امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں

مولانا عبد الحق خان بشیر

یہ ایک مسلمہ اور بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی مسئلہ کی تحقیق اور ریسرچ کے لیے ٹھوس اور پختہ اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناپختہ اور کمزور اصولو ں کی بنیاد پر کی جانے والی ہر تحقیق ناپائیدار ہو گی۔ اس اعتبارسے تحقیق وریسرچ کے لیے سب سے پہلے اصولوں کا تعین ضروری اور ناگزیر ہے، کیونکہ یہ ایک یقینی اور ناقابل تردید امر ہے کہ ٹھوس اور پختہ اصول ہی بے راہ روی سے بچا سکتے ہیں اور وہی اصول محفوظ ومضبوط فکر کی طرف صحیح راہنمائی کر سکتے ہیں۔

امت مسلمہ میں تحقیق کے لیے اصول متعین کرنے کے عام طور پر دو طرز متعارف ہیں۔ پہلایہ کہ تحقیق کرنے والا اپنے لیے اصول تحقیق خود ہی وضع کرے اور انہی خود ساختہ اصولوں کی بنیاد پر اپنی تحقیقی عمارت استوار کر ڈالے۔ ہر دور کے جد ت پسندوں کا عموماً یہی طرز رہا ہے جس کی وجہ سے ان کی اکثر وبیشتر تحقیقات قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں اور تاریخ کے اوراق میں صرف ان کا تذکرہ ہی ملتا ہے۔ اس کے برعکس اصول تحقیق متعین کرنے کا دوسرا متعارف طرز یہ ہے کہ تحقیق کرنے والا اپنے معتمد اہل تحقیق اکابر کے فراہم کردہ تحقیقی اصولوں پر ہی اعتماد وانحصار کرے اور انہی اصولوں کی بنیاد پر اپنے تحقیقی قلعے تعمیرکرے۔ ہر دور کے قدامت پسندوں نے ہمیشہ اسی طرز کو اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کی تحقیقات کا رزلٹ اور نتیجہ ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ سامنے آتا رہا اور آج بھی الحمدللہ محفوظ ہے۔ 

امام اہل سنتؒ کا طرز تحقیق

ہمارے شیخ مکرم امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفرا زخان صفدر ؒ نے اپنے تقریباً ساٹھ سالہ علمی وتحقیقی دور میں جس قدر مسائل میں بھی تحقیق فرمائی اور تقریری او ر تحریری طو رپر ان مسائل کا اعلا ن واظہار فرمایا، انہوں نے ہمیشہ دوسرے طرز تحقیق کوہی اختیار کیا اور دوسروں کے لیے بھی اسی کو پسند کیا۔ اسی کی تعلیم دی،اسی کی ترغیب د ی اور تاحیات اسی پر ثابت قدم رہے۔ 

تحقیق وریسرچ کے حوالہ سے حضرت شیخؒ کے ساتھ بحمداللہ تعالیٰ جو خصوصی قرب مجھے حاصل رہا ،خاندان صفدریہ کے کسی اور فرد کوشاید وہ قرب حاصل نہ ہو۔ متعدد کتب کے مسودات کی تصحیح، حوالہ جات کی تلاش میں معاونت اور مختلف فرق باطلہ کی کتب کی فراہمی کے علاوہ اکثر وبیشتر ان سے فکری اور اعتقادی سوالات کرنے کی عادت نے اس فکری قرب کو بڑے مضبوط بندھنوں میں جکڑ رکھاتھا۔ ان گنت بار مختلف اعتقادی ونظریاتی مسائل کی تحقیق، قدیم وجدید مذہب باطلہ کے بارے میں معلومات اور اسلاف امت کی تحقیقات سے متعلق سوالات اور ان کے معقول ومدلل جوابات نے اہل السنت والجماعت کے اصول وعقائد کے بار ے میں میرے اندر غیر متزلزل ذہنی پختگی پیدا کردی۔ حضرت شیخؒ کوبھی میری تمام ترعلمی وعملی کمزوریوں، کوتاہیوں اور میرے طبعی لاابالی پن کے باوجود میری فکری واعتقادی پختگی کا پورا ادراک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علالت ونقاہت کے ایام میں ان کے پاس عقائد ونظریات پر مشتمل جو کتاب بھی تقریظ وتصدیق کے لیے آتی، وہ میرے پاس ارسال فرما دیتے۔ حضرت شیخ ؒ کے حکم پر حضرت شیخؒ کی جانب سے میں نے بحمداللہ تعالیٰ نصف درجن سے زائد کتب پر تقاریظ لکھیں جو انہوں نے مکمل سماعت فرما کر ان پر اپنے دستخط ثبت فرمائے۔ خدا تعالیٰ مجھے او ر حضرت شیخؒ کے دیگر متعلقین ومتوسلین کو حضرت شیخؒ کے علمی وتحقیقی فکرو فلسفہ پر تاحیات قائم وثابت رہنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ 

حضرت شیخ ؒ کا اسلافؒ پر اعتماد اور جدید فتنوں سے نفرت

حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کو اپنے اسلاف پر کس قدر اعتماد تھا اور جدید و قدیم فتنوں سے کس قدر نفرت ان کے دل میں تھی، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے ایمان و یقین کی روشنی اور عقل و شعور کے نور سے ان کے بیانات کو سنا اور ان کی تحریرات کو پڑھا ہے۔ ان گنت لوگوں کے سامنے بے شمار دفعہ انہوں نے فرمایا کہ:

’’انسان جب اپنے علم و فہم اور عقل و دانش پر ہی مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اپنے خود ساختہ اور خود تراشیدہ اصولوں کی بنیاد پر اور اپنے ذہن میں مخصوص و متعین کیے ہوئے دلائل کی روشنی میں تحقیق کرتا ہے تو اس کے اندر تکبر و انا نیت اور شہرت و خود پسندی کا خناس پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جو اسے نہ صرف اکابر و اسلاف کے فکر و فلسفہ سے دور لے جاتا ہے، بلکہ اکثر اوقات اسے الحاد و زندقہ کی پستیوں میں دھکیل دیتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی جدت پسندانہ تحقیقات ایک نئے مکتب فکر اور جدید فرقہ کو جنم دیتی ہیں اور وہ اپنے پرستاروں، عقیدت مندوں اور حواریو ں سمیت ضلالت و گمراہی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے جہاں سے اس کی انانیت، خود رائی اور شہرت پسندی اس کی واپسی کے راستے اکثر و بیشتر بند کر دیا کرتی ہے۔

اس کے برعکس اکابرو اسلاف کے فراہم کردہ متواتر و متوارث اصولوں کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیقات سے انسان کے اندر نہ صرف عجز و انکساری اور تواضع پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس کے ذریعہ اسلاف کی متواترو متوارث فکر سے علمی و روحانی نسبت و وابستگی بھی قائم رہتی ہے۔ اس تحقیق کے اندر رو حانیت کا نور بھی پیدا ہوتا ہے اور قدرت کی طرف سے اس کے لیے خصوصی نصرت و حفاظت کا غیبی انتظام بھی کار فرما ہوتا ہے جو ان گنت لوگوں کی ہدایت و راستی کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور بے شمار افراد کو گمراہی و بے راہ روی سے بچانے کا سبب بھی۔‘‘

حضرت شیخ ؒ نے اپنے اسی فکرو فلسفہ کو زندہ رکھا اور اسی کو پروان چڑھایا، تقریری طور پر بھی اورتحریری انداز میں بھی ۔ چنانچہ ایک مقام پر وہ عصر حاضر کی جدت پسندانہ ذہنیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: 

’’انسان کی فطرت کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ وہ ہر طرح سے آزاد رہنے کو پسند کرتا اور قید و بند کی زندگی کو اپنی خواہشات اور اہوا کے پورا کرنے میں مزاحم پاتا ہے۔ وہ ہر ایسی زندگی کی طرف لپک کر آگے بڑھتا ہے جو اس کو ہر قسم کی جسمانی و رو حانی اور عقلی و ذہنی آزادی کا پروانہ دیتی ہو اور ہر اس زندگی کے تسلیم کرنے میں تامل اور پس و پیش کرتا ہے جو اس کو ایک خاص دائرۂ عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات میں مقید کر دینا چاہتی ہو۔ اس عمومی فطرت کے ساتھ ان وساوس و خطرات اور شکوک و شبہات کو بھی اگر ملا لیا جائے جو ہر وقت عدو مبین، ابلیس لعین القا کرتا رہتا ہے تو بدی کی گاڑی اور تیز ہو جاتی ہے۔ اور اس نام نہاد دورتہذیب و تمدن میں عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات سے جو کھلی چھٹی ملی ہے، اس کی مثال قرون اولیٰ میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی .... . اور منکرین حدیث بھی اکثر حالات میں حدیث سے محض اس لیے انکار کرتے ہیں کہ وہ ان کے نفس کی آسودگی کے لیے ذرا بھی گنجایش نہیں چھوڑتی۔ یہ تو ان کے ضمیر، سیرت، کردار، اخلاق، نفس اور پوری زندگی کے لیے سخت آزمایش ہے۔یہ گویا ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر ہے اور یہا ں ہی سے آپ کو حق و باطل کی کش مکش اور اسلام و جاہلیت کی مستقل آویزش و پیکار نظر آجائے گی اور اللہ والے صرف یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کے خزاں رسیدہ چمن میں پھر سے بہار آ جائے۔‘‘ (صرف ایک اسلام ص:۲۱،۲۲) 

حضرت شیخ ؒ نے ماڈرن اسلام کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرنے والے جدت پسند طبقات کی پوری ذہنیت اور مکمل نفسیات انسانی فطرت کے تقاضوں کی روشنی میں بیان کر دی ہے اور ان کے ساتھ قدامت پسندوں کی محاذ آرائی کے اسباب بھی بیان کر دیے ہیں۔ جدت پسند طبقات دین و اسلام کا نیانقشہ اپنی نفسیات کے مطابق تیار کرنا چاہتے ہیں جبکہ قدامت پسند طبقہ فکرو عمل کے حوالہ سے قرون اولیٰ سے ہی وابستہ رہنا چاہتا ہے اور عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو اسی سے وابستہ رکھنا چاہتاہے، کیونکہ وہ اپنی دینی و ایمانی حکمت و بصیرت کے ذریعہ دینی و فکری آزادی کا ہولناک انجام اور عبرتناک تباہی بخوبی دیکھ رہاہے ۔

اصحاب علم و تحقیق حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ کے مذکورہ فرامین کی اہمیت و واقعیت اور اس کے استدلالی وزن سے بخوبی واقف و آگاہ ہوں گے اور خود حضرت شیخ کی تحقیقات و تصنیفات سے اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہو جاتا ہے کہ ان کے تحقیقی قلم کے پیچھے اگر دست قدرت کی خصوصی نصرت و حفاظت کار فرما نہ ہوتی اور رحمت الٰہیہ ان کے شامل حال نہ ہوتی تو نہ اسے علمی و عوامی حلقوں میں اتنی مقبولیت و پذیرائی حاصل ہوتی، نہ وہ لاکھوں افراد کی ہدایت کا ذریعہ بن پاتا، اور نہ وہ اکابر و اسلاف کی بے پناہ تائید و اعتماد کا مستحق قرار پاتا۔ گویا ؂

بوے گل، جان چمن، روح بہاراں ہم ہیں 

کوئی کیا کہہ کے نکالے گا گلستاں سے ہمیں 

صفدری فرقہ یا دیوبندی مکتبہ فکر؟

میں بسااوقات سوچتا ہوں کہ اگرحضرت شیخؒ کے علم وتحقیق اور زبان وقلم پر رحمت الہٰیہ کی حفاظت کاخصوصی سائبان نہ ہوتا تو بہت حد تک ممکن تھاکہ وہ اپنی خداداد ذہانت، بے پناہ قوت حافظہ، تقریر وتحریر کی ادیبانہ وعالمانہ خوبیوں، تحقیق وتدریس کے بے مثال فنی کمالات اور قابل رشک وسعت مطالعہ کی بنا پر آزادی فکر کی گمراہ کن تاریکیوں میں کھو جاتے، اور ان کی نسبت سے ایک نیا مکتب فکر اور جدید مذہبی فرقہ معرض وجود میں آ چکا ہوتا۔ آخر وہ کون سی علمی خوبی تھی جس سے پر ویز وچکڑالوی بہر ہ مند تھے او ر شیخ صفدر محروم تھے؟ وہ کون سا فنی کمال تھا جو مودودی وغامدی کے حصہ میں آیا اور شیخ صفدر کو نہ مل سکا؟ وہ کون سی ادبی قابلیت تھی جس سے مشرقی ونیچری فیض یاب ہوئے اور شیخ صفدرؒ کے لیے وہ شجر ممنوعہ تھی؟ لیکن وہ کیا وجہ بن گئی کہ پرویزی، چکڑالوی، خاکساری، نیچیری، مودودی اور غامدی فرقے تو معرض وجودمیں آگئے لیکن صفدری فرقہ کاکہیں نام ونشان نہیں ملتا؟ حالانکہ علم وتحقیق سے وابستگی اور لگاؤ رکھنے والے اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ قرآنی وحدیثی علوم کے کسی پہلو سے بھی مذکورہ اہل فکر کا شیخ صفدرؒ سے کوئی جوڑ نہیں اور ندی نالوں کی سمندر سے مناسبت ہو بھی کیا سکتی ہے؟

میں نے اس پہلو پربھی بہت سوچا، بہت غور کیا اور مکمل غور وفکر کے بعدایک ہی نتیجہ سامنے آیا کہ باقی تمام مفکرین نے اپنے خود ساختہ اصول بنائے یا ماضی کے گمراہ فرقوں کے اصولوں کومنہ مارا، لیکن شیخ صفدرؒ نے اکابرین اہل سنت اور اسلاف دیوبند کے اصول وفکر اور عقائد ونظریات سے اپنی غیر متزلزل وابستگی قائم رکھی جس کے نتیجے میں وہ اپنی تمام تر علمی وفنی خوبیوں کے باوجود کسی جدید مکتب فکر کے بانی وموجد بننے کی بجائے فکر اسلاف کے امین وترجمان قرار پائے اور واقعی انسان کے لیے کسی نئی فکری تحریک کا بانی وسربراہ بننے کے بجائے اسلاف کی فکری تحریک کا وکیل وامین بننے میں ہی سعادت ہے۔ شیخ صفدرؒ اصول اہل سنت کے ترجمان او ر فکر دیوبند کے امین تھے۔

’’امام اہل سنت‘‘ کا خطاب 

حضرت شیخؒ کی فکراسلاف سے اسی غیر متزلزل وابستگی او ر اسی کی اشاعت وترجمانی کی بنا پر ملک بھر کے جملہ علماے دیوبند نے انھیں بالاتفاق امام اہل سنت کے خطاب سے نوازا۔ اس تحریک کے اصل محرک حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن ؒ ، مولانا ولی حسن ٹونکی ؒ اور شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ تھے جنہوں نے ملک بھرکے اکابر علما کو اعتماد میں لے کریہ فیصلہ کیا تھا، لیکن لسانی بنیادوں پر کراچی کے اندر ہونے والے واقعات وفسادات اور ان کی وجہ سے بگڑنے والے حالات اس تقریب کو تاخیر والتوا کی طرف دھکیلتے چلے گئے۔ بالآخر ۱۹۹۲ء میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئ شہیدؒ ، مفتی محمد جمیل خان شہید، مفتی محمد زرولی خان مدظلہ، مفتی محمد نعیم مدظلہ اور مولانا محمد اسلم شیخوپوری مدظلہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور انہی کی دعوت وتحریک پر کراچی کے اندر برنس روڈ پر ایک عظیم الشان امام اہل سنت کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں حضرت شیخؒ کو ’’امام اہل سنت‘‘ کا خطاب دیاگیا۔ اس موقع پر دیگر علماے کرام کے علاوہ استاذی المکرم برادر محترم مولانا عبدالقدوس خان قارن مدظلہ نے بھی خطاب فرمایا۔ برادر محترم مدظلہ کے بعد مولانا مفتی جمیل خان شہیدؒ نے مجھے مائیک پر طلب کیا اور حضرت شیخؒ کی تصنیفی وتحقیقی خدمات کے موضوع پر بیان کرنے کا حکم دیاگیا۔ حضرت شیخؒ کی موجود گی میں ان کے پہلو میں کھڑے ہو کر اظہار خیال کرنے کایہ میرا پہلا موقع تھا۔ لڑکھڑاتی ٹانگوں، لرزتے وجود اور کپکپاتی آواز میں، میں نے عرض کیا کہ :

’’عصر حاضر کے جدید مفکرین ومحققین (سرسید احمد خان، مرزا غلام احمد قادیانی، عبداللہ چکڑالوی، علامہ عنایت اللہ المشرقی، چودھری غلام احمد پرویز اور مودودی وغیرہ) اور حضرت شیخؒ کے طرز تحقیق میں یہ واضح ونمایا ں فرق ہے کہ وہ تمام جدید مفکرین ماضی کے پورے علمی وتحقیقی اثاثہ کو کالعدم وناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے اپنے خود ساختہ اصولوں کے ذریعہ اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ اسلاف امت اور اکابرین اہل سنت کی اجماعی واتفاقی تحقیقات صحیح تھیں یا غلط؟ اور پھر ھم رجال و نحن رجال کے انانیت پرستانہ فلسفہ کی بنیادپر اپنی خود ساختہ وبے بنیاد تحقیق کے حوالہ سے اسلاف امت کی متواتر ومتوارث تعلیمات وتحقیقات کو غلط قرار دے کر ان کے مقابلہ میں ایک جدید فرقہ اورنیا مکتب فکر قائم کر لیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے حضرت شیخؒ کی تمام عقائد ومسائل کے اندر تحقیقی بنیاد اسلاف اہل سنت اور اکابرین دیوبند کے فکر وفلسفہ اور اصول وقواعد سے غیر متزلزل وابستگی پر قائم ہے اورانہی کی تحقیقات کو اپنی ہرتحقیق کی بنیاد بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام جدید مفکرین اپنی تحقیق کے ذریعہ اسلاف امت کے افکار ونظریات پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ ہمارے حضرت شیخؒ اپنی تحقیق کے ذریعہ اکابرین اہل سنت کے عقائد ونظریات کادفاع کرتے ہیں۔‘‘

کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد جب ہم اپنی قیام گاہ ( جامعہ بنوریہ ناظم آباد) پر پہنچے تو حضرت شیخؒ نے میرے اس بیان کوخواب سراہا اور شابا ش دی۔ تحسین وآفرین کے ان انمول جملوں نے میرے اعتماد وحوصلہ کومزید نکھا ر دیا۔ حضرت شیخؒ نے فرمایا کہ تم نے اپنی تقریر کے اندرجو کچھ بیان کیا، وہی حق اور حقیقت ہے۔ اپنی علمی زندگی کے اندر اس بات کو ہمیشہ کے لیے اپنا علمی وتحقیقی اصول بنالو کہ ہمارے لیے حق پر قائم رہنے اور ہر قسم کی گمراہیوں اور الحادی آلودگیوں سے بچنے کا واحد حفاظتی راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہم اپنے اکابر واسلاف کے علم وفہم اورا ن کی امانت ودیانت پر مکمل اعتماد رکھتے ہوئے ان کی متواتر تعلیمات وتحقیقات اورعقائد ونظریات سے پوری طرح وا بستہ رہیں، کیونکہ اس راہ سے بھٹک کر ہم شرک وبدعت، کفر ونفاق اور الحاد وزندقہ کی کسی بھی تاریکی میں کھو سکتے ہیں۔اس لیے ہمیشہ تمام عقائد ونظریات او ر افکار واعمال میں اپنے اسلاف واکابر کا دامن تحقیق تھامے رکھنا، کسی جدید تحریک کے دل فریب افکار وتصورات کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کربھی نہ دیکھنا ،کیونکہ اسی میں ہماری دنیوی ہدایت پوشیدہ ہے اوراسی میں اخروی نجات مضمر ہے۔ 

اس کے بعد جب تک میں حضرت شیخؒ کا بدن اور ٹانگیں دباتا رہا، حضرت شیخؒ عہد جدید کے مختلف علیحدگی پسند مذہبی فتنوں کے نظریات اوران کے طرز تحقیق پر تفصیلی واجمالی روشنی ڈالتے رہے اور مجھے ان کے دینی وفکری نقصانات ورجحانات سے خبر دار کرتے رہے۔ مجھے یو ں محسوس ہو رہاتھا کہ بڑے غیر محسوس انداز میں اصلاح کی آڑ میں میر اامتحان لیا جا ر ہا تھا۔ غالباً یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ تقریر میں جو کچھ کہا گیا، تحقیق کی بنیادوں پر کہا گیا یا صرف شنید کی بنیاد پر۔ منکرین حدیث اور منکرین حیات انبیا وغیرہ طبقات جدیدہ کی کتب ورسائل کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ ان میں سے کون کون سی کتب مطالعہ میں آچکی ہیں جن کا میں نے بڑے مختصر انداز میں جواب دیا۔ میں نے بھی ذہن میں کافی عرصہ سے کھٹکنے والا ایک سوال داغ دیا، کیوں کہ موقع سے جائز فائدہ نہ اٹھانا بھی تو نعمت کی ناقدری ہے۔ میں نے پوچھا کہ جد ت پسند طبقوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہم پر اکابر واسلاف کی توہین وتنقیص کا الزام سراسر غلط ہے، ہم تو صر ف ان سے رائے کا اختلاف رکھتے ہیں اور اختلاف میں کوئی عیب نہیں۔ حضرت شیخؒ نے بڑے غصے اور جلالی انداز میں فرمایا، غلط کہتے ہیں، جھوٹ کہتے ہیں۔ اسلاف امت میں سے ایک ایک ہستی علم و فہم اور زہد وتقویٰ کے حوالے سے ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے۔ ہم تو ان میں سے کسی ایک کی رائے بھی اختلاف کی جسارت نہیں کر سکتے، چہ جائیکہ پوری امت کے اہل علم وتحقیق ایک رائے پر متفق ہوں اور اس رائے سے اختلاف کیا جائے۔ اپنے علم وفن کو پوری امت کے اہل علم وتحقیق کے مجموعی علم وفہم سے برتر جاننا یاکم از کم ان کی برابری کی سطح پر دیکھنا، اس سے بڑھ کر ان کی توہین وتنقیص کیاہو گی؟ حضرت شیخؒ کے اس ایک جلالی جملہ نے ذہن صاف کر ڈالا اور ہر قسم کے شکوک وشبہات کے بادل چھٹ گئے او ر بحمداللہ آج تک پھر کوئی ایسا وسوسہ ذہن میں نہیں پھٹکا۔

تحقیق اسلاف کے مقابل اظہار رائے سے اجتناب

اسی سفر کے دوران ( جوتقریباً ایک ہفتہ کا تھا) حضرت شیخؒ کراچی کے مختلف چھوٹے بڑے مدارس میں بھی تشریف لے گئے۔ جامعہ احسن العلوم گلشن آباد، جامعہ بنوریہ نارتھ ناظم آباد، جامعہ علوم اسلامیہ بنور ی ٹاؤن،جامعہ یوسفیہ بنوری ٹاؤن، جامعہ فاروقیہ اور دارالعلوم کراچی وغیرہ مدارس میں مختلف علمی ومسلکی عنوانات پر علما وطلبہ سے خطاب فرمایا۔ دارالعلوم کراچی کی مسجد میں حضرت شیخؒ کے بیان کاخصوصی اہتمام کیا گیا تھا جہاں اس وقت شیخ الحدیث مولانا سبحان محمودؓ، مفتی اعظم مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ بھی تشریف فرما تھے۔ مفتی اعظم نے حضرت شیخؒ کو خطاب کی دعوت دی ۔ اس موقع پر حضرت شیخؒ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ :

’’میں نے تقریباً پچاس سال تک مختلف فکر ی واعتقادی اور فقہی واجتہادی مسائل پر تحقیق کی اور تحقیق کے دوران بعض علمی وفقہی ایسے مسائل بھی میرے سامنے آئے جن کے بارہ میں ذاتی تحقیق ومطالعہ کی بنا پر میری ذہنی رائے اکابر ین اہل سنت کی تحقیقی رائے سے مختلف رہی، لیکن میں نے تقریری وتحریری طور پرکبھی بھی پبلک کے سامنے اپنی ان ذہنی آرا کا اظہار نہیں کیا، اس لیے کہ خود کواکابر واسلاف کی علمی وتحقیقی سطح کے برابر لانے کا تصور بھی دل میں پیدا نہیں ہوا۔ ہمیشہ یہی سوچا کہ میری اس ذہنی رائے کے پیچھے تحقیق میں کوئی نہ کوئی کمی موجود ہے۔ اسی سوچ وفکر کے تحت ہمیشہ اپنے اکابر واسلاف کی تحقیقی آرا کوہی اصح سمجھا، انہی کو دل وجان سے قابل قبول جانا اور انہی کی اتباع وپیروی کو اپنے لیے باعث ہدایت ونجات سمجھا، بلکہ ان میں سے بعض مسائل ایسے بھی تھے جن کے بار ے میں طویل مدت کے بعد تحقیقی طور پر بھی مجھ پریہ منکشف ہوگیا کہ اس مسئلہ میں بھی اکابر کی تحقیق ورائے ہی مدلل ومحقق تھی۔ میں نے جن دلائل پر اپنی اپنی رائے قائم کی تھی، وہ تو ریت کا گھر وند ا تھے۔ اس لیے میں اپنے عزیز علماے کرام اور طلبہ سے درخواست کرتاہوں، ان کو نصیحت کرتاہوں کہ اپنے اکابر واسلاف کی اجماعی واتفاقی تحقیقات وتعلیمات سے کبھی انکار وانحراف نہ کرنا اور نہ ہی کبھی جمہور اہل سنت کا دامن چھوڑنا کیونکہ ہمارے علم وفن اور دیانت وامانت کی انتہا بھی ان کے علم وحکمت کی ابجد کونہیں چھوسکتی۔ انہی پر اعتماد میں ہماری نجات ہے اور انہی میں ہمارے لیے خیر وبرکت ہے۔‘‘

حضرت شیخؒ کے اس ناصحانہ وحکیمانہ بیان سے ان کاطرز تحقیق بہت حد تک کھل کر سامنے آجا تا ہے اور ان کے طر ز تحقیق اور اصول تحقیق کو سمجھنے میں کسی قسم کا کوئی ابہام واشکال باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے نہ صرف اسی طرز تحقیق کوتاحیات اختیار کیا بلکہ دوسروں کے لیے بھی اسی کو پسند کیا اور اسی کی ہمیشہ تلقین کی۔ 

عصر حاضر کافکری المیہ 

عصر حاضر کاسب سے بڑا فکری ونظریاتی المیہ یہ ہے کہ اس عہد جدید میں ایک طرف تو اسلام کے متواتر واجماعی عقائد کی حقیقت پسندانہ اور واقفیت پر مبنی تعبیر وتشریح کا پرچار کرنے اور اس ذریعہ سے دورحاضر کی امت مسلمہ کا فکری ونظریاتی رشتہ قرون اولیٰ سے جوڑنے والے اصحاب علم وفکر علما ودانشور تو قضا وقدر کے ہاتھوں مجبور ہو کر تیزی کے ساتھ یہ دنیا خالی کر رہے ہیں جس سے علم وفکر کی مسندیں ویران ہو رہی ہیں، جب کہ دوسری طرف ان کی جگہ پروفیسرز، ڈاکٹرز اور جدید تعلیم یافتہ نام نہاد دانشوروں کا وہ جدت پسند طبقہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مفکرین اسلام اورمذہبی اسکالروں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے یا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سامنے لایا جا رہا ہے جونئی روشن خیالی کے دلفریب وگمراہ کن عنوان سے اسلام کی وہ مسخ شدہ تصویر پیش کر رہا ہے جس کے خدوخال کا کوئی بھی پہلو قرون اولیٰ کے اعتقادی تصور اور اہل سنت والجماعت کے متواتر واجماعی فکر سے کسی قسم کی فکری ونظریاتی مطابقت نہیں رکھتا۔ جدید مفکرین کا یہ گروہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے اور اپنے جدید فکرو فلسفہ اور اپنے خود ساختہ اصولوں کے ذریعہ امت مرحومہ کا فکری رشتہ قرون اولیٰ او ر اہل سنت کے متواتر واجماعی فکر سے کاٹ دینا چاہتا ہے۔ اگرچہ ایسے جدت پسند ہر دور میں پید اہوتے رہے ہیں، لیکن اس دور میں توعالم اسلام میں بالعموم اور برصغیر میں بالخصوص برساتی مینڈکوں کی طرح برآمد ونمودار ہو رہے ہیں۔ 

ہمارے ملک کے اندر جدت پسند تحریکوں کی پشت پر اسلام دشمن مغربی قوتیں، اشتراکیت کی ہم نوا سیکولر لابیاں اور اس ملک کی پچانوے فی صد اکثریت اہل سنت والجماعت کو ان کے آئینی وقانونی حق سے محروم کر دینے کی سازش کرنے والے کچھ مذہبی طبقات موجود ہیں۔ ارباب فکر ودانش کے لیے ا س پہلو پر غور وفکر او رتوجہ کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ وہ اس بات کا کھوج لگائیں کہ کون سا خفیہ ہاتھ، کن خفیہ مقاصد کے لیے ان جدت پسندالحادی تحریکوں کے الحادی نظریات کے فرو غ اور ان کی اشاعت کے لیے کروڑوں ڈالر کا ماہانہ خرچہ برداشت کر رہا ہے؟ بے حیائی، فحاشی، عریانی اور اخلاقی تباہی کو فروغ دینے والے جن ٹی وی چینلز پر اہل حق علما کو اپنا موقف ونظریہ اور اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے چند منٹ کاوقت حاصل کرنا بھی دشوار ہے اور انٹرویوز کے دوران بھی ان کے نقطہ نظر کا اصل حصہ وقفہ کی نذر کر دیا جاتا ہے، ان ٹی وی چینلز پر جدید مفکرین کی گھنٹوں گفتگو کا بل آخر کون ادا کرتا ہے اور کن مقاصد کے لیے؟ 

دورجدید کا سب سے بڑا قدامت پسند

عصر حاضر میں قدامت پسندی کا لفظ ہمارے پورے معاشرہ کے اندر ایک گالی بن کر رہ گیا ہے حالانکہ اسلامی عقائد ونظریات کا مکمل حقیقی ڈھانچہ قدامت پسندی ہی کی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ وہ اپنے اندر حالات کی تبدیلی کے ساتھ احکام وافکار کے تغیر وتبدل کا کوئی تصور نہیں رکھتا۔ وہ حالات اور اس کے تقاضوں کو اپنے ساتھ چلاتا ہے، خود کسی سوسائٹی، سماج اور تہذیب کے تابع ہو کر نہیں چلتا۔ اپنی اسی خوبی کی بنا پر وہ چود ہ سوسال کے بعد بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، ورنہ دیگر مذاہب تو اپنی اصلی وحقیقی حالت ایک صدی تک بھی برقرار نہیں رکھ پائے۔ وہ تغیر وتبدل او ر تحریف کے اتنے مراحل سے گزر چکے ہیں کہ ان میں سے ان کی حقیقی روح وتعلیم شاید خوردبین سے بھی نہ مل پائے اور اگر اسلام کے اندر بھی تغیر وتبدل کا وہی سلسلہ جاری رہتا تو وہ بھی اپنی حقیقی صورت کھو چکا ہوتا۔ اسلام اگر سنت نبوی اور سیر ت صحابہ کانام ہے ( اور واقعی اسی کانام ہے) تو اس سے ذہنی وعملی وابستگی کسی صورت بھی قدامت پسندی کے بغیر ممکن نہیں، اور پھر قرون اولیٰ کے بعد ہر دور کے قدامت پسندوں نے ہی اپنے اپنے دور کے جد ت پسندوں کامقابلہ کر کے اسلام کی اصلی وحقیقی تعلیمات کی حفاظت کی، ورنہ ہر عہد کی تعبیرات وتشریحات کی شکل قسط وار بگاڑی جا چکی ہے۔ اس اعتبار سے قدامت پسند طبقہ کا امت پر یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے جدت پسند طبقہ کے ہاتھوں اسلام کی حقیقی شکل وصورت مسخ ہونے سے بچا لی ہے۔ 

ہمارے شیخ مکرمؒ بھی قدامت پسندی کے اسی متواتر سلسلہ کی ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر کڑی تھے جو اپنے اکابر واسلاف کی متواتر ومتوارث تعلیمات کے وارث وامین بھی تھے اور ان کے ترجمان ونگہبان بھی۔ وہ علم وتحقیق کے حوالے سے جتنی بڑی اور بلند شخصیت کے مالک تھے، فکر واعتقاد کے اعتبار سے اتنے ہی بڑے اور بلند قدامت پسند تھے اور ہمیشہ اپنی قدامت پسندی پر فخر وناز کرنے والے تھے۔ اگر وہ واقعی طور پر عصرحاضر میں عالم اسلام کی سب سے بڑی علمی شخصیت تھے تو پھر بلاشبہ وہ دور جدید کے سب سے بڑے قدامت پسند تھے۔ اس حوالے سے وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی قدامت پرستی، انتہاپسندی، بنیاد پرستی اور دقیانوسیت جیسے مغربی واشتراکی پروپیگنڈے سے نہ کبھی متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے سامنے ذہنی مرعوبیت کا مظاہرہ کیا۔ مغربی تہذیب وثقافت کی ’’انا ولاغیری‘‘ کی للکار ہو یا اشتراکیت کی فکری یلغار، یورپین فکر وکلچر سے مرعوب ودہشت زدہ مشرقی میڈیا کا پروپیگنڈا ہو یا فریب خوردہ جدت پسند طبقہ کا اسلامی تعلیمات پر حملہ، انہوں نے کبھی بھی کسی طرز کے فکر جدید کی تائید وتصویب نہیں کی اور نہ ہی اسے کبھی کسی رنگ میں پسند کیا۔ بیسیوں قسم کے فکری موضوعات ان کے زیرقلم آئے اور ہر موضوع پر بحمداللہ تحقیق کا پوراپورا حق ادا کیا گیا، لیکن کسی بھی موضوع پر تحقیق کرنے کے لیے نہ انہیں کبھی جدید اصول وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ اس کے لیے اسلاف امت کی متواتر واجماعی تحقیقات سے انکار وانحراف تک نوبت پہنچی۔ انہوں نے جو علو م وافکار جن تعبیرات وتشریحات کے ساتھ اپنے اکابر واسلاف اور اپنے اساتذہ وشیوخ سے حاصل کیے، وہ بغیر کسی تعبیری وتشریحی تغیر وتبدل کے اگلی نسل تک پہنچا دیے اور کسی مقام پر بھی کسی قسم کی فکری خیانت یانظریاتی بددیانتی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ 

علما وطلبہ کو نصیحت 

۱۹۹۸ء میں مدارس دینیہ کی سالانہ تعطیلات کے دوران مختلف مدارس کے اساتذہ وطلبہ کا کثیر تعداد پر مشتمل ایک وفد حضرت شیخؒ سے ملاقات وزیارت کے لیے گکھڑ حاضر ہوا اوردوران ملاقات حضرت شیخؒ سے نصیحت کی درخواست کی جس پر حضرت شیخؒ نے فرمایا کہ 

’’میرے عزیزو! ہم نے اپنے اسلاف واساتذہ سے جو علمی وفکری ورثہ پایا ، اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود وہ علمی وفکری امانت ووراثت بغیر کسی تغیر وتبدل کے آپ تک پہنچا دی۔ ہم نے قرآن وسنت کے وہی الفاظ آپ تک پہنچائے جو ہمیں متواتر سند کے ساتھ اپنے اساتذہ سے وراثت میں ملے اور ہم نے ان متواتر ومتوارث الفاظ کی وہی تعبیر وتشریح آپ تک پہنچائی جو ہمیں متواتر سند کے ساتھ اپنے اساتذہ سے وراثت میں ملی۔ نہ ہم نے ان متواتر الفاظ میں تغیر کیا اور نہ الفاظ کے متواتر مفہوم میں کوئی تبدیلی کی۔ 

میں نے اپنی تمام کتابوں کے اندر اکابرین اہل سنت اور بزرگان دیوبند کے اجماعی واتفاقی مذہب ومسلک کے عین مطابق مختلف عقائد ونظریات پر مدلل وباحوالہ بحث کردی ہے۔ ان کا مطالعہ ضرور کرو۔ علامہ عبدالشکور لکھنویؒ کی تحریرات کو مطالعہ میں لاؤ اور ہمارے اس دور میں مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی بڑی خدمات ہیں، ان کاوجود غنیمت سمجھو اور ان کی تحریروں کا بھی مطالعہ کرو۔ اب ہم نے متواتر علم وفکر اور متوارث عقائد ونظریات کی وہ امانت آپ کے سپرد کر دی ہے۔ اس امانت کو اس کی اصلی وحقیقی صورت میں اگلی نسل تک پہنچانا آپ کی شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر آ پ نے اس ذمہ داری کونبھانے میں کسی قسم کی غفلت وخیانت یا حرص وبزدلی کامظاہرہ کیا تو آپ عنداللہ اپنے بڑوں کے بھی مجرم ہوں گے اور چھوٹوں کے بھی۔‘‘

حضرت شیخؒ کی یہ انمول نصیحت ان روشن خیال حضرات کے لیے انتہائی قابل توجہ ہے جن پر ہر وقت تقلید کا جمود توڑنے اور اس کی بندشوں سے آزادی حاصل کرنے کا جنون طاری رہتاہے اور آزا د خیالی کے اسی جنون کے تحت وہ کتابی علوم والفاظ کو تو متواتر ومتوارث مانتے ہیں، لیکن ان علوم والفاظ سے اخذ کیے جانے والے عقائد ونظریات کومتواتر ومتوارث تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ ان آزاد خیال جدت پسندوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن وحدیث کے الفاظ ونقوش اگرچہ تغیر وتبدل سے محفوظ ہیں، لیکن ان کے معانی ومطالب اوران کی تعبیر وتشریح ہردور کے تقاضوں کے مطابق بدلنی ضروری ہے۔ ان میں علمی وفکری تغیر وتبدل کے دروازے ہر دورمیں کھلے ہیں۔ اگر وہ دروازے بند کر دیے جائیں تو ذہن وشعور آلودہ ہو جائیں گے، علمی وفکری صلاحیتوں کی نشوونما رک جائے گی اور استعداد وصلاحیت بے کار ہو کر رہ جائے گی، اس لیے ان سب کوتواتر وتوارث کی قید سے آزاد ہونا چاہیے۔ ان کو سابقہ تعلیمات وتعبیرات کے قید خانہ میں بند رکھنے سے اسلامی ودینی تعلیمات اور قرآنی ونبوی مقاصد کی روح فنا ہو جائے گی۔ یہ روشن خیال وجدت پسند طبقہ اپنے اس فکر وفلسفہ کے ذریعہ جو مذمو م مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ کسی بھی ہوش مند وباشعور مسلمان سے مخفی وپوشیدہ نہیں۔ وہ اس فکر وفلسفہ کے ذریعہ قرآنی ونبوی علوم وافکار کو اپنے خود ساختہ تحقیقی اصولوں کی بھٹی میں جھونکنا چاہتاہے اور ان کواپنے تحقیقی تجربات کے لیے تختہ مشق بنا کر نئے نئے افکار ونظریات منظرعام پر لانا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ شہرت بھی حاصل ہو سکے اور ڈالر بھی، امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ بھی کر سکے اور اس کا علمی وفکری رشتہ اس کے اسلاف سے بھی کاٹ سکے۔ خدا تعالیٰ ہرقسم کے روشن خیال جدت پسندوں کے شر وروفتن سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے، آمین یا رب العالمین۔ 

امام اہل سنت کاتحقیقی فکر وفلسفہ 

جد ت پسند طبقہ کے تحقیقی فکروفلسفہ کاسرسر ی جائزہ ہم لے چکے۔ اب حضرت شیخؒ کے عقائد ونظریات، ان کی تحقیقات اور ان کے اصول تحقیق پر تفصیلی بحث کرنے سے قبل ہم ان کے تحقیقی فکر وفلسفہ پر مختصر روشنی ڈالنا ضروری خیال کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کے سامنے وہ بنیادی نقطہ نظر واضح ہو جائے جو حضرت شیخؒ کی تحقیقات کی اصل اساس ہے۔ 

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ حضرت شیخؒ اپنی تمام تالیفات وتحقیقات کے اندر قرآن حکیم کی تفسیر اور احادیث مبارکہ کی تشریح کے لیے الفاظ کے معانی ومطالب کی لغوی، اصطلاحی اور عرفی وضاحت ضرور کرتے ہیں۔ آیات قرآنیہ کے شان نزول کا باحوالہ تذکرہ بھی ہوتاہے۔ کتب اسماء الرجال سے احادیث مبارکہ کی صحت وثقاہت یا ان کا ضعف واضح کرنے کے لیے احادیث کے راویوں پر مدلل ومفصل بحث بھی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود فقط انہی امور کو اپنے موقف ونظریہ کے اثبات کی بنیاد نہیں بناتے، بلکہ امت کے تلقی بالقبول او راسلاف امت کے علم وفہم اور ان کے علمی وتحقیقی نتائج کو ہی ہمیشہ انہوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد بنایا اور مذکورہ امور کی مدد سے انہوں نے اسلاف امت کے افکار وعقائد کا دفاع کیا۔ 

قرآن وحدیث کے فہم صحیح اور ان سے تحقیقی استدلال کے لیے انہوں نے ہمیشہ سنت خلفاے راشدین، آثار صحابہ، تعامل تابعین واتباع تابعین اور اقوال وافکار ائمہ اہل سنت کو ہی اپنے لیے معیار واتھارٹی ٹھہرایا۔ وہ چونکہ افکار وعقائد اور علم وعمل کے اعتبار سے او ل وآخر سنی اور صرف سنی تھے بلکہ سنی گر تھے، اس لیے ان کی ہر تحقیق، ہر فکراور ہرعقیدہ کی بنیاد صرف اور صرف اصول اہل سنت پر تھی جن سے انہوں نے نہ خود کبھی سرمو انحراف کیا اور نہ کسی دوسرے کے لیے اس انحراف کو روا جانا، چنانچہ وہ اپنے تحقیقی فکر وفلسفہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’جوں جوں زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرون مشہود لہا بالخیر سے دور ہوتا جا رہا ہے، دوں دوں امور دین اور سنت میں رخنے پڑتے جار ہے ہیں۔ ہر گروہ اور ہر شخص اپنے من مانے نظریات وافکار کو خالص دین بنانے پر تلا ہو اہے اور اپنی تمام نفسانی خواہشات اور طبعی میلانات کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دین اور سنت ثابت کرنے کا ادھار کھائے بیٹھا ہے، الاماشاء اللہ۔ اور ایسی ایسی باتیں دین اور کارثواب قرار دی جارہی ہیں کہ سلف صالحین کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوں گی، حالانکہ دین صرف وہی ہے جو ان حضرات سے ثابت ہو ا ہے اور انہی کے دامن تحقیق سے وابستہ رہنے میں نجات منحصر ہے۔‘‘ ( درود شریف پڑھنے کاشرعی طریقہ ص۵۔۶)

حضرت شیخؒ کی مذکورہ وضاحت اور بالخصوص اس وضاحت کا آخری جملہ انتہائی قابل توجہ ہے ۔ اسے بار بار ملاحظہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس ایک جملہ کے اندر انہوں نے اپنا پورا تحقیقی فکروفلسفہ واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کر دیا ہے ۔وہ صاف اور دوٹوک لفظوں میں اعلا ن فرما رہے ہیں کہ قرآنی وحدیثی تفسیرات وتشریحات اور سنت کی تعریف وتعیین کے حوالہ سے دین صرف اور صرف وہی ہے جو سلف صالحین ؒ سے ثابت ہے۔ وہ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واشگاف الفاظ میں سلف صالحین ؒ کے دامن تحقیق سے وابستہ رہنے کو ہی مدارنجات قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت شیخؒ خود تو سلف صالحین کی تحقیقات سے وابستہ تھے، لیکن دیگر اہل علم کے لیے ان تحقیقات کے برعکس اپنی شخصی تحقیق پر عمل کرنے کی گنجایش باقی رکھتے تھے تو ہمارے خیال میں وہ پوری طرح حضرت شیخؒ کے اصول تحقیق اور طرز تحقیق سے واقف وباخبر نہیں ہے۔

حضرت شیخؒ نے سلف صالحین سے علمی وفکری وابستگی کا موقف درست وصحیح ثابت کرنے کے لیے اس حدیث مبارکہ (مسلم ۱/۱۰ اور مشکوٰۃ ۱/۲۸) سے باقاعدہ استدلال کیا ہے کہ:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ ایسے دجال وکذاب پیدا ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی حدیثیں اور باتیں پیش کریں گے، بما لم تسمعوا انتم ولا آباءکم، جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آبا واجداد نے۔ پس تم ان سے بچو اور ان کو اپنے قریب نہ آنے دو تاکہ وہ تمہیں نہ گمراہ کر سکیں اور نہ فتنہ میں ڈال سکیں۔‘‘ (ایضاً ص ۶)

ظاہر بات ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخطاب امت کے عام افراد سے نہیں بلکہ ان اہل علم سے ہے جو قرآن وحدیث کے علوم ومعارف سے بخوبی واقف ہیں، اور حدیث کے اندر آبا واجداد سے بھی نسلی ونسبی آبا واجداد مراد نہیں بلکہ علمی وفکری اور روحانی آباواجداد مراد ہیں جوکہ اسلاف امت اور بزرگان دین ہیں۔ گویا قرآن وحدیث کے علوم ومعارف سے آگاہی رکھنے والے اہل علم سے کہا جا رہا ہے کہ تم نے بھی ایسی حدیثیں اور باتیں سماعت نہ کی ہوں گی اور تمہارے علمی وفکری آبا واجداد بھی ان باتوں سے لاعلم وبے خبر ہوں گے جو تمہارے سامنے دجال وکذاب لوگوں کی طرف سے پیش کی جا رہی ہیں۔ اس حدیث مبارکہ میں یا تو ان جعلی ووضعی حدیثوں کی طرف اشارہ ہے جو امت کے بعض بدبخت افراد وطبقات نے اپنے من گھڑت عقائد ونظریات اور اپنی خود تراشیدہ بدعات ورسومات کو ثابت کرنے کے لیے تراشیں ، جنہیں نہ امت کاتلقی بالقبول حاصل ہو ااور نہ ان کے راوی صحت وثقاہت کے مسلمہ معیار پر پورا اتر سکے اور یا اس حدیث مبارکہ میں قرآن وحدیث کی تعبیرات جدیدہ کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن وحدیث کی ایسی ایسی تعبیرات وتشریحات اخیر زمانہ کے دجال وکذاب لوگوں کی طرف سے تمہارے سامنے آئیں گی جن سے اس دور کے اہل علم بھی ناواقف ہوں گے اوران کے آباو اجداد کے بھی وہم وگمان میں نہ ہوں گی۔ گویا حق اور سچ کو پرکھنے اور اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وقت کے اصحاب علم ومعرفت کے ساتھ ساتھ ماضی کے ار باب علم ومعرفت کو بھی معیار وکسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں حضرت شیخؒ کایہ موقف ونظریہ بہت حد تک نکھرکر سامنے آجاتاہے کہ ہماری ہدایت ونجات اپنے علمی وفکری آبا واجداد یعنی سلف صالحین کے دامن تحقیق سے وابستہ ہونے اور وابستہ رہنے میں ہی منحصر ہے۔ 

امام اہل سنتؒ کا کوئی نظریہ اجماع امت کے خلاف نہیں 

سلف صالحین کے دامن تحقیق سے وابستگی حضرت شیخؒ کاایسا طرہ امتیاز ہے جس کی بنا پر بلاخوف لومۃ لائم یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ بحمداللہ حضرت شیخؒ کاایک بھی عقیدہ ونظریہ ایسانہیں جو اسلاف امت کی اجماعی تحقیقات کے خلاف ہو۔ چند سال قبل (جب میرا بڑے سے چھوٹا بیٹا سرفراز حسن خان حمزہ سلمہ وہا ں زیرتعلیم تھا) جامعہ فتاح العلوم سرگودھا کے ختم بخاری شریف کی تقریب میں حضرت مولانا مفتی طاہر مسعود مدظلہ مہتمم جامعہ فتاح العلوم کی شدید خواہش اور اصرار پر حضرت شیخؒ کو بھی لے جایا گیا جہاں ہمارے رائے پوری سلسلہ کے معروف بزرگ پیرطریقت مولانا عبدالجلیل مدظلہ آف ڈھڈیاں شریف، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اور مولانا زاہدالراشدی مدظلہ بھی موجود تھے۔ وقت کے ان شیوخ و اکابر کی موجودگی میں ہم جیسے لوگوں کا کام صرف مجمع کو جوڑنا اور شیوخ کی آمد تک اسے مصروف رکھنا ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے تحت مجھے بھی چند منٹ کے لیے مائیک پر کھڑا کر دیا گیا۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور اپنی اصلاح وتربیت کے لیے چند کلمات عرض کردیے۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا:

’’ہم سب بحمداللہ اسلاف اہل سنت اور بزرگان دیوبند کی اجماعی تحقیقات سے وابستہ ہیں اور آخر ی سانس تک انہی سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ اسی میں ہماری نجات ہے اورا سی کے ذریعہ ہم عصر حاضر کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے پورے دیوبندی مکتب فکر کو علمی وتحقیقی حوالہ سے جس شخصیت پر سب سے زیادہ اعتماد ہے، وہ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفرازخان صفدر کی شخصیت ہے جن کے تمام عقائد وافکار بحمداللہ اکابرین علماے دیوبند کے اجماعی سلوک کے عین مطابق ہیں۔ اگر بالفرض کسی وقت کسی مضبوط وپختہ دلیل سے یہ ثابت ہو جائے کہ امام اہل سنت کافلاں عقیدہ اسلاف دیوبند کے فلاں اجماعی عقیدہ کے خلاف ہے تو میں پورے یقین واعتماد کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ ہم حضرت شیخؒ کانظریہ چھوڑدیں گے ، بزرگان دیوبند کی اجماعی تحقیق سے ہرگز دستبردار نہ ہوں گے۔‘‘

حضرت شیخؒ اس وقت کمرے میں موجود تھے۔ میری خواہش تھی کہ حضرت شیخؒ نے میرا یہ بیان سن لیا ہو، تاکہ ان کا رد عمل جان سکوں، کیونکہ اسی ردعمل کا میری تربیت واصلاح کے ساتھ تعلق تھا۔ میں تقریر سے فارغ ہوکر خدمت میں حاضر ہوا تو کمرہ سے باہر ہی خدمت پر مامور افراد سے خبر مل گئی کہ حضرت شیخؒ نے پورا بیان بڑی توجہ سے سنا اور حسب معمول ہاتھ اور سر ہلا کر خوشی کا اظہار فرمایا۔ میں خدمت میں حاضر ہواتو بھی ان کی چمکتی آنکھیں اور دمکتا چہرہ ان کے ردعمل کو صاف ظاہر کر رہا تھا جو میرے لیے ایک بڑی سند تھی۔

صراط مستقیم معلوم کرنے کا آسان نسخہ 

حضرت شیخؒ کی وفات سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل ان کی خدمت میں معمول کی حاضری دی تو حسب عادت سوا ل پوچھ لیا کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں مختلف مذہبی گروہ کام کر رہے ہیں اورہر ایک خود کو صراط مستقیم پر قائم وگامزن قرار دیتا ہے، کیسے معلوم ہوکہ کون صراط مستقیم پر ہے؟ فرمایا کہ ’’جو اپنی تحقیق پیش کرے، گمراہ ہے۔ جو بزرگوں کی تحقیق پیش کرے، صحیح ہے۔‘‘ میرے لیے یہ حضرت شیخؒ کا آخری سبق ہے اور اگر اس پر غور کرتا ہوں تو پہلا سبق بھی یہی تھا، یعنی پہلے اور آخری سبق میں بال برابر بھی فرق نہ تھا۔ کاش یہ سبق میرے دل ودماغ کی ہر تختی پر نقش ہو جائے اور میں اسے زندگی کے کسی بھی موڑ پر بھولنے نہ پاؤں۔ یہی میرے لیے میرے شیخؒ کا ورثہ ہے اور یہی وہ حصار ہے جس میں محصور رہ کر میں ہر فتنہ کی ضلالت و گمراہی سے محفوظ رہ سکتاہوں۔ حضرت شیخؒ کے مذکورہ مختصر جملہ کی اگر کوئی تفصیل ملاحظہ کرناچاہتا ہو تو وہ بھی ملاحظہ کرے ۔ حضرت شیخؒ ’’قرآن وحدیث سے استدلال کرنے کا ضابطہ ‘‘ کے زیر عنوان فرماتے ہیں:

’’عوام الناس کویہ بات پریشان کیے ہوئے ہے کہ جوبھی اسلامی یا منسوب بہ اسلام فرقہ اپنے مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ قرآن وحدیث ہی کانام لیتا اور اپنے استدلال میں قرآن وحدیث ہی کو پیش کرتا ہے، اب ہم کس کو صحیح اورکس کو غلط، کس کوحق پر اور کس کو باطل پر سمجھیں؟ واقعی یہ شبہ اکثر لوگوں کے مغالطہ کے لیے کافی ہے، لیکن اگر انصاف، خداخوفی اور دیانت کے ساتھ اس بات پر غور کر لیا جائے کہ آخر یہی قرآن وحدیث حضرات صحابہ کرامؓ، تابعین عظام اور ائمہ دین وبزرگان صالحین رحمہم اللہ کے سامنے بھی تھے، ان کا جو مطلب ومعنی اور جو تفسیر ومراد انہوں نے سمجھی، وہی حق اور صواب ہے، باقی سب غلط اور باطل ہے۔ پس عوام کایہ کام ہے کہ ہر باطل پرست اور خواہش زدہ سے یہ سوال کریں کہ فلاں آیت اور فلاں حدیث کی جو مراد تم بیان کر رہے ہو، آیا یہ سلف صالحین سے ثابت ہے؟ اگر ثابت ہے تو صحیح، صریح حوالہ بتاؤ۔ چشم ما روشن دل ما شاد، ورنہ یہ مراد جو تم بیان کرتے ہو، اس قابل ہے کہ اسے ع

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

عوام اس قاعدہ اور ضابطہ کے بغیر اورکسی طرف نہ جائیں۔ پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے اور قرآن وحدیث کی مراد کون سی صحیح ہے؟ اگروہ ایسا نہ کریں گے اور اس میں کوتاہی کریں گے تو ضروریات دین میں غلطی کی وجہ سے کبھی عنداللہ سرخرو نہیں ہوسکیں گے۔ اوراپنی طاقت اور وسعت صرف نہ کرنے کی وجہ سے جوگناہ قرآن وحدیث کی تحریف کرنے والوں کوملے گا، اس میں ماننے والے بھی برابر کے شریک ہوں گے۔‘‘ (تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین ص۱۸۰) 

حضرت شیخؒ نے اپنے اس تفصیلی موقف کو ثابت کرنے کے لیے بھی پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے قول (ابوداؤد ۲/۲۷۸) اور گیارہویں صدی کے مجدد حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ کے مکتوب (مکتوبات امام ربانی ، مکتوب ۱۵۷) سے استدلال کیا ہے۔ حضرت شیخؒ کے اس موقف سے تین چیزیں پوری طرح واضح وآشکارا ہو جاتی ہیں: 

۱۔ قرآن وحدیث کی جو تفسیر وتعبیر صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے بزرگان دین اور ائمہ امت سے صحیح وصریح حوالہ جات کے ذریعہ ثابت ہوگی، وہی حق اور صواب ہے اور اسی پر چشم ما روشن دل ما شاد۔ اس کے علاوہ جوکچھ بھی ہے اور تعبیر وتشریح کا جو ذریعہ بھی ہے، وہ سب غلط اورباطل ہے، لہٰذا ع ’’اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں‘‘۔

۲۔ عوام الناس کے لیے حق او رباطل کو پرکھنے اور صحیح وغلط کے درمیان تمیز وتفریق کرنے کی یہی ایک اتھارٹی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ایسی کسوٹی نہیں جس کے ذریعہ وہ حق اور باطل کے درمیان فرق کر سکیں۔

۳۔ عوام کے جو افراد سلف صالحین کی وساطت سے قرآن وحدیث کی تعبیر وتشریح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اوراس میں قصداً وعمداً غفلت وکوتاہی کرتے ہیں تو وہ اس گمراہی کے اندر گمراہی پیداکرنے والے کے جرم میں برابر کے شریک ہوں گے جس کے ساتھ وابستہ ہوں گے۔ 

اس مقام پر یہ شبہ پید اہو سکتا ہے کہ حضرت شیخؒ نے یہ قواعد وضوابط اوراصول صرف عوام الناس کے لیے بیان کیے ہیں، اہل علم کے لیے قواعد وضوابط مختلف ہیں۔ تو ہم اس شبہ کے جواب میں دو چیزیں عرض کریں گے۔ 

۱۔ حضرت شیخؒ اپنی اس تحریر کے اندر اہل علم وتحقیق کو تحقیقات اسلاف کے دائرہ میں بندرہنے کا مشورہ دے رہے ہیں اوران کے لیے یہی اصول بیان فرما رہے ہیں۔ اگر ان اہل علم کی تحقیق اس اصول کے دائرہ میں بند ہے تو حق وصواب ہے ورنہ باطل ومردود ، تو گویا اس میں اہل علم کے لیے بھی اصول وقاعدہ موجود ہے۔ 

۲۔ لیکن اگر اہل علم بالفرض اس تحریر کے اندر اپنے لیے کوئی گنجایش پاتے ہیں توپھر اس تحریر میں ان کو اپنی تحقیقات وافکار پبلک کے اندر لانے کی کوئی گنجایش نہیں ملے گی، کیونکہ عوام الناس کو حق وباطل کے درمیان فرق کرنے کا پیمانہ سمجھادیا گیا ہے۔ لہٰذا وہ اہل علم اپنے خودساختہ افکار ونظریات کو اپنے ذہن تک یا اپنے جیسوں تک ہی محدود رکھیں۔ کتابیں اور رسائل لکھ کر عوام الناس میں نہ لائیں۔ اسی میں ان کی بہتری ہے، اسی میں عوام کی بہتری ہے اوراسی میں دین کی بہتری ہے۔ گویا ؂

میں وہ صاف صاف کہہ دوں

جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں 

ترا درد درد تنہا

مرا غم غم زمانہ 

امام اہل سنتؒ کے اصول تحقیق 

گزشتہ سطور میں ہم پوری طرح واضح کرچکے ہیں کہ حضرت شیخؒ اول وآخر سنی تھے۔ اصول وفروع میں سنی تھے اور سنت کے دائرہ سے کسی صورت باہرنکلنا پسند نہ کرتے تھے۔ اس اعتبار سے اصول اہل سنت ہی ان کے اصول تحقیق تھے، اور ان کی تمام تعلیمات وتحقیقا ت انہی اصولوں پر مبنی ہیں۔ 

حقانیت مذہب اہل السنۃ والجماعۃ 

اصول اہل سنت سے قبل ہم اہل سنت پر مختصر بحث کرنا چاہیں گے۔ امت مسلمہ کے اندر مذہب اہل سنت وجماعت کی کیا حیثیت واہمیت ہے اور حضرت شیخؒ سمیت تمام بزرگان دیوبند اس کوکس نظر سے دیکھتے تھے؟ اس کا مختصر تذکرہ ضروری ہے۔ احادیث صحیحہ اس حقیقت پر پوری طرح گواہ اور شاہد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے اندر جس تفریق اور انتشار کی خبردی، اس میں صرف ایک گروہ کو ہی ناجی اور قائم علی الحق قرار دیا ۔ وہ ناجی گروہ کون سا ہے؟ اس کے بارے میں عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی فرماتے ہیں کہ 

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے تہتر فرقے بن جائیں گے۔ ایک فرقہ کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے۔ عرض کیا وہ ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟ فرمایا وہ جماعت ہوگی جسے اہل سنت وجماعت کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے طریق پر چلیں گے۔ ان کا عقیدہ اور عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے عقیدہ اور عمل کے مطابق ہوگا۔ یہی لوگ ناجی ہیں۔‘‘ ( معالم العرفان ۴/۳۵۳)

ربیع الاول ۱۴۰۳ھ میں جماعت مبلغین اہل السنت والجماعت ضلع گوجرانوالہ کی طرف سے حضرت شیخؒ کی خدمت میں ایک مکتوب ارسال کیا گیا جس میں چندمسائل کی وضاحت دریافت کی گئی تھی۔ ان میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ اہل السنت والجماعت کامطلب کیا ہے اور یہ کون سا گروہ ہے ؟ اس مکتوب کے جواب میں حضرت شیخؒ کی طرف سے جو مکتوب جاری کیا گیا، وہ جماعت مبلغین گوجرانوالہ نے ’’اہل سنت کی پہچان‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس میں حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ :

’’اہل السنت والجماعت کامطلب جیسا کہ سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے غنیۃ الطالبین میں اور امام حافظ ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ میں تصریح کی ہے، جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حضرات صحابہ کرام کی جماعت کی پیروی اور اتباع کریں، وہ اہل السنت والجماعت ہیں۔ اور امت کے تہتر فرقوں میں سے یہی طبقہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے او ل وآخر تک دوزخ سے محفوظ رہے گا اوراس فرقہ کو الفرقۃ الناجیۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور آنحضرت کی صحیح حدیث ’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘ کامصداق یہی طبقہ ہے اور ما انا علیہ سے مراد سنت اور واصحابی سے مراد جماعت صحابہ کی پیروی کی طرف اشارہ ہے۔ علا مہ عبدالکریم شہرستانی اپنی کتاب (الملل والنحل ۱/۱۳ ) میں یہ مرفوع حدیث نقل کرتے ہیں کہ:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ عنقریب امت تہتر فرقو ں میں بٹ جائے گی ۔ ایک فرقہ ان میں سے نجات پانے والا ہے اور باقی ہلاک ہونے والے ہیں۔ پوچھا گیا نجات پانے والا کون سافر قہ ہے؟ توآپ نے فرمایا کہ اہل السنت والجماعت کا۔ پوچھاگیا کہ سنت اور جماعت سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ طریقہ جس پر آج کے دن میں اور میرے صحابہؓ ہیں۔ اور واصحابی کے الفاظ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی مرفوع روایت میں بھی (جو مستدرک حاکم ۱/۱۲۹اور تفسیر در منثور ۲/۶۳وغیرہ میں ہے) موجود ہیں۔ اس روایت کے مطابق ایک بات تو یہ معلو م ہوئی کہ فرقہ ناجیہ صرف اہل السنت والجماعت کاگروہ ہے۔ اس کے بغیر باقی تمام فرقے ہلاکت کا شکار ہوں گے۔‘‘ (اہل سنت کی پہچان ص۸)

اور پھر صفحہ ۱۳ پر در منثور ۲/۶۳ تفسیر ابن کثیر ۱/۳۹۰ اور تفسیر مظہری ۲/۱۱۴ کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ’’یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ‘‘  کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ

’’ قیامت کے دن اہل السنت والجماعت کے چہرے سفید ہوں گے اوراہل بدعت وضلالت اور ا ہل افتراق کے چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘ (ایضاً ص ۱۳)

اسی قسم کی ایک روایت تفسیر درمنثور ۲/۶۳ کے حوالہ سے حضرت ابو سعید خدریؓ سے بھی نقل کی گئی ہے جس میں اہل البدع والاھواء کے الفاظ ہیں، یعنی اہل بدعت اور خواہشات پرستوں کے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہوں گے۔ امت کے اندر تہتر فرقوں کے معرض وجود میں آنے اور ناجی فرقہ کے لیے ما انا علیہ واصحابی کی روایت المنہاج الواضح یعنی راہ سنت میں بھی حضرت شیخؒ نے ترمذی ۲/۸۹ اور مشکوٰۃ ۱/۳۰ کے حوالہ سے نقل فرمائی ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ 

’’اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: وھی الجماعۃ (ابوداؤد ۲/۲۷۵، مستدرک حاکم ۱؍۱۲۸، ابن ماجہ ۲۹۶ اور مشکوٰۃ شریف ۱/۳۰) یعنی نجات حاصل کرنے والا صرف وہی فرقہ ہے جو اس جماعت صحابہ کرام کا ساتھ دینے والا ہے اور اسلام کی اس جماعت سے کٹ کر الگ نہ ہونے والا ہے۔‘‘ (راہ سنت ص۳۷)

اور حکیم الہند حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ ۱؍۱۷۰ کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ

’’اہل السنت یعنی نجات پانے والا فرقہ وہ ہے جو عقیدہ اورعمل دونوں میں اس چیز کو لیتا ہو جو کتاب وسنت سے ظاہر ہو اور جمہور صحابہ کرام ؒ اورتابعین ؒ کا اس پر عمل ہو۔ اور غیر ناجی ہر وہ فرقہ ہے جس نے سلف ( یعنی صحابہ کرامؓ وتابعینؒ ) کے عقیدہ اور عمل کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل اپنالیا ہو۔‘‘ ( درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ ۴۷)

اس مختصر مگر مدلل بحث سے یہ حقیقت پوری طرح واضح وآشکارا ہوچکی ہے کہ حضرت شیخؒ گروہ اہل السنت والجماعت سے ہی اپنی فکری وعملی وابستگی کیوں قائم رکھنا چاہتے تھے اور ساری زندگی انہوں نے اسی کی اشاعت وترویج پر کیوں صرف کر دی؟ جب پیغمبر برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف امت کی نشاندہی بھی فرمادی، اس اختلاف میں ناجی فرقہ وگروہ کانام بھی بیان کر دیا اور اس کی علامت وپہچان بھی ظاہر کر دی توپھر کسی باایمان مسلمان کے لیے ا س سے انکار وانحراف یا اس سے اختلاف ورو گردانی کی گنجایش کہاں باقی رہتی ہے؟


اصول اہل سنت یعنی دلائل شرعیہ

جب یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی کہ امت کے متفرق گروہوں میں سے صرف اہل السنت والجماعت کاگروہ ہی حق پر ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس گروہ کے اصول ودلائل معلوم کیے جائیں۔جب یہ گروہ قرون اولیٰ میں موجود تھا تویقیناًاس کے اصول بھی قرون اولیٰ میں موجود تھے۔ اس حوالہ سے اس گروہ کے وہی اصول معتبر ہوں گے جو قرون اولیٰ میں وضع کیے گئے اور اس کے بعد ہر گروہ اور فرقہ کا مقابلہ انہی اصولوں کی بنیاد پر کیا گیا۔ یہ اصول چار ہیں: (۱) قرآن حکیم، (۲) سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، (۳) اجماع امت، اور (۴) قیاس شرعی ۔یہی چار چیزیں اصول اہل سنت کہلاتی ہیں۔ یہی دلائل شرعیہ کے نام سے معرو ف ہیں اور انہی کو اصول فقہ تسلیم کیاگیا ہے۔ 

حضرت شیخؒ ان اصول اہل سنت اور دلائل شرعیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :

’’تمام اہل اسلام اس امر پر کلیتاً اتفاق رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے علم کے ذرائع میں سب سے پہلے قرآن کریم اور پھر حدیث شریف ہے،اور پھراجماع امت کے بعد اظہار اسلام اورا ن کے افہام وتفہیم کا ایک ذریعہ قیاس اور اجتہاد بالفاظ دیگر عقل وبصیرت بھی ہے۔ مگر طلو ع اسلام (منکرین حدیث کا ترجمان) کے نزدیک نہ تو حدیث شریف علم کا ذریعہ ہے اورنہ امت مسلمہ کا اتحاد واتفاق۔‘‘ ( انکار حدیث کے نتائج ص۱۶۷) 

یعنی علوم دینیہ حاصل کرنے کے چارذرائع ہیں اور وہی اصول اہل سنت ودلائل شرعیہ ہیں۔ان میں سے چو تھا اصول اورچوتھی دلیل قیاس واجتہاد کی ہے جسے عقل وبصیرت کانا م دیا گیا ہے۔ اس کے حدود وقیود پر ان شاء اللہ آگے حجیت قیاس کے تحت بحث ائے گی۔ بقیہ تین دلائل واصول کی حیثیت کیاہے؟ ان کے بارہ میں حضرت شیخؒ کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتے ہیں کہ:

’’جملہ اہل اسلام اس امر پر متفق ہیں کہ دلائل وشواہد کی مد میں قطعی اوریقینی درجہ نمبر اول صرف قرآن کریم کو حاصل ہے، اس کے بعد حدیث متواتر، اور پھر اجماع قطعی کو۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص۱۳۹) 

’’جملہ اہل اسلام کااس امر پر اتفاق ہے کہ دلائل اور براہین کی مدمیں جو درجہ اور مرتبہ قرآن کریم پھر حدیث شریف اور پھر اجماع امت کو حاصل ہے، وہ کسی اور دلیل وبرہا ن کو حاصل نہیں۔‘‘ (راہ ہدایت ۶۵)

’’ہمارے اکابر عقیدہ کو قطعی دلائل سے پیش کرتے ہیں، اور قطعی دلائل یہ ہیں: (۱) قرآن کریم، (۲) خبر متواتر (عام اس سے کہ تواتر لفظی ہویاتواتر طبقہ، تواتر قدر مشترک ہویا تواتر توارث، ان میں سے ہرایک کاانکار ہمارے اکابر کے نزدیک کفر ہے۔ البیان الازہر، از علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ ص۱۰۳۔۱۰۴ ) (۳) اور اجماع قطعی۔ کوئی عقیدہ ہمارا ان دلائل کے بغیر کسی اور چیز پر موقوف نہیں ہے۔‘‘ (راہ ہدایت ص ۱۶۲) 

حضرت شیخؒ کی جملہ کتب میں ایسی عبارات بکثر ت موجود ہیں۔ ہم نے ان کے موقف ونظریہ کی وضاحت کے لیے صرف تین عبارات پر اکتفا کیاہے۔ ان عبارات سے پوری طرح واضح ہے کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک نصوص قطعیہ تین ہیں: قرآن، سنت متواترہ اور اجماع قطعی، اور جملہ اکابر اہل سنت نے ا نہی نصوص قطعیہ سے عقائد کے اثبات کے لیے استدلال کیا ہے، اسی لیے ان کا کوئی عقیدہ ان نصوص کے علاوہ اورکسی دلیل پر موقوف نہیں۔ حضرت شیخؒ نے ان عبارات سے دوقسم کے گمراہ گروہوں کا ردکیا ہے:

پہلا وہ گروہ جو بزرگان امت کے شاذ ومتفرد اقوال پر عقیدہ کی بنیاد رکھتا ہے اوران کے ذریعہ باطل نظریات وعقائد کی اشاعت کرتاہے۔ بریلوی مکتب فکر کے جملہ عقائد ونظریات فاسدہ کی بنیاداسی پر ہے۔ چنانچہ حضرت شیخؒ ان کے اس طرز عمل کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اگر کسی بزرگ کا کوئی قول کسی جگہ مجمل ہے توا ن ہی کی عبارت میں دوسری جگہ اس کی تفصیل بھی عموماً موجود ہے۔ اگر بالفرض اس کی کوئی مناسب تاویل آپ کونہیں مل سکتی تو قرآ ن کریم ،احادیث اور اجماع امت کے مقابلہ میں ان کی وہ بات مردود ہوگی، نہ یہ کہ اس پردین کی اور خصوصاً عقیدہ کی عمارت استوار ہوسکتی ہے۔‘‘ (دل کا سرور ص ۲۱۹)

دوسرا وہ گروہ جو منصوص واجماعی مسائل وعقائد میں بھی صرف عقل سے کام لیتا ہے اوراس کا نقطہ نظر ہے کہ دین وشریعت کافہم اور اس کی تعبیر وتشریح انسانی عقل کا وظیفہ ہے۔ ماضی وحال کے تقریباً تمام جدت پسندوں کی بنیاد اسی پر رہی ہے اوراسی کے ذریعہ انہوں نے نئے نئے عقائد ومسائل کوفروغ دینے کی کوشش کی، یعنی ان کے نزدیک سنت متواترہ اور اجماع امت کی بھی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ وہ ہر انسانی عقل کے احاطہ میں نہ آجائے اور ہر انسان کی عقل اس کو قبول نہ کرے۔ ظاہر ہے کہ جب دینی تعبیر وتشریح عقل کا وظیفہ ہے تو پھر یہ امتیاز وتفریق ناممکن ہے کہ کس انسان کی عقل معتبر ہے اور کس کی نامعتبر۔ گویاانسانی عقل بھی ( باوجود اختلاف مراتب کے) اصول شرعیہ میں سے ایک اصل اور دلائل شرعیہ میں سے ایک دلیل ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ حقائق وواقعات کی دنیامیں ایسا ممکن بھی ہے یا نہیں، ہم فی الوقت صرف اس نکتہ پر اپنی بحث کومرکوز رکھناچاہتے ہیں کہ حضرت شیخؒ ان دونوں گروہوں کے نقطہ نظر کومسترد کرتے ہیں۔ وہ نہ تو اجماع امت کے مقابلہ میں کسی بزرگ اورولی کی مبہم، شاذ یا متفرد رائے کو بطور دلیل قبو ل کرتے ہیں اور نہ ہی اجماع امت کے مقابلہ میں کسی عقلی رائے کو درست اور صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی تفصیلات آئندہ اوراق میں ملاحظہ فرمائیے۔ 

اب ہم اصول اہل سنت اوردلائل شرعیہ پربالترتیب بحث کریں گے اورہر اصول ودلیل پر حضرت شیخؒ کی عبارات وتحریرات لائیں گے تاکہ ان کی اہمیت وواقعیت پوری طرح واضح ہو جائے ۔

پہلی دلیل شرعی: قرآن حکیم

اصول اہل سنت میں سے پہلا اصول اوردلائل شرعیہ میں سے پہلی دلیل قرآن حکیم ہے جو آخری آسمانی کتاب ہے۔ خداکا کلام اور اس کی صفت ہے۔ تاقیامت ہر لفظی ومعنوی تحریف وتغیر وتبدل سے پا ک ومحفوظ ہے۔ اس کے مخلوق یا غیر مخلوق اور حادث وغیر حادث ہونے کی بحثیں تو کسی دور میں چلتی رہی ہیں اور اس کے مکمل من جانب اللہ یا کلام اللہ ہونے یا نہ ہونے پر بھی بعض بدبختوں نے طبع آزمائی اور قلم گھسائی کی ہے، لیکن اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ کے اندر کوئی قابل ذکر فرقہ ایسا نہیں گزرا ،سوائے روافض کے بعض گروہوں کے، جو قرآن کو حجیت شرعیہ تسلیم نہ کرتاہو، اس لیے اس کے دلیل وحجت ہونے پرہمارے خیال میں بحث کی ضرورت نہیں۔ 

دوسری شرعی دلیل: سنت رسول اللہ 

اصول اہل سنت میں سے دوسرا اصول اوردلائل شرعیہ میں سے دوسری دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اور یہ ایک ایسی مظلوم دلیل ہے جو قرون اولیٰ سے آج تک ہر دور کے جد ت پسندوں کے ہاتھوں تختہ مشق بنی رہی ہے۔ ہر جدت پسند فتنہ نے اپنے خود ساختہ ومن پسند افکار ونظریات کی اشاعت وترویج کے لیے مختلف انداز میں سنت رسول کی حجیت سے انکار وانحراف کیا ہے۔ چونکہ اس دلیل کی موجودگی میں کسی بھی بد بخت جدت پسند کے لیے قرآن کی من مانی تفسیر کرنا ممکن نہ تھا، اس لیے اس کوراستہ سے ہٹانا ہر جدت پسند کی ضرورت تھی، لہٰذا یا تو سنت کے حجت ہونے سے انکار کیا گیا یا اس کی تعریف میں پھڈے ڈالے گئے یا اس کی تعیین کی نئی بحثیں شروع کر دی گئیں اور سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ کسی طرح اس دلیل سے جان چھوٹ جائے۔ العیاذباللہ تعالیٰ۔

خوارج اسلام کا سب سے قدیم فرقہ ہے جو غالباً خلافت علو ی میں پیدا ہوا اورا س فرقہ کی بنیاد ان الحکم الا للہ پر تھی، یعنی کتاب اللہ کے علاوہ ہر دلیل کی نفی۔ انہوں نے سنت رسول اورسنت خلفاے راشدین کو بطور دلیل قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت علیؓ نے جب حضرت عبداللہ بن عباس کوان سے مناظرہ کے لیے بھیجا تو انہیں تاکید کی کہ اے عبداللہ ! وہ قرآن قرآن قرآن کی رٹ لگائیں گے، انہیں سنت رسول کے ساتھ پکڑنا۔ حضرت علی کی اس تاکید ونصیحت سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کی تشریح سنت رسول کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ظاہرہے کہ اگراس دورمیں تفسیر قرآن کے لیے محض عقل وفہم کا استعمال اورسنت رسول کاترک جائز نہیں تھا اور خلیفہ راشد نے اسے ناپسند کیا تو آج کے دور میں اس کی گنجایش کہاں ہوگی؟ بہرحال اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ اسلام کے سب سے قدیم فتنہ کی بنیاد عقل پرستی اور ترک سنت پر تھی، لیکن خلیفہ راشدؓ سمیت تمام صحابہ کرام نے اسے مسترد کیا۔ 

عصر حاضر کے منکرین حدیث نے اہل قرآن کے نام سے اپنی جدوجہد کاآغا زکیا اور سنت وحدیث کے بارہ میں وہ بدگمانیاں پیدا کیں کہ الامان والحفیظ۔ کبھی احادیث رسول کوعجمی سازش قرار دیا اور کبھی انہیں امت کے اندر تفریق وانتشار کا ذریعہ قرار دے کر ان کا تمسخر اڑایا۔ حضرت شیخؒ کے حوالہ سے ان کی چند عبارا ت ملاحظہ فرمائیں:

’’کتاب اللہ کے مقابلہ میں انبیا اوررسولوں کے اقوال وافعال، احادیث قولی وفعلی وتقریری پیش کرنے کامرض ایک قدیم مرض ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل ومخاطب بھی قطعی اوریقینی طور پر اہل حدیث ہی تھے۔‘‘ (ترجمۃ القرآن بآیا ت القرآن از مولوی عبداللہ چکڑالوی ص ۹۷ بحوالہ انکار حدیث کے نتائج ص۳۳) 

’’پس کتاب اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے یہ مراد ہے کہ جس طرح کتاب اللہ کے احکام کو مانا جاتاہے، اسی طرح کسی اور کتاب یا شخص کے قول وفعل کودین اسلام میں مانا جاتا ہے، خواہ وہ فرضاً جملہ رسل وانبیا کا قول یافعل بھی کیوں نہ ہو۔ جس طرح شرک موجب عذاب ہے، اس طرح ان الحکم الا للہ اور الا لہ الحکم والامر اور ولا یشرک فی حکمہ احدا کے شرک فی الحکم یعنی مسائل دین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کا حکم ماننا بھی اعمال کاباطل کرنے والا، باعث ابدی ودائمی عذاب ہے۔ افسوس شرک فی الحکم میں آج کل اکثر لوگ مبتلا ہیں۔‘‘ (بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۹۸ بحوالہ انکار حدیث کے نتائج، ص ۳۴)

’’یہ سنت ہی تھی جس نے اسلام کے ابتدائی جمہوری مزاج میں بگاڑ پیدا کیا۔ یہ سنت ہی تھی جس نے مسلمانوں کو متعدد فرقوں میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا۔ یہ سنت ہی تھی جس نے بنوامیہ اور بنوعباس کے عہدمیں مذہبی لوگوں کوغیرمعمولی اہمیت دلوائی اوریہ سنت ہی تھی کہ جس نے دولت عثمانیہ کوناقابل علاج مریضوں کی آماجگاہ بنایا۔‘‘ (اخبار تسنیم ۹؍ فروری ۱۹۵۵ء بحوالہ انکار حدیث کے نتائج ص۱۲)

’’قرآن میں جہاں جہاں اللہ ورسول کی اطاعت کا حکم دیاگیاہے، اس سے مراد امام وقت یعنی مرکز ملت کی اطاعت ہے۔ جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت میں موجود تھے، ان کی اطاعت اللہ ورسول کی اطاعت تھی اورآپ کے بعد آپ کے زندہ جانشینوں کی اطاعت اللہ ورسول کی اطاعت ہوگی، اور اطاعت عربی میں کہتے ہیں زندہ کی فرمانبرداری کو۔ رسول کی اطاعت یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے بعد جو کوئی ان کے نام سے کچھ کہہ دے، ہم اس کی تعمیل کرنے لگیں۔‘‘ (مقام حدیث ۱؍۱۵۵، از حافظ محمد اسلم جیراج پوری بحوالہ انکارحدیث کے نتائج ص ۵۶) 

یہ چند حوالہ جات عصر حاضر کے منکرین حدیث کی ذہنی نقاب کشائی کے لیے عرض کیے گئے ہیں۔ ان سے ان کے ذہن کی مکمل عکاسی ہو جاتی ہے۔ ان کے نزدیک قو ل وفعل پیغمبر حجت نہیں، حدیث رسول کی اطاعت شرک ہے، تمام انبیا ورسل کے مخاطب اہل حدیث تھے، اطاعت رسول کرنے والے ابدی ودائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے، (حالانکہ منکرین حدیث کے نزدیک کافروں کے لیے دائمی وابدی عذاب کاتصور قرآن کے خلاف ہے) سنت رسول نے اسلام کے ابتدائی جمہوری مزاج کو بگاڑا۔ سنت رسول نے وحدت امت کوپارہ پارہ کیا۔ اللہ ورسول کی اطاعت سے مراد حاکم وقت اورمرکز ملت کی اطاعت ہے، کیونکہ اطاعت کامطلب ہے زندہ کی فرمانبرداری۔ ہمارے خیال میں منکرین حدیث نے یہ نظریہ روافض سے لیا ہے، کیونکہ ان کے ہاں یہ اصول پایا جاتاہے کہ اذا مات المفتی مات الفتوی۔ غرضیکہ منکرین حدیث نے سنت رسول کی اہمیت وافادیت ختم کرنے کے لیے اپنی طر ف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی اورہر پہلو سے حملہ کرکے اس کی حجیت وحیثیت کومتاثرکرنے کی کوشش کی ہے۔ 

حضرت شیخ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اہمیت اور اس کے حجت شرعیہ ہونے پر اپنی کتب کے اندر مختلف مقامات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ چندحوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:

قرآن حکیم کی متعدد آیات کریمہ پر بحث کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ 

’’جس طرح قرآن کریم میں آپ کی اطاعت اوراتباع کوامت کے لیے لازم قرار دیاگیا ہے اورتمام امت پر آپ کے عمدہ ترین اسوہ حسنہ کی پیروی ضروری بتائی گئی ہے، اسی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیاں الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میری خواہش کے تابع نہ ہو۔(مشکوۃ شریف ۱/۳۰) یہ حدیث شرح السنۃ میں ہے اورامام نوویؒ اپنی اربعین میں فرماتے ہیں کہ ہذا حدیث صحیح۔ اور پروردگار عالم نے قسم اٹھا کر یہ حکم بیان کیا ہے کہ تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ آپ کو ہر بات اور ہر معاملہ میں اپنا فیصل اورحکم تسلیم نہ کرلیں اور آپ کے حکم کے سامنے گردن تسلیم خم نہ کرلیں۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۱۹، ۲۰)

’’قرآن کریم، حدیث شریف اورامت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ہررسول اور نبی اپنی امت کے لیے نمونہ اور اسوہ ہوتا ہے۔ اس کا قول وفعل (جو لغزش اور تخصیص کی مد میں نہ ہو) تمام امتیوں کے لیے لازم ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت واتباع کے بغیر نہ تو تقرب خداوندی حاصل ہوتا ہے اورنہ نجات اخروی ہی نصیب ہوسکتی ہے۔ وہ مطاع اور مقتدیٰ ہوکر آتاہے اور امت مطیع ومقتدی کہلاتی ہے۔‘‘ ( ایضاً ص۳۴)

’’مذہبی لحاظ سے سطح ارضی پر اگرچہ بے شمار فتنے رونما ہوچکے ہیں ، اب بھی موجود ہیں، اور تاقیامت باقی رہیں گے لیکن فتنہ انکار حدیث اپنی نوعیت کا واحد فتنہ ہے۔ باقی فتنوں سے تو شجرہ اسلام کے برگ وبار کوہی نقصان پہنچتا ہے لیکن اس فتنہ سے شجرہ اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں اوراسلام کا کوئی بدیہی سے بدیہی مسئلہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس عظیم فتنہ کے دست برد سے عقائد واعمال ،اخلاق ومعاملات، معیشت ومعاشرت اور دنیا وآخرت کاکوئی اہم مسئلہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا، حتیٰ کہ قرآن کریم کی تفسیر اورتشریح بھی کچھ کی کچھ ہوکر رہ گئی ہے اوراس فتنہ نے اسلام کی بساط کہن الٹ کر رکھ دی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۲۹)

حضرت شیخؒ نے اپنی ان مذکورہ تحریرات میں کھل کر واضح کردیا ہے کہ قرآنی ونبوی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان پر اطاعت رسول لازم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی ضروری ہے، اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ زندگی کے تمام امور میں آپ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کردے، اس کے بغیر نہ تقرب خداوندی حاصل ہوتا ہے اورنہ نجات اخروی ملتی ہے، سنت رسو ل کے انکار سے اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں، اس کا کوئی قطعی وبدیہی مسئلہ بھی اس سے ثابت نہیں ہوسکتا، اس کی وجہ سے ہر قسم کے عقائد واعمال، اخلاقیات ومعاملات، معیشت ومعاشرت اور دنیا وآخرت غیر محفوظ ہوکر رہ جاتی ہے، اس کی وجہ سے قرآن کی تعبیر وتشریح بھی حقیقت وواقعیت سے دور ہو کر رہ جاتی ہے کیونکہ تفسیر قرآن کا اولین ماخذ ہی سنت رسول ہے۔ 

حضرت شیخؒ کی تحریرات سے اخذکردہ مذکورہ تمام نتائج پر باربار نظر ڈالنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ عقائد واعمال ہوں یا اخلاقیات ومعاملات، معیشت ومعاشرت ہوں یا دنیا وآخرت، ان تمام امور میں فہم قرآن اور اتباع شریعت کے حوالے سے سنت رسول بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اسے نظر انداز کرنے یا اس کی تعریف وتعیین کے نئے دروازے کھولنے سے اسلام وشریعت کا پورا ڈھانچہ شکست وریخت کا شکار ہو سکتا ہے۔ 

سنت کیا ہے؟

ائمہ اہل سنت میں ایک طبقہ وہ ہے جوحدیث وسنت کو مترادف وہم معنی قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ ان دونوں میں فرق کرتا ہے۔ ان کے نزدیک حدیث، سنت تک پہنچنے کا ذریعہ ضرور ہے، لیکن خود سنت نہیں کیونکہ سنت جاری عمل کا نام ہے، اور حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ صحت وثقاہت کے باوجود امت کے جاری عمل میں داخل وشامل نہیں ہے۔ حضرت شیخ حافظ ابن رجب الحنبلی (جامع العلوم والحکم ۱/۱۹۱) کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ 

’’سنت اس راہ کانا م ہے جس راہ پر چلا جائے، اوریہ اس راہ کا تمسک ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خلفاے راشدین عامل تھے، عام اس سے کہ وہ اعتقادات ہوں یا اعمال واقوال، اور یہی سنت کا ملہ ہے۔‘‘ ( راہ سنت ص۳۱)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت کی اصل تلاش حدیث سے نہیں بلکہ خلفاے راشدین کے عمل سے ہوگی، اس لیے کہ سنت جاری عمل کانام ہے اور جاری عمل صحابہ کرام کے تعامل سے ہی ہو سکتا ہے، چنانچہ سنت کی شرعی حیثیت پر بحث کرتے ہوئے حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ :

’’جس طرح حکم خداوندی سے بے نیاز ی نہیں ہو سکتی، اس طرح اسوہ رسول اور سنت رسول اللہ سے بھی بے پروائی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ سنت رسول اللہ کی اطاعت بھی ایسی ہی ضروری ہے جیسی کتاب اللہ کی ، اس لیے کہ دونوں کی پیروی حکم الٰہی کی پیروی ہے اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت اوررسول اللہ کی اطاعت دومختلف چیزیں نہیں ہیں تو جس طرح قرآن مجید کی اطاعت خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔‘‘ (راہ سنت ص ۲۲)

حضرت شیخؒ نے صاف لفظوں میں یہ وضاحت فرما دی ہے کہ سنت ایک مستقل دلیل ہے، کسی دوسری دلیل کی ثانوی حیثیت نہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں کا جدت پسند طبقہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک جوسنت قرآن کے مطابق ہے، صرف وہی قابل قبول ہے اور جو سنت قرآن سے مطابقت نہیں رکھتی، وہ ناقابل قبول ہے۔ گویا سنت ان کے نزدیک مستقل دلیل نہیں اور پھر ظلم یہ ہے کہ کسی سنت کوقرآن کے مطا بق یا مخالف قرار دینے کے لیے بھی وہ صرف اپنی عقل کو اتھارٹی قرار دیتے ہیں۔ اور یہ وہی طبقہ ہے جو قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کو عقل کا وظیفہ قرار د یتا ہے۔ 

تیسری دلیل شرعی: اجماع امت 

اصول اہل سنت میں سے تیسرا اصول اور دلائل شرعیہ میں سے تیسر ی دلیل اجماع امت ہے۔ ترتیب ودرجہ کے اعتبار سے اگرچہ یہ تیسرے نمبر پر ہے، لیکن قوت ووزن کے اعتبارسے یہ سب سے فوقیت رکھتی ہے، اس لیے کہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کے لیے یہ سب سے بڑی اتھارٹی ہے ۔ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ اجتماعی مفادات وضروریات پر مشتمل کسی بھی قانون وضابطہ کی تشریح ووضاحت کے لیے اگر کوئی اتھارٹی متعین نہ کی جائے تووہ قانون وضابطہ بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا، اپنے بنیادی مقاصد اوراپنی اساسی حیثیت سے محروم ہوجائے گا، ہرخود غرض اس کی تعبیر وتشریح میں حصہ ڈالنا ا پنا فرض منصبی جانے گا اور پھر ان گنت تعبیر ات وتشریحات کے نیچے سسک سسک کر وہ قانون وضا بطہ دم توڑ ڈالے گا۔

ہر ہوش مند تعلیم یافتہ شخص اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے کہ دنیاکے ہرملک کے اندر دو بڑے ادارے کام کرتے ہیں۔ ایک مقننہ جوقانون سازی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور دوسری عدلیہ جو آئین ودستور کی تعبیر وتشریح اوراس کے عادلانہ ومنصفانہ نفاذ کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ ہر با شعور شخص جانتا ہے کہ مقننہ،قانون سازی کا وہ ادارہ ہے جس کے بغیر قانون سازی کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہوتا اور عدلیہ وہ اتھارٹی ہے جوقانون ساز ادارہ کے تیار کردہ آئین ودستور کی تعبیر وتشریح کاحق رکھتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ (سپریم کورٹ) کے سوا دستوری دفعات کی تعبیر وتشریح کااختیار نہ صدر کے پاس ہوتا ہے اورنہ وزیراعظم کے پاس، حتیٰ کہ اگر ان کے درمیان بھی اختیارات کا کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس کے تصفیے کے لیے بھی سپریم کورٹ کی طرف رجوع ضروری ہے۔ اگردستوری دفعات کی تعبیر وتشریح کی کوئی اتھارٹی متعین نہ کی جائے یااسے بے وقعت وبے اثر کر دیا جائے توملک کے اندر جنگل کاقانون آسکتاہے۔ 

ہمارے ملک کے اندر اس کی واضح مثال موجود ہے، جہاں سیاسی لحاظ سے بھی جنگل کا قانون ہے اور مذہبی اعتبارسے بھی، کیونکہ ملک کا ہر سیاستدان ملکی دستور کی ہر دفعہ کی من پسند تعبیر وتشریح کرنا اپنا قومی فریضہ جانتا ہے، اورملک کا ہر جد ت پسند قرآن وسنت کی من پسند تشریح کرنا اپناملی واسلامی حق جانتا ہے۔ ہمارے شیخ کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے ملک کی گنگا الٹی بہتی ہے۔ دنیاکے ہر ملک کے اندر حق، حق والے کا ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک کے اندر حق،طاقت والے کا ہوتا ہے۔ جیسے روڈ ٹرالے والے کا، اسمبلی پیسے والوں کی، اورحکومت وردی والے کی۔ میں حضرت شیخؒ کے اس مقولہ پر اتناضرور اضافہ کروں گا کہ مذہب میڈیا والوں کا۔ اگر ملکی حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کی پوری تصویر ہماری نظروں میں گھوم جائے گی اورواقعی یہ دونوں طبقے (سیاستدان اورجدت پسند) شتر بے مہار کی طرح نظر آئیں گے اور ان کے ہاتھوں دستور وشریعت کی دھجیاں بکھرتی ملیں گی۔ 

قرآن وسنت بھی ایک دستور ہے اور شریعت اسلامیہ کا سپریم لا ہے۔ کیا یہ اصول فطرت کے خلاف نہ ہو گا کہ اس دستور کو لاوارث چھوڑ دیا جائے؟اس کی تعبیر وتشریح کے لیے کوئی اتھارٹی موجود نہ ہو اور جو انانیت پر ست چاہے اس کی تعبیر وتشریح اپنے من پسند طریقہ سے کر کے اس کا حلیہ بگاڑ تا رہے؟ یہ اصول فطرت کے بھی منافی ہے اور حکمت ومصلحت کے بھی۔ ہر شخص کو عقل وبصیرت کے نام پر اس دستور الٰہی کی آبرو سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اس کے لیے کوئی اتھارٹی بہرحال تسلیم کرنا ہوگی۔ قرآن وسنت کی دستوری دفعا ت کی تعبیر وتشریح کے لیے ہردور میں اجماع امت کو اتھارٹی تسلیم کیا گیا ہے، اسی کی تعبیر وتشریح کو قبول کیا گیا ہے اور اسی کو افراط وتفریط اور بے اعتدالی سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ ہر دور کے جدت پسندوں نے اپنے خود ساختہ عقائد وافکار کی حفاظت واشاعت کے لیے اسی اتھارٹی پر سب سے زیاد ہ حملہ کیا ہے، اسی کو سب سے زیادہ مجروح کرنے کی کوشش کی ہے، اسی کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا ہے، شاذ اور مرجوح اقوال کی بنیا دپر اس کی اہمیت وحیثیت کو ختم یا کمزور کرنے کی کوششیں کی ہیں، لیکن بحمداللہ یہ آج بھی موجود ومحفوظ ہے اور جب تک قرآن وسنت باقی ہیں، یہ بھی موجود ومحفوظ رہے گا۔ کیسے ممکن ہے کہ دستور ومتن باقی رہیں اوران کی تعبیر وتشریح گم اور ضائع ہوجائے؟

اجماع امت امام اہل سنت کی نظر میں

ہم گزشتہ سطور میں واضح کرچکے ہیں کہ حضرت شیخؒ اجماع امت کو انتہائی اہمیت دیتے تھے اور تمام اجماعی مسائل کا اثبات اجماع ہی کے ذریعہ کرتے تھے۔ اس کی تفصیل آئندہ سطور میں بھی آئے گی۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ

’’ کتاب وسنت کے بعد دلائل کی مد میں اجماع کا مرتبہ اور درجہ ہے۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ آسانی کے لیے اجماع کا تجزیہ یوں کیا جا سکتاہے: حضرات خلفاے راشدین کا اجماع، عام صحابہ کرام کا اجماع اور امت محمدیہ کا اجماع۔ ان میں سے ہر ایک اجماع اپنے اپنے مقام پر صحیح اور حجت ہے۔‘‘ (راہ سنت ص۲۸)

حضرت شیخ نے اجماع امت کو حجت قرار دیتے ہوئے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہم ضروری خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ بحث کر لی جائے۔ 

پہلا درجہ: سنت خلفاے راشدینؓ: 

حضرت شیخ نے اجماع امت کے پہلے درجہ پر اجماع خلفاے راشدین کو رکھا ہے، یعنی وہ سنت خلفاے راشدین کو اجماع امت کا پہلا درجہ تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ آیت استخلاف کے تحت فرماتے ہیں:

’’لفظ استخلاف میں اشارہ ہے کہ وہ حضرات محض دنیوی سلاطین اورملوک کی طرح نہ تھے، بلکہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہوکر آسمانی بادشاہت کا اعلان کرنے والے اور دین حق کی بنیادیں جمانے والے تھے۔ یہ بات انصاف اور قیاس کے بالکل بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ان کو اپنے دین حق کی ترویج واشاعت کے لیے زمین کی خلافت ونیابت سپرد کر دے، اور وہ خدا تعالیٰ اوراس کے رسول برحق کے اعتماد واعتبار سے محروم رہیں۔‘‘ ( راہ سنت ص ۲۹)

اس کے بعد حضرت شیخؒ نے حدیث: ’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین‘‘ (بحوالہ ترمذی ۲/۹۲،ابن ماجہ ص۵ ، ابوداود ۲/۲۷۹ ، مستدرک حاکم ۱/۹۵قال الحاکم والذہبی صحیح) کے تحت حضرت ملاعلی قاریؓ (بحوالہ مرقات علی المشکوٰۃ ۱/۳۰ ) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

’’حضرات خلفاے راشدین نے درحقیقت آپ ہی کی سنت پر عمل کیا ہے اوران کی طرف سنت کی نسبت یا تو اس لیے ہوئی کہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور یا اس لیے کہ انہوں نے خود قیاس واستنباط کرکے اس کو اختیار کیا۔‘‘ (راہ سنت ص ۳۰)

غرضیکہ حضرت شیخؒ سنت خلفاے راشدین کو بھی حجت مانتے ہیں اور اس کی اتباع کو اہل سنت کی پہچان اور علامت قرا ر دیتے ہیں، چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’الحاصل حضرات خلفاے راشدین کی سنت حجت ہے اور امت کے لیے اس کی پیروی لازم اور ان کے عہد خلافت میں جن چیزوں پر حضرات صحابہ کرام کا اجماع ہوا، وہ بقول شیخ (عبدالقادر جیلانی) جماعت کا مفہوم ہے اور بغیر اس کے تسلیم کیے اہل السنۃ والجماعۃ کا مفہوم ہرگز پورا نہیں ہوتا۔‘‘ (راہ سنت ص ۳۲) 

ایک دوسرے مقام پر حدیث: ’’من یعش منکم بعدی فسیری اختلافاً کثیراً فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ وایاکم ومحدثا ت الامور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (مذکورہ حوالہ جات)بیان کرکے فرماتے ہیں کہ امام حاکم فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند بخاری ومسلم دونوں کی شرط پر صحیح ہے اورمجھے اس پر کوئی خرابی معلوم نہیں۔ (مستدرک ۱/۹۶) ناقد رجال علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں کوئی علت موجود نہیں اور امام ترمذی فرماتے ہیں: ھذا حدیث حسن صحیح (ترمذی ۲/۹۲)۔ اس کے بعد حضرت شیخؒ اس حدیث پر بایں الفاظ تبصرہ فرماتے ہیں کہ:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قواعد عربی کے لحاظ سے حضرات خلفاے راشدینؓ کی سنت کے وجوب اور لزوم اور اس کی مخالفت سے گریز واجتناب کی جتنی ممکن تعبیریں ہوسکتی تھیں، اس حدیث میں صاف طور پر ارشاد فرما دی ہیں، مثلاً:

۱۔ علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء کے جملہ میں آپ نے ان کو خلفاء کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ خلیفہ کاحکم اتنا ہی واجب الاتباع ہوتاہے جتنا کہ اصل کا، ورنہ خلیفہ ہونے کا مطلب ہی کیا؟ یعنی اتباع اور پیروی کے لحاظ سے جو حکم اصل کا ہے، وہی خلیفہ اورنائب کا ہے۔ 

۲۔ آپ نے اس لزوم کو علیکم کے لفظ سے ادا فرمایا ہے اور یہ لفظ وضعاً لزوم کے لیے آتا ہے۔ گویا آپ نے خلفاے راشدین کی سنت کو بھی ویسا ہی لازم اور ضروری قرار دیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت لازم اور ضروری ہے۔ (اس کے بعد حضرت شیخ نے علامہ ابن ہمام کی التحریر فی اصول الفقہ ص۲۰۳، علامہ صدرالشریعہ کی التوضیح والتلویح ص ۲۶۶ اور مولانا ظفر احمد عثمانی کی اعلاء السنن ۷/۴۵ کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ لفظ علی اور علیکم وجوب ولزوم پر دلالت کرتے ہیں۔) 

۳۔ لفظ سنت کی الخلفاء کی طرف اضافت ایک الگ قرینہ اور دلیل ہے۔ خلفاء کی سنت لازم ہے کیونکہ حضرات صحابہ کرام کے باقی آحاد وافراد کی پیروی بھی تو ما انا علیہ واصحابی کے پیش نظر مامور اور مستحب ہے۔ اگر سنت خلفا کا بھی یہی مقام اور درجہ ہوتو تخصیص باقی نہیں رہتی اور خلیفہ کا امتیاز کچھ نظر نہیں آتا، حالانکہ یہ صحیح حدیث اپنے سیاق وسباق کے اعتبار سے فرق عیاں اور نمایاں کرتی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔

۴۔ اس حدیث میں آپ نے خلفاء کو راشدین فرمایا ہے۔ روشن بات ہے کہ درست ورشد امر کی اتباع لازم ہے اوراس کے مقابلہ میں جوعمل ہو گا، وہ غیر رشد ہوگا۔ اور جب وہ بھلائی اوررشد نہ رہا تو اس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔ 

۵۔ راشدین کے بعد آپ نے مھدیین کالفظ فرما کر اس بات کو اور مضبوط وموکد کر دیا کہ جب وہ حضرات ہدایت یافتہ ہیں تو ان کی پیروی لازم ہوگی کیوں کہ اگر مھدیین کی اتباع لازم نہ ہوتوکس کی اتباع لازم ہوگی؟ مہدی وہی ہو سکتا ہے جس کو ہدایت کے بلند وبالا مقام پر فائز کیا گیا ہو۔ گویا انہوں نے یہ مقام ازخود حاصل نہیں کیا، بلکہ ان کو مرحمت ہوا ہے۔

۶۔ اس کے بعد تمسکوا بھا فرمایا ہے، یعنی اپنے قصد اور اختیار سے تم حضرات خلفاے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑو۔ کیونکہ لفظ تمسک باب تفعل سے ہے اورباب تفعل میں اکثر تکلف کامفہوم ملحوظ ہوتا ہے جو عامل کے کسب واختیار اور ارادہ پر دلالت کرتاہے تو مطلب یہ ہوا کہ غیر ارادی اور غیر شعوری پر نہیں بلکہ اپنے کسب وارادہ کے ساتھ میر ی سنت کی طرح میرے خلفاے راشدین کی سنت کوبھی مضبوطی سے پکڑو۔ 

۷۔ پھر مزید تاکید کرتے ہوئے عضوا علیھا بالنواجذ فرمایا کہ میری سنت کی طرح میرے خلفا کی سنت کو بھی اپنی ڈاڑھوں کے ساتھ نہایت مضبوطی سے پکڑو۔ اورواضح امر ہے کہ جو چیز ڈاڑھوں سے پکڑی جائے گی، وہ بہ نسبت دوسرے دانتوں میں پکڑنے سے زیادہ مضبوط ہوگی۔ اور تمسکوا بھا اور عضوا علیھا بالنواجذ کے دونوں حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفا کی سنت کی طرف یکساں راجع ہیں۔ سو اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مسلمانوں پر لازم الاتباع ہے تو خلفاے راشدین کی سنت بھی لازم الاتباع ہوگی، کیونکہ جب دونوں کا حکم ایک ہی انداز سے بیان کیا گیا ہے تو پھر بلاقطعی دلیل کے ان میں فرق کرنا بے سود اور لایعنی ہے اوراصول کے اعتبارسے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور پہلے بیان ہو چکاہے کہ معطوف اورمعطوف علیہ کا حکم ایک ہوتا ہے۔ 

۸۔ اس حدیث میں آپ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ جس آدمی کو طویل زندگی حاصل ہوگی اورمرور زمانہ کی و جہ سے دینی ومذہبی ماحول بدلتا جائے گا تو ایسے شخص کو بکثرت اختلاف نظر آئیں گے۔ اورفرمایا کہ ایسے مواقع پر ہر مسلمان کا اسلامی فریضہ یہ ہے کہ میری اورمیرے خلفا کی سنت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے اور اسی کی پیروی اور اتباع کرے۔ گویا اختلاف کے موقع پر اور اختلافی امور میں مسلمانوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حضرات خلفاے راشدین کی سنت حجت اور معیار ہے۔ 

۹۔ اس حدیث میں آپ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ آپ اور آپ کے حضرات خلفاے راشدین کی سنت کے مقابلہ جو جو امور اور جو جو کام رونما ہوں گے، وہ خالص بدعت ہوں گے، اس لیے آپ نے ایاکم ومحدثات الامور ارشاد فرماکر ایسے امور کے ارتکاب سے سختی سے نہی فرمائی ہے۔ اس سے یہ بات بھی بالکل آشکاراہوگئی کہ سنت مذکورہ کے برخلاف جو بھی عمل ایجا د کیا جائے گا، گووہ نیک نیتی سے ہی کیوں نہ ہو، وہ خالص بدعت ہوگا۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ ایسے فعل سے ہر مسلمان کا بچنا ضروری ہے۔ 

۱۰۔ پھر آپ نے محض لفظ بدعت پر اکتفا نہیں کیا تاکہ بدعت کے دل دادہ اوراس کے شیدائی اپنی مرضی سے بدعت کے ساتھ حسنہ کا پیوند لگا کر اس بدعت کی ترویج اور اشاعت پر کمربستہ ہو جائیں، بلکہ آپ نے ایک دوسری صحیح حدیث میں بدعت کے ساتھ لفظ ضلالۃ ارشاد فرما کر بدعت کا سیئۃ، ضلالۃ اور گمراہی ہونا متعین فرمادیاہے تاکہ کسی طرح بھی کسی کو کوئی شبہ پیش نہ آئے اور نہ ہی اس کا موقع مل سکے۔ چنانچہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ عموماً آپ خطبہ میں شر الامور محدثاتہا وکل بدعۃ ضلالۃ ( مسلم ۱/۲۸۵) کے الفاظ بھی فرمایا کرتے تھے یعنی برے کام وہ ہیں جو دین میں نئے نئے پیدا کیے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اور نسائی ۱/۱۷۹ میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: شر الامور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۔ یعنی نئے نئے کام جو دین میں گھڑے جائیں، وہ برے ہیں اور ہر نئی چیز جو دین میں نکالی جائے، وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کرنے والا دوزخ میں ہے۔ اور کل ضلالۃ فی النار کے الفاظ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص۶۴ میں بھی آتے ہیں۔‘‘ (رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص۱۴۔۱۹) 

حضرت شیخؒ نے نہایت دل نشین اور علمی وتحقیقی انداز میں حدیث علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین کی صحت وثقاہت اوراس میں سے نکات عشرہ بیان کر کے جدت پسندوں کے لیے تمام دروازے بند کردیے۔ اب اس کے بعد اگر کوئی بد نصیب سنت خلفاے راشدین کی اہمیت کونہ سمجھے اور اس کے مقابلے میں عقلی رائے قائم کرنے پر مصر رہے تو اس کی عقل پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے؟ 

دوسرا درجہ: تعامل صحابہ کرامؓ: 

حضرت شیخؒ نے اجماع کا دوسرا درجہ تعامل صحابہ کرام کو قرار دیا ہے، یعنی سنت خلفاے راشدین کے بعد تعامل صحابہ کرام کا درجہ ہے۔ دراصل یہ دونوں چیزیں سنت رسو ل کی تعبیر وتشریح کا درجہ رکھتی ہیں۔ جس طرح کتاب اللہ کو سنت رسول اللہ کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے، اسی طرح سنت رسول اللہ کو پانے اور سمجھنے کے لیے سنت خلفاے راشدین اورتعامل صحابہ کرام تک رسائی ضروری ہے۔ حضرت شیخؒ نے اسی لیے اجماع امت کے پہلے دو درجوں میں انہی کو رکھاہے،چنانچہ ایک مقام پر بایں الفاظ سرخی قائم کرتے ہیں کہ ’’حضرات صحابہ کرام بھی معیار حق ہیں اور ان کا اجماع حجت ہے‘‘۔ (راہ سنت ص ۳۶) یعنی خلفاے راشدین کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام بھی معیار حق وصداقت ہیں اور ان کا اجماع حجت ہے، چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ترمذی جلد ۲/۸۹، مستدرک حاکم ۱/۱۲۹، اور مشکوٰۃ ۱/۳۰ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی۔ سب کے سب فرقے دوزخ میں جائیں گے مگر صرف ایک فرقہ۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ وہ کون سا فرقہ ہوگا؟ فرمایا وہ فرقہ ہے: ما انا علیہ واصحابی، جس نے وہ کام کیے جو میں نے اور میرے صحابہ نے کیے ہیں۔ اور ایک دوسری روایت (ابوداؤد ۲/۲۷۵، مستدرک حاکم ۱/۱۲۸) میں وھی الجماعۃ کے الفاظ آئے ہیں، یعنی نجات پانے والا صرف وہی فرقہ ہے جو اس جماعت صحابہ کرام کاساتھ دینے والا ہو اوراسلام کی اس جماعت سے کٹ کر الگ نہ ہونے والا ہو۔ اس روایت سے معلوم ہواکہ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات خلفاے راشدین کی سنت ہمارے لیے مشعل راہ ہے، اسی طرح ما انا علیہ واصحابی کے ارشادکے تحت حضرات صحابہ کرام کے اقوا ل واعمال بھی ہمارے لیے حق کا معیار اور پیمانہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ما انا علیہ واصحابی کا ارشاد فرما کر اپنی ذات بابرکات اور اپنے صحابہ کرام کی ذوات قدسیہ کوحق اور باطل کے پرکھنے کا مقیاس بتایا ہے کہ محض کالے کالے نقوش ہی (یعنی الفاظ) معیار نہیں بلکہ وہ ذوات بھی معیار حق ہیں جن میں یہ حروف ونقوش، اعمال واحوال بن کر رچ گئے ہیں اور اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ اب ان کی ذوات کو دین سے الگ کرکے اوردین کو ان کی ذوات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ما انا علیہ واصحابی کی حدیث سے صرف حضرات صحابہ کرام کی منقبت اور فضیلت ہی ثابت نہیں ہوتی اور نیز ان کی محض مقتدائیت اورمقبولیت ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ امت کے حق وباطل کے لیے ان کی معیاری شان بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ محض حق پرنہیں بلکہ حق کے پرکھنے کی کسوٹی اور معیار بھی بن چکے ہیں جن سے دوسروں کا حق وباطل بھی کھل جاتا ہے۔ ان کا معیار حق وباطل ہونا صرف قیاسی نہیں، بلکہ ما انا علیہ واصحابی کے صریح ارشاد سے بطور نص ثابت ہے، نہ جیسا کہ باطل اور گمراہ فرقوں نے ان کو ہدف ملامت بنا کر درحقیقت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر کلوخ اندازی کی اور اسلام کی بنیادی حقیقت کوکھوکھلا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ حضرات صحابہ کرام کی ثقاہت اور عدالت، دیانت وامانت اور صداقت وللہیت ایسے مسلم امور ہیں جن پر مدار اسلام ہے اوران پر جرح وتعدیل کرنے والا دین کی عمارت کوگراتا ہے۔‘‘ (راہ سنت ص۳۷۔۳۸) 

پھر حضرت شیخؒ نے حضرت ملاعلی قاریؒ کی مرقا ۃ ۵/۵۱۷ اور امام ابن اثیر الجزری کی اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ۱/۲ کے حوالہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ صحابہ سب کے سب ثقہ وعادل ہیں اور ان پر جرح نہیں کی جا سکتی۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ 

’’غرضیکہ حضرات صحابہ کرام امت کے لیے حق و باطل،خیر وشر، سنت وبدعت اور ثواب وعقاب وغیرہ امور کے پرکھنے کی کسوٹی اور معیار حق ہیں۔ جوکام انہوں نے کیا، وہ حق اور سنت اور باعث نجات ہے اوران کا ہر قول وفعل ہمارے لیے ذریعہ فلاح اور وہی ہمارے لیے ترقی وسعادت کی راہ ہے، اوراس کی خلاف ورزی تباہی وبربادی پر منتج ہوگی اور بس۔‘‘ (راہ سنت، ص ۳۸)

آگے مزید فرماتے ہیں کہ:

’’اگر صحابہ کرام کا کسی بات پر اجماع واتفاق ہو جائے تو اس کے حجت اور قطعی ہونے میں شاید ہی کوئی بد بخت کلام کرتاہو۔‘‘ ( راہ سنت ص ۳۹)

اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی اقامۃ الدلیل ۳/۱۳۰ اور ابن حجرعسقلانی ؒ کی فتح البار ی ۳/۲۶۶ کے حوالہ سے ثابت کیا گیاہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام کااجماع حجت ہے، واجب الاتباع ہے، قوی تر ہے اور دوسری غیر منصوص حجتوں پر مقدم ہے۔ (راہ سنت ص ۳۹) 

اس تفصیلی بحث سے یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ حضرت شیخؒ کے نزدیک تعامل صحابہ اور اجماع صحابہ بھی حجت شرعیہ ہے اور اس سے انکار وانحراف کی صورت میں ضلالت وگمراہی پروان چڑھتی ہے۔ 

تعامل خیرالقرون: 

سنت خلفاے راشدین اورتعامل صحابہ کرام سے متصل ہونے کی بنا پر اجماع کے تیسرے درجہ میں تعامل خیرالقرون سب سے زیادہ اہم ہے اور بعد کے اجماع امت سے مقدم ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’حضرات صحابہ کرام کے بعد تابعین اور اتباع تابعین کی اکثریت کا کسی کام کو بلانکیر کرنا یا چھوڑنا بھی ایک حجت شرعی ہے اور ہمیں ان کی بھی پیروی کرنا ضروری ہے۔‘‘ (راہ سنت ص ۴۲) 

’’جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ خیرالقرون کے تین قرن ہیں اور ان قرون سے مراد حضرات صحابہ کرام اور تابعین اور اتباع تابعین کا قرن ہے تو طبقات رجال کی کتابوں میں اس کی تصریح ملتی ہے کہ تبع تابعین کادور ۲۲۰ھ تک رہا ہے اور یہی وہ حضرات ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر ہمیں کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اور وہی امت مرحومہ کا بہترین گروہ ہے۔‘‘ (راہ سنت ص۴۵) 

حضرت شیخؒ نے اپنے ان فرامین کے اندر خیرالقرون کے تعامل کی حجیت اور اس کے اسباب کھل کر بیان کردیے ہیں، اور یہ اجماع کے تیسرے درجہ کا پہلامرحلہ ہے۔ 

تیسرا درجہ: اجماع امت: 

حضرت شیخ نے اجماع امت کا تیسرادرجہ عام امت کے اجماع کو قرار دیا ہے، یعنی خیرالقرون کے بعد اصحاب علم وفضل کا اجماع۔اس اعتبار سے ہمارے خیال میں تعامل خیرالقرون (یعنی تابعین وتبع تابعین کاتعامل) برزخ یا حد فاصل کادرجہ رکھتا ہے جسے سنت خلفاے راشدین وتعامل صحابہ کا تتمہ بھی قرار دیا جا سکتاہے اور بعد والے اہل علم وفضل کے اجماع کامقدمہ بھی۔ تیسرے درجہ کے اجماع امت کے بارہ میں حضرت شیخؒ کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے: 

۱۔ ’’یہ امت کبھی ضلالت پرجمع نہ ہوگی‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ 

’’اگرچہ سینکڑوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں مذہبی اور سیاسی مخلصانہ ومفسدانہ اور خود غرضانہ فتنے اس دھرتی پر ایسے برپا ہو چکے ہیں جن کا تصور کرتے ہوئے بھی جسم کانپ جاتاہے، قلم میں لرزش پیدا ہو جاتی ہے، بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، اور زبان کو طاقت گفتار نہیں رہتی جن فتنوں میں کئی ایک بندگان حرص وہویٰ اجماع امت کے جادۂ مستقیم کو چھوڑ کر ضالۃ الغنم بن چکے ہیں، مگر بحمداللہ مجموعی طور پر اس امت مرحومہ کاکبھی ضلا لت وگمراہی پراجتماع نہیں ہوا اور بفضل اللہ تعالیٰ نہ تاقیامت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کادست قدرت ونصرت ہمیشہ سے اس جماعت پر رہا ہے اوربمنہ قیامت تک رہے گا۔‘‘ ( تبلیغ اسلام ص ۳۲)

۲۔ پھر حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت مستدرک حاکم ۱/۱۱۶ سے نقل فرماتے ہیں کہ:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یجمع اللہ امتی علی ضلالۃ ابدا وید اللہ علی الجماعۃ، اللہ تعالیٰ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر رہے گا۔ اسی مضمون کی روایت حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ترمذی ۲/۳۹ اور مستدرک ۱/۱۱۵ میں مروی ہے اور حضرت انس سے مستدرک ۱/۱۱۷ میں مروی ہے۔ غرضیکہ متعدد روایات اس پر پوری طرح روشنی ڈالتی ہیں کہ مجموعی لحاظ سے من حیث القوم یہ امت کبھی ضلالت پر جمع نہ ہوگی اورچودہ سوسال سے رب قدیر کے فضل وکرم سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ امت مرحومہ حق پر ڈٹی رہی ہے۔‘‘ (تبلیغ اسلام ص۳۲۔۳۳)

۳۔ ’’حضرات خلفاے راشدین کی سنت اور حضرات صحابہ کرام کے اجماع کے بعدامت مرحومہ کے اجماع واتفاق کادرجہ ہے۔ (پھر آیت کنتم خیر امۃ اخرجت للناس (آل عمران) اور متفق علیہ حدیث: انتم شہداء اللہ فی الارض (مشکوٰۃ ۱/۱۴۵) تم اللہ کی طرف سے زمین پر گواہ ہو، کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ) جس چیز کویہ امت خیر کہے گی، وہ عنداللہ بھی خیر ہوگی اور جس چیز کویہ شرکہے گی، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی شرہوگی۔ یہ امت سرکاری گواہ کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن اسی امت کی شہادت پر تمام امتوں کی قسمت کا فیصلہ ہوگا اور اسی امت کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ یہ کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی۔‘‘ (راہ سنت ص ۴۰) 

۴۔ ’’امام حاکم نے مستدر ک ۱/۱۲۰ اور ذہبی ؒ نے تلخیص مستدرک ۱/۱۲۰ میں حدیث انتم شہداء اللہ فی الارض سے اجماع امت کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔ حضرت ملاعلی قاریؒ مرقات ۱/۳۰ میں حدیث: ان اللہ لا یجمع امتی علی الضلالۃ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امت کا اجماع حق اور صحیح ہے۔ علامہ بزدوی الحنفی اصول بزدوی ۳/۳۶۱ میں فرماتے ہیں کہ اجماع کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن کریم کی آیت یا حدیث متواتر۔ جیسے یہ موجب علم وعمل ہیں، اس طرح اجماع بھی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ نفس اجماع کا منکر کافر ہوگا۔ ابن تیمیہؒ الجنۃ ص ۶۲ اور معارج الاصول ص ۱۱ میں فرماتے ہیں کہ امت کا اجماع فی نفسہ حق اور حجت ہے ۔ یہ امت کبھی کسی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔‘‘ (راہ سنت ص۴۱) 

۵۔ ’’تواتر کی چار قسمیں ہیں: ۱) تواتر اسناد جس کو تواتر لفظی بھی کہتے ہیں۔ ۲) تواتر طبقہ، جیساکہ قرآن کریم کا تواترسے نقل ہوتے ہوئے چلا آناکہ ہرپہلے طبقہ کے بعد اسے بعدکے آنے والے دوسرے طبقہ نے نقل کیا ہے۔ ۳) تواتر عمل وتوارث، جیسے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ اسلام کے بنیادی احکام کا طبقۃً بعد طبقۃٍ امت کے عمل اور توارث سے ان کا ثبوت ہے۔ ۴) تواتر قدر مشترک جس کو تواتر معنوی بھی کہتے ہیں، جیسے معجزہ کا تواتر کہ مفردات اگرچہ اخبار آحاد سے ثابت ہیں، لیکن قدر مشترک قطعی طورپر متواتر ہے۔ اور حدیث متواتر کا منکر کافر ہے۔‘‘ (احسان الباری ص ۳۲) 

۶۔ ’’خبرالواحد جو موید بالاجماع ہو، متواتر کے معنی میں ہے۔ اس کی مخالفت حرام ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۳۳) 

۷۔ ’’امام بزدویؒ کی اصول بزدوی ص ۲۴۷ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: ومن انکر الاجماع فقد ابطل الدین کلہ لان مدار اصول الدین کلہا ومرجعہا الی اجماع المسلمین، یعنی جس نے اجماع کا انکار کیا، پس تحقیق اس نے پورے دین کو باطل کر دیا کیونکہ پورے اصول دین کا مدار اجماع المسلمین کی طرف ہے۔‘‘ (احسان الباری ص ۳۴)

۸۔ ’’شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (مسویٰ ۲/۱۰۹) اور شاہ عبدالعزیزؓ (فتاویٰ عزیزی ۲/۱۵۶) وغیرہ بزرگوں کے حوالوں سے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ کتاب، سنت متواترہ اور اجماع امت سے جو چیز ثابت ہے، وہ قطعی اور ضروریات دین میں سے ہوتی ہے۔‘‘ ( ختم نبوت قرآن وسنت کی روشنی میں، ص ۳۵)

۹۔ علامہ محمد بن ابراہیم الوزیر یمانی، (ایثار الحق علی الخلق ص۲۴۱، اتحاف ۲/۱۳) علامہ شمس الدین احمد بن موسیٰ الخیالی اور علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی، (الخیالی مع حاشیۃ سیالکوٹی ص۱۴۶) شاہ ولی اللہ دہلویؒ ، (المسویٰ ۲/۱۰۹ ) ابن ہمام ؒ ، (مسایرہ ۲/۲۱۲) علامہ ا بن عابدین شامیؒ ، (رد المختار ۱/۳۷۷) حضرت مجدد الف ثانیؒ ، (مکتوبات ۳/۳۸) اور شاہ عبدالعزیز دہلویؒ (فتاویٰ عزیزی ۲/۱۵۶) کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ ضروریات دین میں تاویل کرنے والا کافر ہے۔ (ختم نبوت ص۳۲) 

۱۰۔ ’’نصوص قطعیہ اور احادیث صحیحہ وصریحہ کے مقابلہ میں غیر معصوم شخصیتوں کی لغزشوں کا نام عین ایمان نہیں ہے۔ عین ایمان قرآن، احادیث متواترہ اور اجماع قطعی کانام ہے۔ علماے دین کی غلطیاں اور لغزشیں عین ایمان ہرگز نہیں ہوا کرتیں۔‘‘ (دل کا سرور ص ۱۸۱) 

حضرت شیخؒ کی مختلف کتب سے مذکورہ دس حوالہ جات اجماع، اس کی اہمیت اور اس کے حکم سے متعلق ہم نے بیا ن کر دیے ہیں۔ ان حوالہ جات سے درج ذیل امور واضح ہو جاتے ہیں:

۱۔ امت مسلمہ من حیث الامۃ کسی گمراہی پر کبھی متفق نہ ہوگی۔ اس فرمان نبوی کی روشنی میں آج تک امت ہر قسم کی اجماعی گمراہی سے محفوظ ہے اور بحمداللہ قیامت تک محفوظ رہے گی۔ 

۲۔ماضی وحال میں بے شمار فتنے پیدا ہوئے جو اجماع امت کا راستہ چھوڑکر جادہ مستقیم سے ہٹ گئے اور گمراہی وضلالت کاشکار ہوگئے۔ 

۳۔ اجماع امت کی پیروی اور اتباع میں وحدت فکر کے ساتھ امت کا جو نظام چل رہا ہے، وہی جماعت کانظام ہے اور خدا تعالیٰ کی نصرت واعانت کا ہاتھ جماعت پر ہوتاہے۔ 

۴۔ امت مسلمہ کی حیثیت دیگر امتوں کے لیے شاہد وگواہ کی ہے اور گواہ کا عدالت پرقائم رہنا ضروری ہے۔ لہٰذا اس امت کی مجموعی حالت عدالت پر قائم ہے اوراس کے اجماعی فیصلے عدالت پر مبنی ہیں۔ جن چیزوں کواس نے خیر سمجھا، وہ عنداللہ خیر ہے اور جن چیزوں کو اس نے شر سمجھا، وہ عنداللہ شر ہے۔ 

۵۔ امت کا اجماع حق اور حجت ہے اور نفس اجماع کا منکر کافر ہے، کیوں کہ اجماع کا انکار کرنے والا پورے دین کی عمارت گرانے والا اور اس کو باطل کرنے والا ہے، اس لیے تمام اصول دین کامدار وانحصار اسی پر ہے۔ 

۶۔ متواتر کی چار قسمیں اپنے اپنے مقام پر درست اور صحیح ہیں۔ خبرواحد بھی جو موید بالاجماع ہو، متواتر کے حکم میں ہے۔ حدیث متواتر کی مخالفت حرام اوراس کا انکار کفر ہے۔

۷۔ قرآن، سنت متواترہ اور اجماع امت سے جو چیز ثابت ہو جائے، وہ قطعی اور ضروریات دین میں شامل ہوتی ہے اور ضروریات دین کا انکار یا ان میں تاویل کرنے والا کافر ہے۔ 

۸۔ قرآن، سنت متواترہ اور اجماع امت کے مقابلہ میں بزرگان دین کے متفرد اقوال ناقابل قبول ہیں اور ان پر عقیدہ وعمل کی بنیاد رکھنا غلط ہے۔ 

مندرجہ بالاامور کی روشنی میں اجماع امت کے بارے میں حضرت شیخؒ کاموقف ونظریہ غیر مبہم صورت میں ہمارے سامنے ہے اور بہت واضح طور پر یہ حقیقت حال ہمارے سامنے آرہی ہے کہ حضرت شیخؒ اجماع امت کوحق اور حجت مانتے ہیں اور اس کے منکر کو کافر قرار دیتے ہیں۔ مذکورہ حوالہ جات سے یہ با ت بھی کافی حدتک واضح ہوجاتی ہے کہ سنت متواترہ اور اجماع امت کے اندر لفظی اختلاف کے علاوہ کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ جب خبرواحد بھی متن کے اعتبار سے موید بالاجماع ہونے سے خبر متواتر قرار پاتی ہے تو اصل بنیاد اجماع ہی ٹھہری، لہٰذا اجماع کی حقیقت وواقعیت سے انکار صرف اور صرف خود فریبی ہی ہو سکتی ہے۔

حافظ محمد عمار خان ناصر کی علمی بے راہ روی 

میرے انتہائی پیارے عزیز اور بھتیجے (برادرمکرم علامہ زاہدالراشدی مدظلہ کے فرزند) حافظ محمدعمارخان ناصر بچپن سے ہی خداداد ذہانت کے مالک ہیں۔ قدرت نے انہیں بے پناہ ذہانت سے نوازا ہے۔ وہ بلا کا حافظہ رکھتے ہیں اور بچپن سے مطالعہ کا بھی ذوق وجنون ہے، اور یہ فطرت کا قانون ہے کہ اگرکسی ذہین وفطین آدمی کو تربیتی سختیوں سے آزاد کر دیا جائے اور اسے نگرانی کے حصارمیں نہ رکھا جائے تو اس کے بہکنے کا ہر وقت اندیشہ رہتا ہے اور اس کے فکری بے راہ روی کا شکار ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ماضی میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی ذہانت وفطانت ہی تھی جس نے ان کے مرشد وسرپرست حافظ محمد صدیق بھرچونڈوی ؒ کو پریشان کر دیا تھا اور انہوں نے مولانا سندھیؒ کو بغرض تعلیم رخصت کرتے وقت دعا کی تھی کہ یااللہ! اس کا واسطہ کسی متبحر اور پختہ کار عالم سے پڑے، اور حضرت سندھیؒ خود فرماتے ہیں کہ میرے مرشد ومربی کی دعا مجھے حضرت شیخ الہندؒ کے قدموں تک لے آئی۔ غرضیکہ ذہین آدمی کی فکری تربیت کی نگرانی بہت ضروری ہوتی ہے اور اگر وہ مطالعہ کا ذوق وشوق بھی رکھتا ہو تو نگرانی میں شدت شامل کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی ذہانت وفطانت سے ہر صاحب علم ومطالعہ اچھی طرح واقف وباخبر ہے۔ تقریباً بارہ سال کی عمرمیں وہ جملہ علوم وفنون کی تعلیم سے فار غ ہو چکے تھے۔ ان کی اسی ذہانت وفطانت کی بنا پر ان کے والد گرامی مولانا خیرالدین ؒ ان کے بارے میں پریشان رہتے تھے اور ان کے بچپن میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اپنے بیٹے کی ذہانت سے خوف آتاہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کی ذہانت اسے کسی نئے رخ پر نہ لگا دے اور وہ نیارخ اس کی اوراس کے ذریعہ دیگر لوگوں کی گمراہی کا باعث نہ بن جائے اور اسے اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک حقہ سے دور نہ کر دے۔ مولانا آزادؒ کے والد محترم ؒ کی ماضی پر نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ماضی کے اندر ذہین وفطین لوگوں کے اٹھائے ہوئے فتنے ہزاروں لوگوں کے ایمان غارت کر چکے ہیں اور ہم اپنے شیخ ومرشدؒ کاقول بھی ان فتنوں کے بارے میں گزشتہ سطور میں بیان کر چکے ہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ فکری اصلاح کے لیے دھونس سے کام نہیں لینا چاہیے، لیکن ہمیں اس سے ہرگز اتفاق نہیں، کیونکہ جب کوئی شخص اپنے آبا واجداد کے فکری اصولوں میں برملا طور پر دھاندلی سے کام لے رہا ہو تواسے دھونس کے ذریعے راہ راست پر لانا اس کے سرپرستوں کی شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے۔ قرون اولیٰ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور خود ہمار ے حضرت شیخؒ کا طرز تربیت اس بارے میں جو کچھ تھا، وہ کسی سے مخفی نہیں۔اس کی تفصیلات ہم آگے چل کرعرض کریں گے۔ 

بہرحال مولاناخیرالدینؒ کا خدشہ وخطرہ بہت حد تک درست ثابت ہوا اور مولانا آزاد اپنے آزادانہ مطالعہ اور ذہانت کی بنا پر سرسید احمد خان کی نیچری تحریک سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ بعد میں جب وہ حضر ت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی سیاسی تحریک سے وابستہ ہوئے اور ان کی صحبت ومعیت نصیب ہوئی تو رفتہ رفتہ واپسی کا سفر اختیار کیا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی ان کے بعض تفردات قائم رہے، لیکن کسی گمراہ اور گمراہ کن تحریک سے ان کی وابستگی ختم ہوگئی۔ وہ نیچری تحریک کے ساتھ وابستگی کے نتائج پرتبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’والدمرحوم کہا کرتے تھے کہ گمراہی کی موجودہ ترتیب یوں ہے کہ پہلے وہابیت (یعنی ترک تقلید)، پھر نیچریت۔ نیچریت کے بعد تیسری قدرتی منزل جو الحاد قطعی کی ہے ،اس کا ذکر نہیں کرتے تھے، اس لیے کہ وہ نیچریت کو ہی الحاد قطعی سمجھتے تھے، لیکن میں یہ تسلیم کرتے ہوئے اتنا اضافہ کرتا ہوں کہ تیسری منزل الحاد ہے اور ٹھیک ٹھیک مجھے یہی پیش آیا۔ 

سرسید مرحوم کو بھی پہلی منزل وہابیت (ترک تقلید) کی ہی پیش آئی تھی۔ اصل یہ ہے کہ عقائد وفکر کے توسیع وتطور کے لیے پہلی چیز یہ ہے کہ تقلید کی بندشوں سے پاؤں آزاد ہوں۔ وہابیت اس زنجیر کو توڑتی ہے۔ اگرا س کے بعد آزادئ فکر، بے قیدی اور مطلق العنانی کی صورت اختیار کر لے تو بلاشبہ یہ نہایت مضر صورتیں بھی اختیار کر سکتی ہے۔ زندگی کے اس حصہ میری دماغی حالت حسب ذیل تھی:

۱۔ تقلید ورسوم کی بندشیں ٹوٹ چکی تھی۔

۲۔ تقلید آبا واجداد کے تمام نقوش اگر مٹ نہیں چکے تھے تو بہت مدھم پڑ چکے تھے۔ 

۳۔ لیکن آزادئ فکر نے ابھی کوئی مطمئن حالت حاصل نہیں کی تھی۔ شکوک وشبہات نئے نئے اٹھ رہے تھے۔ گردو پیش میں اس کے دفع کی قوت نہ تھی، بلکہ ضعف کی وجہ سے اور برانگیختگی ہو رہی تھی۔ اکثر حالتوں میں شکوک فتح مند رہتے تھے۔ مطالعہ کی وسعت انہیں اور بڑھا رہی تھی اور نئے نئے میدان بھی کھل رہے تھے۔

۴۔ طبیعت پوری طرح قدرتی طور پر کسی نئی حالت کے لیے تیار ومنتظر تھی۔‘‘ (آزادکی کہانی خود ان کی زبانی، ص۳۶۸)

مولاناآزاد ؒ کے اس فرمان میں یہ بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ تقلید کی بندشوں سے آزادی کی ضرورت اسے محسوس ہوتی ہے جو اسلاف کے عقائد وافکارپر مطمئن نہیں ہوتا، بلکہ ان میں تبدیلی، ترقی یا ان کی تشکیل نو کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہی چیز اسے تقلید کی بندشوں سے آزاد ہونے پر مجبو ر کرتی اور اسے آزادئ فکر، بے قیدی اور مطلق العنانی کی گمنام منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مولانا آزاد ؒ جیساذہین وفطین آدمی اپنی ذہنی حالت جس انداز سے بیان کر رہا ہے، وہ آزادی فکر کے متلاشیوں کے لیے قابل عبرت ہے۔ کاش وہ اس سے عبرت حاصل کرسکیں۔ مولانا آزادؒ اپنی اس دور ضلالت کی ذہنی حالت وکیفیت پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’اب معاملہ تقلید وعدم تقلید اور وہابیت وحنفیت سے گزرچکاتھا، اور ایک ایسی بلندی پر اپنی جگہ محسوس ہو رہی تھی جہاں یہ تمام جماعتیں، یہ تمام عقائد وافکار اور یہ تمام جھگڑے بالکل حقیر دکھائی دیتے تھے۔ خواہ حنفی ہوں خواہ غیر مقلد، شیعہ ہوں یا سنی، ماتریدی ہوں یا اشعری، ایسا معلوم ہوتاتھا کہ ان میں سے کوئی بھی اسلام کی اصلی حقیقت یا سرسید کی اصطلاح میں ٹھیٹھ اسلام سے آشنا نہیں۔ قرآن کے اصلی حقائق ومعارف اور مذہب کی اصلی تعلیمات توو ہ ہیں جن کے چہرے پر سے تیرہ سو برس بعد اس مجدد اعظم (جیسا کہ میری اس وقت کی بول چال تھی، یعنی سرسید) نے پردہ ہٹایا ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۳۷۰) 

یہ تھا تقلید کی بندشوں سے آزادی کاانجام جوابوالکلام آزاد ؒ جیسے عبقری انسان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا پچھتاوا بن گیا اور ایک مدت اس کی تلافی میں گزری۔ ذہنی کیفیت میں تغیر کے ساتھ ساتھ عملی حالت میں جو تبدیلیاں پیدا ہوئیں، ان کا تذکرہ مولانا آزادؒ بایں الفاظ فرماتے ہیں کہ:

’’جب اس بات کا استغراق بڑھ گیا کہ تمام واجبات وفرائض شرعیہ ان ان مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہیں اور مقصود صرف ان فوائد کاحصو ل ہے تو پھر ظاہر ہے کہ طبیعت میں اداے فرض کا کوئی جذبہ باقی نہیں رہتا۔ اہل مذاہب کے تشدد اور تاکیدات بالکل ایک طرح کی عدالتی تنبیہات معلوم ہونے لگتی ہیں۔‘‘ (ایضاً ص ۳۹۴) 

’’جب نئی روشن خیالی کی ہوا لگی اور سرسید مرحوم کا رنگ چڑھا تو اس کا اثر صرف عقائد وافکار ہی کے دائرہ میں محدود نہ تھا، بلکہ اعمال پر بھی پڑتاتھا۔ اب صوم وصلوٰۃ کی حقیقت ہم وہ نہیں سمجھتے تھے جو عام لوگ سمجھتے تھے۔‘‘ ( ایضاً ص۳۹۸) 

’’چند دنوں کی فکر وکشمکش کے بعدایک دن شب کو آخری فیصلہ کر لیا اور صبح سے نماز ترک کردی۔‘‘ (ص۴۰۰) 

’’ اس کے بعد بالالتزام نماز ترک کردی۔‘‘ ( ص۴۰۱)

غور فرمائیے تقلید کی بندشوں سے آزادی کے جنون اور آزادانہ مطالعہ کی وسعت نے مولاناآزادؒ جیسے ذہین وفطین اور صاحب علم وبصیرت انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟ تیرہ سوسالہ امت مرحومہ کے فقہا ومحدثین او رمفسرین ومتکلمین کا ادب واحترام دل سے ختم ہوا، ان کی جملہ تعلیمات وتحقیقات عدم اعتماد کی نذر ہوگئیں، منصوص اور اجماعی عقائد وافکار متزلزل وبے یقینی کا شکار ہوئے، عبادات شرعیہ کی محبت واہمیت دل ودماغ سے رفو چکر ہو گئی، اعمال صالحہ میں شدید قسم کاضعف پیدا ہوا، حتیٰ کہ روزہ جیسا اہم دینی فریضہ عملی زندگی سے نکل گیا، بچپن سے نماز کی مستقل عادت، محرومیت میں بدل گئی۔ اوریہ سب کچھ تحقیقات سلف پر عدم اعتمادی کا نتیجہ تھا، منصوص واجماعی مسائل سے انحراف وروگردانی کا رزلٹ آؤٹ ہو رہا تھا، آزاد ئ فکر اور روشن خیالی کا خوفناک جن بوتل سے باہر آرہا تھا۔ اس لیے مولانا آزاد مرحوم نیچریت کے ذہنی شکنجہ سے نکلنے اور اعتماد کی طرف واپس پلٹنے کے بعد ترک تقلید کوگمراہی وضلالت کی اولین بنیاد اور الحاد وزندقہ کی پہلی سیڑھی قرار دیتے تھے اور اس حقیقت کا برملااعتراف کرتے تھے کہ نیچریت اور اس سے آگے الحاد تک میر ی رسائی اورگمراہی کا بنیاد ی سبب بھی ترک تقلید ہی تھی اور سر سید احمد خان کو بھی اپنی نیچری تحریک اٹھانے کے لیے پہلے ترک تقلید کی منزلیں ہی عبور کرنا پڑیں۔

تقلید کی بندشوں سے آزادی حاصل کر لینے والا شخص اجتہاد کے نام پر اپنے دائرۂ کار واختیار کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ پھر اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اجماعی واتفاقی مسائل کو بھی دائرۂ اجتہاد میں شامل کر لیا جائے، کیوں کہ اجتہاد ہی وہ واحد دروازہ ہے جس کے ذریعہ کسی بھی مسئلہ میں منہ مارا جا سکتا ہے۔ پھر نتیجہ ظاہر ہے۔ اور یہ خرابی عموماً انہی لوگوں میں پید اہوتی ہے جو ذہین اور وسیع المطالعہ ہونے کی بنا پر جنون اجتہاد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگران لوگوں کو سرپرستانہ نگرانی او ر تربیتی سختیوں سے آزاد کر دیا جائے تو ان کے اندر ذہنی آوارگی پیدا ہو جاتی ہے، کیونکہ بلاامتیاز حق وباطل اور ہدایت وضلالت کا دو طرفہ آزادانہ مطالعہ کسی نگرانی وراہنمائی کے بغیر ان گنت شکوک کا بیج بو دیتا ہے اور انسان از خود ہی اپنے ذہن کے اخذ کردہ نتائج وافکار کی طرف تیزی سے بڑھنے لگتاہے جس کے نتیجہ میں وہ اپنے اکابر واسلاف کے فکر وفلسفہ اوران کے اصول وطرز تحقیق سے دور اور بہت دورہوتا چلاجاتاہے اور اسے گمراہی کی انتہائی منزل تک پہنچنے کے لیے بہت سے ذہنی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ 

دعوتی اور تربیتی تقاضوں میں فرق 

آج مکالمہ بین المذاہب کے عنوان سے بین الاقوامی پروپیگنڈے نے بعض حضرات کے دماغوں میں خرابی اور بعض کے ذہنوں میں شدید قسم کی غلط فہمی پید اکر رکھی ہے کہ انسانی ذہن پر فکر وعقیدہ کی گرفت ڈھیلی رہنی چاہیے، کسی قسم کے مذہبی عقائد واعمال کے بار ے میں سختی وتشدد کا دروازہ بند ہونا چاہیے، آدمی کو فکر وعمل کے حوالے سے آزاد چھوڑ دینا چاہیے، وہ اپنی سوچ وفکر کے ساتھ جو چاہے کرے۔ لیکن ہمارے دینی دانشور اس پہلو پر غور نہیں کر ر ہے کہ یہ پروپیگنڈا کرنے والی طاقت و ہ ہے جس نے عالمی ذرائع ابلاغ اور انٹرنیشنل میڈیا کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اوراس کے ذریعہ وہی فکروفلسفہ پبلک کے سامنے لایا جا رہا ہے جس پر امریکی ویورپین دانشوروں کی مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ مکالمہ بین المذاہب کایہ فلسفہ اور عدم تشدد کی یہ پالیسی قومی وعالمی تناظر میں دلائل وبراہین کے تبادلہ کے حوالہ سے ممکن ہے درست اور صحیح ہو، لیکن ہمارے ناقص خیال میں خوفناک اعتقادی فتنوں اور تباہ کن الحادی تحریکوں کے اس خطرناک ماحول میں اصلاح وتربیت کے حوالہ سے اس فلسفہ اور پالیسی کو کسی طور پر مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس پالیسی کو صرف دعوتی محاذ تک محدود رہنا چاہیے۔ اس کی بنیاد پر اپنی سرپرستانہ اور مربیانہ ذمہ داریوں سے صر ف نظر کر لینا شاید دانش مندانہ طرز فکر نہ ہو۔ کیونکہ ہمارے مذہبی ماحول میں جد ت پسندی اور روشن خیالی کا جو طرز تحقیق ماحولیات کے حوالے سے اپنے اندر ایک اثر وکشش رکھتا ہے، وہ ہماری سوسائٹی کے ضعیف الاعتقاد، توہم پرست، سہل پسند، شرعی پابندیوں سے نالاں، من پسندانہ دینی سہولتوں کے متلاشی اور اعمال صالحہ وعبادات شرعیہ سے چھٹکارا حاصل کر کے بھی پکے اور ٹھیٹھ مسلمان باقی رہنے کے خواہشمند نوجوانوں کے لیے انتہائی مہلک اور زہر قاتل ہے۔ عصر حاضر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر سب سے پہلا حملہ عصری تقاضوں کے حوالہ سے ہوتا ہے۔ چونکہ دینی تعلیمات سے محروم مسلمان اپنے موجودہ تہذیبی وثقافتی ماحو ل سے ذہنی طورپر نکلنا پسند نہیں کرتا، اس لیے وہ اس حملہ کے اثرات قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا اوریہ خوفناک حملہ جدید تہذیب وتمدن سے مرعوب ومتاثر مسلمانوں کو اسلاف امت اور ان کی تحقیقات سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ایسے حالات میں والدین، اساتذہ اور دیگر ایسے سرپرستوں کو اپنے زیر اثر افراد واشخاص کی اصلاح وتربیت کی سرپرستانہ ذمہ داریوں سے بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

فرمان نبوی: الا کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ کی روشنی میں سرپرست ونگران کی حیثیت اپنے ماتحت وزیر اثر افراد کے لیے حکمران کی قرار دی گئی ہے او ر اگر حکمران قانون کی بالادستی کے لیے اپنا اختیار استعمال نہ کرے تو نظام مملکت بگڑ سکتا ہے، رعایا میں بغاوت وسرکشی پیدا ہو سکتی ہے اور فکری وحدت پارہ پارہ ہو کر مملکت کو کمزور کر سکتی ہے۔ دعوتی محاذ پر اگرچہ اکراہ فی الدین سے منع کیا گیاہے، لیکن دینی اصلاح وتربیت کے لیے سختی کاحکم بھی موجود ہے ۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ :

’’حدیث میں آتا ہے کہ جب بچے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کو نماز کا حکم دو، اور جب دس سال تک پہنچ جائیں توان کونماز ترک کرنے کی وجہ سے مارو پیٹو۔‘‘ (آئینہ محمدی ص۱۵)

عقائد وافکار بہرحال فرائض واعمال سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں لہٰذا ان کی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمارا اس پوری بحث سے یہ مقصد ومطلب ہرگز نہیں کہ اپنے ماتحت وزیر اثر اہل علم افراد کو جبر وتشدد کے ذریعہ تحقیق سے روکا جائے، البتہ ہمارے خیال میں یہ ضروری ہے کہ اس کو اپنا اختیار واثر استعمال کرکے تحقیقی اصولوں کے دائرے میں بند رکھا جائے اور مسلمہ اصولوں کے دائرہ میں اس کی تحقیقات کی نگرانی واصلاح کی جائے۔ مسلمہ اصولوں کی حدود پھلانگ کر کی جانے والی تحقیق کی بہرحال حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ 

مرعو ب و دہشت زدہ کون؟

جد ت پسندی سے متاثر بعض حضرات قدامت پسندوں پر یہ طعن بھی کرتے ہیں کہ یہ حالات کاسامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، اس لیے فتو یٰ کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ جدت پسندوں کایہ طنز وطعن اب ایک مستقل پروپیگنڈا اور تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ جدید مفکرین کے افکار جدید سے متاثر ومرعوب ایک ایسے ہی دوست سے عرصہ ہوا ملاقات ہوئی تو حیات مسیح ومعجزات انبیاے کرام وغیرہ متواتر واجماعی عقائد ونظریات سے انکاری تھا۔ دوران ملاقات اس نے مجھے گھسا پٹا طعنہ دیا کہ تم مولوی لوگ چونکہ عصر حاضر کی عقلی تحریکوں کے فکر وفلسفہ کاسامنا کرنے اور ان کا جواب دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے اورا ن سے ذہنی طو ر پر مرعوب ودہشت زدہ ہو، اس لیے تم ان کا عقلی حوالے سے مقابلہ کرنے کی بجائے اسلاف کے دامن تحقیق میں پناہیں تلاش کرتے ہو۔ میں نے اس سے کہا کہ تم لوگوں نے ان سے عقلی مقابلہ کی آڑ لے کر کون سا تیر چلایا ہے؟ فکری وعملی طور پر خود کوان کے رنگ میں رنگ کر اور ان کے افکار ونظریات کوقبو ل کرکے آخر تم نے اسلام کی کون سی خدمت سرانجام دی ہے؟ ان عقلی وسائنسی تحریکوں نے جب یہ دعویٰ کیاکہ انسان کاکسی سائنسی ٹیکنالوجی کے بغیر فضاؤں میں بلند ہونا اور ہوا وآتش کے کروں کو عبور کر لینا عقل کے منافی ہے تو تم نے ان کی اس بودی دلیل کے سامنے ہتھیار ڈال کر فوراً حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج جسمانی کا انکار کر دیا۔ ان عقلی تحریکوں نے اسباب ظاہرہ کے بغیر کسی کام کے وقوع وظہور کو خلاف عقل قرار دیا تو تم لوگ فوراً ہی معجزات انبیاے کرام سے منکر ومنحرف ہوگئے اور اس سے انکار وانحراف کے لیے تم لوگوں نے ایسی ایسی ناقص تاویلیں کیں کہ شیطان کی عقل بھی دنگ رہ گئی۔ تم نے اس مذموم مقصد کے لیے اجماع امت، احادیث صحیحہ اورآیات صریحہ تک کو پس پشت ڈال دیا۔ ان عقلی تحریکوں نے دعویٰ کیاکہ انسانی حواس ومشاہدہ سے باہر کائنات کے اندر کسی چیز کا وجود تسلیم کرناخلاف عقل ہے توتم نے فوراً ملائکہ وجنات جیسی غیر محسوس مخلوقات کے عدم وجود کا فتویٰ دے دیا۔ ان عقلی تحریکوں نے اپنے کلچر وثقافت کے فروغ ودفاع کے لیے نام نہاد انسانی حقوق کا چارٹر تیار کیا تو تم پردہ جیسے حکم شرعی سے پیچھا چھڑانے کے بہانے تراشنے لگے، حدوداللہ کو ظالمانہ سزائیں قرار دے دیا اور ان بحثوں کا بازار گرم کر دیا کہ حدود اللہ کی سزائیں عام مجرموں کے لیے ہیں یا پیشہ ور مجرموں کے لیے۔ غرضیکہ تم علانیہ طور پر قرآن وسنت اور منصوص واجماعی مسائل واحکام سے منحرف ہوتے چلے گئے اور عقلی تحریکوں کافکر وفلسفہ قبو ل کر لیا اور پھر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ الزام ہمیں دیتے ہو کہ ان عقلی تحریکوں سے مرعوب ودہشت زدہ ہم ہیں۔ پسپائی تم نے اختیار کی، ہتھیار تم نے ڈالے، اپنی متواتر تعلیمات کا قلعہ تم نے منہدم کیا اور مرعوبیت کا طنز وطعن ہم پر ہے، حالانکہ ہم تو آج بھی بحمداللہ اپنی بنیادوں پر قائم ہیں، اپنی تعلیمات وروایات سے پوری طرح وابستہ ہیں، اپنے اکابر واسلاف کی تحقیقات سے پوری طرح مطمئن ہیں اور آج بھی اپنی تمام تر متواتر واجماعی تعلیمات کو ثابت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ باقی رہا فتویٰ کی زبان میں بات کرنے کا مسئلہ تو فتویٰ ان لوگوں کے لیے ہوتاہے جو دلائل کا موازنہ کرنے کی اہلیت وصلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ انہیں گمراہ کن فتنوں کی گمراہی سے بچانے کے لیے فتویٰ کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی گئی اور کی جاتی رہے گی۔ 

امام اہل سنت کا طرز تربیت 

خاندان صفدریہ کاہروہ فرد جو حضرت شیخ ؒ کے ایام صحت وتندرستی کے معمولات سے باخبر ہے، وہ اس بات کی شہادت دے گا کہ حضرت شیخ ؒ اپنے بچوں کی اعتقادی واخلاقی تربیت واصلاح میں بہت سخت گیر تھے اور اس معاملہ میں ان کے اندر نرمی کا کوئی گوشہ نہ تھا۔ سب بچوں کی ڈاڑھیوں کو چیک کرنا، جس پر ڈاڑھی کٹانے کا شبہ ہو، اسے سخت سزا دینا، ہرجمعہ کواپنے ہاتھوں سے سب کے ناخن کاٹنا، ناخن بڑھے ہوئے دیکھ کر سزا دینا، مہینہ میں کم ازکم ایک بار سب کی حجامتیں اپنی نگرانی میں بنوانا گویاا ن کی ڈیوٹی کاحصہ تھا۔ ان کی تمام اولادکے اندر مسلکی پختگی اور اسلاف کی تحقیقات پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد ان کی اسی سخت نگرانی وشد ت کا نتیجہ ہے۔

صحت کے دور میں سب بچوں کو اپنے ساتھ مسجد لے کر جانا، نماز کے بعد ان کو صفوں میں چیک کرنا، پہلی رکعت چھوڑ نے کی صورت میں سزا دینا، نمازکے اندر سستی اور تعلیم واسباق کے اندر غفلت برتنے والوں کی پٹائی کرنا ان کا مستقل معمول تھا اور خاندان صفدریہ کا ہر فرد اس سے پوری طرح با خبر ہے۔ بچپن میں تمام بچوں پر دیوبندی کتب ورسائل کے علاوہ باقی مذاہب ومسالک اور فرقوں کی کتب اور رسائل کا مطالعہ کرنے پر سخت پابندی تھی۔ حضرت شیخ ؒ کے پاس قادیانی، روافض، منکرین حدیث، اہل حدیث اور بریلوی وغیرہ تمام مکتب فکر کے رسائل آتے تھے، لیکن سب بچوں کوان میں سے دیوبندی مکتب فکر کے رسائل ( بینات، البلاغ، الفرقان، الحق، ترجمان اسلام اور خدام الدین وغیرہ) کے علاوہ کوئی رسالہ پڑھنے کی کسی کواجازت نہ تھی۔ یہ واردات اگرکسی نے کرناہوتی تو انتہائی خفیہ اور غیرمحسوس طریقہ سے کرتا۔ متعدد بار اس معاملہ میں میری او ر بھائی جان محمد اشرف خان ماجد مرحوم کی پٹائی بھی ہوئی۔ حضرت شیخ ؒ کی طرف سے اس پابندی وسختی کے خوش کن اور دوررس اثرات اس وقت بہت نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آئے جب ہم نے فکری واعتقادی میدان میں عملی جدوجہد کے لیے قدم رکھا۔ 

صرف بچوں کی نہیں بلکہ مریدین وتلامذہ کی اصلاح وتربیت کے لیے بھی وہ کافی حد تک سختی سے کام لیتے تھے اورانہیں قدم قدم پر اسلاف کی تحقیقات سے جڑ ے رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ ایک بار ان کے ایک مرید نے، جو ہائی سکول میں ٹیچر تھے اور سیالکوٹ یا پسرور سے اکثر حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں تشریف لایاکرتے تھے ، چند غیر مسلکی کتابوں کے مطالعہ کی اجازت چاہی تو حضرت شیخ ؒ نے فرمایاکہ ’’میرے نزدیک ایسے آدمی کے لیے جو اپنے مسلکی عقائد ونظریات اوران کے دلائل سے پوری طرح واقف نہ ہو، کسی دوسرے مذہب ومسلک کی کتب ورسائل کامطالعہ کرنا جائز نہیں، کیونکہ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو اردو ادبیت کی چاشنی اور عقلی دلائل کی چکر بازیوں سے لبریز ہیں اوران کی وجہ سے آدمی کا نقلی دلائل پر سے اعتما د ختم یا کمزور ہو جا تاہے۔‘‘ ماسٹر صاحب نے اپنی مسلکی پختگی کا پورا یقین دلاتے ہوئے اجازت پر اصرار کیا۔ میرے لیے یہ بات باعث حیرت تھی کہ وہ اجازت کیوں طلب کرتے ہیں اور پھر اجازت حاصل کرنے پر مصر کیوں ہیں؟ لیکن پوچھنے کا حوصلہ نہ کرسکا۔ انہوں نے سر سید احمد خان کی ’’تفسیرات احمدیہ‘‘ اور ’’خطبات احمدیہ‘‘ اور مولوی محمد علی لاہوری کی ’’بیان القرآن‘‘ پڑھنے کی اجازت مانگی تھی۔ ان کے شدید اصرار پر حضرت شیخ ؒ نے فرمایا کہ اگران کتب کا ضرورمطالعہ کرنا چاہتے ہو تو پھر ان سے پہلے مولانا عبدالحق حقانی دہلوی کی ’’تفسیر حقانی‘‘، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ اور مولانا سید سلیمان ندوی ؒ کی ’’سیرت النبی‘‘ جلد ۳، ۴ کا مطالعہ کریں۔ جب وہ حضرت شیخ ؒ سے ملاقات کے بعد واپسی کے لیے باہر نکلے تومیں نے ذہن کے اندر مچلنے والا سوال ان پرداغ دیا جس پر انہوں نے یہ عجیب انکشاف کیاکہ میرا گزشتہ پندرہ سال سے حضرت شیخ ؒ کے ساتھ تعلق ہے اور میں ہر قسم کی علمی وروحانی راہنمائی حاصل کرنے کے لیے حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا ہوں۔ جب بھی میرا کوئی دوست مجھے کوئی ایسی کتاب پڑھنے کے لیے دیتاہے جو میرے مسلک کی نہ ہو تومیں حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں اور ان سے اس کتاب کے پڑھنے کی اجازت مانگتا ہوں۔ حضرت شیخ ؒ ہر بار یہی جملہ فرماتے ہیں کہ ایسی کتابوں کا مطالعہ جائز نہیں۔ میں ہر بار اصرار کرتا ہو ں تو حضرت شیخ ؒ اجازت دے دیتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس کا توڑ بھی بتا دیتے ہیں۔ اس طرح زہر کے ساتھ تریاق بھی مل جاتا ہے۔ میں نے تعجب کے ساتھ ان سے کہا کہ آپ اپنے دوستوں سے ایسی کتابیں مطالعہ کے لیے لیتے کیوں ہیں؟ توانہوں نے مسکراکر فرمایاکہ میں بھی توان کو اپنے مسلک کی اور حضرت شیخ ؒ کی کتابیں پڑھنے کے لیے دیتا ہوں۔ اگرمیں ان سے پڑھنے کے لیے کتاب نہ لوں ( جو وہ دے رہے ہیں) تووہ مجھ سے کتاب کیسے لیں گے؟ اور دوسرا فائدہ مجھے یہ ہو جاتا ہے کہ جو کتابیں میرے دوست مجھے دیتے ہیں، میں ان کووہ کتابیں پڑھنے کے لیے دے دیتا ہوں جو حضرت شیخ ؒ مجھے ان کے توڑ کے لیے بتاتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور حضرت شیخ ؒ کی خصوصی شفقت وتوجہ سے کئی ایسے دوستوں کو راہ راست پر لا چکا ہوں جو مختلف فتنوں کا شکار ہو چکے تھے۔ 

اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ حضرت شیخ ؒ کاانداز تربیت کیا تھا اور وہ کس انداز سے اپنے مریدین اورتلامذہ کو اسلاف ؒ کی تحقیقات سے جوڑے رکھتے تھے۔

قادیانی لٹریچر اور فکری اصلاح

فکری اصلاح وتربیت کے حوالے سے ایک واقعہ میری زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے (جس کی دلچسپ تفصیلات ان شاء اللہ اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک دوسرے مضمون میں ذکر کروں گا)۔ میں آٹھویں کلاس میں زیر تعلیم تھا جب میں نے خط لکھ کر ربوہ سے قادیانیوں سے مفت لٹریچر منگوایا جو حضرت شیخ ؒ نے خفیہ چھاپہ مارکر میرے بستہ سے برآمد کرلیا اور بحق سرکار ضبط ہو گیا۔ تقریباً دس سال بعد جب میں در س نظامی سے رسمی فراغت حاصل کرچکا تھاٗ ایک دن اچانک طلب کر لیا گیا۔ حاضر ہونے پر دریافت کیا گیا کہ تمہارے پاس قادیانیوں سے متعلق کون کون سی کتب موجود ہیں؟ میں عرض کیا کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ کی ’’ختم نبوت کامل‘‘، حضرت مولانا عبدالغنی پٹیالوی ؒ کی ’’اسلام اور قادیانیت‘‘، حضرت مولانا محمد رفیق دلاوریؒ کی ’’رئیس قادیان‘‘ اور پروفیسر محمد الیاس بر نی مرحوم کی ’’قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ وغیرہ‘‘ موجود ہیں۔ پوچھا گیا کہ ان کا مطالعہ کر چکے ہو؟ عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا جاؤ الماری میں سے اپنی وہ کتابیں نکال لوٗ اب تم ان کا مطالعہ کر سکتے ہو۔ میں نے وہ قادیانی لٹریچر نکالا اور چلا آیا۔ اپنے کمرہ میں بیٹھ کر جب وہ رسائل دیکھے تو ان میں سے بعض پر حضرت شیخ ؒ کے قلمی نوٹس موجود تھے جس سے اندازہ ہوا کہ وہ بھی ان کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ اس ایک واقعہ کے اندر میری اصلاح وتربیت کے ہزاروں سامان موجو دتھے اورحضرت شیخ ؒ کے اس انداز تربیت نے کم ازکم مجھے ان گنت فتنوں سے محفوظ رکھا۔ خدا تعالیٰ ان پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں ان کی تعلیمات وتحقیقات کی حفاظت کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔

اجماع کے بارہ میں عمارخان ناصر کی علمی ٹھوکر

عزیز م عمارخان ناصر سلمہ اللہ تعالیٰ کافی عرصہ سے ڈاکٹر جاوید احمد غامدی کی روشن خیال تحریک سے وابستہ ہیں اور اس وابستگی کے بعد ان کا تمام ترمطالعہ اسی فکر ونظر کے حوالہ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک کتاب ’’حدود تعزیرات : چنداہم مباحث‘‘ کے نام سے لکھی جو غامدی صاحب کے ادارہ ’’المورد‘‘ سے شائع ہوئی۔ اس میں دیت اور زانی کی سزا کے بارے میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے، وہ خالص غامدی نقطہ نظر ہے جسے کسی صورت بھی اہل السنۃ والجماعۃ کا موقف تسلیم نہیں کیاجا سکتا اور خود عزیزم عمار کو بھی اس پر اصرار نہیں کہ وہ جمہور اہل سنت کا موقف ہے۔ وہ بھی اسے جمہور کے خلاف اپنی ایک رائے قرار دیتے ہیں۔ 

مخدوم مکرم حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب مدظلہ (جامعہ مدنیہ لاہور) نے اس پر گرفت کی اور ’’مقام عبرت‘‘ کے نام سے ایک رسالہ تالیف فرمایا اور ہمیں اس بات کااعتراف واعلان کرنے میں کوئی باک وعار نہیں ہے کہ ان کی گرفت جمہور اہل سنت والجماعت کے اصول ومسلک کے عین مطا بق ہے اور حضرت امام اہل سنتؒ کے مسلک وطرز تحقیق سے بھی مکمل مطابقت رکھتی ہے او رہم ان کی طرف سے اس عالمانہ وناصحانہ گرفت پر ان کے انتہائی ممنون وشکر گزارہیں۔ عزیزم ناصر صاحب نے ان کے جواب میں ایک رسالہ ’’مولانا مفتی عبدالواحد کی تنقیدات کاجائزہ‘‘ تحریر کیا اور اس میں مفتی صاحب مدظلہ کی طرف سے اٹھائے گئے خالص علمی اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ ہمارے خیال میں اسے لفظی ہیر پھیر کانام تو دیا جا سکتا ہےٗ لیکن جواب تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ با قی ابحاث پر تو بحث فی الوقت ہم وقت کا ضیاع ہی سمجھتے ہیںٗ کیونکہ جب تک کسی بنیادی اصول پر اتفاق ہی نہ ہو، ذیلی بحثوں کے چھیڑنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ عزیز م عمار ان مسائل میں جو بہت بڑی علمی ٹھوکر کھا چکے ہیں اور کھا رہے ہیںٗ ان کی بنیاد دراصل ان کااجماع امت کے بارہ میں نقطہ نظر ہے۔ جب تک وہ اپنے اس نقطہ نظر پر نظر ثانی نہ کریںٗ اس وقت تک ذیلی مسائل پر بحث بالکل فضول ہے۔اجماع کے بارہ میں ان کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں کہ 

’’یہ اعتراض اس عام خیال کی ترجمانی کرتا ہے کہ کسی آیت یاحدیث کی تفسیر یا کسی فقہی مسئلے کے متعلق اگرسلف سے کوئی اختلاف کتابوں میں منقول نہ ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کے دور سے لے کر آج تک ہردور کے تمام اہل علم اس رائے پر متفق رہے ہیں، اس لیے اس کی پابندی کرنا اور اس سے مختلف کوئی رائے اختیار نہ کرنا اہل سنت کا ایک علمی مسلمہ ہے جس کی خلاف ورزی ناجائز ہے۔ اس نقطہ نظر میں کسی رائے پرامت کے اہل علم کے کامل اتفاق کی جو صورت حال فرض کی گئی ہے، اگر وہ فی الواقع پائی جاتی ہو تو عقل ومنطق سے قطع نظر کم ازکم نفسیاتی طور پر یہ ایک بہت موثر استدلال ہے۔ تاہم واقعہ یہ ہے کہ یہ خیال جس قدر عام ہےٗ اتنا ہی حقیقت واقعہ سے دور اور امت مسلمہ کی علمی روایت کے نہایت محدودٗ سطحی اور عامیانہ مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی مآخذ یعنی قرآن وسنت اور دین وشریعت کے نہایت بنیادی تصورات اور احکام کی حد تک تو یہ بات یقیناًدرست ہے کہ ان کو نسلاً بعد نسلٍ دین کی حیثیت سے نقل کرنے میں اس امت کے اہل علم اور عوام کا ایک عمومی عملی اتفاق ہے اور تاریخی معیار پر ہر دور میں اس اتفاق کو ثابت کرنا بھی پوری طرح ممکن ہے، لیکن جہاں تک نصوص اور احکام کی علمی تعبیر وتشریح کا تعلق ہے تو کسی بھی مخصوص مسئلہ میں امت کے تمام اہل علم یا کم سے کم وہ اہل علم جنہوں نے اس مسئلہ پر غور کیا او ر اس پر باقاعدہ کوئی رائے قائم کی، ان سب کی آرا کو استقصا کے درجہ میں معلوم کرنا بدیہی طور پر انسانی بساط سے بالکل باہر ہے۔ چودہ سو سال میں ہر دور اور ہر علاقہ کے اہل علم کی آرا کو یقینی طور پر معلوم کرنے کا تو کیا سوال، تاریخ اسلام کے بالکل ابتدائی دورمیں یعنی صحابہ اور تابعین کے عہد میں بھی اس کا کوئی عملی امکان نہیں پایا جاتا۔‘‘ (تنقیدات کا جائزہ، ص ۶) 

اور پھر حضرت امام شافعیؒ کی کتاب الام، حضرت امام ابن تیمیہؒ کے مجمو ع الفتاویٰ اور امام فخرالدین رازیؒ کی المحصول سے چند شاذ اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ 

’’یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل واضح ہے کہ علمی وفقہی تعبیرات کے دائرے میں اجماع کا تصور محض ایک علمی افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ( ایضاً ص۱۳) 

عزیزم عمار کے مذکورہ دونوں حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے اور اندازہ کیجیے کہ وہ علمی وتحقیقی طو رپر غلط رخ اختیار کرنے کی وجہ سے ذہنی تذبذب کاشکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان کے مذکورہ حوالہ جات سے درج ذیل امور سامنے آتے ہیں:

۱۔ اجماع کا معروف تصور ایک مفروضہ اور علمی افسانہ ہے جس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

۲۔ اجماع عقل ومنطق کی دلیل نہیں بلکہ صر ف ایک نفسیاتی دلیل ہے۔

۳۔ اجماع کا معروف تصور، علمی روایت کے نہایت محدود، سطحی اور عامیانہ مطالعہ کانتیجہ ہے۔ 

۴۔ ہر دور اور ہر علاقہ کے اہل علم کی آرا کو یقینی طور پر معلوم کرلینا انسانی بساط سے باہر ہے۔ 

۵۔ قرآن وسنت اور دین وشریعت کے بنیادی تصورات واحکام کا تاریخی معیار پر ہر دور میں اجماع ثابت کرنا پوری طرح ممکن ہے۔ 

۶۔ نصوص واحکام کی کسی علمی تعبیر وتشریح پر اجماع ثابت کرنا عملی امکان سے با ہر ہے۔

عزیزم عمار کی ذہنی کیفیت کا ایک دلچسپ پہلو اور بھی ہے، وہ بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ چنانچہ امام فخرالدین رازیؒ کی کتاب المحصول ۳/۷۷۱ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ :

’’پوری امت کے متفق ہونے کا علم اس کے بغیر ممکن نہیں کہ امت کے ہر ہر فرد کے بارہ میں معلوم ہو جو ایک ناممکن بات ہے، کیون کہ کون ہے جو مشرق ومغرب کے تمام انسانوں کوجانتا ہو؟ اوراس امکان کوکیسے رد کیا جا سکتا ہے کہ کسی مخفی مقام پر کوئی انسان موجو د ہو جس کے بارے میں ہمیں علم نہ ہو؟ کیونکہ انصاف سے کام لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مشرق میں رہنے والوں کو مغرب کے کسی ایک عالم کی بھی خبر نہیں، چہ جائیکہ وہ ان سب کے بارہ میں اوران کی آرا ومذاہب کے بارہ میں تفصیل سے جانتے ہوں۔ بلکہ یہاں ایک اور مقام بھی ہے۔ وہ یہ کہ اگر سارے اہل علم ایک جگہ جمع ہو جائیں اور اکٹھے آواز بلند کرکے یہ کہیں کہ ہم اس بات کا فتویٰ دیتے ہیں تو اس بات کے عملاً ناممکن ہونے کے علاوہ پھر بھی اس سے اجماع کاعلم حاصل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ممکن ہے ان میں سے کوئی اس سے اختلاف رکھتا ہو، لیکن اتنے بڑے اجتماع کے سامنے اختلاف ظاہرکرنے سے ڈر گیا ہو۔ یا اس نے اس بادشاہ کے خوف سے، جس نے انہیں طلب کیا، اختلاف ظاہر نہ کیا ہو۔ یا اس نے اختلاف تو کیا ہو لیکن اس کی آواز ان سب کی آواز وں میں دب گئی ہو۔‘‘ (ایضا، ص :۹،۱۰)

یہ ہے عزیزم عمار کی ’’ٹامک ٹوئیاں‘‘ مارتی ذہنی کیفیت۔ وہ اس مذکور ہ حوالہ سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ 

۱۔ پوری امت کا اجماع قبول یا ثابت کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ امت کے ہرہر فرد کے بارے میں اس کی رائے معلوم نہ ہو جائے اور یہ ناممکن ہے۔

۲۔ اگر بالفرض امت کے سارے اہل علم ایک مقام پر جمع ہو جائیں اور بیک زبان ہو کر بآواز بلند ایک رائے پر اتفاق کریں تو بھی اسے اجماع قرار نہیں دیا جا سکتا، کیو نکہ امکان ہے کہ کسی نے محض ڈر اور خوف سے ہاں میں ہاں ملا دی ہو یا اس نے اختلاف کیا ہو، لیکن شور میں اس کی آواز دب گئی ہو۔ 

نتیجہ ظاہر ہے کہ اجماع ممکن نہیں۔اب عزیزم عمار کی ذہنی کیفیت اور ان کے طرز استدلال کو سامنے رکھ کر جائزہ لیجیے کہ وہ جس اجماع کے وقوع و وجود کا کسی بھی پہلو سے کوئی امکان تسلیم نہیں کرتے، اس کے بارے میں ’’دو ذہنی‘‘ کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک طرف قرآن و سنت کے بنیادی تصورات و احکام میں اجماع کو ممکن مانتے ہیں اور دوسری طرف نصوص و احکام کی تعبیر و تشریح میں اجماع کو غیر ممکن قرار دیتے ہیں۔ ان کے مذکورہ مفروضات و استدلالات کی روشنی میں ایک پہلو ممکن اور دوسرا کیسے ناممکن ہے؟یہ فلسفہ ہمارے فہم سے بالا ہے۔ اس کی وضاحت وہی کر سکتے ہیں۔ البتہ اس مقام پر ان کا یہ ’’انکشاف‘‘ نہایت افسوسناک ہے کہ جس اجماع کو آج تک پوری امت ایک ’’شرعی دلیل‘‘ کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، اس اجماع کو وہ ’’محض نفسیاتی دلیل‘‘ قرار دے کر اس کا مذاق اڑا رہے ہیں اور پھر ستم بالائے ستم یہ کہ وہ اجماع کو ’’علمی افسانہ‘‘ ثابت کرنے کے شوق میں چودہ سو سالہ اسلاف امت کے تحقیق و مطالعہ کو محدود، سطحی اور عامیانہ قرار دے کر ’’المورد‘‘ کی علمی وفکری لامحدود یت اور برتری کو ثابت کرنے کے چکرمیں ہیں۔ عزیزم عمار کواس پہلو پر نہایت سنجیدگی سے اپنے طرز فکر کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے خیال میں عزیزم عمار نے جو اتنی بڑی علمی ٹھوکر کھائی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بعض اہم بنیادی حقائق کی طرف توجہ نہیں دے سکے۔ ہم ان حقائق کی طرف ان کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ شاید اس طرح وہ اپنے افکار ونظریات پر از سر نو نظرثانی کر سکیں۔ 

۱) اجماع امت کا تصور اسلاف امت کا تخلیق کردہ نہیں کہ جس کے بارے میں مفروضات قائم کیے جائیں کہ یہ ممکن ہے یا ناممکن! اس کی بنیاد آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر ہے: ان اللہ لا یجمع امتی علی ضلالۃ ( ترمذی ۲/۳۹، مستدرک حاکم ۱/۱۱۶) اب یہ فرمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یا تو خبر ہے اور یا بشار ت ہے۔ ان دونوں صورتوں میں ذہن کے اندریہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پیغمبر برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک ایسی چیز کی خبر یا بشارت دی جا رہی ہے جس کا وقوع وظہور ممکن ہی نہیں؟ ہمارے خیال میں کوئی ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی کوئی خبر یا بشارت محض مفروضہ یاعلمی افسانہ ہو سکتی ہے۔ عزیزم عمار کومسئلہ کے اس پہلو پر محض تحقیقی نظر سے نہیں بلکہ ایمانی حوالہ سے بھی توجہ دینی چاہیے۔

۲) امت مسلمہ کی عظمت وفضیلت کے جودلائل واسباب بیان کیے گئے ہیں، ان میں بھی ایک دلیل امت کے کسی گمراہی پر متفق نہ ہونے کی ہے اور گزشتہ اوراق میں حجیت اجماع کی بحث کے اندر حضرت شیخ ؒ کے حوالہ سے گزر چکا ہے کہ تمام امتوں پر شاہد وگواہ ہونے کی وجہ سے امت کی مجموعی عدالت قائم ہے اور وہ کسی گمراہی وضلالت پرمتفق نہ ہو گی۔ اس امت نے جسے خیر سمجھا، وہ عنداللہ بھی خیر ہو گی اور جسے شر جانا، وہ عنداللہ بھی شر ہو گی۔ اس پر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا امت کی عظمت وفضیلت کا جو سب سے بڑ ا وصف وکمال بیان کیا جا رہا ہے، وہ محض ایک ’’مفروضہ‘‘ اور ’’علمی افسانہ‘‘ ہے؟ 

۳) ہر صاحب علم وشعور اس حقیقت سے واقف وباخبر ہے کہ قرون اولیٰ سے اہل سنت والجماعت کے ہاں اجماع دلائل شرعیہ میں سے ایک مستقل دلیل تسلیم کیا گیاہے اور چودہ سوسال سے اس دلیل کے ذریعے بے شمار افکار واحکام کا اثبات کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چودہ صدیوں سے جس دلیل کے ذریعہ ان گنت مسائل کے اثبات ونفی کا کام لیا گیا ہے، وہ محض ایک ’’مفروضہ‘‘ اور ’’علمی افسانہ‘‘ ہے؟ اور پھر عزیزم عمار کو یہ پہلو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ انھوں نے جن ائمہ کی عبارات سے استدلال کیا ہے، وہ خود ’’اجماع‘‘ کو دلیل مانتے ہیں اور چار وں ائمہ مجتہدین دو چیزوں پر اصولی اتفاق رکھتے ہیں۔ پہلی یہ کہ اصول اہل سنت، اصول فقہ اوردلائل شرعیہ چار ہی ہیں اوردوسری یہ کہ قرآن، سنت اور اجماع کے مقابلہ میں کسی مجتہد کو اجتہاد کا حق حاصل نہیں۔ آخر وہ کون سا اجماع ہے جس کے مقابلہ میں کسی بھی مجتہد کے لیے اجتہاد کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور جس کے منکر کو فقہاے کرام کافر یا اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج قرار دیتے ہیں؟ 

۴) چودہ صدیوں سے اجماع کے بالمقابل کسی کی رائے کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس کے مقابلہ میں رائے دو ہی قسم کی ہو سکتی تھی۔ یا بغاوت یا اجتہادی لغزشیں۔ بغاوت وسرکشی کو تو ہمیشہ گمراہی وضلالت قرار دیا گیا ہے، البتہ اجماع کے مقابلہ میں کسی مسلمہ بزرگ کی رائے کو تفرد قرار دیا گیا ہے یعنی یہ رائے تو بہرحال غلط ہے، لیکن اس کے پیچھے صاحب رائے کی بدنیتی ثابت نہیں ہو سکی، اس لیے اس پر اسے مطعون نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ عزیزم عمار کو بھی اس پرشکوہ ہے کہ کسی کو رائے کو تفرد قرار دے کر اس کی حیثیت کمزور کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ :

’’عام طورپر اہل علم کی ایسی آرا کو تفرد کہہ کر ان کی علمی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ ان آرا کو جزوی اطلاق کے لحاظ سے تو تفرد کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ کسی علمی بے اصولی یا حقیقی او ر بنیادی مسلمات سے انحراف پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ مسلمات کے دائرہ میں معروف ومانوس علمی اصولوں ہی کے ایک نئے اطلاق سے وجود میں آتی ہیں۔ ظاہر یہ کہ یہ حتمی نہیں ہوتیں اور سابقہ آرا کی طرح ان سے بھی اتفاق یا اختلاف کی پوری گنجایش موجود ہوتی ہے، لیکن محض اچھوتا ہونے کی بنا پر انہیں علمی روایت سے انحراف قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔‘‘ (تنقیدات کا جائزہ ،ص۲۲) 

عزیزم عمار کایہ کہنا کہ اجماع کے مقابلہ میں کسی کی شخصی رائے سے اتفاق یا اختلاف کی اتنی ہی گنجایش ہوتی ہے جتنی کہ سابقہ یعنی اجماعی آرا سے اتفا ق واختلاف کی، بہرحا ل محل نظر ہے۔ کیوں کہ ایک رائے پر ( اگربقول عزیزم عمار اجماع کی معروف تعریف اس پرنہ بھی تسلیم کی جائے) کثیر اہل علم وتحقیق کا اتفاق ہے اور دوسری رائے فرد واحد کی ہو، دونوں سے اتفاق واختلاف کی مساویانہ گنجایش ناقابل فہم ہے۔ اور پھر شخصی رائے کو اجماع کے مقابلہ میں علمی بے اصولی یا حقیقی وبنیادی مسلمات سے انحراف تسلیم نہ کرنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ عزیزم عمار اجماعی واتفاقی رائے تسلیم کرنے کی بجائے اسے صرف معروف ومانوس رائے قرار دیتے ہیں۔ بہرحال ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اجماعی رائے یا بقول عزیزم عمار معروف ومانوس رائے کے مقابلہ میں تفردات کوکبھی بھی قبول نہیں کیا گیا۔ چنانچہ برادرمکرم حضرت مولانا علامہ زاہدا لراشدی مدظلہ فرماتے ہیں کہ 

’’آج کے نوجوان اہل علم جو اسلام کے چودہ سوسالہ ماضی اور جدید گلوبلائزیشن کے ثقافتی ماحول کے سنگم پر کھڑے ہیں، وہ نہ ماضی سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں اورنہ مستقبل کے ناگزیر تقاضوں سے آنکھیں بندکرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ماضی کے علمی ورثہ کے ساتھ وابستگی برقراررکھتے ہوئے قدیم وجدید میں تطبیق کی کوئی قابل قبول صورت نکل آئے مگر انہیں دونوں جانب سے حوصلہ شکنی کاسامناہے اور وہ بیک وقت قدامت پسندی اور تجدد پسندی کے طعنوں کا ہدف ہیں۔ مجھے ان نوجوان اہل علم سے ہمدردی ہے، میں ان کے دکھ اور مشکلات کو سمجھتاہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتا ہوں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ امت کے اجتماعی تعامل اور اہل سنت والجماعت کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس نہ ہو، کیونکہ اس دائرے سے آگے بہرحال گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ (حدود وتعزیرا ت، ص۱۳) 

برادرم محترم علامہ راشدی مدظلہ کے مذکورہ ہمدردانہ ودرمندانہ موقف میں چند تحفظات کے باوجود ہمیں ان کی اس شرط سے کلی اتفاق ہے کہ امت کے اجماعی تعامل اور اہل سنت والجماعت کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس کرنے والے ’’تفردات‘‘ کو نہ پہلے کبھی قبول کیا گیا ہے اور نہ اب اس کی کوئی گنجایش ہے، کیونکہ اس سے آگے گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے۔ اور تفردات گمراہی کب بنتے ہیں؟ جب انہیں اپنی ذات سے باہر لا کر ان کی اشاعت وترویج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ علامہ زاہد ا لراشدی مدظلہ فرماتے ہیں کہ 

’’اور تفردات کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ ہر صاحب علم کاحق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے، بشرطیکہ وہ ان کی ذات یا ان کے حلقہ تک محدود رہے۔ البتہ اگرکسی تفرد کو جمہور اہل علم کی رائے کے علی الرغم سوسائٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فکری انتشار اور ایک نئے مکتب فکر کے قیام کا سبب بنتا ہے اور یہی وہ نکتہ اور مقام ہے جہاں ہمارے بہت سے قابل قدر اور لائق احترام مفکرین نے ٹھوکر کھائی ہے اور امت کے اجتماعی علمی دھارے سے کٹ کر جداگانہ فکری حلقوں کے قیام کا باعث بنے ہیں۔‘‘ ( ایک علمی وفکری مکالمہ ،ص۱۲) 

یعنی تفردات کوجب پبلک کے اندر لانے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک نیا مکتب فکر بن کر گمراہی کا باعث بنتے ہیں، لیکن اس مقام پرہمیں برادر مکرم مدظلہ کے اس موقف سے شدیداختلاف ہے کہ ’’تفردات ہر صاحب علم کا حق ہے۔‘‘ ہمارے خیال میں تفردات قائم کرناحق نہیں ہے، معذوری ہے، کیونکہ حق قرار دینے کامطلب یہ ہے کہ اس کے دروازے ہمیشہ کے لیے ہر صاحب علم کے لیے کھلے ہیں۔ جب کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ ماضی کے اہل علم کے تفردات کو ان کا حق تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ ان کی معذوری قرار دیا گیاہے اور خود برادر مکرم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ امت کے اجماعی تعامل اور اہل سنت والجماعت کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس کر کے آگے گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے اور ان مسلمات کے بالمقابل رائے وتفرد کو اگر سوسائٹی تک لے آیا جائے تو فکر ی انتشار کے ساتھ ایک نیا مکتب فکر جنم لیتا ہے۔ ہمارے فہم سے بالا ہے کہ جب اجماعی تعامل اور مسلمات کے بالمقابل کسی رائے اور ’’تفرد‘‘ کی عملی زندگی کے اندر گنجایش ہی نہیں اوروہ سوسائٹی میں آ کر فکری انتشار پیدا کر سکتی ہے تو اس رائے یا تفرد کے لیے کسی کا حق کیسے تسلیم کیاجا سکتا ہے؟ ماضی کے تفردات کے ساتھ ہمارے اسلاف کارویہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسے حق نہیں، معذوری تسلیم کرتے ہیں۔ بہرحال اس بحث سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ بقول عزیزم عمار اگر اجماع کی معروف ومانوس صورت پر حقیقی اجماع کا اطلاق ہی نہیں ہوتا تو اس کے بالمقابل رائے کو گمراہی یا تفرد قرار دے کر مسترد کیوں کیا گیا ہے؟ اور پھر ماضی کے تفردات کوجب قبول نہیں کیا گیا اورمستقبل کے تفردات کو بھی امت کی طرف سے قبول کرنے کا کوئی چانس نہیں ہے تو پھر ان پر اپنی انرجی ضائع کرکے امت کے اندر فکری انتشار پیدا کرنے اور خود کوا مت کے اجتماعی علمی وفکری دھارے سے کاٹنا آخر کہاں کی دانش مندی ہے؟ 

وہ وقفِ خزاں ہی سہی ہم نفس

چمن پھر چمن ہے قفس پھر قفس 

چوتھی دلیل شرعی: قیاس و اجتہاد 

گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ حضرت شیخ قیاس واجتہاد کو عقل وبصیرت کانام دیتے ہیں، اسے دلائل شرعیہ اور اصول اہل سنت میں تسلیم کرتے ہیں، اس کی حجیت کا اقرار کرتے ہیں، لیکن اس کی حدودوقیود کیا ہیں؟ ان کے بارہ میں حضرت شیخؒ کاموقف ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؒ کی الجنۃ ص۱۲ اور افادۃ الشیوخ ص۲۲ کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ 

’’جمہور حضرات صحابہ کرامؓ وتابعین، فقہا ومتکلمین اس طرف گئے ہیں کہ شرعی قیاس اصول شریعت میں سے ایک اصل ہے۔ احکام سمعی میں ( جو محض عقلی نہ ہوں) جب کہ ان کے اثبات کے لیے نص اوراجماع نہ ہوتو قیاس شرعی سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ( الکلام المفید ص ۱۱۳) 

۲۔ ائمہ کے مختلف اقوال نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں کہ 

’’ان اقتباسات سے یہ ثابت ہواکہ ایسی رائے قابل اعتبار نہیں جوکتاب وسنت سے متصادم ہو یا جس رائے کی بنیاد کتاب وسنت یا اجماع امت پر نہ رکھی گئی ہو۔ بخلاف اس کے وہ قیاس اوررائے محمود اور مقبول ہے جو ان تینوں میں سے کسی اصل پرمبنی ہو۔ ( مقام ابی حنیفہ ص۲۰۴)

۳۔ ’’حضرت امام بیہقی کے اس واضح وصریح قول سے یہ ثابت ہو گیا کہ حضرت عمرؓ سے رائے کی مذمت کے الفاظ آئے ہوں یاکسی اور سے، اس سے مراد ہروہ رائے ہے جو اصول ثلاثہ (قرآن، سنت اور اجماع امت) میں سے کسی اصل کے مشابہ اوراس پر متفرع نہ ہو، اور جہاں نص موجود نہ ہو، ایسے مقام پر رائے واجتہاد سے کام لینا اکثر امت سے ثابت ہے۔‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص۲۰۷) 

۴۔ ’’جملہ اہل اسلام کااس امر پر اتفاق ہے کہ فروعی مسائل میں خطاے اجتہادی (بشرطیکہ کسی مجتہد سے نیک نیتی کی وجہ سے واقع ہو) قابل مواخذہ نہیں ہے اور نہ صرف یہ کہ ایسا شخص معذور تصور ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ماجور بھی ہوگا، جیساکہ اس پر صحیح اور صریح حدیث موجود ہے۔ (دیکھیے بخاری ۲/۱۰۹۲، مسلم ۲/۷۶) لیکن اصول دین، ضروریات دین اور عقائد کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہے، کیونکہ ان میں دیانت کے ساتھ غلطی بھی قابل عفو نہیں ہے اور نہ اس باب میں جہالت اور لاعلمی کی بنا پر کوئی شخص معذور سمجھا جا سکتا ہے۔ اور اسی طرح قرآن کریم، حدیث مشہور، اجماع اور قیاس جلی کامخالف بھی معذور نہیں ہو سکتا، اگرچہ وہ شخص اپنے دعویٰ پر خبر غریب بھی پیش کرتا ہو۔‘‘ ( ازالۃالریب ص ۴۲۴) 

۵۔ التلویح ص ۶۷، حسامی ص ۱۵۷، شرح حموی ص۲۶۷، شرح فقہ اکبر ص ۲۳۷، الیواقیت والجواہر للعلامہ عبد الوہاب شعرانی ۱/۲۱، تفہیمات الٰہیہ للشاہ ولی اللہ دہلویؓ ۱/۱۵۵ اور انباہ الاذکیاء للسیوطی ص ۱۰ کے حوالہ جات نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں کہ: 

’’ان اقتباسا ت سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ اصول دین اور عقائد میں اور اسی طرح قرآن کریم، حدیث مشہور، اجماع اور قیاس جلی کے مقابلہ میں اگر چہ خبر غریب بھی پیش کی جاتی ہو، تب بھی وہ باطل ومردودہوگی اور اس باب میں مخالف یامخطی ہر گز معذور نہیں ہو سکتا۔‘‘ ( ازالۃ الریب ص ۴۲۵)

۶۔ ’’ہمارے ہاں تقلید کی تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ قرآن وحدیث اوراجماع کے دلائل کی موجودگی میں یا ان کے مقابلہ میں تقلید حرام، ناجائز، مذموم اور بدعت ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ لیکن اگر کسی مسئلہ کی ان میں صراحت موجود نہ ہو تو ایسے موقع پر کسی مجتہد کی تقلید جائز ہے اورکسی ایک مجتہد کی تقلید سے بھی مکلف عہد برآ ہو جاتا ہے اور اسی کانام تقلید شخصی ہے۔‘‘ (الکلام المفید ص ۲۳) 

۷۔ ’’حضرات مقلدین تو ببانگ دہل چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ منصوص مسائل میں اور قرآن وحدیث واجماع کے خلاف کسی کی تقلید جائز نہیں ہے، تقلید صرف ان مسائل میں جائز ہے جو غیرمنصوص ہوں۔‘‘ ( ایضاً ص۵۷) 

۸۔ ’’اجتہاد ہر کس وناکس کا کام نہیں‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ :

’’سابق عبارات اور حوالوں سے یہ بات تو بالکل آشکار ا ہو گئی ہے کہ پیش آمدہ غیر منصوص مسائل میں قیاس اور اجتہاد تاقیامت جائزہے اور اس سے کوئی مخلص اور چارہ نہیں، لیکن اجتہاد کرناہر کہ ومہ کا کام نہیں۔ اس کے لیے اصول فقہ کی کتابوں میں اہم اور ضروری شرائط بیان کی گئی ہیں۔‘‘ ( ایضاً ص ۶۵) 

۹۔ امیرالمومنین حضرت سیدنا علیؓ کی روایت کہ ’’جس نے اجتہاد کیا اور خطا کی، وہ جہنمی ہے‘‘ کی تشریح میں امام بیہقی کا قول بحوالہ السنن الکبریٰ ۱/۱۱۷نقل کر کے لکھتے ہیں کہ: 

’’یہ حدیث اس شخص کے بارے میں آئی ہے جو اپنی رائے سے اجتہاد کرے، مگر اہل اجتہاد سے نہ ہو۔ اگر وہ اہل اجتہادسے ہو اور ایسی چیزمیں اجتہاد کرے جس میں اجتہاد کی گنجایش ہے تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ان شاء اللہ خطا بالکل رفع ہو جائے گی۔‘‘ ( مقام ابی حنیفہ ص ۲۰۷) 

۱۰۔ اہل ظاہر کے پیشواو مقتدا امام داؤد بن علی الظاہری ؒ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قیاس کا رد کیا۔ اس بنا پر امام سبکی الشافعیؒ فرماتے ہیں کہ قیاس کی نفی کرنے والے اجتہاد کے درجہ کونہیں پہنچ سکتے اور قضا کاعہد ہ بھی ان کے سپرد کرنا جائز نہیں ہے اور اہل ظاہر علماے شریعت میں سے نہیں ہیں۔ ہاں صرف ناقل ہیں، اگر ثقہ ہوں۔ ( طبقات الشافعیہ الکبریٰ ۲/۵) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

’’ممکن ہے بعض حضرات کو امام سبکیؒ کا یہ قول ناگوار گزرے کہ اہل ظاہر علماے شریعت میں سے نہیں ہیں، لیکن ان کی بات بالکل صحیح ہے۔ اولاً اس لیے کہ جمہور اہل اسلام کا ساتھ چھوڑ کر اوران کی مخالفت کرکے کوئی شخص علماے شریعت کا فرد کیسے بن سکتا ہے؟ وثانیاً اگر ایسا شخص قاضی بن جائے توپیش آمدہ غیر منصوص مسائل اور سب جزئیات قرآن وحدیث میں صراحتاً تو مذکور نہیں ہیں، پھر قیاس سے مخلص کیا ہے؟ وثالثاً مسائل اور احکام کے اثبات کے لیے شریعت میں چار دلیلیں اور اصول ہیں۔ کتاب، سنت، اجماع اور قیاس۔ گوقیاس درحقیقت مظہر ہے، مثبت نہیں،لیکن اصول شریعت میں سے ایک اصل ہے تو اس اصل من اصول الشریعۃ کو نہ جاننے اورنہ ماننے والا علماے شریعت میں سے کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ ( الکلام المفید ص ۱۱۲۔ ۱۱۳) 

حضرت شیخؒ کے مذکورہ فرامین وحوالہ جات سے درج ذیل امور بڑی حد تک واضح ہو جاتے ہیں:

پہلایہ کہ جمہور صحابہ کرامؓ اور اکثر امت کے نزدیک قیاس اصول شریعت میں سے ایک اصل اور دلائل شرعیہ میں سے ایک دلیل ہے جو احکام ومسائل کے لیے مظہر ہے نہ کہ مثبت۔ اس کے ذریعہ کوئی حکم ومسئلہ ثابت نہیں کیاجا سکتا، صرف نصوص (قرآ ن، حدیث، اجماع) میں سے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ 

دوسرا یہ کہ قیاس صرف غیرمنصوص مسائل میں ہو سکتا ہے اوروہ قیاس محمود بھی ہوگا اور مقبول بھی جب کہ منصوص مسائل (یعنی قرآن وسنت اور اجماع سے ثابت شدہ) میں قیاس واجتہاد کی کوئی گنجایش نہیں اورایسا ہر قیاس جو ان نصوص کے خلاف یا ان کے مقابلہ میں ہو، مردود ہے۔ اسی طرح قیاس جلی کے مقابلہ میں بھی قیاس مردود ہے۔

تیسرا یہ کہ قیاس کامنکر ومخالف چونکہ مسلمہ اصول اربعہ میں سے ایک اصول کامنکر ومخالف ہے، اس لیے نہ تو وہ علماے شریعت میں شامل ہے، اور نہ ہی وہ کسی عدالت شرعیہ کا قاضی بنایا جا سکتا ہے۔ 

چوتھا یہ کہ غیر منصوص مسائل میں بھی اجتہاد کرنا ہرکس وناکس کاحق نہیں اور نہ اس کی ہر ایک کواجازت ہے، بلکہ یہ اجتہاد صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو مجتہد ہو اور اس کے اندر اجتہاد کی تمام شرائط پائی جائیں جو اصول فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ 

پانچواں یہ کہ مجتہد اگر اپنے قیاس واجتہاد میں خطا کر جائے تو وہ فرمان نبوی کے مطابق معذور بھی ہے اور عنداللہ ماجور بھی، جبکہ غیر مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں خطا کرے تو فرمان نبوی کی روشنی میں وہ جہنمی ہے۔ 

چھٹا یہ کہ مجتہد کے لیے بھی اصول دین، ضروریات دین اور عقائد شرعیہ میں اجتہاد کرنا جائز نہیں۔ اگر ان میں اجتہاد کرے گا (خواہ جہالت ولاعلمی کی بنا پر ہو) تو وہ اجتہاد مردود ہو گا، کیوں کہ یہ اس کے دائرۂ اجتہاد سے باہر ہے۔ 

ساتواں یہ کہ تقلید کاانحصار چونکہ اجتہاد پر ہے، لہٰذا جن مسائل میں اجتہاد جائز ہے، ان میں کسی مسلمہ مجتہد کی تقلید بھی جائز ہے اور جن مسائل میں اجتہاد ناجائز ہے، ان میں تقلید بھی مذموم،حرام اور بدعت ہے۔ 

آٹھواں یہ کہ جمہور اہل اسلام کا ساتھ چھوڑ کریا ان کی مخالفت کرکے علیحدگی کا راستہ اختیارکرنے والا بھی ہر گز علماے شریعت میں شامل وداخل نہیں۔

حضرت شیخؒ سے علمی وفکری نسبت رکھنے والے اصحاب علم وتحقیق کے لیے مندرجہ با لا امور کو اچھی طرح جاننا، سمجھنا اور ان پر گہری توجہ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ 

طائفہ منصورہ

حضرت شیخؒ نے زندگی بھر یہی اصول رکھا ہے کہ حق تک رسائی حاصل کرنے او ر حق پر قائم رہنے کے لیے اہل حق کے ساتھ وابستگی ضروری ہے۔ اگرچہ بعض آزاد خیالوں کو اس سے بڑی چڑ ہے اور وہ اکثر یہ طعن کرتے رہتے ہیں کہ ’’بریلوی مقابر پرست ہیں اور دیوبندی اکابر پرست‘‘ لیکن حضرت شیخؒ نے ایسے طعن وتشنیع کی بھی پروا نہیں کی اورہمیشہ اپنے موقف ونظریہ کو اکابر کی تحقیقات کے حوالے سے ہی دیکھا اور بیان کیا اور انہی کے ساتھ علمی وفکری تعلق کا باعث سعادت جانا۔ چنانچہ ’’جماعتی زندگی کا مفہوم اوراس کی اہمیت‘‘ کے زیر عنوان فرماتے ہیں کہ:

’’بلاشک وشبہ مذہب اسلام نے جماعتی زندگی پر بڑا زور دیا ہے اورجماعتی زندگی کے ترک کواسلامی زندگی کے ترک سے تعبیر کیا ہے جس کانتیجہ سوائے خسروان اور عذاب جہنم کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ معاذاللہ تعالیٰ۔ اور حدیث من شذ شذ فی النار (ترمذی ۱/۳۹، مشکوٰۃ ۱/۳۰) کا یہی مطلب ہے۔ اور دوسری حدیث میں واشگاف الفاظ میں رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ فانہ لیس احد یفارق الجماعۃ شبرا فیموت الا مات میتۃ جاہلیۃ (متفق علیہ، مشکوٰۃ ۲/۳۱۹) جو شخص بھی جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا اور اسی حالت میں اس کی وفات ہوگئی تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی زندگی اسلامی زندگی کے سراسر مخالف ہے۔‘‘ ( تبلیغ اسلام، ص ۳۳) 

اس مقام پر جس جماعت کے ساتھ حضرت شیخؒ وابستگی کو ضروری قرار دے رہے ہیں، اس سے علیحدگی کو خسران اور عذاب جہنم کاذریعہ قرار دے رہے ہیں اور اس پر موت کو جاہلیت کی موت قرار دے رہے ہیں، وہ جماعت آخر کون سی جماعت ہے؟ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ :

۱۔ ’’اس دین قویم کی نصرت اور تجدید کے لیے اللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ وہ سخت سے سخت دور طغیان وفساد میں بھی صالحین امت کی ایک جماعت ضرورایسی قائم رکھے گاجن کے نفوس وقلب خود اللہ تعالیٰ کی پناہ اورحفاظت میں ہوں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی سے خوف نہیں کھائیں گے۔ ان کادل صرف ایک ذات سے ڈرے گا جو ڈر کی خالق ہے۔‘‘ (تبلیغ اسلام ص ۲۹)

۲۔ بخاری ۱/۱۴۴ کے حوالہ سے حضرت امیر معاویہؓ اور مسلم ۱/۸۷ کے حوالے سے حضرت جابر بن عبداللہؓ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ: 

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری ا مت میں ایک گروہ ضرور ایسا رہے گا جوحق کو تھامے رکھے گا۔ اس کو وہ لوگ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو اسے ذلیل ورسوا کرنے اور اس کی مخالفت کرنے پر تلے ہوں گے۔ وہ حق کی خاطر جہا د وقتال کرے گا ،یہاں تک کہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں۔

یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ دیگرمتعدد صحابہ کرامؓ سے بھی مروی ہے۔ اس حدیث سے صاف طور پر یہ واضح ہو گیا کہ امت مسلمہ کاایک حق گو اور حق خواہ طائفہ قیامت تک قائم ودائم رہے گااوراس مبارک ٹولہ کی آخری کڑی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جڑ جائے گی جو آسمان سے ناز ل ہو کر حق کو باطل پر غالب ومنصور کرنے کے لیے شب وروز کوشاں وساعی ہوں گے اور ان کی زندگی ہی میں یہ شادمانی ان کو حاصل ہوگی کہ صرف دین حق باقی رہ جائے گا اور باقی تما م ادیان مٹ جائیں گے۔‘‘ ( تبلیغ اسلام ص ۳۱) 

۳۔ ’’چونکہ احادیث کوامت تک پہنچانے کاذریعہ عالم اسباب میں صحابہ کرام وتابعین، محدثین وفقہاے عظام ہیں، اس لیے منکرین حدیث ان کی مسلمہ ثقاہت وعدالت، امانت ودیانت، ضبط واتقان، حفظ وکتابت کو بھی مجروح کرنے اور ان پر برسنے کو اپنی ا س ناپاک تحریک کا کامیاب سبب سمجھتے ہیں اور ان کی تمام دینی خدمتوں اور قربانیوں کا وہ مذاق اڑاتے ہیں کہ الامان والحفیظ، اور ان پر اس کڑی جرح کامقصد بھی صرف یہ ہے کہ ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کہ جب محدثین وفقہا ہی قابل اعتماد نہ رہے تو حدیث کیسے ثابت ہوگی؟ لیکن اس خواہش زدہ طبقہ نے مطلق غور نہ کیا کہ اگر درمیان کی یہ کڑی محدثین ہیں تو قرآن کریم ان کی دست برد سے کیونکر محفوظ رہا ہوگا؟ یا ان کا پیش کردہ قرآن حجت کیسے ہو سکتا ہے؟ بے شک اللہ جل مجدہ نے قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، لیکن عالم اسباب میں یہی لوگ اس کی حفاظت کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ کسی نے الفاظ یاد کیے، کسی نے لغات یاد کیں تو کسی نے اسباب ونزول۔ حقیقت یہ ہے کہ درمیان کی اس کڑی کو تسلیم کیے بغیر دین کاکوئی ایک حکم بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔‘‘ (مسئلہ قربانی، ص ۱۰) 

ان حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت شیخؒ اسی جماعت سے وابستہ رہنا اور دوسروں کو بھی اسی سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں جو جماعت عہدنبوی سے تواتروتسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے، جس جماعت کے تسلسل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی، اور ہرد ورکے اندر اس کی موجودگی کی خوشخبری سنائی۔ اس جماعت کی آخری کڑی حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے۔ ظاہر بات ہے کہ جماعت نہ توافراد کے ہجوم سے بنتی ہے اورنہ اشخاص کے ہڑبونگ سے، بلکہ جماعت فکری وحدت سے بنتی ہے۔ وہی فکری وحدت ایک جماعت سے دوسری جماعت کی طرف منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔ اسی فکری وحدت کو ختم یا کمزور کرنے کے لیے منکرین حدیث اوردیگر جدت پسند تمام درمیانی کڑیوں کو بائی پاس کرکے ڈائریکٹ قرآن وسنت تک پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ قرآن وسنت کی من پسند تعبیر وتشریح کرکے ان کو اپنی تحقیق کا تختہ مشق بنایا جاسکے۔ 

یہاں یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ اس فکری جماعت کا اولین مصداق اور سب سے پہلی کڑی جماعت صحابہؓ ہے۔ اس لیے خلفاے راشدین وصحابہ کرامؓ نے جن امور پر اتفاق کرلیا اور جن پر اجماع ہوچکا، اب فرمان نبوی کی روشنی میں ان سے اگلی جماعت یعنی تابعینؒ کے لیے لازم ہے کہ وہ پہلی جماعت کے اجماع کو کھڈے لائن نہ لگائیں بلکہ اسی اجماع کو آگے تیسری جماعت یعنی تبع تابعین ؒ کی طرف منتقل کر یں اور اسی طرح وہ سلسلہ جماعت در جماعت آگے بڑھتا رہے۔ اگر ان اجماعی فیصلوں کو ہر دور کے اندر وقتی تقاضوں کی آڑ میں تبدیل کرنے کی اجازت مل جاتی تو فکری وحدت کا تسلسل ممکن نہ تھا، کیونکہ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ علمی اعتبار سے اگرچہ مرکزی حیثیت دستور ومتن کو حاصل ہوتی ہے، لیکن عملی حوالہ سے بنیادی حیثیت اس دستور ومتن کی تفسیر وتوضیح کو حاصل ہوتی ہے۔ اب اگرکسی دستور ومتن کی تعبیر وتشریح کو ہر دور میں بدلنے کی اجازت دے دی جائے تووہ با زیچہ اطفال بن کر رہ جائے، اسی لیے امت نے بالاتفاق عہد صحابہ وخلفاے راشدین کی اجماعی تعبیر وتشریح کی ہی کوبنیاد بنایا ہے اور وہ قرآن وسنت کی اصل تعبیر وتشریح تسلیم کی گئی ہے، اور بدقسمتی سے یہاں معاملہ صرف سنت کی تعبیر وتشریح کا نہیں بلکہ اس کی تعریف وتعیین کے لیے بھی پھڈا ڈال دیا گیا ہے۔ چنانچہ جدت پسندوں بالخصوص ڈاکٹر جاوید احمد غامدی کے اسی طرزعمل کاشکوہ کرتے ہوئے علامہ زاہدالراشدی مدظلہ فرماتے ہیں کہ 

’’سنت رسول سے مراد وہی ہے جو امت مسلمہ چودہ سوسال سے اس کا مفہوم سمجھتی آرہی ہے اور اس سے ہٹ کر سنت کا کوئی نیا مفہوم طے کرنا اور جمہور امت میں اب تک سنت کے متوارث طو رپر چلے آنے والے مفہوم کو مسترد کر دینا بھی عملاً سنت کو اسلامی قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ (حدود وتعزیرات، ص ۱۰) 

بہرحال حضرت شیخؒ اسی متواتر جماعت اور اس کے متوارث فکرسے وابستہ رہنے ہی میں ہدایت ونجات جانتے تھے اور اسی جماعت کے بارے میں یہ فرمان نبوی نقل کرتے ہیں کہ اس جماعت سے کٹنے والا جہنمی ہے اور اگر جماعت سے علیحدگی کی حالت میں ہی اس پرموت آجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ 

علماے دیوبند 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے تہتر فرقوں میں سے صرف اہل سنت والجماعت کو ناجی وجنتی فرقہ قرار دیا ہے اور دوسرے فرمان میں ہر دورمیں اہل حق کی موجودگی کی بشارت دی۔ گویااہل سنت والجماعت کاگروہ ہی اہل حق ہے اور اسی کی بشارت دی گئی ہے اوراہل سنت والجماعت کاگروہ اپنے اصولوں (قرآن، سنت، اجماع اور قیاس) پرقائم ہے اور یہی اصول ہمیشہ اس کی شناخت رہے ہیں اور انہی اصولوں کی بنیاد پر اس نے تمام باطل وگمراہ فرقوں کا مقابلہ کیا ہے اور ان اصولوں کو ترک کرنے والے اہل سنت سے علیحدہ ہوتے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عصرحاضر کے اندر جماعت حقہ کے اس متواتر سلسلہ کی کڑی کون نساگروہ ہے؟ حضرت شیخؒ پورے اعتماد ویقین کے ساتھ جماعت دیوبند کو اس کی کڑی قرار دیتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں کہ:

’’اکابر علماے دیوبند ہرمسئلہ میں اتباع سنت کے ساتھ سلف صالحینؒ کی تحقیق پر کامل اعتماد رکھتے ہیں۔ دیگر مسائل کی طرح وہ بدعت کی تعریف میں بھی سلف کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ (راہ سنت ،ص۷۹) 

’’بحمداللہ تعالیٰ علماے دیوبند اہل سنت والجماعت کے افراد ہیں اور اصول وفروع میں ان کا کوئی عقیدہ اورعمل اہل سنت والجماعت کے خلاف نہیں ہے، چہ جائیکہ ان کے عقیدہ اور عمل سے متصادم ہو۔ ہم نے اپنی متعدد کتب میں باحوالہ اس پر بحث کی ہے۔‘‘ (اہل سنت کی پہچان، ص ۷) 

حضرت شیخؒ اس دور میں (برصغیر پا ک وہند کے اندر) جماعت دیوبند کو ہی قرآن وسنت کی موعودہ جماعت حقہ کی کڑی اور اہل السنت والجماعت کے اصول وعقائد کی ترجمان قرار دیتے تھے اوران کا یہ دعویٰ ہر اعتبا ر سے مبنی بر حقیقت ہے کہ جماعت دیوبند کا اصول وفروع میں کوئی عقیدہ اہل السنت والجماعت کے خلاف نہیں۔ 

اس پوری بحث سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ حضرت شیخؒ فرمان نبوی کی روشنی میں اہل السنت والجماعت کو ناجی وہدایت یافتہ گروہ تسلیم کرتے تھے، اہل السنت والجماعت کے اصول ودلائل کی روشنی میں قرآن وسنت، سنت خلفاے راشدین، تعامل صحابہ وخیرالقرون، اجماع امت اور قیاس شرعی کو حجت مانتے تھے، اس کے لیے وہ اہل السنت والجماعت کے متواتر ومتوارث گروہ سے فکری وابستگی کو ہی ہدایت ونجات کا ذریعہ سمجھتے تھے اور عصر حاضر میں جماعت دیوبند کو اسی سلسلہ کی کڑی تسلیم کرتے ہوئے اسی کے دامن تحقیق سے وابستہ تھے اور اپنے جملہ متعلقین کو بھی اسی سے وابستہ رکھنا چاہتے تھے۔ خداتعالیٰ ہم سب کو اسی سے وابستہ رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین 

امام اہل سنت کا مسلک اعتدال اور عمار خان ناصر

عزیزم عمار خان ناصر کافی عرصہ سے ڈاکٹر جاوید احمد غامدی کی روشن خیال تحریک سے وابستہ ہیں اور اس وابستگی کے بعد ان کاتمام تر مطالعہ غالباً اسی فکر ونظر کے حوالہ سے ہوتا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت شیخؒ کی کتب کا مطالعہ بھی اسی تناظر میں کیا ہے اوراس مطالعہ کے ذریعہ حضرت شیخؒ کے فکر وموقف کو سمجھنے کی بجائے غامدی صاحب کے جدت پسند انہ طرز فکر کے لیے دفاعی مواد تلاش کرنے اور اس کے لیے جواز کی صورتیں پیداکرنے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخؒ کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد عزیزم عمارکے قلم سے اس کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے، اس میں حقیقت پسندانہ رنگ کہیں نظر نہیں آتا اور شعوری یا غیر شعوری طو رپر وہ حقیقی وواقعی نتیجہ اخذ کرنے سے محروم وقاصر رہے ہیں۔ غالباً ان کی اس ساری کاوش کا محور غامدی صاحب کی علمی حیثیت کومسلم کراناہے۔ حضرت شیخؒ کی وفات کے بعد ان کے کسی زیر تسوید مضمون کاایک اقتباس ہفت روزہ ’’وزارت‘‘ لاہور کی ۱۰تا ۲۳؍جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت میں ’’امام اہل سنت ؒ کا مسلک اعتدال‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں فرماتے ہیں کہ: 

’’امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ اپنی آرا ونظریات میں جمہور اہل علم کے موقف کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھاکہ کسی بھی علمی یا فقہی مسئلہ میں جمہور امت جس رائے کی تائید کریں، وہ اقرب الی الحق اور قرین صواب ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں زیر بحث آنے والے کم وبیش تمام مسائل کی تحقیق میں اس زاویہ نگاہ کو ملحوظ رکھا ہے اور اپنے تلامذہ اور متعلقین کو بھی یہی ہدایت کرتے تھے کہ مختلف گمراہ کن نظریات کے اثرات سے بچنے کے لیے جمہور علماے امت کی تحقیقات کا دامن تھامے رکھنا ہی محفوظ ترین اور محتاط ترین راستہ ہے۔ تاہم اس معاملے کاایک دوسرا پہلو بھی ہے جسے وہ پورے اعتدال اور توازن کے ساتھ ملحوظ رکھتے تھے۔ وہ اس نکتہ کوبہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ بلند فکری اور ذہنی معیار رکھنے والے اہل علم اور محققین بسا اوقات کسی مسئلہ میں عام رائے پر اطمینان محسوس نہیں کرتے اور ان کا غور وفکر انہیں معروف ومانوس نقطہ نظر سے مختلف رجحان اختیار کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے، چنانچہ وہ ایسے اہل علم کے لیے جن کی علمی حیثیت مسلم ہو، عام آرا سے اختلاف یا تفرد کا حق بھی پوری طرح تسلیم کرتے تھے، بشرطیکہ اس اختلاف کو علمی حدود میں رکھا جائے اور اس کی وجہ سے جمہور اہل علم پر طعن وتشنیع کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔‘‘

اس کے بعد عزیزم عمار نے حضرت شیخؒ کی بعض کتب سے چند اقتباسات وعبارات اور ان پر اپنے اخذکردہ ذہنی تاثرات نقل کیے ہیں اور آخر میں اپنا حتمی ذہنی نتیجہ بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ:

’’مذکورہ امور کی روشنی میں میرے نزدیک امام اہل سنت کے موقف اور نظریہ کی درست تعبیر یہ بنتی ہے کہ وہ اصولی طور پر جمہور اہل علم کی آرا وتعبیرات کو ہی درست سمجھتے اور اپنے لیے اس کی پابندی کوبالعموم ضروری تصور کرتے تھے، تاہم اہل علم کے لیے دلائل کی روشنی میں انفرادی رجحانات کا حق بھی تسلیم کرتے تھے اور جمہور سے محض علمی اختلاف کو اہل سنت کے منہج سے انحراف یا گمراہی قرار نہیں دیتے تھے۔‘‘

عزیزم عمار کے ذہن نے حضرت شیخؒ کی چند عبارات سے جو نتائج اخذ کیے، وہ وہم نے بے کم وکاست نقل کر دیے ہیں۔ ہم ان نتائج پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ 

نکتہ اولیٰ: 

اس مقام پر سب سے پہلا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ عزیزم عمار بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ حضرت شیخؒ کا مختار، پسندیدہ اور تلقین کردہ مسلک وموقف اسلاف کی تحقیقات سے وابستہ رہنے اور دوسروں کو ان سے وابستہ رکھنے ہی کا ہے۔ اورحقیقت بھی یہی ہے کہ گمراہ کن نظریات اوران کے تباہ کن اثرات سے بچنے اور دیگر مسلمانوں کو ان سے بچانے کے لیے حضرت شیخؒ کے نزدیک جمہور علماے امت کی تحقیقات وتعلیمات سے وابستگی ہی محفوظ ترین اور محتا ط ترین راستہ ہے۔ اور حضرت شیخؒ کا یہ موقف ونظریہ کسی وقتی وہنگامی سوچ کانتیجہ نہیں،بلکہ اس کے پیچھے ان کا ساٹھ سالہ تحقیق ومطالعہ اور غور وفکر کار فرما ہے۔ گویا یہ ان کے ساٹھ سالہ تحقیق ومطالعہ، غوروفکر اور تجربات ومشاہدات کا نچوڑ ہے۔ اس کے بعد بھی اگر ان پر علمی اعتماد کرنے والا کوئی شخص تحقیقات اسلاف کا محفوظ ومحتاط راستہ ترک کر کے کوئی غیر محفوظ وغیر محتاط راستہ تلاش کرے تو اسے کم سے کم درجہ میں اس کا غیر دانش مندانہ طرز ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

نکتہ ثانیہ: 

اس مقام پر دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت شیخؒ کے نزدیک امت کے اجماعی مسلک اور جمہور امت کے مسلک میں بڑا واضح اور نمایاں فرق ہے۔ ان کے نزدیک اجماعی مسلک کامطلب یہ ہے کہ اس موقف ونظریہ پر پوری امت متفق ہے اور اس میں پہلے سے کسی قسم کاکوئی اختلاف موجود نہیں۔ ایسے کسی اجماعی مسئلہ میں حضرت شیخؒ نہ صرف یہ کہ کسی کا حق اختلاف تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اختلاف کرنے والے کو گمراہ اور اہل سنت سے خارج قرار دیتے ہیں۔ اور مسلک جمہور سے ان کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں امت کے اہل علم وتحقیق کا اختلاف پایا گیا ہے اور اس اختلاف میں ایک طرف اہل علم کی اکثریت یعنی جمہورہے اور دوسری طرف اہل علم کی ایک قلیل تعداد پائی گئی ہے۔ ایسے اختلافی مسائل میں حضرت شیخؒ خود بھی مسلک جمہور ر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی مسلک جمہور پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے، البتہ اگر کوئی اہل علم وتحقیق مسلک جمہور سے ہٹ کر کوئی دوسرا مسلک (جو پہلے موجود ہو) اختیار کر لے تو اسے گمراہ اوراہل سنت سے خارج قرار نہیں دیتے اور اسے مسلک جمہور اور جمہور ائمہ اہل سنت پر زبان طعن کھولنے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ عزیزم عمار نے سماع الموتی ص۶۴ سے حضرت شیخؒ کا یہ موقف نقل کیا ہے کہ ’’ہم جمہور کو شرع کی پانچویں دلیل نہیں مانتے۔ ادلہ شرعیہ چار ہی ہیں‘‘۔ گویا جمہور کے مسلک پر عمل کرنا شرعی دلیل کے حوالے سے نہیں بلکہ شرعی احتیاط کے طو ر پر ہے، کیونکہ ہم کتنے ہی ذہین وفطین کیوں نہ ہوں، جمہور اہل علم کی رائے، علم وفہم اورامانت ودیانت کے اعتبار سے بہرحال ہماری رائے پر فائق وبرتر ہے، اس لیے اسے قبول کرلینا ہی احتیاط کا تقاضا ہے اور ہمارے خیال میں اتبعوا السواد الاعظم کے فرمان نبوی میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ اختلافی مسائل میں امت کے سواد اعظم یعنی جمہور کی اتبا ع کی جائے۔

نکتہ ثالثہ: 

اس مقام پر تیسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ عزیزم عمار نے ایک جملہ اپنی عبارت میں ایسا لکھا ہے جس نے ہمیں چونکا دیا ہے اور اگر انہوں نے یہ جملہ شعوری طورپرلکھا ہے تو ہمارے نزدیک نہ صرف خطرناک ہے بلکہ گمراہ کن بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’بلندی فکری وذہنی معیاررکھنے والے اہل علم وتحقیق اگر معروف ومانوس موقف کے خلاف کوئی رائے قائم کر لیں‘‘۔ اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیزم عمار کے نزدیک جمہور امت کے معروف ومانوس مسلک پر عمل کرنے والے اہل علم نہ تو بلندئ فکر رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا ذہنی معیار ہے۔ کس قدر حیرت وتعجب کی بات ہے کہ ا سلاف امت کے فکر تک رسائی حاصل کرنے والے تو بلندئ فکر اور ذہنی معیار سے محروم ہیں اور اپنی ناقص ونارسا عقل سے سر ٹکرانے والے بلند فکر بھی ہیں اور ذہنی معیار بھی رکھتے ہیں۔ العیا ذ باللہ۔ ہم عزیزم عمار کی توجہ بار بار اس خطرناک جملہ کی طرف دلانا چاہیں گے جس کا نتیجہ بظاہر یہ سامنے آ تا ہے کہ دادا تو بلندئ فکر اور ذہنی معیار دونوں سے محروم تھا، جب کہ پوتا بلندئ فکر کی دولت سے مالا مال ہے اور ذہنی معیار کی نعمت سے بھی۔ اورایسا شاید اس لیے ہو گیاہے کہ دادا کی نسبت فکر ی طور پر اسلاف امت او ربزرگان دیوبند کی طرف ہے اور پوتا ڈاکٹر جاوید احمد غامدی جیسے مفکر اعظم سے فکری نسبت رکھتا ہے اور ان دونوں کا بھلا جوڑ ہی کیا ہے؟

ہم لاکھ مہذب ہوں مگر تم ہی بتاؤ

جب ضبط کا پیمانہ چھلکتا ہی چلا جائے

نکتہ رابعہ: 

اس مقام پر چوتھا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضرت شیخؒ کے نزدیک دینی مسائل میں ہر کس وناکس کواپنی رائے قائم کرنے کاحق نہیں، بلکہ اس کے لیے علمی کمال اور فنی صلاحیت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ 

’’بلاشبہ ہرصاحب الرائے اور صائب الرائے کو غیرمنصوص اور غیر اجماعی مسائل میں اپنی رائے پرعمل کرنے کاحق ہے، لیکن سلف صالحینؒ کا دامن چھوڑ کر اور خود رائے بن کر پانچواں سوار بننا بھی کسی طرح مستحسن نہیں۔‘‘ (مودودی صاحب کا ایک غلط فتوی، ص ۴۶) 

اوراپنے عظیم وشفیق استاد، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا عبدالقدیر ؒ کی کتاب ’’تدقیق الکلام‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ

’’مذہب اسلام کے مسائل دو حصوں میں منقسم ہیں: ایک اصول اوردوسر ا فروع۔ اصول دین میں اختلاف انتہائی مذموم اور قبیح ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے آدمی یا تو سرے سے دین ہی سے خارج ہو جاتا ہے اور یا اہل حق سے کٹ کر اور ہٹ کراہل بدعت کے فرقوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور فروع دین میں اختلاف اگر مجتہدسے رونما ہو تو وہ معذور بلکہ ماجور ہوگا اور اگر غیر مجتہد یہ کاروائی کرے اور اس میں تعصب مذہبی بھی شامل ہو تو وہ گنہگار ہوتا ہے۔ حضرات ائمہ دینؒ کے فروعی اختلاف سے، جو خالص دیانت اور خلوص نیت پر مبنی ہیں، کتب فقہ، شروح حدیث اور کتب تفسیر بھری پڑی ہیں۔‘‘ (تدقیق الکلام ،ص ۹) 

اور اپنے ایک مایہ ناز شاگرد حضرت مولانا حافظ حبیب اللہ ڈیروی ؒ کی کتاب ’’نور الصباح فی ترک رفع الیدین بعد الافتتاح‘‘ کے پیش لفظ میں حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

’’مذہبی اختلافات اصولاً دو قسم کے ہیں۔ ایک عقائد واصول کے، دوسرے اعمال وفروع کے۔ اول قسم کے اختلاف بہرحال وبہرکیف مذموم اور زہر قاتل ہیں۔ علم ودیانت کے ساتھ ہوں یا لاعلمی ونیک نیتی سے۔ ز ہر کو اگر کوئی شخص زہر سمجھ کر کھائے، تب بھی اس کااثر مرتب ہوگا اور اگر بے خبری میں اسے کھا نڈ یا چورن سمجھ کر استعمال کرے، عالم اسباب میں پھر بھی اس کا اثر ضرور مرتب ہوگا۔ اس لیے اصولی اور عقیدہ کے اختلاف میں علم ودیانت اور اجتہاد وقیاس کوئی چیز اس کی قباحت وشناعت میں کمی پیدا نہیں کرتی اور ایسے اصولی اختلاف جن میں ضروریات دین میں سے کسی امر کا انکار یا تاویل ہو، یقیناًکفر اور قطعاً باعث ملامت وگرفت ہے۔ رہے فروعی اختلاف توان میں خاصی تفصیل ہے جس کے لیے دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں۔ ان کا نہایت ہی مختصر الفاظ میں خلاصہ یہ ہے کہ اگر فرعی اختلاف ناشی عن دلیل ہو اور اختلاف کرنے والا مجتہد ہو اور اس کی دیانت وعدالت وتقویٰ وورع مسلم ہو اور اختلاف میں بھی حظ نفس اوراپنی خواہش کی پیروی میں نہ ہوا ور نہ تن آسانی کے لیے اپنے نفس کے لیے سہولت مطلوب ہو تو ایسا مجتہد خطا کی صورت میں بھی صرف معذور ہی نہیں بلکہ صحیح احادیث کی روشنی میں ماجور بھی ہوگا۔ اور اگر اختلاف کرنے والا اجتہاد وتفقہ کی کشتی کا پانچواں سوار ہو اور اختلاف میں حظ نفس اور تن آسانی بھی ملحوظ ہو تو اس کے قبیح ومذموم ہونے میں رتی بھر شک نہیں ہے۔ اور جو احادیث ودلائل رائے اور قیاس کی مذمت میں وارد ہیں، وہ سب اسی صورت سے وابستہ اورمتعلق ہیں۔ لا شک فیہ۔‘‘ (نور الصباح ص ۱۰)

مذکورہ تینوں عبارات میں حضرت شیخؒ نے تین چیزیں دو ٹوک الفاظ میں واضح کردی ہیں:

۱۔ پہلی یہ کہ اصول دین یعنی منصوص اجماعی مسائل کے اندر کسی کو اختلاف کا حق نہیں، خواہ وہ مجتہد ہی کیوں نہ ہو، خواہ وہ اختلاف امانت ودیانت پر ہی مبنی کیوں نہ ہو، کیوں کہ ان میں اختلاف زہر کی مانند مہلک وخطرناک ہے۔ ان میں اختلاف کرنے والا یا تو دین اسلام سے ہی خارج ہو جاتا ہے اور یا اہل سنت سے نکل کر اہل بدعت کے فرقوں میں شامل ہو جاتا ہے اور یہ اختلاف انتہائی مذموم وقبیح ہے۔

۲۔ دوسری یہ کہ فروع دین یعنی غیرمنصوص وغیر اجماعی مسائل میں کوئی رائے قائم کرنا ہر شخص کاحق نہیں، صرف مجتہد یعنی صاحب الرائے اور صائب الرائے کاحق ہے۔ ایسامجتہد جس کی عدالت ودیانت اور تقویٰ وورع مسلم ہو اور اس اختلاف کے پیچھے خواہش کی پیروی اور نفس کی سہولت بھی مطلوب نہ ہو، اگر ایسے مجتہد کی رائے غلط بھی ہو گی تو وہ معذور بھی ہو گا اور عنداللہ ماجور بھی۔ اس کے برعکس اگر اختلاف کرنے والا کشتی اجتہاد کا پانچواں سوار ہوتو اس کی غلط رائے اسے گنہگار بھی بنا سکتی ہے۔

۳۔ تیسری یہ کہ غیرمنصوص وغیر اجماعی مسائل میں اگر سلف صالحین کی پہلے سے کوئی رائے موجود ہو تو اس کے مقابلہ میں صاحب رائے کے لیے بھی کوئی نئی رائے قائم کرنا مستحسن نہیں۔ البتہ اگر وہ کوئی نئی رائے قائم کرکے اس پر عمل کر گزرے تو اسے گمراہ بھی قرار نہیں دیا جائے گا۔

ان امور ثلاثہ پر اگر گہری توجہ دی جائے تو حضرت شیخؒ کا صرف موقف ونظریہ ہی نہیں بلکہ ان کامکمل تحقیقی فکر وفلسفہ بہت واضح صورت میں نمایاں وآشکارا ہو جاتا ہے۔ عزیزم عمار نے بھی اپنے مضمون کے اندر اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ حق اختلاف صر ف ان اہل علم کا ہے جن کی علمی حیثیت مسلم ہے۔ 

جدید مفکرین کی علمی حیثیت 

مذکورہ امور ثلاثہ کی وضاحت کے بعد اب بحث کا یہ پہلو زیادہ توجہ طلب ہو جاتا ہے کہ کسی صاحب علم کی علمی حیثیت کو مسلمہ قرار دینے کے لیے آخر اتھارٹی کیا ہے؟ اور کسی کو صاحب الرائے اور صائب الرائے تسلیم کرنے کے لیے آخر کس پیمانہ کی ضرورت ہے؟ کیا اس کا دعویٰ اوراس کے چند حواریوں کا پروپیگنڈہ اس کی علمی حیثیت منوا سکتا ہے؟ کیا اس طرح واصل بن عطا اور ابوعلی جبائی، ملا ابوالفضل،ملافیضی اور سرسید احمدخان جیسے لوگوں کی علمی حیثیت مسلم ہو سکی؟ اگر عقل اور فطرت کے تقاضوں کی روشنی میں دیکھا، جانچا اور پرکھا جائے تو اس عقلی وفطری اصول سے کوئی بھی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتا کہ جب تک سوسائٹی کے اندر معروف ومسلم اصحاب علم وفہم کی جماعت یاان کی کثیر تعداد کسی کو علمی اعتبا ر سے مسلم اور صاحب رائے تسلیم نہ کرے، اس وقت تک اس کی علمی حیثیت مسلم نہیں ہو سکتی۔ کم از کم اگر کسی ایک مکتب فکر کے اصحاب علم بھی اس کی ضمانت دے دیں تو اس مکتب فکر کی حدتک اس کی علمی حیثیت مسلم تسلیم کی جا سکتی ہے۔ ہم فی الوقت صرف حضرت شیخؒ کے حوالہ سے دیکھنا چاہیں گے کہ وہ عصر حاضر کے جدید مفکرین میں سے کسی کی علمی حیثیت تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟

ہم گزشتہ اوراق میں مدلل وباحوالہ بحث کے ذریعے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت شیخؒ اصول وفروع میں اول وآخر سنی ہیں، اس لیے انہوں نے عصر حاضر کی ہر علمی شخصیت کو صرف اور صرف اصول اہل سنت کی روشنی میں ہی دیکھا، اسی روشنی میں اس کو جانچا اور پرکھا۔ اگرعلم وفہم کے ساتھ وہ اصول اہل سنت کی کسوٹی پر پورا اترا تو حضرت شیخؒ نے اس کی مسلمہ حیثیت کابر ملا اعتراف کیا اور عرب وعجم کے ایسے بے شمار علما ہیں جن کی علمی حیثیت کا (ان کے بعض تفردات کے باوجود) حضرت شیخؒ نے اپنی کتب کے اندر تذکرہ کیا ہے، اس لیے کہ انہوں نے اصول اہل سنت کے دائرہ میں رہتے ہوئے صرف دلائل کی ترجیحات پر بعض مسائل میں اختلاف کیا۔ اس کے برعکس برصغیر پاک وہند کے متعدد ایسے جدید مفکرین جو عقل وادبیت کے حوالہ سے ابھرے، جدید اصولوں اور نئی تحقیقات کاجال پھیلایا، لیکن حضرت شیخؒ نے اہل سنت کے اصولوں کے ساتھ ان کو جکڑا اور علمی وعوامی حلقوں میں ان کو بے نقاب کیا۔ چنانچہ ایک مقام پرفرماتے ہیں کہ

’’جس طرح قرآن وحدیث اوردین اسلام کی باریکیوں کوحضرات ائمہ دینؒ سمجھتے ہیں، ایسا کوئی اور نہیں سمجھ سکتا اوران میں سے بھی علی الخصوص حضرات ائمہ اربعہ جن کے مذاہب مشہور ومتداول اور امت مسلمہ میں قابل اعتماد ہیں اورآج کل کے مادر پدر آزاد دور میں ملاحدہ وزنادقہ کو جو اسلام کے مدعی تو ہیں، مگر اسلام کی سمجھ ہی ان کونہیں اور نہ وہ اس کی روح سے واقف ہیں۔ وہ صرف اپنی نارسا عقل وخرد پر نازاں اورفرحاں ہیں اور اسی کو وہ حرف آخر سمجھتے ہیں اور حضرات سلف ؒ پر طعن کرتے ہیں۔‘ (ختم نبوت قرآ ن وسنت کی روشنی میں، ص ۴۲)

اور ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ:

’’قرآن کریم کی صحیح فہم وبصیرت تو احادیث ومحدثین اورفقہا ومفسرین ؒ پر اعتماد کرنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج، ص ۷۸)

حضرت شیخؒ کے مذکورہ فرامین کی روشنی میں یہ فرق واضح ہو چکاہے کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی، مولوی محمدعلی لاہوری، چوہدری غلام احمدپرویز، حافظ محمد اسلم جیراج پوری، علامہ عنایت اللہ المشرقی، سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسے جدیدمفکرین (جنہوں نے جدیداصول وضع کرکے گمراہیاں پیدا کیں) کی علمی حیثیت کو حضرت شیخؒ قطعاً تسلیم نہیں کرتے، بلکہ انہیں ضال اور مضل قرار دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے حضرت شیخؒ کے طرز تحقیق کی روشنی میں دیگر جدیدمفکرین کو بھی جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ اگران کے اصول تحقیق اور ان کا طرز تحقیق اکابر اور اسلاف سے ملتاہے تو ان کی علمی حیثیت تسلیم کی جا سکتی ہے، ورنہ وہ بقول حضرت شیخؒ پانچواں سوار ہے۔ 

حضرت شیخؒ اکثر وبیشتر اپنے دروس واسباق میں مودودی صاحب اور ان جیسے دیگر جدید مفکرین کو پانچواں سوار قرار دیتے تھے۔ اصول الشاشی کے سبق کے دوران ایک طالب علم کے سوال پر اس کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ شاہی محل کے چار گھڑسوارشاہی لباس میں ملبوس تیز رفتار گھوڑوں پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ دہلی کی طرف رواں دواں تھے۔ ان کی شان وشوکت اور شاہی ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر راستہ میں ہر جگہ لوگ جمع ہو جاتے اور ان سے سوال کرتے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہم دہلی جا رہے ہیں۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک مفلوک الحال بوڑھا بوسیدہ لباس میں ملبوس،کمزور،لاغر اور مریل سے گدھے پر سوار چلا آرہا تھا اورلوگوں کے پوچھے بغیر ہی شور مچا رہا تھا: میں بھی دہلی جا رہا ہوں، میں بھی دہلی جا رہا ہوں۔ وہ پانچواں سوا ر تھا۔

اس مثال سے حضرت شیخؒ کا مطلب یہ تھا کہ فقہا ومجتہدین او رعلماے امت توعلم وفہم کے برق رفتار گھوڑوں پر سوارہیں، اصول اہل سنت کے شاہی لباس سے آراستہ ہیں، تقویٰ وقبولیت کی شان وشوکت سے مزین ہیں، اصحاب علم واہل ذوق کا ایک جم غفیر ان کی راہوں میں پلکیں بچھائے بیٹھا ہے، ان پر عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کر رہا ہے، ان کی تحقیقات وتعلیمات پر اعتماد کر رہا ہے اور ان کی تقلید واتباع کے ذریعے اپنے عقائد واعمال کی آبیاری کر رہا ہے، جبکہ جدت پسند مفکرین کا طبقہ علم سے محروم اور عقل سے پید ل ہے، ان کادامن اہل علم کے اعتمادسے خالی ہے اور ان کے ارد گرد دین سے چھٹکارا حاصل کر کے فرائض میں چھوٹ اور معیشت ومعاشرت میں آزادی تلا ش کرنے والے مغرب زدہ ماڈرن مسلمانوں کا ہڑبونگ ہے اور ظاہر بات ہے کہ صرف مطالعہ کے زور پر اصولوں میں تبدیلی، افکار میں تغیر، اسلاف پر عدم اعتماد اور لفظوں کے ہیر پھیر کوعلم وتحقیق کا نام تو نہیں دیا جا سکتا۔ 

پہلی غلطی: 

عزیزم عمار خان ناصر نے اپنے مضمون کے اندر جس پہلی غلطی کا ارتکاب کیاہے، وہ جمہور اہل علم کے معروف ومانوس نقطہ نظر سے الگ راستہ نکالنے کے جواز کی حضرت شیخؒ کی طرف نسبت ہے اور اس کے لیے انہوں نے حضرت شیخؒ کی چند ادھوری ومجمل عبارات سے جو تعبیر اخذکی ہے، ہمارے خیال میں وہ سراسر خلاف حقیقت ہے۔ ہم گزشتہ سطورمیں واضح کر چکے ہیں کہ حضرت شیخؒ اجماعی موقف اور جمہور کے موقف میں فرق کرتے ہیں جبکہ عزیزم عمار ان دونوں میں کوئی فرق ملحوظ نہیں رکھتے، کیوں کہ وہ اجماع قطعی کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتے، اس لیے وہ اجماعی موقف اور جمہور کے موقف کوایک ہی قرار دیتے ہیں۔ اس کی بحث گزشتہ سطور میں ہو چکی ہے۔

حضرت شیخؒ اور عزیزم عمار کے موقف میں اس واضح اختلاف کے بعد مذکورہ جواز کی حضرت شیخؒ کی طرف نسبت بالکل بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ عزیزم عمار نے غالباً غیر شعوری طور پر یہ شبہ پیدا کر دیا ہے کہ حضرت شیخؒ ان مسائل میں بھی اختلاف کو جائز تسلیم کرتے ہیں جو ان کے نزدیک اجماعی ہیں، حالانکہ یہ سراسرغلط ہے۔ اور عزیزم عمار نے بعض اکابرعلما کے جمہور سے اختلاف کی جو مثالیں دی ہیں، وہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ اجماعی مسائل میں اختلاف کی گنجایش موجود ہے۔ لہٰذا جب تک یہ بات کنفرم نہ ہو جائے کہ عزیزم عمار اجماعی موقف اور جمہور کے موقف میں اسی طرح فرق کرتے ہیں جس طرح حضرت شیخؒ نے وہ فرق ملحوظ رکھا ہے، اس وقت تک مطلقاً جوازکی نسبت حضرت شیخؒ کی طرف ناقابل تسلیم ہے۔ 

دوسری غلطی: 

عزیزم عمار نے اپنے مضمون کے اندر جس دوسری بڑی غلطی کاارتکاب کیاہے، اس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت شیخؒ مسلم علمی حیثیت رکھنے والے اہل علم کا جمہور اہل علم کے موقف (بہ الفاظ دیگر اجماعی موقف) سے اختلاف کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے حضرت شیخؒ کی کن عبارات سے یہ نتیجہ اخذکیا ہے، کیونکہ حق تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رکھا جا سکتا ہے، حالانکہ یہ سراسر غلط ہے اور ہم اسے حضرت شیخؒ پر بہتان عظیم قرار دیتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ماضی کے بعض اکابر کے تفردات کا حوالہ دیاہے کہ ان بزرگوں نے بعض اجماعی مسائل میں اختلاف کیا ہے، لیکن حضرت شیخؒ اس کے باوجود انہیں کافر یا اہل سنت سے خارج قرار نہیں دیتے۔ اس سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتاکہ حضرت شیخؒ ان کو اختلاف کاحق دیتے ہیں یا ان کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب تو فقط اتنا ہے کہ ان بزرگوں کی غلطی کوغلطی تسلیم کر کے ان کی مسلمہ علمی حیثیت کے پیش نظر انہیں اہل سنت سے خارج قرار نہ دیا جائے۔ اور ان دونوں باتوں میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ اگر حضرت شیخؒ ان کی غلطی کوغلطی ہی تسلیم نہیں کرتے، پھر تو کہا جا سکتاہے کہ وہ ان کو اجماعی مسائل سے اختلاف کاحق دیتے ہیں، لیکن اگر وہ ان کی غلطی کو غلطی قرار دیتے ہیں، صرف ان کی بلند مقام شخصیت کی بنا پر ان کے خلاف فتویٰ نہیں دیتے تو کیونکر دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت شیخؒ ان کا حق اختلاف تسلیم کرتے ہیں؟ اور اس حقیقت سے عزیزم عمار بھی یقیناً واقف وباخبر ہوں گے کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں بزرگ کا تفرد ہے توا س کامطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لیے ناقابل تسلیم ہے۔ چنانچہ عزیزم عمار خود اپنے مضمون کے اندر حضرت شیخؒ کی کتاب ’’دل کاسرور‘‘ کے ص۲۱۹ کے حوالہ سے حضرت شیخؒ کایہ قول نقل کیا ہے کہ 

’’اگر کسی بزرگ کا قول کسی جگہ مجمل ہے توان ہی کی عبارت میں دوسری جگہ اس کی تفصیل بھی عموماً موجود ہے۔ اگر بالفرض اس کی کوئی منا سب تاویل آپ کو نہیں مل سکتی تو قرآن کریم اور احادیث اور اجماع امت کے مقابلہ میں ان کی وہ بات مر دود ہوگی، نہ یہ کہ اس پر دین کی اور خصوصاً عقیدہ کی عمارت استوار ہوسکتی ہے۔‘‘

عزیزم عمار اپنے ہی نقل کردہ اس حوالہ پر بغور توجہ دیں کہ حضرت شیخؒ اجماع امت کے خلاف کسی موقف کو غلط ومردود قراردے رہے ہیں یا اس موقف کو اختیار کرنے والوں کا حق اختلاف تسلیم کرتے ہیں؟

تیسری غلطی: 

عزیزم عمار نے اپنے مضمون کے اندر جس تیسری بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، اس میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت شیخؒ اجماعی مسائل میں علمی اختلاف کو اہل سنت کے منہج سے انحراف یا گمراہی قرار نہیں دیتے تھے۔ حضرت شیخؒ کی کتب وتصانیف اور تحقیقات سے گہری واقفیت رکھنے والے حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عزیزم عمار کا یہ موقف ودعویٰ بھی سراسر خلاف حقیقت ہے، کیونکہ عصر حاضر کے مختلف فتنوں کے غیر اجماعی نظریات اور اجماع امت کے خلاف ان کے افکار باطلہ کا رد حضرت شیخؒ نے اجماع امت کے حوالہ سے کیا ہے۔ سید عنایت اللہ شاہ بخاری نے جب مسئلہ حیات النبی اور سماع الموتی عند القبر سے اختلاف کیا اور امت کے اجماعی موقف کے خلاف الگ رائے قائم کی تومفتی اعظم دارالعلوم دیوبند مفتی سید مہدی حسن ؒ نے ان کے خلاف فتویٰ دیاکہ :

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مزار مبارک میں بجسدہ موجود ہیں اور حیات ہیں۔ آپ کے مزار پر پاس کھڑے ہو کر جو سلام کرتا ہے اور درود پڑھتا ہے، آپ خود سنتے ہیں اور جو اب دیتے ہیں۔ جو اس کے خلاف کہتا ہے، وہ غلط کہتا ہے، وہ بدعتی ہے۔ خارج اہل السنۃ والجماعۃ ہے، خراب عقیدہ والا ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔‘‘

اس فتویٰ پر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ (جامعہ اشرفیہ، لاہور) حضرت مولانا مفتی ضیاء الحق (جامعہ اشرفیہ) حضرت مولانا رسول خان ہزاروی (جامعہ اشرفیہ) کے علاوہ حضرت شیخؒ کے بھی دستخط موجود ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت شیخؒ پر یہ الزام سراسر غلط وبے بنیاد ہے کہ وہ اجماعی مسائل میں اختلاف کرنے والوں کو اہل سنت سے خارج وگمراہ قرار نہیں دیتے۔ 

چوتھی غلطی: 

عزیزم عمار نے اپنے مضمون کے اندر جس چوتھی بڑی غلطی کاارتکاب کیا ہے، اس میں انہوں نے بعض ایسی بزرگ شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جو بعض اجماعی نظریات سے اختلاف رکھتی ہیں، لیکن حضرت شیخؒ نے ان کا تذکرہ بڑے ادب اور احترام سے کیا ہے۔ ہمارے خیال میں عزیزم عمار اس مقام پر نہ تومسئلہ کی حقیقی واقعیت کو سامنے رکھ سکے ہیں اور نہ حضرت شیخؒ کے تحقیقی مزاج کو۔ اس پرہم مختلف پہلوؤں سے کچھ عرض کرناچاہیں گے۔

۱۔ ائمہ اہل سنت اصطلاحات کے حوالہ سے تفرد اور ضلالت میں فرق کرتے ہیں، حالانکہ ظاہری طور پر ان دونوں کے پیچھے غلطی ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ دونوں کے پیچھے منصوص واجماعی مسائل سے اختلاف پایاجاتاہے، لیکن جس کی غلطی کو تفرد قراردیا جاتا ہے، اس پر گمراہی کافتویٰ لاگو نہیں ہوتا اور جس کی غلطی کو ضلالت قرار دیا جاتا ہے، اس پر گمراہی کا فتویٰ لاگو ہوتا ہے۔ صاحب تفرد کے پیچھے ذہنی طور پر بددیانتی کا عمل دخل نہیں ہوتا، جبکہ صاحب ضلالت کے پیچھے ذہنی بددیانتی ہی کار فرماہوتی ہے۔ اگرچہ کسی کی ذہنی نیت کا معلوم کرنا آسان نہیں، لیکن ہمارے خیا ل میں دو طریقوں سے اس اندازہ وتخمینہ لگایا جا سکتاہے۔ پہلا یہ کہ اسلاف امت کے حوالہ سے دیکھاجائے کہ وہ غلطی کو تفرد اور اس کے مرتکب کواہل سنت قرار دیتے ہیں یا وہ غلطی کو ضلالت اور اس کے مرتکب کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔ ہمارے حضرت شیخؒ نے اسی پیمانہ کواپنا یا ہے، جیساکہ خود عزیزم عمارنے راہ ہدایت ص ۱۲۱ کے حوالہ سے حضرت شیخؒ کایہ قول نقل کیا ہے کہ 

’’اکثر اہل بدعت مشہور محدث حافظ ابن تیمیہ ؒ اور حافظ ابن القیم ؒ کی رفیع شان میں بہت ہی گستاخی کرتے ہیں مگر ملاعلی قاری الحنفیؒ ان دونوں بزرگوں کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ یہ دونوں اہل السنت والجماعت کے اکابر ہیں اور اس امت کے اولیا میں تھے۔‘‘ 

گویا حضرت شیخؒ بزرگان دین کی اغلاط کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کرنے کے لیے بھی بزرگان دین ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ یقیناًعزیزم عمار کی یہ غلط فہمی اب دور ہو گئی ہوگی کہ حضرت شیخؒ نے امام ابن تیمیہ،امام حافظ ابن قیم، علامہ عبدالرحمن بن خلدون، علامہ ابن حزم ظاہری وغیرہ بزرگان دین کا تذکرہ ان کے تفردات کے باوجود ادب واحترام کے ساتھ کیوں کیا ہے؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی اجماعی نظریہ کے خلاف رائے قائم کر کے غلطی کرنے والے کے طرز عمل کا جائزہ لیاجائے کہ اس نے اپنی اس غلط رائے کا اپنی تقریر یا تحریر میں صرف اظہار کیا ہے یا اس کی شاعت وترویج کے لیے کوئی ادارہ یا جماعت بھی قائم کی ہے اور اپنی فکری وعملی صلاحیتیں اس کو فروغ دینے کے لیے صرف بھی کی ہیں۔ ہمارے خیال میں جس بزرگ نے صرف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس کے فروغ واشاعت کے لیے اپنی توانائیاں صرف نہیں کیں، ان کی اس رائے کو تفرد ہی قرار دیا گیا ہے اور ایسے کسی بزرگ کے حوالے سے ہمیں تاریخ کے اندر تفردات کے فروغ کے لیے کسی تحریک، کسی جماعت، کسی ادارہ اور کسی مستقل گروہ کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے اپنے نظریات کا صرف اظہار نہیں کیا بلکہ ان کے فروغ کے لیے جماعتیں، ادارے، گروہ اور تحریکیں پیداکی ہیں، اپنی ہر قسم کی توانائیاں اس کی اشاعت کے لیے صرف کی ہیں اور اہل حق کے خلاف مناظرانہ اور مجادلانہ محاذ آرائی قائم کی ہے، اجماعی وجمہوری موقف کو غلط و باطل قرار دینے کی کوشش کی ہے، ان کی اغلاط کو ضلالت وگمراہی او ر الحاد وزندقہ ہی قرار دیا گیا ہے۔ ماضی کی خوارج، معتزلہ، روافض، جبریہ، قدریہ،کرامیہ اورخلق قرآن وغیرہ تحریکیں اور حال کی اہل قرآن (منکرین حدیث) خاکسار، مودودی صاحب کی جماعت اسلامی، منکرین حیات انبیا وغیرہ تحریکیں اسی زمرہ میں شمار ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر جاوید احمد غامدی (باوجود اس کے کہ ان کی علمی حیثیت کم از کم حضرت شیخؒ کے مسلک میں تو مسلم نہیں ہے) کے طرزعمل، ان کے ادارہ کے قیام اور مختلف ٹی وی چینلز پر ان کی طرف سے اپنے نظریات کی اشاعت وترویج کے حوالے سے عزیزم عمار خود فیصلہ کریں کہ ان کی اغلاط اور اجماع امت کے خلاف ان کی آرا تفردات میں شمار ہوں گی یا ضلالت میں؟ 

۲۔ عصرحاضر کی بعض شخصیات علامہ شبلی نعمانی، مولانا امین احسن اصلاحی اور نواب صدیق حسن خانؒ وغیرہ کے بارہ میں حضرت شیخ کے تعریفی کلمات کاحوالہ دیتے ہوئے عزیزم عمار نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ حضرت شیخؒ اہل علم کے لیے حق اختلاف تسلیم کرتے تھے۔ یہ فلسفہ ہمارے لیے ناقابل فہم ہے کہ نواب صدیق حسن خانؓ کے تفردات کو تفردات تسلیم کرتے ہوئے ان کے حق اور صحیح موقف سے استدلال کرنے سے ان کاحق اختلاف کیسے ثابت ہوتا ہے؟ علامہ شبلی نعمانیؒ کے کلامی مسائل میں معتزلی ہونے سے ان کو مشہور ومعتبر مورخ تسلیم کرلینا ان کے معتزلی مسائل وموقف کے جواز کا ثبوت کیسے بن جاتا ہے؟ اور مولانا امین احسن اصلاحی کو ’’حضرت مولانا‘‘ لکھ دینے سے ان کاجمہور واجماع سے حق اختلاف کیونکر ثابت ہوسکتا ہے۔ 

ہمارے خیال میں عزیزم عمار حضرت شیخؒ کے تحقیقی وتصنیفی مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں، اس لیے ان کے قلم سے سامنے آنے والے چند تعریفی کلمات سے وہ غلط فہمی کاشکار ہو جاتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانیؒ کے افکار پر حضرت شیخؒ نے قلم نہیں اٹھایا۔ ان کے لیے علامہ کا لقب یالفظ استعمال کیا تو عزیزم عمار نے فوراً ایک تعبیر اخذ کر لی، لیکن اگر وہ حضرت شیخؒ کی جملہ تصانیف کاگہری نظر سے مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ حضرت شیخؒ نے علامہ عنایت اللہ المشرقی کے لیے بھی علامہ کا لقب استعمال کیا ہے، حالانکہ ان کے افکار ونظریات پر شدید ترین گرفت کرتے ہوئے وہ ان کو منکر حدیث قرار دیتے ہیں اور اس کی متعدد مزید مثالیں حضرت شیخؒ کی کتب میں موجود ہیں۔ مولانا، مولوی اور مفتی وغیرہ الفاظ تعظیم کی علامت ہیں، لیکن حضرت شیخؒ ان لوگوں کے لیے بھی انھیں استعمال کرتے ہیں جن پر اعتقادی گرفت کر رہے ہوتے ہیں۔ 

یہ طرز وفلسفہ عزیزم عمار کے بچگانہ اور ناتجربہ کارانہ ذہن کو شاید ایسے ہضم نہ ہو، ہم اس کی مثال دے کر انہیں سمجھا نا چاہتے ہیں۔ ہم نے جب اپنی زندگی کی پہلی تصنیف ’’فتویٰ امام ربانی برمرزا غلام احمد قادیانی‘‘ کا مسودہ اصلاح کے لیے حضرت شیخؒ کی خدمت میں بھیجا تو اس میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں وہی طرز اختیار کیا گیا تھا جسے تحریری لفظی یا عملی انتہا پسندی قرار دیاجا سکتا ہے۔ جب مسودہ کی اصلاح ہو چکی تو ہمیں طلب کیا گیا اور اپنے سامنے ہی مسودہ چیک کرنے کا حکم دیا گیا۔ کاغذات الٹ پلٹ کر دیکھے تو ہر جگہ مرزاقادیانی کے بارے میں ہمارے لفظی جذبات مقطوع ہو چکے تھے اور ہر جگہ ایک ہی جملہ لکھا تھا: ’’مرزا صاحب نے یہ کہا‘‘ یا ’’مرزا صاحب نے یہ لکھا۔‘‘ جب تک ہم کاغذات کوالٹتے پلٹتے رہے، نگاہیں ہمار ے چہرے پر مرکوز رہیں اور قلبی تاثرات کا چہرے سے جائزہ لیا جاتا رہا اور پھر سادہ سے انداز میں ایک نصیحت کی گئی: ’’تحریرکے اندر اپنے موقف ونظریہ کو بے لچک انداز میں پیش کرو، مگر مخاطب کی شخصی حیثیت کا ضرور لحاظ رکھو تاکہ تمہاری تحریر کو پڑھنے والا اسے ذاتی وشخصی عناد وبغض پر محمول نہ کر سکے۔‘‘ اس ایک بہت ہی سادہ اور جا ندار جملہ سے عزیزم عمار حضرت شیخؒ کے تصنیفی وتالیفی مزاج سے یہ بات کافی حدتک سمجھ گئے ہوں گے کہ کسی شخصیت کے بارہ میں تعظیمی وتکریمی الفاظ استعمال کرنے سے حضرت شیخؒ کایہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی اجماعی موقف کے خلاف وہ اس کا حق اختلاف تسلیم کررہے ہیں۔

۳۔ شیخ الصوفیاء محی الدین ابن عربیؒ کے نظریہ وحدت الوجود اور اس کے بارے میں حضرت شیخؒ کا موقف (کہ اس نظریہ کوکھینچ تان کر ہی قرآن وسنت کے مطابق بنا یاجا سکتا ہے) نقل کرنے کے بعد عزیزم عمار لکھتے ہیں کہ ان کاتذکرہ بھی اپنی تصانیف کے اندر حضرت شیخؒ بے حد احترام کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگرعزیزم عمار نے حضرت شیخؒ سے جو اسباق پڑھے ہیں، انہیں پوری توجہ سے سناہے تو انہیں معلوم ہوگا کہ حضرت شیخؒ صوفیاے کرام کی بعض اصطلاحات اورا ن کی مبہم تعبیرات سے شدید اختلاف رکھتے ہوئے اکثرایک جملہ فرمایاکرتے تھے: ’’قول صوفی حجت نیست‘‘، یعنی وہ صوفیاے کرام کے ایسے اقوال وتعبیرات کو جوا جماع کے خلاف ہیں، حجت تسلیم نہیں کرتے البتہ ان کا ادب واحترام پوری طرح ملحوظ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ 

’’اور حضرت مجدد الف ثانیؒ (مکتوبات، دفتر اول ص ۳۳۵) میں لکھتے ہیں کہ عمل صوفیہ درحل وحرمت سند نیست، ہمیں بس است کہ ایشاں را معذور داریم وملامت نہ کنیم۔ جب حلال وحرام کے مسئلہ میں صوفیاے کرام کی بات حجت اور سندنہیں توعقائد میں ان کی گول مول اور مجمل باتیں کب قابل قبول ہوں گی؟ اور شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اخبار الاخیار ص ۹۳ میں لکھتے ہیں کہ ’’ومشرب پیر حجت نیست، دلیل از کتاب وسنت می باید‘‘۔ جب پیر کی بات سرے سے حجت ہی نہیں، بلکہ کتاب وسنت سے استدلال کرنا ضروری ہے تونہ معلوم ان کی بات سے عقائد کا اثبات اور پھر قرآن کریم کا مقابلہ کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ اور حضرت شاہ ولی اللہ بھی ’’البلاغ المبین‘‘ المنسوب بشاہ ولی اللہ ؒ میں صاف طور پر اس کی تصریح کرتے ہیں کہ کسی پیر اور صوفی کی بات حجت نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم اور حضرات صحابہ کرام کی اتباع ہی ا یمان ہے اور اسی میں سلامتی ہے۔ اب جو صاحب اس مسئلہ پر خامہ فرسائی کریں، ان کو یہ بات اچھی طرح مد نظر رکھنی چاہیے کہ ایسے اہم مسئلہ پر کسی بزرگ کا کوئی قول حجت نہیں، بلکہ خود خبر واحد صحیح بھی حجت نہیں، اور قرآن کریم (اور حدیث متواتر) کے مقابلہ میں اس کا پیش کرنا محض پرزہ بافی ہے۔‘‘ (آنکھوں کی ٹھنڈک، ص ۲۵۔۲۶) 

حضرت شیخؒ اس مقام پر تین ایسے بزرگوں کے حوالے نقل کر رہے ہیں جو ارباب شریعت بھی ہیں اور اصحاب طریقت بھی اور تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ حلال وحرام اور عقائد وافکار میں پیر اور صوفی کی بات حجت نہیں، اور حضرت مجددالف ثانیؒ ساتھ اس بات کی وضاحت بھی فرما رہے ہیں کہ صوفیاے کرام کی بات حجت وسند نہ ہونے کے باوجود ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کو معذور سمجھیں اورا نہیں ملامت نہ کریں۔ اس مختصر مگر مدلل بحث کے بعد ہمارے لیے یہ با ت قطعی طور پر ناقابل فہم ہے کہ جو شخص برملا اور علانیہ طور پر ’’قول صوفی حجت نیست‘‘ کا فتویٰ دیتا ہو، اس فتویٰ پراکابر واسلاف کے حوالہ جات ودلائل پیش کرتا ہو، اس پر یہ الزام کیونکر درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اجماعی عقائد وافکار اور مسائل واحکام کے خلاف صوفیاے کرام کا حق اختلاف تسلیم کرتا ہوگا؟ 

یہ جو راہ تیری طویل ہے، تری گمرہی کی دلیل ہے

تری منزلیں ہیں وہیں کہیں ترا رخ جدھر نہیں ہو رہا 

۴۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے بارے میں حضرت شیخؒ کے ایک مکتوب (بنام مولانا مشتاق احمد چنیوٹی مدظلہ) کا حوالہ بھی عزیزم نے دیاہے جس میں حضرت شیخؒ نے فرمایا ہے کہ ’’مولانا سندھی ؒ کے بعض نظریات سے اختلاف تو کیاجا سکتا ہے، لیکن ان پر کوئی فتویٰ نہیں لگتا۔ ‘‘

اس مکتوب سے بھی عزیزم عمار نے اجماعی مسائل کے اندر اہل علم کاحق اختلاف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس بارے میں پہلی بات تویہ ہے کہ حضرت سندھیؒ کے افکار ونظریات پر ہم گزشتہ چھ سال سے مسلسل تحقیق کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بارے میں مختلف اہل علم کی طرف سے یہ تو کہا گیا ہے کہ ان کے بعض نظریات درست نہیں تھے یاان کے بعض نظریات سے اختلاف کیا جا سکتاہے یا ان کی بعض آرا مرجوح وشاذ ہیں، لیکن وہ آرا ونظریات کس نوعیت کے ہیں؟ ا س پر کوئی محقق بحث نہیں ملتی اور ہمیں تلاش بسیار کے باوجود ان کا کوئی ایسا نظریہ دستیاب نہیں ہو سکا جو عقیدہ سے متعلق ہو، اجماع امت کے خلاف ہو اور علم وتحقیق کے حوالے سے کسی مستند ومعتمد ذریعے سے ثابت ہو۔ محض املائی تقاریر وتفاسیر پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے، اصحاب علم وتحقیق اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ 

حضرت سندھیؒ کی شخصیت ونظریات کے بارے میں حضرت شیخؒ کے ساتھ ہماری تقریباً تین طویل نشستیں ہوئیں۔ حضرت شیخؒ کاموقف یہ تھا کہ ہمارے بعض اکا بر علما حضرت سندھیؒ کے بعض نظریات سے اختلاف رکھتے تھے، لیکن حضرت سندھی ؒ کاکسی اجماعی عقیدہ سے اختلاف میرے علم میں نہیں۔ اس موضوع پر ہماری تفصیلی کتاب زیر ترتیب ہے جس میں ہم ان شاء اللہ اس موضو ع پر مدلل بحث کریں گے۔ لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیاجائے کہ حضرت سندھیؒ بعض اجماعی نظریات سے اختلاف رکھتے تھے توبھی حضرت شیخؒ کے مکتوبہ جملہ سے صاف ظاہر ہو رہاہے کہ وہ تفردات کے زمرہ میں شمار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان سے یہ نتیجہ اخذ کرناکہ اس سے اہل علم کا اجماعی مسائل وعقائد میں حق اختلاف ثابت ہوتا ہے، سراسر خلاف حقیقت ہے۔

۵۔ مضمون کے اندر عزیزم عمار نے حضرت شیخؒ کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کاتذکرہ بھی کیا ہے۔ وہ اس کی تفصیلات بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ :

’’وفات سے چند ماہ قبل کی بات ہے کہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ گفتگو کے دوران میں میں، نے کہا کہ آپ علمی مسائل میں جمہور کی رائے کی پابندی پر بہت اصرار کرتے ہیں، لیکن بہت سے اکابراہل علم مثلاً امام ابن تیمیہؒ ؒ کے ہاں متعدد مسائل میں عام موقف سے ہٹ کر رائے پیش کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ (امام ابن تیمیہؒ کی ایسی آرا کی تعداد تین درجن کے قریب شمار کی گئی ہے) کیایہ حضرات جمہور کی رائے کی اہمیت سے واقف نہیں تھے؟ اور کیا ان کو یہ حق حاصل تھاکہ وہ اپنی منفرد رائے قائم کریں؟ انہوں نے فرمایا، ہاں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ایسا کرنے سے وہ گمراہی کا ارتکاب کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا، نہیں۔ میں نے کہا کہ کیا ایسا کرنے کے باوجود وہ اہل سنت کے دائرے ہی میں رہتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں۔‘‘

ہم نے عزیزم عمارکے الفاظ میں وہ گفتگو بے کم وکاست نقل کر دی ہے۔ اس پوری گفتگو سے دو چیزیں واضح ہو رہی ہیں۔ پہلی یہ کہ حضرت شیخؒ جو کچھ فرما رہے ہیں، وہ امام ابن تیمیہ کی علمی حیثیت وشخصیت کے حوالہ سے فرما رہے ہیں۔ ان کی آڑ میں عصر حاضر کی کسی شخصیت کے لیے حق اختلاف کا جواز نکالنا درست نہ ہوگا۔ دوسری یہ کہ سوال کی روشنی میں حضرت شیخؒ کا یہ موقف صرف جمہور کے موقف سے حق اختلاف کا ہے، نہ کہ اجماعی موقف سے، کیونکہ اجماعی مسائل کے اندر حضرت شیخؒ نہ کسی بڑے کا حق اختلاف تسلیم کرتے ہیں نہ کسی چھوٹے کا، جیساکہ اس کی کچھ بحث گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے۔ 

حاصل بحث

عزیزم عمار ناصر کے مضمون میں اٹھائے گئے جملہ امور سے حاصل بحث کے طو ر پر درج ذیل چیزیں واضح ہو جاتی ہیں: 

۱۔ حضرت شیخؒ امت کے اجماعی موقف اور جمہور کے موقف میں فرق کرتے ہیں۔ 

۲۔ امت کے اجماعی موقف ونظریہ میں اختلاف کی کوئی گنجایش تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اجماعی موقف سے اختلاف کرنے والے کو دین سے خارج یااہل سنت سے خارج اور بدعتی قرار دیتے ہیں۔

۳۔ ماضی میں اگر کسی نے اجماعی موقف سے اختلاف کیا ہے اور اختلاف کرنے والے کے علم ودیانت کی اسلاف امت کے ہاں شہادت پائی گئی ہے تو اس کے اختلاف کو تفرد قرار دیتے ہیں اور اس کی علمی حیثیت وشخصیت کا پورا ادب واحترام ملحو ظ رکھتے ہیں۔

۴۔ حضرت شیخؒ کامختار، پسندیدہ اور تلقین کردہ مسلک یہی ہے کہ جمہور اہل علم کی تحقیقات وتعلیمات سے وابستہ رہیں اور دوسروں کو بھی اس سے وابستہ رکھیں۔ 

۵۔ اگر کوئی مسلم صاحب علم جمہور کے موقف کے خلاف غیر جمہور کے موقف کو اپنائے یااس کے خلاف اپنی تحقیق ورائے پر عمل کرے تو اسے جائز قرار دیتے ہیں، لیکن غیر مستحسن۔ 

۶۔ غیراجماعی مسائل میں جمہور اہل علم سے اختلاف کا حق ہرکس وناکس کونہیں دیتے، بلکہ صرف ان اہل علم کو دیتے ہیں جو صاحب الرائے اورصائب الرائے ہیں اوران کی علمی حیثیت مسلم ہے۔

۷۔ صاحب الرائے اور صائب الرائے کو رائے کی غلطی میں معذور وماجور مانتے ہیں، جبکہ غیرمجتہد کی رائے کی غلطی کو گناہ قرار دیتے ہیں۔ 

۸۔ عصرحاضر کے تمام جدیدمفکرین غلام احمدپرویز، عنایت اللہ المشرقی، عبداللہ چکڑالوی، ابوالاعلیٰ مودودی اوران کے طرز کے دیگرجدت پسندوں کو نہ اہل علم تسلیم کرتے ہیں نہ صاحب الرائے اور نہ صائب الرائے بلکہ وہ ان سب کو پانچواں سوار قرار دیتے ہیں۔


افکارِ امام اہلِ سنت اجماعِ امت کی روشنی میں

اب ہم اس بحث کو آخری اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل کر رہے ہیں۔ ہم گزشتہ سطور میں پوری طرح واضح کر چکے ہیں کہ ہمارے حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ اپنے جملہ افکار و عقائد کے لیے تمام شرعی دلائل سے استدلال کرتے ہیں،لیکن اپنے عقیدہ و فکر کو اجماع امت یا جمہور اہل سنت کے حوالہ سے ہی ثابت کرتے ہیں۔ گویا قرآنی و حدیثی افکار و احکام کی تعبیرو تشریح کے لیے بھی وہ اسلاف امت کی تحقیقات سے وابستہ رہنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اب ہم اسی حوالہ سے حضرت شیخ ؒ کے عقائد و افکار کا جائزہ لینے کی کو شش کریں گے۔ ملاحظہ فرمائیے:

۱۔ وجوب قربانی: 

موجودہ دور کے منکرین حدیث نے جب دیگر اسلامی احکام و اعمال کے علاوہ قربانی جیسی متواتر عبادت پر بھی انکارو انحراف کا شب خون مارا اور اسے ایام حج اور حدود حرم تک مقید و محدود کرنا چاہا تو حضرت شیخ ؒ نے فرمایا کہ 

(۱) ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مدینہ طیبہ، فارس اور دیگر اسلامی ممالک میں باقاعدہ قربانی کی ہے اور تواتر کے ساتھ اس کا ثبوت ملتا ہے اور ایسے تواتر کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘ (مسئلہ قربانی، ص:۱۵)

(۲) ’’قربانی کے ثبوت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اور فعلاً متواتر درجہ کی حدیثیں موجود ہیں اور تمام امت کا اس پر اتفاق رہا ہے اور اس گئے گزرے دور میں بھی لوگ اس سنت کو کروڑوں کی تعداد میں ادا کرتے ہیں۔‘‘ (انکا ر حدیث کے نتائج ص: ۱۷۲)

۲۔ ایام قربانی: 

وجوب قربانی اگرچہ اجماعی مسئلہ ہے، لیکن ایام قربانی میں ائمہ اہل سنت کے اندر اختلاف موجود ہے۔ جمہور اہل سنت کے نزدیک قربانی کے ایام تین ہیں، حضرت امام شافعیؒ کے نزدیک چار ہیں۔ ہمارے ہاں کے غیر مقلدین بھی قربانی کے چار دن ہی مانتے ہیں۔ یہ ایک خالص اجتہادی مسئلہ ہے، لیکن غیر مقلدین حسب عادت اجتہادی مسائل میں بھی سخت و ناروا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کے رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

’’باوجود یکہ اس مسئلہ (قربانی) میں ائمہ ثلاثہ (حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ ) کا مسلک صحیح حدیث پر مبنی ہے اور اکثر امت کا اسی پر عمل رہا ہے اوراب بھی ہے، مگر بایں ہمہ ہم فریق ثانی کے حق میں کم فہم، متعصب، تنگ دل اور بد دیانت وغیرہ کے الفاظ کی نسبت کرنا انتہائی گستاخی اور بے ادبی سمجھتے ہیں۔ کس منہ سے ہم حضرت امام شافعی کو اور ان کے مقلدین کو یہ لفظ کہہ سکتے ہیں؟ یہ حوصلہ تو غیر مقلدین حضرات کو ہی حاصل ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو سب کچھ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ ( مسئلہ قربانی ص: ۳۷)

۳۔ تکوینی و تشریعی امور کا حاکم: 

جب ہمارے ہاں بعض طبقات نے انبیاے کرامؑ ، ائمہ عظام اور اولیاء اللہ کو مختار کل قرار دے کر انہیں اوصاف الوہیت میں حصہ دار بنا دیا اور یہ ایک صریح شرک تھا، حضرت شیخ ؒ نے ان کے اس نظریہ کی تردید فرمائی اور ثابت کیا کہ تکوینی اور تشریعی دونوں قسم کے امور میں حاکم و مختار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’میرا اور میرے تمام اکابر بلکہ حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ ، اتباع تابعین اور ؒ تمام ائمہ اہل السنت والجماعت کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ تکوینی اور تشریعی طور پر حاکم اور مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس نے مافوق الاسباب اختیارات کسی کو نہیں دیے۔‘‘ (دل کا سرور ص:۱۳)

(۲) مکتوبات معصومیہ جلد ۳ ص۸۳، غنیۃ الطالبین ص ۲۲۱، اور شرح مواقف ص ۷۵۴ کے حوالے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ 

’’الحاصل ائمہ اہل السنت والجماعت اس بات ہر متفق ہیں کہ جس فرقہ نے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم و دیگر ائمہ حضرات کو مختار کل تسلیم کیا ہے، وہ باطل اور گمراہ فرقہ ہے اور اہل السنت واہل توحید سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۲۴)

تکوینی اور تشریعی امور کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 

’’تکوینی امور سے مراد زمین و آسمان، انسان و حیوان، چرند و پرند اور مختلف کیڑے مکوڑے، بیماری و تندرستی، فقر و غنا، اولاد دینا یا سلب کرنا، گدا سے بادشاہ بنانا اور بادشاہ کو گدا کرنا، بچے کو جوان اور جوان کو بوڑھا بنانا، رزق دینا یا نہ دینا، مینہ برسانا یا روک دینا وغیرہ امور کو پیدا کرنا اور ظاہر کرنا ہے ۔۔۔۔ اور تشریعی امور سے مراد نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ادا کرنا، سچ کہنا، جھوٹ سے بچنا، زنا اور چغلی سے اجتناب کرنا، گالی اور فحش گوئی سے گریز کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی و خاوند، استاد و شاگرد کے حقوق ادا کرنا، توحید پر قائم رہنا، شرک سے بچنا، غرضیکہ شریعت حقہ نے جن اوامر و نواہی کے بجا لانے یا پرہیز کرنے کا مطالبہ مخلوق سے کیا ہے، خواہ وہ امور دنیا میں مفید ہوں یا آخرت میں، ان امور کو امور تشریعی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو ان ہی امور کی تشریح اور تفصیل کے لیے عملی نمونہ بنا کر بھیجا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ان کے نقش قدم پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لیں اور اس کی ناراضگی سے بچ سکیں۔‘‘ (دل کا سرور ص: ۴۵، ۴۶)

۴۔ فاتحہ خلف الامام: 

فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ قرون اولیٰ سے اختلافی رہا ہے اور اسے فقہی و اجتہادی حوالہ سے ہمیشہ اختلافی نظر سے ہی دیکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی مذہب کے مقلدین نے کبھی بھی دوسرے فقہی مذاہب کے مقلدین کی نمازکو باطل قرار نہیں دیا ۔ بدقسمتی سے یہ طوفان بدتمیزی بر صغیر کے اندر غیر مقلدین نے اٹھایااور احناف کی نماز کو (بوجہ ترک قراء ۃ خلف الامام) باطل قرار دینے کے فتوے جاری کر دیے جس کی وجہ سے احناف کو بھی دفاع میں قلم اٹھانا پڑا۔ چنانچہ حضرت شیخ ؒ نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا اور ’’احسن الکلام فی ترک القراءۃ خلف الامام‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی۔ اس میں فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’جمہور اسلام اوران میں سے علی الخصوص احناف کثراللہ سوادہم اس مسئلہ کو اختلافی مسئلہ سمجھتے ہیں اور صرف یہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ سمیت کسی بھی قسم کی قراء ت ممنوع اور مکروہ ہے۔ نہ تو وہ اس مسئلہ میں کسی کی تکفیر کرتے ہیں اور نہ کسی کی منکوحہ بیوی چھیننے کا فتویٰ دیتے ہیں اور نہ کسی کو اس مسئلہ کی وجہ سے فی النار والسقر تک پہنچاتے ہیں۔‘‘ ( احسن الکلام ۱/۳۷)

(۲) ’’علمی وعملی اور فنی وتحقیقی لحاظ سے قراء ۃ الفاتحہ خلف الامام کا مسئلہ اپنے مثبت اور منفی پہلوکے اعتبار سے قرن اول سے تاہنوز بحث وتمحیص اور تطبیق وترجیح کا محتاج رہا ہے۔ حضرات ائمہ دین ومحققین علما نے مختلف زمانوں اور متعدد زبانوں میں اس مسئلہ پر خامہ فرسائی کی ہے۔ محرم وقبیح اورراجح ومرجوح گوشہ کی تلاش اور جستجو میں انہوں نے انتہائی کوشش اور کاوش کی ہے اورسینکڑوں کتابیں اوررسالے اس پر لکھے گئے ہیں۔‘‘ (ایضاً ص۵۴)

(۳) ’’ان اختلافی اورفروعی (اجتہادی) مسائل میں سے ایک مسئلہ قراء ت یا ترک القراء ۃ خلف الامام کا بھی ہے جو عہد نبوت سے تاہنوز اختلافی چلا آ رہا ہے اور ہرفریق اپنی علمی تحقیق پر عمل کرتا آ رہا ہے، کرتاہے اور کرتا رہے گا۔ مگر غیر مقلدین حضرات نے اس میں بھی نہایت غلو اور تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اور تمام دنیا کے احناف کثراللہ سوادہم کوچیلنج کیا اور ان کی نماز کو باطل،بے کار اورکا لعدم قرار دے کر ان کو فی النار والسقر تک کا حکم خسروانہ سنایا۔ (مقدمہ تدقیق الکلام، ص ۹)

(۴) احسن الکلام کی اشاعت کے بعد جب غیر مقلدین نے خیر الکلام ص ۳۳ اور توضیح الکلام ص ۴۵ وغیرہ کتب میں تسلیم کر لیاکہ فاتحہ خلف الامام کامسئلہ فروعی، اختلافی ہونے کی بنا پر اجتہا دی ہے، پس جو شخص جس تحقیق پر عمل کرے، اس کی نماز باطل نہیں ہوتی تو اس پر حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ : 

’’کاش کہ یہ حضرات پہلے ہی سے اس حق گوئی سے کام لیتے اور اپنے غالی دوستوں کو چیلنج با زی اور احناف کی نماز کے باطل، بے کار اور کالعدم ہونے کے ناروا فتویٰ سے باز رکھتے تو ہمیں احسن الکلام لکھنے کی سرے سے ضرورت پیش نہ آتی۔ بفضلہ تعالیٰ یہ احسن الکلام کے ٹھوس اور محکم دلائل ہی کانتیجہ ہے کہ ان حضرات نے ترک القراء ۃ خلف الامام کرنے والوں کی نماز کے باطل نہ ہونے کا اقرار کیا۔‘‘ ( ایضاً ص ۹۔۱۰)

۵۔ عقیدہ ولادت مسیح علیہ السلام: 

عصر حاضر میں منکرین حدیث سرسید احمد خان، مرز اغلام احمد قادیانی، مولوی محمدعلی لاہوری، مولوی عبداللہ چکڑالوی اور چودھری غلام احمد پرویز وغیرہ نے حضرت سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ ولادت کے قرآنی واقعہ سے انکار وانحراف کیاہے، بلکہ ہمارے شہر گجرات کے اہل حدیث بزرگ مولوی عنایت اللہ اثری صاحب نے تو اس موضوع پر تقریباً پندرہ کتابیں (بحرقلزم، عیون زمزم وغیرہ) لکھ ماریں۔ حضرت شیخؒ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’قرآن کریم کی نصوص صریحہ اور احادیث صحیحہ اور تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا کیا ہے اور یہ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے کہ جس میں کبھی کسی مسلمان کوشک وشبہ نہیں ہوا۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج، ص ۱۲۸)

(۲) ’’نصوص قرآنیہ، احادیث صحیحہ اور امت مسلمہ کے اجماع واتفاق سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بلاباپ کے پیدا کیا ہے اور حضرت مریم علیہا السلام کو بدون خاوند کے اللہ تعالیٰ نے بیٹا مرحمت فرمایا ہے۔‘‘ ( مودودی صاحب کا ایک غلط فتویٰ ص۹)

۶۔ عقیدہ حیات ونزول مسیح علیہ السلام: 

عصر حاضر کے منکرین حدیث حضر ت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات، ان کے رفع الی السماء اوران کے نزول سے انکاری ہیں اور اس مسئلہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کی ہم نوا ئی کرتے ہیں۔ حضرت شیخؒ نے اپنی متعدد کتب میں اس مسئلہ کی مدلل وضاحت فرمائی ہے۔ چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے:

(۱) ’’احادیث صحیحہ کے ذخیرہ سے یہ امر بالکل واضح اور آشکارا ہو جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین حق وصداقت کی آواز سے کبھی خالی نہ رہے گی تاقتیکہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہو کر تمام ادیان ومذاہب باطلہ کو باذن اللہ مٹاکر صرف ایک ہی دین اور ایک ہی مذہب کا سنہری پرچم نہ لہرائیں جس کا نام اسلام ہے۔ ان الدین عند اللہ الاسلام۔‘‘ ( تبلیغ اسلام، ص ۲۹)

(۲) ’’علامہ محمد طاہر الحنفی (مجمع البحار، ۱/۲۸۶) میں اور علامہ ابوحیان اندلسی )بحوالہ امام ام عطیہ تفسیر بحر محیط ۲/۲۷۳ میں فرماتے ہیں کہ) امت کا متواتر احادیث کے پیش نظر اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت میں نازل ہوں گے۔ اورامام سیوطیؒ (ا لحاوی للفتاوی ص۱۶۶ میں) فرماتے ہیں کہ اس کا انکار کفر ہے۔‘‘ (چراغ کی روشنی ص۹ حاشیہ)

(۳) ’’علامہ سید محمد انورشاہ کشمیریؒ (اکفار الملحدین ص ۸) میں فرماتے ہیں کہ بلاشبہ تواتر سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اس پر اجماع بھی منعقد ہوچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، سو اس کی تاویل اور تحریف بھی کفر ہے۔‘‘ (مودودی صاحب کا ایک غلط فتویٰ، ص ۲۱)

(۴) ’’مرزا غلام احمد قادیانی کی تکفیر کے تین اصو ل: (۱) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا انکار اور ختم نبوت کے مسلمہ معنی میں بے جا تاویل اور اپنی مصنوعی وخود ساختہ نبوت کے لیے چور دروازہ کی گنجایش، (۲) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کے نزول کاانکار اوراس کی دور ازکار اور لایعنی تاویلات، (۳) حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کی توہین۔ یہ تین اصول ہیں جن کی وجہ سے علماے امت نے مرز ا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکار وں کی تکفیرکی ہے۔‘‘ ( مرزائی کا جنازہ اورمسلمان، ص ۶)

حضرت شیخ نے اپنی صحت وتندرستی کے آخری ایام میں ’’توضیح المرام فی نزو ل المسیح علیہ السلام‘‘ کے نام سے ایک مستقل اور مدلل رسالہ بھی تالیف فرمایا جس کے انتساب میں فرماتے ہیں کہ 

’’ اگر راقم اثیم زندہ رہاتو ان شاء اللہ العزیز یہ حقیر سا تحفہ (توضیح المرام) خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعی کرے گا اور سعادت حاصل کرے گا اور اگر ان کی آمد سے پہلے ہی اس حقیر کی وفات ہوگئی تو راقم اثیم کے اپنے متعلقین میں سے کوئی نیک بخت یہ تالیف حضرت کی خدمت اقدس میں پیش کردے اورساتھ ہی راقم اثیم کانام لے کر عاجزانہ اور عقیدت مندانہ سلام مسنون بھی عرض کردے۔ البقاء اللہ تعالیٰ وحدہ۔ (توضیح المرام ص۷)

حضرت شیخ صاف اور واضح لفظوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اورنزول کے عقیدہ کوامت کااجماعی عقیدہ قرار دیتے ہیں اور اس کے اندر تاویل اور تحریف کرنے والے کو کافر تسلیم کرتے ہیں۔ 

۷۔ حجیت حدیث: 

عصر حاضر کے منکرین حدیث نے جب حجیت حدیث کاانکار کیا اور یہ دعویٰ کردیا کہ حدیث یقینی چیز نہیں، ظنی ہے اورکوئی ظن دین قرار نہیں دیاجاسکتا، حدیث کی حیثیت تاریخ کی سی ہے اور تاریخ تنقید سے بالاتر نہیں ہوتی تو حضرت شیخؒ نے اس فتنہ کا خوب رد فرمایا اور بڑے مدلل انداز میں حجیت حدیث کا اثبات فرمایا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’اہل اسلام کے کسی فقہی مکتب فکر کے نزدیک حدیث شریف کے بنیاد دین اور مدار اسلام ہونے میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں ہے۔ الغرض اجماع امت سے بھی حجیت حدیث ثابت ہے۔‘‘ (احسان الباری، ص۲۱)

(۲) ’’تمام اہل اسلام اس امر پر متفق ہیں کہ حضرات صحابہ کرام، تابعین اور اتباع تابعین نے پوری محنت اورمشقت، خالص دینی جذبہ اور ولولہ، کامل خلوص وللہیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اپنے سینوں اور سفینوں میں محفوظ رکھا ہے اور بے حد جرات وبہادری سے انہوں نے یہ امانت عظمیٰ امت مرحومہ تک پہنچائی ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص۱۴۸)

۸۔ حجیت سنت: 

عصر حاضر کے جدت پسندوں نے اول تو سرے سے حجیت سنت کاہی انکار کر دیا اور بعض نے سنت کی جدید تعیین کرکے اس کے دائرہ کومحدود کردیا۔ حضرت شیخ حجیت سنت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’قرآن کریم، حدیث شریف اور امت مسلمہ کااس بات پر اتفاق ہے کہ ہر رسول اور نبی اپنی امت کے لیے نمونہ اور اسوہ ہوتا ہے اور اسی کاقول وفعل (جو لغزش اور تخصیص کی مد میں نہ ہو) تمام امتیوں کے لیے لازم ہوتا ہے اور اس کی اطاعت واتباع کے بغیر نہ تو تقرب خداوندی حاصل ہوتا ہے اور نہ نجات اخروی ہی نصیب ہوتی ہے۔ وہ مطاع اور مقتدی ہو کر آتاہے اور امت مطیع ومقتدی کہلاتی ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۳۴) 

۹۔تفسیر قرآن بالحدیث: 

قرآن پاک کی تفسیر وتشریح کے لیے مختلف درجات ہیں ۔ اول درجہ پر تفسیر قرآن بالقرآن ہے، یعنی قرآن کریم میں ایک جگہ پر ایک حکم ومسئلہ اجمالی طور پر بیان کیا گیاہے اوردوسری جگہ تفصیلی طور پر تو تفصیلی مقام کے ذریعے اجمالی بیان کی تفسیر وتشریح کی جائے گی۔ اس کے بعد دوسرے درجات ہیں، لیکن قرآن کے باہر سے جس چیز کے ذریعے تفسیر قرآن کا پہلا درجہ ہے، وہ حدیث شریف ہے۔ چنانچہ حضرت شیخؒ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ 

’’تمام مسلمان اس کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کی وہ تفسیر اول درجہ پر معتبر ہوگی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، جو کتب حدیث کے ابوا ب التفسیر وغیرہ میں آئی ہے، مگرچونکہ ان کو صحیح تسلیم کرلینے کے بعد (چودھری غلام احمد) پرویز صاحب اپنی محض ذاتی واختراعی رائے سے تفسیر نہیں کر سکتے تھے، اس لیے انہوں نے ان احادیث کووضعی قرار دیا ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج، ص ۱۴۷)

۱۰۔ عقیدۂ ختم نبوت: 

عقیدۂ ختم نبوت، توحید ورسالت کے بعد اسلام کاسب سے اہم اور بنیادی عقیدہ ہے۔ عہد نبوت کے آخر اور خلافت صدیقی کے آغاز میں سب سے پہلے اسی عقیدہ پر حملہ ہواتھا اور جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے ہم نواؤں کے خلاف جہاد ولشکرکشی پر امت کاسب سے پہلا (خلافت صدیقی پر اجماع کے بعد) اجماع منعقد ہوا۔ ا س عقیدہ کے بارہ میں حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ

(۱) ’’ختم نبوت کاعقیدہ قرآن کریم، احادیث صحیحہ متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔‘‘ (ختم نبوت قرآن وسنت کی روشنی میں ص۹) 

(۲) ’’قرآن کریم کی نصوص قطعیہ کے علاوہ احادیث متواترہ اور اجماع قطعی اس امر پر دال ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص نبوت ورسالت کادعویٰ کرے، اس کا دعویٰ یقیناً مردود ہے۔‘‘ (مرزائی کا جنازہ اور مسلمان ص ۹)

۱۱۔ مدعی نبو ت کا کفر: 

آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مدعی نبوت اور رسالت کاصرف دعویٰ ہی بالاجماع مردود نہیں بلکہ اس کاکفر بھی با لاجماع ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت شیخؒ حضرت ملاعلی قاری ؒ کی شرح فقہ اکبر ص۲۰۱کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ 

’’ہمارے نبی علیہ السلام کے بعد نبوت کادعویٰ کرنا بالاجما ع کفرہے۔‘‘ ( ختم نبوت قرآن وسنت کی روشنی میں ص۱۹)

۱۲۔ منکرین ختم نبوت: 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی شخص کسی مدعی نبوت کونبی مانتا تونہیں، لیکن آپ کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کاقائل ہو، وہ بھی کافر ہے۔ چنانچہ حضرت شیخؒ علامہ ابن حزم ظاہرکی الملل والنحل ۳/۱۳۹ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ 

’’جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر کسی اور نبی کے آنے کاقائل ہو تو اس کے کفر میں دو مسلمانوں نے بھی شک نہیں کیا، کیونکہ ان میں سے ہرایک امر پر تمام حجت قائم ہو چکی ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۲۰)

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی نئے نبی کے نہ آنے پر بھی حجت قائم ہو چکی ہے،اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول وآمد پر بھی حجت قائم ہو چکی ہے، لہٰذا دونوں کا منکر ایسا کافر ہے کہ اس کے کفر میں دو مسلمانوں کو بھی شبہ نہیں۔ گویا جو شک کرے، وہ مسلمان نہیں۔ 

۱۳۔منکرین ختم نبوت کا قتل: 

عقیدۂ ختم نبوت میں تامل کرنے والا بھی کافر ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ توآپ کے بعد کسی مدعی نبوت سے دلیل نبوت طلب کرنے کو بھی کفر قرار دیتے ہیں۔ ایسا مدعی نبوت تو صرف کافرنہیں بلکہ واجب القتل بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کے ماننے والے بھی۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’نصوص قطعیہ، احادیث صحیحہ متواترہ اور اجماع امت سے مسئلہ ختم نبوت کا اتنا اور ایسا ثبوت ہے کہ اس میں تامل کرنے والا بھی کافر ہے۔‘‘ (ختم نبوت قرآن وسنت کی روشنی میں ص ۲۱)

(۲) ’’صحیح اور صریح احادیث کی روسے مدعی نبوت اور اس کونبی ماننے والا واجب القتل ہے، مگریہ قتل صرف اسلامی حکومت کاکام ہے، نہ کہ رعایا اور افراد کا۔‘‘ (ایضاً ص ۲۱)

۱۴۔ شیعہ امامیہ کی تکفیر: 

امت مسلمہ کے اندر اہل السنت والجماعت کے بالمقابل قدیم ترین فرقہ روافض واہل تشیع کا ہے جو تحریف قرآن، نظریہ امامت اور سب صحابہ کی وجہ سے امت مسلمہ سے علیحدہ قرار دیا گیاہے۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

’’کسی بھی متدین مسلمان سے جسے علم دین کے ساتھ کوئی بھی مس ہو، یہ بات مخفی نہیں کہ نصوص قطعیہ، احادیث متواترہ،اجماع امت اور ضروریات دین کا انکار یا تاویل کفر ہے اور شیعہ امامیہ ان تمام امور کے مرتکب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن حضرات پر شیعہ اور روافض کے عقائد ونظریات منکشف ہوئے، انہوں نے ان کی تکفیر میں کوئی تامل نہیں کیا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ خاصی بحث کے بعد (رد رفض ص۳۹ میں) اور (مکتوبات، دفتر اول، مکتوب ۴۵ میں) فرماتے ہیں کہ تمام بدعتی فرقوں میں بدترین فرقہ وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرامؓ سے بغض رکھتا ہے۔ا للہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کو کفار فرمایا ہے: لیغیظ بہم الکفار۔ (ارشاد الشیعہ ص ۲۰۶) 

اس کے بعد حضرت شیخؒ نے تفسیر ابن کثیر ۴/۲۰۴ اور روح المعانی ۲۶/۱۲۸ کے حوالہ سے لیغیظ بہم الکفار کی یہی تفسیر نقل کی ہے کہ صحابہ کرامؓ سے بغض رکھنے والا کافر ہے۔ (ارشاد الشیعہ ص ۲۰۷) 

۱۵۔ دعا و ذکر کی شرعی حیثیت: 

دعا اورذکر الٰہی ایک عبادت ہے اور احادیث صحیحہ میں دعا کو عبادت کا مغز بھی قرار دیاگیا ہے، لیکن بدقسمتی سے عصر حاضر کے منکرین حدیث نے ان دونوں کی اہمیت اور ان کی شرعی حیثیت سے انکار کیا ہے۔ منکرین حدیث کے بالمقابل جملہ اہل اسلام کاموقف ونظریہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

’’جملہ اہل اسلام کے نزدیک یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کاذکر، اس کی یاد اور اسی سے اپنی تمام ضروریات مانگنا اور طلب کرنا، نہ صرف یہ کہ اس کی محبت وتقرب اورتعظیم کا ذریعہ ہے بلکہ ایک بہت بڑی عبادت کا نچوڑ ہے۔ قرآن کریم اور حدیث شریف میں ذکر اور دعا کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے اور حضرات صحابہ کرامؓ سے لے کر یہ نظریہ آج تک چلا آ رہا ہے اور امت مرحومہ کے علماء حقانی، شیوخ ربا نی اور جملہ اہل اسلام ہمہ تن ذکر الہٰی میں مصروف چلے آرہے ہیں۔ اور اب بھی بفضلہ تعالیٰ اس کے ذکر اور دعا کو دینی اور دنیوی کامیابیوں کا راز سمجھا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان اس میں ذرہ بھر تامل کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور ہر مسلمان اس کو نجات اخروی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور نصوص قطعیہ کے پیش نظر ایسا سمجھنا بالکل صحیح ہے۔‘‘ ( درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ ص ۱۵) 

۱۶۔ حکم جزیہ: 

اسلامی امت کے اندر یا اسلامی حکومت کے ماتحت رہنے والے غیر مسلموں سے ان کے جان، مال، آبرو کی حفاظت یا ملک کے دفاع کی خاطر ان سے جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے وہ جزیہ کہلاتاہے ۔ حضرت شیخؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

(۱) ’’اصطلاح شریعت میں جزیہ ا س مال کوکہتے ہیں کہ جو صحت مند، جوان اور غیر معیوب کفار سے ملک کے دفاع کے لیے لیا جاتا ہے۔‘‘ ( احسان الباری، ص ۱۱۲) 

(۲) ’’یہ جزیہ خلافت راشدہ اور بعد کے ادوار میں ۴۸ درہم سالانہ امیر کبیرسے، ۲۴ درہم سالانہ متوسط الحال سے اور ۱۲ درہم سالانہ ادنیٰ حال جوان کفار سے لیاجاتا ہے۔ بچے، بوڑھے، لنگڑے، نابینا، بیمار اور ا ن کے مذہبی پیشوا جزیہ سے مستثنیٰ ہیں۔‘‘ (ایضاً ۱۱۳) 

(۳) فرماتے ہیں کہ ’’جزیہ کے مسئلہ پر احادیث صحیحہ وصریحہ موجود ہیں۔‘‘ پھر بخاری ۱/۲۹۶، ابوداؤد طیالسی ص ۳۳۵، موارد الظمآن ص ۴۶۹ وغیرہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ کر جزیہ کوموقوف کر یں گے۔ (ایضاً ص ۱۱۵) اس پر جو اعتراض وارد ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب شریعت محمدیہ پرعامل ہوں گے اور اسی کے مطابق حکومت کریں گے تو پھر جزیہ حکم شرعی موقوف کیسے کریں گے؟ تو خیالی کے حوالہ سے جواب دیتے ہیں کہ :

(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بات کی خبر دی کہ یہ نزو ل مسیح ؑ تک برقرار رہے گا۔ اس کے بعد بذریعہ حضرت عیسیٰ ؑ یہ موقوف کردیا جائے گا۔ گویا اس کا نزول حضرت عیسیٰ تک مشروع ہونا بھی شریعت محمدیہ کاحکم ہے اور اس کے بعد موقو ف ہونا بھی شریعت محمدیہ کاہی حکم ہے۔ 

(۲) جزیہ کفار سے وصول کیا جاتا ہے ۔ نزول مسیح کے بعد پوری سرزمین سے جب کفار ہی ختم ہو جائیں گے اور صرف مسلمان باقی رہیں گے تو جزیہ خود بخود موقوف ہوجائے گا۔ (ایضاً ۱۱۶) 

۱۷۔ حکم تعظیم وتوہین انبیاء: 

تعظیم انبیا ایمان کا حصہ ہے اور توہین انبیا کفر کا سبب ۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’حضرات انبیاے کرام کی تعظیم وتوقیر اوران کا ادب واحترام ایمان کی بنیادی شرط ہے اوران کی توہین وتحقیر اور بے ادبی خالص کفر ہے جس میں ذرہ برابر شک نہیں ہے۔ قرآن وحدیث اور اجماع امت کے واضح دلائل اس پرموجود ہیں۔‘‘ (مرزائی کا جنازہ اور مسلمان ص ۱۹)

(۲) ’’یہ بات خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ حضرات فقہاے کرام نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ توہین کوبھی موجب کفر قرار دیاہے اور اس میں کسی قسم کی نرمی اور تساہل سے مطلقاً کام نہیں لیا۔‘‘ (ازالۃ الریب ص ۴۳۸) 

۱۸۔ گستاخ رسول واجب القتل: 

توہین وتحقیر نبوت کا مرتکب صرف کافر ہی نہیں ہوتا، بلکہ واجب القتل بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت شیخؒ امام قاضی ابویوسفؒ کی کتاب الخراج ص۱۸۲، قاضی ابوالفضل عیاض اندلسی ؒ کی کتاب الشفاء، ۲/۱۹۰، علامہ ملاعلی قاری ؒ کی شرح فقہ اکبر ص۱۸۶، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی الصارم المسلول ص۵۲۸ اورعلامہ خفاجی کی شرح شفاء ۴/۴۲۱ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ 

’’ان تمام عبارات اوراقتباسات سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں ادنیٰ ترین توہین او ر تنقیص بھی حضرات فقہاے کرام ؒ کے نزدیک موجب کفرہے اوریہ کہ اسلامی حکومت کافریضہ ہے کہ ا س شخص کوقتل کردے اور یہ بھی بصراحت گزرچکا ہے کہ جو صفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت نہیں ہے، اس کا آپ کے لیے اثبات یقیناًموجب توہین وتحقیر ہے۔‘‘ (ازالۃ الریب ص ۴۴۱) 

۱۹۔ مسئلہ شفاعت: 

مسلمانو ں کے حق میں روز محشر مختلف شفاعتوں کا عقیدہ امت کے مشہور ومعروف عقائد میں سے ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت، قرآن پاک کی شفاعت، شہید کی شفاعت، حافظ قرآن کی شفاعت وغیرہ۔ قرآن پاک میں جہاں شفاعت کی نفی کی گئی ہے، وہ کفار کے لیے ہے۔ لیکن بدقسمتی سے منکرین حدیث کفار کے حق میں نفی شفاعت کی آڑ لے کر اہل ایمان کے حق بھی شفاعت کے منکرہیں۔ منکرین حدیث کے پیشوا مولوی عبداللہ چکڑالوی شفاعت کے بارہ میں اپنے ترجمۃ القرآن میں لکھتے ہیں کہ : ’’جملہ انبیا ورسل اورملائکہ مقربین اور ملااعلی کسی طرح ذرہ بھر سفارش نہ کر سکیں گے۔‘‘ (ص ۲) ’’شفاعت کا عقیدہ انبیا ورسل پر بہتان وافترا ہے۔‘‘ (ص ۱۳۵) ’’شفاعت کا عقیدہ عقلاً ونقلاًبے انصافی وظلم ہے۔‘‘ (ص ۶) ’’شفاعت کا عقیدہ اعلیٰ درجہ اور اول نمبرکی خباثت ونجاست ہے۔‘‘ (ص ۱۲۵) حضرت شیخ منکرین حدیث کے اس موقف کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 

’’شفاعت کا مسئلہ ایسا اتفاقی اور اجماعی ہے جس کاکوئی بھی مسلمان آج تک انکار نہیں کرسکا۔ اوریہ مسئلہ اپنی شرائط کے ساتھ قرآن کریم کی نصوص سے ثابت ہے اور احادیث متواترہ میں شفاعت کبریٰ وصغریٰ کاصاف وصریح الفاظ میں ذکر آیا ہے۔ نیز انبیا وملائکہ اور صلحا کی شفاعت کاواضح الفاظ میں ثبوت ہے اوریہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۳۷)

۲۰۔ افضل الانبیاء:

پوری امت مسلمہ تمام انبیا ورسل کوبرحق مانتی اور کسی ایک نبی کی نبوت سے بھی انکار کو کفر سمجھتی ہے، لیکن ان سب میں درجات ومراتب کے فرق کو (جو آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے) ملحوظ رکھتی ہے اورتمام انبیا و رسل میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امام المرسلین اور افضل الانبیاء تسلیم کرتی ہے۔ منکرین حدیث کوخدامعلوم اہل اسلام کایہ عقیدہ کیوں گوارا نہیں اور اس عقیدے سے ان کو کیوں چڑ ہے؟ منکرین حدیث کے پیشوا مولوی عبداللہ چکڑالوی حضرت مریم علیہاالسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مریم علیہا السلام کوجنت کے میوے ملتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیٹ پرتین تین دن پتھربھوک کے مارے باندھے ہوئے پھرتے تھے۔ پھر بھی مسلمان طوطے کی طرح سید المرسلین اور فخرالمرسلین وغیر ہ وغیرہ اس قسم کے اور بہت سے خرافات ولغویات،خطابات بھی بکتے رہتے ہیں۔‘‘ ( ترجمۃ القرآن، ص ۱۴۷) اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’پھر آپ نے ان کو نبیوں کا سردار بنا کر اور انبیا ورسل کی تحقیر وتذلیل کر کے لا نفرق بین احد من رسلہ کا کفر کیا یا نہیں؟ (اشاعۃ القرآن، ۱/۱۴) حضرت شیخؒ نے اس عقیدہ کو قرآن وحدیث اوراجماع سے ثابت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ

’’قرآن کریم کی نصوص قطعیہ، احادیث متواترہ اوراجما ع امت سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ، مرتبہ اورشان نبیوں سے بڑھ کر ہے اور آپ خاتم النبیین اورسید المرسلین ہیں۔‘‘ ( انکار حدیث کے نتائج ص ۴۱) 

۲۱۔ عذاب و ثواب قبر: 

منکرین حدیث کے پیشوا مولوی عبداللہ چکڑالوی نے عذاب وثواب قبر سے انکار کرتے ہوئے (ترجمۃالقرآن ص۹۵ میں) لکھا ہے کہ انسان کے لیے مرنے کے بعد روز قیامت تک درمیانی زمانہ میں کوئی جزا وسزا نہیں ہے تو عذاب قبر کاغلط اور من گھڑ ت ہوناصاف ظاہر ہے۔ نیز یہ کہ عذاب قبر سوال منکرنکیر کی بنیاد جھوٹی حدیثوں پر ہے۔ اس کاجواب دیتے ہوئے حضرت شیخ ؒ نے فرمایا ہے کہ 

(۱) ’’دلائل قاطعہ اوربراہین ساطعہ سے راحت وعذاب قبر وغیرہ کے مسائل ثابت ہیں اور متواتر احادیث کے علاوہ مما خطیئٰتہم اغرقوا فادخلوا نارا وغیرہ آیات اسی پر نص قطعی ہیں۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۳۹) 

(۲) ’’جملہ اہل السنت والجماعت اس عقیدہ پر متفق ہیں کہ قبر وبرزخ میں اہل ایمان اور اصحاب طاعات کو لذت وسرور نصیب ہوتا ہے اور کفار ومنافقین اورگناہگاروں کوعذاب وتکلیف حاصل ہوتی ہے۔ اس میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ قرآن وسنت اوراجما ع امت کے صریح دلائل کے پیش نظر یہ عقیدہ اتنا مضبوط ہے کہ حضرات فقہاے کرام کاذمہ دار گروہ عذاب قبر کے منکر کو کافر کہتا ہے، حالانکہ وہ تکفیر کے مسئلہ میں بڑا ہی محتاط ہے۔‘‘ ( تسکین الصدور ص ۸۲) 

۲۲۔ عذاب و ثواب روح مع الجسد: 

منکرین حدیث کاایک گروہ تو سرے سے عذاب وثواب قبر کا ہی قائل نہیں اور دوسرا گروہ عذا ب وثواب قبر کو تو مانتا ہے، لیکن صرف روح کے لیے۔ جسم کو وہ اس سے بالکل دخل کردیتاہے۔ اس کے جواب میں حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ میت جب قبر میں دفن کر دی جاتی ہے تو اس کی روح اس کے جسم کی طر ف لوٹا دی جاتی ہے۔ یہ اعادہ بالجملہ (پورا ) ہو، بایں طور کہ روح بکمالہ پورے جسم میں داخل ہو جائے جیسا کہ دنیامیں داخل تھی یا فی الجملہ یعنی اس قدر روح کا جسم سے اتصال اور تعلق ہو کہ جس سے راحت وتکلیف کا احساس ہوسکے، یہ اپنے مقام کی بحث ہے اور اس کے بارہ میں کچھ ضروری بحث آگے ہوگی، ان شاء اللہ۔ اس اعادہ کا ثبوت صحیح حدیث سے ہے۔‘‘ (تسکین الصدور،ص۱۰۷)

(۲) ’’اس مفصل اور مدلل باحوالہ بحث سے بخوبی یہ معلو م کرچکے ہیں کہ قبر میں نکیرین کے سوال کے وقت اور اس طرح قبرکی راحت وعذاب کے سلسلہ میں جمہور فقہا ا ور متکلمین کے نزدیک روح کا بدن مادی اور عنصری سے باقاعدہ تعلق اتصال اور ربط ہوتاہے، اگرچہ اس کے اجزا ریزہ ریزہ اور ذرہ ذرہ ہوکر بکھر جائیں اور بقو ل علامہ آلوسی ؒ کے ایک جزمشرق میں اور دوسرا مغرب میں چلا جائے۔ اور روح کا بدن سے یہ اتصال علم، ادراک اورشعور تک ہی محدود رہتا ہے جسم میں تدبیر اور جسم کے نشوونما سے اس کا تعلق نہیں ہوتا جیساکہ دنیا میں ہوتا ہے۔ اور سابق پیش کردہ حوالے سے اس کا واضح اوربین ثبوت ہیں۔‘‘ (ایضاً ص ۱۰۶) 

(۳) ’’ہم تسکین الصدور، سماع الموتی، الشہاب المبین کے علاوہ اس پیش نظر کتاب (المسلک المنصور) میں بھی باحوالہ عرض کر چکے ہیں کہ بعداز وفات، حیات اعادۃ الارواح الی الابدان العنصریہ کے طریق سے حاصل ہے، گو وہ اہل دنیا کے شعور وادراک سے بالاتر ہے۔ یہی صحیح احادیث کا مفاد ہے اوریہی حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا ارشادہے اور اسی پر اہل سنت کا اتفا ق ہے۔‘‘ (المسلک المنصور ص ۶۱) 

۲۳۔ ایصال ثواب: 

کون سے اعمال کے ذریعے میت کو ایصال ثواب ہوتا ہے اور کون سے اعمال سے نہیں، اس اختلاف کے باوجود جملہ اہل اسلام میت کے لیے ایصال ثواب پر متفق ہیں، مگرمنکرین حدیث اس سے انکاری ہیں۔ حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

’’ایصال ثواب کامسئلہ اہل اسلام کے ہاں ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ ملائکہ مقربین کی مغفرت کی دعائیں، نماز جنازہ کی مشروعیت، نیز قرآن کریم کی متعد ددعائیں جو پہلے مسلمانوں کے حق میں کی جاتی ہیں، اس کا واضح ثبوت ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج، ص۴۰) 

۲۴۔ نماز تراویح: 

نماز تراویح رمضان ا لمبارک کی ایک مستقل عبادت ہے۔ سننت لکم قیامہ (ابن ماجہ ص۹۵، نسائی، ۱/۱۳۹) اور من صام رمضان وقام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (بخاری ۱/۲۶۹، مسلم ۱/۲۵۹) وغیرہ فرامین پیغمبر اس حقیقت پر دال ہیں، لیکن روافض اور منکرین حیات نماز تراویح کی سنیت سے انکاری ہیں۔ حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

’’نماز تراویح پر تمام اہل اسلام تاہنوز متفق چلے آرہے ہیں، لیکن مولوی عبداللہ چکڑالوی یہ کہتے ہیں کہ نماز تراویح پڑھناضلالت ہے اور اس پر ایک مستقل رسالہ بھی انہو ں نے ’’البیان الصریح لاثبا ت کراہۃ التراویح‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۴۰) 

۲۵۔ رکعات تراویح: 

نما زتراویح کی طرح رکعات تراویح بھی امت کاایک اجماعی مسئلہ ہے۔ پوری امت ۲۰ رکعت نماز تراویح پر متفق رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے برصغیرپاک وہندکے اندر غیر مقلدین نے ا س اجماعی مسئلہ کے اندر موجود امت کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا اور ۲۰ رکعت نماز تراویح پڑھنے والی پوری امت کوبدعتی قرار دے دیا۔ چنانچہ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ 

’’حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے توان کی خلافت میں تقریباً ۱۴ھ سے با قاعدہ جماعت کے ساتھ نماز تراویح شروع ہوئی اور آخرمیں انہوں نے حضرات صحابہ کرام کی موجودگی میں مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی کے اندر بیس رکعات کاحکم دیا اور ان کے حکم سے بیس رکعتیں ہوتی رہیں اور تقریباً تمام حضرات صحابہ کرام کااس پر اتفاق واجماع ہوگیا، اورکسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ چنانچہ علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ اور شمس الدین ابن قدامہؒ (مغنی ۱/۸۰۲) میں اس کاروائی کو کالاجماع سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس وقت سے لے کر ۱۲۸۴ھ تک مختلف مکاتب فکر کے لوگ اسی پر عمل کرتے رہے اور کسی نے اس کے خلاف کرنے کی جرات نہ کی۔‘‘ (مقدمہ رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص ۶۔۷) 

۲۶۔ تعدد ازواج: 

تعدد ازواج جملہ آسمانی تعلیمات میں کبھی بھی متنازعہ نہیں رہا، لیکن یورپین اوراشتراکی اسلام دشمن قوتوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وشخصیت کو داغدار کرنے کے لیے (العیاذ باللہ) ایک سے زائد شادی کو حرام وظلم قرار دینے کی مہم عرصہ دراز سے شروع کر رکھی ہے اورا س مہم میں وہ طبقہ زیادہ سرگرمی دکھا رہا ہے جو قرآن پا ک کی تعبیر وتشریح کے معروف ومتواتر راستے بند کر کے تحقیق واجتہاد کے نام پر اسے تختہ مشق بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ منکرین حدیث کے پیشوا مولوی عبداللہ چکڑالوی نے جب (اشاعۃ القرآن ۱/۱۸میں) لکھا کہ تعدد ازواج بحوالہ قرآن زنا میں داخل ہے جس سے انبیا ورسل سلام علیہم اوران کی امت پاک ہے اور ان پر سراسر بہتان وافتراہے تو حضرت شیخ نے فرمایا کہ 

’’قرآن کریم، سنت متواترہ اور تمام امت کے اتفاق سے یہ امر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں ایک سے زائد (بلکہ بیک وقت نو) منکوحہ بیویاں تھیں اور عام مسلمانوں کو بھی مخصوص شرائط کے تحت بیک وقت چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت قرآن کریم اور حدیث صحیح میں مصرح ہے۔‘‘ (انکارحدیث کے نتائج ، ص ۴۲) 

بدقسمتی سے ہمارے پیشہ ور اور جد ت پسند مفکرین ومحققین کی یہ عادت ہوگئی ہے کہ یورپین واشتراکی دانشور اسلام کے کسی واقعہ کو خلاف عقل قرار دے دیں تو وہ ایسے واقعات کا ہی سرے سے انکا ر کر دیتے ہیں اوراپنی اس ذہنی وفکری پسپائی کو وہ بڑے فخر سے مادیت پرستی اور اسلام دشمنی کا مقابلہ قرار دیتے ہیں۔ حیرت ہے کہ جس معاشرہ اور سوسائٹی کے اندر باپ کا نام دریافت کرنے کو بڑی گالی سمجھا جاتا ہواور جہاں جنس پرستی حیوانیت کی سطح سے بھی کراس کر چکی ہو، وہاں کے کسی نام نہاد مفکر ومحقق کے اعتراض پر ہم اپنے اجماعی ومتواتر مسائل واحکام اور واقعات سے انکار وانحراف کو روشن خیال تحقیق کا نام دیتے ہیں۔ 

۲۷۔ معراج جسمانی: 

خداتعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت بیداری جسم عنصری کے ساتھ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیرکرائی اور وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ سے اوپر تک معراج کرایا، لیکن مولوی عبداللہ چکڑالوی، حافظ اسلم جیراج پوری اورپرویز جیسے منکرین حدیث اور مرزا غلام احمد قادیانی اس معراج جسمانی سے انکاری ہیں۔ ان کے نزدیک یہ صرف خواب کاواقعہ ہے۔ حضرت شیخ ان کے رد میں فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’حضرات صحابہ کرام سے لے کر تاہنوز جملہ اہل اسلام اس عقیدہ پر متفق چلے آرہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کوایک ہی رات میں جسد عنصری کے ساتھ بیداری کی حالت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان تک اور پھر سدرۃ المنتہیٰ تک سیرکرائی۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۴۹) 

(۲) ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بہت بڑا حسی اور اہم معجزہ ذکر فرمایا ہے جس پر متواتر درجہ کی حدیثیں اور امت کا اجماع بھی موجود ہے اورو ہ اسرا اور معراج کا معجزہ ہے۔‘‘ (راہ ہدایت، ص ۷۹) 

اس کے علاوہ حضرت شیخ ؒ نے مرزا قادیانی کے انکار معراج پر ’’ضواء السراج فی تحقیق المعراج یعنی چراغ کی روشنی‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ بھی تالیف فرمایا ہے۔ 

۲۸۔ معجزات رسول: 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاے کرام ؑ کی طرح بے شمار حسی معجزات عطافرمائے گئے اور احادیث وسیرت کی کتب میں ان کا بصراحت تذکرہ موجود ہے اور ان پر مستقل کتب بھی موجود ہیں، لیکن منکرین حدیث حافظ محمد اسلم جیراج پوری (مقام حدیث، ص۱۷۹)، نیاز فتح پوری (من ویزداں ۱/۴۹۱)، غلام احمد پرویز (معارف القرآن، ۴/۷۲۹) میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حسی معجزہ نہیں دیا گیا۔ حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’قرآن کریم، متواتر احادیث اور تمام امت کا اسی پر اتفاق رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علاوہ قرآن کے معجزہ کے اور بھی بے شمار ظاہری اور حسی معجزات عطافرمائے تھے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج، ص ۵۲) 

(۲) ’’کتب احادیث اور تاریخ میں صریح اور صحیح روایات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے معجزات ثابت ہیں جن کاانکار کوئی نرا ملحد او رزندیق ہی کر سکتا ہے۔‘‘ (ایضاً ص۵۴) 

۲۹۔ معجزہ شق القمر: 

انگلی کے اشارے سے چاند کا دو ٹکڑے ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ ہے، لیکن منکرین حدیث اس سے بھی انکاری ہیں۔ حضرت شیخ ؒ اس معجزہ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انشقاق قمر والا معجزہ قرآن کریم، صحیح احادیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔‘‘ (راہ ہدایت ص ۸۳) 

(۲) ’’علماے کرام اور مفسرین کرام کے نزدیک یہ ایک امر اتفاقی ہے کہ انشقا ق القمر کا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں واقع ہو چکا ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۵۳، بحوالہ تفسیر ابن کثیر ۲/۲۶۴)

(۳) ’’بعض حضرات نے اقترب الساعۃ وانشق القمر میں قرب قیامت کاانشقا ق قمر مراد لیا ہے اور قبل از وقوع اس کی خبر دینے کو معجزہ پر حمل کیا ہے، لیکن یہ ان کی غلطی ہے، کیونکہ قرآن کریم میں لفظ انشق ہے جو ماضی کا صیغہ ہے اور متواتر درجہ کی حدیثیں اور امت کا اجماع اس مفہوم کومتعین کر دیتاہے کہ اس سے قیامت کے وقت کاانشقاق مراد نہیں، بلکہ ایسا واقعہ ہے جو ماضی میں واقع ہو چکا ہے۔‘‘ ( ایضاً ص ۵۳) 

۳۰۔ قرآن کریم کا مکمل من جانب ا للہ ہونا: 

منکرین حدیث نے حدیث رسول کے انکار کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے بارہ میں بھی شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردیے۔ چنانچہ مشہور منکرحدیث نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ ’’تمام مسلمانوں اور مولویو ں کایہ عقیدہ کہ قرآن اپنے الفاظ اور اپنی ترتیب کے لحاظ سے بتمامہا پہلے لوح محفوظ میں منقوش موجود تھا اور فرشتہ جبرائیل یہی محفوظ ومنقوش کلام رسول اللہ کو آکر سنانا تھا اور رسول اللہ انہی آسمانی الفاظ کو دہراتے تھے، حد درجہ مضحکہ خیز ہے۔ اگر قرآن کی زبان عربی نہ ہوتی بلکہ کوئی اور زبان ہوتی تو بھی خیر کچھ کہا جا سکتا تھا، لیکن جبکہ وہ اسی زبان میں نازل ہوا تھا جو عام طور پر عرب میں رائج تھی تو اس کے الفاظ کو کیونکر خدائی الفاظ کہا جا سکتا ہے؟ بہرحال قرآن کو خدا کاکلام اس حیثیت سے تسلیم کرنا کہ اس کاایک ایک لفظ ایک ایک نقطہ خدا کا بنایا ہوا ہے اورخود رسول اللہ کے عقل ودماغ کواس سے کوئی تعلق نہ تھا، خداکو اس کے منصب سے گرا کر انسان کی حد تک کھینچ لاتا ہے اور رسول کو سطح انسانیت سے بھی نیچے گرا دیتا ہے۔‘‘ (من ویزداں ۱/۵۵۲) اوردوسرے مقام پرلکھتے ہیں کہ ’’کلام مجید کو نہ کلام خداوندی سمجھتا ہوں اور نہ الہام ربانی، بلکہ ایک انسان کا کلام جانتا ہوں۔‘‘ ( ایضاً ۲/۴۰۵) اس پر حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

’’تمام اہل اسلام ہر زمانہ میں اس کے قائل رہے ہیں اوربفضلہ تعالیٰ اب بھی اسی کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت، ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف ونقطہ خداتعالیٰ ہی کی طرف سے بواسطہ جبرائیل ؑ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۶۶) 

۳۱۔ جنت و دوزخ کا دوام: 

منکرین حدیث اول تو عذاب وراحت اور جنت ودوزخ کے ہی منکرہیں جیسا کہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ ’’الغرض بقاے روح اور عذاب وثواب کاعقیدہ خدا کی بے نیازی اور علم وعقل کودیکھتے ہوئے ضرورت ومصلحت اورقانون قدرت دونوں کے خلاف ہے اور اس کو تسلیم کرانے کے لیے نہ کوئی ربا نی دلیل پیش کی جا سکتی ہے اور نہ اخلاقی وعلمی‘‘ (من ویزداں ۱/۵۳۱) اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں کہ کلام مجید میں دوزخ وجنت کا بیان اسی طرح کیا گیاہے جیسے وہ کوئی مادی چیزیں ہوں، لیکن اس بیان کی حقیقت کو سمجھنا سخت غلطی ہے۔‘‘ (ایضاً ۲/۱۶۷) لیکن بعض منکرین حدیث جیسے مولوی محمد علی لاہوری وغیرہ عذاب وثواب اور جنت ودوزخ کا وجود تو مانتے ہیں لیکن دوزخ کو دائمی وابدی نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک دوزخ صرف اصلاح کا ایک مرکز ہے۔ جوں جوں دوزخیوں کی اصلاح ہوتی جائے گی، ان کو دوزخ سے نکالا جاتا رہے گا یہاں تک کہ دوزخ، دوزخیوں سے خالی ہو کر ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

’’قرآن کریم، احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ جس طرح جنت دائمی وابدی ہے، اسی طرح دوزخ بھی ابدی ہے اور دوزخ بھی کبھی فنا نہیں ہوگی اور کافروں کو ابدالآباد تک دوزخ میں رہنا ہوگا۔ لیکن مولوی محمدعلی لاہوری کچھ بے سرو پا آثار واقوال پر بنیا د رکھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آئے گا جس میں دوزخ فنا ہو جائے گی اورا س سے سب کافر نکال لیے جائیں گے۔‘‘ ( مودودی صاحب کا غلط فتویٰ ص۱۳)

۳۲۔ نصاب زکوٰۃ: 

قرآن کریم کے اندرچونکہ زکوٰۃ کاصرف حکم موجود ہے، اس کا نصاب ومقدار موجود نہیں، اس لیے منکرین حدیث نے زکوٰۃ کو بھی ایک ٹیکس قرار دے کر اس کے نصاب ومقدار کا اختیار حکومت وقت کودے دیا۔ چنانچہ غلام احمد پرویز لکھتے ہیں کہ ’’قرآن میں زکوٰۃ کا تعین نہیں، اس لیے ہر دور میں اسلامی حکومت خود متعین کرے گی کہ اسے کس قدر روپے کی ضرورت ہے اور اسی حساب سے وہ قوم سے ٹیکس وصول کرے گی۔‘‘ ( معارف القرآن، ۴/۴۶۹) ایک دوسرے مقام پرلکھتے ہیں کہ ’’زکوٰۃ اس ٹیکس کے علاوہ اور کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے۔ اس ٹیکس کی کوئی شرح معین نہیں کی گئی،اس لیے کہ شرح ٹیکس کا انحصار ضروریات ملی پر ہے حتیٰ کہ ہنگامی صورتوں میں حکومت وہ سب کچھ وصول کر سکتی ہے جو کسی کی ضرورت سے زائد ہو۔ لہٰذا جب کسی جگہ اسلامی حکومت نہ ہو تو پھر زکوٰۃ بھی باقی نہیں رہتی۔‘‘ (ماہنامہ طلو ع اسلام، جنور ی ۱۹۴۹ء ص ۸۲) اس پر حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’تمام احادیث اور سوفیصدی مسلمان اس پرمتفق چلے آرہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم خداوندی کے مطابق سونے، چاندی، نقد اور سامان تجارت میں سے چالیسواں حصہ مقرر کیا ہے۔‘ ( انکار حدیث کے نتائج ص ۱۲۲) 

(۲) غور کیجیے کہ پرویز صاحب نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور صریح احادیث اور امت کے اجماع واتفاق کے مقابل میں کس جرات سے متوازی شریعت اور دین کھڑا کر دیاہے کہ زکوٰۃ کاکوئی تعین ہی نہیں ہے اور ہر دور کی اسلامی حکومت یہ خود متعین کرے گی کہ اسے کس قدر روپے کی ضرورت ہے۔‘‘ ( ایضاً ص ۱۲۲) 

۳۳۔ سارق وزانی محصن کی شرعی سزا: 

چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے لیے قطع ید کی سزا قرآن کریم میں بصراحت بیان کی گئی ہے اورزانی محصن کی سزا رجم (یعنی سنگسار کرنا) احادیث صحیحہ میں واضح طور پر مذکور ہے، لیکن منکرین حدیث ان دونوں سزاؤں کو شرعی سزا تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ طلو ع اسلام ۱۵؍اکتوبر ۱۹۵۵ ء ص۱۷ پر مذکور ہے کہ ’’السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما یعنی چور مرد اور چور عورت کی سزایہ ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹ دو۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ قطع ید کے معنی ہیں ایسے حالات پیداکرنا جس سے ان کے ہاتھ چوری سے رک جائیں۔‘‘ اور طلوع اسلام نومبر ۱۹۴۹ء ص۶ میں ہے کہ ’’باقی رہا یہ کہ زنا کی سزا سنگساری میں کیا حرج ہے، سو حرج یہ ہے کہ جب خدا نے حکم دے دیا کہ اس کی سزا سوکوڑے ہے تو کس کی مجال ہے کہ اس حکم کوکسی دوسرے حکم سے بدل دے؟‘‘ اس کے جواب میں حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں: 

’’طلوع اسلام سے اس کے اس بیان کے پیش نظر دریافت طلب امر یہ ہے کہ جب خدا نے یہ حکم دے دیا ہے کہ چور مرد اور چور عورت کی سزا قطع ید ہے تواس کے اس حکم کوکسی دوسرے کے اس حکم سے کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا ہے جس سے اس کے ہاتھ چوری سے رک جائیں؟‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۱۷۰) 

اورجہاں تک زانی محصن کی شرعی سزا کا تعلق ہے تو اس بارہ میں حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

’’مسلمان اس امر پر تاہنوز متفق رہے ہیں کہ زانی محصن کی سزا جو صحیح احادیث سے ثابت ہے، صرف رجم اور سنگساری ہی ہے۔‘‘ (ایضاً ۱۶۹) 

یعنی ان دونوں سزاؤں پر امت کااجماع ہوچکا۔ قرآنی حوالہ سے سارق وسارقہ کے لیے قطع ید کی سزا بھی اجماعی مسئلہ ہے اور شادی شدہ مرد وزن کے لیے زنا کی سزا رجم وسنگساری پر بھی امت کااجماع منعقد ہوچکاہے، لہٰذا ان میں ترمیم وتغیر کی کوئی گنجایش باقی نہیں۔ 

۳۴۔ کتب سماویہ میں تحریف: 

قرآن وحدیث کے اندر کتب سماویہ (تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحف) میں تحریف اور ان میں تغیر وتبدل کا واضح ثبوت موجود ہے، لیکن بعض طبقات یہودیت وعیسائیت کے ساتھ ذہنی یک جہتی کی خاطر اور ان پر اسلام کی بالادستی کا تصور ختم کرنے کے لیے اس تحریف سے صاف انکار ی ہیں۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ: 

’’قرآن کریم کی نصوص قطعیہ، متواتر احادیث اور تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنی کتب میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے اور یہ بھی منصوص ہے کہ اسلام کے بغیر کوئی مذہب اب خداتعالیٰ کی رضاجوئی تک پہنچانے کا کفیل نہیں ہے۔‘‘ (انکار حدیث کے نتائج ص ۷۹)

۳۵۔ مسئلہ تقدیر: 

مسئلہ تقدیر اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، لیکن بدقسمتی سے منکرین حدیث نے اس عقیدہ کی بھی نفی کردی۔ حضرت شیخ ؒ اس عقیدہ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ

’’ قرآن کریم کی نصوص قطعیہ،متواتر درجہ کی احادیث اورامت مسلمہ کے اجماع سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ تقدیر پر ایمان لاناضروری ہے اور بغیر اس پرایمان لائے اگرکوئی احد پہاڑ کی مانند سونا بھی خد اتعالیٰ کی راہ میں صرف کر دے تو وہ ہر گز قبول نہ ہوگا۔‘‘ ( انکار حدیث کے نتائج ص ۱۷۵) 

۳۶۔ ڈاڑھی کی شرعی حیثیت: 

ڈاڑھی کے سنت رسول ہونے میں کبھی کسی مسلمان کوشبہ نہیں رہا۔ ہر زمانہ کے مسلمانوں نے اسے سنت رسول ہی کی حیثیت سے اپنایا۔ حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ کی بوادر النوادر، ۲/۴۴۳ کے حوالہ سے حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

’’اجما ع امت یہ ہے کہ ایک قبضہ سے ڈاڑھی کم کرنا حرام ہے۔‘‘ (حلیۃ المسلمین ص ۵)

مزید وضاحت کرتے ہوئے حضرت شیخ ؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’حضرات صحابہ کرام، تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں قبضہ (مٹھی بھر) سے کم ڈاڑھی کا کوئی ثبوت نہیں اور خلافت راشدہ میں بھی اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ اس مبارک دورمیں تمام مسلمان از شرق تا غرب، از شمال تا جنوب جہاں بھی موجود تھے، ڈاڑھی کی پابندی کرتے تھے۔ البتہ یہود ومجوس اورنصاریٰ وبدبا طن فرقوں کی بات جداہے۔ لیکن جس زمانہ میں خلافت راشدہ نہ تھی اور اسلام کے احکام بھی من وعن نافذ نہ تھے، اس زمانہ میں بھی بے ریش کوانتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا اورحسب مقدرت اس کو سزا دی جاتی تھی تاکہ دیکھنے والوں کے لیے عبرت ہو، چنانچہ مشہور مورخ ومفسر حافظ عماد الدین ابن کثیر الشافعی لکھتے ہیں کہ ۶۷۱ھ میں دمشق میں (ملنگوں کے) قلندریہ فرقہ کے کچھ لوگوں نے ڈاڑھیاں منڈوا دیں تو اس وقت کے بادشاہ سلطان حسن بن محمدؒ نے حکم دیا کہ ان کوملک بد رکر دیا جائے اور اس وقت تک ان کو اسلامی شہروں میں داخل نہ ہونے دیا جائے جب تک کہ وہ کافرانہ شعار سے توبہ نہ کرلیں۔ حافظ موصوف (البدایہ والنہایہ، ۱۴/۲۷۴ میں) لکھتے ہیں کہ یہ فعل باجماع امت حرام ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۴، ۵) 

(۲) مشہور فقیہ حافظ ابن الہمام الحنفیؓ کی فتح القدیر ۲/۷۷ کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’ڈاڑھی ترشوانا جب کہ ایک مٹھی سے کم ہو جیسا کہ بعض مغربی اور مخنث قسم کے مردوں کافعل ہے تو اس کو کسی نے بھی مباح قرار نہیں دیا اور سب ڈاڑھی کا منڈوانا تو ہندوستان کے ہندوؤں اور عجم کے مجوسیوں کا طریقہ ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۵)

(۳) ’’ان تصریحات کی موجودگی میں ڈاڑھی منڈوانے اور مٹھی سے کم ترشوانے کے حرام اور گناہ ہونے میں کیا شبہ رہ جاتاہے؟ ایک طرف یہ ٹھوس حوالے ملاحظہ کریں اور دوسری طرف مودودی صاحب کا یہ خالص اختراعی نظریہ ملاحظہ فرمائیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ .... ’’آپ کا خیال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے، اتنی بڑی ڈاڑھی رکھنی سنت رسول اور اسوہ رسول ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ عادات رسول بعینہ وہ سنت سمجھتے ہیں جس کے جاری اور قائم رکھنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاے کرام مبعوث کیے جاتے رہے۔ مگر میرے نزدیک صرف یہی نہیں کہ یہ سنت کی صحیح تعریف نہیں بلکہ یہ عقیدہ رکھتاہوں کہ اس قسم کی چیزوں کوسنت قرار دینا اور پھر ان کی اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور خطرناک تحریف دین ہے۔‘‘ ( رسائل ومسائل ص ۲۰۸) مودودی صاحب کی بے باکی اور جرات ملاحظہ کیجیے کہ ڈاڑھی جیسی سنت صحیحہ کی اتباع اور پیروی کرنے کو سخت قسم کی بدعت اور خطرناک تحریف دین کہتے ہیں۔‘‘ ( ایضاً ص ۶) 

مودودی صاحب ڈاڑھی کی سنت کو بدعت اور تحریف دین قرار دینے کے باوجود خود ڈاڑھی سے آراستہ تھے، لیکن اس وقت بعض ایسے جد ت پسند بھی ان کے ہم نوا ہیں جن کے چہرے اس زینت سے محروم ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مودودی صاحب نے تو یہ فیصلہ اپنے فکر کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے، لیکن دوسرے جدت پسند یہ فیصلہ اپنی شخصیت اور صورت کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں کہ کون سی چیز سنت ہے اور کون سی سنت نہیں۔ جو چیز ان کی شخصیت میں موجود ہے، وہ سنت ہے، اور جو چیز ان کی شخصیت میں شامل وداخل نہیں، وہ سنت بھی نہیں۔ 

۳۷۔ وفات رسول: 

روضہ اقدس کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو بعض ناعاقبت اندیش لوگ نہایت غلط رنگ میں پیش کرتے ہوئے علماے دیوبندپر یہ الزام عائدکرتے ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے منکر ہیں۔ (العیاذ باللہ) حضرت شیخ ؒ اس الزام کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ان تمام آیات سے یہ با ت واضح ہو جاتی ہے کہ جنا ب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ایک قطعی اور حتمی امر ہے جس کی ان آیات میں قبل از وقت خبر دی گئی اور کتب احادیث میں متعدد صحیح وصریح روایات اس پردال ہیں کہ قبض النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امام بخاریؒ نے باب وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قائم کرکے اس حقیقت کوالم نشرح کردیا ہے۔ (بخاری ۲/۶۴۱) اور اسی وفات کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین اوردفن وقبر وغیرہ کا انتظام ہوا اور حضرات صحابہ کرام نے اپنے ہاتھوں سے لحد مبارک میں آپ کو اتار کر دفن کیا اور اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفۃ المسلمین منتخب کیا گیا اور وہی نماز اور خطبہ پڑھاتے اور فصل خصومات کرتے رہے اوراہم معاملات میں لوگ انہی کی طرف رجوع کرتے رہے اور اسی طرح ان کے بعد دیگر خلفا کے وقت بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ یہ تمام اموراپنے مقام پر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جو قرآن وحدیث اور امت مسلمہ کے اتفاق واجماع سے ثابت ہے جس کا کوئی شخص منکر نہیں۔‘‘ ( تسکین الصدور ص ۲۱۵) 

عام طور پر حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے نظریہ وفات پیغمبر سے غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں کہ وہ وفات پیغمبر کے منکر ہیں، حالانکہ یہ سراسر غلط ہے۔ وہ وفات پیغمبر کے منکر نہیں، بلکہ کیفیت وفات میں جمہور اہل سنت سے اختلاف رکھتے ہیں۔ جمہور اہل سنت انقطاع روح عن الجسد کی کیفیت سے وفات مانتے ہیں، جبکہ حضرت نانوتویؒ انقباض روح کی کیفیت سے وفات مانتے ہیں۔ گویایہ اختلاف وفات کا نہیں، صرف کیفیت وفات کا ہے اور یہ حضرت نانوتویؒ کا تفرد ہے جسے دیگر علماے دیوبندنے قبول نہیں کیا، چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

’’الغرض حضرت نانوتویؒ نے کیسی صاف گوئی سے یہ واضح کر دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا عقیدہ ضروری ہے اور علمی یا ذوقی طور پر بعض دیگر علما کی طرح موت کا جو معنی انہوں نے بیان فرمایا ہے، اس کونہ تو وہ عقائد ضروریہ سے سمجھتے ہیں اور نہ عام لوگوں کو اس کی تعلیم وتبلیغ کرتے ہیں اور نہ علماے کرا م سے اس پر ہاتھا پائی کے لیے تیار ہیں۔ الحاصل حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کی وفات ایک حتمی اور قطعی امر ہے اور اس کا اعتقاد ضروری ہے کیوں کہ یہ نصوص قطعیہ اور صریحہ سے ثابت ہے۔‘‘ ( ایضاً ص ۲۱۷) 

۳۸۔ عقیدہ حیات النبی: 

وفات کے بعد عالم برزخ کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر انبیاے کرام کی برزخی حیات ایک اجماعی واتفاقی مسئلہ ہے، البتہ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جوقبر کو عالم برزخ کا حصہ ماننے کی بجائے اسے عالم دنیا کاحصہ قرار دیتا ہے، اسی لیے جب قبر کے اندر انبیاے کرام کی برزخی حیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ گروہ فوراً مشتعل اور جذباتی ہو جا تا ہے اور چیخ اٹھتا ہے کہ یہ دیوبندی قبر کے اند رنبی کی دنیو ی حیا ت مانتے ہیں، حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ طبقہ عالم برزخ کے اندرنبی کے جسم وروح کاتعلق ماننے پرآمادہ نہیں۔ اس کا نظریہ ہے کہ نبی کی روح تو جنت کے اندر، البتہ جسم جنت سے باہر ہے۔ حضرت شیخؒ اس عقیدہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’تمام اہل السنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ حضرات انبیاے کرام ،قبر اور برزخ میں زندہ ہیں اور ان کی زندگی حضرات شہدا کی زندگی سے بھی اعلیٰ وارفع ہے۔‘‘ ( تسکین الصدور، ص۲۱۹) 

(۲) ’’یہاں تک جتنے حوالے پیش کیے گئے ہیں اور جتنی بحث بھی ہوئی ہے،اس کا حاصل یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ قبور میں حضرات انبیاے کرام کی حیات اور زندگی ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کافی تلاش اور خاصی کاوش کے باوجود سینکڑوں کتابوں کی ورق گردانی کے بعد اہل السنت والجماعت میں ایک شخص بھی ایسا نہیں مل سکا جو یہ کہتا ہو کہ حضرات انبیاے کرام اورعلی الخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ نہیں اور آپ کی روح مبارکہ کا جسد اطہر سے کوئی اتصال وربط نہیں۔‘‘ (ایضاً ص ۲۷۳) 

۳۹۔ سماع النبی عند القبر: 

انبیاے کرام کی حیات فی القبور کے علاوہ ان کے سماع عند القبر سے بھی ناعاقبت اندیش لوگوں نے انکار کر رکھا ہے، حالانکہ یہ بھی ایک اجماعی مسئلہ ہے۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عند القبر صلوٰۃ وسلام کے سما ع کانظریہ اتفاقی واجماعی ہے اور اس پرامت کا تعامل رہاہے اور اب بھی ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ (فتاویٰ رشیدیہ، ۱/۱۰۰) میں فرماتے ہیں کہ انبیاے کرام کے سماع میں کسی کا اختلاف نہیں اور حضرت مولانا تھانویؒ (امداد الفتاوی ۵/۱۱۰) میں فرماتے ہیں کہ روضہ پاک پر درود شریف پڑھا جاتا ہے، وہ بالاتفاق بلاواسطہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتاہے اور آپ اس کوسنتے اور جواب دیتے ہیں۔‘‘ ( المسلک المنصور ص ۴۷) 

(۲) ’’جناب سید عنایت اللہ شاہ بخاری گجراتی سے قبل از شرق تا غرب ازشمال تاجنوب پوری امت میں کوئی شخص ایسانہیں گزرا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عند القبر صلوٰۃ وسلام کے سماع کا منکر ہو اور اس عقیدہ والا بدعتی بھی ہے، اہل السنت والجماعت سے خارج بھی ہے اور اس کے پیچھے نماز بھی مکروہ ہے۔ (المسلک المنصور ص ۴۹) 

(۳) ’’باقی رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس صلوٰۃ وسلام کے سماع کامسئلہ تواس میں فریقین کے درمیان قطعاً کوئی اختلاف نہ تھا۔ اس مسئلہ میں امت میں سب سے پہلے اختلاف ۱۳۷۴ھ کے بعد سید عنایت اللہ شاہ گجراتی نے پیدا کیا ہے۔ اور یہ کہناکہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم عند القبر صلوٰۃ وسلام نہیں سنتے اور نہ جواب دیتے ہیں اور آپ کی روح مبارک کا جسد اطہر سے قبر شریف میں کوئی تعلق نہیں ہے، یہ امت میں نئی بدعت اور نیا فتنہ ہے۔ فالی اللہ المشتکٰی۔‘‘ (خزائن السنن ۳/۵۵) 

(۴) ’’ان تمام اقتباسات سے یہ امر روشن ہو گیا ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پا س صلوٰۃ وسلام پڑھے تو اس کو آپ خودبنفس نفیس سنتے ہیں اور دو رسے فرشتے پہنچاتے ہیں۔ اورحضرت گنگوہی ؒ کی عبارت یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ حضرات انبیاے کرام ؑ کے سماع میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ جو شخص اس کامنکر ہو، وہ اجماع کا منکر ہے اور منکر اجماع کے لیے جو وعیدیں وارد ہوئی ہیں، وہ سب بلاشبہ اس شخص پر چسپاں ہیں۔‘‘ ( تسکین الصدور، ص ۳۴۶) 

۴۰۔ مسئلہ سماع موتی: 

انبیاے کرام کے علاوہ باقی اموات کے سماع میں اہل السنت والجماعت کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے اس کے کسی ایک فریق پر بھی گمراہی اور ضلالت کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا، البتہ جمہورا ہل سنت سماع موتی کے قائل ہیں۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’عام اموات کے عند القبور سماع اور عدم سماع کامسئلہ حضرات صحابہ کرام سے تاہنوز اختلافی رہا ہے۔ سماع کے قائلین بھی ہیں اور منکرین بھی۔ اکثر امت جن میں حضرات موالک، حضرات شوافع، حضرات حنابلہ تقریباً سبھی اور حضرات احناف بھی معتد بہ طبقہ اورجم غفیر سماع کا قائل ہے۔‘‘ ( خزائن السنن ۳/۵۵)

(۲) ’’پوری امت بشمولیت جملہ اکابر علماے دیوبند کثراللہ سوادہم حضرات انبیاے کرام کے عند القبور سماع کو اتفاقی طورپر تسلیم کرتے ہیں، اور بقول حضرت گنگوہیؒ اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اورعام اموات کے سماع اور عدم سماع کو حضرات صحابہ کرام سے لے کر تاہنوز اختلافی مسئلہ تسلیم کرتے ہیں، قائلین اور منکرین دونوں کو اہل السنت والجماعت ہی مانتے ہیں۔‘‘ (الشہاب المبین ص ۱۱) 

(۳) ’’حضرات صحابہ کرام کے مبارک دور اور خیرالقرون کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک یہ مسئلہ اختلافی چلا آ رہا ہے کہ قبروں کے پاس اگر کوئی شخص اہل قبور کوسلام وغیرہ عرض کرے تو مردے سنتے ہیں یانہیں؟ ایک گروہ سماع موتی کا قائل ہے جس میں حضرات صحابہ کرام کے علاوہ حضرات مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا جم غفیر اور حضرات احناف کا معتد بہ طبقہ اور اکابر علماے دیوبند کی اکثریت شامل ہے۔ اس مسئلہ کے اختلافی ہونے کا انکار یا تو نرے جاہل اور ضدی سے سرزد ہوگا اور یا کسی مجذوب سے، ورنہ کوئی بھی حقیقت شناس، دیانت دار عالم اور خدا خوف مسلمان اس کا انکار نہیں کر سکتا۔‘‘ (سماع الموتی ص ۷۸) 

۴۱۔ مسئلہ توسل: 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاے کرام وصلحا ؒ کے وسیلہ سے مانگنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ جائز ہے یاناجائز؟ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’ہاں البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ دعا میں یہ کہا جا سکتاہے یا نہیں کہ مثلاً اے پروردگار توبوسیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا بطفیل حضرت ابو بکر صدیق یا بہ برکت حضرت امام ابوحنیفہ ؒ یا بحرمت سید عبدالقادر جیلانی ؒ یا بجاہ حضرت مجددالف ثانیؒ میراکام کر دے؟ یا اس قسم کا کوئی مفہوم ہو جس کواپنی زبان،لغت اور عرف کے اعتبار سے ادا کرے تو آیا درست ہے یا نہیں؟ حافظ ابن تیمیہؒ اور ان کے اتباع اس کاانکار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایسا کہنا درست نہیں ہے۔ علامہ سبکیؒ (شفا ء السقام ص۱۲۰ میں) ابن تیمیہ کا رد کرتے ہیں کہ ان سے پہلے یہ بات کسی عالم نے نہیں کی۔ ..... اس سے صاف طور پر یہ بات معلوم ہو گئی کہ توسل کاانکار حافظ ابن تیمیہؒ سے قبل کسی عالم نے نہیں کیا اور اس مسئلہ کے پہلے منکر یہی حافظ ابن تیمیہ ہیں۔‘‘ ( تسکین الصدور، ص ۳۹۸) 

(۲) ’’الغرض توسل جمہور سلف وخلف ؒ کے نزدیک درست ہے۔ حافظ ابن تیمیہ، ان کے تلامذہ اور اس لڑی کے بیشتر حضرات اور ز مانہ حال کے اکثر غیر مقلدین حضرات اس کے منکر ہیں۔ بعض ان میں سے اس کے جواز کے قائل بھی ہیں جن کے حوالے عنقریب آرہے ہیں اور ہمارے اکابر علماے دیوبند تقریباً سبھی مشروع توسل کے جواز کے قائل ہیں۔ یہ یاد رہے کہ توسل کامسئلہ صرف جواز کا درجہ رکھتا ہے، نہ ضروری ہے، نہ ناجائز اور گمراہی ہے جیسا کہ وہم کیا گیا ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۴۰۰)

۴۲۔ مسئلہ علم غیب و حاضر و ناظر: 

قرآنی ونبوی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے اور حاضر و ناظر ہونا اسی کی صفت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے بعض طبقات انبیاے کرام اور اولیاء اللہ میں بھی یہ اوصاف ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ حضرت شیخؒ اس مسئلہ پر متعدد حوالے پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ

(۱) ’’حضرات! آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ حضرات فقہاے احناف کے نزدیک یہ مسئلہ اتنا واضح اور بے غبار ہے کہ وہ بغیرکسی خوف اور لومۃ لائم کے ایسے شخص کی تکفیر کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر وناظر اور عالم الغیب تسلیم کرتاہے۔ تمام ذمہ دار اورمحقق علماے احناف سو فیصدی اس پر متفق ہیں اوریہی اکابر علماے دیوبند کا عقیدہ ہے۔‘‘ (آنکھوں کی ٹھنڈک ، ص۷۲) 

(۲) ’’قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرات فقہاے احناف ؒ کا محتاط، سنجیدہ اور متین گروہ کس بے باکی کے ساتھ لومۃ لائم کے بغیر اس شخص کی تکفیر صراحت کے ساتھ کرتاہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرتا یا آپ کو حاضر وناظر مانتا ہے۔ گویا حضرات فقہاے کرامؒ کے نزدیک یہ مسئلہ اصول د ین سے بھی ہے اور ضروریات دین سے بھی اور اس کاماخذ نصوص قطعیہ بھی ہیں اور امت کااجماع قطعی بھی۔‘‘ ( ازالۃ الریب ص ۴۴۶)

۴۳۔ جواز و اخفاے ذکر: 

ذکر الٰہی ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے، لیکن بدقسمتی سے اس عبادت کو بھی تفریق امت کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جو انکار حدیث کی بنا پر جواز ذکر کا ہی قائل نہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے ذکر کو اپنامسلکی اور گروہی تشخص قائم کرنے کا ہتھیار بنا کر ذکر بالجہر کی خصوصی مجالس کا اہتمام کر رکھا ہے۔ حضرت شیخؒ دونوں کو راہ اعتدال کے خلاف قرار دیتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’صحابہ کرام سے لے کر یہ نظریہ آج تک چلا آرہاہے اور امت مرحومہ کے علماے حقانی، شیوخ ربانی اور اہل کلام ہمہ تن ذکرالٰہی میں مصروف چلے آرہے ہیں اور اب بھی بفضلہ تعالیٰ اس کے ذکر اور دعا کودینی اور دنیوی کامیابیوں کا راز سمجھا جاتا ہے۔‘‘ (درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ، ص ۱۵)

(۲) ’’یہ ایک بین حقیقت ہے کہ اذان سے قبل یا اذان کے بعد بلند آواز سے درود شریف پڑھنے کا رواج نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں تھا، نہ خلفاے راشدین اور صحابہ کرام کے دور میں تھا، نہ خیرالقرون میں کوئی شخص اس بدعت سے واقف تھا اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کسی بزرگ نے یہ کاروائی کی اور نہ اس کافتویٰ دیا، بلکہ تقریباً ۷۹۰ھ تک کسی بھی مقام پریہ بدعت رائج نہ تھی۔’’ (ایضاً ص ۳۲)

(۳) ’’تمام علما کا اس بات پراتفاق ہے کہ آہستہ ذکر کرنا ہی بہتر ہے اور بلند آواز سے ذکرکرنا بدعت ہے، مگر ان مقامات پر جہاں جہر کی شرعی ضرورت پیش آئے مثلاً اذان، اقامت، تکبیرات تشریق، امام کے لیے رکو ع وسجود کی طرف انتقال کی تکبیریں یا امام بھو ل جائے تو مقتدی کا سبحان اللہ کہنا، حج کے موقع پر لبیک کو بلند آواز سے پڑھنا وغیرہ۔‘‘ (ایضاً ص ۲۶ بحوالہ تفسیر مظہری ۳/۴۰۸)

۴۴۔ تنسیخ متعہ: 

متعہ زمانہ جاہلیت کے نکاحوں میں سے نکاح کی ایک مروجہ صورت تھی۔ جس کو ابتداے اسلام میں جائز اور روا رکھا گیا، جیساکہ ترمذی ۱/۱۳۳ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ابتداے اسلام میں جب کوئی شخص کسی شہر میں جاتا جہاں اس کی کوئی شناسائی نہ ہوتی تو وہ کسی عورت سے اتنے دنوں کے لیے جتنے دن اس نے قیام کرنا ہو تو فیتزوج المراۃ، وہ اس عورت سے نکاح متعہ کر لیتا۔ وہ اس نکاح کی بنا پر اتنے دن اس کے سامان کی نگرانی کرتی اور اس کے لیے کھانا تیارکرتی، یہاں تک یہ آیت نازل ہوئی کہ بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ مردوں کو کسی پر اپنی شرمگاہیں ظاہر کرنا حرام ہے۔ حضر ت ابن عباسؓ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ نکاح کی ایک قسم تھی جو ابتداے اسلام میں رائج تھی اور بعد میں من جانب اللہ اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’خمینی صاحب کو ابتداے اسلام میں جواز متعہ پر مسلمانوں کا اتفاق تو نظر آگیا، لیکن اس کی نسخ اور نہی پر اجماع واتفاق نظر نہیں آیا۔‘‘ ( ارشاد الشیعہ، ص ۱۳۱)

(۲) ’’اس کے بعد روافض کے علاوہ باقی تمام علماے اسلام کا متعہ کے حرام ہونے پر اجماع ہو چکا ہے۔‘‘ (ایضاً ص ۱۳۱ بحوالہ نووی شرح مسلم ۱/۴۵۰)

(۳) ’’اس سے معلوم ہوا کہ تمام اہل اسلام کا متعہ کی حرمت پر اجماع ہے۔ ہاں روافض اس کے خلاف ہیں۔‘‘ (ص ۱۳۲)

۴۵۔ عصمت انبیا: 

عصمت، انبیا کاخاصہ ہے، یعنی ہر نبی معصوم ہے اور کوئی غیر نبی معصوم نہیں۔ نبی ولادت سے وفات تک قبل از اعلان نبوت بھی اور بعد از اعلان نبوت بھی معصوم ہوتا ہے، چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانوں میں معصوم صرف حضرات انبیاے کرام ہی ہوتے ہیں۔ نہ تو ان سے صغائر سر زد ہوتے ہیں، نہ کبائر۔ خطاے اجتہادی اور زلت کامعاملہ جداہے، وہ گناہ کی مد میں شامل نہیں۔ اور یہ امر قرآن کریم، احادیث صحیحہ، متواترہ واضحہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔‘‘ ( ارشاد الشیعہ، ص ۸۴) 

(۲) ’’شیعہ کا یہ خیال ہے کہ پانچ حضرات (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت فاطمہ، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسینؓ) پاک ہیں اور ہم اہل السنت والجماعت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر پاک سے معصوم مراد ہے تو اس معنی میں صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی، (ان میں سے) پاک اور معصوم ہیں، کیونکہ معصوم صرف انبیاے کرام ہی ہوتے ہیں۔ انسانوں میں اور کوئی معصوم نہیں ہوتا۔ اوراگر پاک سے مراد متقی، پرہیزگار اور خدا رسیدہ ہے تو اس معنی میں بھی صحابہ کرام پاک ہیں جن کو رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کا پروانہ قرآن کریم میں من جانب اللہ مرحمت ہو چکا ہے۔‘‘ ( باب جنت ص ۲۶۴)

(۳) ’’اللہ تعالیٰ نے جن برگزیدہ شخصیتوں کو لوگوں کی رشد وہدایت اور اصلاح وتزکیہ کے لیے انتخا ب فرمایا ہے، ان کو ان تمام صفات حمیدہ سے متصف فرمایا ہے جو ان کے بلند اور رفیع مقام اور شان کے لائق ہیں اور ان سب رذائل اور آلایشوں سے محفوظ رکھا ہے جوا ن کی جلالت شان کے منافی اور نامناسب ہیں۔ کفرو شرک، چوری وبدکاری، شر اب نوشی اور زنا، جھوٹ اور مکر، فریب کاری اور دھوکہ وغیرہ، غرضیکہ تمام صغائر وکبائر سے اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ ومصون رکھا ہے اور ہر طرح سے ان کی حفاظت فرما کر ان کو عصمت وعفت کا اونچا مقام مرحمت فرمایا ہے۔ تمام اہل اسلام انبیاے کرام کی عصمت کاعقیدہ رکھتے اور اس پر کامل یقین کرتے ہیں، ہاں اجتہادی لغزش اور غلطی انبیاے کرام سے بھی سرزد ہو سکتی ہے، لیکن نہ تو وہ صغیرہ کی مدمیں ہوتی ہے اور نہ کبیرہ کی زدمیں۔ وہ چیز ہی الگ ہے، اور ایسے ہی نسیان وخطا اور اجتہادی لغزشوں کے مقامات پر ان کے بلند اور ارفع مقام کے پیش نظر بفحوائے حسنات الا برار سیآت المقربین اللہ تعالیٰ نے تشدیداً اس کو عصیان وغوایت، ظلم اور ذنب کے الفاظ سے تعبیر فرمایاہے، حالانکہ درحقیقت نہ تو وہ صغائر ہیں اورنہ کبائر۔ کیونکہ گناہ کے لیے قصد اور ارادہ ضروری ہوتا ہے۔ مگر یہ افعال ان سے غیر ارادی اور غیر شعوری اور نسیان وغیرہ کے طریقہ سے سرزد ہوئے ہیں۔ اور جو قصد وارادہ سے سرزد ہوئے ہیں، وہ محض اجتہادی لغزش کا نتیجہ ہیں اور گناہ نہیں اور ان کی وجہ سے ان کی عصمت پر ہرگز کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ (عیسائیت کا پس منظر ص ۶۱) 

۴۶۔ ولادت انبیا کا فطری طریقہ: 

روافض نے اپنے بارے میں جو فاسد وباطل نظریات گھڑ رکھے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ائمہ کی ولادت معروف وفطری طریقہ سے نہیں مانتے ، بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ائمہ اپنی ماؤں کی رانوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت شیخؒ فرماتے ہیں کہ 

’’اہل اسلام کا یہ متفقہ نظریہ ہے کہ حضرات انبیاے کرام ماں اور باپ کے توسط سے اسی طرح پیدا ہوتے ہیں جیسے عام بچے پید اہوتے ہیں، ہاں مگر حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا قصہ جدا ہے کہ او ل الذکر بزرگ ماں باپ کے توسط کے بغیر اور ثانی الذکر محترم بغیر باپ کے محض اللہ تعالیٰ کی قدرت سے صرف ماں سے پیدا ہوئے، اور یہ امر قرآن کریم، احادیث صحیحہ مرفوعہ، متواترہ واضحہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، مگر شیعہ کا نظریہ (بحوالہ اصول کافی ص ۱۲۱) یہ ہے کہ امام بھی معصوم ہوتے ہیں اور وہ (بحوالہ حق الیقین ص ۱۲۶) اپنی ماؤں کی رانوں سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ (ارشاد الشیعہ ص ۸۴)

۴۷۔ قتل مرتد: 

اسلام کے اندر داخل ہونے کے بعد اگرکوئی شخص کسی ایک قطعی عقیدہ سے انکار یا تمام عقائد سے انحراف کی بنا پر اسلام سے نکل جائے تووہ مرتد کہلاتاہے اور اس کی سزا قتل ہے، چنانچہ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ 

’’اسلام میں غیر مسلموں کے لیے تبلیغ وترغیب توہے لیکن لااکراہ فی الدین کے قاعدہ کے مطابق جبراً کسی کو مسلمان نہیں بنایاجا سکتا، لیکن اگر کوئی مسلمان ہے اور وہ بدبخت اسلام سے پھرکر مرتد ہوجائے (العیاذ باللہ) تو وہ خداتعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی ہے۔ جب دنیا کی کسی حکومت میں باغی کسی رعایت کا مستحق نہیں، بلکہ تختہ دار پر لٹکائے جانے کے قابل سمجھا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے باغی کے لیے رعایت کی گنجایش کیسے؟ بلکہ قتل سے کوئی زیادہ سزا ہوتی تو وہ اس کا بھی مستحق ہے۔ مرتد کا قتل کرنا قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ثا بت ہے۔‘‘ (ختم نبوت قرآن وسنت کی روشنی میں، ص ۳۶)

۴۸۔ امام عثمانؓ کی امام علیؓ پر فضیلت: 

امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ نے اپنی معروف کتاب ’’خلفاء راشدین‘‘ کے مقدمہ میں صراحت فرمائی ہے کہ خلفاے راشدین کامرتبہ ان کی ترتیب خلافت سے نہیں، بلکہ ان کی خلافت ان کی ترتیب مراتب سے ہے، یعنی خلفاے راشدین کامقام ان کی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے ان کی خلافت ہے۔ پہلامرتبہ امام صدیق اکبرؓ کاتھا، ا ن کو پہلی خلافت ملی۔ دوسرامقام امام فاروق اعظمؓ کاتھا، ان کودوسری خلافت ملی۔ تیسرا مرتبہ امام عثمانؓ کاتھا، ان کو تیسری خلافت مل گئی۔ اور چوتھا مرتبہ امام علی مرتضیٰؓ کا تھا، ان کو چوتھی خلافت ملی۔ پھرایک فرقہ امت کے اندر شیعان علی کے نام سے پیدا ہوا جس نے امام علیؓ کی امام عثمانؓ پر فضیلت کا نظریہ قائم کیا۔ ان کے بعد روافض پیدا ہوئے جنہوں نے خلفاے راشدین یعنی اصحاب ثلاثہ اور دیگر صحابہ کرام کی تکفیر اور ان پر سب وشتم کانظریہ قائم کیا۔ چنانچہ متقدمین اہل سنت شیعہ اور رافضی میں فر ق کرتے ہیں۔ حضرت شیخؒ ، حافظ الدنیا امام فن رجال حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۹۴ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ:

’’متقدمین کے عرف واصطلاح میں تشیع کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت علی کو صرف حضرت عثمانؓ پر فضیلت دی جائے اور یہ کہ حضرت علیؓ اپنی جنگوں میں حق بجانب تھے اور ان کے مخالف خطا پر تھے اور وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ کی تقدیم اور تفضیل کے قائل تھے۔ بہرحال متاخرین کے عرف واصطلاح میں تشیع کا مفہوم خالص رفض ہے۔ نہ توغالی رافضی کی روایت قبول کی جا سکتی ہے اورنہ اس کی عزت کی جاسکتی ہے۔ .....اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ متقدمین کی اصطلاح میں شیعہ وہ تھے جو تمام اصول وفروع میں اہل السنت والجماعت سے متفق تھے۔ صرف حضرت علی کوحضرت عثمانؓ پر فضیلت دیتے تھے۔ جب کہ اہل سنت کے ہاں اتنا نظریہ بھی اجماع امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے بدعت ہے اور وہ برملا تفضیل شیخینؓ کے قائل تھے اور حضرت علیؓ کے خلاف لڑنے والو ں مثلاً حضرت امیر معاویہ وغیرہ کو مخطی کہتے تھے، نہ کہ کافر ومرتد۔ آج اس نظریہ کے شیعہ کہاں ہیں؟‘‘ (ارشاد الشیعہ ص۲۰)

۴۹۔ رد بدعات: 

حضرت شیخ نے رد بدعات پر جو کام کیا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ہمارے ہاں بدعات کے معاملہ میں سب سے مشکل مرحلہ ان کی تعیین اور بدعت کی تفریق کا ہے، کیونکہ ان کے بغیر ان کارد کرنا مشکل ہے۔ حضرت شیخؒ نے اس مشکل مرحلہ کوبڑے آسان پیرایے میں حل فرمایا۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ 

’’جو چیز قرآن، حدیث، اجماع امت اور قیاس شرعی سے ثابت نہ ہو اور وہ کام جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، اسوہ حسنہ اور نمونہ کے خلاف ہو، اور وہ کام جب دین کے اندر ایجاد کیا گیا تو یقیناً بدعت ہوگا۔‘‘ (راہ سنت ،ص۷۵) 

۵۰۔ رفع یدین: 

فروعی واجتہادی اختلافات میں سے ایک اختلافی مسئلہ رفع یدین کابھی ہے جس کے کسی ایک فریق پر بھی ضلالت وگمراہی کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ 

(۱) ’’ان فروعی اختلافات میں سے ایک مسئلہ رفع الیدین عند الرکوع وعند رفع الراس من الرکوع بھی ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کے مبارک عہد سے تاہنوز چلا آرہا ہے اور دنیاے اسلام میں کہیں اس کے مثبت اور کہیں اس کے منفی پہلو پر عمل ہو رہا ہے۔ اگر اس اختلاف کو فرعی اختلاف کی حد تک ہی رہنے دیا جائے اور ہر فریق اپنی تحقیق ودانست کے مطابق جو اسے حق اور صحیح نظر آئے، اس پرعمل کرے اور دوسرے فریق کے لیے بھی گنجایش چھوڑ دے تو کبھی نزاع اور جدال کی نوبت ہی نہیں آتی اور نہ آئے گی۔ مگرنہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زمانہ حال کے غیرمقلدین حضرات میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دیگر اختلافی مسائل کی طرح رفع یدین کے مسئلہ کو بھی حق وباطل کامعیار بنائے بیٹھے ہیں اور چند احادیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر یہ اٹل فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ نماز صرف ہماری ہی ہے، اوراحناف وغیرہ حضرات کی کوئی نماز نہیں اور اقل درجہ یہ ہے کہ سنت کے خلاف ہے۔‘‘ (پیش لفظ از نورالصباح ص ۱۰)

(۲) ’’مسئلہ ترک رفع یدین میں احناف تقلید نہیں کرتے، بلکہ اس میں احادیث صحیحہ اور صریحہ کی پیروی کرتے ہیں جن میں ایک حدیث صحیح ابوعوانہ ۲/۹۰ اور مسند حمیدی ۲/۲۷۷ میں متصل اور صحیح سندکے ساتھ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے۔‘‘ (الکلام المفید، ص ۲۱۲) 

(۳) علامہ ابن حزم الظاہریؓ کی المحلیٰ ۳/۲۳۵ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ تکبیر افتتاح کے بعد سرجھکائے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے اور یہ بھی ثابت ہے کہ نہیں بھی کرتے تھے تو یہ سب کچھ مباح ہے، فرض نہیں اور ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم بھی اس طرح نماز پڑھیں۔ اگر ہم نے رفع یدین کر کے نماز پڑھی تو ویسی ہی نماز پڑھی جیسی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی اور اگرہم نے ترک رفع یدین کرتے ہوئے نماز پڑھی تو ویسی ہی پڑھی جیسی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی۔‘‘ (ایضاً ص۲۱۴)

حاصل بحث

اس طویل بحث سے حضرت شیخ کی تحقیقات کا قارئین کرام نے بخوبی اندازہ کر لیا ہوگا کہ تمام اجماعی مسائل میں حضرت شیخؒ نے ہمیشہ اجماع امت کے استدلال ہی سے اپنا موقف ونظریہ ثابت کیا اور اسے اسی حوالہ سے قبول کیا اور اختلافی مسائل کے اندر جمہوراہل سنت کے موقف ونظریہ کوہی قبول کیا اور اسی سے استدلال کیا، گویا کہ اجماع اور جمہور ہی حضرت شیخؒ کے نزدیک اصل اور بنیادی اہمیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اس دائرہ کو نہ کبھی خود کراس کیا اور نہ کسی کے لیے اس دائرہ کوکراس کرنا پسند کیا۔ اسلاف ؒ کی تحقیقات سے وابستہ رہنے میں ہی انہوں نے اپنی نجات سمجھی اور اسی کو دوسروں کے لیے باعث نجات جانا۔ خداکرے کہ حضرت شیخؒ کے جملہ متعلقین ومتوسلین صراط مستقیم کے انہی اصولوں پر گامز ن رہیں، کیونکہ ان اصولوں کی پابندی سے اگر حضرت شیخؒ عند اللہ وعندالناس سرخرو ہو چکے ہیں اور ان شاء اللہ یقیناًسرخرو ہو چکے ہیں تو سرخروئی کا کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ خدا تعالیٰ جملہ اہل اسلام کو ہدایت وصراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم-

شخصیات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter