شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس سرہ کی زندگی نسل نو کی تعمیر کے لیے مثالی زندگی تھی۔ حضرت کی حیات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی دینی وفکری اعتبار سے معاشرہ کی اصلاح کے لیے جدوجہد کے مختلف گوشے واضح طور پر سامنے آ جاتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی تدریس اور مختلف موضوعات پر تحریر کی جانے والی کتب کے علاوہ سلوک وتصوف پر بھی آپ کی نظر عمیق تھی۔ حضرت ؒ نے اگرچہ اس موضوع پر کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی، تاہم آپ کی تالیفات میں مختلف مناسبتوں سے سلوک وتصوف کے اہم مباحث بیان ہوئے ہیں جن کے مطالعہ سے سلوک وتصوف کے متعلق آپ کے نظریات پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ ذیل میں ہم سلوک وتصوف کے بعض پہلووں سے متعلق حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
روحانی تعلق
حضرت شیخ الحدیثؒ سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ حضرت مولانا حسین علیؒ (م۱۳۶۳ھ) کی زندگی کے آخری ایام میں ان سے بیعت ہوئے اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میں جب بیعت کے لیے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے اپنے دست مبارک سے اپنی تصنیف ’’تحفہ ابراہیمیہ‘‘ کا ایک نسخہ مجھے عطا کیا اور فرمایا کہ اس کا مطالعہ کرو اور اگر کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھ لو۔ چنانچہ حضرت نے ڈیڑھ گھنٹے میں اس کا مطالعہ کیا اور بعض مقامات سے کچھ باتیں حضرت سے دریافت کیں اور آپ نے ان کا جواب عنایت فرمایا۔ مرشد کامل نے جوہر قابل کو پہچانتے ہوئے خلعت خلافت سے بھی سرفراز فرما دیا۔ (۱) حضرت مولانا حسین علی اگرچہ مختلف سلاسل میں مجاز تھے، مگر نقشبندی طریقہ سلوک کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور زیادہ تر اسی میں بیعت فرماتے تھے۔ اس سلسلہ مبارکہ کی نمایاں خصوصیات میں ذکر الہٰی کی کثرت، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور توحید کی تبلیغ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ (۲)
حضرت شریعت و طریقت دونوں کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ آپ اپنے اکابر کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’ہمارے اکابر رحمہم اللہ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی روحانی سلسلہ سے ضرور وابستہ تھا۔‘‘ تاہم حضرت نے مرشدکامل ؒ کی طرف خلعت خلافت سے نوازے جانے کے باوجود بیعت کا سلسلہ بہت محدود رکھا۔ اکثر وبیشتر بیعت کرنے سے انکار فرما دیتے اور اگر کسی کی طرف سے بہت زیادہ اصرار ہوتا تو بیعت فرما لیتے۔ آپ کا بیعت کا طریقہ انتہائی مختصر اور سادہ تھا اور عموماً ان الفاظ سے بیعت فرماتے تھے:
’’ میں شرک وبدعت سے توبہ کرتاہوں، اوامر کے بجالانے اورنواہی سے اجتناب کی پوری کوشش کا وعدہ کرتا ہوں، بالخصوص نماز کی پابندی کا وعدہ کرتاہوں۔‘‘
ان مختصر الفاظ کے بعد وظا ئف اور اوراد بتائے جاتے اور ان کی تلقین فرماتے تھے۔ (۳)
حضرت شیخؒ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کفر، شرک، نفا ق، غلط رسومات اور دیگر باطنی رذائل سے تزکیہ کیا جائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’دلوں کا تزکیہ شرعاً مطلوب ہے۔اور جو صحیح پیری مرید ی ہے، ٹھگوں کی بات نہیں کرتا، ان کی بات کرتاہوں جو صحیح معنی میں اللہ والے ہیں، ان کی پیروی مریدی اس آیت کریمہ ’’ویزکیہم ‘‘ کی تشریح ہے۔ جو مرشد کامل ہیں، وہ اپنے مرید کی اخلاقی تربیت کریں گے۔ ان کو سبق دیں گے کہ تم یہ کام کرو اور فلاں کام چھوڑ دو۔ یہ وظیفہ پڑھو اور فلاں وظیفہ نہ پڑھو۔ تو اللہ تعالیٰ کے صالح لوگوں کی تعلیم وتربیت سے انسان کفر وشرک سے، رسم ورواج سے، تکبر، بغض، کینہ اور حب دنیا جیسی بیماریوں سے بچ جاتا ہے اور اصلاح ہو جاتی ہے۔‘‘ (۴)
حضرت کا تعلق اگرچہ سلسلہ نقشبندیہ سے تھا، مگر آپ کو تمام سلاسل تصوف وسلوک سے عقیدت تھی۔ فرماتے ہیں:
’’ہمارے دلوں میں تمام سلاسل کے اکابر کی بے پناہ محبت وعقیدت ہے، وہ نقشبندی ہوںیا چشتی قادری ہو ں یا سہروردی یا کسی اور سلسلہ سے وابستہ ہوں۔ تمام ہمارے لیے قابل ہزار احترام ہیں اور ہمارا پختہ یقین ہے کہ ان حضرات کی محبت نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘ (۵)
عام طو رپر صوفیانہ حلقوں میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنے ارادت مندوں کا حلقہ بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حضرت اپنے حلقہ ارادت کی توسیع اور نمود ونمایش سے گریز کرتے تھے اور مریدوں وغیرہ کے اجتماع کو پسند نہ کرتے تھے۔ عمومی حالات میں بھی ان چیزوں سے سختی سے منع اور گریز کیا کرتے تھے جو مریدین کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنی استطاعت کے مطابق مریدین کو اپنی جیب سے کرایہ اور زاد راہ بھی عنایت فرماتے تھے۔
حضرت شیخ الحدیث تعویذ دینے اور دم کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ بعض امور کی سختی کے ساتھ پابندی فرماتے تھے۔ فرماتے ہیں:
’’جادو کرنا اور کرانا قطعاً جائز نہیں ہے۔ جائز طریقہ سے دم اور تعویذات میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر اس کو دھندہ بنانا درست نہیں ہے۔ دم اور تعویذ ہم بھی کرتے ہیں۔ عورتیں آتی ہیں، تعویذ لیتی ہیں، پھرکہتی ہیں کہ اس کی فیس آپ کیا لیتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ میں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا ہی نہیں۔ وہ بڑی حیران ہوتی ہیں کہ فلاں مولوی صاحب نے توہم سے پانچ سو مانگا ہے، فلاں نے تین سو۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے بزرگوں کایہی طریقہ ہے۔ کوئی اگر خوشی سے دے جائے تورد نہیں کرتے، لیکن مانگی کبھی نہیں۔‘‘ (۶)
صوفیانہ اذواق کو فقہا کی تحقیقات پر پرکھنا
حضرت شیخ الحدیث ؒ کی تالیفات کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے سلوک وتصوف میں آپ کا ذوق اور رجحان واضح ہوتا ہے۔ آپ نے اسی ذوق کے مطابق زندگی گزاری اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ ایسے اعمال ورسوم جن کا جواز حضرت کی تحقیق کے مطابق قرآن وسنت سے ثابت نہیں، آپ اپنے متوسلین ومعتقدین کو ان سے گریز کی تلقین کرتے تھے۔ مثلاً نقشبندی سلسلہ کے علاوہ باقی تمام سلاسل ذکر بالجہر کو روا گردانتے ہیں، جبکہ حضرت شیخؒ کی تحقیق کے مطابق ایسا کرنا شرعاً روا نہیں ہے۔ اس موضوع پر آپ نے ’’حکم الذکر بالجہر‘‘ اور ’’اخفاء الذکر‘‘ کے عنوان سے دو مستقل تصانیف لکھی ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ یاد رکھنا، ذکر واذکار بھی آہستہ کرنا چاہیے۔ حدیث پاک میں آتاہے: ’’خیر الذکر الخفی‘‘۔ بہترین ذکروہ ہے جو مخفی ہو۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ بلند آوازسے ذکر کرنے کی بجائے آہستہ ذکرکرنے کا اجر ستر گنا زیادہ ہے، لہٰذا ذکر ایسے انداز سے کرو کہ اپنے کان سنیں، دوسروں کے کان نہ کھاؤ۔ خدا اور رسول کی بات پر عمل کرو اور دوز خ کی رسوائی سے بچو۔‘‘ (۷)
ایک دوسری جگہ ذکر بالجہر کی تردید میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا فرمان پیش کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہیں:
’’ لہٰذ ا ہم تو بحمداللہ تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اس بہترین اور سنہری مشورے اور نصیحت پرعمل کرنے کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں‘‘ (۸)
نفل نماز کو جماعت کے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے سے متعلق حضرت کا ارشاد ملاحظہ ہو:
’’ یاد رکھنا! نفل نماز کے لیے جماعت کا اہتمام کرنا بڑا گناہ ہے۔ تمام فقہاے کرام ؒ نے لکھا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ نفل نماز میں اگر ایک یا دوآدمی ساتھ مل جائیں تو کراہت نہیں ہے، تیسرا مل گیا تو مکروہ تنزیہی ہے اور اگر چار مل گئے تو مکروہ تحریمی ہے، حرام ہے۔ یہ تو مردوں کے لیے حکم ہے اور اب عورتوں نے بھی یہ بدعت شروع کر دی ہے کہ وہ صلوٰۃ التسبیح کے واسطے اہتمام کرتی ہیں اورا ن کے لیے مسجدوں میں اعلان ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں۔ بدعت کا گناہ ہے، ثواب بالکل نہیں ہے۔ اس لیے کہ بدعت سے دین کا نقشہ بگڑ جاتاہے۔ اپنی جگہ تہجد پڑھو، اشراق پڑھو، صلوٰۃ التسبیح پڑھو، بڑی سعادت کی بات ہے، مگر ان کی جماعت کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔‘‘ (۹)
صوفیاے کرام کے کشف والہام اور اقوال کی حیثیت
حضرت امام اہل سنت صوفیاے کرام کے اقوال پر عمل کرنے کو روا سمجھتے تھے، لیکن جہاں صوفیا کے اقوال وافعا ل نصوص قطعیہ کے معارض ہوں تو ان کو ترک کرنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں:
’’حضرات صوفیاے کرام ؒ کی ایسی باتیں خود قابل تاویل ہوں گی۔ مثلاً اس جہر سے ادنیٰ جہر مراد لی جائے یاتعلیم کی خاطر ہو۔ اور اگر تاویل نہ ہوسکے تو ان کو معذور سمجھتے ہوئے ان کا قول ترک کر دیا جائے گا، نہ یہ کہ ان پر مذہب کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ مذہب کی بنیاد تو قرآن کریم وحدیث شریف اور حضرات ائمہ فقہا اور خصوصاً حضرت امام ابوحنیفہ کی بات اور فقہ حنفی کی مستند ترین کتابوں پر رکھی جا سکتی ہے‘‘۔ (۱۰)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ سے یہ سوال ہوا کہ آپ کی فلاں مسئلہ میں یہ رائے ہے حالانکہ آپ کے پیر ومرشد اس کے خلاف کہتے ہیں تو آپ ان کی مخالفت کیوں فرماتے ہیں؟ (محصلہ) تو اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:
’’اور حجت قول وفعل مشائخ سے نہیں ہوتی بلکہ قول وفعل شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور اقوال مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں جب ان کے پیر سلطان نظام الدین قدس سرہ کے فعل کی حجت کوئی لاتا کہ وہ ایسا کرتے ہیں، تم کیوں نہیں کرتے؟ کہ فعل مشائخ حجت نہ باشد او اس جواب کو حضرت سلطان الاولیاءؒ بھی پسند فرماتے، لہٰذا جناب حاجی (امداد اللہ صاحبؒ ) سلمہ اللہ کا ذکر کرنا سوالات شرعیہ میں بے جا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ (فتاویٰ رشیدیہ ج ۱ ص ۹۸ طبع دہلی)‘‘(۱۱)
امام اہل سنت عمل بالقرآن وعمل بالسنۃ کو عزیز تر سمجھتے تھے اور ایسے حضرات صوفیاے کرام جو شرکت وبدعات جیسے رذائل سے نفرت کرتے ہیں، خصوصاً حضرت شیخ احمد سرہندی مجددالف ثانیؒ (م ۱۰۲۴ھ)، آپ انہیں آئیڈیل قرار دیتے تھے اور ایسے سلسلہ طریقت کو اختیار کرنے کی تلقین وتاکید فرماتے جو واہی وناجائز امور سے مبرا ہو، چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات سے نقل فرماتے ہیں کہ:
’’ودرمیان طرق صوفیہ اختیار کردن طریقہ علیہ نقشبندیہ اولیٰ وانسب است چہ ایں بزرگواراں التزام متابعت سنت نمودہ اند واجتناب از بدعت فرمودہ لہٰذا گر دولت متابعت دارند واز احوال ہیچ ندارند خرسندند واگر احوال را نہ مے پسندند ازیں جا سماع ورقص را تجویز نہ کردہ اند۔‘‘
’’حضرات صوفیاے کرام کے طریقوں میں سے اونچے طریقہ نقشبندیہ کو اختیار کرنا زیادہ بہتر اورمناسب تر ہے کیوں کہ ان بزرگوں نے سنت کی متابعت کا التزام کیاہے اور بدعت سے اجتناب کیاہے۔ اسی لیے اگر اتباع سنت کی دولت رکھتے ہوں اور احوال صوفیہؒ سے کچھ بھی نہ رکھتے ہوں تو وہ خوش ہوں اور اگر احوال کے باوجود اتباع سنت میں فتور دیکھتے ہیں توان احوال کو وہ پسند نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے احوال سماع ورقص کو تجویز نہیں کیا اور جو احوال سماع اور رقص پر مرتب ہوتے ہیں، ان کو وہ معتبر نہیں سمجھتے بلکہ ذکر بالجہر کو بدعت سمجھتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں۔‘‘ (۱۲)
اس عبارت میں جہاں حضرت ؒ سلوک وتصوف میں سلسلہ نقشبندیہ کے اولیٰ وانسب ہونے کا مدعا پیش کرتے ہیں، وہاں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مکتوب کے حوالے سے ان صوفیاے کرام کو بے حد توصیف وتعریف کے لائق سمجھتے ہیں جو سنت اور علوم شرعیہ کواپنی وجدانی کیفیات اور اذواق پرمقدم سمجھتے ہیں اور سنت کے خلاف کسی بات کو قبول نہیں کرتے، رقص وسماع کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اورذکر بالجہر کی طرف سرے سے توجہ اور التفات نہیں کرتے۔
اسی طرح ایک جگہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کا یہ اقتباس نقل کرتے ہیں:
’’ اے نیک بخت! جو چیز ہم پر اور تم پرلازم ہے، وہ کتا ب وسنت کے مطابق عقیدوں کو درست کرنا ہے، اس طریقہ پرجس پر علماے اہل حق نے کتاب وسنت سے ان عقائد کو سمجھاہے اور ان سے اخذ کیا ہے، کیوں کہ ہمارا اور تمہارا سمجھنا جب کہ ان کی سمجھ کے موافق نہ ہو، درجہ اعتبار سے ساقط ہے کیوں کہ ہر مبتدع اور گمراہ اپنے احکام کو کتاب وسنت سے سمجھتا ہے اور انہی سے لیتا ہے، حالانکہ اس کا سمجھنا حق کی کسی چیز سے کفایت نہیں کر سکتا۔‘‘ (۱۳)
استشفاع و توسل
استشفاع وتوسل کا مسئلہ کئی اعتبار سے اپنے اندر ابہام رکھتا ہے۔ اس میں بظاہر شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے، کیونکہ انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ، شہدا وصالحین کی قبور کے پاس حاضر ہو کر اپنی مغفرت اور حوائج وضروریات کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کراتا ہے۔ انسان کا قبر کے پاس جا کر فوت شدگان کو واسطہ بنانا بظاہر ایک نامانوس سی چیز دکھائی دیتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ خود انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
بعض حضرات صوفیا اپنے متوسلین ومعتقدین کو توسل اور استشفاع جیسے امور کی طرف خاص اہمیت سے توجہ دلاتے ہیں۔ بعض دفعہ قبور پر جاکر ایسے امور بھی انجام دیے جاتے ہیں جو ایک شرک کی طرف لے جاتے ہیں، کیونکہ لوگ ان اشخاص وافراد کے بارے میں یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ بذات خود امور میں متصرف اور مختار ہیں۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے اس مسئلہ کے تمام ضروری پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ایک عامی اور صاحب نسبت کو اس کی حقیقت سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ یہاں دو سوال ہیں:
۱) کون سا توسل اور استشفاع شرک اور حرام ہے؟
۲) توسل اور استشفاع کی دینی وشرعی حیثیت کیا ہے؟
پہلے سوال کے جواب میں حضرت شیخ الحدیثؒ یہ واضح کرتے ہیں کہ اگر تو حضرات انبیاے کرام، صحابہ کرامؓ، شہدا وصالحین ؒ کی قبور پر جاکربذات خود انہی سے استمداد کی جا رہی ہو اور انہیں جمیع امور میں قاضی سمجھا جا رہا ہو، پھر تو شرع میں قبیح ہے اور شرک ہے اور عنداللہ اس پر مواخذہ ہوگا۔ بصورت دیگر اگر محض وساطت کے طو رپرانہیں پیش کرتا ہے اور تمام امور کا قاضی،قادر مطلق اللہ تعالیٰ ہی کو جاننا ہے ، تو یہ صورت شرک کی نہیں ہے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں:
’’الغرض اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مراد مانگنا اور اس کو حاجت روا سمجھ کر پکارنا شرک ہے۔ اگر کوئی شخص زندہ بزرگ سے بھی اولاد مانگے یا صحت وتندرستی مانگے یا ایسی چیز طلب کرے جو عالم اسباب میں اس کے بس واختیار میں نہیں ہے تو یہ بھی شرک ہے۔ اسی طرح دفن ہونے سے پہلے مردہ کی چارپائی کے پاس حاضر ہو کر مراد مانگے، تب بھی شر ک ہے۔ غرضیکہ جو چیز شرک ہے، وہ زندگی میں بھی شرک ہے اور مرنے کے بعد دفن سے پہلے بھی شرک ہے جب کہ میت کی چار پائی سامنے ہے اور مردہ نظر بھی آتا ہے، اور دفن کے بعد بھی شرک ہے اور وہ اسی صورت میں ہے کہ اس سے اپنی حاجت اور مراد طلب کرے اور مانگے۔ رہی بات استمداد کی وہ صورت جو توسل اور شفاعت کی مد میں ہے، وہ نہ تو زندگی میں شرک ہے، نہ دفن سے قبل اور نہ دفن کے بعد۔ اس صورت میں مراد اور حاجت صرف پروردگار سے طلب کی جاتی ہے۔ ہاں درمیان میں اللہ تعالیٰ کے کسی مقبول اور برگزیدہ بندہ کا واسطہ اور سفارش ہوتی ہے اور سفارش کرانے والا یہ سمجھتا ہے کہ مشکل کشا، حاجت روا اور قاضی الحاجات صر ف اللہ تعالیٰ ہے۔ بندہ کے بس میں یہ امور نہیں ہیں۔‘‘ (۱۴)
اصل میں دو اس مسئلے میں دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف جمہور امت کا نقطہ نگاہ ہے اور دوسری طرف امام ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگردوں اور متوسلین کا۔ امام اہل سنتؒ ، جمہور حضرات کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ حقیقت میں تو قادر اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہے اوراس صورت میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے مقرب اور نیک بندوں سے ان کی زندگی میں کوئی توسل اوردعا کی درخواست کرے اور یہ صورت بالاتفاق جائز ہے، پس ایسا توسل بعد از وفات کیوں جائز نہ ہوگا؟ اور کامل لوگوں کی ارواح کا زندگی اور موت کے بعد کوئی فرق نہیں، بجز اس کے کہ مرنے کے بعد کمال میں مزید ترقی ہو جاتی ہے۔ باقی دور دراز سے بزرگوں کی روحوں کو حاضر سمجھنا اور ان کے لیے لوگوں کے حالات کا علم ثابت کرنا حضرات فقہاے کرام کے ہاں صریح کفر ہے۔ اسی طرح حضرت فرماتے ہیں کہ امام ابن تیمیہؒ اور حضرت مولانا حسین علیؒ نے جس پکارنے کو شرک لکھا ہے، وہ بالکل بجا اور درست ہے کہ صاحب قبر سے اپنی حاجت اور مراد طلب کرے۔ صاحب قبر سے مراد مانگنے کا اور اس کی دعا اور توسل کے ساتھ اللہ سے مراد مانگنے کا اصولی طو ر پر فرق ہے۔ (۱۵)
غائبانہ طور پر کسی کو سفارشی بنانا تو ’’شفعاءنا عند اللہ‘‘ کی مد میں آتا ہے، لیکن زندگی میں کسی کو دعا کے لیے سفارشی بنانا یا بعد از وفات قبر کے پا س جا کر کسی سے دعا کی درخواست کرنا اور علی الخصوص حضرت انبیاے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے طلب شفاعت کرنا اس مدمیں نہیں آتا۔ اگر یہ اس آیت کا مصداق ہوتا تو یہ آیت کریمہ حضرات فقہاے کرام ؒ کے سامنے بھی تھی جنہوں نے ایمان وتقویٰ کی دولت کے ساتھ دین کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ وہ ہرگز عندالقبر شفاعت اور توسل کی اجازت نہ دیتے اور بڑے بڑے ائمہ کرامؒ اور علماے امت جو سماع موتی کے قائل ہیں، بزرگان دین کی قبور کے پاس دعا کی ا جازت نہ دیتے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نزدیک سے طلب سفارش اور دعا کرانا اس آیت کے مفہوم میں ہر گز شامل نہیں ہے اور نہ شرک ہے۔ شرک اسی صورت میں ہے کہ دور سے یہ کارروائی کی جائے جس سے علم غیب اور حاضروناظر کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے جو شرک کی جڑ اور بنیاد ہے۔ (۱۶)
جہاں تک دوسرے سوال کاتعلق ہے کہ استشفاع وتوسل کی شرع میں کیا حیثیت ہے؟ تو حضرت شیخ الحدیث ؒ نے اس مسئلہ کو بھی اپنی تصانیف میں اہمیت سے بیان کیا ہے، کیونکہ زیر بحث مسئلہ کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں مختلف آرا افراط وتفریط کا شکار دکھائی دیتی ہیں، چنانچہ بعض حضرات تو ہر حال اور ہر صورت میں اس کو ترجیح دینے لگے جب کہ ان کے مدمقابل دوسرا گروہ بالکل عدم جوازکے قول پر مصر ہونے لگا۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ نے نصوص سے یہ بات ثابت کی ہے کہ فی نفسہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پا س حاضر ہو کر طلب دعا اور استشفاع نہ فرض ہے اور نہ واجب اور نہ سنت موکدہ بلکہ حضرات فقہاے کرام ؒ کے فتویٰ کے روسے صرف جائز ہے اوراس میں بھی بعض فقہا کا اختلاف منقو ل ہے۔ درحقیقت یہ ایک فروعی مسئلہ ہے، او راس پر حضرت عمرؓ کی مہر ثبت ہے کہ آپؓ کے زمانہ خلافت میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا اور اس کی وجہ سے بے حد تکلیف پیش آئی تو گاؤں کا رہنے والا ایک شخص (اعرابی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہو ا اور آپ سے درخواست کی کہ حضرت! آپ کی امت نہایت تکلیف میں ہے اور اس کی ہلاکت او ر بربادی کا خطرہ ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش برسائے۔ آپ کی قبر مبارک کے پاس دعا کر کے یہ شخص چلا گیا۔ رات کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملے اور فرمایا کہ عمرؓ کے پاس جاؤ اور اس سے میرا سلام کہو اور یہ خبر دے دو کہ ان شاء اللہ تعالیٰ بارش ہوگی، اور عمرؓ سے کہہ دو کہ وہ عقل مندی کو لازم پکڑے۔ صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہو ااور خواب کایہ سارا ماجرا ان کو سنایا۔ یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور فرمایا کہ میرے رب! جوچیز میرے بس میں ہے، اس کے بارے میں تو کبھی میں نے کوتاہی نہیں کی۔ (۱۷)
یہ واقعہ ۱۷؍۱۸ھ کا ہے۔سند کے لحاظ سے صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تصویب اور دیگر صحابہ کرامؓ کی بھی بلانکیر تائید حاصل ہے۔ ان وجوہ کی بنیاد پرحضرت شیخ الحدیث ؒ جمہور فقہا ے کرام کی رائے کو جواز کی حد تک ترجیح دیتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ محمد سرفراز خان صفدرؒ ، مولانا: ذخیرۃ الجنان (ناشر ، میر محمد لقمان گوجرانوالہ، ۲۰۰۲ء) ، ۱/۴
۲۔المر جع السابق، ص۱۵
۳۔ ذخیرۃ الجنان، ۱/۶
۴۔ المرجع السابق ۳/۳۴۶
۵۔سرفراز خان صفدرؒ ، مولانا : حکم الذکر بالجہر، (ناشر مکتبہ صفدریہ ، گھنٹہ گھر گوجرانوالہ ، ۲۰۰۳ء) ص۹۸/۱۹۷
۶۔ ذخیرۃ الجنان ۱/۲۴۴
۷۔ المرجع السابق ۳/۴۲۰
۸۔ حکم الذکر بالجہر، ص ۲۰۷
۹۔ المر جع ا لسابق، ۱/۳۱۶
۱۰۔المر جع ا لسابق، ص۹۸، ۱۹۷
۱۱۔ محمد سرفرا زخان صفدر، مولانا : سماع الموتی ،( مکتبہ صفدریہ ، گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ ،۲۰۰۲ء) ص ۳۱۳، ۳۱۴
۱۲۔المر جع ا لسابق، ص ۱۹۸
۱۳۔ محمد سرفراز خان صفدرؒ ،مولانا : تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین ،( ناشر مکتبہ صفدریہ ،گھنٹہ گھر ،گوجرانوالہ ،۲۰۰۳ء ) ، ص۸۱، ۱۸۲
۱۴۔ سماع الموتی، ص ۱۰۳
۱۵۔ المر جع السابق، ص ۱۱۱
۱۶۔ المر جع السابق، ص ۱۱۵
۱۷۔ المر جع السابق، ص ۱۱۶