میں نانا جان کو ابو جی کہا کرتی تھی، جبکہ باقی سب گھر والے ابا جی کہتے تھے۔ ہم سب گھر والوں کو اپنے اپنے انداز سے ابو جی کی خدمت کا موقع ملا جو اب ہماری زندگیوں کا کل اثاثہ ہے، البتہ میں خاصا عرصہ مسلسل ابو جی کی خدمت میں رہی۔ ہم سب امتحان سے فراغت کے بعد چھٹیاں گزارنے ابو جی کے پاس گئے تو تعطیلات کے اختتام پر انھوں نے مجھے خدمت کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ امی جان نے بھی اس بات کو باعث سعادت سمجھا۔ میں چھوٹی تھی اور اتنی سمجھ نہیں تھی کہ خدمت کیسے کروں گی، لیکن ابو جی کی شفقتوں، محبتوں اور عنایتوں نے میرے لیے خدمت کے کام کو بہت سہل کر دیا۔
ابو جی کا پیار محبت سب کے ساتھ یکساں تھا۔ ہر فرد یہی خیال کرتا تھاکہ حضرت کو میرے ساتھ زیادہ پیار ہے۔ میرے ساتھ خصوصی پیار کی کچھ وجوہات بھی تھیں۔ میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی نواسی تھی۔ پھر میری چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور حرکتوں نے بھی ابو جی کو مجھ سے مانوس کر دیا تھا۔ ابو جی صاحب فراش تھے اور مجھے ان کے مزاج اور طبیعت کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ انھیں اس وقت کس چیز کی طلب ہے۔ وہ بھی اپنے کام کے لیے مجھے ہی بلاتے تھے۔ میں اکثر انھیں ہنسانے کے لیے کوئی نہ کوئی شرارت کیا کرتی تھی۔ ایک دفعہ میں ابو جی جیسا لباس پہن کر اور نقلی ڈاڑھی مونچھیں لگا کر ہاتھ میں ان کا عصا پکڑے ان کے کمرے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ داخل ہوئی۔ بڑی بہن کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا کیونکہ ایسے موقع پر وہ فوراً ہنس پڑتی تھی۔ آپی جان نے ابو جی کے قریب ہو کر کہا کہ ایک بابا جی آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ہیں۔ ’’بابا جی‘‘ نے قریب جا کر سلام کیا، ہاتھ مبارک پر بوسہ دیا اور چارپائی کے قریب بیٹھ گیا۔ دونوں جانب سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ بابا جی نے پوچھا کہ حضرت! آپ کی طبیعت کیسی ہے تو فرمایا کہ طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ ابو جی نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں اور کیسے آنا ہوا؟ بابا جی نے کہا کہ میں ادھر سے ہی آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ ابو جی نے اسی طرح دو تین اور سوال کیے اور بابا جی نے جواب دیے۔ اسی اثنا میں ابو جی نے آپی کو مشروب لانے کے لیے کہا تو ان کی ہنسی چھوٹ گئی اور سارا راز فاش ہو گیا۔ پھر آپی نے انھیں ساری بات بتائی۔ ابو جی فرمانے لگے کہ مجھے اٹھا کر بٹھاؤ۔ بابا جی نے ہی انھیں بٹھایا اور روہ بیٹھ کر ہر چیز کا معائنہ کرتے رہے اور ہنستے رہے۔ ہر چیز کے بارے میں سوال کرنے لگے کہ یہ کیا چیز ہے، کہاں سے لی ہے؟ میں نے ابو جی کو بتایا کہ یہ سب آپ کو ہنسانے کے لیے کیا ہے۔ آج بھی ابو جی کا ہنستا مسکراتا چہرہ یاد آتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، کیونکہ یہ اس حسین وجمیل چہرے کی زیارت کو ترستی ہیں اور اب ترستی ہی رہیں گی۔
ابو جی نے جب اٹھنا بیٹھنا یا لیٹنا ہوتا تو مجھے کہتے کہ پہلوان، ادھر آؤ۔ میرے نام ’’اقرا‘‘ کے بارے میں کہتے کہ یہ بڑا وزنی نام ہے، میں تمہیں اقلیمہ کہا کروں گا۔ اس کے بعد جب مجھے آواز دیتے تو اقلیمہ ہی کہتے۔ اب کان اس مبارک آواز کو سننے کے لیے ترستے ہیں۔ ابو جی کے پاس رہتے ہوئے مجھے کہیں جانے کا موقع نہیں ملتا تھا اور نہ ہی وہ مجھے کہیں جانے دیتے تھے۔ ایک منٹ کے لیے بھی اپنے پاس سے جدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ ابو جی ہم دونوں بہنوں کو یہی کہتے کہ ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے رہا کرو، حتیٰ کہ اگر ہم کسی کام سے باہر جاتے تو گھنٹی پر ہاتھ رکھ دیتے اور جب تک ہم اندر نہ پہنچ جاتیں، اپنا ہاتھ گھنٹی سے نہ ہٹاتے۔ پوچھتے کہ کہاں گئی تھیں؟ ہم بتاتیں کہ وضو کرنے گئی تھیں تو فرماتے کہ یہاں ڈیوڑھی میں میرے سامنے ہی کیا کرو۔ نماز بھی میرے کمرے میں ادا کیا کرو اور کھانا بھی میرے سامنے ہی کھایا کرو۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ابو جی، پھر تو آپ ہمارے نوالے گنتے رہیں گے۔ فرمایا کہ ’’نہیں پتر، مینوں اپنے آنگن دیاں چڑیاں ویکھ کے خوشی ہوندی اے‘‘ (مجھے اپنے آنگن کی چڑیوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے)۔ اس طرح ہمارا زیادہ تر وقت ابو جی کے پاس ان کے کمرے میں ہی گزرتا۔ نماز، کھانا اور چھوٹے موٹے کام ہم ابو جی کے پاس ہی کر لیتے تاکہ وہ بھی خوش رہیں اور ہمیں بلاتے ہوئے انھیں کوئی دقت یا تنگی محسوس نہ ہو۔ باہر گلی میں کوئی چیز بیچنے والا گزرتا تو فرماتے کہ دیکھو، کیا چیز بیچ رہا ہے؟ ہم بتاتیں کہ فلاں چیز ہے تو فرماتے کہ میری جیب سے پیسے نکالو اور چیز لا کر میرے سامنے کھاؤ۔ چنانچہ ہم دونوں بہنیں بیٹھ کر کھاتیں اور وہ ہمیں دیکھ کر مسکراتے رہتے۔
چھوٹے نانا جان کی عیادت کے لیے گوجرانوالہ گئے تو ہم دونوں بہنیں بھی ساتھ تھیں۔ اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر ابو جی کی جو کیفیت ہوئی، میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ جس بھائی کے لیے وہ کسی قسم کی تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتے تھے، آج وہ بستر پر بے ہوشی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔
میں ابو جی کو نظم ’’شیخ صفدر کو رب نے جو رتبہ دیا‘‘ سناتی۔ جب سنا چکتی تو ان سے پوچھتی کہ آپ شیخ صفدر کو جانتے ہیں؟ یہ کون ہیں؟ تو ہاتھ سے اشارہ کرتے کہ نہیں۔ پھر مسکراتے ہوئے جواب میں فرماتے کہ پتہ نہیں، یہ کون سے باباجی ہیں، میں ان کو نہیں جانتا۔ میں کہتی کہ وہ تو اتنی عظیم ہستی ہیں کہ لوگ ان کی زیارت کے لیے دور دور سے سفر کر کے آتے ہیں اور اس وقت وہ میری آنکھوں کے سامنے چارپائی پر آرام فرما ہیں۔ فرماتے کہ نہیں، میں تو بابا جی ہوں۔ میں اٹھ کر پیشانی مبارک پر بوسہ دیتی اور کہتی کہ یہی تو وہ عظیم ہستی ہیں جو میرے ابو جی ہیں اور جن کو میں تنگ کرتی رہتی ہوں۔ فرماتے، ’’نہیں پتر، مینوں تیریاں ایہہ شرارتاں تے ایناں نال مینوں ہنساندے رہنا بڑا چنگا لگدا اے‘‘ (بیٹا، مجھے تمہاری یہ شرارتیں اور شرارتوں سے مجھے ہر وقت ہنساتے رہنا بہت اچھا لگتا ہے)۔
عصر کے بعد حاجی لقمان میر صاحب اور ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب ابو جی کی خدمت اور زیارت کے لیے آتے اور کوئی نہ کوئی چیز مثلاً یخنی، مچھلی، جوس، ملک شیک وغیرہ ان کے لیے ضرور لے کر آتے۔ ابو جی خود نوش فرماتے او رباقی بچا کر میز پر رکھوا دیتے کہ یہ میں اپنی بچیوں کو دوں گا۔ وہ خود کوئی چیز کھا کر اتنے خوش نہیں ہوتے تھے جتنا ہمیں کھلا کر۔ جب حاجی صاحب اور ڈاکٹر صاحب چلے جاتے تو ہم بہنوں کو بلوا کر اپنے سامنے بٹھا کر کھانے پینے کو کہتے۔ اگر ہم کہتیں کہ یہ تو آپ کے لیے ہے تو فرماتے کہ اب یہ تمہارا حصہ ہے۔ میں نے جتنا کھانا پینا تھا، کھا پی لیا ہے۔ اگر ہم بہنیں ابو جی کے پاس ہوتیں اور کوئی چیز انھیں کھلا رہی ہوتیں تو ہر ایک کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ بچی ہوئی چیز اسے ملے۔ پھر ہم چاروں بہنیں آپس میں تقسیم کر کے کھا لیتیں۔ ایک دن ہی ہم ایسے ہی کر رہی تھیں اور ہمیں پتہ نہیں تھا کہ نانا جان ہمیں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ جب آپی جان برتن باہر لے جانے لگیں تو نانا جان نے انھیں آواز دی اور اپنے قریب بٹھا کر پوچھا کہ کیا تم لوگ میری ہوئی چیز پھینک دیتے ہو؟ آپی نے کہا کہ جی، پھینک دیتے ہیں۔ نانا جان حیران ہوئے اور پھر پوچھا کہ پھینک دیتی ہو؟ آپی نے کہا کہ جی، پھینک دیتی ہیں لیکن اپنے پیٹ میں۔ اس پر مسکرانے لگے۔
بیماری کے دنوں میں انھیں ہفتے میں ایک بار جمعرات یا جمعۃ المبارک کے دن ضرور نہلایا جاتا تھا اور میں اور میری والدہ محترمہ سر اور پاؤں وغیرہ پر تیل کی مالش کیا کرتی تھیں۔ میں ریش مبارک کو کنگھی کرتی، سرمہ لگاتی، عطر لگاتی اور پھر کہتی کہ دولہا تیار ہے۔ اس پر بہت خوش ہوتے اور کافی دیر تک مسکراتے رہتے۔ بستر تبدیل کرنے کا مرحلہ کافی مشکل ہوتا تھا۔ ابو جی کو اٹھا کر کرسی پر بٹھانا ہوتا تھا اور پھر بستر تبدیل کیا جا تا تھا۔ چھوٹے ماموں راشد اور میں دونوں مل کر بستر تبدیل کرتے تھے۔ میں کرسی لاتی اور وہ ابو جی کو اس پر بٹھاتے۔ اگر ماموں گھر پر نہ ہوتے تو بستر تبدیل کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ہوتی اور میں الحمدللہ یہ کام بخوبی سرانجام دے لیتی۔ جب میں ابو جی کو اٹھاتی تو فرماتے، پہلوان واقعی میرا پہلوان ہے۔ ایک مرتبہ ابو جی بستر بدلوانے پر کسی طرح راضی نہیں ہو رہے تھے تو میں نے انھیں کھلا پلا کر فریش کیا اور باتوں باتوں میں ہی بستر تبدیل کر دیا۔ اس پر ابو جی نے ہم بہنوں کو ڈھیروں دعاؤں سے نوازا۔
ہر جمعہ کو نانا جان کے پاس بڑے ماموں مولانا زاہد الراشدی حاضر ہوتے اور ملکی حالات پر ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے۔ ایک دفعہ ماموں آئے تو ابو جی نے مجھ سے کہا کہ ’’پتر، اینوں جاندی ایں؟’’ (بیٹا، اسے جانتی ہو؟) میں نے ابو جی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ اس بابا جی کے بیٹے ہیں۔ اس پر مسکرانے لگے۔
ابو جی کی وفات سے ایک رات پہلے تقریباً دو یا ڈھائی بجے بجلی گئی ہوئی تھی اور بالکل اندھیرا تھا۔ امی جان ابو جی کی چارپائی کے قریب جبکہ میں تھوڑے فاصلے پر لیٹی ہوئی تھی۔ اسی اثنا میں مجھے محسوس ہوا کہ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک بزرگ کمرے کے دروازے سے داخل ہوئے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا چہرہ واضح طور پر نظر نہیں آیا۔ وہ کمرے کی کھڑکیوں کے آگے سے گزر کر ابو کی چارپائی پر پاؤں کی جانب بیٹھ گئے اور پھر غائب ہو گئے۔ مجھے خوف محسوس ہونے لگا تو میں نے امی جان کو آواز دے کر پوچھا کہ ابھی یہاں سے کون گزرا ہے؟ امی جان نے کہا کہ کوئی بھی نہیں گزرا۔ میں نے انھیں ساری بات بتائی تو انھوں نے کہا کہ تمھیں ایسے ہی وہم ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں، وہم نہیں ہوا، میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ امی جان نے مجھے اپنے قریب بلا کر لٹا لیا، لیکن ان کے پاس لیٹنے کے باوجود مجھ پر خوف طاری رہا۔ امی جان اپنا ہاتھ میرے سر پر پھیرنے لگیں تاکہ میں سو جاؤں، لیکن میری آنکھ کبھی لگ جاتی اور کبھی کھل جاتی۔ جیسے ہی آنکھ کھلتی، میری آنکھوں کے سامنے وہی سفید کپڑوں والے بزرگ آ جاتے۔ خیر رات تو جیسے تیسے گزر گئی، صبح میں نے ماموں جان شاہد کے سامنے اس بات کا ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ سارا دن ابو جی کی خدمت میں ہی گزرا۔ کیا پتہ تھا کہ وہ آخری دن ہوگا۔
رات کو معمول کے مطابق سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں اور امی جان ابو جی کے کمرے میں ہی سوتے تھے۔ امی جان حسب معمول ابو جی کا جسم اور میں سر دبانے لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ابو جی نے کہا کہ بیٹا، تم لیٹ جاؤ۔ اتنے میں سب بچے کمرے میں داخل ہوئے اور باری باری ابو جی کو سلام کر کے باہر چلے جاتے۔ پھر دوبارہ اندر آتے اور ابو جی سے ہاتھ ملا کر ہاتھ چومتے۔ ابو جی بھی بار بار بچوں سے سلام کرتے اور ان کے ہاتھ چومتے اور انھیں پیار کرتے رہے۔ ابوجی کو تو شاید پتہ چل گیا تھا کہ یہ بچوں سے آخری سلام اور پیار ہے، لیکن معصوم بچوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اب وہ اپنے پیارے دادا جان کو ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔ بچوں کے بار بار آنے سے ابو جی کی طبیعت میں ذرا بھی اکتاہٹ نہیں آئی۔ امی جان جو کافی دیر سے یہ منظر اور ابو جی کا چمکتا دمکتا اور مسکراتا چہرہ دیکھ کر خود بھی مسکرا رہی تھیں، آخر انھوں نے بچوں سے کہا کہ اب آپ جا کر سو جاؤ اور دادا جان کو تنگ نہ کرو تاکہ وہ کچھ دیر آرام کر لیں۔ انھیں کیا خبر تھی کہ آج ابو جی ایسی گہری اور پرسکون نیند سونے والے ہیں کہ پھر بیدار نہیں ہوں گے۔ بہرحال بچوں کو باہر بھیجنے کے بعد ہم دوبارہ ابوجی کو دبانے لگ گئے۔ اتنے میں ابو جی کو تھوڑی سے قے آئی اور میں بھاگتی ہوئی باہر گئی کہ مامووں میں سے جو بھی جاگ رہے ہوں، انھیں بتاؤں۔ باہر نکلی تو ماموں جان شاہد سامنے چارپائی پر لیٹے ہوئے اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ ابو جی کی طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے اور وہ قے کر رہے ہیں تو وہ بھاگنے کے انداز میں اندر آئے اور ابو جی کے قریب پہنچے۔ امی جان نے نانا جان کو گود میں لیا ہوا تھا اور ایک ہاتھ سے قے صاف کر رہی تھیں۔ ماموں جان نے آگے بڑھ کر رومال پکڑ کر صاف کیا اور مجھ سے کہا کہ باقی سب کو بھی بلاؤ۔ میں جلدی سے گئی اور ماموں جان عابد کے کمرے پر دستک دی اور کہا کہ ابو جی کی طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے۔
ماموں جان کے آنے تک گھر کے سبھی افراد پہنچ چکے تھے۔ ابو جی کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔ اسی اثنا میں انھوں نے مجھے آواز دی، حالانکہ میں ان کے قریب ہی کھڑی تھی۔ میں اور آگے ہوئی تو میری طرف عجیب انداز سے دیکھنے لگے۔ نہ جانے ان کے دیکھنے میں کیا تھا کہ ابھی تک دل میں اس نظر کی تاثیر محسوس ہوتی ہے۔ پھر انھوں نے امی جان کو آواز دی تو انھوں نے کہا، جی ابا جان۔ ابو جی کچھ پڑھ رہے تھے لیکن آواز صاف نہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ پھر سب کی جانب دیکھ کر انھوں نے جان، جاں آفریں کے سپرد کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اتنا پرنور، روشن، چمک دار اور مسکراتا ہوا چہرہ تھا کہ نگاہیں ہٹانے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ غسل کے بعد جب میں نے ان کا چہرہ دیکھا تو مجھے وہی ’’دولہا تیار ہے‘‘ والی بات یاد آ گئی ،لیکن کس سے کہتی کہ میرے تیل اور عطر لگائے بغیر ہی آج دولہا تیار ہے۔ فی الواقع وہ دولہے سے بھی زیادہ خوب صورت لگ رہے تھے۔ ابو جی کے نورانی اور مسکراتے ہوئے چہرے کا آخری بوسہ لیتے ہوئے دل میں یہی خواہش ابھرتی رہی کہ اے کاش! ابو جی زندہ ہوتے، مجھ سے باتیں کرتے اور میرے سوالوں کا جواب دیتے۔