۱۷ ستمبر ۱۹۹۲ ء بمطابق ۱۹ ربیع الاول ۱۴۱۳ھ میری زندگی کا وہ مبارک دن تھا جب شیخ الحدیث حضرت العلام مولانا سرفراز خان صفدر کی پہلی زیارت ہوئی۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ دوپہر کے وقت کراچی کے ہوائی میدان پر اترے۔ آپ کے استقبال کے لیے علماے کرام کا ایک جم غفیر جمع تھا۔ استادمحترم حضرت مولانا حسن الرحمن یوسفی مدظلہ شفقت فرماتے ہوئے مجھے بھی اپنے ساتھ ہوائی میدان لے گئے۔ یہ وہ دورتھا کہ جب ہمارے اکابر تشریف لاتے تھے تو نظم وضبط کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ آج کل کی طرح جذبات میں بہہ کر استقبال کو ہنگامہ نہیں بنایا جاتا تھا۔ اسی نظم وضبط کی وجہ سے حضرت شیخ الحدیث ؒ سے مصافحہ کی سعادت بھی اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمائی تھی۔
حضرت ؒ کی وجیہ شخصیت کو دیکھ کر اکابر علماے دیوبند یاد آگئے۔ جس نے اپنے اکابر سے شمہ برابر تعلق رکھا ہے اور انہیں پڑھا ہے، وہ یہ محسوس کرسکتا ہے۔ ہمارے مدارس میں اس وقت حالات یہ ہیں کہ طلبہ کرام اپنے اکابر کے حالات وخدمات سے یکسر ناواقف ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے جسے دورکرنا چاہیے۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ کا قیام جامعہ بنوریہ سائٹ میں تھا۔ اسی دن حضرت ؒ نے جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال میں عصر کے بعد طلبہ کرام اور مغرب کے علماء کرام کی مجلس کو خطاب فرمایا۔ کراچی کے ارد و بازار اور جامع کلاتھ مارکیٹ کے درمیان والسن روڈ پر عظیم الشان ’’امام اہل سنت’’ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر حضرت شیخ الحدیث کے صاحب زادے محترم مولانا عبدالحق خان بشیر اور مولانا عبدالقیوم حقانی کے بھی بیانات ہوئے۔ مولانا شیخوپوری اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ مولانا حقانی کی تقریر جاری تھی کہ بند روڈ کی طرف سے سنی تحریک کے لوگوں نے ہنگامہ آرائی کرکے جلسہ کو درہم برہم کرنا چاہا۔ ہوائی فائرنگ بھی ہوئی، لیکن وارے عشاقان مصطفی ! ایسے جمے اور ثابت قدم رہے کہ مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی اور پولیس نے انہیں منتشر کر دیا۔ علماے کرام اور خصوصاً مولانا حقانی نے عوام کو نظم وضبط اور صبرکی تلقین کی اور اپنے خطاب کا رخ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کی طرف موڑ یا۔
جب اس محفل کے روح رواں حضرت صفدر ؒ کو ’’امام اہل سنت‘‘ کا خطاب دے کر دعوت خطاب دی گئی تو خطبہ مسنونہ کے بعد حضرت نے جو ارشاد فرمایا، وہ اس طرح تھا:
’’آپ نے مجھے امام اہل سنت کا خطاب دیا ہے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ میں زمانہ طالب علمی سے امام اہل سنت ہوں۔ دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے کے زمانہ میں امامت کراتاتھا۔ قیام پاکستان کے بعد سے گکھڑ کی جامع مسجد میں مسلمانوں کو نماز پڑھاتا ہوں۔ میں تو پہلے ہی سے امام اہل سنت ہوں، آپ کو آج معلوم ہوا؟‘‘
یہ جملے یادداشت سے لکھے ہیں، ہو سکتا ہے، بالکل وہی الفاظ نہ ہوں، لیکن قریب قریب مفہوم یہی تھا۔ اس کے بعد حضرت صفدرؒ نے ایک گھنٹہ تقریر فرمائی۔ علم کا ایک بہتا ہوا سمندر تھا جو روایتی خطابت کے جوہر سے خالی تھا۔ آج کل تو خطیب اسے سمجھا جاتا ہے جو بغیر کسی سیڑھی کے آسمان پر ہو اور تھوڑی دیر میں زمین پر بلکہ اس سے نیچے جا اترے۔ میں نے خطابت کا کمال دیکھا حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ ، خطیب الامت حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ ، شیخ طریقت حضرت مولانا سید حامد میاںؒ ، استادمحترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ اور مخدومی ومرشدی حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی میں کہ جس بات کو بیان کرتے، بڑی خوش اسلوبی سے دل میں اتر جاتی۔
حضرت مولانا صفدر ؒ کی دوسری زیارت ۱۳؍ جنوری ۱۹۹۳ء کو اس وقت ہوئی جب حضرت کراچی کے دورے پر استاد محترم حضرت انور حسین شاہ ( نفیس الحسینیؒ ) کے ہمراہ تشریف لائے۔ ہر دو بزرگوں سے مصافحہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی دن جامعہ بنوریہ میں حضرت نے ختم بخاری کرایا۔ اس درس میں حضرت ؒ نے اپنے بیان میں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے:
’’امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ کے سترہزار لوگ بلاحساب وکتاب جنت میں جائیں گے اور پھر ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار جائیں گے اور پھر ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار جائیں گے‘‘۔
اللہ اکبر! یہ صرف کثرت سے تعبیر ہے۔
تیسری مرتبہ حضر ت کی زیارت ۱۸؍رجب المرجب ۱۴۱۴ھ بمطابق یکم جنوری ۱۹۹۴ء بروز ہفتہ کو اس وقت ہوئی جب مجھ گناہکار کو حضرت صفدر ؒ کی شاگردی کی سعادت اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمائی۔ جامعہ یوسفیہ بنوریہ شر ف آباد میں حضرت الاستاد مولانا حسن الرحمن یوسفی مدظلہ کی دعوت پر حضرت مولانا مفتی جمیل خان شہیدؒ کی کوششوں سے حضرت ختم مشکوٰۃ شریف کے لیے تشریف لائے۔ مشکوٰۃ کی آخری حدیث حضرت ؒ نے پڑھائی اور تقریرفرمائی۔ اس تقریر سے میں نے حضرت ؒ کی ایک ادا اپنے دامن میں باندھ لی۔ حضرت ؒ نے تقریر کی ابتدا میں ارشاد فرمایا:
’’میرے درس میں زیادہ ترخطاب طلبہ سے ہوگا، اس لیے علمی باتیں ہوں گی۔ یہ باتیں عام آدمی کو شاید سمجھ نہ آئیں، اس لیے ان کے لیے عامیانہ باتیں بھی ہوں گی۔ عام آدمی کی رعایت سے طلبہ عزیز ناگواری محسوس نہ کریں۔ اس تقریب میں تیسرے وہ لوگ ہیں جو علماے کرام ہیں ، ان سے میرا کوئی خطاب نہیں ہوگا۔‘‘
سبق یہ ملا کہ اپنے جیسے طالب علم سے خطاب ہو، علماے کرام سے نہیں۔
دوسرے ایک نصیحت حضرت نے فرمائی۔ وہ یہ کہ تدریس کا عمل جاری رکھنا، چاہے بغدادی قاعدہ پڑھاؤ، اس لیے کہ ایک سال کے بعد تم لوگ مدرسہ سے فارغ ہو جاؤ گے اورچاہو گے کہ سب کو مدرسہ میں اعلیٰ کتابیں پڑھانے کوملیں اوریہ نہیں ہو سکتا کہ سب مدرسہ میں اعلیٰ درجے کی کتابیں پڑھائیں۔ اس پر ایک واقعہ حضرت نے سنایا:
’’شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کو دیکھا گیا کہ تعلیم الاسلام پڑھا رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ حضرت! آپ بخاری شریف پڑھانے والے تعلیم الاسلام پڑھا رہے ہیں؟ حضرت مدنی ؒ نے فرمایا کہ اس میں کون سی شرم کی بات ہے۔ جس طرح کے طلبہ مل گئے، پڑھا رہا ہوں۔ ان کو بخاری پڑھانے سے تو رہا‘‘۔
سبق ملا کہ چھوٹی کتابیں پڑھانے میں شرم محسوس نہ کرو۔ ا س دوران حضرت نے حدیث شریف کی اجازت بھی عطا فرمائی۔ حضرت صفدر ؒ کی حدیث شریف کی سند اس لحاظ سے عالی ہے کہ ان کے اور حضرت امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ کے درمیان صرف ایک واسطہ ہے۔
میں نے حضرتؒ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا:
’’ مجھے اپنے مرنے کا غم نہیں ہے۔ تمہارے یہاں مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کواللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ فرق باطلہ کامقابلہ علمی انداز سے کرسکتے ہیں۔ مجھے ان پر پورا اعتماد ہے۔ میرے بعد یہ شخص ہمارے اکابر کی میراث کو تروتازہ رکھے گا‘‘۔
لیکن اللہ کی شان کہ حضرت الاستاذ لدھیانوی شہید ہو کر حضرت الاستاد صفدرؒ سے پہلے اللہ کے حضور چلے گئے۔
حضرت ؒ کی آخری زیارت ۶؍ مارچ ۲۰۰۵ء کو جامعہ اسعد بن زرارہؓ ، بہاولپور میں اس وقت ہوئی جب حضرت مفتی سید مظہر اسعدی نے شیخ الاسلام سیمینار منعقد کیا اور اس میں حضر ت مدنی ؒ کے تلامذہ کو جمع کیا اور ان کی آوازیں سامعین کو سنائیں۔ حضرت صفدر ؒ اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ کو ضعیفی کی حالت میں وہیل چیئر پر لایا گیا۔
۵؍ربیع الثانی ۱۴۲۹ھ بمطابق ۱۲؍اپریل ۲۰۰۸ ء کو حضرت صفدر ؒ کی طرف سے تحریری اجازت حدیث ملی جو میرے لیے بہت بڑی بابرکت سعادت ہے۔ یہ اجازت حدیث حضرت مولانا نعیم الدین مدظلہ ( جامعہ مدنیہ لاہور) او رمولانا محمد عابد حامدی زادہ مجدہ کی مساعی سے مجھ تک پہنچی ۔ فجزاہم اللہ خیراً۔
اب تو تسبیح ٹوٹ چکی ہے ۔ ہمارے اکابر کو جن پر اعتماد تھا، وہ یکے بعد دیگرے جار ہے ہیں۔ حضرت صفدر ؒ بھی تشریف لے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اورخصوصاً حضرت کی اولاد (حفظہم اللہ) کو حضرتؒ کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین۔