حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال

مولانا مفتی محمد زاہد

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ اپنے وقت کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جن میں پرانے زمانے کے علما اور بزرگانِ دین کی جھلک واضح طور پردیکھی جاسکتی تھی۔ ایسی کثیر الجہۃ شخصیات بہت کم وجود میں آتی ہیں۔ انہوں نے علماے سلف کی طرح حصولِ علم کے لیے نہ معلوم کہاں کہاں کی خاک چھاننے کے بعد آخر میں دارالعلوم دیوبند جیسے منبعِ صافی سے علمی پیاس بجھائی، بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں علم کی تشنگی بھڑکائی۔ درس وتدریس حضرت کی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے۔ حضرت ؒ کے پاس کچھ عرصہ بیٹھنے ہی سے آپ کے راسخ فی التدریس ہونے کا اندازہ ہو جاتا اور پتا چل جاتا تھا کہ آپ دینی مدارس کی درس وتدریس کی زندگی کی ایک ایک رَگ سے بخوبی واقف ہیں۔ وسعتِ مطالعہ آپ کی زندگی کا ایک دوسرا اہم حوالہ ہے۔ یہ چیز آپ کی تالیفات کی سطر سطر سے اور آپ کے شاگرد بتاتے ہیں کہ آپ کے درس کے لمحے لمحے سے واضح طور پر ٹپکتی تھی۔ تصنیف وتالیف آپ کے تعارف کا ایک اور حوالہ ہے۔ آپ نے درجنوں کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں جن میں سے بعض تو بہت مقبول ہوئی ہیں۔ ایسے نہ معلوم کتنے لوگ ہوں گے جن کی تحقیق کا منتہا یہ ہوگا کہ آپ کی کتابوں سے مستفید ہوکر ان میں دیے گئے حوالوں کی اصل کتب سے مراجعت کرلیں۔ اہلِ علم بالخصوص حدیث پڑھانے والوں کے لیے تو ان کی کتابیں مفید بلکہ تقریباً ناگزیر ہوتی ہی تھیں، بھاری بھر کم علمی مواد کے باوجود عام پڑھے لکھے مسلمان بھی ان سے مستفید ہوتے تھے۔ ہمارے ایک نانا ( والدہ کے چچا) دینی مزاج رکھنے والے اور مطالعے کے شوقین ڈاکٹرتھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر بہت پڑھی لکھی ہستی سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ترکے میں دینی اور تاریخی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا جن کا ایک حصہ بعض ورثہ نے ہمارے والد صاحب کودے دیا تھا۔ ان میں حضرت ؒ کی بھی متعدد کتب موجود تھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں حضرت کے نام اور آپ کی کتابوں سے تعارف اسی ذخیرے کے ذریعے ہوا۔ کہنے کا مقصد یہ کہ آپ کی تصانیف اہلِ علم کے علاوہ عام صاحبِ مطالعہ مسلمانوں کے لیے بھی باعثِ افادہ تھیں۔

آپ کی تصانیف متعدد موضوعات پر ہیں ، لیکن آپ کی تصانیف میں بیشتر حصہ ان کتابوں کا ہے جن کا تعلق مختلف بعض حلقوں کی طرف سے پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہا ت کے ازالے اور اہل السنۃ والجماعۃ خصوصاً علماے دیوبند کے نقطۂ نظر کو دلائل سے ثابت کرنے سے ہے۔ اس طرح کے ردّ وقدح اور بحث ومباحثے کے نتیجے میں عام طور پر گفتگو اور لہجے میں تلخی اور درشتی پیدا ہوجاتی ہے، لیکن حضرت ؒ نے اپنے دامنِ قلم وزبان کو اس سے ہمیشہ محفوظ رکھا۔ ہمیشہ سادہ واضح انداز میں دلیل کے ساتھ بات کی۔ آپ کی بیشتر کتب کا تعلق اگرچہ بحث مباحثے اور بعض حلقوں کی تردید سے ہے، لیکن چونکہ آپ نے ہمیشہ علم اور دلیل کی زبان میں بات کی ہے، اس لیے آپ کی تصانیف میں حدیث، فقہ اور اصولِ فقہ وغیرہ کے متعلق بیش بہا مباحث زیرِ قلم آگئے ہیں جو ان اختلافی مسائل سے ہٹ کر بھی اپنی افادیت رکھتے ہیں۔ یہ مباحث بکھرے موتیوں کے طور پر آپ تصانیف میں جابجا متفرق طور پر موجود ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کے پوتے جناب عمار خاں ناصر نے انہیں ایک لڑی میں پرونے اور مرتب کرنے کا بیڑا ا ٹھایا ہے۔

آپ کی زندگی اور جدّ و جہد کا بہت اہم پہلو عوامی دعوت اور تذکیرو نصیحت کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کا مشغلہ خاص طور پر جبکہ اس کے ساتھ دیگر حلقہ ہاے فکر کے ساتھ مباحثے کا کام بھی شامل ہوجائے تو اس کی وجہ سے آدمی عوام سے کٹ کر رہ جاتاہے اور اس کی دعوتی اور واعظانہ سرگرمیاں بہت ہی سمٹ جاتی ہیں، بلکہ عموماً پبلک ڈیلنگ کا سلیقہ ہی ختم ہو جاتاہے جس کی وجہ سے عام خلقِ خدا اس سے مستفید نہیں ہو پاتی، لیکن حضرتؒ کی زندگی اس سے بہت بڑا سبق آموز استثنا ہے۔ آپ کی تدریس، تصنیف اور مجادلہ حسنہ کی سرگرمیاں آپ کو عام خلقِ خدا سے کاٹ نہیں سکیں۔ عامۃ الناس کو آپ نے کس طرح مستفید اور سیراب کیا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی اور سیرت کا بہت بڑا عنوان ہے جس پر واقفانِ حال بہت تفصیل سے روشنی ڈال سکتے ہیں۔ حضرت ؒ کے عوامی بیان کے بارے میں ایک عرصے تک احقر کا یہ تأثر رہا کہ اس میں خشک علمی زبان استعمال ہوتی ہوگی، بھاری بھر کم اصطلاحات کی کثرت ہوگی، فرقہ وارانہ مسائل کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی ہوگی، لیکن جب پہلی دفعہ ایک عام مجمع میں حضرت کا بیان سننے کا اتفاق ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ آپ کے بیان میں علمی تثبت تو ہوتا، لیکن اصطلاحی یا مدرسانہ زبان کا دور دور تک کوئی نشان نہ ہوتا۔ وعظ ونصیحت کا سادہ دل فریب انداز جو ازدل خیزد بر دل ریزد کا مصداق ہوتا۔ سنا ہے کہ گکھڑ کی مسجد میں اپنی مادری زبان پنجابی نہ ہونے کے باوجود پنجابی میں ہی درسِ قرآن اور درسِ حدیث دیتے۔ گوجرانوالہ ہی کے ہمارے ایک محترم ومکرّم دوست جناب قاری گلزار قاسمی صاحب ان بیانات اور دروس کو قلم بند کرکے اردو زبان میں منتقل کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے نافع اور مقبول بنائیں۔ آمین۔

حضرت کی زندگی کا سب سے اہم پہلو تقویٰ، استقامت، قناعت، سادگی، جہدِ مسلسل، وقت کی قدر، تواضع، شفقت، تصنع سے پاک انداز وغیرہ وہ بے شمار خوبیاں تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بزرگانِ سلف کا نمونہ بنایا تھا۔ حضرت سے طویل عرصے تک مستفید ہونے والے اور آپ کی صحبتِ طویلہ اٹھانے والے تو ان اوصافِ حمیدہ کے گواہ ہیں ہی، کبھی کبھار آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور شفقت وبرکت حاصل کرنے والے بھی انہیں بے تکلف محسوس کیے بغیراور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ آپ نے وقت کی ایسی قدر کی کہ آپ کی خدمات کے شعبوں میں سے صرف کسی ایک کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو زندگی بھر کسی اور کام کے لیے وقت ہی نہیں ملا ہوگا۔ اس کے باوجود ملنے جلنے کے انداز سے کہیں مصروفیات کا ہوا یا ’’لا مساس‘‘ والا انداز نظر نہیں آتا تھا۔ سب کام انجام پارہے تھے لیکن انہیں احساس تک نہیں تھا کہ میں بہت کچھ کر رہا ہوں۔ یہ سب وقت میں برکت کے کرشمے تھے۔ جب وقت سے برکت اٹھ جاتی ہے تو وہ صورتِ حال ہوتی ہے جو ہمارے والد صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج کے بڑے شہروں کی زندگی میں جسے کوئی کام نہ ہو، وہ بھی بہت ’مصروف‘ ہوتا ہے، اور کسی کام کے نہ ہونے کا سب سے بڑا عذر اس کے پاس یہی ہوتاہے’’ بس جی کیا کریں فرصت ہی نہیں ملی‘‘۔ حضرت ؒ ایک غیر معروف سے گھرانے میں پیدا ہوئے، اپنی لگن، دھیمی دھیمی مسلسل رفتار کی برکت سے علمی اور دینی دنیا میں ایک حوالہ بن گئے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جہاں قابلِ ذکر تعداد میں مسلمان آباد ہوں اور وہاں حضرت ؒ کا بالواسطہ یابلا واسطہ فیض نہ پہنچا ہو۔ 

حضرت ؒ نے جہاں درجنوں تصانیف، لاتعداد شاگردوں، بے شمار مستفیدین جن کی زندگیاں آپ کی برکت سے بدلیں اورجامعہ نصرۃ العلوم جیسے اداروں کی شکل میں گونا گوں صدقاتِ جاریہ چھوڑے ہیں، وہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان خوش قسمت لوگوں میں سے بنایا ہے جنہیں ان کے مشن کو لے کر آگے چلنے والی صالح اولاد نصیب ہوئی۔ الحمد للہ حضرت ؒ کے صاحبزادگان حضرت کی زندگی اور خدمات کے مختلف شعبوں کو باحسن طریق سنبھالے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات میں مزید برکت، نافعیت اور مقبولیت عطا فرمائیں۔ حضرت ؒ نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم کے بارے میں وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ وہ پڑھا ئیں۔ یہ یقیناًحضرت کی طرف سے مولانا راشدی پر اعتماد کا اظہار ہے جو ان کے لیے سند کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور سعادت بھی۔

حضرت کی نمازِ جنازہ کے لیے آنے والا انسانوں کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر جس کی نظیریں بہت کم ملتی ہیں ، ثم یوضع لہ القبول فی الأرض کا واضح مصداق نظر آرہا تھا۔ ایک بہت بڑے میدان کا دامن جنازہ پڑھنے والوں کے لیے تنگ پڑگیا تھا۔ ہمیں تو گراؤنڈ میں جنازہ ادا کرنے کی جگہ مل گئی تھی، لیکن بتانے والوں نے بتایا کہ جی ٹی روڈ پر بھی دور دور تک جنازہ پڑھنے والے کھڑے تھے ۔ جولوگ جنازے میں شرکت سے رہ گئے، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ؒ ان بزرگوں میں سے تھے جن کا وجود ہی بہت بڑا سہارا اور تسلی کا سامان ہوتاہے۔ یہ تصور ہی بہت ہوتا ہے کہ وہ سر پر موجود ہیں۔ ان سے مل کر اور شفقتیں سمیٹ کر نئی زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ ان بزرگوں کا وجود ہی نہ معلوم کتنے فتنوں کے آگے رکاوٹ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی کامل مغفرت فرما کر انہیں درجاتِ رفیعہ عطا فرمائیں۔ اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ.

مشاہدات و تاثرات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter