جزیمہ عراق کے بادشاہوں میں سے تھا۔ اس کے دو ندیم و مصاحب تھے، ایک کا نام مالک اور دوسرے کا نام عقیل تھا۔ وہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے، حتیٰ کہ اس کی مصاحبت میں چالیس سال اکٹھے رہے، لیکن واقعہ ردّت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ایک لشکری حضرت ضرار بن الازورؓ کے ہاتھوں مالک بن نویرہ قتل ہو گیا تو اس کے بھائی متمم بن نویرہ یربوعی نے اپنے بھائی مالک کے بارے میں ایک مرثیہ پڑھا۔ عربی ادب میں متمم کے مراثی کو ایک خاص مقام حاصل ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اشعار و مراثی کو حضرت عمرؓ بھی پسند فرماتے تھے۔ اس نے مالک اور عقیل کی جدائی پر بڑا دل دوز مرثیہ کہا تھا۔ یہی مرثیہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے بھی مکہ مکرمہ آمد کے موقع پر مقام حُبشی میں اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کی قبر پر پڑھا تھا۔ میں بھی آج شیخین کریمین ؒ کی پہلے آپس کی جدائی اور پھر ہم سے جدائی پر اسی مرثیہ کو کہنا چاہتا ہوں جو ان دونوں بھائیوں کے حالات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس مرثیہ کو امام ترمذی ؒ نے اپنی کتاب ترمذی شریف ج ۱ ص ۲۰۳ میں نقل کیا ہے:
و (کنا) کندمانی جزیمۃ حقبۃ
من الدھر حتی قیل لن یتصدعا
فلما تفرقنا کانی ومالکا
لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معاً
’’ہم ایک عرصہ تک جزیمہ کے دومصاحبوں (مالک و عقیل) کی طرح (جدا نہیں ہوتے) تھے، یہاں تک کہ کہا جانے لگا کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے۔ پھر جب ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کے بعد (موت کی وجہ سے) ہم جدا ہوئے تو ایسے ہو گئے گویا میں نے اور مالک نے ایک رات بھی کبھی ساتھ نہیں گزاری۔‘‘
نور احمد خان سواتی ؒ کو پہلی بیوی رحمت نورؒ سے اللہ رب العزت نے ایک بیٹا عبدالغفور نامی عطا فرمایا تھا جو نو عمری میں ہی وفات پاگیا۔ پھر تیس سال تک یہ جوڑا بے اولاد رہا۔ نیک شعار بیوی نے کوشش کی کہ ان کا خاوند دوسرا نکاح کر لے، چنانچہ ان کا دوسرا نکاح بختاور بی بی ؒ سے ہوا ، اللہ رب العزت نے اس سے دو بیٹے اور دوبیٹیاں عنایت فرمائیں۔ یہ بڑھاپے کی اولاد تھی کیونکہ نور احمد خان ؒ کا انتقال تقریباً سو سال کی عمر میں ۱۹۳۱ء میں ہوا تھا جبکہ ان کی بڑی بیٹی حکم جان المعروفہ ددّے ؒ کی ولادت ۱۹۱۲ء میں، بڑے بیٹے محمد سرفراز ؒ کی ولادت ۱۹۱۴ء میں، دوسرے بیٹے عبدالحمید ؒ کی ولادت۱۹۱۷ء میں اور دوسری بیٹی بی بی خانم کی ولادت ۱۹۲۰ء میں ہوئی۔ گویا نور احمد خان ؒ کو اللہ رب العزت نے یہ اولاد تقریباً ۸۰ سال کی عمر میں عطا فرمائی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے لیے تہجد کے وقت اٹھ کر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ ’’ اے اللہ ان کو قرآن ، حدیث اور فقہ کا علم عطا فرما‘‘۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ان کی مناجات ایسی مقبول ہوئی کہ ان کے دونوں بیٹے قرآن و حدیث اور فقہ میں دنیا کے امام ہوئے۔ آج اگر نور احمد خان ؒ موجود ہوتے اور اپنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ کرتے کہ ان کی دعا کے کیا ثمرات ہیں تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا اور وہ اپنی قسمت پر پھولے نہ سماتے کہ ان کے بیٹوں کا فیض دنیا کے تمام براعظموں میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن قضا و قدر کے فیصلے بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ساری اولاد چھوڑ کر عالم آخرت کو سدھار گئے۔ چھوٹی بچی ابھی صرف چالیس دن کی تھی کہ ان کی والدہ بھی ۹۲۰ٍ۱ء میں عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما گئی۔ ان بچوں کو ان کی بڑی والدہ نے ہی سنبھالا جو ۱۹۴۹ء میں فوت ہوئیں اور گکھڑ کے قبرستان میں دفن ہیں۔ حقیقی والدہ کی وفات کے بعد زمانے کے حوادثات نے انہیں گھیر لیا۔ گھر بار، زمین و جائیداد چھوٹ گئے اور در در کی ٹھوکریں مقدر ہو گئیں۔ دینی تعلیم کا آغاز تو نوراحمدخان ؒ اپنی زندگی ہی میں انہیں کر ا چکے تھے، ملک بھر کے دینی مدارس کی خاک چھانی، بھوک اور افلاس برداشت کیے اور وقت کی گاڑی کو آگے دھکیلتے رہے۔ جنگل میں بکریاں بھی اکٹھے چراتے رہے۔ دو بھائی اب سفر و حضر میں دو ساتھی او ردوست بھی بن گئے۔ بڑا باپ کی جگہ تھا اور چھوٹا اولاد کی جگہ ان کی قدر و منزلت بجا لاتا تھا۔ ایک دوسرے سے جدا ہونے کا تصور بھی انہیں پریشان کر دیتا تھا۔ چھوٹے بھائی کے ذہن پر یتیمی کے اثرات زیادہ تھے، تعلیم میں ان کا دل نہ لگتا تھا، اسی لیے وہ کبھی ادھر ادھر بھاگ بھی جاتے تھے،لیکن بڑے بھائی کٹھن حالات میں بھی ان کا تعاقب جاری رکھتے۔ یوں تعلیمی دور بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ عمر میں معمولی تفاوت کی وجہ سے فطری طور پر کبھی آپس میں نوک جھونک بھی ہو جاتی۔ بڑا چھوٹے کو مار بھی لیتا۔ ایک بار چھوٹے نے بھی پتھر مار کر بڑے کا سر زخمی کر دیا، لیکن پھر بھی ساتھ جاری رہا۔ بڑا چھوٹے کے لیے قربانیاں دیتا، چھوٹا بڑے کی خدمت بجا لاتا، ان کے کپڑے دھوتا، کھانا لاتا، ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھتا، حتیٰ کہ دارالعلوم دیوبند میں تعلیم کے دوران ۱۹۴۱ء میں جمعیۃ علماے ہند کی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو اس میں دارالعلوم دیوبند کے کثیر طلبہ نے شرکت کی، لیکن ان دو بھائیوں کا حال یہ تھا کہ کرایہ نہ تھا۔ صرف اتنے پیسے تھے کہ دونوں میں سے ایک ٹکٹ خرید سکتا تھا تو چھوٹے نے بڑے سے کہا کہ آپ اس میں شریک ہو جائیں، میں یہیں رہتا ہوں۔ تعلیمی دور میں اسباق اور درجوں کا بھی تفاوت رہا، لیکن دورۂ حدیث شریف کے لیے بڑے نے چھوٹے کے لیے قربانی دی کہ اس کے اسباق مکمل ہو جائیں تو اکٹھے دارلعلوم دیو بند جا کر دورۂ حدیث کریں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
دیو بند سے فراغت کے بعد بڑا ۱۹۴۳ء میں گکھڑ میں امام و خطیب متعین ہو جاتا ہے، لیکن پہلے ہی جمعے کو علیل ہو جانے کی وجہ سے اس کی جگہ پہلا جمعہ چھوٹا بھائی پڑھاتا ہے۔ بعد ازاں چھوٹا بھائی مزید تعلیم کے لیے دارالمبلغین لکھنؤ اور پھر نظامیہ طبیہ کالج حیدر آباد دکن چلا جاتا ہے۔ اس دوران برابر خط و کتابت جاری رہتی ہے اور ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی رکھی جاتی ہے۔ بڑا چھوٹے کے لیے رقم بھی بھیجتارہتا ہے۔ بڑے کی گوجرانوالہ میں ۱۹۴۵ء میں پہلی اور پھر بعض مجبوریوں کی وجہ سے ۱۹۵۲ء میں دوسری شادی ہو جاتی ہے۔ چھوٹے کے لیے وہ بڑی کوشش کرتا ہے کہ یہ بھی شادی کر لے، لیکن وہ شادی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ چھوٹا دکن سے واپس آکر گوجرانوالہ میں مطب کھولتا ہے۔ ایک سال مطب چلاتا ہے، لیکن قدرت اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے۔ وہ مطب کو چھوڑ کر ایک جو ہڑ کے کنارے بیٹھ جاتا ہے اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے نام سے ۱۹۵۲ء میں ایک مکتب کی داغ بیل ڈالتا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے قابل قدر مدارس میں شمار ہونے لگتا ہے۔ وہ بڑے بھائی کو بھی نہیں چھوڑ سکتا، سو ۱۹۵۵ء میں اسے بھی یہاں لے آتا ہے۔ اب ۲۰۰۱ء تک دونوں بھائیوں کا ہرروز ملاپ ہونے لگتا ہے، روزانہ دکھ سکھ ہوتا ہے، تبادلہ خیالات ہوتا ہے، ایک دوسرے کی ضروریات و احساسات کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے، باہمی میل جول اور تعاون کے مواقع میسر آتے ہیں ۔
بڑے بھائی کو اللہ رب العزت اپنے فضل و کرم کے ساتھ دونوں ہی بیویوں سے اولاد نوازتا ہے، لیکن اسے چھوٹے بھائی کی شادی کی فکر بھی ہر وقت دامن گیر ہے، حتیٰ کہ ایک دن وہ چھوٹے سے یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ ’’اب تو لوگ بھی مجھے طعنہ دینے لگے ہیں کہ اپنی تو دو شادیاں اور بھائی کی ایک بھی نہیں‘‘ لیکن چھوٹا پھر بھی نہیں مانتا، کیونکہ اس کے پاس مکان نہیں ہے، بیوی کو سنبھالنے کے لیے مال و متاع نہیں ہے، لیکن بڑا پوری تگ و دو میں ہے کہ اس کی شادی کرا دوں۔ بھلا انکار کب تک ہو سکتا تھا، ہمیشہ سے ہی بڑے بھائی کی بات مانتا چلا آیا تھا۔ ایک دن ہتھیار ڈال دیے اور غصے میں یہ بھی کہہ دیا کہ ’’شادی تو کرا دو گے، سنبھالے گا کون؟‘‘ چنانچہ بڑا ۱۹۶۳ء میں گکھڑ میں چھوٹے کی شادی کرا دیتا ہے۔ چھوٹے کی عمر اس وقت چھیالیس سال سے زائد ہو چکی ہوتی ہے، یہی وجہ ہے دونوں بھائیوں کی اولاد میں عمروں کے تفاوت کی۔ شادی کے بعد بڑا بھائی چھوٹے کی بیوی کو اپنے گھر میں رکھتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد چھوٹے کے لیے مسجد و مدرسہ کی طرف سے گوجرانوالہ میں رہائش گاہ تیار ہو جاتی ہے اور وہ وہاں منتقل ہو جاتے ہیں۔ بڑے بھائی کے بچے اپنے چچا اور چچی کے پاس اکثر رہتے ہیں، وہیں قیام کرتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پھر چھوٹے بھائی کو بھی اللہ تعالیٰ اولاد سے نوازتا ہے۔ بچے جب شعور کی مدت کو پہنچتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے تایا جان جنہیں وہ بڑے ابو کہتے ہیں، ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جمعرات کے دن اپنے بچوں کے ساتھ انہیں بھی اکثر ساتھ گکھڑ لے جاتے ہیں اور پھر ہفتے کے دن ساتھ ہی واپس لے آتے ہیں۔ اس ایک آدھ دن کے دوران ان بچوں کے ناخن خود تراشتے ہیں، حجام سے ان کے سر کا حلق بھی کرا دیتے ہیں اور اپنے دیرینہ معمول کے ساتھ ساتھ کبھی بچوں کو بھی جلّاب دے دیتے ہیں، زندگی کے نشیب و فراز طے کرتی ہوئی گاڑی تیزی سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ دونوں بھائی،دونوں ساتھی، دونوں آپس میں سمدھی بھی بنتے ہیں۔ بڑے بھائی کا بیٹا اور چھوٹے بھائی کی بیٹی ہے۔ شادی ہوتی ہے، ایک بچی بھی اللہ تعالیٰ عطافرماتا ہے، لیکن قدرت کو نباہ منظور نہیں ہے، طلاق کی صورت میں علیحدگی ہو جاتی ہے۔ یہ وقت دونوں کے لیے انتہائی کٹھن اور صبر آزما ہے۔ بڑے بھائی کی پوتی چھوٹے بھائی کی بہو بھی ہے، خاندان کے دولخت ہونے کاشدید خطرہ ہے، دینی اور مسلکی طور پر نقصان کا اندیشہ الگ ہے۔ مخالف قوتیں حرکت میں آجاتی ہیں، دونوں بھائیوں کو اکسا کر خاندان، مسلک اور ادارہ کو تباہ کرنے کے منصوبے گردش کرنے لگتے ہیں۔ ایسی صور ت میں چونکہ بچی والے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لوگوں کی ہمدردیاں بھی بظاہر ان کا ساتھ دیتی ہیں، لیکن چھوٹا بھائی اس موقع پر قربانی دیتا ہے اور تمام منصوبوں اور ریشہ دوانیوں کو یہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے تاراج کر دیتا ہے کہ ’’بچے بچی کا نبھاہ نہیں ہوا بس قدرت کو یہی منظور تھا،میرا بڑا بھائی میرے باپ کی جگہ ہے او راس وقت وہ ہمارے خاندان کا سربراہ بھی ہے، میں ان کے ساتھ لڑائی جھگڑے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہوں اور آئندہ اس موضوع پر کوئی بھی میرے ساتھ بات کرنے کی کوشش نہ کرے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ہر طرف سے چہ میگوئیوں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ خاندان جڑا رہتا ہے ۔ زندگی پھر معمول کے مطابق رواں دواں ہو جاتی ہے۔ دونوں بھائی اور ان کی اولاد ایک ہی ادارہ میں پڑھاتے ہیں۔ بڑے بھائی کی نواسی کو چھوٹا بھائی اس کے بعد بھی اپنی بہو بنا کر لے آتا ہے۔
دونوں بھائی صد سالہ اجلاس میں دارالعلوم دیوبند اکٹھے جاتے ہیں۔ رائے ونڈ کے اجتماع میں اکٹھے آنا جانا رہتا ہے۔ آپس میں شادیوں اور غمیوں کے مواقع میں آتے جاتے ہیں۔ دونوں بھائی ایک ادارہ میں آخر تک پڑھاتے رہتے ہیں۔ بڑا صدر مدرس ہے تو چھوٹا مدرس ہے۔بڑا شیخ الحدیث ہے تو چھوٹا مہتمم ہے۔ بڑا ناظم تعلیمات ہے تو چھوٹا خطیب ہے۔ ایک بخاری کی ایک جلد پڑھاتا ہے تو دوسرا دوسری جلد پڑھاتا ہے۔ ایک ترمذی کی پہلی جلد پڑھاتا ہے تو دوسرا دوسری جلد پڑھاتا ہے۔دونوں ہی ادارہ کے روح رواں ہیں۔یک قالب، دوجان ہیں۔ بڑا ہر روز چھوٹے کے گھر میں دو دفعہ آتا ہے، چھوٹا بھی بڑے کے ہاں گکھڑ آتا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مزاح بھی ہوتا ہے، علمی تبادلہ بھی جاری رہتا ہے۔ بڑا چھوٹے کے متعلق لکھتا ہے تو چھوٹا بھی بڑے کے متعلق رطب اللسان ہے۔ بڑا چھوٹے کے ساتھ شفیق ہے تو چھوٹا بڑے پر فخر کرتا ہے۔ بڑا اگر کسی معاملہ میں پریشان ہوتا ہے تو سب سے پہلے چھوٹے کو بتاتا ہے۔ چھوٹا اگر پریشان ہوتاہے تو بڑے سے مشورہ کرتاہے۔ بڑے کو مکہ مکرمہ میں اگر پتہ چلتاہے کہ چھوٹے پر مقدمہ بن گیا ہے تو وہ وہاں سے ہی خط لکھ کر تسلی دیتا ہے۔ تقریر میں جارحانہ انداز اپنانے سے منع کرتا ہے تو چھوٹا بات مانتا ہے۔ بڑا اپنی پریشانی کا اظہار اگر خط میں کرتا ہے تو چھوٹا خط میں انہیں تسلی اور دعا دیتا ہے۔ بڑا ختم نبوت کے لیے جیل جاتا ہے تو چھوٹا بھی جیل جاتا ہے ۔ بڑا تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں جیل جاتا ہے تو چھوٹا بھی ان کے پاس جانے کے لیے کوشش کرتا ہے، لیکن اسے گرفتار نہیں کیا جاتا۔ دونوں کی شکل بھی یکساں ہے۔ ایک نظر دیکھنے والا پہچان نہیں پاتا۔ بہت سے لوگ مغالطہ کھا جاتے ہیں۔ زندگی بھر ساتھ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ پورا خاندان کیا، پورا عالم اس جوڑی پہ رشک بھری نظروں سے فخر کرتا ہے۔
پھر دونوں اکٹھے ہی بیمار ہو جاتے ہیں۔ دونوں اکٹھے ہی تدریس چھوڑ دیتے ہیں۔ دونوں اکٹھے ہی صاحب فراش ہو جاتے ہیں، لیکن ایک دوسرے کی خبرگیری پھر بھی جاری رہتی ہے۔ کبھی بڑا چھوٹے کو ملنے کے لیے گوجرانوالہ آجاتا ہے تو کبھی چھوٹا بڑے کو ملنے کے لیے گکھڑ چلا جاتا ہے۔ بڑا بھائی جب چھوٹے کے ساتھ آخری ملاقات کے لیے آتا ہے تو اسے بے ہوش دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے۔ اس کی کیفیت دیکھ کر ٹانگ میں ایک دم کھنچاؤ پیدا ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھے جاتا ہے اور پھر صبر نہیں کر سکتا اور کہہ اٹھتا ہے کہ ’’مجھ سے اس کی کیفیت دیکھی نہیں جا رہی، مجھے فوراً گکھڑ واپس لے چلو‘‘۔ یہ دونوں بھائیوں کازندگی میں آخری ملاپ تھا۔ پھر جب بڑا چھوٹے کی میت کے پاس وہیل چیئر پر بیٹھ کر آتا ہے، اس کے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیر کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر آنسو بہاتا ہے تو سارے ارد گرد کے ماحول میں کہرام مچ جاتا ہے۔ ایک آواز بلند ہوتی ہے کہ ’’آج آپ کی جوڑی ٹوٹ گئی ہے‘‘۔ سارا ماحول سوگوار ہو جاتا ہے، ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔۶؍ اپریل ۲۰۰۸ء میں ایک صدی کے لگ بھگ کی رفاقت آج ٹوٹ رہی ہے، ماوشما کا دل کیا جانے، پوچھ ان سے جن کی دنیا اُجڑ گئی۔ ساحل کے قریب سفینہ ڈوب گیا۔ ایک لٹے ہوئے مسافر کی طرح گکھڑ واپس جانے والا، اب اندر ہی اندر سے گھلنے لگا تھا، اپنی عادت سے مجبور کیف دل کسی پر افشا نہیں کر سکتا تھا۔ جس کے ساتھ دکھ سکھ تھا، وہ تو رہا ہی نہیں، اب زندگی کی گاڑی دن بدن رفتار کم کرنا شروع ہو جاتی ہے، دوائی دارو بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر وہ وقت بھی آجاتا ہے کہ کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے، گفتگو بند ہو جاتی ہے، غنودگی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بڑے اور چھوٹے کی کیفیت آخری مراحل میں یکساں ہو جاتی ہے اور وہ ایک سال ۲۹ دن کے صبرآزما انتظار کے بعد چھوٹے کا تعاقب کرتے ہوئے اس کو پا لیتا ہے۔ اس کی روح کو مکتی مل جاتی ہے۔ خاندان کی ایک خاتون کی آواز بلند ہوتی ہے، ’’ ساری زندگی تعاقب میں رہا، موت کے بعد بھی تعاقب جاری رکھا اور اس کے پاس پہنچ کے چھوڑا۔‘‘ یہ دو بھائی، دو ساتھی، کیا ان کی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟
۳؍مئی ۲۰۰۹ء کی رات میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت صوفی صاحبؒ ایک قطار میں کھڑے ہیں اور ساری قطار والوں سے اونچا قد ہے۔ بالکل سفید لباس اور سفید ٹوپی پہنے ہوئے ہیں، لہری فریم والی بڑی خوبصورت عینک آنکھوں پر لگا رکھی ہے۔ خوشی سے چہرہ سرخ و سفید ہے اور یوں جیسے انتظار میں کھڑے ہیں۔ میں نے ان عرض کیا کہ میں نے آپ سے ایک بات پوچھنی ہے، لیکن نہ تو میں نے ان سے بات پوچھی اور نہ ہی انہوں نے کوئی بات کی۔ آنکھ کھلنے پر خواب پر بڑا تعجب ہوا۔ کوئی تعبیر سمجھ میں نہ آرہی تھی۔ صبح کو گھر والوں کے سامنے بھی یہ خواب بیان کیا، لیکن کسی کا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ وہ کس کے انتظار میں ہیں اور کیوں خوش ہیں۔ ۵؍مئی ۲۰۰۹ء کو رات ایک بجے ابھی مطالعہ سے فارغ ہو کر لیٹا ہی تھا اور آنکھ لگی ہی تھی کہ موبائل فون پر گھنٹی ہوئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا کہ اس وقت خیر ہو۔ فون آن کیا تو دوسری طرف عزیزم محمد ریاض نے یہ دل فگار خبر سنائی کہ حضرت شیخ الحدیثؒ کا انتقال ہو گیا ہے۔ فوراً اناللہ وانا الیہ راجعون کا ورد زبان پر جاری ہوا۔ افراتفری میں اُٹھتے ہوئے دماغ چکرا گیا اور چارپائی پر گر گیا۔ اہلیہ کو بیدار کیا، گھر والوں کو خبر دی تو ایک کہرام بپا ہو گیا۔ فوراً اُٹھ کر گکھڑ روانہ ہو گئے۔ بعض خوابیں اپنی تعبیر کس قدر جلدی ظاہر کرتی ہیں۔ اللھم اغفر لھما ۔ آمین
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اپنے برادر خورد کی نظر میں
امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ کے بڑے بھائی ہیں۔ حضرت صوفی صاحبؒ نے اپنے بھائی کا تذکرہ اپنی کتابوں، خطبات، دروس اور خطوط میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔ یہاں ان کی تقریر وتحریر کے چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں :
★ حضرت صوفی صاحبؒ نے امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی واں بھچراںؒ کی فارسی کتاب ’’تحفہ ابراہیمیہ‘‘ پر بسیط مقدمہ میں حضرت مولانا حسین علی اور ان کے مرشد اور تلامذہ و مجازین کا ایسا تعارف کرایا ہے کہ اس کتاب کو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ تلامذہ اور خلفا کے ضمن میں اپنے بڑے بھائی کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:
’’آپ حضرت مولانا حسین علی ؒ کے آخری ایام میں ان سے بیعت ہوئے اور روحانی فیض حاصل کیا۔ آپ پاکستان کے چند گنے چنے علما میں سے ایک ہیں۔ دار العلوم دیوبند کے فاضل ہیں۔ نہایت ذہین اور طباع ہیں۔ ربع صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ آپ دین کی بڑے وسیع پیمانہ پر خدمت کر رہے ہیں۔ آپ تقریباً تیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ فرق باطلہ کے مقابلہ میں آپ کا قلم خدائی تلوار کا کام کرتا ہے اور آپ کی زبان علماے دیوبند کی ترجمان ہے۔ آپ بڑے محقق ہیں،آپ کی کتابوں سے پاکستان و ہندوستان میں لاکھوں انسانوں نے فائدہ اٹھایا ہے اور بہت سے گمراہ لوگ ان کتابوں کو پڑھ کر راہِ راست پر آئے ہیں۔ آپ ۱۲ سال سے مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھا رہے ہیں اور اب شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں۔ آپ تقریباً ربع صدی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے کہ گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گکھڑ میں قرآن کریم کا درس دیتے ہیں جس سے اب تک کئی ہزار ٹریننگ حاصل کرنے والے ٹیچر حضرات مستفید ہو چکے ہیں۔ جامع مسجد گکھڑ میں خطابت کی ذمہ داری بھی آپ کے سر ہے اور قرآن کریم کا درس بھی پابندی سے دیتے ہیں۔ پورے علاقہ میں اصلاحی کام ہو ا ہے۔ آپ علمِ حدیث، تفسیر، فقہ، اسماء الرجال اور نقد حدیث میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ فتویٰ نویسی کا کام بھی کرتے ہیں۔ پاک و ہند کے اکابر علما اور اساتذہ نے آپ کے علمی اور تحقیقاتی کاموں کی بے حد توصیف و تعریف کی ہے اور داد تحسین و آفرین دی ہے اور آپ کی تصانیف پر تقریظات لکھی ہیں۔ وکفٰی بذٰلک فخراً۔
تدریس کے سلسلہ میں بھی آپ کے شاگردوں اور تلامذہ ،بلاواسطہ اور بالواسطہ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ مزاج میں اعتدال ہے،وعظ و تقریر بھی کرتے ہیں اور لوگوں کے اصرار پر باوجود بیمار ہونے کے دور کا سفر کرتے ہیں اور کسی کی دل شکنی گوار۱ نہیں کرتے۔‘‘ (مقدمہ: فیوضات حسینی ص ۴۶ والاکابر ص ۳۴۳)
یہ تحریر کافی عرصہ پہلے کی ہے،اس لیے اسے اسی تناظر میں دیکھا جائے۔
★ ۱۹۶۶ء میں حضرت صوفی صاحبؒ کی دعوت پر بخاری شریف کے اختتامی سبق کے لیے حضرت مولانا علامہ شمس الحق افغانی (سابق شیخ التفسیر دار العلوم دیوبند) مدرسہ نصرۃ العلوم میں تشریف لائے۔ اس موقع پر ان کی حضرت صوفی صاحبؒ سے جو گفتگو ہوئی، وہ حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدرؒ کے علمی مقام کے حوالہ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ حضرت صوفی صاحبؒ دار العلوم الاسلامیہ چارسدہ کے مہتمم صاحب کے نام اپنے ایک خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ احقر کی حضرت مولانا شمس الحق افغانی ؒ کے ساتھ صرف ایک مرتبہ ہی ملاقات ہوئی ہے ،جب وہ یہاں گوجرانوالہ احقر کی درخواست پر مدرسہ نصرۃ العلوم کے سالانہ تقریب اختتام بخاری شریف میں تشریف لائے تھے اور دو دن یہاں رہے تھے ۔۔۔ مجھے فرمانے لگے کہ آپ نے مولانا سر فراز خان صفدر کی موجودگی میں مجھے کیوں دعوت دی ہے ،اختتام بخاری کے لیے وہ تو مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! ہم سب لوگ آپ کے خادم ہیں اور آپ ہمارے بزرگ ہیں۔‘‘
علامہ افغانی ؒ جیسے علم کے پہاڑ بھی ان کے علمی مقام و مرتبہ کی وجہ سے انہیں اپنے سے زیادہ عالم و محقق سمجھتے تھے۔
★ حضرت شیخؒ ، امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ سے قرآن کریم کی تفسیر پڑھنا چاہتے تھے۔ حضرت صوفی صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’یوں تو حضرت مولانا احمد علیؒ (المتوفی ۱۳۸۱ھ) کا نام مبارک اپنے ابتدائی طالب علمی کے دور میں سنتے رہتے تھے، لیکن جب ۱۹۴۱ء کے دور میں دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کی تکمیل کے لیے داخل ہوئے تو حضرت لاہوری ؒ کا چر چا قرآن کی تحصیل کے لیے طلبا میں بہت زیادہ تھا۔ ہم نے بھی دیوبند سے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ ہم دونوں بھائی (حضرت مولانا سر فراز خان صفدر اور کاتب الحروف عبد الحمید سواتی) جناب والا کی خدمت بابرکت میں دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا کہ آپ دونوں وقت پر آجائیں مگر افسوس کہ یہ کام نہ ہو سکا۔ جب دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوئے، اپنے ذاتی حالات اور گوناگوں دیگر پریشانیوں کی وجہ سے حضرت کی خدمت میں دورۂ تفسیر کے لیے حاضر نہ ہو سکے۔‘‘ (الاکابر ص ۲۷۶)
★ حضرت شیخ ؒ نے امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ کی زیارت کی۔ حضرت صوفی صاحب ؒ لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ ہم دار العلوم دیوبند کے دار الحدیث میں تھے کہ شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ سبق پڑھانے کے لیے اپنے گھر سے تشریف لائے۔ آپ دارالحدیث میں داخل ہونے سے پہلے اہتمام کے دفتر میں حاضری لگا کر سبق پڑھاتے تھے۔ دیکھا، آگے آگے حضرت مدنی ؒ ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے حضرت سندھی ؒ آرہے ہیں۔ ۱۹۴۳ء، موسم سرما تھا۔ ہم لاہور گئے تو دفتر مجلس احرار سے ہو کر جب ہم دونوں جب نیچے اترے تو امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ مختلف کارکن اور رضا کاروں سے مل رہے تھے۔ آپ کی نظر ایک طرف پڑی۔ آگے سے حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ؒ غازی خدا بخش کے ساتھ آرہے تھے۔ امیر شریعت نے رضا کاروں کو ادھر ادھر ہٹایا۔ حضرت سندھی ؒ سے مصافحہ کیا اور نہایت با ادب طریقہ سے ان کی خیر و عافیت دریافت کی۔ حضرت سندھی ؒ نے بھی آپ کی خیر و عافیت دریافت کی۔ حضرت سندھی ؒ نے فرمایا کہ فلاں جگہ جانا ہے اور یہ غازی خدا بخش میرے ساتھ ہے اور چلے گئے۔‘‘ ( الاکابر ص ۲۲۴، ۲۲۵)
★ حضرت شیخ ؒ کی کتاب تسکین الصدور کے بارے میں حضرت صوفی صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ تمام امت کے علما کا اور بالخصوص علماء دیوبند کا متفقہ مسئلہ ہے۔ المہند پڑھ کر دیکھو۔ اگر اس مسئلہ کی تفصیل اور وضاحت دیکھنی ہو تو حضرت شیخ الحدیث نے موجودہ دور میں کتاب لکھی ہے، تسکین الصدور، اس کا مطالعہ کریں۔ اس پر موجودہ دور کے علما کے دستخط موجود ہیں کہ مسئلہ یہی صحیح ہے کہ نبیوں کو قبروں میں حیات حاصل ہے اور جسم کے ساتھ روح کا تعلق ہے،اور قریب سے وہ سنتے ہیں۔ اب حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائلین کو مشرک کہنے والا خود گمراہ ہے اور وہ خود اہل بدعت میں سے ہے۔‘‘ (خطبات سواتی ۴/۲۲۴)
★ حضرت شیخ ؒ کی تعبیر الرؤیا میں مہارت کے حوالے سے فرماتے ہیں :
’’خواب کی تعبیر بتانا ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ بعض آدمیوں میں فطرتاً بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ میں اللہ نے یہ خصوصیت رکھی تھی۔ اس کے بعد امام ابن سیر ین ؒ کا نام آتا ہے۔ برصغیر میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ خواب کی تعبیر بتاتے تھے۔ ہمارے بزرگوں میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کا نام آتا ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد سر فراز خان صفدر کو بھی اس سلسلہ میں کمال حاصل ہے۔‘‘ (معالم العرفان فی دروس القرآن ۱۰/۵۹۵، ۵۹۶)
★ حضرت شیخ ؒ کی، دمشق میں اصحاب کہف کے غار کی زیارت سے متعلق لکھتے ہیں:
’’دمشق سے بیس پچیس میل کی مسافت پر ایک غار ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہی اصحاب کہف کا غار کا مقام ہے۔ لوگ اس غار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث بھی جب حج کر کے واپس آرہے تھے تو دمشق پہنچ کر آپ نے بھی اس غار کی زیارت کی تھی۔ وہاں پر کچھ قبریں ہیں، کتبے بھی لگے ہوئے ہیں،مسجد بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ اصحاب کہف کی غار ہے ،واللہ اعلم۔‘‘ (معالم العرفان ۱۲/۳۴۰)
★ حضرت شیخ ؒ اپنے استاذ کی نظر میں کیسے تھے؟حضرت صوفی صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’احقر نے تقریباً تین سال دوران تعلیم آپ (حضرت مولانا عبد القدیر محدث کیمل پوری ؒ ) کی خدمت میں گزارے تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سر فراز خان صفدر تو آپ کے اجل تلامذہ میں سے تھے۔ ان کی ذہانت اور فطانت کی وجہ سے مولانا ان کا بہت خیال فرماتے تھے،لیکن احقر اپنی طبعی خاموشی اور مسکینی اور اس لیے کہ صبح کی نماز باجماعت ادا کرتا تھا، اس لیے احقر کا بہت لحاظ فرماتے تھے۔۔۔(ان کا) جنازہ آپ کے تلمیذ شیخ الحدیث حضرت مولانا سر فراز خان صفدر نے پڑھایا۔‘‘ (الاکابر ص ۳۰۷)
★ حضرت درخواستی ؒ حضرت شیخ ؒ کے غائبانہ بھی بے حد قدر دان تھے۔ حضرت صوفی صاحب ؒ لکھتے ہیں:
’’مولانا درخواستی .....کے کمرے تک احقر کو پہنچا دیا گیا۔ حضرت سے یہ پہلی ملاقات ہوئی۔ احقر نے اپنا تعارف کرایا ۔ حضرت مولانا مدرسہ نصر ۃ العلوم کو بھی غائبانہ جانتے تھے ،اور شیخ الحدیث مولانا سر فراز خان صفدر صاحب کو بھی غائبانہ جانتے تھے۔ میں نے ملاقات کی،مصافحہ کیا،اپنا نام عرض کیا اور شیخ الحدیث کا سلام بھی حضرت کی خدمت میں عرض کیا اور مقصد بھی ظاہر کیا کہ میں قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر میں شرکت کے خیال سے حاضر ہوا ہوں۔ حضرت نے خوشی کا اظہار فرمایا۔‘‘ (الاکابر ص ۳۲۶، ۳۲۷)
★ حضرت شیخ ؒ کی سالانہ تعطیلات میں خدمت قرآن کے بارے میں حضرت صوفی صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’ہمارے ہاں (مدرسہ نصرۃ العلوم ) مین جو تین سونئے ساتھی آئے ہیں ،ان میں کون سے دہشت گرد ہیں؟ یہ پاکستان اور بیرون ممالک سے بھی آئے ہیں اور تدریس قرآن کا یہ سلسلہ نصف رمضان تک جاری رہتا ہے۔ شیخ صاحب ہر روز چار پانچ گھنٹے تک اپنے ضعف کے باوجود شائقین کو قرآن پڑھاتے ہیں۔ کیا یہ دہشت گرد تیار کر رہے ہیں؟‘‘ (خطبات سواتی۳/ ۲۵۰،۲۵۱)
★ حضرت شیخ ؒ کی اپنے مرشد حضرت مولانا حسین علی صاحبؒ کی خدمت میں حاضری کا منظر یوں بیان کرتے ہیں:
’’حضرت کی خدمت میں جو علما حضرات بیعت کے لیے حاضر ہوتے تھے، حضرت ؒ ان کو تحفہ ابراہیمیہ کا نسخہ بھی عطا فرماتے تھے، چنانچہ جب حضرتؒ کی خدمت میں شیخ الحدیث مولانا محمد سر فراز خان صاحب حاضر ہوئے تو حضرت ؒ نے بیعت کے وقت تحفہ ابراہیمیہ کا نسخہ اپنے ہاتھ مبارک سے عنایت کیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کا مطالعہ کرو، اگر کوئی بات پوچھنی ہو تو وہ پوچھ لو۔ شیخ الحدیث نے مسجد میں بیٹھ کر تقریباً ایک گھنٹہ میں اس سب کا مطالعہ کر لیا اور حضرت کو آگاہ کر دیا کہ میں نے اس کا مطالعہ کر لیا ہے۔ تحفہ ابراہیمیہ تصوف اور سلوک کا رسالہ ہے، فارسی زبان میں حضرت نے اسے تحریر فرمایا ہے۔ اس میں سلاسل سب درج ہیں۔‘‘ (مقدمہ فیوضات حسینی، صفحہ ’’ص‘‘)
’’تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ میں اس کامطالعہ کیا اور بعض مقامات سے کچھ باتیں حضرت ؒ سے دریافت کیں۔ آپ نے ان کا جواب عنایت فرمایا۔‘‘ ( مقدمہ فیوضات حسینی، ص ۵۲)
★ حضرت شیخ ؒ کا دفاع کرتے ہوئے ایک مقام میں لکھتے ہیں:
’’مقدمہ میں حضرت مولانا قاضی شمس الدین مرحوم نے بجز شخصی تعلقات اور اپنی علمی بر تری اور تفوق کے نمایاں کرنے کی کوشش کے کچھ نہیں کیا، یا پھر احقر عبد الحمید سواتی اور شیخ الحدیث مولانا محمد سر فراز خان صاحب صفدرؔ کے ساتھ تضحیک واستہزا اور طعن و تشنیع میں کافی وقت صرف کیا۔‘‘ (مقدمہ فیوضات حسینی صفحہ ’’ز‘‘)
★ حضرت شیخ ؒ کی کتاب ’’بانی دار العلوم دیوبند‘‘ کے متعلق حضرت صوفی صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا سر فراز خان صفدر صاحب .... نے بھی ایک عمدہ رسالہ ’’بانی دار العلوم دیوبند‘‘ مرتب کیا ہے،جو اپنی زبان اور استناد کے اعتبار سے معیاری ہے۔ اسی رسالہ کا ایک حصہ مکمل طور پر ’’بیس بڑے مسلمان‘‘ کے مصنف نے اپنی کتاب میں نقل کر لیا ہے۔‘‘ (الاکابر ص ۲۰۴)
★ حضرت شیخ ؒ کے انداز تدریس کا ذکر کرتے ہوئے بخاری شریف کی تقریر میں فرمایا:
’’یہ مختلف محدثین کرام ؒ کا طریقۂ تدریس رہا ہے۔ یہاں پر (مدرسہ نصرۃ العلوم میں )آپ حضرات جو اسباق شیخ الحدیث مولانا محمد سر فراز خان صفدر سے پڑھیں گے،ان میں تفصیل سے کلام ہو گا، تاہم ہمارے ہاں اختصار پر اکتفا کرنا ہوگا۔‘‘ (ماہنامہ نصرۃ العلوم ۱۲/ ۱، ص ۱۳)
★ حضرت شیخ کی کتابوں کے علمی وتحقیقی مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں آپ کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ علماے دیوبند کے نرم طرز عمل کو ان کی کمزوری پر محمول نہ کریں، وگرنہ ان کے علمی اور تحقیقی کام کی مثال تو پوری دنیا میں موجود نہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، ہمارے شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدر نے گزشتہ پینتالیس سال کے عرصہ میں اہل بدعت کے خلاف جو مدلل کتابیں لکھی ہیں، یہ لوگ قیامت تک ان کا جواب نہیں دے سکتے۔ جب کوئی فریق دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دے پاتا تو گالیوں پر اتر آتا ہے۔ احسن الکلام کا جواب تو آج تک حافظ محمد صاحب بھی نہیں دے سکے۔
اہل سنت والجماعت کی کتابوں میں بد زبانی نہیں ہے۔ خدا کے فضل سے ہم اخلاق کی حدود پر قائم ہیں۔ دلائل کا جواب دلائل سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ اہل حدیث حضرات طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو عموماً اچھالتے رہتے ہیں، حالانکہ شیخ الحدیث نے اس مسئلہ پر اتنی مدلل کتاب لکھی ہے کہ اس کا ایک حصہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اپنی تفسیر میں نقل کر دیا ہے۔ مولوی محمد علی کاندھلویؒ نے تو ساری کتاب اپنی تفسیر میں نقل کر دی ہے۔‘‘ (خطبات سواتی ۴/۳۹، ۴۰)
★ ۱۹۹۲ء میں حضرت شیخ ؒ کے ایک نجی خط کے جواب میں حضرت صوفی صاحبؒ نے لکھا:
’’ بخدمت گرامی برادر محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر دام ظلکم واطال اللّٰہ حیاتکم وعافاکم فی الدنیا والآخرۃ۔
سلام مسنون اسلام کے بعد،آپ کا عطا کردہ رقعہ پڑھا۔ آپ کی پریشانیوں پر تشویش ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس عمر میں ہر طرح سے سکون و طمانیت عطا فرمائے اور ہر قسم کی ذہنی اور جسمانی تشویشات سے بچائے، آمین۔ .... آپ کے احسانات بالعموم ہم سب پر اور بالخصوص اس احقر پر بہت زیادہ ہیں۔ ان کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے گا۔ آپ کی شفقت،رأفت،تربیت اور رہنمائی پر احقر تادم واپسیں آپ کے لیے اور جملہ اہل خاندان کے لیے دعا گو ہے اور دعا گو رہے گا۔‘‘