ہزارہ کی مردم خیز زمین نے ہر دور میں ایسے نامور اہل علم کو جنم دیا ہے جنہوں نے علمِ دین کی نشرو اشاعت، درس وتدریس اور تصنیف و تالیف کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ اُن شخصیات میں سے امام اہل سنت محدّث عصر استاذ العلماء شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ مولانا سرفراز خان صفدرؔ رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک تھے جنہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعے علم دین کی خدمت کرکے ۹۵ سال کی عمر میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپر د کر دی۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔
چُنا ہے پھول عزرائیل نے ایسا گلستاں سے
کہ جس سے ہو گیا ساراچمن ہی دشت و ویرانہ
حضرت کے انتقال پُر ملال سے تحقیق و تصنیف، درس و تدریس، وعظ و تبلیغ کے میخانے ویران ہو گئے۔یوں تو موت کا سلسلہ ہر لمحہ جاری و ساری ہے، لیکن بعض شخصیات کے اُٹھ جانے سے سارا ماحول سوگوار نظر آتا ہے، بالخصوص جب کہ جانے والا گوناگوں اوصافِ حمیدہ کا مالک ہو۔ ایسا وجود جو سراپا خیر اور فیض رساں تھا، اس سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جانا جس قدر صدمے اور افسوس کا باعث ہو سکتا ہے، اس کا بیان و اظہار لفظوں میں کس طرح ہو سکتا ہے۔ وہ ساری عمر فیض رسانی میں مصروف رہے۔ دنیا سے بے نیازی، قناعت، سادگی، خودداری و استغنا، انابت الی اللہ، مجاہدہ و ریاضت، مہمان نوازی، خوش اخلاقی، انکسار و تواضع ان کی شخصیت کے نمایاں جوہر تھے۔ حق تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے اپنے علم و قلم سے جو پاکیزہ اور یادگار نقوش وآثار آپ چھوڑ گئے ہیں، وہ رہتی دنیا تک حاملین قرآن و سنت کی راہنمائی کرتے رہیں گے۔
امامِ اہل سنتؒ کی رحلت صرف مسلمانانِ پاکستان ہی کا نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کا عظیم نقصان ہے۔ ان کا شمار برصغیر (پاک وہند، بنگلہ دیش) کے چوٹی کے علماے حدیث میں ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود تواضع میں کسی قسم کی کمی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ تصنع و تکلفات سے کوسوں دور رہتے تھے۔ ۱۹۷۸ء میں احقر کے نکاح کی تقریب کے لیے شوال کی سات تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ حسن اتفاق سے حضرت بھی تشریف لائے۔ جب حضرت کو تقریب نکاح میں شرکت کی دعوت دی گئی تو آپ ؒ نے نہایت بے تکلفی سے فرمایا کہ ہم ضرور اس تقریب سعید میں شرکت کریں گے اور ایک دن نہیں، دو دن آپ کے گھر پر ٹھہریں گے۔ چنانچہ حضرتؒ مقررہ تاریخ پر تشریف لائے ۔ اس موقع پر ضلع مانسہرہ کے تقریبا تمام علماے کرام موجود تھے۔ نکاح سے قبل علماے کرام کے اصرار پر حضرتؒ نے نکاح کی مناسبت سے اپنی شان کے مطابق نہایت عالمانہ اور فاضلانہ خطاب فرمایا اور اس کے بعد نکاح بھی پڑھایا اور دعا بھی فرمائی۔ بعد ازاں اپنے ہاتھوں سے چھوہارے اُچھالتے ہوئے فرمایا کہ نکاح کے بعد یوں چھوہارے اُچھالنا سنت ہے۔ اس منظر سے علما اور حاضرین بڑے محظوظ ہو ئے۔
۱۹۷۵ء میں احقر جامعہ نصرۃ العلوم میں زیر تعلیم تھا۔ محرم میں میرے والد صاحبؒ تشریف لائے تو دوسرے دن صبح درس کے بعد حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ناشتہ پر بلایا۔ ناشتے کے بعد جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور کلاس کے قریب پہنچنے والے تھے کہ احقر نے اطلاع دی کہ میرے والد صاحب آپ سے ملنے آرہے ہیں۔ حضرت نے تعجب سے اپنی پشتو زبان میں پوچھا کہ کہاں ہیں؟ میں نے مہمان خانے کی طرف اشارہ کیا۔ اُدھر سے والد صاحب مہمان خانہ سے باہر آ رہے تھے۔ جونہی نظر پڑی، فوراً دوڑ کر مہمان خانہ کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ کے اشارہ اور زبان سے بھی فرمایا کہ وہیں ٹھہریں، میں خود آرہا ہوں۔ حضرت ؒ کے اس طرح دوڑ لگانے سے تمام طلبہ اس طرف متوجہ ہوئے۔ یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔ ملاقات کے بعد جب والد صاحب ؒ نے لاہور جانے کی اجازت مانگی تو حضرتؒ نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا، ’’کوئی اجازت نہیں، بڑے طویل عرصے کے بعد آئے ہیں۔ اسباق کے بعد میرے ساتھ گکھڑ جانا ہے اور رات وہیں میرے پاس ٹھہریں گے۔‘‘
بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے معمولی واقعات ہیں، لیکن جب ہم ایک طرف حضرتؒ کے بلند مقام و مرتبہ اور مصروفیات و معمولات کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف اپنے چھوٹوں کے ساتھ اس قسم کی بے تکلفی، مروّت، حسن سلوک، تواضع اور مہمان نوازی کو دیکھتے ہیں تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے کہ حضرتؒ کی زندگی ہم سب کے لیے قابل تقلید اور مشعل راہ ہے، خاص طور پر علما، طلبا، مدارس اسلامیہ کے منتظمین، معلمین اور متعلمین کے لیے ۔ مندرجہ بالا واقعات کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن حضرت کی طرف سے ہمارے والد گرامیؒ سے کیا گیا حسن سلوک اور اعزاز واکرام آج بھی دل میں ترو تازہ ہے اور ایک بیٹے کے دل ودماغ پر اس حسن سلوک کا جو اثر ہو سکتا ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا سلسلہ عمل منقطع ہو جاتا ہے، لیکن تین طریقے ایسے ہیں جو مرنے والے کے نامہ اعمال کو بند نہیں ہونے دیتے۔ ایک صدقہ جاریہ جو انسانوں کی فلاح و بہبود کے کام آئے، دوسرا علم نافع جس سے لوگ بلا واسطہ یا بالواسطہ فیض یا ب ہوں اور تیسرے نیک اولاد جو دعاگو ہو۔ یقیناًحضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے لیے ایصال ثواب کے تینوں ذرائع مہیاہیں جو ان کے سلسلہ اعمال کو تا قیام قیامت منقطع ہونے نہیں دیں گے۔ ان شاء اللہ۔
آپ سے علم دین حاصل کرنے والے شاگرد اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی خدمت دین میں شب وروز مشغول ہیں۔ ہمارے یہاں برطانیہ میں بھی آپؒ کے شاگردوں کی اور ان کے شاگردوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ ہماری جماعت جمعیت علماے برطانیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد لقمان میرپوری کا شمار بھی حضرتؒ کے لائق و فائق شاگردوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جامعہ نصرۃ العلوم سے دورۂ حدیث کے بعد یہاں برمنگھم کے قریب والسال میں ایک ادارہ جامعہ ابو بکر کی بنیاد رکھی ہے جس میں بفضلہ تعالیٰ اس وقت چودہ سو بچے بچیاں دینی اور دنیاوی علوم حاصل کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال اسی جامعہ کے شعبہ بنات میں بارہ طالبات نے دورہ حدیث کرکے سند فراغت حاصل کی جن کو حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی مدظلہ نے آخری حدیث پڑھائی۔ دیار غیر میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علم نافع سے لوگ اس وقت بھی اوران شاء اللہ تعالیٰ قیام قیامت تک فیض حاصل کرتے رہیں گے۔ اسی طرح برطانیہ کی ایک اور معروف درسگاہ جامعہ الہدیٰ میں بھی آپ کے شاگرد مولانا مسعود صاحب شب وروز پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں۔ حضرتؒ سے دورہ تفسیر اور دورہ حدیث پڑھنے والے شاگردوں کی کثیر تعداد برطانیہ کے مدارس و مساجد میں پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی مولانا عزیز الحق بھی حضرتؒ کے شاگرد بھی ہیں اور حضرتؒ کی بڑی صاحبزادی کے داماد بھی ہیں۔ انہوں نے مانچسٹر کے قریب برنلے میں ایک بہت بڑا چرچ خرید کر مدرسہ مصعبؓ بن یمیر کی بنیاد رکھی ہے، جس میں بحمد اللہ اس وقت چھ کلاسیں درجہ حفظ و ناظرہ کی چل رہی ہیں اور اس وقت تک اٹھارہ طلباقرآن مجید حفظ کر چکے ہیں۔ یہ سب حضرتؒ کے علم کا فیض ہے جو دیارِ غیر میں بھی جاری و ساری ہے۔
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ سے جید علماے کرام نے بھی فیض حاصل کیا، منتہی طلبا نے بھی پڑھا اور آپ نے مختلف موضوعات پر قابل قدر تصنیفات یادگار چھوڑیں جن سے آنے والے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے اور عوام و خواص کے دلوں میں ان کی یاد تازہ رہے گی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے سب بفضلہ تعالیٰ عالم دین ہیں اور اپنے والد گرامی کے مشن کے امین اور علم دین کی نشر واشاعت اور درس و تدریس میں مشغول ہیں۔ عوام الناس میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مقبول و محبوب ہونے کی شہادت ان کی نماز جنازہ میں بلا مبالغہ لاکھوں کی تعدادمیں عوام و خواص کا وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندرتھا جو شاذو نادر ہی کہیں نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے، لوگوں کی نظروں میں اس کو محبوب و مقبول بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے جوار حمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی نسبی اور روحانی اولاد اور لواحقین و متعلقین کو صبر جمیل اوران کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین