استاد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے تقریباً نصف صدی تک مسند درس کو رونق بخشی۔ درس نظامی کی کم و بیش ساری کتابیں خاص طور پر ترجمہ و تفسیر قرآن ‘ بخاری شریف اور ترمذی شریف انہیں بار بار پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر بھی دل میں حسرت ہی رہی کہ بعض کتابیں پڑھانے کا موقع نہ مل سکا۔ گزشتہ سال زیارت اور عبادت کے لیے حاضری ہوئی تو میں نے سوال کیا: حضرت کوئی ایسی حسرت جس کے ناتمام رہ جانے کا احساس ہوتا ہو؟ فرمایا: ’’بہت ساری ہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’ان میں سے کسی ایک کی نشاندی فرما دیجیے‘‘۔ فرمایا: ’’درس نظامی کی چھوٹی کتابیں نہیں پڑھا سکا۔ یہ حسرت آج بھی دل میں ہے‘‘۔ ذرارک کر سوچیے! اگر یہ سوال ہم میں سے کسی سے کیا جائے تو جواب میں نجانے کتنی مادی حسرتیں قطار اندر قطار اپنی اپانی جانب اشارے کرتے دکھائی دیں گی۔ پرتعیش مکان ‘ نئے ماڈل کی گاڑی ‘ وسیع کاروبار ‘ بھاری بھرکم بینک بیلنس ‘ میلوں پھیلی ہوئی جائیداد‘ شہرت کا بام عروج‘ اقتدار کی بلند سے بلند تر منزل ‘ شہوت رانی کے غلیظ سے غلیظ تر امکانات اور پتہ نہیں کیا کیا۔ کائنات کی سب سے سچی زبان نے فرمایا تھا: ’’انسان بوڑھا ہو جاتا ہے‘ مگر اس کے دل میں پرورش پانے والی دو چیزیں جو ان ہو جاتی ہیں۔ مال کی محبت اور طویل سے طویل تر زندگی کی چاہت‘‘، مگر اللہ والوں کی چاہتیں بھی ان کی شان کے مطابق ہوتی ہیں۔ زندگی بھر درس و تدریس فرماتے رہے۔ صبح سے شام تک اور ہر روز یہی شغل‘ یہی فکر‘ بلاناغہ اور بلاتعطل‘ پھر جب بڑھاپے اور امراض نے چلنے پھرنے سے عاجز کر دیا تو یہ حسرت پریشان کرتی رہی کہ کاش! فلاں اور فلاں کتاب کی تدریس کا موقع مل جاتا۔
تعلیم و تعلم اور تبلیغ و اصلاح میں مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ چار تو صرف درس قرآن کے حلقے تھے جن میں سے تین کے لیے روزانہ وقت دیتے تھے۔ نماز فجر کے بعد گکھڑ کی جامع مسجد میں ترجمہ و تفسیر بیان فرماتے۔ پچپن سال تک یہ سلسلہ پابندی سے چلتا رہا۔ ابتدا درس قرآن سے ہوئی۔ بعد میں ہفتے کے تین دن درس حدیث کے لیے مخصوص فرمائے۔ چنانچہ اس عوامی درس میں بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ ابوداؤد ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ اور مستدرک حاکم کے علاوہ حدیث کی کئی کتابوں کا درس دیا۔ درس قرآن کا دوسر ا حلقہ آپ نے گورنمنٹ ایلیمینٹری آف دی ٹیچرز نامی کالج میں قائم کیا۔ جہاں پی ٹی سی اور او ٹی اور ایس وی کی کلاسیں لگتی تھیں۔ یہاں آپ چالیس سال تک درس دیتے رہے ‘ حالانکہ یہ کالج آپ کی رہایش گاہ سے ایک میل کے فاصلے پر تھا اور آپ کو روزانہ آمدورفت میں دو میل کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی تھی۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں تھا جہاں آپ متوسط اور منتہی طلبہ کو دو سال میں پورے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاتے تھے۔ چوتھا حلقہ جسے ہمارے ہاں دورہ تفسیر کا نام دیا جاتا ہے ‘ مدارس کی سالانہ تعطیلات میں ہوتا تھا جس میں سینکڑوں طلبہ شریک ہوتے تھے۔ یہ دورہ پچیس برس تک ہوتا رہا۔ ان میں سے ہر درس کا اسلوب اور علمی سطح شرکاء کے اعتبار سے مختلف ہوتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق جن علما‘ طلبااور جدید تعلیم یافتہ حضرات اور عام مسلمانوں نے ان حلقہ ہاے درس میں شرکت کرکے آپ سے براہ راست استفادہ کیا، ان کی تعداد چالیس ہزار سے زائد بنتی ہے۔
اس ناچیز نے دینی علوم کی تحصیل سے رسمی فراغت کے بعد جب اپنے گاؤں میں تعلیم و تبلیغ کا آغاز کرنا چاہا اور مشورہ کے لیے حضرت کی خدمت میں گکھڑ حاضر ہوا تو آپ نے اپنے ذوق کے مطابق بلاتاخیر درس قرآن شروع کرنے کا حکم دیا اور خود اپنے بارے میں فرمایا کہ میں نے جب ۱۹۴۳ ء میں گکھڑ کی بوہڑ والی مسجد میں درس قرآن کا آغاز کیا تو صرف ایک آدمی بیٹھتا تھا اور تھا بھی وہ عام مزدور‘ مگر میں بھرپور تیاری کے بعد پورا گھنٹہ درس دیتا تھا۔ بعض دوستوں نے کہا بھی کہ جب کوئی سنتا ہی نہیں تو آپ اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں؟ مگر میں نے استقامت سے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ اب صورت یہ ہے کہ شرکا کی تعداد سو سے بھی زائد ہوتی ہے مگر مصروفیات کی وجہ سے میں صرف آدھ گھنٹہ درس دیتا ہوں۔ امام اہل سنت سواتی پٹھان تھے۔ مادری زبان پشتو تھی۔ اس کے باجود آپ عوامی درس اور خطبہ جمعہ ٹھیٹھ پنجابی میں ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ مطالعہ اور مشق سے آپ نے اس میں ایسی مہارت حاصل کر لی تھی کہ ناواقف شخص پہچان نہیں سکتا تھا کہ آپ پنجابی ہیں یا پٹھان؟
ایک موقع پر کثرت مطالعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ ایک زمانے میں میرے اوپر مطالعہ کی ایسی دھن سوار تھی کہ پنجابی ادب کی مشکل ترین کتابیں جو خود پنجابیوں کی نئی نسل کی سمجھ میں نہیں آتیں ‘میں نے ان کا بھی مطالعہ کیا‘‘۔ اسی سلسلے میں آپ نے بعض کتابوں کا نام بھی لیا اور حضرت کی زبان سے ان کتابوں کا شکر سننے کے بعد ہم نے بھی وہ کتابیں حاصل کیں اور ان سے بقدر ظرف استفادہ کیا۔ حصول علم اور مطالعہ کی یہ دھن اس وقت تک ذہن پر چھائی رہی جب تک ہوش و حواس قائم رہے۔ اس سلسلے کے کئی واقعات حضرت کے خصوصی خدام اور فرزندان گرامی سے سنے جا سکتے ہیں۔ وفات سے چند ہفتے پہلے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب حاضر خدمت ہوئے تو سلام اور خیریت دریافت کرنے کے بعد جو پہلا سوال کیا، وہ یہ تھا: ’’جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث صوفی محمد سرور صاحب نے آپ کے والد گرامی کے حوالے سے فلاں حدیث بیان کی ہے۔ مجھے اس کے حوالے کی تلاش ہے۔ آپ متعلقہ کتاب کی نشاندہی کیجیے‘‘۔
اللہ اکبر! کوئی حد ہے طلب اور جستجو ‘ تحقیق اور تحصیل کی ! پتا نہیں کب یہ حدیث آپ کو کسی نے سنائی ہوگی اور کب سے آپ اس انتظار میں تھے کہ اگر مفتی اعظم مرحوم کے علمی جانشینوں میں سے کوئی آیا تو میں اس سے حوالہ پوچھوں گا جبکہ حالت یہ ہے کہ چلنا پھرنا تو درکنار اٹھنا بیٹھنا اور کروٹ بدلنا بھی محال ہے۔ پھر یہ کہ مسئلہ بھی ایسا نہیں جس کی جوابدی اور تحقیق فوری ضروری ہو۔ جن لوگوں کو حصول علم کا چسکا نہیں لگا ‘ وہ نہیں جانتے کہ وہ کون سی چیز ہے جو حقیقی تشنگان علم کو بے تاب رکھتی ہے اور ان کی زندگی کو فضولیات سے دور کرکے نظم و ضبط کی کن پابندیوں میں جکڑ دیتی ہے۔
امام اہل سنت رحمہ اللہ نے جوانی ہی سے اپنے آپ کو جن معمولات کا عادی بنا لیا تھا ‘ ان کے ہوتے ہوئے لا یعنی کاموں کے لیے وقت بچ ہی نہیں سکتا تھا۔ برسہا برس تک جن معمولات کی آپ نے پابندی فرمائی ‘ وہ یہ تھے: عشا کے بعد آرام ‘ آخر شب نماز تہجد ‘ فجر سے قبل ناشتہ ‘ نماز فجر کی ادائیگی ‘ اپنی ہی مسجد میں عوامی درس قرآن و حدیث‘ گوجرانوالہ روانگی‘ تین اہم کتابوں کی تدریس‘ وہاں سے گکھڑ واپسی‘ کالج میں درس قرآن‘ دوپہر کا کھانا‘ قیلولہ‘ نماز ظہر‘ مقامی بچیوں کو درس نظامی کی مختلف کتابوں کی تعلیم ‘ مہمانوں سے ملاقات ‘ تصنیف و تالیف ‘ نماز عصر ‘ تلاوت قرآن ‘ تصنیف و تالیف ‘ دم اور تعویذ ‘ نماز مغرب ‘ کھانا اور مطالعہ ‘ نماز عشا‘ سونے کی تیاری۔
دم اور تعویذ کا یہ حال تھا کہ ضرورت مند کسی بھی وقت آ جاتے تھے انکار کرنا اور ڈانٹ کر بھگا دینا حضرت کی فطرت میں نہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی پرچیاں ہر وقت جیب میں رہتیں۔ کوئی چلتے پھرتے بھی تعویذ کیلئے درخواست کرتا تو وہ انگلیوں پر پرچی رکھ کر تعویذ لکھ دیتے اور اس کا کوئی ہدیہ اور نذرانہ قبول نہ فرماتے۔ کوئی اصرار کرتا تو لے کر کسی غریب طالب علم یا عام آدمی کو دے دیتے۔ دوران درس کئی لوگ اپنے اپنے مسائل کے لیے تحریری طور پر دعا کی درخواست کرتے۔ آپ ایک ایک پرچی کھولتے اور ہر ایک کے لیے الگ الگ دعا کرواتے۔ ایسا ہرگز نہ کرتے کہ تمام پرچیاں پڑھنے کے بعد اجتماعی دعا کروا دی جائے۔ حضرت کی کس کس ادا کا ذکر کیا جائے؟ حقیقت میں وہ جامع الصفت انسان تھے۔ صاحب خلق عظیم کے سچے غلام!
تواضع کا یہ عالم تھا کہ اپنے شاگردوں کے شاگردوں سے بھی بے تکلف ہو جاتے اور ان کا ایسا اکرام فرماتے کہ وہ پانی پانی ہو جاتے۔ ناچیز نے حاضری کے موقع پر حضرت کے ہاتھوں کو بوسہ دیا تو جواب میں حضرت نے بھی خطا کار ہاتھوں پر اپنے بابرکت ہونٹ ثبت فرما دیے۔ یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہ تھا بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرماتے تھے۔ مہمان نوازی کا یہ حال تھا کہ کوئی طالب علم بھی ملاقات کے لیے آ جاتا تو کھلائے پلائے بغیر جانے نہ دیتے۔ کراچی میں آج سے تقریباً پندرہ سولہ سال پہلے احقر کی کوششوں سے آپ کے اعزاز میں ’’امام اہل سنت کانفرنس‘‘ کے عنوان سے عظیم الشان عوامی اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ میری ناقص معلومات کے مطابق اس عنوان سے منعقد ہونے والی یہ پہلی کانفرنس تھی۔ جب آپ کے بیان کی باری آئی تو فرمایا: ’’گکھڑ کی جس مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں، اس کا نام مسجد اہل سنت والجماعت ہے۔ غالباً اسی مناسبت سے مجھے ’’امام اہل سنت‘‘ کا لقب دیا گیا ہے‘‘۔
وقت کی پابندی کا اتنا اہتمام فرماتے کہ آپ کے معمولات دیکھ کر گھڑی کا ٹائم درست کیا جا سکتا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ صبح سے رات تک درسی اور عوامی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کے لیے کچھ نہ کچھ وقت نکا ل لیتے تھے۔ بھاگم دوڑ میں نکالے گئے وقت ہی میں آپ نے ساٹھ کے قریب ایسی کتابیں تحریر فرمائیں جن کی ثقاہت و استناد کی حکیم الاسلام قاری محمد طیب اور علامہ شمس الحق افغانی رحمہمااللہ سمیت دسیوں اکابر نے تصدیق فرمائی۔ اپنے ہم عصر علما اور مصنفین میں آپ وہ مصنف تھے جن کی علمی و تحقیقی کتابوں کو عوا م میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور یکے بعد دیگرے ان کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
اولاد کے اعتبار سے بھی آپ بڑے خوش نصیب تھے۔ آپ کی تمام بیٹیوں اور بیٹوں نے قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ ان میں اکثر باضابطہ عالم دین ہیں اور دینی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کی ایک بیٹی نے چالیس سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ اسے قرآن کے اعجاز کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟ قرآن کے اعجاز کی ہلکی سی جھلک ان شخصیات میں بھی دکھائی دیتی ہے جو اپنی زندگیاں قرآن کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ یقیناًامام اہل سنت بھی ان میں سے ایک تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی جسمانی اور روحانی اولاد کو ان کی اصلاح ‘ تبلیغی ‘ تدریسی اور قرآنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔