حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث

حافظ محمد سلیمان

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس سرہ کی زندگی نسل نو کی تعمیر کے لیے مثالی زندگی تھی۔ حضرت کی حیات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی دینی وفکری اعتبار سے معاشرہ کی اصلاح کے لیے جدوجہد کے مختلف گوشے واضح طور پر سامنے آ جاتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی تدریس اور مختلف موضوعات پر تحریر کی جانے والی کتب کے علاوہ سلوک وتصوف پر بھی آپ کی نظر عمیق تھی۔ حضرت ؒ نے اگرچہ اس موضوع پر کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی، تاہم آپ کی تالیفات میں مختلف مناسبتوں سے سلوک وتصوف کے اہم مباحث بیان ہوئے ہیں جن کے مطالعہ سے سلوک وتصوف کے متعلق آپ کے نظریات پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ ذیل میں ہم سلوک وتصوف کے بعض پہلووں سے متعلق حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ 

روحانی تعلق 

حضرت شیخ الحدیثؒ سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ حضرت مولانا حسین علیؒ (م۱۳۶۳ھ) کی زندگی کے آخری ایام میں ان سے بیعت ہوئے اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میں جب بیعت کے لیے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے اپنے دست مبارک سے اپنی تصنیف ’’تحفہ ابراہیمیہ‘‘ کا ایک نسخہ مجھے عطا کیا اور فرمایا کہ اس کا مطالعہ کرو اور اگر کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھ لو۔ چنانچہ حضرت نے ڈیڑھ گھنٹے میں اس کا مطالعہ کیا اور بعض مقامات سے کچھ باتیں حضرت سے دریافت کیں اور آپ نے ان کا جواب عنایت فرمایا۔ مرشد کامل نے جوہر قابل کو پہچانتے ہوئے خلعت خلافت سے بھی سرفراز فرما دیا۔ (۱) حضرت مولانا حسین علی اگرچہ مختلف سلاسل میں مجاز تھے، مگر نقشبندی طریقہ سلوک کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور زیادہ تر اسی میں بیعت فرماتے تھے۔ اس سلسلہ مبارکہ کی نمایاں خصوصیات میں ذکر الہٰی کی کثرت، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور توحید کی تبلیغ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ (۲)

حضرت شریعت و طریقت دونوں کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ آپ اپنے اکابر کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’ہمارے اکابر رحمہم اللہ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی روحانی سلسلہ سے ضرور وابستہ تھا۔‘‘ تاہم حضرت نے مرشدکامل ؒ کی طرف خلعت خلافت سے نوازے جانے کے باوجود بیعت کا سلسلہ بہت محدود رکھا۔ اکثر وبیشتر بیعت کرنے سے انکار فرما دیتے اور اگر کسی کی طرف سے بہت زیادہ اصرار ہوتا تو بیعت فرما لیتے۔ آپ کا بیعت کا طریقہ انتہائی مختصر اور سادہ تھا اور عموماً ان الفاظ سے بیعت فرماتے تھے: 

’’ میں شرک وبدعت سے توبہ کرتاہوں، اوامر کے بجالانے اورنواہی سے اجتناب کی پوری کوشش کا وعدہ کرتا ہوں، بالخصوص نماز کی پابندی کا وعدہ کرتاہوں۔‘‘ 

ان مختصر الفاظ کے بعد وظا ئف اور اوراد بتائے جاتے اور ان کی تلقین فرماتے تھے۔ (۳)

حضرت شیخؒ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کفر، شرک، نفا ق، غلط رسومات اور دیگر باطنی رذائل سے تزکیہ کیا جائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’’دلوں کا تزکیہ شرعاً مطلوب ہے۔اور جو صحیح پیری مرید ی ہے، ٹھگوں کی بات نہیں کرتا، ان کی بات کرتاہوں جو صحیح معنی میں اللہ والے ہیں، ان کی پیروی مریدی اس آیت کریمہ ’’ویزکیہم ‘‘ کی تشریح ہے۔ جو مرشد کامل ہیں، وہ اپنے مرید کی اخلاقی تربیت کریں گے۔ ان کو سبق دیں گے کہ تم یہ کام کرو اور فلاں کام چھوڑ دو۔ یہ وظیفہ پڑھو اور فلاں وظیفہ نہ پڑھو۔ تو اللہ تعالیٰ کے صالح لوگوں کی تعلیم وتربیت سے انسان کفر وشرک سے، رسم ورواج سے، تکبر، بغض، کینہ اور حب دنیا جیسی بیماریوں سے بچ جاتا ہے اور اصلاح ہو جاتی ہے۔‘‘ (۴)

حضرت کا تعلق اگرچہ سلسلہ نقشبندیہ سے تھا، مگر آپ کو تمام سلاسل تصوف وسلوک سے عقیدت تھی۔ فرماتے ہیں:

’’ہمارے دلوں میں تمام سلاسل کے اکابر کی بے پناہ محبت وعقیدت ہے، وہ نقشبندی ہوںیا چشتی قادری ہو ں یا سہروردی یا کسی اور سلسلہ سے وابستہ ہوں۔ تمام ہمارے لیے قابل ہزار احترام ہیں اور ہمارا پختہ یقین ہے کہ ان حضرات کی محبت نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘ (۵)

عام طو رپر صوفیانہ حلقوں میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے ارادت مندوں کا حلقہ بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حضرت اپنے حلقہ ارادت کی توسیع اور نمود ونمایش سے گریز کرتے تھے اور مریدوں وغیرہ کے اجتماع کو پسند نہ کرتے تھے۔ عمومی حالات میں بھی ان چیزوں سے سختی سے منع اور گریز کیا کرتے تھے جو مریدین کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنی استطاعت کے مطابق مریدین کو اپنی جیب سے کرایہ اور زاد راہ بھی عنایت فرماتے تھے۔ 

حضرت شیخ الحدیث تعویذ دینے اور دم کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ بعض امور کی سختی کے ساتھ پابندی فرماتے تھے۔ فرماتے ہیں:

’’جادو کرنا اور کرانا قطعاً جائز نہیں ہے۔ جائز طریقہ سے دم اور تعویذات میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر اس کو دھندہ بنانا درست نہیں ہے۔ دم اور تعویذ ہم بھی کرتے ہیں۔ عورتیں آتی ہیں، تعویذ لیتی ہیں، پھرکہتی ہیں کہ اس کی فیس آپ کیا لیتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا ہی نہیں۔ وہ بڑی حیران ہوتی ہیں کہ فلاں مولوی صاحب نے توہم سے پانچ سو مانگا ہے، فلاں نے تین سو۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے بزرگوں کایہی طریقہ ہے۔ کوئی اگر خوشی سے دے جائے تورد نہیں کرتے، لیکن مانگی کبھی نہیں۔‘‘ (۶) 

صوفیانہ اذواق کو فقہا کی تحقیقات پر پرکھنا

حضرت شیخ الحدیث ؒ کی تالیفات کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے سلوک وتصوف میں آپ کا ذوق اور رجحان واضح ہوتا ہے۔ آپ نے اسی ذوق کے مطابق زندگی گزاری اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ ایسے اعمال ورسوم جن کا جواز حضرت کی تحقیق کے مطابق قرآن وسنت سے ثابت نہیں، آپ اپنے متوسلین ومعتقدین کو ان سے گریز کی تلقین کرتے تھے۔ مثلاً نقشبندی سلسلہ کے علاوہ باقی تمام سلاسل ذکر بالجہر کو روا گردانتے ہیں، جبکہ حضرت شیخؒ کی تحقیق کے مطابق ایسا کرنا شرعاً روا نہیں ہے۔ اس موضوع پر آپ نے ’’حکم الذکر بالجہر‘‘ اور ’’اخفاء الذکر‘‘ کے عنوان سے دو مستقل تصانیف لکھی ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’ یاد رکھنا، ذکر واذکار بھی آہستہ کرنا چاہیے۔ حدیث پاک میں آتاہے: ’’خیر الذکر الخفی‘‘۔ بہترین ذکروہ ہے جو مخفی ہو۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ بلند آوازسے ذکر کرنے کی بجائے آہستہ ذکرکرنے کا اجر ستر گنا زیادہ ہے، لہٰذا ذکر ایسے انداز سے کرو کہ اپنے کان سنیں، دوسروں کے کان نہ کھاؤ۔ خدا اور رسول کی بات پر عمل کرو اور دوز خ کی رسوائی سے بچو۔‘‘ (۷)

ایک دوسری جگہ ذکر بالجہر کی تردید میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا فرمان پیش کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہیں:

’’ لہٰذ ا ہم تو بحمداللہ تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اس بہترین اور سنہری مشورے اور نصیحت پرعمل کرنے کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں‘‘ (۸)

نفل نماز کو جماعت کے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے سے متعلق حضرت کا ارشاد ملاحظہ ہو:

’’ یاد رکھنا! نفل نماز کے لیے جماعت کا اہتمام کرنا بڑا گناہ ہے۔ تمام فقہاے کرام ؒ نے لکھا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ نفل نماز میں اگر ایک یا دوآدمی ساتھ مل جائیں تو کراہت نہیں ہے، تیسرا مل گیا تو مکروہ تنزیہی ہے اور اگر چار مل گئے تو مکروہ تحریمی ہے، حرام ہے۔ یہ تو مردوں کے لیے حکم ہے اور اب عورتوں نے بھی یہ بدعت شروع کر دی ہے کہ وہ صلوٰۃ التسبیح کے واسطے اہتمام کرتی ہیں اورا ن کے لیے مسجدوں میں اعلان ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں۔ بدعت کا گناہ ہے، ثواب بالکل نہیں ہے۔ اس لیے کہ بدعت سے دین کا نقشہ بگڑ جاتاہے۔ اپنی جگہ تہجد پڑھو، اشراق پڑھو، صلوٰۃ التسبیح پڑھو، بڑی سعادت کی بات ہے، مگر ان کی جماعت کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔‘‘ (۹)

صوفیاے کرام کے کشف والہام اور اقوال کی حیثیت

حضرت امام اہل سنت صوفیاے کرام کے اقوال پر عمل کرنے کو روا سمجھتے تھے، لیکن جہاں صوفیا کے اقوال وافعا ل نصوص قطعیہ کے معارض ہوں تو ان کو ترک کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں:

’’حضرات صوفیاے کرام ؒ کی ایسی باتیں خود قابل تاویل ہوں گی۔ مثلاً اس جہر سے ادنیٰ جہر مراد لی جائے یاتعلیم کی خاطر ہو۔ اور اگر تاویل نہ ہوسکے تو ان کو معذور سمجھتے ہوئے ان کا قول ترک کر دیا جائے گا، نہ یہ کہ ان پر مذہب کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ مذہب کی بنیاد تو قرآن کریم وحدیث شریف اور حضرات ائمہ فقہا اور خصوصاً حضرت امام ابوحنیفہ کی بات اور فقہ حنفی کی مستند ترین کتابوں پر رکھی جا سکتی ہے‘‘۔ (۱۰)

ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ سے یہ سوال ہوا کہ آپ کی فلاں مسئلہ میں یہ رائے ہے حالانکہ آپ کے پیر ومرشد اس کے خلاف کہتے ہیں تو آپ ان کی مخالفت کیوں فرماتے ہیں؟ (محصلہ) تو اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:

’’اور حجت قول وفعل مشائخ سے نہیں ہوتی بلکہ قول وفعل شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور اقوال مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں جب ان کے پیر سلطان نظام الدین قدس سرہ کے فعل کی حجت کوئی لاتا کہ وہ ایسا کرتے ہیں، تم کیوں نہیں کرتے؟ کہ فعل مشائخ حجت نہ باشد او اس جواب کو حضرت سلطان الاولیاءؒ بھی پسند فرماتے، لہٰذا جناب حاجی (امداد اللہ صاحبؒ ) سلمہ اللہ کا ذکر کرنا سوالات شرعیہ میں بے جا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ (فتاویٰ رشیدیہ ج ۱ ص ۹۸ طبع دہلی)‘‘(۱۱)

امام اہل سنت عمل بالقرآن وعمل بالسنۃ کو عزیز تر سمجھتے تھے اور ایسے حضرات صوفیاے کرام جو شرکت وبدعات جیسے رذائل سے نفرت کرتے ہیں، خصوصاً حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانیؒ (م ۱۰۲۴ھ)، آپ انہیں آئیڈیل قرار دیتے تھے اور ایسے سلسلہ طریقت کو اختیار کرنے کی تلقین وتاکید فرماتے جو واہی وناجائز امور سے مبرا ہو، چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات سے نقل فرماتے ہیں کہ:

’’ودرمیان طرق صوفیہ اختیار کردن طریقہ علیہ نقشبندیہ اولیٰ وانسب است چہ ایں بزرگواراں التزام متابعت سنت نمودہ اند واجتناب از بدعت فرمودہ لہٰذا گر دولت متابعت دارند واز احوال ہیچ ندارند خرسندند واگر احوال را نہ مے پسندند ازیں جا سماع ورقص را تجویز نہ کردہ اند۔‘‘

’’حضرات صوفیاے کرام کے طریقوں میں سے اونچے طریقہ نقشبندیہ کو اختیار کرنا زیادہ بہتر اورمناسب تر ہے کیوں کہ ان بزرگوں نے سنت کی متابعت کا التزام کیاہے اور بدعت سے اجتناب کیاہے۔ اسی لیے اگر اتباع سنت کی دولت رکھتے ہوں اور احوال صوفیہؒ سے کچھ بھی نہ رکھتے ہوں تو وہ خوش ہوں اور اگر احوال کے باوجود اتباع سنت میں فتور دیکھتے ہیں توان احوال کو وہ پسند نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے احوال سماع ورقص کو تجویز نہیں کیا اور جو احوال سماع اور رقص پر مرتب ہوتے ہیں، ان کو وہ معتبر نہیں سمجھتے بلکہ ذکر بالجہر کو بدعت سمجھتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں۔‘‘ (۱۲)

اس عبارت میں جہاں حضرت ؒ سلوک وتصوف میں سلسلہ نقشبندیہ کے اولیٰ وانسب ہونے کا مدعا پیش کرتے ہیں، وہاں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوب کے حوالے سے ان صوفیاے کرام کو بے حد توصیف وتعریف کے لائق سمجھتے ہیں جو سنت اور علوم شرعیہ کواپنی وجدانی کیفیات اور اذواق پرمقدم سمجھتے ہیں اور سنت کے خلاف کسی بات کو قبول نہیں کرتے، رقص وسماع کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اورذکر بالجہر کی طرف سرے سے توجہ اور التفات نہیں کرتے۔ 

اسی طرح ایک جگہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کا یہ اقتباس نقل کرتے ہیں:

’’ اے نیک بخت! جو چیز ہم پر اور تم پرلازم ہے، وہ کتا ب وسنت کے مطابق عقیدوں کو درست کرنا ہے، اس طریقہ پرجس پر علماے اہل حق نے کتاب وسنت سے ان عقائد کو سمجھاہے اور ان سے اخذ کیا ہے، کیوں کہ ہمارا اور تمہارا سمجھنا جب کہ ان کی سمجھ کے موافق نہ ہو، درجہ اعتبار سے ساقط ہے کیوں کہ ہر مبتدع اور گمراہ اپنے احکام کو کتاب وسنت سے سمجھتا ہے اور انہی سے لیتا ہے، حالانکہ اس کا سمجھنا حق کی کسی چیز سے کفایت نہیں کر سکتا۔‘‘ (۱۳)

استشفاع و توسل 

استشفاع وتوسل کا مسئلہ کئی اعتبار سے اپنے اندر ابہام رکھتا ہے۔ اس میں بظاہر شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے، کیونکہ انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ، شہدا وصالحین کی قبور کے پاس حاضر ہو کر اپنی مغفرت اور حوائج وضروریات کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کراتا ہے۔ انسان کا قبر کے پاس جا کر فوت شدگان کو واسطہ بنانا بظاہر ایک نامانوس سی چیز دکھائی دیتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ خود انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔

بعض حضرات صوفیا اپنے متوسلین ومعتقدین کو توسل اور استشفاع جیسے امور کی طرف خاص اہمیت سے توجہ دلاتے ہیں۔ بعض دفعہ قبور پر جاکر ایسے امور بھی انجام دیے جاتے ہیں جو ایک شرک کی طرف لے جاتے ہیں، کیونکہ لوگ ان اشخاص وافراد کے بارے میں یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ بذات خود امور میں متصرف اور مختار ہیں۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے اس مسئلہ کے تمام ضروری پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ایک عامی اور صاحب نسبت کو اس کی حقیقت سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ یہاں دو سوال ہیں:

۱) کون سا توسل اور استشفاع شرک اور حرام ہے؟

۲) توسل اور استشفاع کی دینی وشرعی حیثیت کیا ہے؟ 

پہلے سوال کے جواب میں حضرت شیخ الحدیثؒ یہ واضح کرتے ہیں کہ اگر تو حضرات انبیاے کرام، صحابہ کرامؓ، شہدا وصالحین ؒ کی قبور پر جاکربذات خود انہی سے استمداد کی جا رہی ہو اور انہیں جمیع امور میں قاضی سمجھا جا رہا ہو، پھر تو شرع میں قبیح ہے اور شرک ہے اور عنداللہ اس پر مواخذہ ہوگا۔ بصورت دیگر اگر محض وساطت کے طو رپرانہیں پیش کرتا ہے اور تمام امور کا قاضی،قادر مطلق اللہ تعالیٰ ہی کو جاننا ہے ، تو یہ صورت شرک کی نہیں ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں:

’’الغرض اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مراد مانگنا اور اس کو حاجت روا سمجھ کر پکارنا شرک ہے۔ اگر کوئی شخص زندہ بزرگ سے بھی اولاد مانگے یا صحت وتندرستی مانگے یا ایسی چیز طلب کرے جو عالم اسباب میں اس کے بس واختیار میں نہیں ہے تو یہ بھی شرک ہے۔ اسی طرح دفن ہونے سے پہلے مردہ کی چارپائی کے پاس حاضر ہو کر مراد مانگے، تب بھی شر ک ہے۔ غرضیکہ جو چیز شرک ہے، وہ زندگی میں بھی شرک ہے اور مرنے کے بعد دفن سے پہلے بھی شرک ہے جب کہ میت کی چار پائی سامنے ہے اور مردہ نظر بھی آتا ہے، اور دفن کے بعد بھی شرک ہے اور وہ اسی صورت میں ہے کہ اس سے اپنی حاجت اور مراد طلب کرے اور مانگے۔ رہی بات استمداد کی وہ صورت جو توسل اور شفاعت کی مد میں ہے، وہ نہ تو زندگی میں شرک ہے، نہ دفن سے قبل اور نہ دفن کے بعد۔ اس صورت میں مراد اور حاجت صرف پروردگار سے طلب کی جاتی ہے۔ ہاں درمیان میں اللہ تعالیٰ کے کسی مقبول اور برگزیدہ بندہ کا واسطہ اور سفارش ہوتی ہے اور سفارش کرانے والا یہ سمجھتا ہے کہ مشکل کشا، حاجت روا اور قاضی الحاجات صر ف اللہ تعالیٰ ہے۔ بندہ کے بس میں یہ امور نہیں ہیں۔‘‘ (۱۴)

اصل میں دو اس مسئلے میں دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف جمہور امت کا نقطہ نگاہ ہے اور دوسری طرف امام ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگردوں اور متوسلین کا۔ امام اہل سنتؒ ، جمہور حضرات کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ حقیقت میں تو قادر اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اوراس صورت میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور نیک بندوں سے ان کی زندگی میں کوئی توسل اوردعا کی درخواست کرے اور یہ صورت بالاتفاق جائز ہے، پس ایسا توسل بعد از وفات کیوں جائز نہ ہوگا؟ اور کامل لوگوں کی ارواح کا زندگی اور موت کے بعد کوئی فرق نہیں، بجز اس کے کہ مرنے کے بعد کمال میں مزید ترقی ہو جاتی ہے۔ باقی دور دراز سے بزرگوں کی روحوں کو حاضر سمجھنا اور ان کے لیے لوگوں کے حالات کا علم ثابت کرنا حضرات فقہاے کرام کے ہاں صریح کفر ہے۔ اسی طرح حضرت فرماتے ہیں کہ امام ابن تیمیہؒ اور حضرت مولانا حسین علیؒ نے جس پکارنے کو شرک لکھا ہے، وہ بالکل بجا اور درست ہے کہ صاحب قبر سے اپنی حاجت اور مراد طلب کرے۔ صاحب قبر سے مراد مانگنے کا اور اس کی دعا اور توسل کے ساتھ اللہ سے مراد مانگنے کا اصولی طو ر پر فرق ہے۔ (۱۵)

غائبانہ طور پر کسی کو سفارشی بنانا تو ’’شفعاءنا عند اللہ‘‘  کی مد میں آتا ہے، لیکن زندگی میں کسی کو دعا کے لیے سفارشی بنانا یا بعد از وفات قبر کے پا س جا کر کسی سے دعا کی درخواست کرنا اور علی الخصوص حضرت انبیاے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے طلب شفاعت کرنا اس مدمیں نہیں آتا۔ اگر یہ اس آیت کا مصداق ہوتا تو یہ آیت کریمہ حضرات فقہاے کرام ؒ کے سامنے بھی تھی جنہوں نے ایمان وتقویٰ کی دولت کے ساتھ دین کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ وہ ہرگز عندالقبر شفاعت اور توسل کی اجازت نہ دیتے اور بڑے بڑے ائمہ کرامؒ اور علماے امت جو سماع موتی کے قائل ہیں، بزرگان دین کی قبور کے پاس دعا کی ا جازت نہ دیتے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نزدیک سے طلب سفارش اور دعا کرانا اس آیت کے مفہوم میں ہر گز شامل نہیں ہے اور نہ شرک ہے۔ شرک اسی صورت میں ہے کہ دور سے یہ کارروائی کی جائے جس سے علم غیب اور حاضروناظر کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے جو شرک کی جڑ اور بنیاد ہے۔ (۱۶)

جہاں تک دوسرے سوال کاتعلق ہے کہ استشفاع وتوسل کی شرع میں کیا حیثیت ہے؟ تو حضرت شیخ الحدیث ؒ نے اس مسئلہ کو بھی اپنی تصانیف میں اہمیت سے بیان کیا ہے، کیونکہ زیر بحث مسئلہ کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں مختلف آرا افراط وتفریط کا شکار دکھائی دیتی ہیں، چنانچہ بعض حضرات تو ہر حال اور ہر صورت میں اس کو ترجیح دینے لگے جب کہ ان کے مدمقابل دوسرا گروہ بالکل عدم جوازکے قول پر مصر ہونے لگا۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ نے نصوص سے یہ بات ثابت کی ہے کہ فی نفسہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پا س حاضر ہو کر طلب دعا اور استشفاع نہ فرض ہے اور نہ واجب اور نہ سنت موکدہ بلکہ حضرات فقہاے کرام ؒ کے فتویٰ کے روسے صرف جائز ہے اوراس میں بھی بعض فقہا کا اختلاف منقو ل ہے۔ درحقیقت یہ ایک فروعی مسئلہ ہے، او راس پر حضرت عمرؓ کی مہر ثبت ہے کہ آپؓ کے زمانہ خلافت میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا اور اس کی وجہ سے بے حد تکلیف پیش آئی تو گاؤں کا رہنے والا ایک شخص (اعرابی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہو ا اور آپ سے درخواست کی کہ حضرت! آپ کی امت نہایت تکلیف میں ہے اور اس کی ہلاکت او ر بربادی کا خطرہ ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسائے۔ آپ کی قبر مبارک کے پاس دعا کر کے یہ شخص چلا گیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور فرمایا کہ عمرؓ کے پاس جاؤ اور اس سے میرا سلام کہو اور یہ خبر دے دو کہ ان شاء اللہ تعالیٰ بارش ہوگی، اور عمرؓ سے کہہ دو کہ وہ عقل مندی کو لازم پکڑے۔ صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو ااور خواب کایہ سارا ماجرا ان کو سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور فرمایا کہ میرے رب! جوچیز میرے بس میں ہے، اس کے بارے میں تو کبھی میں نے کوتاہی نہیں کی۔ (۱۷)

یہ واقعہ ۱۷؍۱۸ھ کا ہے۔سند کے لحاظ سے صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تصویب اور دیگر صحابہ کرامؓ کی بھی بلانکیر تائید حاصل ہے۔ ان وجوہ کی بنیاد پرحضرت شیخ الحدیث ؒ جمہور فقہا ے کرام کی رائے کو جواز کی حد تک ترجیح دیتے ہیں۔ 


حوالہ جات 

۱۔ محمد سرفراز خان صفدرؒ ، مولانا: ذخیرۃ الجنان (ناشر ، میر محمد لقمان گوجرانوالہ، ۲۰۰۲ء) ، ۱/۴ 

۲۔المر جع السابق، ص۱۵ 

۳۔ ذخیرۃ الجنان، ۱/۶ 

۴۔ المرجع السابق ۳/۳۴۶ 

۵۔سرفراز خان صفدرؒ ، مولانا : حکم الذکر بالجہر، (ناشر مکتبہ صفدریہ ، گھنٹہ گھر گوجرانوالہ ، ۲۰۰۳ء) ص۹۸/۱۹۷

۶۔ ذخیرۃ الجنان ۱/۲۴۴ 

۷۔ المرجع السابق ۳/۴۲۰ 

۸۔ حکم الذکر بالجہر، ص ۲۰۷

۹۔ المر جع ا لسابق، ۱/۳۱۶ 

۱۰۔المر جع ا لسابق، ص۹۸، ۱۹۷

۱۱۔ محمد سرفرا زخان صفدر، مولانا : سماع الموتی ،( مکتبہ صفدریہ ، گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ ،۲۰۰۲ء) ص ۳۱۳، ۳۱۴

۱۲۔المر جع ا لسابق، ص ۱۹۸

۱۳۔ محمد سرفراز خان صفدرؒ ،مولانا : تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین ،( ناشر مکتبہ صفدریہ ،گھنٹہ گھر ،گوجرانوالہ ،۲۰۰۳ء ) ، ص۸۱، ۱۸۲

۱۴۔ سماع الموتی، ص ۱۰۳ 

۱۵۔ المر جع السابق، ص ۱۱۱ 

۱۶۔ المر جع السابق، ص ۱۱۵ 

۱۷۔ المر جع السابق، ص ۱۱۶ 

تعارف و تبصرہ

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter