چند منتشر یادیں

مولانا محمد اسلم شیخوپوری

استاد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے تقریباً نصف صدی تک مسند درس کو رونق بخشی۔ درس نظامی کی کم و بیش ساری کتابیں خاص طور پر ترجمہ و تفسیر قرآن ‘ بخاری شریف اور ترمذی شریف انہیں بار بار پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر بھی دل میں حسرت ہی رہی کہ بعض کتابیں پڑھانے کا موقع نہ مل سکا۔ گزشتہ سال زیارت اور عبادت کے لیے حاضری ہوئی تو میں نے سوال کیا: حضرت کوئی ایسی حسرت جس کے ناتمام رہ جانے کا احساس ہوتا ہو؟ فرمایا: ’’بہت ساری ہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’ان میں سے کسی ایک کی نشاندی فرما دیجیے‘‘۔ فرمایا: ’’درس نظامی کی چھوٹی کتابیں نہیں پڑھا سکا۔ یہ حسرت آج بھی دل میں ہے‘‘۔ ذرارک کر سوچیے! اگر یہ سوال ہم میں سے کسی سے کیا جائے تو جواب میں نجانے کتنی مادی حسرتیں قطار اندر قطار اپنی اپانی جانب اشارے کرتے دکھائی دیں گی۔ پرتعیش مکان ‘ نئے ماڈل کی گاڑی ‘ وسیع کاروبار ‘ بھاری بھرکم بینک بیلنس ‘ میلوں پھیلی ہوئی جائیداد‘ شہرت کا بام عروج‘ اقتدار کی بلند سے بلند تر منزل ‘ شہوت رانی کے غلیظ سے غلیظ تر امکانات اور پتہ نہیں کیا کیا۔ کائنات کی سب سے سچی زبان نے فرمایا تھا: ’’انسان بوڑھا ہو جاتا ہے‘ مگر اس کے دل میں پرورش پانے والی دو چیزیں جو ان ہو جاتی ہیں۔ مال کی محبت اور طویل سے طویل تر زندگی کی چاہت‘‘، مگر اللہ والوں کی چاہتیں بھی ان کی شان کے مطابق ہوتی ہیں۔ زندگی بھر درس و تدریس فرماتے رہے۔ صبح سے شام تک اور ہر روز یہی شغل‘ یہی فکر‘ بلاناغہ اور بلاتعطل‘ پھر جب بڑھاپے اور امراض نے چلنے پھرنے سے عاجز کر دیا تو یہ حسرت پریشان کرتی رہی کہ کاش! فلاں اور فلاں کتاب کی تدریس کا موقع مل جاتا۔

تعلیم و تعلم اور تبلیغ و اصلاح میں مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ چار تو صرف درس قرآن کے حلقے تھے جن میں سے تین کے لیے روزانہ وقت دیتے تھے۔ نماز فجر کے بعد گکھڑ کی جامع مسجد میں ترجمہ و تفسیر بیان فرماتے۔ پچپن سال تک یہ سلسلہ پابندی سے چلتا رہا۔ ابتدا درس قرآن سے ہوئی۔ بعد میں ہفتے کے تین دن درس حدیث کے لیے مخصوص فرمائے۔ چنانچہ اس عوامی درس میں بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ ابوداؤد ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ اور مستدرک حاکم کے علاوہ حدیث کی کئی کتابوں کا درس دیا۔ درس قرآن کا دوسر ا حلقہ آپ نے گورنمنٹ ایلیمینٹری آف دی ٹیچرز نامی کالج میں قائم کیا۔ جہاں پی ٹی سی اور او ٹی اور ایس وی کی کلاسیں لگتی تھیں۔ یہاں آپ چالیس سال تک درس دیتے رہے ‘ حالانکہ یہ کالج آپ کی رہایش گاہ سے ایک میل کے فاصلے پر تھا اور آپ کو روزانہ آمدورفت میں دو میل کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی تھی۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں تھا جہاں آپ متوسط اور منتہی طلبہ کو دو سال میں پورے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاتے تھے۔ چوتھا حلقہ جسے ہمارے ہاں دورہ تفسیر کا نام دیا جاتا ہے ‘ مدارس کی سالانہ تعطیلات میں ہوتا تھا جس میں سینکڑوں طلبہ شریک ہوتے تھے۔ یہ دورہ پچیس برس تک ہوتا رہا۔ ان میں سے ہر درس کا اسلوب اور علمی سطح شرکاء کے اعتبار سے مختلف ہوتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق جن علما‘ طلبااور جدید تعلیم یافتہ حضرات اور عام مسلمانوں نے ان حلقہ ہاے درس میں شرکت کرکے آپ سے براہ راست استفادہ کیا، ان کی تعداد چالیس ہزار سے زائد بنتی ہے۔

اس ناچیز نے دینی علوم کی تحصیل سے رسمی فراغت کے بعد جب اپنے گاؤں میں تعلیم و تبلیغ کا آغاز کرنا چاہا اور مشورہ کے لیے حضرت کی خدمت میں گکھڑ حاضر ہوا تو آپ نے اپنے ذوق کے مطابق بلاتاخیر درس قرآن شروع کرنے کا حکم دیا اور خود اپنے بارے میں فرمایا کہ میں نے جب ۱۹۴۳ ء میں گکھڑ کی بوہڑ والی مسجد میں درس قرآن کا آغاز کیا تو صرف ایک آدمی بیٹھتا تھا اور تھا بھی وہ عام مزدور‘ مگر میں بھرپور تیاری کے بعد پورا گھنٹہ درس دیتا تھا۔ بعض دوستوں نے کہا بھی کہ جب کوئی سنتا ہی نہیں تو آپ اتنی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں؟ مگر میں نے استقامت سے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ اب صورت یہ ہے کہ شرکا کی تعداد سو سے بھی زائد ہوتی ہے مگر مصروفیات کی وجہ سے میں صرف آدھ گھنٹہ درس دیتا ہوں۔ امام اہل سنت سواتی پٹھان تھے۔ مادری زبان پشتو تھی۔ اس کے باجود آپ عوامی درس اور خطبہ جمعہ ٹھیٹھ پنجابی میں ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ مطالعہ اور مشق سے آپ نے اس میں ایسی مہارت حاصل کر لی تھی کہ ناواقف شخص پہچان نہیں سکتا تھا کہ آپ پنجابی ہیں یا پٹھان؟ 

ایک موقع پر کثرت مطالعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ ایک زمانے میں میرے اوپر مطالعہ کی ایسی دھن سوار تھی کہ پنجابی ادب کی مشکل ترین کتابیں جو خود پنجابیوں کی نئی نسل کی سمجھ میں نہیں آتیں ‘میں نے ان کا بھی مطالعہ کیا‘‘۔ اسی سلسلے میں آپ نے بعض کتابوں کا نام بھی لیا اور حضرت کی زبان سے ان کتابوں کا شکر سننے کے بعد ہم نے بھی وہ کتابیں حاصل کیں اور ان سے بقدر ظرف استفادہ کیا۔ حصول علم اور مطالعہ کی یہ دھن اس وقت تک ذہن پر چھائی رہی جب تک ہوش و حواس قائم رہے۔ اس سلسلے کے کئی واقعات حضرت کے خصوصی خدام اور فرزندان گرامی سے سنے جا سکتے ہیں۔ وفات سے چند ہفتے پہلے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب حاضر خدمت ہوئے تو سلام اور خیریت دریافت کرنے کے بعد جو پہلا سوال کیا، وہ یہ تھا: ’’جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث صوفی محمد سرور صاحب نے آپ کے والد گرامی کے حوالے سے فلاں حدیث بیان کی ہے۔ مجھے اس کے حوالے کی تلاش ہے۔ آپ متعلقہ کتاب کی نشاندہی کیجیے‘‘۔

اللہ اکبر! کوئی حد ہے طلب اور جستجو ‘ تحقیق اور تحصیل کی ! پتا نہیں کب یہ حدیث آپ کو کسی نے سنائی ہوگی اور کب سے آپ اس انتظار میں تھے کہ اگر مفتی اعظم مرحوم کے علمی جانشینوں میں سے کوئی آیا تو میں اس سے حوالہ پوچھوں گا جبکہ حالت یہ ہے کہ چلنا پھرنا تو درکنار اٹھنا بیٹھنا اور کروٹ بدلنا بھی محال ہے۔ پھر یہ کہ مسئلہ بھی ایسا نہیں جس کی جوابدی اور تحقیق فوری ضروری ہو۔ جن لوگوں کو حصول علم کا چسکا نہیں لگا ‘ وہ نہیں جانتے کہ وہ کون سی چیز ہے جو حقیقی تشنگان علم کو بے تاب رکھتی ہے اور ان کی زندگی کو فضولیات سے دور کرکے نظم و ضبط کی کن پابندیوں میں جکڑ دیتی ہے۔ 

امام اہل سنت رحمہ اللہ نے جوانی ہی سے اپنے آپ کو جن معمولات کا عادی بنا لیا تھا ‘ ان کے ہوتے ہوئے لا یعنی کاموں کے لیے وقت بچ ہی نہیں سکتا تھا۔ برسہا برس تک جن معمولات کی آپ نے پابندی فرمائی ‘ وہ یہ تھے: عشا کے بعد آرام ‘ آخر شب نماز تہجد ‘ فجر سے قبل ناشتہ ‘ نماز فجر کی ادائیگی ‘ اپنی ہی مسجد میں عوامی درس قرآن و حدیث‘ گوجرانوالہ روانگی‘ تین اہم کتابوں کی تدریس‘ وہاں سے گکھڑ واپسی‘ کالج میں درس قرآن‘ دوپہر کا کھانا‘ قیلولہ‘ نماز ظہر‘ مقامی بچیوں کو درس نظامی کی مختلف کتابوں کی تعلیم ‘ مہمانوں سے ملاقات ‘ تصنیف و تالیف ‘ نماز عصر ‘ تلاوت قرآن ‘ تصنیف و تالیف ‘ دم اور تعویذ ‘ نماز مغرب ‘ کھانا اور مطالعہ ‘ نماز عشا‘ سونے کی تیاری۔ 

دم اور تعویذ کا یہ حال تھا کہ ضرورت مند کسی بھی وقت آ جاتے تھے انکار کرنا اور ڈانٹ کر بھگا دینا حضرت کی فطرت میں نہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی پرچیاں ہر وقت جیب میں رہتیں۔ کوئی چلتے پھرتے بھی تعویذ کیلئے درخواست کرتا تو وہ انگلیوں پر پرچی رکھ کر تعویذ لکھ دیتے اور اس کا کوئی ہدیہ اور نذرانہ قبول نہ فرماتے۔ کوئی اصرار کرتا تو لے کر کسی غریب طالب علم یا عام آدمی کو دے دیتے۔ دوران درس کئی لوگ اپنے اپنے مسائل کے لیے تحریری طور پر دعا کی درخواست کرتے۔ آپ ایک ایک پرچی کھولتے اور ہر ایک کے لیے الگ الگ دعا کرواتے۔ ایسا ہرگز نہ کرتے کہ تمام پرچیاں پڑھنے کے بعد اجتماعی دعا کروا دی جائے۔ حضرت کی کس کس ادا کا ذکر کیا جائے؟ حقیقت میں وہ جامع الصفت انسان تھے۔ صاحب خلق عظیم کے سچے غلام! 

تواضع کا یہ عالم تھا کہ اپنے شاگردوں کے شاگردوں سے بھی بے تکلف ہو جاتے اور ان کا ایسا اکرام فرماتے کہ وہ پانی پانی ہو جاتے۔ ناچیز نے حاضری کے موقع پر حضرت کے ہاتھوں کو بوسہ دیا تو جواب میں حضرت نے بھی خطا کار ہاتھوں پر اپنے بابرکت ہونٹ ثبت فرما دیے۔ یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہ تھا بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرماتے تھے۔ مہمان نوازی کا یہ حال تھا کہ کوئی طالب علم بھی ملاقات کے لیے آ جاتا تو کھلائے پلائے بغیر جانے نہ دیتے۔ کراچی میں آج سے تقریباً پندرہ سولہ سال پہلے احقر کی کوششوں سے آپ کے اعزاز میں ’’امام اہل سنت کانفرنس‘‘ کے عنوان سے عظیم الشان عوامی اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ میری ناقص معلومات کے مطابق اس عنوان سے منعقد ہونے والی یہ پہلی کانفرنس تھی۔ جب آپ کے بیان کی باری آئی تو فرمایا: ’’گکھڑ کی جس مسجد میں نماز پڑھاتا ہوں، اس کا نام مسجد اہل سنت والجماعت ہے۔ غالباً اسی مناسبت سے مجھے ’’امام اہل سنت‘‘ کا لقب دیا گیا ہے‘‘۔

وقت کی پابندی کا اتنا اہتمام فرماتے کہ آپ کے معمولات دیکھ کر گھڑی کا ٹائم درست کیا جا سکتا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ صبح سے رات تک درسی اور عوامی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کے لیے کچھ نہ کچھ وقت نکا ل لیتے تھے۔ بھاگم دوڑ میں نکالے گئے وقت ہی میں آپ نے ساٹھ کے قریب ایسی کتابیں تحریر فرمائیں جن کی ثقاہت و استناد کی حکیم الاسلام قاری محمد طیب اور علامہ شمس الحق افغانی رحمہمااللہ سمیت دسیوں اکابر نے تصدیق فرمائی۔ اپنے ہم عصر علما اور مصنفین میں آپ وہ مصنف تھے جن کی علمی و تحقیقی کتابوں کو عوا م میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور یکے بعد دیگرے ان کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔

اولاد کے اعتبار سے بھی آپ بڑے خوش نصیب تھے۔ آپ کی تمام بیٹیوں اور بیٹوں نے قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ ان میں اکثر باضابطہ عالم دین ہیں اور دینی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کی ایک بیٹی نے چالیس سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا۔ اسے قرآن کے اعجاز کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟ قرآن کے اعجاز کی ہلکی سی جھلک ان شخصیات میں بھی دکھائی دیتی ہے جو اپنی زندگیاں قرآن کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔ یقیناًامام اہل سنت بھی ان میں سے ایک تھے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی جسمانی اور روحانی اولاد کو ان کی اصلاح ‘ تبلیغی ‘ تدریسی اور قرآنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مشاہدات و تاثرات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter