شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے پہلی ملاقات کچھ یوں یاد ہیکہ ہم حاضر ہوئے تو حضرت نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ محلہ تالاب دیوی سے۔ جامع مسجد نور کے قبلے کی دیوار کے ساتھ ہمارا گھر ہے اور مسجد کا محراب ہمارے گھر کی دیوار میں ہے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں مولانا اکبر صاحب ہوا کرتے تھے۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، وہ زاہد (مولانا زاہد الراشدی) کے نانا تھے۔ میں نے کہا کہ وہ بہت مشہور ومعروف آدمی تھے اور ان کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہے کہ ان کے فوت ہونے پر مسجد کا مینار گر گیا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں، وہ بہت نیک آدمی تھے۔
حضرت سے بیعت کا شرف تقریبا ۱۹۸۴ء میں حاصل ہوا۔ حضرت اس وقت عام بیعت نہیں کیا کرتے تھے۔ مجھے اور میرے دوست محمد احسان کو حضرت مولانا زاہدا لراشدی نے ایک شفقت بھرا رقعہ دے کر بھیجا اور بیعت کے لیے سفارش کی جس پر حضرت نے ہمیں بیعت کر لیا۔ بیعت کرتے ہوئے آپ نے ہم سے یہ الفاظ کہلوائے کہ ’’میں نے توبہ کی شرک سے، بدعت سے، پرایا مال ناجائز کھانے سے، جھوٹ اور غیبت سے۔ میں آپ سے راہنمائی حاصل کروں گا اور آپ مجھے جو بھی دین کا کام بتائیں گے، اس پر عمل کروں گا۔‘‘ حضرت نے ہمیں روزانہ ۲۰۰ مرتبہ درود شریف اور ۲۰۰ مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھنے، ۲۰۰ مرتبہ استغفار کرنے اور قرآن کی تلاوت کی تلقین کی۔ اس کے بعد خدمت میں حاضر ہونے کا معمول بن گیا۔ جب بھی ہم جاتے تو جوس سے ہماری تواضع کرتے۔ احسان صاحب کہتے کہ رہنے دیں، لیکن میں کہتا کہ آپ کا جوس پینا ہے۔ طیب طاہر مال ہے۔ حضرت شیخ نے ایک موقع پر مجھے اپنی دستار او راحسان صاحب کو اپنی چھڑی بھی دی۔ ہم جماعت کے ساتھ جاتے تو اس کی تشکیل بھی حضرت کی مسجد میں کراتے اور ساتھیوں کو حضرت سے بیعت کرا دیتے۔
۱۹۹۸ء میں مجھے دوستوں کے ہمراہ حرمین شریفین کی زیارت کا موقع ملا۔ جدہ میں قاری محمد اسلم شہزاد صاحب نے کافی علماء کرام کی دعوت کا اہتمام کیا۔ میں اور محمد احسان بھی شریک تھے۔ سب کا آپس تعارف ہوا۔ ہم نے اپنا تعارف یہ کرایا کہ ہم حضرت شیخ کے مرید ہیں۔ مجلس میں مولانا حسن جان صاحب شہید بھی موجود تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ حضرت کی کیا بات ہے، وہ تو اس وقت کے امام ابو حنیفہ ہیں۔ پھر تمام شرکاے مجلس نے علمی لحاظ سے حضرت کی تعریف کی۔
حضرت کی دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو پوچھا کہ گھر کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ دیوی والے تالاب میں تو فرمایا کہ مدرسے کی گاڑی مجھے وہاں تک چھوڑ آئے گی۔ اس کے بعد مجھے گکھڑ پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہوگی کیونکہ میں اتنی دیر تک ڈرائیور کو روک نہیں سکتا۔ حامد نواز شیخ اس وقت اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ انھیں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ وہ واں بھچراں میں مولانا حسین علی رحمہ اللہ کی خانقاہ میں بیعت تھے۔ اس طرح ان کی حضرت سے شناسائی نکل آئی۔ عبد الستار عاجز (جیلر گوجرانوالہ جیل)، مولانا زاہد الراشدی اور مولانا عبد القدوس قارن بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ پھر بابو جاوید احمد کو فون کر کے بلایا گیا اور انھی کی گاڑی میں حضرت شیخ کو گکھڑ لے جایا گیا۔
۱۹۸۹ء میں میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو ہماری درخواست پر حضرت شیخ جنازہ کے لیے تشریف لائے۔ ہم جس گاڑی میں آپ کو لینے کے لیے گئے، اس میں صفیں پڑی تھیں۔ حضرت نے پوچھا کہ یہ کس لیے ہیں؟ ہم نے بتایا کہ قبر میں بچھانے کے لیے تو فرمایا کہ صف بچھانا سنت نہیں۔ کفن زمین کے ساتھ لگنا چاہیے۔ پھر فرمایا کہ قبر کے تختوں کے اوپر صفیں رکھ کر مٹی ڈال دی جائے۔
حضرت اپنے درس میں خواتین کو مخاطب کر کے اکثر فرماتے تھے کہ ناخن پالش لگانے سے وضو نہیں ہوتا اور مسئلہ یہ ہے کہ بغیر وضو سجدہ کرنا حرام ہے۔ جان بوجھ کر سجدہ کیا تو نکاح ٹوٹ جائے گا اور اولاد حرام کی ہوگی۔ اسی طرح وضو میں کانوں اور ناک کے چھید ہلا کر پانی پہنچانا فرض ہے۔ ایک بال برابر جگہ بھی خشک رہ گئی تو وضو اور غسل نہیں ہوگا اور نمازیں ادا نہیں ہوں گی۔
والد صاحب کی وفات کے بعد ہماری ہمشیرگان نے جائیداد میں اپنا حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک موقع پر ہمشیرگان جمع ہوئیں تو ہم نے ان سے لکھوا لیا کہ مکان اور دوکان میں ہمارا حصہ نہیں ہے اور ہم نے جہیز وغیرہ کی صورت میں اپنا حصہ لے لیا ہے۔ اس کے بعد ہم نے حضرت شیخ کا ایک درس سنا جس میں آپ نے دوٹوک فرمایا کہ کسی حصے دار کا حصہ اس کے قبضے میں دیے بغیر معاف کروانے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنی ہمشیرگان کو ان کا حصہ نقد رقم کی صورت میں ادا کیا اور پھر انھوں نے ایک آدھ دن رقم رکھ کر وہ پیسے ہمارے بچوں کو واپس کر دیے۔
۲۰۰۲ء کے انتخابات میں قاضی حمید اللہ صاحب الیکشن پر کھڑے ہوئے تو میں حضرت کے پاس حاضر ہوا اور انھیں بتایا۔ فرمایا کہ لوگ مولوی کو پیسے بھی دے دیتے ہیں اور رشتہ بھی، لیکن ووٹ نہیں دیتے۔ میں نے کہا کہ قاضی صاحب کو لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے چالیس سال ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کبھی نکاح یا جنازہ پڑھانے کا پیسہ نہیں لیا۔ حضرت نے فرمایا کہ اچھا، میں ان کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔
اگر کسی کے گھر میں لڑکا نہ ہوتا تو حضرت سے دعا کرائی جاتی اور اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرما دیتے۔ حضرت فرماتے تھے کہ اگر بچے کا نام محمد رکھنے کی نیت کر لی جائے تو ان شاء اللہ لڑکا پیدا ہوگا۔ حاجی صادق قریشی نے اپنی بیٹی کے ہاں لڑکے کی ولادت کے لیے دعا کی درخواست کی تو شیخ نے دعا کی اور اس کا نام محمد رکھنے کی تلقین کی۔ ایسا ہی ہوا اور اللہ نے بیٹا عطا کیا۔ اس کے بعد حاجی صاحب اور ان کی بیٹی حضرت سے بیعت ہو گئے۔
ایک شخص بیرون ملک سے حضرت سے ملنے کے لیے آیا اور کہا کہ میرا ایک مکان ہے جو بک نہیں رہا۔ کسی نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کوئی وظیفہ بتاتے ہیں جس سے مقصد حل ہو جاتا ہے۔ حضرت نے اسے ’’یا رحیم یا کریم یا لطیف یا رزاق یا واسع یا باسط‘‘ کا وظیفہ بتایا۔ اس نے کہا کہ یہی الفاظ آپ نے پہلے بھی ایک آدمی کو بتائے تھے تو اس کا مکان جو پانچ لاکھ میں نہیں بکتا تھا، پندرہ لاکھ کا بک گیا تھا۔ میں بھی وہیں موجود تھا۔ میں نے کہا کہ استاذ جی، مجھے بھی اس وظیفے کی اجازت دے دیں۔ آپ نے فرمایا کہ اجازت ہے۔ میں کئی حضرات کو یہ وظیفہ بتا چکا ہوں اور ان کے بگڑے کام اللہ کے نام کی برکت سے بن گئے ہیں۔ حضرت فرماتے تھے کہ اگر اولاد کا رشتہ نہ ہوتا ہو تو یا لطیف کثرت سے پڑھنے سے ایسے آسانی سے رشتہ آئے گا جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔
ایک دفعہ میرے پاس دوکان پر دو تین نوجوان لڑکیاں آئیں اور ایک مسیحی عامل کا پتہ پوچھا۔ میں نے انھیں کہا کہ یہ عامل لوگ لٹیرے اور جھوٹے ہوتے ہیں، آپ کی عزت اور پیسہ دونوں برباد ہوں گے۔ میں نے انھیں بتایا کہ نجومیوں اور کاہنوں کے پاس جا کر قسمت کا حال معلوم کرنے والے کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ پھر میں نے ترغیب دے کر انھیں گکھڑ حضرت شیخ کے پاس بھیج دیا۔ چنانچہ وہ گئیں اور بعد میں انھوں نے آکر میرا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے ہمیں غلط راستے سے بچا لیا۔
ہم تبلیغی جماعت کی طرف علماء کرام کی وجہ سے راغب ہوئے۔ ہمارے والد صاحب حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی سے بیعت تھے اور ہمارا تعلق بھی انھوں نے علما ہی کے ساتھ جوڑا تھا۔ علما ہی کی برکت اورتعلق سے ہم جماعت کے ساتھ جڑ گئے۔ الحمد للہ علما کی صحبت کی وجہ سے غرور اور تکبر نہیں ہے۔ مولانا زاہد الراشدی بھی کئی دفعہ ہمارے ساتھ جماعت کے ساتھ گکھڑ تشریف لے گئے۔ ان کی عادت یہ ہے کہ صبح فجر کے فوراً بعد چائے پیتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے ساتھ جماعت میں گکھڑ گئے تو حضرت سے ملنے بھی گئے۔ حضرت نے پوچھا کہ زاہد! تم کدھر؟ انھوں نے کہا کہ ان حضرات کے ساتھ جماعت میں آیا ہوں۔ حضرت نے مولانا راشدی کی عادت کے لحاظ سے فوراً دریافت فرمایا کہ چائے پی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، ان ساتھیوں نے پلا دی ہے۔
ایک مرتبہ میں نے حضرت سے پوچھا کہ آ پ مولانا سلیم اللہ خان کو جانتے ہیں؟ فرمایا کہ کیوں نہیں، وہ میرے پوتا شاگرد ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ وہ ہمارے رشتہ دار ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان، خالد ریاض خان (ڈی ایس پی پولیس) کے سگے خالو ہیں اور خالد ریاض ہمارے سسرالی رشتہ دار ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان صاحب خالد ریاض کے والد شرافت خان کی وفات پر تعزیت کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے تو پہلے گکھڑ حضرت شیخ کے گھر گئے اور پھر خالد ریاض صاحب کے ہاں تشریف لے گئے۔
وفات سے کچھ عرصہ پہلے حضرت شیخ مدرسہ نصرۃ العلوم میں مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب کی رہایش گاہ پر تشریف لائے۔ ہم کچھ دوست جو حضرت سے بیعت ہیں، ملنے کے لیے گئے۔ میرا دس گیارہ سال کا بیٹا محمد بن جمیل خان بھی ساتھ تھا۔ مولانا محمد نواز بلوچ، میر لقمان صاحب، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب اور پولیس کے ایک بڑے آفیسر احسن محبوب صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے عرض کیا کہ استاذ جی، میرا بیٹا قرآن پاک حفظ کر رہا ہے، یہ آپ کو تلاوت سنائے گا۔ حضرت چارپائی پر نیم دراز تھے۔ اشارہ کیا کہ انھیں تکیہ لگا کر ذرا سیدھا کر دیا جائے۔ محمد بن جمیل نے سورۂ حشر کی آخری آیات سنائیں۔ حضرت نے اسے قریب بلا کر اس کا نام پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میرا بیٹا ہے تو حضرت نے بچے کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور ان کو چوما اور کہا کہ اللہ نے بہت پیاری آواز عطا کی ہے۔ پھر اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور کہا کہ اللہ اس کے درجات بلند فرمائے۔ احسن محبوب صاحب نے کہا کہ میرے لیے بھی ایسی دعا ہونی چاہیے جیسی اس بچے کے لیے ہوئی ہے۔ مولانا نواز بلوچ صاحب نے کہا کہ آپ بھی ایسی تلاوت فرما دیں تو آپ کے لیے بھی ہو جائے گی جس پر محفل کشت زعفران بن گئی۔ ہم نے واپسی کے لیے اجازت چاہی تو حضرت نے میرے بیٹے کو بلا کر دوبارہ نام پوچھا اور پھر اپنے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ لے کر انھیں چوما اور دعا دی۔ یہ صرف قرآن پاک پڑھنے کی برکت تھی، کیونکہ حضرت کو قرآن پاک سے بے حد شغف تھا۔
حضرت شیخ کی وفات کے بعد ہمیں حقیقت میں یہ محسوس ہوا کہ ہمارے والد صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ والد صاحب کی وفات پر اتنا غم نہیں تھا کیونکہ حضرت شیخ کے جنازہ پڑھانے سے بہت تسکین ملی تھی۔ اصل یتیمی کا احساس حضرت کی وفات کے بعد ہوا۔ کوئی بھی دکھ سکھ یا پریشانی ہوتی تو ہم حاضر ہو کر آپ سے دعا کراتے جس سے پریشانی دور ہو جاتی۔ اب ہم بالکل تنہا ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے اور آخرت میں بھی ہمیں حضرت کے دامن سے وابستہ ہو کر اپنی رحمت سے حصہ پانے والوں میں شامل فرما دے۔ آمین