دنیا کے شب روزمیں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں کہ انسان کے پاس کسی کی صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ جانے والے کی باتیں، لب ولہجہ اور انداز شفقت ومحبت ہمیشہ کے لیے دل میں نقش بن کر رہ جاتی ہیں۔ کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان بھول جانے کی کوشش کرتاہے اور کچھ یادیں ایسی خوبصورت اور حسین وپرکشش کہ انسان انھیں ہمیشہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ ایسی ہی کچھ یادیں ہمارے دادا جی حضرت مولانا سرفرازخان صفدر ؒ کی ہیں جو اس دنیاے فانی کی فضاؤں کو توحید وسنت کی خوشبو سے معطر کر کے اپنے رب کریم کے دربار میں سرخرو ہو چکے ہیں۔
ہم سب گھروالے خوش نصیب ہیں کہ علالت کے ایام میں حضرت داداجیؒ کی خدمت کا دوبار موقع ملا۔ ویسے تو ہمارے گھر حضرت داداجی ؒ کی تشریف آوری ان گنت دفعہ ہوئی، مگر بیمار ہونے کے بعد صرف دودفعہ تشریف لائے۔ پہلی دفعہ آمد کے موقع پر ہمیں چند دن پہلے سے علم تھا کہ حضرت تشریف لانے والے ہیں، چنانچہ ہم نے مہمانوں کی حضرت سے ملاقات اور داداجی ؒ کے بیٹھنے کے لیے چارپائی وغیرہ کے تمام انتظامات پہلے ہی مکمل کر رکھے تھے۔ حضرت دادا جی ؒ تشریف لائے تو
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
کی کیفیت تھی۔ مجھ نالائق کو بھی حضرت دادا جی ؒ کی خدمت کا پورا موقع ملا۔ ان دنوں حضرت داداجیؒ کے ہاتھوں میں سوجن تھی۔ ہم نے ہاتھوں کی ورزش کے لیے ایک گیند انھیں دی۔ حضر ت گیند کو پکڑ کر اسے دبانے لگے۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد مسکراتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونا دے کر بہلایا گیا ہوں
ایک اور شعر حضرت داداجی ؒ اپنی آل اولاد کے لیے کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
جب کوئی حضرت داداجی کا جسم دباتا تو حضرت دعا دیتے، بلکہ ان کی کوئی بھی خدمت کی جاتی تو دعا ضرور دیتے تھے۔ بعض اوقات ویسے ہی لیٹے لیٹے ہاتھ اٹھاتے اور کہتے کہ یا اللہ ان بچوں کو عالم فاضل، باعمل اور دین کا خادم بنا۔ ایک دن میں نے دادا جی سے کہا کہ میرے لیے دعا کریں۔ حضرت داداجی ؒ فرمانے لگے کہ جب تک عمل نہ کیا جائے، اس وقت دعاؤں کا کوئی فائدہ نہیں ۔
بیماری کے دوران دوسر ی دفعہ ۲۴؍فروری ۲۰۰۹ء بروزمنگل حضرت داداجیؒ ہمارے گھر آئے۔ اس مرتبہ حضرت کی طبیعت کچھ زیادہ خراب تھی۔ ہم گھروالوں نے یہ اہتمام کیا کہ حضرت داداجی ؒ کے پاس گھر کا کوئی نہ کوئی فرد موجود رہتا اور باتوں سے ان کا جی بہلائے رکھتا۔ حضرت والد محترم عربی میں کوئی نہ کوئی کتاب حضرت کو سناتے اور مولانا نصرالدین عمر، جو میرے بڑے بھائی ہیں، ان کی اہلیہ کو پہلی دفعہ حضرت داداجی ؒ کی خدمت کا موقع ملا۔ بھابھی جی نے حضرت داداجی ؒ کو ’’۳۱۳ روشن ستارے‘‘ اور ’’فغان کلیم‘‘ جو شاعری کی کتاب ہے، پڑھ کرسنائی۔ اس کے علاوہ روزانہ صبح حضرت داداجی ؒ کی فرمایش پر اخبار سناتی رہیں۔
۲۷ تاریخ بروز جمعۃالمبارک فیصل آبادسے ایک شیخ الحدیث صاحب ملاقات تشریف لائے تو داد جی نے ان سے صحابی رسول مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا اصل نام پوچھا۔ وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکے اور حضرت والدمحترم نے اس کا جواب دیا۔ حضرت داداجی سے دینی معلومات پر جب کوئی بات ہوتی تو ان کا حافظہ پوری طرح کام کر رہا ہوتا، لیکن دنیاوی معلومات سے متعلق کوئی بات پوچھی جاتی تو وہ ؒ اپنا سر پکڑ لیتے اور کہتے کہ میری یادداشت کام نہیں کرتی۔
میرا بھتیجا حنظلہ اور بھتیجی عفیفہ خوش نصیب ہیں کہ حضرت نے انھیں اپنی گود میں بٹھا کر بوسے دیے۔ میری بھتیجی حضرت داداجی ؒ کی پہلی پڑپوتی ہے ۔ حضرت داداجی ؒ کو پانی پلانے کے بعد جو پانی بچ جاتا تو پلانے والے کی کوشش ہوتی کہ وہ سارا بچا ہو اخود ہی پی جائے، کیونکہ ہر ایک کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ حضرت کا تبرک اسے مل جائے۔ حضرت داداجی ؒ کا سر اور پاؤں دبانے اور بار بار حضرت کو بوسہ دینے کا موقع ملتا رہتا تھا۔
اسی موقع پر حضرت داداجی ؒ نے والد محترم کی فرمایش پر مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورہ حدیث کے طلبہ کو گھر بلا کر اپنی زندگی میں بخاری شریف کا آخری سبق پڑھایا۔ اس آخری درس میں شریک ہونے والے خوش نصیبوں میں میرے بھائی عبدالوکیل مغیرہ اور حبیب القدوس معاویہ اورا ن کے ساتھی نوید، شہباز، خالد اور سرفراز بھی شامل ہیں۔ جس دن حضرت داداجی ؒ نے واپس گکھڑ جانا تھا، اس روز سب نے حضرت سے دوبارہ آنے کی درخواست کی تو حضرت فرمانے لگے کہ جب عفیفہ چلنے لگے گی، تب آؤں گا۔ میرا بھتیجا حنظلہ دادا جی کے پاس جاکر کہنے لگا کہ میں دروازے کے آگے ڈبے کھڑے کر کے آپ کو جانے نہیں دوں گا۔ پھر دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر کہنے لگا کہ میں ایسے کھڑا ہوجاؤں گا تو آپ کیسے جائیں گے؟ حضرت داداجی ؒ حنظلہ کی یہ حرکات بڑے غور سے دیکھ کر مسکراتے رہے۔ میں نے حضرت داداجی ؒ کا آخری بوسہ لیا اور وہ ہمارے گھر سے رخصت ہوئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت داداجی ؒ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔