ہمارے بعد اجالا نہ ہوگا محفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے
میری پیدایش ۱۹۷۳ء میں گکھڑ میں دادا جی کے گھر میں ہوئی تھی۔ ہم انہیں ابا جی کہتے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تک انہیں بہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ میرے ابو اس وقت جمعیت علماے اسلام میں سرگرم تھے اور سیاسی دوروں میں مصروفیت کی وجہ سے ہفتہ دس دن بعد ہی گھر آتے تھے، اس لیے گھر میں ہمارا زیادہ تر معاملہ دادا جی ہی کے ساتھ ہوتا تھا۔ پھر ہم جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ منتقل ہوگئے تو اس کے بعد کبھی کبھار ملاقات ہوتی۔ ہم گکھڑ جاتے رہتے۔ وہ بھی ہمارے گھر کئی بار آئے۔ میں ان کی سب سے بڑی پوتی ہوں اور اس ناتے سے ان کا جو پیار مجھے ملا، اسے کبھی بھلا نہیں سکوں گی۔
میں نے اپنے داداجی جیسا انسان زندگی میں نہیں دیکھا۔ انہو ں نے اپنی ساری زندگی بڑے نظم وضبط کے ساتھ گزاری ہے۔ ان کھانا پینا، سونا جاگنا، آناجانا، پڑھنا پڑھانا، ملنا ملانا، لکھنا پڑھنا حتیٰ کہ نہانا اور رفع حاجت کے لیے جانا بھی متعین وقت پر ہوتا تھا۔ سارے معمولات ایسے منضبط تھے کہ ان میں کبھی فرق نہیں آتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے وقت میں بڑی برکت رکھی تھی۔ جتنے کام وہ دن رات میں کر لیتے تھے، عام آدمی ان کے کرنے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ صبح کی نماز کے بعد وہ گکھڑ میں اپنی مسجد میں درس دیتے تھے۔ کبھی کبھار میری دادی جان مجھے بھی اپنے ساتھ مسجد میں درس سننے کے لیے ساتھ لے جاتیں۔ دادا جی کا درس سننے کے لیے کافی تعداد میں مرد تو ہوتے ہی تھے، لیکن عورتیں بھی ڈیڑھ دو سو کے قریب درس سننے کے لیے آتی تھیں۔ پھر وہ درس کے بعد گوجرانوالہ چلے جاتے۔ مدرسہ میں پڑھانے کے بعد دوپہر کو گھر واپس آ تے اور کھانا کھا کر آرام کرتے۔ تمام نمازیں وہ مسجد میں جا کر خود پڑھاتے تھے۔ گھر میں بچیوں کو ترجمہ قرآن وتفسیر اور کتابیں پڑھاتے۔ نارمل اسکول پید ل جا کر درس دیتے اور پیدل ہی واپس آتے۔ مطالعہ کرتے، کتابیں لکھتے، خطوں کے جواب دیتے، دم درود اور تعویذات کے لیے آنے و الے مردوں اور عورتوں کے لیے وقت نکالتے، ملنے ملانے والوں سے ملاقات کرتے اور بعض اوقات جلسوں وغیرہ میں بھی جاتے۔ اپنے گھر والوں کی ضروریات کادھیان رکھتے، ہر روز اپنی ڈائری لکھتے اور روز مرہ کا حساب کتاب پورا پورا درج کرتے۔ کیا اتنے کام پابندی سے اپنے وقت پر روزانہ انجام دینے کا کوئی شخص تصور کر سکتاہے؟ یہ انہی کی ہمت تھی اور اسی لیے اللہ پاک نے ان سے دین کا بہت کام لیا۔ دنیا کی کوئی جگہ ایسی نہیں ہوگی جہاں ان کے شاگرد نہ ہوں یا ان کی لکھی ہوئی کتابیں نہ پہنچی ہوں۔ لوگ جب ان تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ اللہ نے ان کی وجہ سے ہمیں بھی بہت ہی عزت عطا فرمائی ہے۔
دادا جی ریڈیو پر خبریں بھی سنتے تھے۔ عین وقت پر ریڈیو الماری سے نکالتے اور خبریں سننے کے بعد فوراً الماری میں رکھ دیتے۔ عشا کی نماز مسجد میں پڑھا کر واپس آتے ہی سو جاتے تھے، کیونکہ انہوں نے تہجد کے وقت اٹھنا ہوتا تھا۔ گرمی سردی میں صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے نہاتے تھے۔ اپنے بچوں کی تعلیم اوردینی تربیت، نماز کی پابندی کرانے اور ان سے باز پرس کرنے میں سختی سے بھی کام لیتے تھے۔ سارے بچوں کے ناخن خود تراشتے تھے اور بسا اوقات ان سے ناخن ترشواتے ہوئے خون نکل آتا تھا۔ جب میں اسکول میں داخل ہوئی تو ابھی چھوٹی عمر ہی کی تھی کہ مجھے برقع پہننے کاحکم دے دیا۔ مجھے یادہے کہ علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے اسکول ’’ حبیب کالج‘‘ میں ہر سال میں اپنی کلاس میں اول آتی رہی، لیکن برقع کی وجہ سے مجھے اسکول چھوڑنا پڑا، کیونکہ اتنی کم عمری میں برقع اسکول میں ایک مذاق بن جاتا۔ اسکول کی انتظامیہ نے بھی بہت کوشش کی کہ میں تعلیم جاری رکھوں، لیکن ایسانہ ہوسکا۔ پھر جب ۱۹۹۰ء میں میری شادی ہوئی تو میرا نکاح بھی میرے دادا جی نے ہی پڑھایا۔ بڑے داداجی ہماری طرف سے شریک تھے اور چھوٹے دادا جی (میرے سسر حضرت مولانا عبد الحمید سواتی) لڑکے والوں کی طرف سے شریک تھے۔ بڑے دادا جی نے مجھے جہیز میں بطو رخاص قر�آن کریم کی تفسیر عثمانی اور اپنی کتابیں دی تھیں۔
میں رخصت ہو کر جس گھر میں آئی، وہاں دادا جی روزانہ ہی تشریف لاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت بڑی نعمت سے نواز ا کہ دادا جی کے چھوٹے بھائی جو میرے سسر تھے، وہ میرے استاد بھی ہو گئے اور میں نے ان سے دینی تعلیم کا کافی نصاب پڑھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیاوی تعلیم کی جگہ دینی تعلیم سے نوازا ۔ کسی وقت یقین نہیں آتا کہ میں جامعہ نصرۃ العلوم للبنات کے شعبہ طالبات میں پڑھانے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس میں میرے دادا جی کی دعاؤں کا بڑا حصہ ہے، البتہ مجھے اس با ت کا بے حد افسوس رہے گا کہ میں دادا جی سے براہ راست کچھ پڑھ نہیں سکی جو میرے لیے بہت بڑا شرف ہوتا۔
وہ میرے بچوں کو بھی بہت پیار کرتے تھے۔ جب بھی ملتے، ان کو چومتے اور ڈھیروں دعائیں دیتے۔ جب ہم گکھڑ ان سے ملنے جاتے تو ہمارے ساتھ خوب دل لگی کرتے۔ ہمیں واپس نہ آنے دیتے او ررات وہاں رہنے کے لیے اصرار کرتے۔ گھر والوں سے پر تکلف کھانا بنانے کو کہتے۔ کچھ عرصہ پہلے جب میں اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ ان سے ملنے کے لیے گکھڑ گئی تو اس دن ان کی طبیعت بڑی ہشاش بشاش تھی۔ خوب ہنسی مزاح فرمایا۔ اس دن انہوں نے بہت اصرار کیا کہ ہم وہیں ٹھہر جائیں۔ ہمارا جی بھی چاہ رہا تھا کہ آج ان کی طبیعت بہت اچھی ہے، چلو ٹھہر جاتے ہیں، لیکن پھر بچوں کے اسکول اور مدرسہ کی تعلیم کا حرج ہونے کا عذر پیش کیا تو انہوں نے واپس جانے کی اجازت دے دی۔ اس وقت رات کے پونے نو بج رہے تھے۔ ہم نے ساری زندگی انہیں عینک پہنے ہی دیکھا تھا، لیکن دونوں آنکھوں کے آپریشن کے بعدا نہوں نے لینز ڈلوا لیے تھے، اس لیے وہ آخری سالوں میں وہ عینک نہیں پہنتے تھے۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ اباجی! آپ کو وہ سامنے دیوار پر گھڑی نظر آ رہی ہے؟ تو فرمانے لگے، ہاں۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ اس وقت کیا ٹائم ہواہے تو مزاح میں فرمانے لگے: ’’نونے پوں‘‘ (پونے نو)۔ یہ ان کی ہماری ساتھ خوش طبعی تھی۔ پھر میرے بچوں کوبوسہ دیا۔ ان کے لیے اکثر وہ یہ دعا فرماتے تھے کہ اللہ انھیں حافظ، عالم باعمل بنائے اور اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین ثم آمین۔
اپنی وفات سے تقریباً ایک ماہ پہلے وہ گوجرانوالہ آئے تو میرے چچا قارن صاحب کے گھر ایک ہفتہ رہے۔ جب میں انہیں ملنے کے لیے گئی تو سوئے ہوئے تھے۔ جب بیدار ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھے پہچانا ہے کہ میں کون ہوں؟ پہلے کہنے لگے کہ نہیں۔ میں سمجھی کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے یا شاید سو کر اٹھے ہیں، اس لیے پہچا ن نہیں رہے، لیکن وہ خوش طبعی فرما رہے تھے۔ میں نے دوبارہ پوچھاکہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں کہ میں کون ہوں تو میرے منہ پر ہاتھ پھیر کر فرمانے لگے کہ ’’میری سعدیہ ہے‘‘۔ ان کی یہ ادا اب بھی یادکرتی ہوں تو ان کا پیار اور محبت یا د آتی ہے۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔
افسوس کہ ہمارے دونوں بزرگ یکے بعد دیگرے بہت کم وقفے سے ہم سے جد اہو گئے۔ اب صرف ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔ ان کی برکات، دعاؤں اور شفقتوں سے ہم محروم ہوگئے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کوقبو ل فرمائے، ان کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اورہم سے بھی ان کی طرح دین کا کام لیتا رہے۔ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلائے اور ہم سب کاایمان پر خاتمہ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔