ہمارا سب کتابوں پر ایمان ہے۔ ہمیں تفصیلاً اور قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں کہ کتنی کتابیں نازل ہوئیں۔ ہمارے ایمان کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں،...
― مولانا محمد فاروق جالندھری
۱۹۵۳ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو حضرت نے اس میں بھر پور کردار ادا کیا اور جیل میں پابند سلاسل بھی رہے۔ اس وقت رئیس الخطباء سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ساہیوال جیل میں قید تھے۔ امام اہل سنت دیگر حضرات کے ساتھ، جن میں مفتی عبدالواحد صاحب خطیب جامع مسجد مرکزی شیرانوالہ باغ، قاضی شمس الدین، قاضی نور محمد، علامہ خالد محمود پی ایچ ڈی لندن، مولانا عبدالرحمن، حاجی قاضی عبدالرحمن صاحب اور بہت سے دیگر کارکنان اور علماء شامل تھے، ملتان جیل میں قید تھے۔ قاضی عبدالرحمن حضرت امام اہل سنت کے شاگرد ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے قریب ایک مسجد میں امام تھے...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الامنت الی اہلہا۔ جن عزیزوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حدیث شریف کے دورے میں کامیابی حاصل کی ہے اور تجوید میں کامیابی حاصل کی ہے اور جن برخورداروں نے قرآن کریم یاد کیا ہے، سب کو مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ کا انعام اور احسان ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے یعنی دین، اس کا علم حاصل کرنے کی آپ کو توفیق عطا فرمائی ہے۔ دین کی بنیاد ہے قرآن کریم اور اس کی تشریح اور تفصیل احادیث، فقہ اسلامی اور دیگر علوم میں ہے۔ قرآن...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
(ماہنامہ ’عزم نو‘ لاہور کی طرف ملک کے نظام تعلیم کے حوالے سے ایک سوال نامہ مشاہیر اہل علم کو بھیجا گیا اور ان کی طرف سے موصولہ جواب ماہنامہ ’عزم نو‘ کے تعلیم نمبر میں شائع کیے گئے۔ یہ سوال نامہ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا تحریر کردہ جواب یہاں درج کیا جا رہا ہے۔)۔ سوال نامہ: ۱۔ آپ کے نزدیک موجودہ تعلیمی پس ماندگی اور روز افزوں اخلاقی ترقی ومعاشرتی انحطاط کے کیا اسباب ہیں؟ ۲۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آزادی حاصل کیے تیس برس گزر جانے کے باوجود ہم اپنا قومی وملی تشخص اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ ۳۔ موجودہ نظام تعلیم بدل کر اسلامی...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
(مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی تصنیف ’’اعجاز الصرف‘‘ پر تقریظ)۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد! بندۂ ہیچ مدان محمد سرفراز بعالی خدمت کافہ اہل علم از علماء عظام وطلبہ کرام عرض می کند کہ فہم قرآن مجید وحدیث شریف کہ از افضل قربات است ونیز مہارت پیدا کردن در لغت عرب عرباء بر بعض علوم آلیہ موقوف است وازیں علوم وفنون کہ موقوف علیہا اند یکے علم تصریف است کہ بے حفظ وضبط کردن آں فہمیدن اعجاز نظم تنزیل در مفردات وصیغ واظہار وادغام وحذف واثبات ومعتل ومضاعف ومہموز وصحیح وغیرہ مصداق کوہ کندن وکاہ برآوردن است...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
بنام: حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ (کراچی)۔ باسمہ سبحانہ۔ محترم المقام شیخ الحدیث جناب حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری دامت برکاتہم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج اقدس؟ غالباً ذو القعدہ کی ابتدامیں حضرت مولانا محمد ادریس صاحب دام مجدہم کا ایک گرامی نامہ موصول ہوا تھا جس میں ماہ شعبان کے بینات کے ایک اہم مضمون کی طرف توجہ دلائی گئی تھی، مگر شومئی قسمت کہ کثرت مشاغل کی وجہ سے پڑھنے کاموقع نہ مل سکا۔ ایام اضحی کی تعطیلات میں پڑھنے کا عزم تھا، مگر پے در پے تکالیف اور علالت کی وجہ سے پھربھی پڑھنے کا وقت نہ نکال سکا۔ آج ہی اس کو پڑھا...
― محمد جمیل خان
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے پہلی ملاقات کچھ یوں یاد ہیکہ ہم حاضر ہوئے تو حضرت نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ محلہ تالاب دیوی سے۔ جامع مسجد نور کے قبلے کی دیوار کے ساتھ ہمارا گھر ہے اور مسجد کا محراب ہمارے گھر کی دیوار میں ہے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں مولانا اکبر صاحب ہوا کرتے تھے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، وہ زاہد (مولانا زاہد الراشدی) کے نانا تھے۔ میں نے کہا کہ وہ بہت مشہور ومعروف آدمی تھے اور ان کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہے کہ ان کے فوت ہونے پر مسجد کا مینار گر گیا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، وہ بہت نیک آدمی تھے۔ حضرت...
― سید انصار اللہ شیرازی
میرے والد سید حافظ حبیب اللہ شاہ، سید فتح علی شاہ صاحب کے بھتیجے تھے۔ سید فتح علی شاہ صاحب ، میرے دادا سید عبد اللہ شاہ کے سگے بھائی تھے۔ یہ دونوں بھائی بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے پہلے شاگرد تھے۔ مولانا ہزارویؒ نے جب مانسہرہ تحصیلاں میں مدرسے کا آغاز کیا تو دونوں بھائیوں نے وہاں داخلہ لے لیا۔ اس وقت تحصیل دار مانسہرہ نے وہاں قریب ہی ایک مسجد تعمیر کروائی تھی جو قادری مسجد کے نام سے مشہور تھی۔ ہمارے دادا سید عبد اللہ شاہ وہاں ایک سال تک امامت کرواتے رہے اور تحصیل دار کی طرف سے ان کی ماہانہ تنخواہ پانچ روپے مقرر کی گئی تھی۔ ایک...
― ادارہ
( ۱ ) باسمہ تعالیٰ۔ مخدومنا المکرم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب، دامت برکاتکم۔ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب، دامت برکاتکم۔ حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب، دامت برکاتکم۔ و دیگر اکابر و اساتذہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند۔ مزاج گرامی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت والدمحترم مولانا محمد سرفرازخان صفدر نوراللہ مرقدہ کی وفات حسرت آیات کی المناک خبر آپ سب لوگوں تک پہنچ چکی ہوگی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور اس مادر علمی کے فکر ومسلک کے ترجمان تھے جن کی علمی ودینی جدوجہد میں دیوبند ی مسلک کا تعارف...
― ادارہ
(زیر نظر خصوصی اشاعت میں جن اصحاب قلم کی تحریریں اور تعزیتی پیغامات شامل ہیں، ان کے علاوہ بھی دنیا بھر سے مختلف حلقہ ہاے فکر سے وابستہ حضرات نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی وفات کے موقع پر حضرت کے اہل خاندان سے اظہار تعزیت کیا۔ ان میں سے بعض نمایاں نام یہاں درج کیے جا رہے ہیں۔ مدیر)۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خان (جامعہ فاروقیہ کراچی) حضرت مولانا محمد تقی عثمانی (دار العلوم کراچی) حضرت مولانا سمیع الحق (اکوڑہ خٹک) حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ (اکوڑہ خٹک) حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی (برطانیہ) حضرت مولانا فضل الرحمن...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات فی القبر کے بارے میں گزشتہ نصف صدی سے بعض حلقوں میں اختلاف ونزاع کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، اس میں میرا عقیدہ و ہی ہے جو ’’المہند علی المفند‘‘ میں اکابر علماے دیوبند کے عقیدہ کے طور پر درج ہے، البتہ میں اسے پبلک اسٹیج کا مسئلہ نہیں سمجھتا اور عام اجتماعات میں اس مسئلے کا کسی بھی طرف سے شدت پسندانہ اظہار میرے نزدیک درست طرزعمل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے والدمحترم حضرت مولانا سرفرازخان صفدر نوراللہ مرقدہ کے جنازہ اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ان کی تعزیت کے لیے منعقد ہونے...
― ادارہ
(پپناکھہ ضلع گوجرانوالہ کے سید جعفر حسین شاہ صاحب نے ۵ نومبر ۱۹۹۱ء کو بعض استفسارات میں جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ کے مرکزی راہ نما اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ سے دریافت کیا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے بارے میں بعض حضرات کی طرف سے شائع کیے جانے والے توہین آمیز اشتہارات کے متعلق ان کی کیا راے ہے۔ اس کے جواب میں حضرت مولانا نیلوی مرحوم نے اپنے دو خطوط میں جو راے تحریر فرمائی، اسے موقع کی مناسبت سے یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان تحریروں کی نقل فراہم کرنے کے لیے ہم مکتوب الیہ سید جعفر حسین...
― مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
حق وباطل کی پہچان کا طریقہ۔ ’’عوام الناس کو یہ بات پریشان کیے ہوئے کہ جو بھی اسلامی یا منسوب بہ اسلام فرقہ اپنے مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ قرآن وحدیث ہی کا نام لیتا اور اپنے استدلال میں قرآن وحدیث ہی کو پیش کرتا ہے۔ اب ہم کس کو صحیح اور کس کو غلط اور کس کو حق پر اور کس کو باطل پر کہیں؟ واقعی یہ شبہ اکثر لوگوں کے مغالطہ کے لیے کافی ہے، لیکن اگر انصاف، خدا خوفی اور دیانت کے ساتھ اس بات پر غور کر لیا جائے کہ یہی قرآن وحدیث حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین وبزرگان صالحین کے سامنے بھی تھے، ان کا جو مطلب ومعنی اور جو تفسیر ومراد انھوں...
― ادارہ
الٰہی بحرمتِ حضرت سیّد المرسلین خاتم النبیین شفیع المذنبین سیّدنا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم۔ الٰہی بحرمتِ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکرؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت امام جعفر صادقؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت بایزید بُسطامیؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانیؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت خواجہ ابوالقاسم گرگانیؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت ابوعلی فارمدیؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت ابو یعقوب یوسف ہمدانیؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت عبدالخالق غُجدُوانیؒ۔ الٰہی بحرمتِ حضرت محمد عارف ریوگریؒ۔...
― ادارہ
۱۔ مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر (کراچی) ۲۔ مولانا ابو عمار زاہد الراشدی (گوجرانوالہ) ۳۔ مولانا عبد القدوس خا ن قارن (گوجرانوالہ) ۴۔ مولانا مفتی زر ولی خان (کراچی) ۵۔ مولانا سعید احمد جلال پوری (کراچی) ۶۔ مولانا مفتی نظا م الدین شامزئ ؒ (کراچی) ۷۔ مولانا مفتی محمد جمیل خان ؒ (کراچی) ۸۔ مولانا قاری سعید الرحمنؒ (راول پنڈی) ۹۔ مولانا عبد الحق خان بشیر (گجرات) ۱۰۔ مولانا قاری حماد الزہراوی (گکھڑ) ۱۱۔ مولانا رشید الحق خان عابد (اسلام آباد) ۱۲۔ مولانا عزیز الرحمن خان شاہد (گکھڑ) ۱۳۔ قاری عنایت الوہاب خان ساجد (گکھڑ) ۱۴۔ مولانا منہاج الحق خان راشد (گکھڑ)...
― محمد عمار خان ناصر
اک صدی کا قصہءِ دل کش ہوا آخر تمام، آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام۔ ایسا فرزند مجاہد، ایسا فردِ ارجمند، کیوں نہ نازاں اس پہ ہوتا کاروانِ دیوبند۔ حسن فطرت اور وہی مرد کہستانی کی خو، پدرِ مشفق کی طرح سب کی نگہبانی کی خو۔ اس کی پیشانی پہ روشن علم وتقویٰ کا وہ نور، اس زمانے میں کسی اگلے زمانے کا ظہور۔ اس کی دنیا روز وشب کے وقتی ہنگاموں سے دور، ایک گوشے میں سدا اپنے پیمبر کے حضور۔ درس ارشادِ نبی کا عمر بھر اس نے دیا، اس کے ہاتھوں جامِ توحید اک زمانے نے پیا۔ اس کا برزخ اس کی دنیا کی طرح تابندہ ہے، اس جہاں کے بعد بھی وہ درحقیقت زندہ ہے۔ کل وہ جب فردوس...
― مولوی اسامہ سرسری
اے سرفراز صفدر، اے علم کے سمندر، اے دین حق کے رہبر، اے زاہد وقلندر۔ ایثار مثل صدیق، اظہار مثل فاروق، غم خوار مثل عثماں، کردار مثل حیدر۔ اے رہبر شریعت، اے راشد طریقت، اے میر اہل سنت، اے تاج دار کشور۔ مضبوط تھا بڑھاپا، باطل ہمیشہ کانپا، نور ہدیٰ سراپا، یاد خدا کا پیکر۔ اے نقشبندی دل ساز، اے چشتیہ دل آرام، اے قادری دلاور، اے سہروردی دلبر۔ قلب وعقل میں یکتا، جود وفضل کا دریا، رنگ وشکل میں اعلیٰ، علم وعمل کا مظہر۔ طرز مناظرانہ، اوصاف ماہرانہ، انداز ساحرانہ، سب کچھ تمہارے اندر۔ مخدوم مثل محمود، خادم مثالی مدنی، محفوظ مثل اشرف، حافظ مثال انور۔...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیخ صفدرؒ بھی ہم سے جدا ہو گئے، علم و دیں پر وہ آخر فدا ہو گئے۔ علم تھا ان کا سب سے بڑا مشغلہ، ذوق و نسبت میں اس کی فنا ہو گئے۔ وہ جو توحید وسنت کے منّاد تھے، شرک و بدعت پہ رب کی قضا ہو گئے۔ خواب میں ملنے آئے مسیح ناصریؐ، شرف ان کو یہ رب سے عطا ہو گئے۔ بوحنیفہؒ سے ان کو عقیدت رہی، اور بخاریؒ کے فن میں سَوا ہو گئے۔ شیخ مدنی ؒ سے پایا لقب صفدری، اور اس کی علمی نہج کی ادا ہو گئے۔ میانوالی کا اک بطل توحید تھا، جس کی صحبت میں وہ با صفا ہو گئے۔ نور احمدؒ نے ان کو جو دی تھی دعا، اس کی برکت سے وہ با وفا ہو گئے۔ جن کی تلقین ہوتی تھی رب کی رضا، حق کی رہ میں وہ رب...
― مولانا غلام مصطفٰی قاسمی
حکیم العصر، شیخ وقت اور محبوب سبحانی، کہ ہم عصروں میں اب تک کوئی بھی تیرا نہیں ثانی۔ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤگے ایسا پیکر خاکی، کہاں سے پاؤگے تم یادگار شیخ الوانی۔ تجھے استاذ کل کہتے تھے عالم اس زمانے کے، تجھی کو مانتے تھے جانشین شیخ الوانی۔ تیرے دریوزہ گر ٹھہرے محدث اس زمانے کے، تیرے علم وعمل کے خوشہ چیں تھے سارے افغانی۔ تیرے تقویٰ طہارت کی قسم کھائی زمانے نے، تیرے زہد وورع پر رشک کرتی عقل انسانی۔ تیرے اس میکدہ سے پی شراب معرفت جس نے، ہوئی حاصل شفا ے کاملہ اور ذوق عرفانی۔ بفضل اللہ یہ دیکھا قلب بینا سے عجب جلوہ، جبیں سجدہ سے تا عرش بریں اک تار...
― مولانا منظور احمد نعمانی
ترجمان اہل سنت فخر اہل دیوبند، قالع وقماّعِ باطل دِلستان جاتا رہا۔ دو حسینوں سے شرابِ معرفت پی کر امیں، مُستفیضوں کو پلا کر مہرباں جاتا رہا۔ جس کے علم وفیض سے روشن ہوا سارا جہاں، رہنمائے اہلِ حق ماہِ رواں جاتا رہا۔ جس نے باطل کو کیا چیلنج ہر میدان میں، وہ مبارز مرد حق شیرِ ژیاں جاتا رہا۔ جس کے خامہ نے کئے تھے ملحدوں کے سر قلم، وہ مصنف اور محقق کا مراں جاتا رہا۔ اہل سنت کی امامت سے ہوئے وہ سرفراز، صفِّ باطل چیر کر صفدرِ زماں جاتا رہا۔ لا یخافون کے مصداق مکمل تھے وہ شیخ، اہل سنت کا حقیقی ترجماں جاتا رہا۔ تیرے جانے سے ہوئے ہم دیوبندی سب یتیم، چھوڑ...
― حافظ فضل الہادی
مضی البحران صوفی و صفدر، ھما جبلان للدین المنور۔ ھما اخوان من ام و والد، ونا لا فیض اسلاف معطر۔ ید طولیٰ لکل فی الفنون، انارا الکون بالذکر المکرر۔ لقد قاما لاعلاء الکتاب، واقوال الرسول مع التدبر۔ وفقہ ابی حنیفۃ در سانا، یضیئان الدروس وکل منبر۔ فصفدر سرفراز ذوا اجتھاد، و صوفی فرید العھد ازہر۔ لقد ولدا بکر منک الھزارا، وقد اخذا الھدٰی من علم الاکبر۔ فشیخی سرفراز الخان صفدر، اخو عبد الحمید الخان اختر۔ تخرج من دیوبند الجلیلۃ، و بین دین رب ثم اظھر۔ مشائخہ اکابرنا الائمۃ، و شان جمیعھم مسک و عنبر۔ حسین علی ثم حسین احمد، لہ شیخان فی الظفر المظفر۔...
― ادارہ
علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز، تجھ کو قدرت نے بنایا علم کا داناے راز۔ علم کے دریا سے چن لایا تو گوہر بے بہا، تیری اس کاوش پہ ارباب علم کو فخر وناز۔ گلشن اسلام میں ہے گلفشاں تیرا قلم، تیرا انداز بیان ہے دلنشیں ودلنواز۔ تیرے در پر آ رہے ہیں تشنگان علم دیں، تو انہیں سمجھا رہا ہے دین کی حکمت کے راز۔ علم وحکمت سے مرکب تیری فطرت کا خمیر، علم کی اقلیم کا محمود، حکمت کا ایاز۔ علم کی پرواز کے قابل نہیں زاغ وزغن، اس اڑاں کے واسطے موزوں قوت شہباز۔ یہ سعادت میرے ہمدم زور بازو سے نہیں، حق تعالیٰ جس کو چاہے بخش دے یہ امتیاز۔ زندگی تیری سراپا علم واخلاص...
― ادارہ
تتلاطَمُ الأفراحُ فی الأرواح، ونری السروَر علا علی الأشباح۔ وجلتْ مَخَاءِل نَھْضَۃٍ عِلْمِیَّۃٍ، بِقدومٍ مُحْیِ السُنّۃِ الوَّضّاَحٖ۔ زینِ المعارف والعوارفِ والتُّقیٰ، نَعمان عصرٍ جھبذ، جَحجاَحٖ۔ شمسِ المدارس والمجالس والھدیٰ، وأمام أھل السنۃ المدّاحٖ۔ کَشَفَ السِّتار عن الغوامضِ فی العلوم، ولمعضلاتِ الفقہ کالمفتاحٖ۔ ملأ المکاتب بالتآلیف الّتی، نالتْ قبولَ النّاس فی الأِصلاحٖ۔ کَلَحتْ وجوہُ بنی القبور بنورھا، رفعتْ لِواءَ القاسم الفتّاحٖ۔ رادَتْ مطاعَن مُلحدین عن الألیٰ، ھُمْ أسسو دیوبندَ فی الصحصاحٖ۔ حِصْن حصن للکتاب وسنّۃ،...
― محمد رمضان راتھر
(۱) خطیب حق بیان و راست بازے، کہ محتاط از نشیبے و زفرازے، من استغناے طبعش می شناسم، فقیرے از سلاطیں بے نیازے۔ (۲) حدیث سید لولاک ازبر، زبرکاتش دل او شد منور، زبانش لعل وگوہر می چکاند، کلامش انگبیں وشہد وشکر۔ (۳) زاسرار ورموز دیں خبردار، زدام شرک وبدعت خوب ہشیار، زمام نفس خود در دست دارد، دلے دارد کے زندہ ہست وبیدار۔ (۴) امیر کاروان علم دین است، فقیہ حق پسندے بالیقین است، تو می پرسی امام دیں کدام است؟ ہمین است وہمین است وہمین است۔ (۵) فداے سنت خیر الانام است، زجان ودل صحابہؓ را غلام است، بمسجد در نماز او را چو بینی، تو گوئی باخداوند ہم کلام است۔...