(یہ تحریر فریقین کے سرکردہ علما کو بھیجی گئی۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات فی القبر کے بارے میں گزشتہ نصف صدی سے بعض حلقوں میں اختلاف ونزاع کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، اس میں میرا عقیدہ و ہی ہے جو ’’المہند علی المفند‘‘ میں اکابر علماے دیوبند کے عقیدہ کے طور پر درج ہے، البتہ میں اسے پبلک اسٹیج کا مسئلہ نہیں سمجھتا اور عام اجتماعات میں اس مسئلے کا کسی بھی طرف سے شدت پسندانہ اظہار میرے نزدیک درست طرزعمل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے والدمحترم حضرت مولانا سرفرازخان صفدر نوراللہ مرقدہ کے جنازہ اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ان کی تعزیت کے لیے منعقد ہونے والے تعزیتی اجتماع کے موقع پر بعض مقررین کی طرف سے اس کا بے موقع ذکر اور خاص طور پر جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ پاکستان کے بعض بزرگوں کا توہین آمیز انداز میں تذکرہ اچھا نہیں لگا، چنانچہ میں اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کرتاہوں اور ان تمام حضرات سے معذرت خواہ ہوں جنہیں کسی بھی درجہ میں اس سے اذیت پہنچی ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں فریقین سے یہ درخواست بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اجتماعی دینی تقاضوں اور ملک کی موجودہ سنگین صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پبلک اجتماعات میں اس مسئلہ کو بلکہ اس جیسے دیگر مسائل کو بھی موضوع بحث بنانے سے گریز کریں اور خصوصی مجالس یا تحریروں میں ایسے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے اختلافات رائے کے علمی اور اخلاقی تقاضوں کا لحاظ رکھیں۔
امید ہے کہ تمام دوست میری اس دردمندانہ استدعا پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔
ابوعمار زاہدالراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ