۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء ہمارے خاندان پر بہت بھاری گزرا ہے ،اور ہمارا خاندا ن صحیح معنوں میں یتیم ہو گیا ہے۔ ۶؍اپریل ۲۰۰۸ء بروز اتوار میرے سُسر مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی کا انتقال ہوا، یکم مارچ ۲۰۰۹ء بروز اتوار والد محترم حضرت مولانا قاری خبیب احمد عمر جہلمی دنیا سے رخصت ہو گئے، اور ۵؍ مئی ۲۰۰۹ء بروز منگل محترم نانا جان امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔
آج محترم نانا جان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو ذہن میں بہت سی باتیں ابھر آئیں جو اب ہمارے لیے صرف یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ بچپن میں جب ہم چھٹیوں میں ننھیال آیا کرتے تھے تو ماموں ا ور خالائیں سب جمع ہوتے تھے اور گھر میں عید کا سماں ہوتا تھا۔ نانا جان کے گھر میں معمول تھا کہ شام کو دال چاول ہی پکتے تھے۔ دونوں نانی امی اور ممانیاں کھانا بناتی تھیں اور بچوں کو جو کہ ماشاء اللہ کافی تعداد میں ہوتے تھے، ایک پرات میں دال چاول ڈال کر دے دیتیں اور سب بچے اسی پرات میں کھانا کھاتے تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں نانا جان کے گھر کھانا کھانے کا چمچ کبھی نہیں دیکھا۔ خود بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہاتھ سے چاول کھاتے اور گھر والوں کو بھی ہاتھ کے ساتھ کھانے کی تلقین کرتے تھے۔ بچپن میں ہم سب بچے نانا جان کے کمرے میں ان کی چارپائی کے اردگرد جمع ہوتے، ان کو دباتے اور نانا جان ہم سے باتیں کرتے اور ہنسی مذاق کیا کرتے تھے۔ میں اور میری خالہ زاد جو میری ہم عمر ہے، ہم دونوں اکٹھے جب بھی نانا جان کے پاس بیٹھتے تو نانا جان کا یہ سوال ہوتا کہ تم دونوں میں سے دِدّے (بڑی) کون ہے اور مِنی کون ہے؟ جمعہ کے دن ان کا معمول تھا کہ ناخن تراشتے اور استرے سے سر منڈواتے تھے۔ اسی طرح گھر میں موجود سب لڑکوں کی ٹنڈ کرواتے اور لڑکیوں کے ناخن چیک کر کے جس کے ناخن ذرا سے بھی بڑھے ہوتے، اس کے ناخن خود کاٹتے۔
جب میں بہت چھوٹی تھی تو ایک دفعہ نانا ابو جہلم تشریف لائے۔ دونوں نانی امی بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ میری امی نے مجھے قرآن پاک کی سورتیں زبانی یاد کروائی ہوئی تھی۔ چھوٹی نانی امی نانا ابو سے کہنے لگیں کہ اپنی نواسی سے سورتیں سنیں۔ نانا ابو نے مجھے سنانے کو کہا اور میں نے سورتیں سنانا شروع کیں تو نانا ابو مجھے گول گول گھما کر کچھ دیکھنے لگے۔ نانی امی نے پوچھا کہ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ ڈھونڈ رہا ہوں اس ٹیپ کا بٹن کہاں ہے۔
ان کی گفتگو زیادہ تر علمی ہوتی تھی۔ پوچھتے تھے کہ کون سی کلاس میں پڑھتی ہو، کون کون سی کتاب پڑھتی ہو، اور فلاں کتاب کے مصنف کا کیا نام ہے وغیرہ۔ شادی کے بعد جب بھی میں جاتی تو نانا ابو یہ پوچھتے کہ پڑھانا شروع کیا ہے یا نہیں؟ میں کہتی کہ ابھی شروع نہیں کیا تو کہتے کہ پڑھانا شروع کرو اور جو علم حاصل کیا ہے، اسے آگے پھیلاؤ۔ جب میں نے پڑھانا شروع کیا اور انھیں بتایا تو پوچھنے لگے کہ کون کون سی کتابیں پڑھاتی ہو؟ میں نے کتابوں کے نام بتائے تو پوچھا کہ قصص النبیین کے مصنف کا کیا نام ہے؟ نانا ابو کے غیر متوقع سوال سے میں بوکھلا گئی اور میرے ذہن سے مصنف ؒ کا نام نکل گیا۔ میں کبھی حسینی کہتی اور کبھی ندوی، جبکہ مصنف کا اصل نا م مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ تھا۔ نانا ابو کا یہ سوال بھی ضرور ہوتا تھا کہ اسکول کتنا پڑھی ہوئی ہو۔ میں گوجرانوالہ سے جاتی تو ان کا پہلا سوال یہ ہوتا تھا کہ صوفی کا کیا حال ہے؟ پھر گھر کے ایک ایک فرد کا نام لے کر حال پوچھتے۔ اسی طرح اگر جہلم سے آتی تو بھی ایک ایک فرد کا نام لے کر حال پوچھتے، حتیٰ کہ ان کو یہ بھی یاد ہوتا تھا کہ میرا چھوٹا بھائی عمیر پڑھنے کے لیے کراچی گیا ہوا ہے۔ پوچھتے کہ وہ کراچی میں ٹھیک ہے، اس کا فون آتا ہے، وہ کیا پڑھ رہا ہے؟ بڑی باجی جو برطانیہ میں ہوتی ہیں، ان کے بچوں کے نام بھی نانا ابو کو یاد تھے اور وہ ان سب کے نام لے کر ان کے بارے میں پوچھتے تھے۔ امام ترمذیؒ کے حالات میں ہم نے ان کے حافظے کے بارے میں عجیب وغریب واقعات پڑھے تو حیران رہ گئے کہ کسی انسان کا حافظہ اتنا مضبوط بھی ہو سکتا ہے! لیکن نانا ابو کے حافظے کو دیکھ کر امام ترمذیؒ کے حافظے کا گمان ہوتا تھا۔
نانا ابو اور میرے سُسر حضرت صوفی صاحبؒ دونوں بھائیوں کی محبت بھی مثالی تھی۔ شدید تکلیف کی وجہ سے حضرت صوفی صاحب نے زندگی کے آخری دنوں میں کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ جب کچھ نہیں کھاتے تھے تو میری ساس صاحبہ ان سے کہتی تھی کہ ہم نے گکھڑ مولوی صاحب کو فون کیا ہے اور انھیں بتایا ہے کہ آپ کھانانہیں کھا رہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ کہ صوفی سے کہو کہ کھانا کھائے۔ اس پر تکلیف کے باوجود صوفی صاحب کھانا کھا لیتے تھے۔ ان سے کوئی بھی بات منوانی ہوتی تو نانا ابو کا نام لے کر منوائی جاتی تھی۔ ایک دفعہ چند عورتیں ان کے پاس ان کی زیارت کے لیے آئیں تو میں پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ ان عورتوں نے نانا ابو کے بارے میں پوچھا تو صوفی صاحب انھیں نانا ابو کے بارے میں بتانے لگے۔ ان کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں اسی طرح گونج رہے ہیں جیسے ابھی سنے ہوں: ’’او جیہڑے گکھڑ والے استاد نے، او اساں دے بڑے استاد بھی نے اور بڑے بھائی بھی نے،تے اسی اوناں دی بہت عزت کردے آں، میں اوناں کول پڑھیا بھی ہے‘‘۔ ان کی محبت اور عزت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ آخر وقت میں جب ان کا حافظہ شدید متاثر ہو گیا تھا اور بعض اوقات گھر والوں کو بھی نہیں پہچانتے تھے، اس کیفیت میں بھی گکھڑ والے بڑے استادوں کی کوئی بھی بات نہیں بھولے تھے اور ان سے متعلق ایک ایک بات ان کو یاد تھی۔
آخری ملاقات کے موقع پر جب میں نانا ابو سے ملنے ان کے کمرے میں گئی تو نانا ابو چھت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو نانا ابو نے میری طرف دیکھا اور چونکہ میں ابو کی وفات کے بعد نانا ابو سے پہلی دفعہ ملی تھی تو ناناابو کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اتنے میں شاہد ماموں آ گئے اور کہنے لگے کہ مرد حضرت آئے ہیں۔ جمعہ کے دن چونکہ مردوں کا بہت رش ہوتا تھا، اس لیے بس یہی مختصر سی ملاقات ہو سکی۔ پھر ۵ ؍مئی بروز منگل رات ڈیڑھ سے پونے دو بجے کے درمیان راشد ماموں کا فون آگیا کہ نانا ابو انتقال فرما گئے۔ زبان سے بے ساختہ نکلا کہ یا اللہ ابھی تو ابو کو گئے ہوئے صرف دو ماہ ہوئے ہیں اور ایک اور اتنی بڑی آزمایش! لیکن خداے رب ذوالجلال کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا، وہ تو قادر مطلق ہے۔
رَضِیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَام دِیْناً وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُوْلاً وَنَبِیًّا۔