احقر نے ۱۹۸۶ء یا ۱۹۸۷ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورہ تفسیر کے لیے داخلہ لیا۔ اس وقت حضرت مولانا عبدالقدوس قارن ناظم مدرسہ تھے۔ امام مسجد بھی وہی تھے۔ سب سے پہلے دارالاقامہ کی مشرقی جانب دوسری منزل پر ایک کمرہ کلاس روم کے طور پر تجویز ہوا۔ تعداد زیا دہ ہونے پر مسجد کے برآمد ہ میں کلاس ہونے لگی۔ طلبہ کی بکثرت آمدکی وجہ سے کلاس مسجد کی دوسری منزل پر منتقل ہوگئی اور دورہ تفسیر کے اختتام تک وہیں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ ایک دن دارالاقامہ کی دوسری منزل پر واقع درسگاہ میں جاری تھا کہ کوئی خاتون بچے کو اٹھائے ہوئے وہاں پہنچ گئی کہ بچہ کو دم کرانا ہے۔ حضرت نے معذرت کی، لیکن اس نے ٹلنے کا نام نہ لیا تو اسے اندر بلاکر بچے کو دم کر دیا۔ فرمایا کہ حرف علت کو اندر بلاؤ۔ بعد ازاں فرمانے لگے جس نے سبق میں خلل ڈال دیا ہے، میں اسے حرف علت نہ کہوں تو کیا کہوں!
ہم طلبہ سے حضرت شیخ کبھی کبھی دل لگی فرما لیتے تھے۔ مسجد کے برآمد ہ میں جب کلاس لگتی تھی تو احقر آپ کے بالکل سامنے پہلی صف میں بیٹھتا تھا۔ ایک دن آپ جنات کا تذکر ہ فرما رہے تھے کہ وہ انسانی شکل میں آکر پڑھتے بھی ہیں۔ پھر اچانک میر ی طرف ہاتھ کا اشارہ کر کے فرمانے لگے، مولانا آپ کہیں جنات میں سے تو نہیں ہیں؟ اس پر طلبہ نے ایک قہقہہ لگایا اور سبق کی تھکاوٹ دور ہوگئی۔ بعض ساتھی کئی دن تک احقر کو جن کہہ کر پکارتے رہے۔ ڈیڑھ پو نے دوماہ کے اس عرصے میں مجھے متعدد بار حضرت کے جوتے اٹھانے اور بدن دبانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
ایک بار کوئی صاحب حضرت شیخ سے تاریخ لینے کے لیے آئے اور سفارش کے طور پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کو ساتھ لائے۔ سبق ختم ہوا تو انہوں نے مدعا عرض کیا۔ حضرت نے فرمایا: سوچ بھی نہیں سکتا۔ شعبان رمضان میں اتنی مصروفیت ہوتی ہے کہ کھانسی بھی آئے تو روک لیتا ہوں کہ شوال میں کھانسوں گا۔
احقر سمیت متعدد طلبہ ایسے تھے جنھوں نے حضرت شیخ الحد یث ؒ اور حضرت صوفی عبدالحمید خان سواتی کی پہلی مرتبہ زیارت کی تھی۔ دونوں حضرات جب اکٹھے کھڑے محو گفتگو ہوتے تھے تو وہ عجب پر بہا ر نظارہ ہوتا تھا۔ ہمارے لیے دور سے تمیز کرنا مشکل ہوتا تھا کہ شیخ صاحب کون سے ہیں اور صوفی صاحب کون سے!
کم از کم چار بار گکھڑمنڈی حضرت کی زیارت کے لیے حاضری کا موقع ملا۔ ایک بار آپ کے پیچھے نماز جمعہ بھی ادا کی۔ آپ پٹھان ہونے کے باوجود پنجابی زبان میں تقریر کرتے ہوئے بہت بھلے لگتے تھے۔ اس تقریر میں آپ نے ایک واقعہ سنایا کہ میرے پاس ایک صاحب آئے اور علیحدگی میں بات کر نا چاہی، لیکن خاموش ہو کر رہ گئے۔ میں نے کہا کہ میر ی مصروفیت کا خیال کرو اور اپنی بات کہو تو اس نے کہا کہ میری کنواری لڑکی امید سے ہے۔ میں نے کہا کہ کتے کا جھوٹا کتاہی کھاتا ہے۔ جس کا حمل ہے، اسی کے ساتھ بیاہ کر دو۔ وہ زار وقطار رونے لگا کہ بیاہ کیسے کردوں، اس کے سگے بھائی نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔
ایک بار اپنے ایک ہم سبق کے ساتھ حاضر خدمت ہوا تو نماز عصر کا وقت قریب تھا۔ ہم نے اجازت چاہی۔ خیال تھا کہ نماز گوجرانوالہ جاکر پڑھ لیں گے۔ حضرت نے نماز باجماعت پڑھے بغیر جانے کی اجازت نہ دی۔ نماز کے بعد مسجد ہی میں الوداعی مصافحہ کی کوشش کی تو فرمایا کہ مسجد سے باہر نکل کر ملیں گے۔ باہر نکل کر دوتین منٹ بات چیت کی، پھر معا نقہ کیا اور جانے کی اجازت دی۔ احقر کو یاد پڑتا ہے کہ فاتحہ خلف الاما م کے موضوع پر ایک ضخیم قلمی مسودہ بھی میں نے حضرت کو ہدیہ کیا تھا۔ اس کے مصنف کا نام یاد نہیں رہا۔ آپ خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ اب طبع ہوچکاہے اور اس بزرگ کے پوتے پرسوں آکر مجھے ایک نسخہ دے گئے ہیں۔
آپ نے دورہ تفسیر کے اختتام پر کئی نصیحتیں فرمائی تھیں جن میں سے ایک نصیحت یاد ہے۔ فرمایا کہ یہ مت سمجھنا کہ باہر نکلوگے تو تمہیں بنا بنایا ماحول مل جائے گا۔ ہرگز نہیں، تمہیں اپنا ماحول خود بنانا پڑے گا۔ ایک بار گکھڑمنڈی حاضری کے موقعہ پر نصیحت کی درخوا ست کی تو فرمایا کہ جو پڑھو، مطالعہ کر کے پڑھو اور جو پڑھاؤ، مطالعہ کر کے پڑھاؤ۔
ایک بار رمحترم قاری حمادالزہراوی کی وساطت سے حضرت امام اہل سنت کی زیارت کا موقع ملا۔ قاری صاحب نے دورہ تفسیر کی کلاس سے گفتگو کے لیے حاضر ی کا حکم دیا تھا۔ حضرت شیخ کی معذوری کا عالم دیکھ کر دل کو شدید دھچکا لگا۔ رنجیدہ دلی کے ساتھ واپس لوٹا۔
اس میں شک نہیں کہ حضرت شیخ الحدیث ؒ ایک ہمہ جہت اور نا بغہ عصر شخصیت تھے۔ آپ نے مختلف علمی ودعوتی کاموں کو اپنا یا اور ہر شعبہ میں اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے ۔کئی لوگ آکاس بیل کی مانند ہوتے ہیں کہ ان کے زیر سایہ کوئی ترقی نہیں کر سکتا۔ حضرت شیخ الحدیث کے متعلق بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک شجر سایہ دار تھے۔ آپ کے زیر سایہ ہزاروں علما وطلبہ نے دینی تعلیمات سیکھیں، اپنائیں اور لوگوں تک مو ثر طریقہ سے پہنچائیں۔ آپ نے عقائد باطلہ کی تر دید میں بڑی حکمت عملی سے کام کیا۔ تحر یر وتقریر اور بحث مباحثہ کے ذریعہ لوگوں کے شکوک وشبہات دور کیے اور دین اسلام اور مسلک دیوبند کی حقانیت آشکاراکی۔ حضرت شیخ الحدیث کی شخصیت کے موثر اور مقبول عام ہونے کی وجوہ احقر کے خیال کے مطابق یہ ہیں :
(۱) آپ نے ساٹھ سال سے زائد عرصہ قرآن وحدیث کی بے لوث خدمت کی۔ آپ نے علماے سو کی طرح دین کی آڑ میں دنیا اکٹھی نہیں کی۔ بقول حفیظ جالندھری :
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں
(۲) آپ نے مسلک حق کی تعبیر وتشریح موثر انداز میں کی۔ آپ کو اپنے دور کا سب سے بڑا مسلکی ترجمان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔
(۳) آپ علم وعمل کی جامیعت رکھتے تھے۔ علم وعمل کی جامعیت ایک ایسا سدا بہار پھول ہے جو لوگوں کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اگرچہ جہالت عام ہے، لیکن اس کے باوجود علم وعمل کی جامعیت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ایسے حضرات کے اردگرد لوگ اس طرح جمع ہوتے ہیں جیسے شمع کے گردپروانے ۔
(۴) آپ نے کبھی دوسرے مسلک کے رہنماؤں کی طرف غلط باتیں منسوب نہیں کیں اور ان پر کیچڑ نہیں اچھالا۔ تحر یر وتقریر میں مکمل ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مخالفین بھی حضرت کی شخصیت کا احترام کرتے تھے۔
حضرت امام اہل سنت کے نام لیواؤں، عقیدت مندوں اور شاگردوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف اس پر نازاں نہ رہیں کہ حضرت شیخ الحدیث نے کافی کا م کر دیا ہے اور یہ سمجھیں کہ اب ہمیں بدعات ورسومات کے خلاف کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرخدا نخواستہ یہ سمجھاگیا تو محض پدرم سلطان بودوالی بات ہوگی۔ خطابت ومباحثات اور تحریروں میں ذمہ دارانہ اور عالمانہ طرز عمل اختیار کیا جائے۔ بد قسمتی سے سر یلی اور جوشیلی تقریر وں کا ایسا رواج پڑگیا ہے کہ خطبا بھی عوام کا صرف چسکا پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام بھی سریلے پن یا جوشیلے پن کے معیار پر ہی علما کو پر کھتے ہیں۔ حضرت امام اہل سنت کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہونی چاہیے اور ہماری خطابت کا مرکز ومحور قرآن وسنت، سیرت طیبہ، سیرت صحابہ، سیر ت اولیا اور شرک وبدعت کا رد ہونا چاہیے۔ حضرت شیخ کی تعلیمات سے یہ سبق ملتاہے کہ ہم عقائد واعمال میں ماانا علیہ واصحابی کا طرز اختیار کر یں، جمہور کی پیروی کریں اور تفردات کے پیچھے نہ دوڑیں۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے دروس کے حلقے زیادہ سے زیادہ قائم کرنے کی ضرروت ہے جہاں ادع الیٰ سبیل بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن کے مطابق عمل کرتے ہوئے اصلاح عقائد اور اصلاح اعمال کی مسلسل کوشش کی جائے۔ حضرت شیخ الحدیث کی عقیدت مندی کا تقاضا یہی ہے۔
حضرت شیخ الحدیث اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ باری باری سب نے چلے جانا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آفتاب وماہتاب بن کر چلتے ہیں، دین اسلام کی سر بلندی کا جھنڈا لے کر نکلتے ہیں، قرآن وحد یث کی تعلیمات کو عام کرتے ہیں، تمام دنیا میں اپنا فیض پہنچاتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ بھی اسی گروہ باصفا کے اہم رکن تھے۔ ان کی یادوں کے چراغ جلتے رہے ہیں اور جلتے رہیں گے۔ آپ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت تھے کہ بے شمار روحانی اولاد (تلامذہ) کے علاوہ آپ کی حقیقی اولاد بھی دین اسلام کی خدمت میں مصروف ہے۔ خصوصاً مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبدا لقدوس خان قارن اور مولانا عبدالحق خان بشیر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ مولانا عمار خان ناصر بھی اپنی الگ علمی پہچان رکھتے ہیں۔ یہ سب حضرات الباقیات الصالحات کا بہترین مصداق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب حضرات کی خدمات کو قبول فرمائیں اور ہم سب کو حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دیں، آمین۔