الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۔
بعض شخصیات کو اللہ تبارک وتعالیٰ ایسی محبوبیت، قبول عام اور ہر دل عزیزی عطا فرماتے ہیں کہ ان کے تصور ہی سے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ ان سے ملاقات چاہے کم ہو، لیکن ان کا وجود ہی بذات خود تسلی اور ڈھارس کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ہمارے مخدوم بزرگ، استاذ الکل حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب قدس سرہ کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی جس سے محروم ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
وہ عرصہ دراز سے صاحب فراش تھے اور عملی زندگی سے تقریباً کنارہ کش۔ ان کی زیارت وصحبت کے مواقع بھی ہم جیسے دور افتادگان کے لیے بہت کم رہ گئے تھے، لیکن ان کے وجود سے اپنے سر پر ایک عظیم سایہ محسوس ہوتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جب کبھی حوادث روزگار سے کوئی مہلت ملی تو اس شجرۂ طیبہ کی ٹھنڈی چھاؤں اپنی آغوش پھیلانے کے لیے موجود ہے۔ اب یہ سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمٰی۔
اب دنیا میں وہ حضرات خال خال ہی رہ گئے ہیں جو اکابر علماے دیوبند کی صحبت سے براہ راست سرفراز ہوئے اور پھر اپنے فیوض سے دنیا کو نہال کیا۔ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس سرہ انھی خوش نصیب اہل علم میں سے تھے جنھوں نے براہ راست شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب اور اس قرن کے دیگر اکابر سے فیض حاصل کیا تھا۔
انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح میں تحریر فرمایا ہے کہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے میں ان کے والدین نے اور خود انھوں نے کیسی مشقتیں اٹھائیں اور پنجاب کے مختلف مقامات سے تحصیل علم کے بعد دار العلوم دیوبند کا رخ کیا۔ وہاں دورۂ حدیث کی جماعت میں داخل ہوئے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ سے شرف تلمذ حاصل کیا، لیکن اس سال حضرت تحریک آزادئ ہند کے سلسلے میں گرفتار ہو کر جیل تشریف لے گئے اور آپ کی غیر موجودگی میں شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب قدس سرہ سے صحیح بخاری شریف کی تکمیل فرمائی۔
درس نظامی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ کی زیادہ تر مصروفیات درس وتدریس اور تصنیف وتالیف سے متعلق رہیں۔ آپ نے گوجرانوالہ کے قریب گکھڑ منڈی کے قصبے کو اپنا مستقر بنا لیا اور گوجرانوالہ میں نصرۃ العلوم کے نام سے ایک عظیم دینی درس گاہ قائم فرمائی جو بفضلہ تعالیٰ ہزارہا تشنگان علم کو سیراب کر چکی ہے اور اب بھی اس کا چشمہ فیض جاری ہے۔
میں نے حضرت کا نام سب سے پہلے اس وقت دیکھا جب میں دارالعلوم کراچی میں ہدایہ اخیرین وغیرہ پڑھتا تھا۔ دارالعلوم اس وقت نیا نیا شہر سے دور شرافی گوٹھ کے نام سے ایک گاؤں کے قریب صحرا میں منتقل ہوا تھا اور ہم پڑھنے کے لیے ہفتہ بھر دار العلوم میں مقیم رہتے اور جمعرات کی شام کو شہر میں اپنے گھر جایا کرتے تھے۔ میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کا ذاتی کتب خانہ بھی گھر ہی میں تھا اور جمعرات کی چھٹی میں میرا معمول یہ تھا کہ اس کتب خانے کی ایک ایک کتاب اٹھا کر دیکھتا اور کم از کم اس کے موضوع، مولف اور اس کے طرز تصنیف کا ایک تعارف حاصل کر لیتا تھا۔ اسی دوران ایک روز دو تین نئی کتابیں نظر سے گزریں جن پر مولف کا نام مولانا محمد سرفراز خان صفدر لکھا ہوا تھا۔ یہ کتابیں رد بدعات کے موضوع پر تھیں اور ان کو پڑھنا شروع کیا تو دیکھا کہ ان کی سطر سطر تفسیر، حدیث، فقہ اور عقائد کی کتابوں کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں بہت سے حوالے ایسے نظر آئے جن کا نام بھی پہلے نہیں سنا تھا۔ اسی وقت یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی بڑے محقق عالم ہیں جن کا مطالعہ انتہائی وسیع ہے اور وہ کوئی بات حوالہ کے بغیر نہیں کہتے۔ یہ حضرت سے عقیدت ومحبت کی ابتدا تھی۔ اس کے بعد حضرت کی اور بھی بہت سی کتابیں آتی رہیں او ان میں تحقیق ونظر کا وہی اسلوب ہر جگہ نظر آیا۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا، اس پر سیر حاصل بحث فرمائی اور تحقیق کا حق ادا کر دیا۔ پھر یہ تالیفات ان موضوعات پر ہیں جن میں علماے دیوبند اور علماے بریلی کے درمیان یا علماے دیوبند اور علماے اہل حدیث کے درمیان بحث ومناظرہ کا بازار گرم رہا ہے اور اس میں رد وقدح کے دوران بہت سوں نے جارحانہ انداز واسلوب بھی اختیار فرمایا ہے، لیکن حضرت مولانا کی تالیفات بحیثیت مجموعی جارحیت سے خالی ہیں اور ان کا انداز خاص علمی اور محققانہ ہے۔ جزاہ اللہ تعالیٰ خیراً۔
ان تالیفات کی بنا پر حضرت سے تعارف اور محبت تو تھی، لیکن زیارت کا شرف پہلی بار اس وقت حاصل ہوا جب (۱۹۶۸ء میں) پہلی بار گوجرانوالہ حاضری ہوئی۔ اس وقت راولپنڈی میں ادارۂ تحقیقات اسلامی کی طرف سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں حضرت والد ماجدؒ کے ساتھ میں بھی حاضر ہوا تھا۔ کانفرنس کے اختتام پرغیر ملکی مندوبین کو سڑک سے لاہور لایا گیا۔ اس وقت بعض حضرات کی ترجمانی کے لیے میں بھی ان کے ساتھ ہو گیا۔ راستے میں یہ قافلہ گوجرانوالہ میں رکا۔ نصرۃ العلوم میں اس کی میزبانی اور خیر مقدمی جلسے کا اہتمام حضرت مولاناؒ نے کیا تھا۔ اس وقت پہلی بار ان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور ان کی تالیفات پڑھ کر ذہن نے جو خاکے بنائے ہوئے تھے، حضرت کو ان سے بالکل مختلف پایا۔ نہایت سادہ، متواضع اور کم گو۔ حضرت نے مہمانوں کو سپاس نامہ پیش کیا۔ میں اس وقت پچیس سالہ طالب علم تھا، لیکن حضرت والد صاحب قدس سرہ کی نسبت سے حضرت نے نہایت شفقت کا معاملہ فرمایا۔
اس کے بعد بفضلہ تعالیٰ حضرت سے متعدد بار نیاز حاصل ہوا۔ حضرت کی قیام گاہ پر بھی حاضری ہوئی۔ آپ دار العلوم بھی تشریف لائے اور اساتذہ دار العلوم کو اجازت حدیث سے بھی نوازا۔ حضرت کی علالت بڑھی تو مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ انھیں علاج کے لیے کراچی لے آئے تھے اور انھیں حضرت کی خدمت کی بڑی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اس موقع پر بھی انھی کے گھر پر حضرت کی خدمت میں حاضری ہوئی اور حضرت نے اپنی شفقتوں سے نہال فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی اولاد کے بارے میں بھی قابل رشک بنایا۔ ان کے صاحبزادے ماشاء اللہ ان کی میراث علم کے وارث ہیں، خاص طو رپر مولانا زاہد الراشدی صاحب (حفظہ اللہ تعالیٰ) کو اللہ تعالیٰ نے علم وفضل کے ساتھ خدمت دین کے جذبہ بے تاب، متانت فکر اور سنجیدہ وباوقار طرز عمل کی خصوصیات عطا فرمائی ہیں۔ مغربی تہذیب کی فکری بنیادوں پر ان کی گہری نظر ہے اور اس پر ان کے جان دار تبصرے نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب قدس سرہ اصلاً علمی وتدریسی مزاج کے حامل تھے، لیکن جب کبھی ملک وملت کو عملی جدوجہد کی ضرورت پیش آئی، انھوں نے اپنے اس مزاج کی قربانی دے کر اس جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے سرگرمی سے حصہ لیا اور اس میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور جیل میں رہتے ہوئے ان کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
عرصہ دراز سے حضرت صاحب فراش تھے اور بالآخر ۹؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ (۵؍ مئی ۲۰۰۹ء) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
اللہم اکرم نزلہ ووسع مدخلہ وابدلہ دارا خیرا من دارہ واہلا خیرا من اہلہ ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس۔
آج حضرت بذات خود ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کی تالیفات اور ان کا قائم کیا ہوا جامعہ نصرۃ العلوم ان کے لیے عظیم صدقہ جاریہ ہے جس سے ان شاء اللہ یہ امت دیر تک فائدہ اٹھاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے مقامات قرب سے نوازیں، ان کے اہل خانہ اور تمام متاثرین کو صبر جمیل عطا فرمائیں، ان کے ذی علم صاحب زادگان کو ان کے علم وفضل اور خدمات دینیہ کو آگے بڑھانے اور اہل سنت کی جس فکر کے وہ ترجمان تھے، اسے قائم رکھنے کی توفیق عطا فرما کر ظاہری اور باطنی فتنوں سے ان کی حفاظت فرمائیں۔ آمین ثم آمین۔