امام اہل سنت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا نام نامی ملت اسلامیہ میں اپنے تحقیقی وعلمی کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آپ نے ۵۰ کے قریب کتب یاد گار چھوڑی ہیں جن کا علمی وتحقیقی معیار نہایت بلند ہے۔ ۱۹۴۴ء میں آپ کی پہلی تصنیف ’’ الکلام الحاوی ‘‘ منظر عام پر آئی اور ۱۹۹۶ء تک، جب آپ کی آخری تصنیف ’’توضیح المرام فی نزول المسیح علیہ السلام‘‘ منظر عام پر آئی، آپ پوری تن د ہی کے ساتھ دین متین کے علمی وفکری زاویوں سے مرصع تصنیفات وتالیفات پیش کرتے رہے۔ یوں تو آپ کی ہر تالیف کاعلمی شکوہ چار دانگ عالم میں شہرہ رکھتا ہے، لیکن ’’احسن الکلام‘‘، ’’تسکین الصدور‘‘، ’’اظہار العیب‘‘، ’’الکلام المفید‘‘، ’’راہ سنت‘‘، ’’شوق حدیث‘‘، ’’طائفہ منصورہ‘‘ اور ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ میں جس انداز سے علمی وتحقیقی اور فنی کمالات کا مظاہر ہ کیا گیا ہے، اس کی بدولت ان تصنیفات نے بر صغیر کے سبھی دینی مفکرین سے بے پناہ داد پائی، خاص طور پر ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ تو ایک ایسا شاہکار ہے کہ اس کی نظیر شاید ہی پیش کی جا سکے۔
سراج الائمہ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ ؒ کا اسم گرامی تاریخ امت میں اپنی گراں قدر خدمات کے لیے جگمگاتا رہے گا۔ آپ کی شان محدثیت وحدیث فہمی لاریب، ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ آپ کے حالات، ذاتی اوصاف اور تدوین فقہ کے لیے خدمات ملت اسلامیہ کی تاریخ کا نہایت درخشندہ باب ہے جس سے آنے والے سارے زمانے روشنی اور رہنمائی پاتے رہیں گے۔ آپ کے عہد کے دینی، فکری اور سیاسی رویوں کا بھرپور مطالعہ بہت سے سوانح نگاروں نے اپنی تصنیفات میں عمدہ طریق سے کیا ہے۔ مختلف دینی اور مذہبی دانشوروں نے امام اعظم کے علوم حدیث اور سیاسی زندگی کے تناظر میں اتنا وقیع علمی کام سرانجام دیاہے کہ اس کی بدولت امام اعظم ؒ کی فقہی اور سیاسی بصیرت سے تاقیامت استفادہ کیا جاتا رہے گا۔
جہاں امام اعظمؒ کی زندگی پر محققانہ شان سے نہایت علمی انداز میں تصنیف وتالیف کرنے والے مصنفین موجود ہیں، بدقسمتی سے وہاں ایک خاص جماعت کی دریدہ دہنی، فقہاے امت کی شان میں گستاخی اوران پر بے بنیاد الزامات کے تندوتیز حملے روز مرہ کی بات ہو گئی ہے اور بالخصوص ان کا زور طعن وتشنیع زیادہ تر امام اعظمؒ پر صر ف ہوتا ہے۔ یہ لوگ تمام ائمہ کو چھوڑ کر امام اعظم ؒ پر طرح طرح کے ایسے الزامات تراشتے رہتے ہیں جن کابے بنیاد ہونا صدیوں سے واضح کیا جا رہا ہے۔ ان کی گمراہ کن تالیفات میں حوالہ جات کی قطع وبرید کر کے اور متعصبین کے حوالے چن چن کر ہر ناجائز طریق سے امام اعظم ؒ کو مطعون ٹھیرانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں ’’حقیقۃ الفقہ‘‘، ’’شمع محمدی‘‘ اور ’’نتائج التقلید‘‘ وغیرہ اسی نوعیت کی کتابیں تھیں۔ ان گمراہ کن تالیفات میں مصنفین نے تعصب،جہالت اور دروغ گوئی کا بھر پور مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنی کم مایگی اور دریدہ دہنی کے نادرنمونے پیش کیے ہیں۔ بالخصوص ’’نتائج التقلید‘‘ میں عرصہ دراز سے چلے آنے والے ان خلاف واقعہ اکاذیب کو جدید سانچے میں ڈھالنے کی سعی کی گئی ہے جن کی حقیقت علماے امت صدیوں قبل واضح کر چکے ہیں۔
’’مقام ابی حنیفہ‘‘ میں معترضین کے تعصب اور عناد کے انھی مظاہر کی نشان دہی کی گئی ہے اور امام اعظم ؒ کے مقام حدیث وفقہ اور علم کلام کے بارے میں سیر حاصل علمی مواد پیش کیا گیا ہے۔ ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ کی پوری تسوید ۱۰؍رجب تا۲؍رمضان ۱۳۸۱ھ بمطابق ۸؍فروری ۱۹۶۲ء کوہوئی اور طباعتی مراحل سے گزر کر یہ ۲۹؍مئی ۱۹۶۲ء کو اشاعت پذیر ہوئی۔ یہ تصنیف ’’نتائج التقلید‘‘ ( مولفہ حکیم محمد اشرف سندھو، بلو کے قصور ) میں اٹھائے گئے تمام اعتراضات، شبہات اور مناقشات کانہایت متانت بھرا عالمانہ جواب تھا جس میں نہ صرف فریب کاریوں، دجل وتلبیس اور قطع وبرید کے ذریعے پیش کی جانے والی نام نہاد وجعلی تحقیق کا پول کھولا گیا ہے بلکہ امام اعظم ؒ کی شان تقویٰ وورع اور علمی مقام، ان کی مجتہدانہ خصوصیات اور علم فقہ وحدیث میں ان کی امامت کو نہایت مستنداور ناقابل انکار شواہد اور حوالہ جات سے ثابت کیا گیا ہے۔
یہ گراں قدر علمی وتحقیقی تالیف آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں مولانا سرفرازخان صفدر ؒ کا تحقیقی انداز بہت سلجھا ہوا اور نہایت تحقیقی ہے۔ انہوں نے صفحہ بہ صفحہ نہایت سلیقے اور خوب صورتی کے ساتھ اہل حق کی تائید میں قرآن وسنت، اقوال صحابہ وائمہ تابعین وفقہا سے جابجا دلائل پیش کیے ہیں۔ کتاب میں متعدد اصولی وفروعی دقیق مباحث کا سیرحاصل تعارف کرایا گیا ہے، مثلاً فقہ واجتہاد کی اہمیت، فقہاے کوفہ اور محدثین کا تفصیلی تعارف، رائے کا صحیح مفہوم، اس کی شرعی وعرفی حیثیت، رائے مذموم، امام اعظم ؒ کے ہاں رائے اور قیاس کے اعتبار کا صحیح معیار اور حدیث (خواہ وہ ضعیف ہو) کی راے پر ترجیح جیسے مسائل بڑی علمی شان سے زیر بحث آئے ہیں۔
’’سخن ہائے گفتنی‘‘ کے ذیل میں شیخ الحدیث ؒ نے ان مختلف علمی اشکالات کی وضاحت کی ہے جن کے باعث یہ کتاب لکھی گئی۔ ان کے مطابق اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ تاریخی طور پرامام اعظم ؒ کاعلم حدیث میں مقام اورمرتبہ بیان کیا جائے اور منکرین کے دجل وتلبیس کو آشکارا کیا جائے تاکہ کسی کو کوئی مغالطہ نہ رہے اور صحیح بات ذہن نشین ہو سکے۔ امام اعظم ؒ کے حوالے سے یہ الزام کہ وہ حدیث میں ضعیف اور کمزور تھے اوران کا سرمایہ حدیث فقط سترہ احادیث تھی، ان سب بے بنیاد دعاوی کے ٹھوس اور مسکت حوالہ جات نقل کیے جائیں اوران سے علمی مناقشہ کیا جائے اور اس کا مسکت جواب دیاجائے۔
مقام ابی حنیفہ کے مآخذکے حوالہ سے مصنف رقم طراز ہیں کہ ’’اس کتاب میں جتنے حوالہ جات درج ہیں، اکثر براہ راست راقم السطور نے خود کتابوں سے دیکھے ہیں اور جو علمی کتابیں دستیاب نہیں تھیں، ان کے حوالہ جات ’’ابن ماجہ اور علم حدیث‘‘ از مولانا عبدالرشید نعمانی اور ’’مذہب اہل سنت والجماعت‘‘ از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی سے لیے گئے ہیں او ر بقیہ حوالہ جات اکابر ہی کی کتابوں کی رہنمائی میں ہم نے اصل کتابوں سے نقل کیے ہیں۔‘‘ (ص ۳۵)
یہ پیراگراف اس کتاب کی علمی وتحقیقی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے اور بلامبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مصنف نے کتاب کے ہر ہر صفحے پر اس تحقیقی صورت گری کو پوری ثقاہت اور علمی شکوہ سے مدنظر رکھا ہے۔
مقام ابی حنیفہ کے باب اول میں تفقہ فی الدین، قرآن کریم میں تفقہ کی فضیلت، حدیث میں فقہ کا درجہ جیسے موضوعات پر سیر حاصل کلام کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل وخرد اور فہم وفقہ سے مراد عام سمجھ نہیں بلکہ وہ فہم وفراست مراد ہے جو دین سے متعلق ہے، عام اس سے اس کا تعلق روایت سے ہو یا درایت سے۔ قرآن وحدیث اور اقوال علما میں جہاں بھی فقہ وعقل کا لفظ آتا ہے، اس سے یہی مراد ہوتی ہے۔ (ص ۳۹) ازروے حدیث فقہ کاد رجہ واضح کرتے ہوئے بخار ی، مسلم اور مشکوٰۃ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تشریح علماے سلف کی عبارات کی روشنی میں کی گئی ہے جس میں بارش اور زمینوں پر اس کے اثرات اور مابعد نتائج کو واضح کیا گیا ہے۔ محدث اور فقیہ کے علمی منصب کو واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ حدیث کو جمع کرکے اس کو آگے پہنچانا، اس پر عمل کرتے ہوئے اپنا تزکیہ کرنا اور اس کے ذریعہ ہزاروں مسائل کا حل نکال کر امت کو عظیم فائدہ پہنچانا اسی حدیث کا مصداق ہے۔ تفقہ فی الدین کا درجہ بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ احادیث کی تبلیغ کا اصل مقصد ان سے فقہ حاصل کرنا ہے۔ (ص ۴۳)
کتاب ہذا کے باب دوم میں فقہ ودرایت کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حدیث کے سلسلہ میں دواہم اور بنیادی چیزوں کی سخت ضرورت ہے جن کے بغیر حدیث سے استفادہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ایک چیز سند اور روایت ہے اور دوسری معنی ودرایت۔ اول کی حفاظت محدثین کرام نے کی ہے اور دوسری کی فقہاے کرام نے۔ اگر ایک طبقہ اور گروہ نے راستہ کی حفاظت کی ہے تو دوسرا گروہ منزل کا نگہبان رہا ہے۔ اگر ایک جماعت نے چھلکے اور پوست کی نگرانی کی تو دوسرا حزب میوہ اور مغز کاپاسبان رہاہے۔ (ص ۴۵) نہایت واضح انداز میں یہ بات بھی پیش کی گئی ہے کہ فقہ حاصل کرنے کو ان لوگوں نے معیوب قرار دیا ہے جو عقل سے محروم ہیں اور ایسے لوگوں کے علم فقہ پر عیب لگانے سے کوئی ضرر نہیں ہے۔
تیسرے باب میں امت کی تاریخ سے فقہ واجتہاد کی چند نہایت روشن جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔ شیخ الحدیثؒ نے فقہاے صحابہ کرام کے بارے میں امام مسروقؒ ، امام حاکمؒ ، امام شعبیؒ اور ابن قیم ؒ کے حوالے پیش کر کے مختلف فقہاے صحابہ کرام کے اسماے مبارکہ رقم کیے ہیں اوران کی علمی فضیلت کا احوال بیان کیا ہے۔ ’’کوفہ میں حضرات صحابہ کرام کا ورود‘‘ اور ’’اہل کوفہ اور علم حدیث‘‘ کے زیر عنوان ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ستر بدری صحابہ، تین سو بیعت رضوان میں شریک صحابہ کے ساتھ ساتھ ایک ہزار پچا س صحابہ کرام کوفہ میں علمی وفکری روایت کا نقش اول تھے، جبکہ تذکرۃ الحفاظ جلد اول سے کوفی یانزیل کوفہ محدثین میں سے ایسے ۹۷ اکابر کے نام مع سن وفات دیے گئے ہیں جن کانام تاریخ حدیث میں مستقل سند کا درجہ رکھتا ہے۔ مولانا شمس الحق افغانی فرماتے ہیں کہ مقام ابی حنیفہ کے پہلے تین ابواب میں تفقہ کا شرعاً محمود اور مطلوب ہونا ثابت کیا گیا ہے جس کے لیے قرآنی آیات، احادیث اور تعامل صحابہ سے استدلال کیا گیا اور نقول کا پورا ذخیرہ پیش کیا گیا ہے۔ (ص ۱۶)
باب چہارم میں امام اعظم ؒ کے علمی مقام کو مختلف حوالوں سے واضح کیا گیا ہے۔ یہی باب فقہ حنفی کی مقبولیت اور آپ کے اراکین شوریٰ کے تعارف وخدمات کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ واضح کیاگیا ہے کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو کوفہ میں حضرات صحابہ کرام کی بعض شخصیات موجود تھیں۔ انہو ں نے اکابر سے علمی استفادہ کیا اور فقہ میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ بڑے بڑے علما آپ کے کمال اور خوبی کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں۔ اس سلسلے میں تاریخ بغداد، تہذیب التہذیب، مناقب موفق اور مناقب کردی وغیرہ کے حوالوں سے آپ کی فقہی شان باحوالہ بیان کی گئی ہے۔ ایک ایک راے اتنی جامع اور وافی ہے کہ امام اعظم ؒ کی عظمت پر مہر ثبت کر دیتی ہے۔ امام اعظم ؒ کی ولادت کی بشارت بزبان حدیث مبارکہ، آپ کے فارسی الاصل ہونے کا تحقیقی ثبوت اور اس بارے میں امت کے مقتدر بزرگان کا ایمان وایقان بشارت کی فصل میں موجود ہے۔ آپ کی کاروباری دیانت اور امانت کی پاسداری کو تاریخی حقائق کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے۔ بنو امیہ کے آخری بادشاہ مروان کی طرف سے مقرر کردہ جابر گورنر یزید بن عمرو نے اپنے سیاسی اقتدار کے استحکام کے لیے آپ کو عہدۂ قضا کی پیش کش کی اور آپ کے انکار کی پاداش میں آپ کو مسلسل بارہ دن تک ۱۲۰ کوڑوں کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد عباسی دور میں ابوجعفر منصور کے ظلم واستبداد کی خونیں اور دلخراش داستان بیان کی گئی ہے جب آ پ کو تیس کوڑے مارے گئے اور آپ کا جسم خون آلود ہو گیا۔
فقہ حنفی کی مقبولیت کے ذیل میں شیخ الحدیث ؒ نے ان سب عوامل کا گہرا تجزیہ پیش کیا ہے جن کی بدولت امت مسلمہ میں فقہ حنفی کو مقبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ اسی طرح فقہ حنفی کے متعلق دروغ گوئی کرنے والے حضرات کی تنقیدات کا جائزہ پیش کیا ہے کہ ان کی مدار محض جہالت ہے اور فرضی واقعات سے امت کو گمراہ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ شیخ الحدیثؒ نے اپنے مطالعہ کا ماحصل یوں بیان کیاہے کہ امام صاحب کی فقہ اس لیے مقبول رہی ہے کہ اس کے اصول وضوابط شوریٰ کے ذریعے طے ہوتے رہے ہیں، چنانچہ کوفہ کے اندر کتاب وسنت کی روشنی میں وضع قوانین اور حل حوادث کے لیے ایک مجلس شوریٰ قائم کی تھی جس کے امام اعظم سربراہ تھے اور ان کی سربراہی میں اہل علم غوروخو ض کرتے تھے۔ بحث وتمحیص کے بعد اگر کسی رائے پر متفق ہو جاتے تو اسے قید تحریر میں لاتے تھے۔ اس ضمن میں حضرت شیخ الحدیثؒ نے آپ کی مجلس شوریٰ کے اراکین کے نام اور ان کی فقہی صلاحیت کے متعلق تاریخی حوالے پیش کیے ہیں۔ ملاعلی قاریؒ کے حوالے سے تاریخی کام کا مکمل حوالہ پیش کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ’’ امام صاحب نے تراسی ہزار مسئلے طے کیے، ان میں اڑتیس ہزار عبادات سے متعلق اور باقی معاملات سے متعلق تھے۔‘‘ (ص ۱۰۵)
کتاب کے پانچواں باب میں حضر ت امام اعظم ؒ اور علم حدیث کے ذیل میں فن روایت او رعلم حدیث میں آپ کے رتبے کو بیان کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ ملاعلی قاری ؒ کا تاریخی حوالہ دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’ امام ابوحنیفہ ؒ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے کچھ اوپر حدیثیں بیان کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے کتاب الآثار کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ (ص ۱۱۴) حضرت شیخ الحدیث نے اسی باب میں شبلی نعمانی ؒ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ امام صاحب کی اپنی کوئی تصنیف نہیں تھی اور حتیٰ کہ ’’الفقہ الاکبر‘‘ بھی ان کی اپنی تالیف نہیں تھی‘ تاریخ اہل حدیث ص ۶۶ سے حوالہ دیا ہے کہ امام ابن تیمیہ ’’منہاج السنۃ‘‘ میں فقہ اکبر کو حضرت امام اعظمؒ کی تصنیف قرار دیتے ہیں۔ پس مولانا شبلی ؒ کے انکار کی بنا پر اسے معرض بحث میں لانے کی ضرورت نہیں۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ’’ امام صاحب کی تصانیف سے وہ املائی تصانیف ہیں جن کو ان کے لائق اور قابل قدر تلامذہ مثلاً امام ابویوسف وغیرہ امام صاحب ؒ کی تعلیم وتدریس کے وقت قید تحریر میں لاتے تھے، کیونکہ ان کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ایک ایک مسئلہ پر کئی کئی دن غوروخوض ہوتا تھا۔ پھر آپ فرماتے تھے کہ اب مسئلہ کو لکھ لو اور بجائے سینہ کے سفینہ میں محفوظ کر لو۔ اورامام صاحب کی ان املائی کتابوں میں سترہزار سے زیادہ حدیثیں موتیوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں۔‘‘ (ص ۱۱۷)
اس سلسلے میں شیخ الحدیث ’’الخیر ات الحسان‘‘ لابن حجر مکی کا حوالہ نقل کرتے ہیں کہ ’’اس بات سے پرہیز کرنا کہ تم یہ وہم کرنے لگو کہ امام اعظم کو فقہ کے بغیر اور کسی علم کی خبر تام نہ تھی۔ حاشا للہ۔ امام ابوحنیفہؒ علوم شرعیہ تفسیر، حدیث اور علوم ادبیہ وقیاس فنون میں بحر بے بیکراں اور امام تھے جن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بعض دشمنوں کا ان کے بارے میں اس کے خلاف کچھ کہنے کا سبب محض حسد اور معاصرانہ چشمک، جھوٹ وبہتان کی الزام تراشی ہے۔ (ص ۱۲۶)
باب پنجم ہی کی ایک فصل میں حضرت امام ابوحنیفہ کی ثقاہت کے ذیل میں امام یحییٰ بن معین کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ الحدیث لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ثقہ تھے اور وہ اسی حدیث کا حوالہ دیتے تھے جو ان کو متن اور پوری سند کے ساتھ ازبر یاد ہوتی تھی۔ جو حدیث ان کو یاد نہ ہوتی تھی، وہ اس کو بیان نہیں کرتے تھے۔ اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے آپ مولف نتائج التقلید کی کج فہمی، کج بحثی اور یاوہ گوئی کی بڑے بھر پور انداز میں قلعی کھولتے ہیں۔
احترام حدیث وحب محدثین اور حدیث میں احتیاط کے حوالہ سے امام اعظمؒ کے عمل کی تفہیم وتعبیر وتشریح بھی اسی باب میں پورے تفصیلی مواد کے ساتھ موجود ہے اور اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کے لیے کشادگی فکر ونظر کا بڑا سامان رکھتی ہے۔ قلت حدیث کے الزام کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الحدیث لکھتے ہیں: ’’آپ کو قلیل الحدیث بلکہ یتیم الحدیث کے تیر سے زخمی کیا گیاہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کو تو صرف سترہ حدیثیں معلوم تھیں اور اس کے اثبات کے لیے ممتاز مورخ ابن خلدون کے نامکمل حوالے کے دامن میں پناہ ڈھونڈی گئی۔‘‘ آپ نے اس باب میں تاریخ ابن خلدون سے مکمل حوالہ بغیر قطع وبرید کے نقل کرکے مبغضین او ر متعصبین کے جھوٹ کا پول کھول دیا ہے۔
غیر مقلدین کی طرف سے امام اعظم ؒ کو اہل رائے کہا جاتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث نے اس موضوع پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے رائے کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کی بحث کرتے ہوئے امت کے کئی اصحاب رائے کے تاریخی وتحقیقی حوالے نقد ونظر کے لیے فراہم کیے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات اور حضرت شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ سے حوالہ جات دیے ہیں اور سوال اٹھایا ہے کہ کیا رائے کے بغیر حدیث سمجھی جا سکتی ہے؟ پھر خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حدیث سے استغنا برت کر محض رائے پر بھروسہ کرنا انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتاہے۔ اس طویل بحث کو ؒ سمیٹتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ امام اعظم کس وقت رائے قائم کرتے تھے؟ اس بات کی تائید آ پ کے بیان کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ’’ میں کتاب اللہ کو لیتا ہوں، اگر اس میں حکم نہیں پایا جاتا تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لیتا ہوں، اگر کتاب وسنت میں حکم نہیں پاتا تو حضرات صحابہ کرام کے قول کو لیتا ہوں۔ ان میں سے جس کا قول (امرواقعہ کے قریب پاتا ہوں) چاہتا ہوں، لے لیتا ہوں اور جس کا قول (امر واقعہ سے دور پاتا ہوں) چاہتاہوں چھوڑ دیتاہوں، لیکن سب حضرات صحابہ کرام کے قول کو چھوڑ کر اورکسی کے قول کو نہیں لیتا۔جب معاملہ ابراہیم، شعبی، ابن سیرین، حسن، عطاء، سعیدبن مسیب تک پہنچتا ہے تو جیسے انہوں نے اجتہاد کیا، میں بھی عقل وفکرکے مطابق اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘ (ص ۱۸۳)
باب ششم میں غیر مقلدین کی طرف سے مذموم رائے کے من گھڑت معیارات کے تنقیدی مطالعہ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس باب میں آپ نے رائے مذموم اور اکابرین کی فکر کی توضیحات پیش کی ہیں۔ رائے کی حقیقت، ضرورت، اہمیت اور اس کی قدرومنزلت پر بحث کرتے ہوئے مذموم رائے کا جانب دارانہ اندازفکر واقع کیا ہے اور اکابرین کی رائے کو بلاوجہ مذموم قرار دینے کی روش کا تحقیقی جواب دیا ہے۔ پھر باب کے آخرمیں ابن تیمیہؒ کی ایک طویل عبارت پیش کر کے فرماتے ہیں: ’’ شیخ الاسلام کی اس صریح عبارت سے ثا بت ہواکہ صحابہ کرام اور جمہور امت رائے، اجتہاد اور قیاس کے قائل تھے اور جس قیاس کی مذمت کرنے کا ذکرآیاہے، وہ ایسا قیاس اور رائے ہے جونص کے مقابلہ اور معارضہ میں ہو اور اس کے مردود ہونے میں کہاں شک وشبہ ہو سکتاہے اور امت محمدیہ میں ایسے مردود قیاس کا قائل کون ہے؟‘‘ (ص ۱۰۲)
اسی باب میں حضرت امام ابوحنیفہؒ پرمخالفت حدیث کے الزام کی حقیقت کھولتے ہوئے مسکت جواب دیا گیا ہے۔ مختلف مواقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے حوالہ سے حضرات صحابہ کرام کے اعمال کی روشنی میں ایسی علمی وتحقیقی بحث پیش کی ہے جس کامطالعہ غبی انسان پر بھی اس الزام کی حقیقت کھو ل دے۔ بحث کے آخر میں الزامی جواب کے طور پر حدیث حسن کو قبول نہ کرنے کے ضمن میں امام بخاریؒ کے مسلک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’علم حدیث کے ساتھ شغف رکھنے والے اور اصول حدیث وطبقات روات سے آگاہ افراد جانتے ہیں کہ سینکڑوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں حدیثیں سند کے لحاظ سے حسن ہیں اور صرف ایک ہزار حسن حدیث تو امام حماد بن سلمہ سے مروی ہیں۔ تو کیا ایسی تمام حسن قسم کی روایات کتب حدیث سے چن چن کر ان کی فہرست مرتب کر دینی چاہیے اورمعتبر محدثین سے باحوالہ ان کاحسن ہونا نقل کر دینا چاہیے اور کتابوں، رسالوں، اخباروں اور تقریروں میں جماعتی شکل میں یہ مکروہ پراپیگنڈا شروع کرد یا جائے کہ امام بخاریؒ تواتنی حدیثوں کے منکر تھے؟ حاشا وکلا کہ اس سے کوئی منصف مزاج اہل علم متاثر ہوکر حضرت امام بخاریؒ کے خلاف کچھ کہنے پر آمادہ ہو۔ بس یہی کہے گا کہ چونکہ امام بخاری مجتہد تھے، انہوں نے اپنی دیانت اور صوابدیدسے ایسا کیاہے۔ اسی طرح اگر امام اعظمؒ نے روایات کے بارے میں کوئی سخت اور کڑی شرط لگائی ہو جس کے فقدان کی صورت میں وہ حدیث کو قابل احتجاج واستدلال نہیں سمجھتے تھے تو وہ کیونکر منکرحدیث اور مخالف حدیث قرار دیے جا سکتے ہیں؟‘‘ (ص ۲۱۷ )
کتاب کے باب ہفتم میں مخالفت حدیث پر ایک نفیس بحث کی گئی ہے اور اس اصولی بحث کے ذریعے مخالفت حدیث کے ضمن میں الفاظ کی مخالفت اورمعانی کا لحاظ رکھنے، نہی کو حرمت یا کراہت پر اور امر کو وجوب یا ارشاد ومشورہ پر محمول کرنے کے مختلف نکات زیر بحث آئے ہیں اور فہم حدیث کے حوالے سے فقہا کے تحقیقی طرز عمل کو مثالوں کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ عہد رسالت میں احکامات نبوی پر عمل کے حوالے سے صحابہ کرام کے فقہ واجتہاد کی مثالیں بیان کرنے کے بعد یہ سوال اٹھایا گیاہے کہ کیا یہ بھی مخالفت حدیث ہے ؟ اور اگر یہ مخالفت حدیث نہیں تو امام اعظمؒ کس طرح مخالفت حدیث سے متہم ہو سکتے ہیں؟
باب ہشتم، جو کہ آخری باب ہے، کا آغازاس پیراگراف سے ہوتاہے ’’غیرمقلدین حضرات نے فقہ حنفی اور کتب فقہ حنفی اورمسائل فقہ حنفی کوناقابل اعتبار ٹھیرانے اور عوا م کوان سے بدظن کرنے کے لیے کئی حربے اختیار کررکھے ہیں، مگر ازروئے انصاف اس پر غور نہیں کیا کہ فقہ کہ ہر جزئی اورہر مسئلہ امام اعظم ؒ کافرمودہ نہیں ہے، بلکہ بیشتر مسائل بعد کے فقہاے کرام اور خصوصیت سے متاخرین کی تخریجات ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ غیرمعصوم کی بات میں خطا اور غلطی کا امکان موجودہے۔‘‘ یہ بات بھی یاد رہے کہ غیر مقلدین نے کتب فقہ سے متعلق جو حوالے سے پیش کیے ہیں، ان میں قطع وبرید سے کام لیا ہے۔ اس پورے باب میں حضرت ؒ نے بڑ ے علمی انداز میں ایسے سوالات کے مسکت جوابات دیے ہیں اور مولف ’’نتائج التقلید‘‘ کی ہٹ دھرمی، بددیانتی اور فقہاے امت کے حوالے سے ان کی دریدہ دہنی کا بھرپور نوٹس لیا ہے۔
دیکھا جائے تو ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ حضر ت شیخ الحدیثؒ کی تحقیقی تالیفات میں نہایت رفیع الشان تالیف کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ نے اصل مآخذ تک رسائی اختیار کی اور موضوع کی مناسبت سے ابواب کی تقسیم بندی اور ان کے موادکی جامعیت کو پورے التزام کے ساتھ مدنظر رکھا ہے۔ گو کہ کتاب میں روے سخن غیر مقلدین کے اعتراضات کی طرف ہے، لیکن آپ نے دیگر کئی کتب میں موجو د امام اعظمؒ کے حوالے سے کیے گئے اعتراضات کو بھی مد نظر رکھاہے۔ حضرت امام اعظمؒ کے مقام اور شخصیت کے علمی وعملی اور دینی وفکری رویوں کی تمام تر اساسات اور آپ کی رائے کے محکم ہونے کے بارے میں امت کی نابغہ روز گارشخصیات کے اقوال کو بڑی بصیرت افروزی کے ساتھ جمع کیاگیاہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے بڑی دقت نظری کے ساتھ اس عہد میں دستیاب علمی مواد سے اتنی عظیم الشان تحقیقی تالیف علمی دنیا کو پیش کی جو آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی امام اعظمؒ کے حوالے سے تحقیق کی دنیا میں صف اول کی حوالے کی کتاب ہے۔ کتاب میں شیخ الحدیث کا مخصوص اسلوب نگارش بھی نہایت شان کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جابجا اردو کاحسین تر شعری ذوق پوری طرح موجود ہے۔ تحقیقی کتابیں اپنے اندر حوالوں کا بھرپور سرمایہ رکھنے کے باوجود عام طور پرلطافت سے خالی ہوتی ہیں، جب کہ شیخ الحدیثؒ کے ہاں جابجا نرم روی، سلاست اور رعنائی خیال کے سبھی رنگ اپنی بہار جانفزا دکھلا رہے ہیں۔ حضرت امام اعظمؒ کے مقام ومرتبہ کے تعین میںیہ کتاب فکری حوالوے سے ایک ایسی یادگارہے جو اپنے علمی شکوہ کی بدولت ہمارے عہد کے یاد گار سرمایے کی حیثیت سے یاد کی جاتی رہے گی اور امت میں حضرت امام اعظمؒ کے علمی سرمایہ کے حقیقی خدوخال سے آشنائی پیدا کرنے میں اپنے حصے کا کردار کرتی رہے گی۔
کتاب اپنے صوری اورمعنوی محاسن کے لحاظ سے اہل علم کے لیے جس بصیرت افروزی کا مرقع ہے، اس پر ناز کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے نور سے پوری امت مسلمہ کے قلوب کو روشنی اور تاب ناکی عطا کرے اورحضرت شیخ الحدیث ؒ کے درجات کی بلندی کے لیے سب اور ذریعہ بنائے۔ آمین۔