دیوبند ایک تحریک کا نام ہے اور تحریک اس وقت تک قائم رہے گی جب تک حق والے موجود ہیں ان شاء اللہ۔ کسی کے اٹھ جانے سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں اورنہ دم توڑتی ہیں۔ ہاں نشیب وفراز ضرور آتے ہیں ۔ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے صدمات ہی عطا فرمائے ہیں۔ یہ صدموں والی امت ہے۔سب سے پہلاصدمہ اس امت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اِس دنیا سے اُس دنیا میں منتقل ہونے سے ملا۔ اگر یہ حق کی تحریک اور یہ دین ختم ہونا ہوتا تو اُسی دن ختم ہو جاتا۔ صدمہ ضرور ہوا لیکن حق کا پیغام ختم نہیں ہوا۔اس پیغام کو سنبھالنے والے انبیاء علیہم الصلوۃ والتسلیمات کے بعد پانچ لاکھ نفوسِ قدسیہ دنیا میں پھیل گئے اور اللہ کی اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لیے ایک ایک نے اپنا دم خم لگا کر اس بات کو علی الاعلان دنیا تک پہنچایا۔
جب میں اس میدان میں نکلا تو میں نے سب سے پہلے حیات انبیا کے موضوع پرحضرت مولانا سرفراز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہی پڑھی اور پھر اور بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ان کا فیض تاحال جاری ہے اور جاری رہے گا ۔ان شاء اللہ۔
حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ سے میری کوئی زیادہ ملاقاتیں نہیں ہیں۔ سب سے پہلی ملاقات میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں مولانا زاہد الراشدی کے ساتھ حاضر ہوا۔ پہلا تأثر جو میرے دل پر دونوں بھائیوں (حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی) کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر قائم ہوا، یہ تھا کہ دل سے ایک رشک آمیز ہوک نکلی کہ اے اللہ سب بھائیوں کو ایسی محبت دے دے اور سب کے بھائی ایسے ہوجائیں ۔دونوں عالم ،دونوں فقیہ ،دونوں محدّث ، دونوں مفسّراور دونوں اللہ والے۔ دوسرا تاثریہ کہ دونوں سادہ، کوئی کرّ وفر نہیں اور دونوں حضرات نے مجھے اس شفقت سے گلے لگایا۔ سچی بات ہے میرا دل موہ لیا۔ محبت کا مارا ہوا ہوں۔ جو محبت کرتا ہے، ہم اس کے ساتھ ہیں ،اور دونوں حضرات نے مجھے ہد یہ دیا ۔ اِس پر ایک بات سناتا ہوں۔ حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوریؒ ملتان تشریف لائے۔ ابا جی بیمار تھے۔ آکر مصافحہ معانقہ کیا۔ ابا جی نے سر سے پاؤں تک دیکھنا شروع کیا تومولانا یوسف بنوری سمجھے کہ شاید مجھے پہچانا نہیں۔ انہوں نے کہا حضرت میں محمد یوسف بنوری ہو ں۔ فرمایا نہیں۔ پھر اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ حضرت بنوری نے پھر فرمایا، حضرت میں محمد یوسف بنوری کراچی سے آیا ہوں۔ فرمایا نہیں۔ تیسری بار پھر ایسا ہی معاملہ ہوا۔ حضرت بنوری نے فرمایا، حضرت میں محمد یوسف بنوری ہو ں۔ اباجی نے فرمایا، نہیں، انور شاہ۔کہ یوسف بنوری ،انورشاہ کی نشانی ہے۔ توان دونوں بزرگوں نے وہ ہدیے مجھے نہیں دیے بلکہ عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو دیے۔ میری کیا حیثیت اور میری کیا پہچان ہے۔ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔
آخری ملاقات وفات سے ایک ہفتہ پہلے ہوئی۔میں حاضر ہوا،عجیب تماشا ہے۔ حضرت کے ہوش ،ہواس ،پہچان ہر چیز بالکل قائم تھی۔ میں نے عرض کیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !عطاء المہیمن حاضر ہوا ہوں۔ واللہ العظیم کھینچ کر میرا ہاتھ چوم لیا۔ یہ ساتھی گواہ ہیں جوساتھ تھے۔حضرت نے میرا ہاتھ چوما۔ سچی بات ہے طبیعت پربہت اثر ہوا۔ میں نے کچھ ہدیہ پیش کیا۔ حضرت نے وہ بھی محبت سے جیب میں ڈال لیا۔اچانک کپکپی طاری ہوگئی کہ میں کیا، میرا ہاتھ کیا اور معاً تنبہ ہوا کہ اوہ بے وقوف! تیرا نہیں، عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا احترام ہے۔ جب ۱۹۳۰ء میں انجمن خدّام الدّین کے جلسے میں حضرت انور شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ سو علما کی موجودگی میں امیر شریعت کا خطاب دیتے ہوئے ابا جی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ بھائی جان مولانا سید ابوذر بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا ’’ابّا جی تُسی انور شاہ صاحب نُوں بیعت کرلیا؟‘‘ اباجی نے فرمایا ’’حافظ جی! تم بے وقوف ہو۔ میں کوئی پگلا تھا کہ انور شاہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتا۔ جب حضرت انور شاہ صاحب نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے تو میں نے جلدی سے اپنے ہاتھ انور شاہ صاحب کے ہاتھوں میں دے دیے۔ انہوں نے کہاں بیعت کی، میں نے انور شاہ کی بیعت کی‘‘۔
جس رات حضرت کا انتقال ہوتاہے،سحر کے وقت مجھے خواب آیا کہ مجھ پر کسی نے حملہ کیا اور میرا بازو کاٹ دیا اور صبح مجھے خبر ملی کہ مولانا سرفراز خان صاحب کا انتقال ہوگیاہے۔
حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جونعمتیں عطا فرمائیں تھیں ، اُن میں دو بہت نمایاں تھیں۔ قرآن کہتاہے: انما اموالکم واولادکم فتنہ۔ مال اور اولاد آزمایش ہیں ۔ میرے اللہ نے اپنے اس بند ے کو ان دونوں آزمایشوں میں کامیاب کردیا ۔ مال سے محبت کی، نہ اولاد گمراہ ہوئی ۔اولاد زندگی میں عالم بن گئی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مقصد تخلیق اور مقصد حیات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کی امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ڈیوٹی لگائی، حضرت مولانا سرفراز خان صفدررحمۃ اللہ علیہ اس ڈیوٹی کوانجام دیتے ہوئے دنیا سے تشریف لے گئے۔ اللہ نے سرفراز کو فوزاً عظیما سے نواز کر اپنے پاس بلایا۔ ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزاً عظیما
غلط تعریف نہیں کررہا، حقیقت میں دل کی آواز بتارہا ہو ں کہ میرے اللہ نے اپنے اس بند ے سرفراز کو کامیابی کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔مال سے محبت نہیں کی ۔اللہ کی رضا کے لیے اس مخلوق سے محبت کی اور دین کی تعلیم ودعوت اوردین دشمنوں کی سرکوبی میں زندگی تمام کردی۔وہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہوگئے۔
یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولاً سد یدا یصلح لکم اعمالکم ویغفر لکم ذنوبکم۔
ساری زندگی سچ بولا، اللہ کی توحید بیان کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت ورسالت اور عقائدِ صحیحہ بیان فرمائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مصائب و پریشانیوں کو اچھے احوال میں تبدیل کر کے انہیں پاکستان کا امام اہل سنت بنادیا ۔ اور کتنے ہی لوگ مغفرت مانگنے والے پیچھے چھوڑ گئے۔ہزار ہا کی تعداد میں علما، طلبہ، فضلا، احبا، اصدقا ان کے پیچھے سب دعاے مغفرت کرنے والے رہ گئے۔ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ،اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور نشانیوں میں سے ایک تھے۔آج ہم اس نعمت سے محروم ہو گئے ۔ حق تعالیٰ،اُن کے حسنات کو قبول فرمائے۔اُن کا فیض جاری رہے، اُن کا مشن زندہ رہے اور انہیں جوارِرحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ (اٰمین)
(۸ جون ۲۰۰۹ء کو گکھڑ منڈی میں امام اہل سنت سیمینار سے خطاب)