داستانِ عہد گل را از نظیری می شنو
عندلیب آشفتہ تر میگوید ایں افسانہ را
آنحضرت جل سلطانہ نے امت مرحومہ کی جن چیدہ چیدہ شخصیات کو متبحر فی العلم، وسیع المطالعہ، متنوع الجہات دینی خدمات کی بنا پر نابغہ روزگار اور عبقری شخصیت بنایا، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں تھا۔ انھی کمالات کے ساتھ ساتھ مستزاد بریں خصوصی عنایت خداوندی ’ثم یوضع لہ القبول فی الارض‘ سے بھی بہرہ ور فرمایا، چنانچہ جب ہم نے ہوش سنبھالی تو والد صاحبؒ کو انھی اخلاق فاضلہ کی بنا پر ہر کہ ومہ کی نظر میں صاحب احترام واحتشام پایا۔ ماحول سے متاثر ہونے کی بنا پر ہمارے دل ودماغ میں بھی والد محترمؒ کے ادب واحترام کا یہی نقش منقش ہوا جو کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ مزید راسخ ہوتا چلا گیا۔ واقعی ماحول اور معروضی حالات بچوں کو ایسا بہت کچھ بڑی بے تکلفی اور آسانی سے سکھا دیتے ہیں جو بڑوں کو بڑے بڑے مربی اور معلم بھی بمشکل سکھا سکتے ہیں۔ راقم الحروف صرف دو خاندانی واقعے ذکر کرے گا جن سے بچپن میں والد محترمؒ کے ادب واحترام کے راسخ فی الذہن ہونے کی پوری پوری عکاسی ہو سکے گی۔
ہمارے بھانجے حافظ حبیب الرحمن عرف پپو سلمہ اللہ تعالیٰ بچپن میں اپنے علاقہ ہزارہ میں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حسب معمول کھیل کے دوران بچوں نے لڑائی اور گالی گلوچ شروع کی۔ دوسرے بچوں نے جانتے ہوئے کہ یہ والد صاحبؒ کا نواسہ ہے، والد صاحب کو گالی دی جس کے جواب میں پپو نے کہا، ’’دا تہ کنزے مکوہ، ہغہ خو پیغمبر دے‘‘ کہ ان کو گالی مت دو، وہ تو پیغمبر ہیں۔ پیغمبر کے مقام سے اگرچہ بڑے بھی پوری طرح باخبر نہیں ہوتے چہ جائیکہ صغار، لیکن ہر ادنیٰ واعلیٰ مسلمان کی نظر میں کسی بنی آدم کی بزرگی، جلالت شان اور تعریف کے لیے حرف آخر یہی لفظ پیغمبر ہے جس کے بعد تعریف کا کوئی لفظ فضول ہے۔ اگرچہ پپو کا یہ لفظ خلاف واقعہ تھا، لیکن چھوٹی عمر میں اس کے ذہن میں والد صاحبؒ کے ادب واحترام کے بخوبی موجود ہونے کی مکمل آئینہ داری کرتا ہے۔
اسی طرح برادر محترم قاری عزیز الرحمن شاہد زید مجدہ کے بڑے بیٹے ارسلان خان اس وقت بمشکل چار پانچ سال کے تھے اور گھر میں واحد بچے تھے جو کہ دوسروں کی تعلیمی مصروفیات کی بنا پر باہر سے آنے والے ملاقاتیوں کی والد صاحبؒ کے ساتھ ملاقات کرانے کی ڈیوٹی پر تھے۔ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ارسلان حسب معمول پہنچا۔ آنے والوں نے پوچھا کہ سرفراز صاحب ہیں؟ تو ارسلان نے ان کے الفاظ کو خلاف معمول وخلاف ادب واحترام پاتے ہوئے فوراً غصے میں کہا ’’آپ کو شرم آنی چاہیے، اتنے بڑے عالم ہیں اور آپ سرفراز صاحب کہہ رہے ہیں، جبکہ حضرت مولانا سرفراز خان صاحب کہا کرتے ہیں‘‘۔ مہمان بے چارے بچے کا جواب سن کر خفیف تو ہوئے لیکن اندر پہنچ کر والد صاحبؒ سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے؟ والد صاحبؒ نے فرمایا، میرا پوتا ہے تو انھوں نے یہی مندرجہ بالا مکالمہ دہرایا جس پر والد صاحبؒ مسکرا دیے۔
غرضیکہ ہم سب اسی ادب واحترام کی فضا میں پروان چڑھتے رہے تا آنکہ والد صاحبؒ سے رشتہ تلمذ بھی قائم ہوا اور بعض بھائیوں کو سلسلہ ارادت بھی نصیب ہوا۔ تلمذ وارادت کے رشتوں کے لیے مزید ادب واحترام کی پختگی اور ناگزیری ظاہر وباہر ہے۔ رشتہ ابوۃ وبنوۃ کے لیے حسب روایات دنیا کسی قدر بے تکلفی، بے حجابی لازم ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات ادب واحترام کو کماحقہ ملحوظ رکھنا مشکل بھی ہوتا ہے، لیکن اس کو والد صاحبؒ کی کرامت جانیے کہ ہم سب بھائیوں نے تقریباً ساری زندگی صلبی رشتہ کو اول الذکر رشتوں کے پہلو میں مغلوب بلکہ کالمعدوم رکھ کر ادب واحترام کو حتی الوسع پوری طرح برقرار رکھنے کی کوشش کی اور روئے ارض پر شاید ہی ایسے گھرانے ہوں جن کو یہ سعادت بایں طرز نصیب ہوئی ہو۔ ع
کم ہیں وہ طائر جو ہیں دام وقفس سے بہرہ مند
راقم الحروف کی تقریباً پچاس سالہ زندگی میں والد صاحبؒ کی حیات مبارکہ کے داخلی وخارجی تمام پہلو تقریباً بندہ کی نظر میں ہیں، لیکن ’قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘ کے تحت کم از کم مجھ کم نصیب سے تو ان کمالات کی عکاسی ناممکن ہے، بلکہ میرے ناقص خیال میں اہل علم وفضل میں سے یا تقریر وتحریر کے جغادریوں میں سے جو کوئی بھی اس موضوع پر قلم اٹھائے گا، ’صورت نادیدہ تشبیہے بتخمیں کردہ اند‘ کا مصداق ہی ہوگا۔ ع
سفینہ چاہیے ا س بحر بے کراں کے لیے
تاہم ’ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ‘ کے تحت چند خصوصی امتیازی صفات کی نشان دہی کرنے کی بندہ کوشش کرے گا جن میں تکمیل اور تزیینی نقش نگاری قارئین کے ذمے ہے۔
والد صاحبؒ کی جسمانی صحت ماشاء اللہ اپنے آبا واجداد کی طرح قابل رشک تھی۔ راقم الحروف نے والد صاحبؒ کی پچھتر سالہ زندگی تک کسی بھی قابل ذکر بیماری میں والد صاحبؒ کو نہیں دیکھا۔ غالباً ۱۹۸۵ء میں چار پانچ سال کے لیے کمر کے مہروں میں سخت تکلیف ہوئی جو کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر بفضلہ تعالیٰ رفع ہو گئی۔ چنانچہ نوے سالہ زندگی تک روزانہ مدرسہ نصرۃ العلوم تعلیم کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔ عالم اسباب میں جن چند چھوٹی چھوٹی باتوں کا والد صاحبؒ اہتمام فرماتے رہے، ہم اس وقت اپنی نادانی اور لاعلمی کی بنا پر ان کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے، لیکن اب معلوم ہوا کہ عالم اسباب میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمیشہ صبح اٹھ کر غسل کرنا، کھانا ہمیشہ سادہ اور بے تکلف کھانا، کھانا ہمیشہ اپنے اوقات مقررہ پر کھانا، دو کھانوں کے درمیانی اوقات میں سوائے پانی اور ظہر کی چائے کے کبھی بھی کوئی چیز نوش نہ فرمانا، کھانے کو ہمیشہ اچھی طرح چبا کر کھانا، پانی ہمیشہ ہینڈ پمپ کا تازہ استعمال فرمانا، فریزر کے ٹھنڈے پانی سے اجتناب کرنا، تازہ ہوا کے لیے کمرے کی کھڑکی کا ضرور کھلا رکھنا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہنا، اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف رکھنا اور فارغ نہ بیٹھنا، ہر روز تھوڑا بہت پیدل چلنا جو کہ اوقات خمسہ میں مسجد میں جانے کی صورت میں اور گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج میں درس کے لیے جانے کی شکل میں ہوتا تھا، اور مدرسہ نصرۃ العلوم میں گاڑی کے بندوبست سے قبل گوندلانوالہ اڈہ سے مدرسہ تک پیدل آنے جانے کی شکل میں ہوتا تھا، انگریزی ادویہ سے بالکلیہ اجتناب کرنا۔
فرنگی طب سراسر غیر فطری ہونے کے باوجود اپنی تمام تر خرافات اور فتنہ سامانیوں سمیت حکومتی سرپرستی اور پشت پناہی کی بنا پر اگرچہ کافی ترقی پذیر ہو چکی ہے، لیکن والد صاحبؒ طبعاً اس کے بالکل خلاف تھے اور پسند نہ فرماتے تھے۔ ہمیشہ اپنی چھوٹی موٹی تکالیف میں کسی نہ کسی یونانی مسہل سے اپنا علاج خود فرما لیا کرتے تھے۔ آخر عمر میں اگرچہ خلاف طبع مجبوراً کافی سال ڈاکٹروں کے زیر تسلط رہے، لیکن تقریباً ہر بار بندہ کی حاضری پر بندہ کے یونانی یا ہومیو علاج کے مشورہ پر ہمیشہ بدیں الفاظ جواب مرحمت فرماتے کہ ڈاکٹر جان چھوڑیں تو میں کوئی دوسرا علاج کروں۔ وفات سے دو دن قبل بندہ کے اصرار پر کراچی کے ایک یونانی حکیم کے تجویز کردہ نسخہ کے استعمال پر آمادگی ظاہر فرما دی، چنانچہ بندہ نے دوائی بیٹھک میں پہنچا کر طریقہ بتا دیا تو ایک ماہ کے استعمال پر وعدہ فرما لیا، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ہم سنا کرتے تھے کہ آدمی جب بڑھاپے میں بھی کافی وقت گزار لے تو سفید بال دوبارہ کالے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ والد صاحبؒ کے ڈاڑھی مبارک کے بال بھی کافی سارے دوبارہ سیاہ ہو چکے تھے۔ وفات سے ایک دن قبل بندہ نے والد صاحبؒ سے اس کا تذکرہ کیا تو انھی بالوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ہاں یہ بال سیاہ ہو چکے ہیں۔ بندہ کے استفسار پر کہ آپ نے کبھی ایسا آدمی دیکھا جس کے بال دوبارہ سیاہ ہو چکے ہوں تو سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نفی میں ہاتھ کو حرکت دی کہ اس وقت ایسا آدمی ذہن میں نہیں ہے۔
اپنے معاصر علما ومشائخ میں عمدہ حافظے کی بنا پر خاص طو رپر ممتاز تھے۔ عالم اسباب میں آخری مرض تک بلاناغہ روزانہ خمیرہ گاؤزبان عنبری استعمال فرمانے کا دائمی معمول تھا جو کہ اپنی نگرانی میں سالہا سال تک گھر پر ہی تیار کرواتے تھے اور باطنی اور روحانی اسباب میں سے، جیسا کہ اہل علم امام شافعیؒ کے شعر ’فاوصانی الی ترک المعاصی‘ کے تحت جانتے ہی ہیں، ہمیشہ مصروفیات کی بنا پر معاصی اور فضولیات کی تو فرصت ہی نہ تھی اور نہ ہی ان کی ڈکشنری میں اس کا تصور تھا۔ باوجودیکہ والد صاحبؒ حافظ قرآن نہ تھے، لیکن اسی حافظے کی بدولت کالحافظ تھے۔ رمضان شریف میں کیا مجال ہے کہ کوئی حافظ یا قاری تراویح میں معمولی سی زیر زبر کی غلطی کر کے بچ نکلے۔ بلاتاخیر اس کو ٹوکتے یا سامع کو تنبیہ کرتے اور درستگی کے بعد آگے جانے دیتے۔ وفات سے چند ماہ قبل بندہ موجود تھا۔ برادرم قاری راشد صاحب سلمہ ربہ (جنھوں نے سالہا سال بڑی جفا کشی اور تن دہی سے والد صاحبؒ کی خدمت کی۔ مولا پاک ان کودین دنیا آخرت میں ہم سب کی طرف سے خدمت کی بہترین جزاے خیر نصیب فرمائے) کو فرمایا کہ سامنے والی الماری کے درمیان والے خانے کی ساتویں نمبر کی کتاب لاؤ اور ص ۶۰ کھولو او رمیری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کو دو۔ انھوں نے ص ۶۰ نکال کر کتاب بندہ کو تھما دی۔ والد صاحبؒ نے ایک روایت کے الفاظ سارے پڑھے اور فرمایا کہ الفاظ اسی طرح ہیں؟ بندہ نے عرض کی کہ اس صفحے پر ایسے کوئی الفاظ نہیں۔ بڑے تعجب سے فرمایا کہ یہ کسی اور خانے سے کتاب اٹھا لایا ہے، چنانچہ یہ بات درست ثابت ہوئی۔ وہ مطلوبہ کتاب نہیں لائے تھے۔ مطلوبہ کتاب لانے پر اسی کے صفحہ ۶۰ پر بعینہ وہی الفاظ نکلے جس کے آخری الفاظ بندہ کو بھی کسی قدر یاد ہیں: ’کان کفارۃ لما مضی من ذنوبہ و موعظۃ لہ فی ما یستقبل‘۔
حافظے کا یہ حال سالہا سال کے فالج کی بیماری کے باوجود تھا۔ اسی سے زمانہ صحت کا قیا س کیا جا سکتا ہے۔ ع
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
کوئی صاحب علم بندہ مجلس میں جب موجود ہوتا تو پے درپے علمی باتیں کرنے کے لیے بہانے تلاش فرماتے رہتے اور ضرور کسی نہ کسی رنگ میں علمی تذکرہ رہتا۔ شیخ الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کی تقریر ٹیپ ریکارڈ پر چل رہی تھی۔ کسی حدیث کا ذکر ہوا۔ فرمایا کہ یہ حدیث کہیں نظر سے گزری ہے؟ بندہ نے عرض کی کہ ہاں، کنوز الحقائق میں بندہ نے دیکھی ہے۔ غلطی سے بندہ نے علامہ سخاویؒ کا نام لے لیا، برجستگی سے فرمایا کہ وہ علامہ مناویؒ کی ہے، نہ کہ علامہ سخاویؒ کی۔ حاصل کلام یہ کہ آخر عمر تک قوت حافظہ قابل رشک حد تک برقرار رہی۔
دقیق سے دقیق علمی مسائل پوچھنے پر بھی فوراً تسلی بخش جواب عنایت فرماتے یا حسب شخصیت کسی نہ کسی قدر روشنی ضرور ڈالتے۔ اگر جواب تفصیلی ہوتا یا سائل کی علمیت پر اعتماد ہوتا یا فرصت نہ ہوتی تو مسئلہ کے مظان ومراجع کی طرف رجوع کر کے خود دیکھ لینے کا فرماتے جس پر مسئلہ پوری تفصیل سے مع ما لہا وما علیہا انھی مظان میں مل جاتا۔ یہ سب صورتیں بندہ کے مشاہدہ کی ہیں۔ راقم الحروف علمی مسائل میں والد صاحبؒ کی تحقیق کی بجائے گزشتہ شخصیات کے بارے میں والد صاحبؒ کے تاثر جاننے کی ضرور کوشش کرتا رہتا۔ ایک بار حضرت شاہ ولی اللہؒ اور امام ربانی حضرت مجدد الف ثانیؒ کے بارے میں ان کا تاثر لینا چاہا تو فرمایا کہ تصوف میں امام ربانی کا مقام اونچا ہے اور علم میں شاہ صاحبؒ بہت آگے ہیں۔ ساتھ ہی فرمایا، امام ربانی علم میں اتنے محقق نہیں تھے۔ بندہ نے عرض کی کہ کون سی بات غیر تحقیقی انھوں نے فرمائی؟ فرمایا کہ حدیث غرانیق کا ذکر مکتوبات میں ایسے انداز سے کیا ہے۔ یہ مکالمہ اس وقت دلچسپ مباحثے کی شکل اختیار کر گیا جب بندہ نے کہا کہ اس کو تو حافظ الدنیا حافظ ابن ابی حجرؒ نے بھی صحیح کہا ہے۔ حسب تکیہ کلام فرمایا کہ ایسے ہی مار رہے ہو، کہاں لکھا ہے؟ میں نے عرض کی کہ حافظ نے فتح الباری میں اس کی دو تین اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ لا کر دکھاؤ کہاں ہے۔ بندہ دوسرے کمرے میں جا کر فتح الباری اٹھا لایا اور کھول کر سامنے رکھ دی۔ والد صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے (یہ واقعہ وفات سے بارہ تیرہ سال قبل کا ہے)۔ اس صفحے کا مطالعہ شروع فرمایا۔ بندہ نے روحانی طور پر دیکھا کہ والد صاحبؒ کا عالم امر کاب سے بالا لطیفہ اخفی دوران مطالعہ متاثر ہونا شروع ہوا اور انوار حدیث کی بارش اس پر ہونے لگی، چنانچہ والد صاحب کی آنکھوں سے پانی تک بہہ نکلا۔ بعد ا زمطالعہ مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں، اس محمل کی گنجایش ہے۔ یاد رہے کہ لطیفہ اخفی بالطبع صفت علم سے مناسبت رکھتا ہے، اگرچہ اس وقت وارد ہونے والا فیض دو آتشہ تھا۔ الغرض مجلس شریفہ ’اے لقاے تو جواب ہر سوال‘ کا پورا پورا نمونہ تھی۔
اتباع شریعت وسنت نیز توقیر شریعت میں نہایت راسخ القدم تھے۔ قارئین فتویٰ اور تقویٰ کے فرق کو بخوبی جانتے ہوں گے۔ اپنی صحت کے زمانے میں تقریباً ہمیشہ شرع شریف کے اتقائی پہلو پر عامل رہے۔ مجھے بخوبی یاد ہے، میری عمر اس وقت بمشکل پندرہ سولہ سال ہوگی۔ برادر محترم شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی مدظلہ جمعیت کی سیاسی سرگرمیوں سے وابستگی کی بنا پر ان دنوں گھر سے اکثر غیر حاضر ہوتے تھے۔ عام گھرانوں میں، جیسا کہ معمول ہے، گھر کے افراد ایک دوسرے کی اشیا آپس کے انبساط ومودۃ کی بنا پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ میں نے بھی مولانا راشدی مدظلہ کی غیر حاضری میں ان کے پلاسٹک کے بوٹ برسات کے موسم کی وجہ سے پہن رکھے تھے۔ والد صاحبؒ نے دیکھ لیا اور پوچھا کہ بوٹ کس کے ہیں؟ عرض کیا کہ بھائی جان کے ہیں۔ ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تو نے اس سے پوچھا ہے؟ فوراً اتار کر اس کے کمرے میں رکھ اور اس کی آمد پر اس کو اطلاع کر۔ بصد شرمندگی بندہ نے اتار دیے۔ بھابھی صاحبہ نے بڑا اصرار کیا کہ پہن لو، کوئی بات نہیں، لیکن والد صاحبؒ کے خوف سے جرات نہ ہوئی اور بھائی جان کی آمد پر بتایا۔ بھائی جان مسکرا دیے۔
بظاہر چھوٹی سی بات ہے، لیکن چونکہ تقویٰ کی عکاس ہے، اس لیے بڑی ہے۔ گویا کہ عملاً مراسیل ابی داؤد میں موجود حدیث کی طرف راہ نمائی فرما دی: ’اذا تناول احدکم عن اخیہ شیئاً‘ الحدیث۔
مدرسہ نصرۃ العلوم میں تدریس کے دوران والد صاحب اسباق سے فراغت کے فوراً بعد واپسی فرماتے تھے۔ ایک دفعہ کسی تقریب کے سلسلے میں ٹھہرنا ہوا اور ظہر کی نماز مدرسہ میں ہی ادا فرمائی۔ نماز سے قبل انتظار صلوٰۃ کے لیے تشریف فرما تھے۔ ابو داؤد اور مسند احمد کی روایت کے مطابق منتظر الصلوٰۃ کو تشبیک (ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کرنے) کی ممانعت ہے۔ بندہ والد صاحبؒ سے کچھ ہی فاصلے پر پہلی صف میں موجود تھا۔ اچانک والد صاحبؒ نے بے توجہی سے تشبیک کر لی۔ بندہ نے جونہی دیکھا، چند سیکنڈ کے بعد فوراً تشبیک ختم فرمائی اور جلد ہی دائیں بائیں اس غرض سے دیکھا کہ کسی نے مجھے دیکھا تو نہیں، لیکن بندہ ’ولد الفقیہ نصف الفقیہ‘ کے تحت دیکھ چکا تھا۔ بدیں حالت تشبیک اگرچہ زیادہ سے زیادہ خلاف اولیٰ اور مکروہ تنزیہی ہے، لیکن والد صاحبؒ نے تنبہ پر فوراً چند لمحوں میں ختم فرما دی۔ مستزاد بریں متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنا احساس عظمت شریعت کا پورا پورا غماز تھا۔ جس شخص کی نظر میں اتنی معمولی باتیں اتنی بڑی ہوں، اس سے بڑی خامیوں کی توقع سراسر فضولیات میں داخل ہوگی۔ واقعی آنحضرت جل سلطانہ کی عطا فرمودہ سند ’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ کاش کہ ہمیں بھی نصیب ہو جائے۔
دور حاضر میں امت مرحومہ کی شاید سب سے بڑی خامی نماز میں خشوع وخضوع وتوجہ کا فقدان ہے اور شاید ہی کوئی عالم یا جاہل اس سے مستثنیٰ ہو۔ گویا کہ ہم سب
چلاسی قلب شاں بس سوے غیر است
اگرچہ رخ سوے محراب کردند
کا مکمل مصداق ہیں۔ مشائخ صوفیاء رحمہم اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی شخص کی عظمت وبلندئ مرتبت کا مدار اس کی نماز کے خشوع وخضوع پر ہے۔ والد صاحبؒ کو حضرت حق جل مجدہ نے اس سے بھی بہرۂ وافر نصیب فرمایا تھا۔ اگرچہ لمبے چوڑے نوافل کی عادت شریفہ نہیں تھی، لیکن باقی نماز پوری دل جمعی اور حسن آداب سے ادا فرماتے اور اس معاملے میں معمولی فروگزاشت بھی برداشت نہ فرماتے تھے۔ خاص طو رپر امامت کے بارے میں انتہائی احتیاط فرماتے تھے۔ غالباً ۱۹۷۳ء کا واقعہ ہے۔ ابھی تک مدرسہ نصرۃ العلوم کی طرف سے گاڑی کا بندوبست نہیں ہوا تھا۔ والد صاحبؒ عوام الناس کی طرح بذریعہ عام ٹرانسپورٹ اور پھر پیادہ مدرسہ تک تشریف لے جاتے تھے۔ اتفاقاً ایک دن گکھڑ کی مسجد میں ظہر کی نماز کے بعد اعلان فرمایا کہ پرسوں ظہر سے آج فجر سمیت جس نے میرے پیچھے جتنی نمازیں بھی پڑھی ہوں، براے مہربانی ان کی قضا کر لیں۔ فرمایا کہ آج ظہر کا وضو کرتے ہوئے میرے بازو پر روغن کا رائی برابر نشان تھا جس کو میں نے دور کر دیا ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پرسوں بارش اور سڑکوں پر پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے بندہ پیدل واپس آنے کی بجائے تانگے پر بیٹھ گیا تھا جس پر تازہ تازہ روغن ہوا تھا۔ اغلب ہے کہ اس پربیٹھے کے دوران معمولی روغن میرے بازو پر بھی لگ چکا تھا، اس لیے سارے حضرات میرا وضو نہ ہو سکنے کی بنا پر اپنی نمازیں ضرور دہرا لیں اور پھر کئی نمازوں کے بعد یہی اعلان فرماتے تھے۔
اس قحط التقویٰ کے دور میں ایسی مثال سعی بسیار کے بعد بھی شاید بمشکل مل سکے۔ شاید نماز کی اسی حسن ادائیگی اور احتیاط کی بنا پر ایک متشرع سید صاحب کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خواب میں نمازیں آپ کی اقتدار میں ادا کرنے کا فرمایا، چنانچہ وہ مستقل عرصہ دراز تک گکھڑ میں ہی رہایش پذیر ہو گئے تھے اور نمازیں حتی الوسع والد صاحبؒ کی اقتدا میں ادا کرتے تھے۔
اکابر علماے کرام خصوصاً علماے دیوبند رحمہم اللہ کے مسلک ومشرب میں انتہائی متصلب تھے۔ کسی معمولی لچک کے بھی روادار نہ تھے۔ اسلاف پر اعتماد اور حسن عقیدت مثالی تھی۔ فرمایا کرتے تھے کہ ساری زندگی کے تجربات ومشاہدات کا حاصل اور نچوڑ یہ ہے کہ ہمارے اکابر نے دین کے سمجھنے سمجھانے میں جو موقف اپنایا، وہ حرف آخر ہے۔ خود بھی اسی موقف پر کاربند رہے اور ہر سال خاص طور پر دورۂ حدیث کے فضلا کو یہی نصیحت فرماتے رہے کہ ہرلحاظ سے اکابر سے وابستہ رہنا اور تفرد سے دور رہنا۔ خود بھی ساری عمر دین کے مختلف محاذوں پر اکابرکی مکمل ترجمانی فرماتے رہے۔ دنیاوی تعلیم اگرچہ بمشکل پرائمری سطح کی تھی، لیکن تحریر کافی اعلیٰ تھی۔ اردو ادب میں پایہ کافی بلند تھا۔ تحریر اگرچہ عام طو رپر شستہ، سہل اور شگفتگی لیے ہوتی تھی، لیکن کبھی سہل ممتنع کی نوبت بھی آتی اور بعض اوقات مسئلہ کی نزاکت اور مخاطب کے انداز وتیور کے بموجب جارحانہ بھی ہوتی تھی، اگرچہ اس میں بھی مزاحی پہلو نمایاں رہتا تھا۔ بحث کے تمام پہلووں پر قوت استدلال کی وجہ سے مکمل حاوی رہتے تھے اور بعض اوقات استنباط تخریج بعید کی بنا پر ’ہزار نکتہ باریک تر زمو ایں جا است‘ کا نمونہ پیش کرتا تھا۔
قارئین کرام نے مشائخ رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول سنا ہوگا: طرق الوصول الی اللہ تعالیٰ بعدد الانفاس، کہ آنحضرت جل سلطانہ تک پہنچنے کے راستے بے شمار ہیں، لیکن بڑے بڑے راستے تین ہیں:
(۱) راہ اجتباء یعنی براہ راست کمالات نبوت تک پہنچانے والا راستہ جس میں توسط کی ضرورت ہوتی۔ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات اسی راستہ سے واصل بحق ہوتے ہیں۔
(۲) راہ جذب جس میں کمالات ولایت تک وصول براستہ جذب ہوتا ہے۔ تمام محبوب ومراد اولیاے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اسی راستہ سے حسب استعداد واصل بحق ہوتے ہیں۔
۳۔ راہ سلوک جس میں کمالات ولایت تک وصول براستہ سلوک ہوتا ہے۔ تمام عاشق ومرید اولیاے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اسی راستہ سے حسب استعداد واصل بحق ہوتے ہیں۔
لیکن بہت کم قارئین کو معلوم ہوگا کہ ایک چوتھا راستہ سلوک براہ علم بھی ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ متقدمین اکابر میں شائع وذائع تھا، لیکن عرصہ سے غیر متعارف ہو چکا ہے، اگرچہ یہ راستہ بھی کھلا ہے۔ چنانچہ ہمارے والد صاحبؒ بھی اسی راستے سے واصل تھے۔ اس راستے کی شرائط میں سے فنا فی العلم ہونا، علوم شرعیہ کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا اور ہر وقت اسی میں منہمک رہنا، شرع شریف کی مکمل تعظیم کرنا، سلیم الفطرت ہونا، کامل العقل ہونا اور خاص طو رپر کبائر اور فضولیات سے مکمل اجتناب رکھنا۔ چنانچہ ایسا شخص جس میں مندرجہ بالا شرائط پائی جاتی ہوں، اس پر ان علوم شرعیہ کی تعلیم وتعلیم ومطالعہ کے دوران علوم شرعیہ کے انوار اسی طرح موسلادھار بارش کی طرح برستے ہیں جیسے ذاکرین پر ذکر کے انوار۔ ’ونور اللہ لا یعطی لعاص‘ سب نے سنا ہوگا۔ انوار خواہ علم کے ہوں یا ذکر کے، سالک کو ترقی بخشتے ہیں، البتہ ایسے اہل علم جو اگرچہ علوم شرعیہ میں مشغول ہوں لیکن مندرجہ بالا شرائط کے حامل نہ ہوں، ان کو اس اعزاز سے ہاتھ دھو لینا چاہیے۔
بر سر طورِ ہویٰ طنبور شہوت می زنی
عشق مردِ لن ترانی را بدیں خواری مجو
چنانچہ اسی سلوک براستہ علم کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے خواجہ نقشبندؒ کا قول اپنے دور کے عالم حقانی کے بارے میں ہے: ’’(غالباً) مولانا زین الدین تائبادیؒ کا سلوک براستہ علم واقع ہوا ہے۔‘‘ راقم الحروف کہتا ہے کہ اگرچہ انوار علم اور انوار ذکر کے نتائج وثمرات میں بڑا بھاری فرق ہے، لیکن محض انوار علم بھی بشرائط سلوک واجبی کے قطع کے لیے کافی ووافی ہیں۔ اس دور میں سلوک براستہ علم کے لحاظ سے ہمارے والد صاحبؒ ا س لائن کی منفرد شخصیت تھے۔ یقیناًاور حضرات بھی ہوں گے، لیکن مجھ کم نصیب کی نظر سے نہیں گزرے۔ بندہ نے اگر والد صاحبؒ کا سلوب براستہ علم نہ دیکھا ہوتا تو اس راستہ کا عملی نمونہ بندہ کے علم میں نہ ہوتا۔ محض متقدمین اکابر کے بارے میں ایک سنی سنائی بات ہوتی۔ ’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘۔ ایسے اہل علم جو باوجود علوم شرعیہ کی تعلیم وتعلم کے اور وسعت مطالعہ کے علوم سے تاثر پزیر نہ ہوں اور قطع سلوک کی دولت سے بہرہ ور نہ ہوں، شیخ سعدی شیرازیؒ کے صرف ایک ہی مصرعہ نے ان کی حقیقت بخوبی آشکارا کی ہے: ’علمے کہ راہ حق ننماید جہالت است‘۔ یہ راستہ اگرچہ ہر طرح سے بے غبار ہے، لیکن افسوس کہ فی زمانہ غیر مسلوک ہے جس کی بنا پر کالمتروک ہے۔
آنحضرت جل سلطانہ کی خلاقی اور کمال قدرت کا کرشمہ سمجھیے کہ ایک ہی والدین کی اولاد، ایک ہی گھر اور ماحول میں پلنے بڑھنے والے دو بھائی، ایک ہی مدارس اور استادوں سے تعلیم پانے والے دو طالب علم جب کامل ہو جاتے ہیں تو طبعاً ایک دوسرے کے بالکل متضاد بلکہ بعد المشرقین کی صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ فسبحان من جمع بین المشرق والمغرب۔ حضرت صوفی صاحبؒ باجود انتہائی محقق عالم ہونے کے اپنی وضع قطع اور بود وباش میں ٹھیٹھ صوفی تھے۔ عرصہ دراز تک مدرسہ کے گیٹ سے بھی باہر تشریف نہ لے جاتے تھے۔ طبع شریف عضلاتی ہونے کی بنا پر نیز مراقباتی اور مشاہداتی کیفیات میں مستغرق ہونے کی وجہ سے گرد وپیش سے صرف نظر رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ آرام فرما بھی ہوتے تو گرد وپیش میں بچے جتنا شور وشغف بھی کرتے، مطلقاً متاثر نہ ہوتے بلکہ اپنی کیفیا ت میں مستغرق رہتے۔ ۱۹۸۴ء کا واقعہ ہے، گرمی کے موسم کی ابتدا تھی۔ حضرت صوفی صاحبؒ حسب معمول بعد از عشا گھر کے دروازے کے سامنے چارپائی پر بظاہر آرام فرما تھے جبکہ حقیقتاً مشاہداتی کیفیات میں مستغرق۔ بندہ صوفی صاحب کے گھر والوں سمیت تیسری منزل پر خوش گپیوں میں اچھی خاصی آوازوں میں مصروف تھے۔ چھوٹے بچے بھاگ دوڑ میں مشغول، لیکن صوفی صاحب باوجود ہر طرح کے شور کے اپنے مراقبے میں مستغرق تھے۔ دفعتاً کسی قوی وارد یا تجلی کی بنا پر تحمل نہ کر سکنے کی وجہ سے صوفی صاحبؒ نے بڑی خوف ناک آواز سے بآواز بلند بلکہ بہت بلند تین چار بار اللہ اللہ کہا۔ بندہ نے اور صاحبزادہ حاجی فیاض صاحب مہتمم مدرسہ نے پہلے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو دوبارہ ویسی ہی آواز نکالی۔ دفعتاً ہم دونوں نے نیچے کی طرف دوڑ لگائی تو صوفی صاحبؒ کو پسینے میں شرابور پایا۔ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش میں تھے۔ بندہ نے دایاں ہاتھ اور صاحبزادہ صاحب نے بایاں ہاتھ پکڑ کر بٹھایا اور پوچھا کہ کوئی تکلیف ہے؟ بندہ کو اگرچہ تصوف میں داخل ہوئے چند سال ہو چکے تھے اور کسی قدر ان واردات سے واقفیت بھی تھی، دک وفک چونکہ تجلیات کے لوازمات میں سے ہے، خواہ کوئی بڑا ہو یا نسبتاً چھوٹا، سیدنا موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کا کوہ زبیر پر پڑنے والی معمولی تجلی سے بے ہوش ہو جانا نص قطعی سے ثابت ہے۔ ’موسیٰ زہوش رفت بہ یک پرتو صفات‘ تو سب نے سنا ہی ہوگا۔ صوفی صاحبؒ نے جواب میں بڑی صفائی سے معاملے کو راز رکھتے ہوئے فرمایا کہ پانی لاؤ۔ پانی لایا گیا۔ آدھا گلاس پانی پی کر فرمایا کہ چلے جاؤ، میں ٹھیک ہوں۔ بندہ اگرچہ کسی قدر سمجھ تو گیا لیکن صوفی صاحب نے بزبان حال فرماتے ہوئے ہمیں بھیج دیا:
تا نگردی آشنا زیں پردہ بوے نشنوی
گوش نامحرم نباشد جاے پیغام سروش
جبکہ والد صاحبؒ وضع قطع عالمانہ اور رندانہ رکھنے کی بنا پر صوفیانہ نزاکتوں اور اداؤں سے کوسوں دور تھے۔ خورد بینی عینک سے کوئی صوفیانہ ادنیٰ جھلک بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتا تو یکسر ناکام رہتا۔ طبع شریف اعصابی رکھنے کی وجہ سے بیدار مغز اور گرد وپیش سے پوری طرح باخبر رہتے تھے۔ جب آرام فرما ہوتے تو گرد وپیش میں قریب تو کسی شور وشغب کا ذکر تو بڑی دور کی بات ہے، دور کے کمروں میں باوجود دروازوں کے بند ہونے کے معمولی آواز سے بات کرنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ چنانچہ دونوں بھائی اپنی انھی صفات کی بنا پر اکابر علما ومشائخ میں رجحان بھی اپنی ہی جیسی شخصیات کی طرف رکھتے تھے، اگرچہ قدر وادب سب کا ہی کرتے تھے۔ سچ ہے:
ہر گلے را رنگ وبوے دیگر است
والد صاحب کے طرز بیعت کو سمجھنے سے قبل قارئین کرام کو بیعت کی اقسام بتاتا چلوں تاکہ علیٰ وجہ البصیرۃ اس پر روشنی پڑ سکے۔ امت کے علما ومشائخ کے ہاں نیز شرع شریف میں اگرچہ بیعت کی کافی اقسام کا ذکر ملتا ہے، لیکن بیعت کی اقسام پانچ مشہور ہیں۔
(۱) بیعت تبرک: عام طور پر ایسے مسلمان جو ضعیف الاستعداد ہوں، مادیت کی طرف رجحان رکھتے ہوں، ریاضت وروحانیت کے چنداں خواہاں نہ ہوں، لیکن مشائخ سے اعتقاد رکھتے ہوں اور ان کی اور ان کے سلسلے کی برکات سے مستفید ہونا چاہتے ہوں تو ایسے حضرات کو مشائخ بیعت تبرک سے بہرہ ور فرماتے ہیں، چنانچہ وہ مشائخ کی دعاؤں اور توجہات کی برکت سے دین اور اہل دین سے کسی نہ کسی قدر منسلک رہتے ہیں اور اس ضمن میں دعاؤں کی برکت سے بہت سے مادی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح مشائخ اپنے خاص معتقدین کے چھوٹے بچوں کو بھی بیعت تبرک سے نوازتے ہیں تاکہ اطفال مشائخ کے زیر سایہ پروان چڑھیں۔
(۲) بیعت شریعت وارشاد: اس کو بیعت علما بھی کہتے ہیں۔ ایسے علماء کرام جو صاحب علم وتقویٰ ہوں، سمجھ دار عوام کو عموماً اور اپنے اہل علم شاگردوں کو خصوصاً بیعت ارشاد میں داخل فرماتے ہیں جس میں شریعت وسنت کی اتباع اور توحید پر استقامت کا سبق دیا جاتا ہے۔ موقع بموقع اور زندگی کے مختلف موڑوں پر ایسے مریدین کی امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے راہنمائی کی جاتی ہے۔ ایسے مریدین جو سلیم الفطرت اور کامل العقل ہوں، فطرتاً گناہوں سے مجتنب ہوں یا بتقاضاے عقل نفس کی خواہشات کو پامال کر کے شرع شریف کو مدنظر رکھتے ہوں، اس بیعت سے مستفیض ہو سکتے ہیں، ورنہ دوسرے لوگوں کے لیے یہ بیعت بھی عملاً تبرک میں داخل ہے۔
(۳) بیعت طریقت واصلاح: یہی بیعت پیران طریقت کے ہاں عرصہ سے معمول بہا ہے جس میں لطائف عشرہ پر بکثرت ذکر اسم ذات یا نفی اثبات کے مختلف طریقوں اور ضربوں کے ساتھ تصفیہ وتزکیہ کرا کے سالک کی اصلاح کی جاتی ہے اور خصوصاً سالک کی باطنی خامیوں کا ازالہ کرایا جاتا ہے، ان خامیوں کی بجائے خوبیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ تصفیہ وتزکیہ یا تخلیہ وتحلیہ یا فناے رزائل وبقاے خصائل یا ظاہراً وباطناً شرع شریف کے مطابق سالک کی پوری پوری اصلاح کر کے اس کو مومن کامل بنانا اس کے لوازمات میں سے ہے۔ دعاؤں کا بکثرت قبول ہونا، نیک لوگوں کی نظروں میں باوقعت ہونا اور حضرت حق جل مجدہ کا ایسے کی ضروریات اور رزق کا متکفل ہو جانا اس کے آثار میں سے ہے۔ اس کو سیر ملکوت، سیر عالم امر، ولایت ایمانی یا ولایت عامہ بھی کہتے ہیں۔ بیعت کی ان دونوں قسموں کے لوازمات کسبی ہیں اور شرعاً ان کا مکلف ہے۔ ایسا آدمی اگرچہ ظاہری وباطنی پوری پوری اصلاح رکھتا ہے، لیکن مقام فنا فی اللہ سے محروم ہے، اس لیے مشائخ صوفیاؒ کے ہاں ولی نہیں ہے بلکہ مومن کامل ہے۔
فرشتہ گرچہ دارد قرب درگاہ
نگنجد در مقام لی مع اللہ
(۴) بیعت معرفت وبیعت صوفیا: اگر سالک کی روحانی استعداد بہت اونچی ہو تو ایسا سالک بیعت معرفت سے ممتاز ہوتا ہے جس میں سالک کی سیر اگر دائرۂ امکان سے بالا ظلال اسماء وصفات میں شروع ہو جائے اور آنحضرت جل سلطانہ کی تجلیات افعالیہ کا مورد ومہبط بن جائے اور اس تجلی میں سالک کے قلب کو فنا وبقا حاصل ہو جائے اور تمام مخلوقات کو ریموٹ کنٹرول پائے تو سالک صوفیت اور ولایت خاصہ کے ادنیٰ مقام سے مشرف ہو جاتا ہے اور سالک کا علم حصولی بالکل زائل ہو جاتا ہے۔ اسی کو ولایت صغریٰ ، ولایت خاصہ، ولایت ظلی، ولایت عرفانی اور سیر برزخی کہا جاتا ہے۔ مقام محاضرۃ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔۔ سالک کی نطر سے افعال مخلوقات کا ساقط ہو کر مخلوقات کا ریموٹ کنٹرول ہو جانا، رضا بالقضا سے مشرف ہونا، علم حصولی کا زائل ہونا، اور قلب میں باوجود ہزار کوششوں کے ایک سیکنڈ کے لیے بھی غیر اللہ کا گزر نہ ہونا اور قلب کا دنیا کی کسی بڑی سے بڑی خوشی سے خوش نہ ہونا اور بڑے سے بڑے غم سے غمگیں نہ ہونا اس مقام کے لوازمات سے اور کشف قبور، کشف صدور، کشف ارواح، کشف وقائع آئندہ اور کسی قدر کرامات کا ظہور اس کے آثار میں سے ہے۔
محو ہیں اپنی جگہ آسودگان کوے دوست
آرزوئیں دل میں دل آنکھوں میں آنکھیں سوے دوست
اور اگر سالک اس سے بھی اونچی استعداد رکھتا ہو اور مقام صفات تک عروج کر جائے، حضرت حق جل مجدہ کی تجلیات صفاتیہ کا مورد ہو جائے، اس تجلی میں سالک کے نفس کو فنا وبقا حاصل ہو جائے، اس کا علم حضوری بھی زائل ہو جائے، اپنے آپ کو اور مخلوقات کو مظاہر صفات حق پائے اور بروایت بخاری شریف مقام ’بی یسمع وبی یبصر‘ سے مشرف ہو جائے تو صوفیت کے مقام سے مشرف ہو جاتا ہے۔ اسی کو ولایت کبریٰ، ولایت انبیا، ولایت احسانی، ولایت اصلی، سیر جبروت، مقام مکاشفہ اور قرب نوافل کہا جاتا ہے۔ ع
من برنگ یار گشتم یار رنگ من گرفت
ابتداءً ا توحید وجودی اور بالآخر توحید شہودی سے متصف ہونا، نفس کا فنا فی اللہ ہو کر مطمئنہ ہونا نیز علم حضوری کا گم کر دینا اس کے لوازمات سے اور کرامات وتصرفات کا پے در پے صدور اس کے آثار سے ہے۔ اکابر اولیاے امت کا مقام ہے۔
نہ من تنہا دریں مے خانہ ہستم
غزالی، رومی وعطار ہم مست
لگے ہاتھوں یہ غلط فہمی بھی دور کرتا چلوں کہ اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ معرفت دقیق علمی باتوں اور موشگافیوں کا نام ہے۔ حاشا وکلا ثم حاشا وکلا۔ معرفت مشائخ صوفیا کے ہاں فنا فی اللہ سے عبارت ہے اور بس۔ اگرچہ اس فنا کے بعد بہت سے اسرار پر مطلع ہو کر اظہار دقائق واسرار لوازمات سے ہے۔ اسی کو بیعت صوفیاء بھی کہا جاتا ہے اور مشائخ صوفیاء کے ہاں بیعت کا مقصد کم از کم انھی دونوں ولایتوں کا حاصل کرنا ہوتا تھا، کیونکہ شریعت کی روح اخلاص کا حصول عالم اسباب میں اسی معرفت پر وابستہ ہے۔ ولایت ظلی سے مشرف ہونے کے بعد سالک مخلص (بکسر اللام) اور ولایت اصلی سے مشرف ہونے پر مخلص (بفتح اللام) ہو جاتا ہے اور مناصب صوفیاء ابدال، نجباء، نقباء، غوث، قطب وفرد وغیرہ کا مدار بھی اسی معرفت پر ہے، نہ کہ عوام الناس کی طرح ہر راہ گیر کو ان مناصب پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
خدا زاں خرقہ بیزار است صد بار
کہ صد بت باشدش در آستینے
(۵) بیعت حقیقت: اسی کو بیعت انبیاء علیہم السلام بھی کہا جاتا ہے۔ اگر سالک مقامات قرب کی پوری پوری استعداد رکھتا ہو جیسے انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات میں ہوتی ہے یا ان کے اکابر اصحاب میں ہوتی ہے یا امت کے چند گنے چنے اکابر میں ہوتی ہے، وہ اس مقام سے ممتاز ہوتے ہیں جس میں تجلی ذاتی دائمی سے سالک بہرہ ور ہو جاتا ہے، لطائف ستہ کی فنا وبقا کے ساتھ ستھ عناصر اربعہ کے تزکیہ واعتدال سے بھی حظ وافر حاصل کر لیتا ہے اور آنحضرت جل سلطانہ کا پورا پورا معتمد ہو جاتا ہے اور انتہائی آخری قرب حق حاصل کر لیتا ہے۔ کمالات ثلاثہ، حقائق انبیا وحقائق الٰہیہ سے متحقق ہو جانا، حقائق شرع سے متحقق ہونے کی بنا پر شرع کے بدیہی الیقین ہونے کا شرح صدر ہو جانا، براہ راست حضرت حق جل مجدہ سے مستفیض ہونا، مقام عبدیت سے مشرف ہونے کی بنا پر ہمہ تین بندہ بن کر رہنا اس کے لوازمات میں سے ہے۔ مقام مشاہدہ ومعاینہ وقرب فرائض وسیر لاہوت اسی کو کہتے ہیں۔ شرع شریف کے تمام پہلووں شریعت، طریقت، معرفت، حقیقت، سیاست کا علمی وعملی طو رپر جامع ہونا، ترویج شریعت میں علماً واصلاحاً وجہاداً ہمہ تن کوشاں رہنا، رائج الوقت باطل سیاسی نظام کا اس کی کوشش سے مکمل درہم برہم ہو جانا، شرعی سیاسی نظام کا رائج ہو جانا، اس کے ہشت پہلو اصلاحی آثار کا دیرپا اور ہمہ گیر ہونا، وجود کا نفس الامری جنتی ہو جانا اور کاتب شمال کو نہ پانا، غرضیکہ ’آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری‘ کا مکمل مصداق ہو جانا اس کے آثار میں سے ہے۔ معرفت وحقیقت کے تمام مقام وہبی ہیں۔
لبت شکر بمستاں داد وچشمت مے بمے خواراں
منم کز غایت حرماں نہ با آنم نہ با اینم
بیعت کی ان تمہیدی اقسام کے بعد عرض ہے کہ والد محترمؒ امام الموحدین، راس المفسرین، شیخ المشائخ حضرت مولانا حسین علیؒ سے بیعت ومستفیض تھے جو کہ براہ راست خواجہ عثمان دامانیؒ کے خلیفہ اجل تھے۔ خواجہ عثمانی دامانیؒ کے دست مبارک سے تحریر فرمودہ خلافت نامہ جو مولانا حسین علیؒ کو بوقت خلافت عنایت فرمایا، راقم الحروف کو خود دیکھنے کی سعادت حاصل ہے جو کہ سوا سو سال پہلے کا تحریر فرمودہ ہے۔ جیسا کہ بندہ نے قبل ازیں عرض کی، والد صاب کا سلوک براستہ علم طے شدہ تھا۔ سلوک متعارف سے بالکل طبعی مناسبت نہ تھی۔ فنا فی العلم ہونے کی بنا پر شریعت وارشاد پر اکتفا فرماتے تھے۔ استقامت علی التوحید، اتباع شریعت وسنت کے سبق کے ساتھ تبلیغی اوراد ثلاثہ کی اجازت مرحمت فرماتے تھے۔ اصلاح لطائف بطریقہ معروفہ، ذکر اسم ذات، نفی اثبات مروج یا اسباق سلوک متعارف کی طرف قطعاً رجحان نہ تھا۔ بیعت شریعت اور باقی تینوں بیعتوں کے لوازم وآثار میں فرق ذکر ہو چکا ہے جن کو یہاں دہرانا فضولیات میں داخل ہوگا۔ ع
ذوق ایں مے نشناسی بخدا تا نہ چشی
من نیز حاضر بودم
چوں رفت او سوے بقا
راقم الحروف پر حضرت حق جل مجدہ کی خصوصی عنایت یہ ہوئی کہ حضرات شیخین رحمہما اللہ تعالیٰ کی وفات کے وقت بندہ گھر میں تھا۔ حضرت صوفی صاحبؒ کی وفات سے دو روز قبل بندہ والد صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ چنانچہ عین وفات کے دن بندہ اکیلا ہی والد صاحبؒ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ والد صاحبؒ کی خاص خادمہ ہماری بھانجی باہر سے آئی اور میرے کان میں آہستہ سے کہا کہ صوفی صاحبؒ وفات پا گئے ہیں، ابا جی کو بتانا ہے یا نہیں؟ والد صاحبؒ نے اس کو میرے کان میں بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، لیکن خاموش رہے۔ بھانجی جلدی سے واپس چلی گئی۔ برادرم قاری راشد صاحب سلمہ ربہ آپہنچے اور میری طرف دیکھتے ہوئے اشارہ سے لائحہ عمل پوچھا تو ہم نے حسب روایت دنیا تمہیدی طور پر صوفی صاحبؒ کی حالت کی نزاکت کا ذکر کیا۔ والد صاحبؒ نے دعا کے انداز میں دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے فرمایا، اللہ خیر کرے۔ چند منٹ کے توقف سے وفات کی خبر ناگزیر ہونے کی بنا پر بتانا پڑا کہ صوفی صاحب وفات پا گئے ہیں تو خاص لہجے میں حسب عادت فرمایا کہ صوفی؟ عرض کی جی ہاں تو تین بار بآواز بلند ترجیع فرمائی۔ والد صاحب کو جنازے پر لے جانے کے لیے بندہ نے اپنی گاڑی پیش کی اور خود بندہ کسی اور ذریعے سے حاضر ہوا۔ آنحضرت جل سلطانہ غریق رحمت فرمائیں، حضرت صوفی صاحبؒ ایک جامع الصفات شخصیت تھے اور کافی وجوہ سے اپنے اقران میں ممتاز تھے، خاص کر تصوف کو علمی طو رپر سمجھنے اور تصوف کی تصنیفی خدمات کے حوالے سے ازبس منفرد تھے۔
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
اسی طرح والدصاحبؒ کی وفات سے دو تین روز قبل حضرت حق جل مجدہ نے مجھ کم نصیب کو پہنچایا۔ حیات مبارکہ کے آخری تین سالوں میں بندہ جب حاضر ہوتا، والد صاحبؒ کا ہاتھ سلام لیتے وقت پکڑ کر ضرور چومتے اور بوقت رخصت ہاتھ دیر تک تھامے رکھتے اور ٹکٹکی باندھ کر چہرہ کو دیکھتے رہتے جس سے آخری ملاقات کا خدشہ ذہن پر چھا جاتا۔ والد صاحبؒ نے بایں علم وفضل آخر عمر میں ایک لمبا عرصہ بیماری کی وجہ سے چارپائی پر گزارا۔ اس کے پیچھے کیا تشریعی وتکوینی راز تھے، آنحضرت جل سلطانہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ کاش کہ حضرت حق مجھے اپنے معاملات کے اسباب اور رازوں کا علم بخشیں۔
ہر کس نشناسندۂ راز ست وگرنہ
ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم عوام است!
ان آخری دو دنوں میں بندہ نے دو حوالوں سے والد صاحبؒ سے تفصیلی گفتگو بار بار کی۔ ڈاکٹر مکوسی کے فلسفہ صحت کے مطابق بندہ نے عرض کی کہ جسمانی صحت کے لیے ذہنی صحت اور دماغ کا فریش ہونا ضروری ہے۔ اچھا بھلا صحت مند آدمی بھی ایک کمرے یں چند دن پڑا رہنے سے بیمار ہو جاتا ہے، چہ جائیکہ پہلے سے بیمار ہو۔ اس لیے آپ براے مہربانی صبح شام کرسی پر کم از کم تھوڑی دیر کے لیے گھر کے صحن میں اور موسم خاطر خواہ ہونے پر گلی اور قریبی ہمسایوں کے پارک میں تشریف لے جایا کریں اور مہینہ میں ایک بار کسی دوسرے شہر بھی سیر وتفریح کے لیے تشریف لے جایا کریں۔ آپ کے ساتھ ساتھ خدام کا ذہن بھی فریش رہے گا۔ بندہ کے اصرار پر رضامندی ظاہر فرمائی کہ ٹھیک ہے ، ایسا ہی کروں گا۔ ساتھ ہی بندہ نے عرض کی کہ عرصہ دراز سے آپ انگریزی علاج کرا رہے ہیں، نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ صر ف چند دن کے لیے یونانی علاج کرا کے دیکھیں۔ چنانچہ رضامندی ظاہر فرمانے پر کراچی والے حکیم صاحب کی دوائی کمرے میں پہنچانے کا ذکر بندہ کر چکا ہے، اور ساتھ ہی اعصابی اشیا سے پرہیز کا بندہ نے عندیہ دیا۔ اس کے برعکس عضلاتی وغدی انڈا شہد وغیرہ استعمال کرنے کی عرض کی، چنانچہ پرہیز شروع فرما دی۔ دوسرے دن بندہ ابھی آرام کر رہا تھا کہ بھانجی آئی اور کہا کہ ابا جان کہہ رہے ہیں، تمہار ے کہنے پر انڈا استعمال کرنے لگا ہوں، لیکن اس سے قبض ہو جاتی ہے، کھاؤں یا نہ کھاؤں؟ بندہ نے عرض کی کہ ایک وقت انڈا اور دوسرے وقت شہد کا استعمال فرمائیں۔ شہد قبض کشا ہے، ان شاء اللہ دونوں ٹھیک رہیں گے۔
بوقت حاضری اپنی صحت کے بارے میں مجھ کم نصیب سے ضرور رائے لیتے۔ اس دفعہ صاف الفاظ میں دونوں دن فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں دو بارہ کبھی اٹھ کر چل پھر سکوں گا؟ یہ سن کر بندہ کا دل بھر آیا۔ عرض کی کہ مولا پاک آپ کو صحت دیں، حکیم صاحب کی دوائی صرف ایک ماہ پابندی سے استعمال فرما لیں، ان شاء اللہ ضرور چلنا پھرنا ہوگا۔ دوسرے دن بھانجی کو بھیج کر بلایا اور فرمایا کہ تمہارا کیا پروگرام ہے؟ بندہ نے عرض کی کہ فی الحال ادھر ہی ہوں۔ ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ بہتر ہے۔
آخری رات پورے بارہ بجے کے قریب بندہ بستر پر لیٹا ہی تھا، غالباً ابھی آنکھ بھی نہیں لگی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ بندہ نے پوچھا کہ کون ہے، کیا بات ہے؟ بھانجی بولی کہ ابا جی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، جبکہ دو دن سے بندہ کی موجودگی میں کوئی تشویش ناک بات نہیں تھی۔ چنانچہ بندہ فوراً کمرے میں پہنچا۔ ہمشیرہ اپنی بچی سمیت، عزیزم شاہد وراشد اپنی اپنی اہلیہ سمیت موجود تھے۔ والد صاحبؒ خون کی قے کسی قدر کر چکے تھے اور متلی جاری تھی۔ بندہ نے نبض دیکھی، جسم مبارک کافی زیادہ ٹھنڈا ہو رہا تھا، چنانچہ سب نے ہاتھ پاؤں کی مالش شروع کی۔ دایاں دست مبارک مجھ کم نصیب کے ہاتھ میں تھا اور مکمل خاموش تھے۔ خیال ہوا کہ شاید بلڈ لو ہونے کی وجہ سے جسم ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ نیم گرم پانی میں شہد حل کر کے پلانے کی کوشش کی لیکن دہن مبارک نے قبول نہ کیا۔ بلڈ چیک کیا، وہ بھی تقریباً درست تھا۔ گکھڑ کے چند ڈاکٹروں سے فون پر اور گھر کے دروازوں پر دستک دے کر رابطہ کی کوشش کی، لیکن ہر طرف سے سعی لاحاصل ثابت ہوئی۔
اسی اثنا میں چند لمحوں کے لیے محسوس ہوا کہ صحت بحال ہونی شروع ہوئی ہے، چنانچہ دوبارہ لٹا دیا گیا۔ مکمل خاموش رہنے کے باوجود آنکھیں وقفوں سے کھولتے اور بند فرماتے رہے۔ لٹا دینے پر آنکھیں دو تین بار چھت کی طرف لگائے رکھیں، پھر بند فرما لیں۔ عزیزم راشد خادم خاص ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کے فون پر بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن بے سود۔ پھر خادم خاص حاجی لقمان صاحب کا فون ملا اور چند منٹ تک ڈاکٹر صاحب کو لے کر پہنچنے کی اطلاع دی۔ اسی دوران مکمل بے حسی کے عالم میں والد صاحب نے دایاں ہاتھ کافی تیزی اور پھرتی سے للکارنے کے انداز میں اٹھایا اور تین چار بار بآواز بلند کوئی لفظ بولا جو کہ فالج کی وجہ سے بخوبی سمجھ نہ آ سکا۔ حاضرین نے سمجھا کہ شاید ہمشیرہ کو یا بھانجی کو آواز دی ہے، لیکن ظن غالب ہے کہ بازو کے اٹھانے کے ساتھ لفظ اللہ چند بار کہا۔ اسی آواز کی وجہ سے ہم نے سمجھا کہ صحت کسی قدر ہوش کی طرف آ رہی ہے۔ دوبارہ تکیہ لگا کر بٹھا دیا اور نبض ہاتھوں میں رہی۔ ایک دو بار اسی دوران آنکھیں عجیب انداز میں کھولیں اور پھر بند فرما لیں۔ تکلیف کے بارے میں پوچھا۔ اس کے جواب میں بھی معمولی الفاظ سے بولے۔ آنحضرت جل سلطانہ نے اپنی ارحم الراحمینی کا مظاہرہ فرمایا کہ اس تمام عمل میں کسی قسم کی جزع فزع، بے چینی، تکلیف کا اظہار والد صاحبؒ نے نہیں فرمایا۔ مکمل خاموشی اور چند بار قے کے بعد متلی کا احساس ہوا۔ چنانچہ اسی تکیے کی ٹیک کے دوران سانس چند منٹ آہستہ آہستہ آتے رہے، پھر ایک آدھ منٹ سانس کسی قدر معمولی تیز ہوئے اور پھر ہچکی کے ساتھ آخری سانس لیا اور جان شہنشاہ مطلق کے حوالے فرما دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
بھائیوں میں سے بڑا اس وقت یہ کم نصیب ہی پاس تھا۔ اس آخری سانس کے انداز سے سب حرکت میں آ گئے اور دوبارہ لٹا دیا گیا۔ بندہ نے نبض دیکھی تو بالکل ساقط ہو چکی تھی۔ عزیزم شاہد وراشد نے اسٹیتھو اسکوپ سے باری باری چیک کیا، لیکن بے سود۔ اتنی دیر تک مقامی ڈاکٹر صاحب پہنچے۔ انھوں نے بھی حرکت قلب اور نبض چیک کی اور پھر مصنوعی تنفس جاری کرنے کی کوشش کی، پھر سعی بے سود کے بعد غم کے عالم میں ایک طرف ہو گئے، لیکن زبان کچھ کہنے کے لیے ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ مجبوراً سر سے سہارا لیتے ہوئے نفی میں سر ہلا دیا۔ اسی دوران خدام خاص ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب مع حاجی لقمان صاحب تشریف لے آئے۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی اترے ہوئے چہروں سے صورت حال کی نزاکت کو بھانپ گئے۔ آتے ہی نبض چیک کی۔ اسٹیتھو اسکوپ سے حرکت قلب معلوم کرنے کی کوشش کی، لیکن ’حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد‘ کی بنا پر تقریباً لڑکھڑاتے ہوئے ایک طرف ہو گئے۔ جو ڈاکٹر صاحب روزانہ معالج خاص ہونے کی بنا پر والد صاحبؒ کی ڈھارس بندھانے کی خاطر تشریف لایا کرتے تھے، آج بڑی بے بسی کے ساتھ حزن وغم کی تصویر بنے خود کھڑا ہونے کے لیے کسی سہارے کی تلاش میں تھے۔ بصد کوشش زبان سے کچھ نہ کہہ سکے، بلکہ بچشم تر بزبان حال
دریں آشوب غم عذرم بنہ گر نالہ زن گریم
جہانے را جگر خوں شد ہمیں تنہا نہ من گریم
کہتے ہوئے وفات کی تصدیق کر دی۔ سب پر سکتہ طاری تھا۔ بشدت غم کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہ نکل رہا تھا، جبکہ والد صاحب بظاہر خاموش ، بباطن بہزار اکرام واعزاز حظیرۃ القدس کی حدیں چھو رہے تھے۔ مستورات جو ڈاکٹرز کی آمد کی بنا پر کمرے سے نکال دی گئی تھیں، اگرچہ بصورت ہچکی آخری سانس دیکھ چکی تھیں، لیکن حتمی رپورٹ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اندر آنے کے لیے رسے تڑا رہی تھیں۔ بصد کوشش روکی گئیں۔ چند منٹ اسی سکتے اور خاموشی کے عالم میں سب ہی بحالت غم کھڑے رہے۔ بندہ نے خاموشی توڑتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو دوبارہ چیک کرنے کی عرض کی۔ دوبارہ چیک کرنے پر ڈاکٹر صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے پاؤں مبارک کو بوسہ دیا اور جسم مبارک کو سیدھا کرتے ہوئے دہن مبارک اور آنکھیں بند کر کے وفات پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ باندھنے کی اشیاے ضرورت لینے باہر تشریف لے گئے۔ تمام اہل خانہ فوراً واپس پہنچ آئے اور ماحول یک دم ’از نالہ بر گلستاں آشوب محشر آور‘ کا نمونہ بننا ناگزیر تھا۔
آناً فاناً خبر اطراف واکناف میں پھیل گئی۔ ابھی ہم بھائی جسد مبارک پر چادر ڈال ہی رہے تھے کہ خلق خدا تانتا باندھے پہنچنا شروع ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک نوبت جا پہنچی اور ازدحام کثیر گکھڑ کی تنگ دامنی کا گلہ کرنے لگی۔ زمین تو زمین، آسمان نے بھی یہ منظر عرصے بعد دیکھا ہوگا۔ پھر بوقت جنازہ کثرت خلق کی بنا پر میلوں تک ٹریفک کا جام ہو جانا اور کثیر خلق کا جنازہ گاہ تک نہ پہنچ سکنا تقریباً سب قارئین کے سامنے ہے جس کے کہنے کی ضرورت نہیں۔
آخر کو گل صرفِ در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
زندگی میں بارہا خصوصاً بچپن میں مقام لحد سے بارہا گزرنا ہوا، لیکن کبھی وہم وگمان میں بھی نہ گزرا تھا کہ یہ خطہ ارض اتنا عظیم الشان بابرکت ہوگا کہ کسی وقت خزانہ علم وفضل کو اپنی آغوش میں لیے رشک جناں ہوگا۔ واقعی گکھڑ کی زمین کو عموماً اور شرقی قبرستان کو خصوصاً اور خاص مقام لحد کو اخصاً بہت بڑی بھاری فضیلت وفخر حاصل ہے کہ خصوصی عنایات خداوندی وانوار وبرکات کا مہبط ومورد بننے کا شرف دائمی حاصل کر سکی۔ وکفی بہ فخرا
فیہ السماحۃ والفصاحۃ والتقی
والعلم اجمع والحجی والخیر
اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ آنحضرت جل سلطانہ والد صاحبؒ کے ساتھ ان کے شایان شان سلوک فرمائیں اور ہم پس ماندوں کو ان کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے ان کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہونے کی توفیق بخشیں۔ بر کریماں کارہا دشوار نیست۔ آخر میں خدام وخواص عزیزم راشد سلمہ ربہ، ان کی اہلیہ، ہمشیرہ او ربھانجی اور دیگر خدام بھائی اور اہل خانہ، نیز ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب، حاجی لقمان صاحب، مولانا نواز بلوچ صاحب کو اخصاً اور تمام اہل خدمت جنھوں نے دامے درمے قدمے سخنے یا کسی بھی رنگ میں والد صاحب کی خدمت فرمائی، حضرت حق جل مجدہ دنیا وآخرت کی ہر طرح کی خوش حالیوں سے نوازیں، اپنی عنایات وبرکات کے دروازے ان پر ہمیشہ کے لیے کھلے رکھیں اور ہر طرح کی آفات سے ہمیشہ بچائے رکھیں۔ آمین یا رب العالمین والحمد للہ رب العالمین۔