میں نے ۱۹۷۹ء میں مدرسہ نصرت العلوم میں درجہ موقوف علیہ میں داخلہ لیا۔ داخلے کے کچھ دنوں بعد میں نے امام اہل سنت سے بیعت کا تعلق قائم کر لیا اور پڑھائی کے اوقات کے علاوہ توجہ حاصل کرنے کے لیے میں گکھڑ جا کر بھی ان سے ملتا رہتا تھا۔ حضرت صوفی صاحبؒ جلالی مزاج کے بزرگ تھے۔ ان کو ملتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ ایک دفعہ میں مٹھائی کا ایک ڈبہ بطورِ ہدیہ لے کر گیا تو حضرت نے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مجھے انقباض ہو جاتا ہے۔ کافی منت اور اصرار کے بعد حضرت نے وہ ہدیہ قبول کیا۔ لیکن حضرت شیخ ؒ جمالی مزاج کے مالک تھے۔ ملتے ہی آدمی کو ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی۔ اس انداز سے ملتے تھے کہ اجنبی بھی یہ محسو س کرتا تھا کہ جیسے حضرت میرے پرانے واقف کار ہیں۔ میں تو شاگرد بھی تھا اور مرید بھی۔ میں نے بیعت بھی گکھڑ جا کر کی تھی۔ حضرت امام اہلِ سنت ؒ نے بیعت لینے کے بعد فرمایا کہ تیرا وظیفہ یہ ہے کہ توحید و سنت کو بیان کرنا اور شرک وبدعت کی تردید کرنا، اور یہ بھی فرمایا کہ جب میں حضرت مولانا حسین علی صاحب ؒ سے بیعت ہوا تھا تو انہوں نے مجھے یہی وظیفہ بتایا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ علم بڑھانا ہے تو کسی نہ کسی باطل فرقے کے خلاف کام جاری رکھنا۔ فرمایا کہ یہ بات مجھے قاضی نور احمد صاحب ؒ نے فرمائی تھی۔ اس کے بعد میں وقتاً فوقتاً توجہ حاصل کرنے کے لیے گکھڑ جاتا رہتا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، محبت اور تعلق بڑھتا گیا ۔ حج سے واپسی پر آپ نے مجھے سفید رنگ کا ایک دھار ی دار رومال دیا اور فرمایا کہ صرف دو رومال لایا تھا، ایک صوفی کو دیا ہے اور ایک تجھے دے رہا ہوں۔
حضرت امام اہلِ سنت ؒ پہلے سر کلر روڈ والے راستے سے مدرسہ نصرۃ العلوم آتے جاتے تھے، مگر جب جناح روڈ بن گیا تو واپسی اس راستے سے ہوتی تھی۔ کبھی کبھی میری مسجد کے دروازے پر گاڑی رکوا لیتے۔ مجھے پتہ چلتا تو میں ننگے پاؤں دوڑتا ہوا آتا۔ حضرت ؒ حال احوال پوچھ کر دعائیں دیتے ہوئے تشریف لے جاتے۔ میرا بڑا بچہ جس کا نام میں حضرت امام اہلِ سنت ؒ کے نام پر محمد سرفراز خان رکھا تھا، ڈیڑھ سال کی عمر میں وفات پا گیا۔ جب چوتھے دن میں گاؤں سے واپس آیا تو حسبِ سابق حضرت امام اہلِ سنت ؒ کی گاڑی رکی۔ ہم سب دوڑتے ہوئے باہر آگئے، لیکن حضرت امام اہلِ سنتؒ مسجد کے اندر تشریف لائے۔ ہم نے مسجد کے ساتھ والے کمرے میں بٹھایا۔ سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے تعزیت کی اور ہاتھ اٹھاکر دعا کی۔ اس سے پہلے میرا خیال یہ تھا کہ تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا صحیح نہیں ہے۔ میں نے سوال کیا کہ حضرت! کیا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا صحیح ہے؟ تو فرمایا کہ حضرت شاہ محمد اسحق دہلویؒ نے چالیس مسائل میں لکھا ہے کہ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا جائز ہے۔
حضرت امام اہلِ سنت ؒ مسائل میں اپنے بزرگوں پر کلی طور پر اعتماد کرتے تھے اور اپنے شاگردوں اور متعلقین کو بھی یہی سبق دیتے تھے کہ اپنے بزرگوں کا دامن نہ چھوڑنا۔ ایک دن راقم اور حضرت کے طبیب خاص ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب اور خادم خاص لقمان اللہ میر صاحب ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت کا پوتا عمار خان ناصر آگیا جس کے متعلق حضرت امام اہل سنت کو پہلے کچھ شکایتیں پہنچ چکی تھیں کہ وہ بے راہ روی اختیار کرتا جا رہا ہے اور اپنے بزرگوں کے خلاف لب کشائی کرتا ہے۔ حضرت امام اہلِ سنت ؒ نے اس کو سمجھایا اور فرمایا کہ اپنے اکابر کے خلاف کبھی بات نہ کرنا، اگر چہ ان میں غلطی بھی ہو۔ ان کی نیکیوں کی بوریاں بھری ہوئی ہیں، اگر ان میں ایک چٹکی مٹی کی پڑ بھی گئی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۰۲ء کی بات ہے۔
۱۹۹۵ ء کی بات ہے۔ میں اپنی گاڑی کی مرامت کے لیے لاری اڈے پر ایک مکینک کے پاس گیا۔ مدرسہ ریحان المدارس کے جلسہ دستار فضیلت کے اشتہار بھی میرے پاس تھے۔ مکینک غیر مقلد تھا۔ اشتہار پڑھ کر کہنے لگا کہ دستارِ فضیلت باندھنے کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟ میں نے کہا کہ اس کی دلیل تو میرے علم میں نہیں ہے، لیکن میں اتنی بات یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارے بزرگ کوئی کام بغیر ثبوت کے نہیں کرتے۔ میں تجھے اس کی دلیل لا کر دوں گا۔ جب گاڑی کا کا م ہوگیا تو میں نے گاڑی کا رخ سیدھا گکھڑ کی طرف کیا۔ اپنے شیخ ومرشد سے ملاقات کی اور دستارِ فضیلت کے متعلق ثبوت دریافت کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ مستدرک حاکم جلد نمبر ۴ لاؤ۔ اس کے شروع میں میرا نوٹ ہوگا، وہ پڑھ کر صفحہ نکالو۔ میں نے صفحہ نمبر ۵۴۰ نکالا۔ فرمایا فلاں سطر والی حدیث جس پر میں نے نشان لگایا ہے، پڑھو۔ وہ حدیث میں نے پڑھ کر سنائی اور نوٹ بھی کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؒ کو ایک مہم پر روانہ کرتے ہوئے ان کے سر پر پگڑی باندھی۔ میں گکھڑ سے شاداں وفرحاں واپس اسی مکینک کے پاس پہنچا اور باحوالہ اسے یہ روایت سنائی تو اس نے تسلیم کر لیا اور کہا کہ آئندہ میں یہ اعتراض نہیں کروں گا۔
حضرت شیخ تعبیر الرؤیا یعنی خوابوں کی تعبیر کے بھی شیخ تھے۔ ایک دفعہ چودھری محمد یعقوب صاحب (گلی لانگریاں والی) آئے اور کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری والدہ کا کفن چھوٹا ہے، سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے ہوجاتے ہیں اور اگر پاؤں ڈھانپتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہاری والدہ کی قبر کے ساتھ کوئی قبر کھودی گئی ہے جس سے تمہاری والدہ کی قبر چھوٹی ہوگئی ہے۔ بعد میں چودھری صاحب نے مجھے بتایا کہ حضرت نے جو تعبیر بتائی تھی، وہ بالکل درست تھی۔ میں نے قبرستان جاکر معلوم کیا تو واقعتا پاؤں کی طرف ایک قبر کھودی گئی تھی اور میری والدہ کی قبر کا کچھ حصہ اس میں شامل ہو گیاتھا۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے اپنا خواب سنایا کہ میں قبرستان میں گیا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ میرے والد کا سر قبر سے باہر پڑا ہے اور منہ سے سورۂ الم نشرح کی آواز آرہی ہے۔ حضرت شیخ نے تعبیر بتائی کہ تیرے والد نے جائیداد صحیح تقسیم نہیں کی۔ تعبیر پوچھنے والے نے کہا کہ حضرت! باقی وراثت تو تقسیم کر دی گئی ہے، البتہ میں نے والد صاحب سے پچاس ہزار روپے لیے تھے، وہ تقسیم نہیں کیے گئے۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ بھی حصے کے مطابق سب میں تقسیم کرو۔
حضرت تقویٰ و طہارت کے پیکر تھے۔ ہم جب گکھڑ جاتے تھے تو ملک محمد یوسف صاحب حضرت کی رہایش والی گلی کے باہر اپنی دوکان پر بیٹھے ہوتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر کھڑے ہوجاتے اور کہتے، ماشاء اللہ ماشاء اللہ، حضرت کے خادم آگئے ہیں۔ ایک دن مجھے کہنے لگے، میرے پاس بیٹھو، میں تمہیں حضرت کا ایک واقعہ سناؤں۔ ایک دن حضرت نے حقوق العباد کے موضوع پر درس دیا۔ میرے والد صاحب درس میں موجود تھے۔ حضرت جب اشراق سے فارغ ہوکر آئے تو میرے والد صاحب نے انھیں روک لیا اور کہا کہ حضرت، میں نے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ حضرت نے فرمایا، کیجیے۔ والد صاحب نے کہا کہ حضرت آج آپ نے بہت اچھا درس دیا ہے، لیکن یہ بتائیے کہ صبح کے ناشتہ میں آپ تناول کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ پراٹھا، دو انڈے اور چائے۔ ملک صاحب نے کہا کہ حضرت، یہ بتائیے کہ کیا انڈے اپنی مرغیوں کے استعمال کرتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا، ہاں۔ ملک صاحب کہنے لگے کہ آپ کی مرغیاں تو آکر ہمارے دانے چگ جاتی ہیں (کیونکہ اس وقت غالباًان کی گندم کی دوکان تھی)۔ حضرت نے فرمایا، اچھا! میں اس کا انتظام کرتا ہوں۔ آئندہ آپ کے دانے نہیں کھائیں گی۔ گھر جا کر حضرت نے اپنی ساری مرغیاں ذبح کر دیں۔ ملک صاحب نے کہا کہ یہ تھا حضرت کے تقویٰ کا عالم۔
ایک دفعہ ہم حضرت کو آب وہو کی تبدیلی کے لیے ایک ہفتے کے لیے مری لے گئے۔ قیام کے دوران حضرت نفلی عبادات معمول کے مطابق ادا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کا یہی معمول رہا ہے کہ سفر جاری ہوتا تو نفلی عبادات کو چھوڑ دیتے تھے اور اگر پڑاؤ ہوتا تو فرضوں میں رخصت پر عمل کرتے اور نفل اور سنتیں پوری پڑھتے۔ عصر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن کا معمول تھا۔ فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عصر اور مغرب کے درمیان پیدا فرمایا تھا، لہٰذا یہ وقت اللہ تعالیٰ کے شکرانے کا ہے۔ مختلف مساجد میں کہیں ظہر کے بعد، کہیں مغرب کے بعد اور کہیں عشا کے بعد درس ہوئے۔ درس میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی اور لوگ بڑے شوق کے ساتھ سنتے۔ میں بھی سامنے بیٹھ کر سنتا تھا اور لوگوں کے تاثرات بھی معلوم کرتا۔ لوگ کہتے تھے کہ بابا بڑے سخت مسئلے بیان کرتا ہے۔ ان دنوں حضرت امام اہلِ سنت ؒ ان مسائل پر بہت زور دیتے تھے کہ جس کے ناخن بڑھے ہوئے ہوں، اس کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ ناخنوں کے نیچے میل جم جاتی ہے جس سے وضو نہیں ہوتا۔ عورتیں ناخن پالش نہ لگائیں کیونکہ ناخن پالش کے ہوتے ہوئے پانی ناخن تک نہیں پہنچتا جس سے وضو اور غسل نہیں ہوتا۔ پڑھی ہوئی نماز بھی ذمہ میں باقی رہتی ہیں۔ اگر کوئی خاتون ناخن پالش لگائے تو نماز کے وقت سے پہلے پہلے صاف کرلے۔ وضو کرتے وقت انگوٹھی اچھی طرح ہلائیں تاکہ نیچے پانی چلا جائے اور انگوٹھی والی جگہ خشک نہ رہے، ورنہ وضو نہیں ہوگا۔ عورتیں کوکے اور بالی کے سوراخ میں پانی پہنچائیں، ورنہ وضو اور غسل نہیں ہوگا۔ عورت اگر باریک دوپٹہ پہن کر نماز پڑھے جس سے سر کے بال نظر آتے ہوں تو نماز نہیں ہوگی، چاہے بند کمرے میں ہی کیوں نہ پڑھے، کیونکہ سر عورت کے ستر میں داخل ہے۔
حضرت امامِ اہلِ سنت ؒ کی برکت سے میں بھی تہجد پڑھ لیتا تھا، ورنہ میں تہجد گزار نہیں ہوں۔ ایک دن میں نے تہجد کی نماز کے بعد دعا کی کہ اے پروردگار؛ مال وافر مقدار میں عطا فرما۔ حضرت ؒ نے صبح کی نماز میں سورۂ بنی اسرائیل کے دوسرے رکوع کی تلاوت کی جس میں آتا ہے: ویدع الانسان بالشر دعاءہ بالخیر وکان الانسان عجولا۔ (اور مانگتا ہے انسان برائی کو جیسا کہ وہ مانگتا ہے بھلائی کو اور ہے انسان جلد باز) میں نے لقمان میر صاحب کو قصہ سنایا تو وہ بہت ہنسے۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری اصلاح کے لیے حضرت کو یہ القا فرمایا ہے۔ واپسی سے دو دن پہلے میں نے اپنے جی میں فیصلہ کیا کہ پرسوں واپس جانا ہے، کل کو خوب خریداری کروں گا۔ صبح حضرت نے نماز پڑھائی تو سورہ بنی اسرائیل کا تیسرا رکوع تلاوت فرمایا جس میں ہے: ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین وکان الشیطن لربہ کفورا (بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطا ن اپنے رب کا نا شکرا ہے) میں نے اپنے ارادے سے فوراً توبہ کرلی۔
آزاد کشمیر کے سفر میں ایک جگہ ۱۴؍ اگست کو یوم آزادی کے سلسلے میں ایک تقریب تھی جس میں حضرت نے مختصر بیان فرمایا۔ ایک نوجوان نے کہا کہ حضرت! یہ بتائیں کہ علماے دیوبند نے پاکستان بننے کی مخالفت کیوں کی تھی؟ حضرت امامِ اہلِ سنت ؒ نے خطبہ کے بعد فرمایا کہ جن علما نے حمایت کی تھی، وہ بھی ہمارے بزرگ تھے اور جنہوں نے مخالفت کی تھی، وہ بھی ہمارے بزرگ تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں خلافتِ راشدہ کا قانون نافذ ہوگا۔ جن علما نے اس بات پر اعتماد کیا، انہوں نے ساتھ دیا اور جنہوں نے اعتماد نہیں کیا، انہوں نے مخالفت کی۔ میری اس بات کی تصدیق کے لیے آپ پاکستان بننے سے پہلے کے اخبارات کا مطالعہ کرسکتے ہیں اور یہ فیصلہ خود کرسکتے ہیں کہ جن علما نے اعتماد نہیں کیا تھا، ان کی سوچ صحیح تھی یا نہیں؟ اور آیا قائدِ اعظم نے عہد کا ایفا کرتے ہوئے پاکستان میں خلافتِ راشدہ کا نظام نافذ کیا یا نہیں؟ اس کے بعد حضرت ؒ نے خلافتِ راشد ہ کے نظام پر مختصر روشنی ڈالی اور دعا فرمائی۔
ایک دفعہ سبق کے دوران حضرت شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ کے علما کو میرے متعلق کسی نے بتایا تو وہ میرے پاس آگئے۔ کافی دیر گفتگو ہوتی رہی۔ آخر میں ان حضرات نے مجھ سے تقاضا کیا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ منہ اور زبان جس سے اللہ تعالیٰ نے دین کا اتنا کام لیا ہے، اس کا لعاب ہمارے منہ میں ڈالیں، یعنی ہمارے منہ میں آپ تھوکیں۔ فرمایا، میں نے کہا کہ یہ بات تو ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عظمت عطا فرمائی ہے، لیکن انہوں نے مجھے تھوکنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ حضرت شیخ رحمہ اللہ نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، مولوی صاحب! مجھے مجبوراً یہ کام بھی کرنا پڑا کہ میں نے اپنا لعاب ان کے منہ میں ڈالا جس طرح دوسرے کو دم کیا جاتا ہے۔
ایک دن بندہ راقم معمول کے مطابق حضرت کی تفسیر ’’ذخیرۃ الجنان‘‘ ترتیب دے رہا تھا کہ اچانک استاد زادہ مولانا احمداللہ خان صاحب کا جدہ سے فون آیا کہ اباجی(استاد محترم مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ العالی) سے بات کرو۔ علیک سلیک کے بعد حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہاں مقیم ہمارے ساتھیوں نے مقامی احباب کو میرا تعارف کرایا تو انہوں نے تقاضا کیا کہ ہمیں کچھ اسباق حدیث کے پڑھا دو۔ اس دوران میں نے حضرت شیخ رحمہ اللہ کا تعارف کرایا تو جدہ کے بڑے عالم شیخ احمد ہمدان اور ان کے ساتھیوں نے تقاضا کیا ہے کہ حضرت شیخ سے فون پر ہماری بات بھی کراؤ اور اجازات حدیث بھی دلواؤ! لہٰذا آپ گکھڑ جائیں اور حضرت سے ہماری بات کرائیں۔ میں اسی وقت میر صاحب اور ڈاکٹر صاحب کو لے کر گکھڑ پہنچ گیا اور حضرت شیخ کی استاد مفتی صاحب سے بات کرائی۔ پھر ان عرب علما نے بھی بات کی، حال احوال دریافت کیے تو حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں علیل ہوں۔ انہوں نے دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اجازتِ حدیث طلب کی تو حضرت رحمہ اللہ نے مجھے فرمایا کہ آپ ان کو میری طرف سے کہہ دیں کہ ’’اجازت ہے!‘‘۔ میں نے ان کو بتایا کہ حضرت نے آپ کو اجازت دے دی ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں حضرت خوداپنی آواز میں اجازت عنایت فرمائیں۔ میں نے حضرت رحمہ اللہ سے ان کا مطالبہ عرض کیا تو اشارہ سے فون قریب کرنے کا کہا۔ میں نے موبائیل آپ کے کان سے لگا دیا تو آپ نے ان کو عربی میں فرمایا کہ ’’میں آپ کو اجازت دیتا ہوں‘‘ ۔
۲۰۰۱ ء میں حضرت پرفالج کا حملہ ہوا۔ میں نے لقمان اللہ میر صاحب سے کہا کہ میرے ایک بہت اچھے دوست ہیں، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب جو اپنے شعبے میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ حضرت کے علاج کے سلسلے میں ان کو ساتھ شامل کر لینا بہتر ہوگا۔ چنانچہ ہم تینوں نے مل کر گکھڑ جانے کا معمول بنا لیا۔ اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ ہم عموماً شریف پورہ چوک، یا گوندلہ والا چوک یا لاری اڈا یا کسی اور جگہ اکٹھے ہو جاتے اور حضرت کے لیے کھانے پینے کی مختلف چیزیں ساتھ لے کر گکھڑ چلے جاتے۔ میرے ذمہ پرندوں کی یخنی ہوتی تھی۔ جس دن میں نہ جا سکتا، یخنی کسی ساتھی کے ذریعے پہنچا دیتا تھا۔ یخنی مختلف پرندوں مثلاً فاختہ، تیتر، بٹیر، تلیر،چہے، پھاڑ، جل مرغی، جنگلی کبوتر، مرغابی وغیرہ کی بناتا تھا۔ حضرت ؒ فاختہ کی یخنی شوق سے نوش فرماتے تھے، بلکہ کبھی خود فرما دیتے کہ گھوگھی کی یخنی لانی ہے۔ گرمیوں میں زیادہ تر مکس پھلوں کا تازہ جوس اور کبھی دودھ دیا جاتا، مگر خالی نہیں بلکہ اس میں ڈاکٹر صاحبان کے تجویز کردہ مختلف قسم کے طاقت کے پاؤڈر ملائے جاتے تھے۔ کبھی انڈا اور شہد مکس کرکے پلا دیتے تھے۔ مجھے زیادہ فکر یہی ہوتی تھی کہ یخنی والے پرندوں کی کمی نہ ہو۔ کبھی حضرت فرماتے کہ یخنی کی بجائے پرندے ہی گھر پہنچا دو، یہ خود تیار کر دیں گے، چنانچہ حکم کی تعمیل ہوتی تھی۔ خدمت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ حضرت کے پاس پہنچ کر علیک سلیک کے بعد ڈاکٹر صاحب بلڈ پریشر چیک کرتے، میں یخنی ٹھنڈی کرتا یا دودھ اور انڈا مکس کرتا اور میر صاحب اپنے ہاتھ سے پلاتے اور جس دوائی کی ضرورت ہوتی، وہ استعمال کرا دی جاتی اور باقی دوائی کا استعمال اہلِ خانہ کو سمجھا کر ہم واپس آجاتے۔ جب حضرت کی طبیعت معمول پر آجاتی تو پھر میں ایک دن کا ناغہ کرتا تھا، لیکن میر صاحب ڈاکٹر صاحب کو لے کر روزانہ جاتے تھے۔ اگر ڈاکٹر صاحب مصروف ہوتے تو ڈاکٹر سہیل انجم بٹ صاحب کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔
میر صاحب خدمت کے اس تسلسل کا توڑنا حرام سمجھتے تھے اور انھوں نے حضرت کے علاج کے سارے اخراجات اپنے ذمے لیے ہوئے تھے۔ میر صاحب نے فرمایا کہ دوائی کے لیے کسی سے کوئی پیسہ نہیں لینا، چاہے ایک روپے کی ہو یا ایک لاکھ کی۔ انہوں نے اس عہد کو آخر تک بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ نبھایا۔ جب حضرت کو مثانے کے آپریشن کے لیے چوبر جی کے قریب ایک ہسپتال میں لے جایا گیا تو مولانا محمد حسن صاحب تشریف لائے جو حضرت کے بھی شاگرد ہیں اور میرے بھی شاگرد ہیں۔ مجھ سے کہنے لگے کہ استاد جی، اگر اجازت ہو تو آپریشن کا خرچہ میں دے دوں؟ میں نے کہا کہ یہ ذمہ داری چونکہ میر صاحب کی ہے، اس لیے ان سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔ میر صاحب کے سامنے میں نے مولانا کی خواہش رکھی تو میر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ساتھیوں کے علم میں ہے کہ یہ کام میں کر رہا ہوں، لہٰذا مولانا سے معذرت کرلیں۔ چنانچہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔
۲۰۰۳ء میں حضرت پر فالج کا حملہ دوبارہ ہوا۔ طبیعت تو سنبھل گئی مگر حضرت نے کھانا بہت کم کردیا۔ اس پر ساتھی کافی پریشان تھے۔ جب کبھی مفتی جمیل خان صاحب تشریف لاتے تو اصرار کر کے حضرت کو کھانا کھلادیتے۔ ہم بھی کہتے رہتے کہ حضرت! کچھ نہ کچھ تو کھا لیا کریں۔ ایک دن استاذِ محترم مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب تشریف لائے تو حضرت نے فرمایا کہ مفتی صاحب! یہ لوگ مجھے کھانے پر مجبور کرتے ہیں، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: لا تکرھوا مرضاکم علی الطعام فان اللہ تبارک وتعالیٰ یطعمھم ویسقیھم (اپنے بیماروں کو کھانے پر مجبور مت کرو کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو کھلاتا اور پلاتا ہے) اور فرمایا کہ مفتی صاحب، آپ نے یہ حدیث باحوالہ لکھ کر مجھے دینی ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب نے یہ حدیث ترمذی شریف کے ابواب الطب کے حوالے سے لکھ کر مجھے دی اور میں نے وہ پرچی حضرت کو دے دی۔ فرمایا کہ اسے پڑھو۔ میں نے پڑھی تو فرمانے لگے کہ پھر تم مجھے زیادہ کھانے پر کیوں مجبور کرتے ہو ؟ آخری پانچ چھ سال آپ زیادہ یخنی، مشروبات، چائے اور معمولی سا دلیہ کھالیتے تھے۔
آنکھ کا آپریشن کرا کے جب آپ کو واپس لایا گیا اور نماز کا وقت ہوا تو فرمایا کہ صوفی صاحب کو فون کر کے پوچھو کہ میں تیمم کروں یا باقی اعضا کا غسل اور چہرے کا مسح؟ حضرت صوفی صاحب ؒ نے فرمایا کہ تیمم کرنا ہے۔ پھر فرمایا کہ مفتی محمد عیسیٰ صاحب سے بھی پوچھو۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ چنانچہ حضرت نے تیمم کیا اور نماز پڑھی۔ پھر فرمایا کہ مسئلے کا مجھے بھی علم تھا، لیکن میں چونکہ مبتلیٰ بہٖ تھا، اس لیے ان سے پوچھا تاکہ حجت تام ہو جائے۔ اللہ اللہ! کیا تقویٰ اور کیا احتیاط ہے، حالانکہ خود فقہ اور اصولِ فقہ کے امام ہیں۔
اجل کو لبیک کہنے سے آٹھ دن پہلے جو تھوڑا بہت ہنستے تھے، وہ بھی بند کر دیا جس سے بڑی پریشانی ہوئی۔ ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب سفر پر تھے۔ ڈاکٹر سہیل انجم نے عرض کیا کہ حضرت، جسم میں خون بالکل نہیں ہے۔ یا تو کچھ کھائیں پئیں یا پھر خون کی بوتلیں لگانے کی اجازت دیں۔ بڑی منت سماجت کے بعد اجازت دی اور دو د ن آپ کو خون کی بوتلیں لگائی گئیں۔ اس کے بعد تھوڑا بہت پینا شروع کر دیا، مگر نہ چاہتے ہوئے۔ تین دن پہلے ڈاکٹر صاحب نے پھر کہا کہ حضرت، بوتل لگانے کی اجازت دے دیں تو فرمایا کہ اب تم میرے ساتھ بکھیڑے کرنے چھوڑ دو، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ آخری دنوں میں حضرت پر کبھی کبھی استغراق کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور وہ آسمان کی طرف رخ کر کے ٹکٹکی باندھ لیتے تھے۔ اس حالت میں کسی کے ساتھ گفتگو کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے، بلکہ اگر کوئی مخل ہونے کی کوشش کرتا تو اس کو تھپڑ بھی مار دیتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مجھے نہ چھیڑو۔ جب اس کیفیت سے واپس آتے تو پھر خود ہمیں پکارتے اور باتیں کرتے۔ حضرت کی کیفیت سے میں سمجھ گیا تھا کہ اب آپ آخرت کی تیاری کرچکے ہیں۔ چنانچہ میں نے اپنے ساتھی مولانا ریاض انور گجراتی سے کہا کہ جاؤ اور حضرت کی زیارت کر لو، حضرت آخرت کی تیاری کرچکے ہیں۔
اس کے دو ہی دن بعد میرے شیخ نے اجل کو لبیک کہا اور ہمیں داغِ مفارقت دے کر دار الفناء سے دارالبقاء تشریف لے گئے۔ لیکن میرے شیخ کا فیض ایسا نہیں ہے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ختم ہوجائے گا۔ ہر گز نہیں۔ میرے شیخ اہل حق کے عقائد و نظریات کے تحفظ اور فرق باطلہ کی سرکوبی کی شکل میں دین کی خدمت انجام دیتے رہے۔ حضرت کا یہ فیض قیامت تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ کے لواحقین، متعلقین، مریدین اور شاگردوں کو صبر عطا فرمائے اور حضرت کے مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔