سترھویں صدی کے آغاز میں کچھ خاندان ریاست سوات کو چھوڑ کر ضلع ہزارہ میں آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ضلع ہزارہ پر ترکوں کا تسلط تھا۔ ترک وہاں پر ہر لحاظ سے مضبوط تھے۔ ان خاندانوں نے آہستہ آہستہ وہاں سے ترکوں کی عملداری کو ختم کردیا اور اپنا تسلط قائم کر لیا۔ انہی خاندانوں میں ایک خاندان ہمارے جد امجد حضرت گل داد خان سواتی ؒ کا تھا جو شنکیاری سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر شاہراہ ریشم کے کنارے ایک حسین وجمیل، سرسبز وشاداب ، درختوں سے ڈھکے ، بلند وبالا پہاڑ کی چھوٹی پر ایک گاؤں ’’چیڑاں ڈھکی‘‘ میں قیام پذیر ہوا۔ ہمارے جد امجد حضرت گل داد خان سواتی ؒ اور ان کی اہلیہ کسی حد تک دینی تعلیم سے آراستہ تھے۔ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ بچوں اور بچیوں کو پڑھاتے بھی تھے۔ علاقہ میں ان کی شہرت پیر اور پیرنی کے نام سے آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
اللہ نے اولاد کی دولت سے بھی خوب مالا مال فرمایا تھا۔ آپ ؒ کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے سب سے بڑے گل احمد خان سواتی ؒ ہمارے پردادا ہیں جو پڑھے لکھے تو نہ تھے مگر صاحب فہم وفراست ہونے کی وجہ سے علاقے کے معززین سے اچھے تعلقات رکھتے تھے اور پنچایتوں میں بیٹھنے والے تھے۔ اونچے لمبے، بہادر، باہمت اور نڈر تھے۔ یکے بعد دیگرے سات شادیاں کیں اور ایک سو بیس سال کی لمبی عمر پائی۔ بڑھاپے کی وجہ سے بازوؤں کا گوشت لٹک گیا تھا، مگر ہمت کا عالم یہ تھا کہ آخری عمر میں بھی کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ علاقے میں مشہور تھا کہ ایک دفعہ ان کی بکری کو شیر نے جھپٹ لیا تو وہ اس کے منہ سے اپنی بکری کو چھین لائے تھے۔ اللہ نے اولاد کی دولت سے بھی نوازا تھا۔ آپ کے دو بیٹے نور احمد خان سواتی ؒ اور خان زمان خان سواتی ؒ اور ایک بیٹی تھی۔ یہی نور احمد خان سواتی ؒ حضرات شیخین کریمین ؒ کے والد محترم اور ہمارے دادا محترم ہیں۔
نور احمد خان سواتی حصول علم کی بہت خواہش رکھتے تھے۔ کئی مرتبہ کوشش کی مگر تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے، تاہم قرآن کریم کا کچھ حصہ ناظرہ پڑھا تھا اور کچھ سورتیں زبانی یاد کی تھیں۔ دادا محترم کو اپنے بچوں کی تعلیم کا بھی بہت شوق تھا، مگر اس جنگل نما گاؤں میں تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسی بنا پر آپ نے بچوں کو تعلیم کے لیے دور دراز درسگاہوں میں داخل کرادیا۔ حضرات شیخین کریمین ؒ فرماتے ہیں کہ بسا اوقات ہمارے میلے کچیلے کپڑوں اور حالت زاد کو دیکھ کر بہت روتے تھے اور اس پر خاندان اور برادری کی طرف سے طعن وتشنیع کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا کہ اس بڑھاپے میں اللہ نے اولاد سے نوازا ، ان کو پاس رکھنا بھی نصیب نہیں ہے، مگر وہ بچوں کو تعلیم دلانے کی خاطر ہر قسم کے طعن وتشنیع کو برداشت کرتے تھے اور ان کے لیے کثرت سے دعا کرتے تھے۔ یہاں تک وفات کے وقت بھی ان کی وصیت یہی تھی کہ میرے بچوں کو قرآن وسنت وفقہ کی تعلیم ضرور دلانا۔ یہ قبولیت کی کوئی گھڑی تھی جس میں مانگی ہوئی دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا۔
یہی وہ دور تھا جب قضاو قدر نے حضرات شیخین کریمین والدین کے سایہ رحمت سے محروم ہوگئے۔ اپنوں کی بے رخی میں گھر، سامان، زمین، مال ومویشی سب ایسے تقسیم ہوا کہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ در در کی ٹھوکریں، لمحے لمحے کی مختاجی، کئی کئی دنوں کی فاقہ کشی، ننگے بدن کے ساتھ برفانی علاقے کی سرد ترین راتیں مقدر میں آئیں اور خوشیوں کے لمحات قصہ پارینہ ہوگئے۔ خاندان کا شیرازہ کچھ ایسا بکھرا کہ چاروں بھائی بہن ایک ساتھ پھر کبھی اکھٹے نہ ہوسکے۔ تاہم گردش ایام اور در در کی یہ ٹھوکریں دراصل ان پر حصول علم کے دروازے کھولنے کا ذریعہ بن رہی تھیں۔ حصول علم کا یہ سفر زندگی کی تلخیوں میں کئی مراحل میں طے پاتا ہے۔ پر خوف وخطر اور دشوار گزار راہوں کے راہی جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے بستی بستی، قریہ قریہ، نگر نگر جاتے ہیں اور علم دین کی تلاش میں برصغیر پاک وہند کے اطرف واکناف میں کئی علمی چشموں سے سیراب ہوتے ہیں۔ آخر علوم ومعارف وللٰہیت کے عظیم سرچشمے دار العلوم دیوبند تک رسائی حاصل کرتے ہیں، وہاں سے خوب سیراب ہوتے ہیں، علمی تشنگی کو بجھاتے ہیں اور فیض و اعزاز پاتے ہیں۔
پھر قسمت ان کو گوجرانوالہ شہر میں گھنٹہ گھر چوک کے قریب ایک جوہڑ پر لاکھڑا کرتی ہے اور وہ علم وعمل کی دنیا میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ جامعہ نصرۃ العلوم کے نام سے ایک عظیم الشان ادارہ معرض وجود میں آتا ہے جو نہ صرف ان کی پہچان بنتا ہے اور براعظم ایشیا سمیت دوسرے بر اعظموں کے تشنگان علوم کی سیرابی کا ذریعہ بنتا ہے۔ دونوں بھائی بیک وقت بلند پایہ کے مدرس، عظیم المرتبت مصنف، بے مثال خطیب، بے لوث راہنما، حق گو مبلغ، کثیر المطالعہ عالم، اعلیٰ درجہ کے منتظم، اکابر علماے دیوبند کے علوم معارف کے امین، فکر شاہ ولی اللہ ؒ کے داعی، رئیس المحققین، عظیم فلاسفر، مفسر اعظم، محدث اکبر، فقیہ امت، امام وقت، ولی زماں، غزالی دوراں، زاہد ومتقی، متوکل ومجاہد، مشفق وہمدردوخیرخواہ جیسی بے شمار صفات کے حامل تھے اور ان کی زندگی کے ایک ایک پہلو پر کئی کئی ضخیم کتابیں لکھی جاسکتی ہے۔
انہوں نے ساری زندگی راحت وسکون، آسایش وآرام ، اور شان وشوکت کو چھوڑ کر اپنی تمام تر قوتیں اور اپنی تمام تر ہمتیں دین اسلام کے لیے صرف کردیں۔ یہ تھے میرے چچا اور میرے والد جو اب ہم سے رخصت ہوگئے۔ مگر یہ تو تقدیر کے فیصلے ہیں جن کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ یہ تو اسی رب العالمین کی شان ہے کہ وہ دو یتیموں کو کس انداز سے کہاں سے اٹھا کر لایا اور کس شان سے انھیں دنیا سے رخصت کیا۔ ان کی تمام تر علمی خدمات اور ان کے علم وعمل سے جاری ہونے والے فیض کے چشموں سے صدیوں تک امت سیراب ہوتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے جاری کردہ چشمہ ہاے فیض کی حفاظت فرمائے اور ان کے تمام متعلقین کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔