ایک عہد ساز شخصیت

پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا سے علم یوں اٹھایا جائے گا کہ اہل علم دنیا سے اٹھا لیے جائیں گے۔‘‘ حضرت مولانا سرفراز خاں صفدرؒ مرحوم کی وفات اسی حدیث کی عملی شکل دکھائی دیتی ہے۔ حضرت مرحوم میں علم اور عمل دونوں کا حسین امتزاج موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر تاثیر رکھی ہوئی تھی کہ سننے والے کے دل میں اتر جاتی۔ آپ کے اندازِ تقریر میں سادگی اور برجستگی تھی۔ گفتگو مسجع مقفع خطیبانہ لفاظی اور غیرضروری جوش خطابت سے بالکل مبرّا ہوتی لیکن دل میں اتر جاتی۔ جب میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں بی اے کا طالب علم تھا، اس وقت کالج کی اسلامیات سوسائٹی کی ایک تقریب میں مولانا کو بطور مقرر دعوت دی گئی۔ ہمارا خیال تھا کہ حکم ہوگاکہ گاڑی بھیج دینا، لیکن کمالِ سادگی اور کمال شفقت سے فرمایا کہ میں خود تانگے پر آجاؤں گا۔ میرے اصرار کے باوجود آپ خود ہی تانگے میں تشریف لائے۔ اپنے انداز کے مطابق بالکل سادہ تقریر فرمائی لیکن اس میں اس قدر تاثیر تھی کہ میں نے کالج کے کئی اساتذہ کو دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو اور دل پر عجیب رقت طاری تھی اور کہہ رہے تھے کہ ’’ہم تو ویسے ہی بہروپیے بن کر اپنے آپ میں خوش ہو رہے ہیں، اصل اللہ والے لوگ تو یہ ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مولانا کو یہ صلاحیت بھی عطا کررکھی تھی کہ آپ مخاطبین اور سامعین کی استعداد کے مطابق بات کرتے۔ آپ کو اعلیٰ فوجی افسروں، اساتذہ کرام اور عوام کے ہر طبقہ سے خطاب کے مواقع ملے۔ آپ زندگی بھر گکھڑ کی جامع مسجد میں عوام سے بھی خطاب کرتے رہے۔ مخاطبین کی ذہنی سطح کے مطابق ہر مجلس میں خطاب فرماتے۔ گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گکھڑمیں زیرِ تربیت اساتذہ کو بھی درس دیتے رہے۔ اس درس میں ہر مکتب فکر کے لوگ موجود ہوتے۔ اوٹی کے کورس میں شامل لوگوں میں علما بھی ہوتے تھے۔ بعض اوقات ان میں کچھ لوگ فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے، لیکن آپ کا بیان اس قدر عالمانہ اور فرقہ وارانہ رجحان سے اس قدر مبرّا ہوتا کہ پورا ماحول ہم آہنگی اور یک جہتی کی تصویر بنارہتا۔ تمام مکاتبِ فکر کے لوگ آپ کا احترام کر تے۔

آپ ان ہستیوں میں سے تھے جنہیں دیکھ کرا للہ یاد آتاہے۔ آپ کے دروس کے دوران اکثر مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی کہ گویا میں اپنے اندر جھانک کراپنے گناہوں پرا پنے آپ کو ملامت کررہا ہوں اور ا پنی عملی کوتاہیوں پر نگاہ ڈال رہا ہوں اور اندر ہی اندر اللہ سے عہد کررہا ہوں کہ میں اپنی اصلاح کروں گا۔ آپ کے درس سے اٹھنے کے بعد ایک روحانی لطافت محسوس ہوتی۔ یہ کیفیت میرے ساتھ خاص نہیں۔ بیسیوں لوگوں سے اس موضوع پر بات ہوئی اور ہرکوئی ایسی کیفیت کا تذکرہ کیا کرتا تھا۔ یہ کیفیت اللہ والوں کی مجلسوں میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے علم دین میں جتنی بھی شد بد ہے، ا س کا ساٹھ ستر فی صد مولانا کی صحبت اور مجلس کافیضان ہے۔ اس کے ساتھ جوتھوڑا بہت اللہ کاخوف یا نیکی سے محبت اور شر سے نفرت ہے، وہ بھی آپ ہی کی تربیت کافیض ہے۔ 

مولانا کی زندگی نظم وضبط اور پابندئ وقت کا بہترین نمونہ تھی۔ روزانہ کے معمولات میں گکھڑ میں درس قرآن وحدیث، گوجرانوالہ میں تدریسی فرائض، آرام کے اوقات، مطالعہ کے اوقات، مسائل پوچھنے کے لیے آنے والوں کا وقت اور گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں درس شامل تھے۔ ان میں کبھی تقدیم یاتاخیر نہیں ہوئی۔ ہر کام اپنے وقت پر سرانجام دیا جاتا۔ امامت اور درس میں وقت کی پابندی کا اس قدر اہتمام تھا کہ درس کے آغازواختتام میں کبھی ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ نماز کے لیے مسجدمیں داخل ہونے کاوقت سیکنڈوں کے اعتبار سے متعین تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نمازیوں کو چند سیکنڈ بھی انتظار کرنا پڑا ہو۔ درس کے فوراً بعد گوجرانوالہ روانگی کاوقت بھی لمحات کے ساتھ متعین تھا۔ 

مولانا مرحوم مومنانہ فراست وبصیرت سے بھی مالامال تھے۔ تعبیر رؤیا میںآپ کو خصوصی ملکہ حاصل تھا۔تقویٰ وخدا خوفی، اخلاصِ نیت، اعلیٰ اقدار کاہر قسم کی صورتِ حال میں خیال رکھنا، دوسروں کااحترام، جیو اور جینے دو کااصول (رواداری) آپ کی زندگی کے بنیادی اصول تھے۔ گکھڑ میں ایک زمانے میں ایسے مواقع آئے جب بڑی اشتعال انگیز صورتِ حال پیداہوجاتی، لیکن مولانا مرحوم نے اپنے مقتدیوں کوتحمل اور بردباری کا پابند کیے رکھا اور آپ کی وجہ سے ماحول تکدر کا شکار ہونے سے بچارہا۔ 

دفاع وابلاغ دین آپ کی زندگی کا مطمح نظر تھا۔ پوری زندگی اسی جدجہد میں گزاری۔ تقریرو تحریرکے ذریعے اسلامی عقائد کی وضاحت اور عقائد کے بارے میں پیدا کردہ ابہامات اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ آپ نے بہت سے کلامی موضوعات پر قرآن وسنت اور امت کے اجماعی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر بڑے مدلل اورمؤثر انداز سے لکھا۔ آپ کی کتب برصغیر کے علم الکلام میں ایک قیمتی اضافہ ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں کئی ایسے مرحلے آئے جب مختلف خارجی عوامل کے زیرِ اثر عقائد اسلام کے بارے میں کئی غلط فہمیاں در آئیں۔ ہر موقع پراللہ تعالیٰ نے ایسے مصلحین پیدا کیے جنہوں نے عقائد اسلامی کی وضاحت اور غلط عقائدکی دلائل وبراہین کے ذریعے اصلاح کاکام کیا۔ اشاعرہ، ماتریدیہ، امام ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد، مجدد الف ثانی ؒ اورشاہ ولی اللہ ؒ کے نام مثال کے طورپر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اگر یہ تحریکیں پیدانہ ہوتیں اور یہ حضرات اصلاحِ عقائد کا بیڑہ نہ اٹھاتے تو معلوم نہیں اسلامی عقائد میں کیا کیابیرونی آلائشیں شامل ہوجاتیں۔ اصلاحِ عقائد میں مولاناسرفراز خاں صفدرکی کاوشیں بڑی قابلِ قدر ہیں۔ آپ نے اسلام کے تصورِ توحید کی قرآن وسنت کی روشنی میں جس طرح وضاحت کی، وہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔ گلدستۂ توحید میں آپ نے نہ صرف تصور توحید کی اہمیت وضاحت سے بیان کی بلکہ اس کے اثبات میں مؤثر عقلی ونقلی دلائل کے انبار لگا دیے۔ ااُس زمانے میں مختلف تاویلات کے ذریعے توحید اور شرک کو خلط ملط کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں توآپ نے دلائل وشواہد کی بنیاد پر واضح کیا کہ مشرکین اللہ کی مالکیت وخالقیت کے منکر نہ تھے بلکہ ان کاشرک یہ تھاکہ وہ خداے واحد کے علاوہ اور قوتوں کو بھی اللہ کاشریک سمجھتے تھے۔ آپ کے دور میں شرک کو Dilute کرکے مختلف تاویلات کے ذریعے عقیدت ومحبت کے رنگ میں پیش کرنے کارجحان پیدا ہورہا تھاتوآپ نے بڑے مؤثر دلائل کے ساتھ ان سوراخوں کو بند کیا۔اصلاحِ عقائد کے حوالے سے تسکین الصدور، ازالۃ الریب، راہِ سنت، آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کاسرور، مقالہ ختم نبوت وغیرہ خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔

انکارِ حدیث کے نتائج کے حوالے سے آپ کی کتابوں کو اولین تصانیف کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کتب میں بنیادی اسلامی مآخذ اور امت کے اجماعی نقطہ نگاہ کی روشنی میں آپ نے منکرینِ حدیث کی تمام کوششوں سے پردہ اٹھایا اور اسلام میں حدیث کی اہمیت کو متعارف کروایا۔ اگرچہ بعد میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں معرضِ وجود میں آئیں، لیکن آپ نے اس موضوع پر لکھنے کی راہیں کھولیں اور فتنہ انکارِ حدیث کے زہریلے اثرات سے لوگوں کوروشناس کرایا۔

تحقیق کے شعبے میں جدید دَور میں اصول وضوابط منضبط ہوگئے ہیں اورحوالہ وغیرہ دینے کامخصوص انداز اختیار کیاجاتاہے۔ اسی طرح تحقیق کی مختلف اقسام بھی ہیں۔ اگر اس معیار پر مولانا علیہ الرحمۃ کی کتابوں ا وران کے اسلوب کاجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ مولانا ایک محقق کے انداز سے لکھتے ہیں آپ کی تحریرات کے مآخذ بنیادی ہیں۔ سب سے پہلے قرآن حکیم، پھر احادیثِ نبویہ،اقوالِ صحابہ، تابعین کے اقوال، تبع تابعین کے آثار اور اس کے بعد ائمہ کا نقطہ نگاہ ان کی اصل کتابوں کے حوالے سے پیش کرتے ہیں اور ان کے مکمل حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔ تحقیق کے بنیادی اصولوں میںیہ بات شامل ہے کہ کسی بھی بات کی تہہ تک پہنچے بغیر کوئی رائے نہ دی جائے۔ مولاناکایہ اصول ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کی عبارت کامعنی ومفہوم خود اپنی طرف سے بیان نہیں کرتے بلکہ اس کا وہی مفہوم اختیار کرتے ہیں جو لکھنے والے نے خود بیان کیاہو۔

تحقیق کی مختلف اقسام ہیں جن میں بنیادی تحقیق، تنقید، اطلاقی تحقیق وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی کتب میں تحقیق کی یہ تمام صورتیں موجود ہیں۔ جب مولانا دوسرے کے نقطہ نگاہ کاتجزیہ کرتے ہیں تواس کے حق میں پیش کردہ روایت کے درجے اور اس کے راویوں کے بارے میں اسماء الرجال کے ماہرین کی آرا کاتجزیہ کرتے ہوئے روایت ودرایت کے اصولوں کے مطابق اس پر تنقید کرتے ہیں۔ فریقِ مخالف کے دلائل کا عقلی ونقلی بنیادوں پر تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا ایک ’’محقق مصنف‘‘ ہیں۔ اپنے نقطہ نگاہ کوحکایتوں اور روایتوں کے سہارے پیش نہیں کرتے بلکہ تحقیق کا اسلوب اپناتے ہیں ۔

مولاناسرفراز خاں صفدرکی تحریرات میں سادگی، فکری تسلسل اورمنطقی ترتیب موجود ہے۔ آپ اپنا نقطہ نگاہ بڑے اعتماد اور وضاحت سے بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نقطہ نگاہ منطقی ترتیب کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اس کی تائیدمیں دلائل کی لڑی پرو دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کی عبارات میں جب دلائل کی کثرت آتی ہے تو تحریر میں بھاری پن پیداہوجاتاہے اور پڑھنے والا بڑی کوشش کے بعد ہی ان دلائل کو سمجھ پاتاہے، لیکن مولانا کی تحریرات میں ایسا بھاری پن نہیں ہوتا۔ قاری بڑی آسانی اور ذوق وشوق کے ساتھ تحریرمیں منہمک رہتا اوردلائل حاصل کرتاہے۔ آپ کی تحریرات میں تسلسل ہے۔ قاری کے ذہن میں بات ایک ترتیب کے ساتھ بیٹھتی چلی جاتی ہے۔ 

مولانا کی تمام کتابیںآپ کے تبحرِ علمی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپ کا مطالعہ قرآن مجید، تفاسیر، احادیث کے بڑے بڑے مجموعوں، اسلاف کے علمی سرمایے اور کتب کو محیط ہے۔ وسعتِ نظر، بلند خیالی، نقطہ نگاہ میں گہرائی اور گیرائی مولانا صفدر کے بنیادی اوصاف میں شامل ہے۔ ان تمام اوصاف کا آپ کی کتابوں میں جابجا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے یا ہماری کوتاہی ہے کہ آپ کی تصانیف پاکستان کی یونیورسٹیوں اور ملک کی بڑی بڑی لائبریریوں میں موجود نہیں ہیں۔ ان کتابوں کوایک طرح سے ایک مکتبِ فکر کی نمائندہ کتب سمجھ لیاگیا ہے اور انھیں ایک مکتبِ فکر میں محدود کردیا گیا ہے، حالانکہ یہ کتابیں محض ایک مکتب فکر کے نقطہ نگاہ کی نمائندہ نہیں بلکہ اسلامی عقائد کی توضیح واثبات اور علم الکلام کا عظیم سرمایہ ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کتابوں کوملک کی بڑی بڑی لائبریریوں تک پہنچایا جائے۔ مختلف جرائد میں کتابوں پر تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ یہ تبصرے بھی کسی کتاب کے تعارف میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مولانا کی کتب پر مختلف جرائد میں تبصرے شائع کرائے جائیں تاکہ ان میں موجود علم الکلام کا عظیم ذخیرہ وسیع تربنیادپر منظرِ عام پر آئے۔

کوئی درخت اپنے پھل اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے قیمتی بنتا اور پہچانا جاتا ہے۔ مولاناسرفراز خاں صفدرؒ کا ایک پھل ان کے ہزاروں شاگرد ہیں جو دنیا کے کونے کونے میں تبلیغ واشاعت اور دفاع دین کے کام میں مشغول ہیں۔ اس تناور درخت کا دوسرا ثمرہ آپ کی تصانیف ہیں جو دفاع دین کے حوالے سے اس قدر علوم ومعارف اورعقلی ونقلی دلائل سے بھری ہوئی ہیں کہ برصغیر کے علم الکلام پر لکھنے والا کوئی شخص ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اس قدآور درخت کاتیسرا ثمر آپ کی اولاد ہے۔ یہ بات مولانا کے لیے باعثِ بخشش بھی ہے اورقابلِ فخر بھی کہ آپ کی تمام اولاد حافظ قرآن اور عالمِ دین ہے۔ یہ حافظوں اور عالموں کا خانوادہ ہے۔ میرا اپنا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ آپ کی تمام اولادکا حافظ وعالم ہونا اس بات کی دلیل اور ثبوت ہے کہ آپ ایک باعمل انسان تھے۔ آپ کی اولاد نے آپ کی شخصیت میں علم و عمل کو یکجا دیکھا، تقویٰ اور پرہیزگاری کے صرف درس نہیں سنے بلکہ اپنے والدِمحترم کوتمام اسلامی تعلیمات کاعملی نمونہ اور تمام مکارمِ اخلاق کامرقع پایا۔ اولاد کو آپ کے قول وفعل میں تضاد نظر نہیں آیا، اسی لیے ان کی اولاد کے لیے مولانا کی ہستی ایک عملی نمونہ ٹھہری اور انہوں نے اسی لائن کو اختیار کیا جس کاعملی نمونہ انہوں نے اپنے والدِ محترم میں دیکھا۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عالموں کی اولاد حافظ اور عالم نہیں بنی، لیکن مولاناسرفراز خاں صفدرؒ اس اعتبار سے ایک منفرد حیثیت رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری اولاد کودین کے لیے وقف کردیا۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے، انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطاکرے اور ان کی تمام دینی خدمات کو ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین


مشاہدات و تاثرات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter