حکیم العصر، شیخ وقت اور محبوب سبحانی
کہ ہم عصروں میں اب تک کوئی بھی تیرا نہیں ثانی
کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤگے ایسا پیکر خاکی
کہاں سے پاؤگے تم یادگار شیخ الوانی
تجھے استاذ کل کہتے تھے عالم اس زمانے کے
تجھی کو مانتے تھے جانشین شیخ الوانی
تیرے دریوزہ گر ٹھہرے محدث اس زمانے کے
تیرے علم وعمل کے خوشہ چیں تھے سارے افغانی
تیرے تقویٰ طہارت کی قسم کھائی زمانے نے
تیرے زہد وورع پر رشک کرتی عقل انسانی
تیرے اس میکدہ سے پی شراب معرفت جس نے
ہوئی حاصل شفا ے کاملہ اور ذوق عرفانی
بفضل اللہ یہ دیکھا قلب بینا سے عجب جلوہ
جبیں سجدہ سے تا عرش بریں اک تار نورانی
تیرے ہی فیض کے آثار تھے سایہ فگن ہر سو
تیری ہی ذات بابرکات سے عالم میں تابانی
ذہانت اور فطانت دست بستہ حاضر خدمت
فقاہت نطق کے لیتی تھی بوسے تیرے وجدانی
خداے لم یزل نے تجھ کو بخشا کیف احسانی
تیرا دور حیات جاوداں صد رشک خاقانی
تیری ہی ذات تھی دور فتن میں نعمت عظمی
تیری ہی ذات تھی ظلمت کدہ میں شمع نورانی
تیری مجلس میں کھلتے تھے عجب اسرار پنہانی
تیرا سینہ تھا گنجینہ شرح آیات قرآنی
کروں کیسے بیاں تیری اداے ناز کا صفدرؒ
تواضع، مسکنت، عجز ووفا اور خندہ پیشانی
خدا آباد رکھے میکدہ ترا سدا ساقی
یونہی آتے رہیں پینے کو میکش جام عرفانی
خدایا خاندان قاسمی کو فضل سے اپنے
عطا کر عافیت دارین اور نعمت کی ارزانی