اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے بطل جلیل پیدا فرمائے جنہوں نے نہ صرف سنت و بدعت میں امتیاز کو نمایاں کیا بلکہ سنت کے نور کو بدعت کی ظلمت پرغالب کرنے کے لیے نامساعد حالات کے باوجود سرگرم کردار ادا کیا تاکہ دین کا نورانی چہرہ شرک و بدعت کی آلائشوں سے داغ دار نہ ہونے پائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے خانوادے کا یہ اعزاز ہے کہ اس نے ہندوستان میں سنت کے دائرے سے خرافات کے اخراج میں قائدانہ کردار ادا کیا جسے دارالعلوم دیو بند کے بیٹوں اور اس کے فضلا نے آگے بڑھایا۔ شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بزرگوں مولانا قاسم نانوتوی، ؒ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کے کام کو نئے اسلوب سے آگے بڑھانے اور بدعت کے تاروپود بکھیرنے کا جو کام سونپا، اسے حجت و برہان کی کمک اور محققانہ انداز بیان نے منفرد بنا دیا۔
آپ نے ’’راہ سنت‘‘ میں سنت اور بدعت کی تفریق واضح کرنے کے لیے متانت، سلاست اور لطافت سے حجت قائم کی ۔ جذباتیت، اشتعال اور درشت کلامی کا عنصر ڈھونڈے نہیں ملتا۔ قرآنی آیات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات اور اسلاف کی عبارات سے ایسے نکات سامنے لائے جو آپ جیسے محقق کے علاوہ کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔ تحریر میں سب سے اب اہم بات یہ ہے کہ محققانہ انداز ہونے کے باوجود جس طرح خواص اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی طرح عوام بھی فیض یاب ہوتے ہیں ۔
حضرت شیخ ؒ کی تصنیف لطیف ’’راہ سنت‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے۔ ’’عرض حال ‘‘ سے خاتمہ تک جو چیز بھی لکھی گئی، وہ دلائل اور مکمل حوالہ جات کے ساتھ ہے۔ نہ اس میں قطع و برید کی گئی ہے اور نہ دوسروں کی عبارات سے مطلب کے الفاظ لے کر دشنام طرازی کی گئی ہے۔
باب اول میں کتاب اللہ کی ہمہ گیر صداقت، سنت کی جمیت، اجماع امت اور تعامل خیرالقرون کے حجت ہونے کا ثبوت دیا اور اس پر ہونے والے ایک ایک اعتراض کو نقل کرنے کے بعد اس کا مسکت جواب دیا ہے۔
باب دوم میں بدعت کی لغوی و شرعی اقسام و احکام، احادیث سے بدعت کی تردید اور بدعت حسنہ اور سیۂ کی تحقیق جیسے مباحث پر مشتمل ہے۔
باب سوم میں ’’بدعت کے جواز کے دلائل پر ایک نظر‘‘ کے عنوان کے تحت فریق مخالف کی بنیادی دلیل ’’اصل اشیا میں اباحت‘‘ کے جواب میں دلائل کے انبار لگا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ کسی مباح کی اباحت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ بعض نے اصل اشیا میں اباحت تسلیم کی ہے، لیکن جمہور کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ حضرت علی، ائمہ اربعہ، اہل بیت، کوفہ کے فقہا و محدثین اور خاص طور پر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ اصل اشیا میں حرمت کے قائل ہیں اور باقی جمہور اصل اشیا میں توقف کے قائل ہیں بلکہ صاحب در مختار نے صاف لکھا ہے کہ ’’ اہل سنت والجماعت کا صحیح مذہب یہ ہے کہ اصل اشیا میں توقف ہے اور اباحت کا قول معتزلہ کا خیال اور راے ہے‘‘۔
باب چہارم میں ’’عبادات میں اپنی طر ف سے اوقات اور کیفیات کا تعین کرنا بدعت ہے‘‘ کے عنوان کے تحت فرمایا کہ ضروری نہیں کہ کوئی چیز اصل ہی میں بری ہو تو وہ بدعت ہوگی بلکہ وہ اہم طاعات اور عبادات بھی جن کو شریعت نے مطلق چھوڑ ا ہے، ان میں اپنی طرف سے قیود لگا دینا یا ان کی کیفیت بدل دینا یا اپنی طرف سے اوقات کے ساتھ متعین کر دینا، یہ بھی شریعت کی اصطلاح میں بدعت ہو گی۔ پھر حضرت ابوہریرہؓ کی اس روایت کو اپنے موقف کے حق میں پیش فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جمعہ کی رات کو دوسری راتوں سے نماز اور قیام کے لیے خاص نہ کرو اور جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں سے روزہ کے لیے خاص نہ کرو، مگر ہاں اگر کوئی شخص روزے رکھتا ہے اورجمعہ کا دن بھی اس میں آجائے توالگ بات ہے۔‘‘
پھر علامہ ابو اسحاق شاطبی کی الاعتصام، حافظ ابن دقیق العید کی احکام الاحکام، حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی حجۃ اللہ البالغہ، علامہ زین العابدین کی البحرالرائق اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مکتوبات سے اپنے دعوے کا اثبات فرماتے ہوئے حضرات صحابہ کرامؓ کا ایسی کیفیات اور ہیئات کی تعیین کے متعلق جو فیصلہ ہے، اس کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ پھر بدعت کی تردید کے عقلی دلائل دے کر سنت اور بدعت کے مقام کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سنت کو اگر اصلی شکل میں محفوظ رکھا جائے تووہ قیمتی موتی ہے اور اس کی قیمت دنیا و ما فیا کے خزانے بھی ادا نہیں کر سکتے۔
باب پنجم میں ’’کیا بدعات میں بھی کوئی خوبی بھی ہوتی ہے اور ان پر دلائل بھی پیش کیے جا سکتے ہیں؟‘‘ کے عنوان کے تحت واضح کیا کہ بدعات کی ایجاد میں محاسن اور خوبیوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور اس کی ترویج کے لیے دلائل بھی تراشے گئے، جیسے مشرکین مکہ نے شرک جیسے قبیح فعل کو مستحسن ثابت کرنے کے لیے تقرب الٰہی کے خوش کن الفاظ کا سہارا لیا اور مرد وزن کے برہن ہو کر طواف کعبہ کرنے کی یہ دلیل دی کہ ہم کپڑوں میں گناہ کرتے ہیں تو ان میں اللہ کے پاک گھر کا طواف کیسے کریں؟ لیکن فتح مکہ کے بعد صدیوں کی اس بدعت کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتمہ کر دیا۔ اسی طرح ہر مبتدع اپنی بدعت پر کسی شرعی دلیل سے استشہاد کرتا ہے اور اس طریقے سے وہ اسے اپنی عقل اور خواہش کے مطابق بنا لیتا ہے۔ اس غلط استشہاد کی بنا پر کسی بدعت کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ قرآن وحدیث کا صحیح مفہوم وہی ہوگا جو حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین ؒ نے سمجھا۔
باب ششم میں ’’سنت اور بدعت میں اشتباہ ہو تو کیا کرنا چاہیے‘‘ کی بحث میں آپ نے براہین قاطعہ سے ثابت کیا کہ جس کا م کے بدعت اور سنت ہونے میں شبہ ہو، اس کو چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
باب ہفتم میں فرداً فرداً تمام بدعات پر بحث کرتے ہوئے محفل میلاد کی تاریخ، میلاد میں قیام، ایصال ثواب کے لیے ربیع الاول کی تعیین، عرس، ذکر بالجہر، مزارات کی پختگی اور ان پر گنبد کی تعمیر، قبروں پر چراغاں کرنا، چادریں ڈالنا اور پھول چڑھانا، قبروں کی مجاوری، نماز جنازہ کے بعد دعا، قبر پر اذان دینا، انگوٹھے چومنا، کفنی یا الفی لکھنے، تلاوت قرآن پر اجرت، ایصال ثواب کے لیے دنوں کی تعیین، میت کے گھر اجتماع اور کھانا پکانا، تیجہ دسواں اور چالیسواں، کھانے پر ختم، چٹائی اور پھوڑی بچھانا، حیلہ اسقاط، دوران قرآن، عبدالنبی اور عبدالرسول نام رکھنا وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ یہ باب ۱۳۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک ایک چیز کو کھول کر بیان کیا گیا اور فریق مخالف کے اعتراضات نقل کرکے ان کا جواب دیا گیا ہے۔ آخری چودہ صفحات کے خاتمے میں فریق مخالف کے گیارہ الزامی جوابات و اعتراضات اور ان کا جواب دے کر سنت اور بدعت کے حوالہ سے کی جانے والی بحث کو مکمل فرمایا۔
امام اہل سنت نے اپنی پوری زندگی سنت کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کیے رکھی۔ ہر چھوٹے بڑے فتنے کے خلاف قلم اٹھایا اور جس موضوع پر بحث کی، اس کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا۔ دلائل و براہین قاطعہ کے ہتھیار کو استعمال کیا۔ دشنام یا جذباتیت سے کام لینے کے بجائے اپنے اکابر کی اعلیٰ اقدار و روایات کے مطابق اعتدال و استدلال کا ایسا رنگ اپنایا کہ مخالف کو بھی قائل کر لیا ۔ حضرت شیخ نے اسلوب تحریر میں اپنے عہد کی نزاکتوں کو بھی ملحوظ رکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مصداق کہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات کرو، اپنا فرض بخوبی نبھایا۔