امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اپنی علمی وتحقیقی زندگی میں چوالیس محققانہ تصانیف سپرد قلم فرمائیں، جبکہ بعض مفید علمی رسائل کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ذیل میں تاریخی ترتیب سے ان تصانیف وتراجم کا ایک مختصر اور اجمالی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
(۱) الکلام الحاوی فی تحقیق عبارۃ الطحاوی (مطبوعہ: ۱۳۶۴ھ/۱۹۴۴ء)
یہ حضرت نور اللہ مرقدہ کی پہلی تالیف ہے جو ایک خالص علمی مسئلہ پر لکھی گئی۔ امام طحاوی (المتوفی ۳۲۱ھ) کی معروف کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ کی ایک عبارت سے بعض اکابر علما کو یہ شبہ گزرا کہ امام طحاویؒ دیگر ائمہ اہل سنت کے برعکس سادات و بنی ہاشم کے لیے زکوٰۃ و صدقات وصول کرنے کو جائز خیال کرتے ہیں۔ حضرت شیخ ؒ نے اس کتاب میں امام طحاویؒ کی عبارت سے پیدا ہونے والے شبہ کا ازالہ فرمایا اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امام طحاوی دیگر محدثین و مفسرین اہل سنت سے اس مسئلہ میں ہرگز اختلاف نہیں رکھتے،بلکہ ان کے نزدیک بھی سادات کے لیے زکوٰۃ و صدقات لینا شرعاً ناجائز ہے۔ کتاب کے آخر میں ’’تشیع کا اجمالی نقشہ‘‘ کے عنوان سے شیعہ عقائد و نظریات پر مشتمل ۲۱ صفحات کا ضمیمہ بھی شامل ہے۔ اس کتاب کو اکابر علماے دیوبند کی تائید و تصدیق حاصل ہے۔
(۲) آئینہ محمدی (مطبوعہ: ۱۳۶۵ھ/۱۹۴۵ء)
۴۸ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ حضرت نور اللہ مرقدہ کی دوسری تالیف ہے جو حفظ و ناظرہ اور ابتدائی مدارس کے طلبہ و طالبات اور عام مسلمانوں کے لیے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر تحریر کیا گیا ہے اور اس میں عقائد و عبادات اور اخلاق و معاملات جیسے موضوعات پر قرآن وحدیث کی روشنی میں مختصر مگر ضروری بحث کی گئی ہے۔
(۳) ضوء السراج فی تحقیق المعراج (مطبوعہ: ۱۳۶۸ھ/۱۹۴۸ء)
مرزا غلام احمد قادیانی پہلے دور میں معراج جسمانی کے قائل تھے‘ لیکن دوسرے دور میں انہیں یہ نظریہ اپنی شریعت کے خلاف نظر آیا تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے ۴۸ صفحات کے اس رسالہ میں قرآن و سنت‘ اقوال سلف اور خود مرزا صاحب کی اپنی عبارات سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جسمانی تھا، محض روحانی نہ تھا۔ اس رسالہ کے دوسرے ایڈیشن میں (جو ۱۳۷۹ھ؍۱۹۵۹ء میں طبع ہوا) معروف منکر حدیث نیاز فتح پوری کے نظریہ انکار معراج جسمانی کا بھی رد کیا گیا ہے۔
(۴) تبرید النواظر فی تحقیق الحاضر والناظر یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک (مطبوعہ: ۱۳۶۸ھ/۱۹۴۹ء)
حاضر و ناظر ہونا خداے تعالیٰ کی صفت ہے اور اس پر ایمان عقیدہ توحید کا جز ہے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ نے یہ عقیدہ اپنا لیا ہے کہ انبیاے کرام علیہم السلام اور اولیاے عظام رحمہم اللہ تعالیٰ بھی حاضر و ناظر ہوتے ہیں۔ اس پر حضرت نور اللہ مرقدہ نے یہ کتاب تالیف فرمائی اور قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل سے ثابت کیا کہ انبیاے کرام اور اولیاے عظامؒ ہر وقت جگہ موجود نہیں ہوتے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۱۲ صفحات پر مشتمل تھا جو بعد میں متعدد اضافوں کے مراحل سے گزرتا رہا۔ اب موجودہ ایڈیشن ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
(۵) گلدستہ توحید (مطبوعہ: ۱۳۷۰ھ/۱۹۵۰ء)
تقریباً تمام انبیاے کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات کو ایسی اقوام سے واسطہ رہا ہے جو کسی نہ کسی انداز میں عقیدہ توحید سے انکاری اور شرک کی نحوست و نجاست میں مبتلا تھیں، البتہ ان کے مشرکانہ تصورِ الوہیت و معبودیت میں فرق تھا۔ بعض نے یہ تصور شمس و قمر‘ نجوم و فلک اور آب و آتش سے باندھ رکھا تھا اور بعض نے انبیاے کرام و اولیاے عظامؒ سے۔ پھر ان میں سے بھی بعض نے انبیاء و اولیاءؒ کے مجسموں کو اپنی عبادت و استعانت کا مرکز بنا رکھا تھا اور بعض نے ان کی قبروں کو۔ حضرت نوراللہ مرقدہ نے اس کتاب میں آیاتِ قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت کیا ہے کہ اللہ رب العزت کے علاوہ غیر کی عبادت کرنا اور غیر سے مافوق الاسباب امور میں استعانت طلب کرنا شرک ہے اور اللہ کی ذات کے علاوہ ہر چیز اس ’’غیر‘‘ میں شامل ہے، خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان، انسان ہوں یا ملائکہ، انبیاء ؑ ہوں یا اولیاءؒ ۔
(۶) دل کا سرور یعنی تحقیق مسئلہ مختار کل (مطبوعہ: ۱۳۷۰ھ/۱۹۵۱ء)
حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس کتاب میں قرآن و حدیث‘ عقائد صحابہ کرامؓ اور جمہور ائمہ اہل سنت کے اقوال سے یہ ثابت کیا ہے کہ تمام تکوینی اور تشریعی امور میں حاکم حقیقی اور مختار کل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ کسی غیر کو نہ ذاتی طور پر یہ اختیار حاصل ہے اور نہ عطائی طور پر۔
(۷) حلیۃ المسلمین ترجمہ اللحیۃ فی نظر الدین (مطبوعہ: ۱۳۷۱ھ/۱۹۵۱ء)
ڈاڑھی مرد کی فطرت بھی ہے‘ انبیاے کرام کی سنت بھی اور مومن کے چہرے کی زینت بھی اور ایک قبضہ (مشت) ڈاڑھی مسنون ہے جسے منڈوانا یا کٹوا کر ایک قبضہ سے کم کر لینا شرعاً حرام ہے اور ایسے شخص کے پیچھے نماز درست نہیں۔ بہت عرصہ قبل بغداد (عراق) کے ایک ادارہ الشرکۃ الاسلامیہ للطباعہ والنشر المحدودہ نے ایک مختصر رسالہ ’’اللحیۃ فی نظر الدین‘‘ کے نام سے شائع کیا جو اس وقت کے چار ممتاز عرب علماء (۱) الشیخ استاذ علی الطنطاویؒ (۲)الشیخ محمد ناصر الدین البانیؒ (۳)الشیخ عبدالعزیز بن بازؒ (۴) الشیخ سید محمد سابقؒ کے مضامین پر مشتمل تھا۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے ’’حلیۃ المسلمین‘‘ کے نام سے اس کا ترجمہ کیا جسے پہلی بار ۱۳۷۱ھ؍۱۹۵۱ء میں جماعت المسلمین حنفیہ گوجرانوالہ نے شائع کیا۔ ۱۹۶۶ء میں شائع ہونے والے تیسرے ایڈیشن میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کا رسالہ ’’اعفاء اللحیۃ‘‘، حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ کا ایک مضمون اور ڈاڑھی کے متعلق حکماے یورپ کے افکار بھی شامل کردیے گئے ہیں۔ نیز دیباچے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندی اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہم اللہ وغیرہ اکابر علماے دیوبند کے فتاویٰ جمع کر دیے گئے ہیں کہ ڈاڑھی کٹوا کر ایک قبضہ سے کم کر لینا حرام ہے۔
(۸) مسئلہ قربانی (مطبوعہ: ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۴ء)
حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس رسالہ میں منکرین حدیث کے اس طبقے کا رد کرتے ہوئے جو خود کو اہل قرآن کہلاتا ہے اور قربانی کو خلاف اسلام اور جانوروں کا ضیاع قرار دیتا ہے، ٹھوس دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ قربانی ایک مسنون عمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل حدیث حضرات کے موقف کے جواب میں، جو تین دن کی بجائے چار دن تک قربانی کا قائل ہے، یہ واضح کیا ہے کہ جمہور ائمہ اہل سنت کے نزدیک قربانی کے تین ہی ایام ہیں۔ اس رسالہ کے جواب میں حافظ محمد ابراہیم (غیر مقلد) نے ’’ایام قربانی‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا تو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی زید مجدہم نے اس کا جواب ’’سیف یزدانی‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا جو ’’مسئلہ قربانی‘‘ کی طبع دوم میں اس کے ساتھ ہی شائع ہوا ہے۔
(۹) چالیس دعائیں (مطبوعہ: ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۴ء)
منکرین حدیث دعا کی ضرورت اور اس کے عبادت ہونے سے بھی انکاری ہیں۔ حضرتؒ نے اس مختصر رسالہ میں دعا کی اہمیت اور اس کا عبادت ہونا ثابت کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چالیس مسنون دعائیں مع ترجمہ نقل کی ہیں۔
(۱۰) احسن الکلام فی ترک القراء ۃ خلف الامام (مطبوعہ: ۱۳۷۵ھ/۱۳۵۵ء)
فاتحہ خلف الامام قرن اول سے ایک اختلافی و اجتہادی مسئلہ رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے ۱۹۵۷ ء کی جنگ آزاد ی کے بعد فرنگی عہد اقتدار میں غیر مقلدین کے بعض ناعاقبت اندیش راہنماؤں نے صدیوں کے فروعی اختلافی مسائل کی اجتہادی حیثیت کا انکار کرتے ہوئے مقلدین احناف کی نمازوں کو باطل و خلاف سنت قرار دینے کے تحریری و تقریری فتوے جاری کر دیے، برصغیر میں اسلام کی اشاعت و حفاظت کا فریضہ سرانجام دینے والے تمام علما واولیا کو نمازیں پڑھنے کے باوجود بے نماز قرار دے دیا اور احناف کے موقف کو بے دلیل ثابت کرنے کے لیے بڑے بڑے اشتہار اور موٹی موٹی کتابیں چھاپی گئیں۔ متعدد علماے احناف نے اس موضوع پر بیسیوں کتب تالیف فرمائیں۔ حضرتؒ نے بھی ’’احسن الکلام‘‘ کے نام سے یہ کتاب دو ضخیم جلدوں میں تالیف فرمائی جس میں قرآنی و حدیثی ٹھوس دلائل سے ثابت کیا کہ احناف کا اس بارہ میں موقف نہ صرف ٹھوس دلائل سے مزین ہے بلکہ دوسرے مسلک کے مقابلہ میں دلائل کی فوقیت کے اعتبار سے راجح بھی ہے۔ پہلی جلد میں احناف کے دلائل پیش کیے گئے ہیں اور دوسری جلد میں فریق مخالف کے دلائل کا جواب دیا گیا ہے۔
(۱۱) صرف ایک اسلام بجواب دو اسلام (مطبوعہ: ۱۳۷۵ھ/۱۹۵۵ء)
ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کسی دور میں تحریک انکار حدیث سے متاثر ہو کر منکر حدیث ہو گئے اور اس دور میں انہوں نے دو قرآن اور دو اسلام کے نام سے دو کتابیں لکھیں۔ ان میں سے ’’دو اسلام‘‘ نامی کتاب حضرت نور اللہ مرقدہ کو تحریک ختم نبوت کے دوران اس وقت ملی جب وہ ملتان سنٹرل جیل میں نظر بند تھے۔ حضرت نے اسی دوران جیل میں ہی اس کا جواب لکھ لیا اور رہائی کے بعد اسے شائع کیا جسے پڑھ کر ڈاکٹر برق مرحوم نے اپنے ناقص فہم کا اعتراف کیا اور بہت سے بے بنیاد اعتراضات سے رجوع کر لیا۔ بعد میں ڈاکٹر برق مرحوم انکار حدیث کے باطل نظریے سے تائب ہو گئے اور حجیت حدیث پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی۔
(۱۲) المنہاج الواضح یعنی راہ سنت (مطبوعہ: ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ء)
شرک کے بعد سب سے بڑا شرعی جرم بدعت ہے۔ بدعت ہر ایسے کام کو کہتے ہیں جو دلائل شرعیہ (قرآن‘ سنت‘ اجماع اور قیاس مجتہد) سے ثابت نہ ہو اور اسے دین سمجھ کر اختیار کیا جائے۔ فرامین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بدعت مذموم اور بدعتی مردود ہے۔ حضرت نور اللہ مرقدہ اس ضخیم کتاب میں بدعت کی تعریف اور قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا مردود و مذموم ہونا بھی ثابت کیا ہے اور برصغیر پاک و ہند میں معرض وجود میں آنے والی بدعات (مجالس میلاد کا مروجہ طریقہ ‘ عرس ‘ ذکر بالجہر ‘ مذارات کو پختہ کرنا ‘ قبروں پر چراغاں کرنا ‘ قبروں پر چادریں اور پھول چڑھانا ‘ اذان میں انگوٹھے چومنا وغیرہ) کا رد بھی کیا ہے اور فریق مخالف کے دلائل کا جواب بھی دیا ہے۔
(۱۳) ہدایۃ المرتاب فی طریق الصواب یعنی راہ ہدایت (مطبوعہ: ۱۳۷۸ھ/۱۹۵۷ء)
مختار کل کے مسئلہ پر حضرت نور اللہ مرقدہ کی تالیف ’’دل کا سرور‘‘ کے جواب میں بریلوی عالم مولانا سید حسین الدین شاہ نے ’’ہدیۃ الاحباب فی التصرف مافوق الاسباب معروف بہ نورہدایت‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ حضرت شیخ کی یہ کتاب اسی کا جواب ہے جس میں ٹھوس دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ معجزہ اور کرامت میں فعل و قدرت خدا کی ہوتی ہے جبکہ ہاتھ نبی اور ولی کا ہوتا ہے۔
(۱۴) ازالۃ الریب عن عقیدۃ علم الغیب (مطبوعہ: ۱۳۷۹ھ/۱۹۵۹ء)
حاضر و ناظر کی طرح عالم الغیب ہونا بھی خدا تعالیٰ کی صفت ہے اور علم غیب خاصہ خداوندی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قدرت نے انباءِ غیب سے بہت وافر حصہ عطا فرمایا ہے، لیکن وہ عالم الغیب نہیں ہیں۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے یہ کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے اور قرآن و سنت سے بدلائل قاہرہ اس عقیدہ کو ثابت کیا ہے اور فریق مخالف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے، ان کا مدلل جواب بھی دیا ہے۔
(۱۵) انکار حدیث کے نتائج (مطبوعہ: ۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ء)
عصر حاضر میں انکار حدیث کا فتنہ اپنے عروج پر ہے جس نے اردو ادبیت کے فن اور نفسیاتی طرز بیان کے سہارے ان گنت لوگوں کو مسحور کر رکھا ہے اور دینی علوم اور دینی ماحول سے محروم تعلیم یافتہ طبقہ ان کے دام فریب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے اس کتاب میں معروف منکرین حدیث عبداللہ چکڑالوی، حافظ محمد اسلم جیراج پوری، نیاز فتح پوری، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، ڈاکٹر احمد دین، علامہ عنایت اللہ المشرقی، چوہدری غلام احمد پرویز، تمنا عمادی پھلواروی اور ان کے مشہور دعوتی و نشریاتی ادارہ طلوع اسلام کی پیدا کردہ گمراہیوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔
(۱۶) مرزائی کا جنازہ اور مسلمان (مطبوعہ: ۱۹۶۶ء)
کافی عرصہ قبل گوجرانوالہ کے اندر مرزائی کی نماز جنازہ پڑھنے کے حکم شرعی پر بحث چل نکلی تو مختلف اکابر علما کی طرف رجوع کیا گیا۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس بارہ میں جو فتویٰ دیا، اسے جمعیۃ علماے اسلام گوجرانوالہ نے شائع کر دیا۔ یہ وہی رسالہ ہے اور اس پر دیگر علماے کرام کی تصدیقات بھی موجود ہیں۔
(۱۷) مقام ابی حنیفہؒ (مطبوعہ: ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۲ء)
قرون ثلاثہ سے عصر حاضر تک امت مسلمہ کے تقریباً دو تہائی مسلمانوں کے فقہی امام و پیشوا حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بارہ میں ان کے حاسدین تقریباً ہر دور میں کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں، لیکن اس دور کے غیر مقلدین نے تو بغض و حسد کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور تاریخ کے موضوع و من گھڑت اقوال کی بنیاد پر حضرت امام اعظمؒ کی شخصیت و کردار کو تختہ مشق بنا ڈالا۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے اس کتاب میں تاریخ کے ٹھوس حوالوں سے حضرت امام اعظم کی حدیثی و فقہی خدمات اور ان کے بے داغ کردار و عمل پر مفصل و مدلل بحث کی ہے اور غیر مقلدین کے تمام اعتراضات و الزامات کا مدلل رد پیش کیا ہے۔
(۱۸) تبلیغ اسلام (مطبوعہ: ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء)
امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ایک فریضہ ہے۔ لیکن اسلام نے اس فریضہ کے ساتھ اس کے اصول و ضوابط بھی دیے ہیں۔ حضرت شیخ ؒ نے اس کتاب کے اندر قرآن و سنت کی روشنی میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت ‘ اسلام کی صداقت و حقانیت ‘ دعوت و تبلیغ کے شرعی اصول‘ مبلغین اسلام کی حق گوئی اور داعیان اسلام کے مرتبہ و مقام پر مدلل بحث کی ہے۔ اس کتاب کا صرف پہلا حصہ طبع ہو سکا۔ دوسرے حصہ کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی۔
(۱۹) طائفہ منصورہ (مطبوعہ: ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایک جماعت فکری و حدت کے ساتھ قرن درقرن قیامت تک ہر دور میں موجود رہے گی اور اسی جماعت و اس کی فکری وحدت کے ساتھ قائم رہنا ہی ہدایت و نجات کے لیے ضروری ہوگا۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس کتاب میں بدلائل قاہرہ ثابت کیا ہے کہ دینی تعلیمات و خدمات کے حوالہ سے یہ موعودہ جماعت مقلدین ائمہ اربعہ کی جماعت ہے جو ہر دور میں نہ صرف موجود رہی ہے بلکہ تعلیم و تبلیغ و جہاد جیسے فرائض کی خدمات بھی سرانجام دیتی رہی ہے۔ غیر مقلدین کا شمار اس موعودہ جماعت میں نہیں ہوتا اور اس میں مصنفین صحاح ستہ کا مقلد ہونا بھی ٹھوس دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔
(۲۰) عیسائیت کاپس منظر (مطبوعہ: ۱۳۸۴ھ/۱۹۶۲ء)
عیسائیت ایک مسخ و محرف شدہ آسمانی مذہب ہے۔ جو اصلی و حقیقی آسمانی تعلیمات سے محروم ہو چکا ہے۔ اس کی تحریف اورتغیر و تبدل کی داستان خاصی طویل ہے۔ حضرتؒ نے اس کتاب میں توہین انبیاء ،نظریہ تثلیث، ابنیتِ مسیح اور مسئلہ کفارہ جیسے مسیحی عقائد و نظریات کے باطل و مردود ہونے پر مدلل بحث فرمائی ہے اور تحریف بائیبل پر ٹھوس شہادتیں بیان فرمائی ہیں۔
(۲۱) بانی دار العلوم دیوبند (مطبوعہ: ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء)
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نور اللہ مرقدہ کا شمار بلاشک و شبہ برصغیر کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں بجا طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے اس مختصر رسالہ میں حضرت نانوتویؒ کی دینی و علمی اور مجاہدانہ و مناظرانہ خدمات کا تذکرہ کیا ہے اور بریلویت و قادیانیت کی طرف سے ان پر انکار ختم نبوت کے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، ان کا ٹھوس جواب دیاگیا ہے۔
(۲۲) باب جنت بجواب راہ جنت (مطبوعہ: ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۲ء)
حضرت نور اللہ مرقدہ کی کتاب لاجواب ’’راہِ سنت‘‘ کا جناب مفتی احمد یار خان گجراتی نے جواب دینے کی ناکام کوشش کی، اور اپنی کتاب کا نام انہوں نے ’’راہ جنت‘‘ رکھا۔ ’’باب جنت‘‘ اسی کا جواب ہے۔ مفتی صاحب نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ہماری اس کتاب کا اصل نام ’’لطمہ شیر ببر بر نجدی زادہ گکھڑ‘‘ تھا‘ لیکن بعد میں اس کا نام ’’راہ جنت‘‘ رکھ دیا گیا۔ اس کے جواب میں حضرت شیخ ؒ نے اپنی کتاب کے عرض حال میں لکھا کہ اگر مفتی صاحب اپنی کتاب کا یہ نام رکھتے تو پھر ہماری کتاب کا نام ’’لطمات شیر سوات بر رخ مبتدع زادہ گجرات‘‘ ہوتا۔
(۲۳) شوق جہاد (مطبوعہ: ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء)
یہ مختصر سا رسالہ فضائل جہاد کے موضوع پر لکھا گیا جس کے پیچھے جنرل محمد ضیاء الحق شہید مرحوم کی خواہش و تحریک تھی جو اس وقت فوج میں کرنل تھے ۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس رسالہ کے اندر جہاد کے فضائل و اصول تحریر فرمائے اور پاک فوج کے جذبات و خدمات کا تذکرہ فرمایا۔ اس رسالہ کا پہلا ایڈیشن ہزاروں کی تعداد میں بٹ دری فیکٹری گکھڑ کے مالک حاجی اللہ دتہ بٹ مرحوم نے اپنی جیب سے چھپوا کر فوج میں تقسیم کیا۔
(۲۴) تنقید متین بر تفسیر نعیم الدین (مطبوعہ: ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء)
مولانا احمد رضا خان بریلوی نے غلط ترجمہ کی ایسی طرح ڈالی جو ان گنت لوگوں کی گمراہی و بے دینی کا ذریعہ بن سکتی تھی۔ اس سے قبل تفسیر و حواشی سے صرف نظر کرتے ہوئے کوئی بھی آدمی کسی بھی مترجم کے ترجمہ قرآن کو اس اطمینان کے ساتھ پڑھ سکتا تھا کہ کم از کم ترجمہ میں کوئی دجل موجود نہیں ہوگا، جو خرابیاں ہوں گی،وہ تفسیری حواشی میں ہوں گی، لیکن خان صاحب بریلوی نے اپنے تمام باطل و گمراہ کن نظریات ترجمہ میں گھسیڑ دیے اور پھر اسی ترجمہ کو مذہبی تعصب کی بنا پر مفتی نعیم الدین صاحب مراد آبادی نے اپنے تفسیری حواشی کے ذریعے بھرپور تحفظ فراہم کیا۔ خان صاحب بریلوی کے ترجمہ ’’کنزالایمان‘‘ اور مفتی نعیم الدین صاحب کے تفسیری حواشی ’’خزائن العرفان‘‘ کی علمی و اعتقادی اغلاط پر حضرت نور اللہ مرقدہ نے اپنی اس کتاب میں بہت ہی محققانہ گرفت فرمائی ہے۔
(۲۵) عمدۃ الاثاث فی حکم الطلقات الثلاث (مطبوعہ: ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۸ء)
اس رسالہ میں حضرت نور اللہ مرقدہ نے قرآن و سنت اور جمہور ائمہ اہل سنت کے اقوال سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک جملہ اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں۔ غیر مقلدین حضرات ان تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کے لیے جو دلائل دیتے ہیں، ان کا مدلل جواب دیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ جمہور ائمہ اہل سنت کا مسلک و موقف یہی ہے کہ تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔
(۲۶) تسکین الصدور فی تحقیق احوال الموتی فی البرزخ والقبور (مطبوعہ: ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء)
۱۹۵۸ء میں سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاریؒ کی طرف سے حیات الانبیاء علیہم السلام فی القبور کے انکار کی تحریک منظم کی گئی اور اس ضمن میں متعدد مصالحانہ کوششیں ان کے تشدد پسند رویہ اور موقف میں کوئی تبدیلی نہ لا سکیں تو ۲؍ ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۴؍ اگست ۱۹۶۲ء کو جمعیۃ علماے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مذہب اہل سنت اور مسلک علماے دیوبند کی روشنی میں ایک کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے بنیادی ذمہ داری حضرت نور اللہ مرقدہ کو سونپ گئی۔ حضرت نے پانچ سال کی مسلسل کوشش و محنت سے ایک مسودہ تیار کیا جسے جامعہ خیر المدارس ملتان میں علماے کرام کے اجلاس کے اندر پڑھ کر سنایا گیا اور اشاعت کی منظوری ہوئی۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث اور جمہور ائمہ اہل سنت کے اقوال سے ثابت کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک (روضہ اقدس) میں بہ تعلق روح زندہ ہیں اور عندالقبر پڑھا جانے والا صلوٰۃ و سلام خود سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ یہی جمہور ائمہ اہل سنت کا عقیدہ ہے اور یہی تمام علماے دیوبند کا مسلک ہے۔
(۲۷) ینابیع ترجمہ رسالہ تراویح (مطبوعہ: ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۹ء)
بیس رکعت نماز تراویح عہد فاروقی ؓ سے عصر حاضر تک بالاجماع پڑھی جا رہی ہیں۔ حرمین شریفین سمیت پوری دنیا کے اندر چاروں مذاہب (حنفی ‘ شافعی ‘ حنبلی، مالکی) کے مقلدین بیس رکعت تراویح ہی ادا کر رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے غیر مقلدین نے جہاں بعض دیگر مسائل کو فتنہ و فساد کا ذریعہ بنایا، وہاں بیس تراویح کا اجماعی عمل بھی ان کی زد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ چنانچہ تیرہویں صدی ہجری کے آخری عشرہ میں غیر مقلدین کے محسن اعظم مولانا محمد حسین بٹالویؒ نے بیس رکعت تراویح کے بدعت ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا تو انہی کے ایک ہم مسلک بزرگ مولانا سید میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد مولانا غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ (قلعہ میاں سنگھ گوجرانوالہ) نے بٹالوی صاحب کے جواب میں ایک رسالہ فارسی زبان میں تالیف کیا جس میں ثابت کیا کہ بیس رکعت نماز تراویح سنت خلفاے راشدینؓ ہے۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے اس رسالہ کا اردو ترجمہ کیا اور اس پر ۱۶ صفحات کا مفید مقدمہ لکھا۔
(۲۸) درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ (مطبوعہ: طبع دوم ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء)
درود شریف پڑھنا ایک عبادت ہے اور ہر عبادت کی طرح شریعت نے اس کے لیے بھی کچھ حدود وقیود متعین کیے ہیں۔ ہمارے زمانہ میں ایک طبقہ نے اذان کے ساتھ صلوٰۃ و سلام تقریباً لازمی قرار دے رکھا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ دلائل دیے جاتے ہیں، حالانکہ یہ طریقہ نہ عہد خیر القرون میں موجود تھا اور نہ دلائل شرعیہ (قرآن ‘ سنت ‘ اجماع ‘ قیاس) سے ثابت ہے۔ کافی عرصہ قبل ایک بریلوی بزرگ نے مذہبی تعصب میں مبتلا ہو کر اذان کے ساتھ صلوٰۃ و سلام کے جواز پر ایک اشتہار شائع کیا تھا۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے یہ رسالہ اسی کے جواب میں تالیف فرمایا۔ اس رسالہ کے پہلے ایڈیشن کی طباعت کا سال معلوم نہیں ہو سکا۔
(۲۹) مودودی صاحب کا ایک غلط فتویٰ (مطبوعہ: ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء)
مودودی صاحب کا شمار عصر حاضر کے ان مفکرین میں ہوتا ہے جو مغربی تہذیب و فکر سے مرعوب رہے اور اس کے لیے نہ صرف انہوں نے چودہ سو سالہ اسلامی ذخیرہ کو ناقابل عمل قرار دے دیا بلکہ انبیاے کرام‘ صحابہ کرامؓ اور مجددین امت تک کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ ان کے دیگر گمراہ کن نظریات کے علاوہ ایک نظریہ لاہوری مرزائیوں کو کافر تسلیم نہ کرنے کا بھی ہے۔ انہوں نے ایک فتویٰ جاری کیا کہ لاہوری مرزائی نہ کافر ہیں نہ مسلمان، بلکہ اسلام اور کفر کے درمیان معلق ہیں۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس رسالہ میں مودودی صاحب کے اسی فتویٰ پر گرفت کی ہے اور اس کے علاوہ ان کے چند دیگر گمراہ کن نظریات بھی بیان کیے ہیں۔
(۳۰) ملا علی قاریؒ اور مسئلہ علم غیب وحاضر وناظر (طبع دوم: ۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵ء)
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ اور شرح فقہ اکبر کے مصنف اور دسویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ ملا علی قاری الحنفیؒ کی بعض عبارات سے اہل بدعت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو العیاذ باللہ تعالیٰ عالم الغیب اور حاضر و ناظر مانتے تھے۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس رسالہ میں اسی دعوے کا جواب دیا ہے اور حضرت ملا علی قاریؒ کی عبارات سے ثابت کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کو عالم الغیب اور حاضر ناظر نہیں مانتے تھے۔
(۳۱) عبارات اکابر (مطبوعہ: ۱۳۹۲ھ/۱۹۷۲ء)
مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہم کی بعض عبارات میں تغیر و تبدل کر کے اور بعض عبارات کو اپنا خانہ ساز اختراعی مفہوم دے کر علماے حرمین شریفین سے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ حاصل کر لیا۔ جب علماے حرمین کو اس دجل وتلبیس کا علم ہوا تو انہوں نے ۲۶ سوالات تحریر کرکے علماے دیوبند کے پاس بھیجے۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ نے ان کا جواب لکھا جس پر اس وقت کے تمام اکابر علماے دیوبند نے تائیدی و تصدیقی دستخط ثبت فرمائے اور علماے حرمین شریفین نے بھی اس پر تائیدی دستخط کیے جو التصدیقات لدفع التلبیسات، المہند علی المفند اور عقائد علماء دیوبند کے ناموں سے طبع ہو چکا ہے، لیکن مخالفین نے نئے نئے ناموں سے انھی الزامات کو دہراتے ہوئے ہوئے کتابیں اور کتابچے لکھنے شروع کر دیے۔ علماے دیوبند کی طرف سے ان اعتراضات کے جواب میں بیسیوں تحریریں سامنے آ چکی ہیں۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے بھی اس کتاب میں انھی الزامات و اعراضات کا مدلل و مسکت جواب دیا ہے۔ اس کا پہلا حصہ شائع ہوا، جبکہ دوسرے حصہ کی نوبت نہ آ سکی۔
(۳۲) حکم الذکر بالجہر (مطبوعہ: ۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ء)
حضرت نور اللہ مرقدہ نے ’’راہ سنت‘‘ میں دیگر بدعات کے علاوہ ذکر بالجہر کے بدعت ہونے پر بھی بحث کی تھی جس پر بریلوی مکتب فکر کے ممتاز عالم مولانا رسول سعیدی نے ’’ذکر بالجہر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا اور اس میں ذکر بالجہر کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت شیخؒ کی یہ کتاب اسی کا جواب ہے۔
(۳۳) سماع الموتی (مطبوعہ: ۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء)
حیات النبی اور سماع موتی دو الگ الگ مسئلے ہیں۔ پہلے مسئلے پر امت کا اجماع ہے اور دوسرے مسئلہ میں عہد صحابہؓ سے اختلاف چلا آ رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے دوسرے اختلافی مسئلہ کی آڑ میں پہلے اجماعی مسئلہ سے بھی انکار کر دیا گیا اور پھر بعض تشدد پسند حضرات نے دوسرے مسئلہ کے اختلافی ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے اس کتاب کے اندر مدلل بحث کی ہے کہ یہ مسئلہ عہد صحابہؓ سے اختلافی ہے۔ جمہور ائمہ اہل سنت سماع موتی کے قائل ہیں، لیکن دونوں طرف دلائل موجود ہیں، اس لیے اس مسئلہ میں اختلاف کی بنا پر کسی فریق کو بدعتی و گمراہ قرار دینا سراسر غلط ہے۔
(۳۴) تفریح الخواطر فی رد تنویر الخواطر (مطبوعہ: ۱۳۹۷ھ/۱۹۷۷ء)
حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے تبرید النواظر (آنکھوں کی ٹھنڈک) لکھی تھی جس کے جواب میں ایک بریلوی عالم صوفی اللہ دتہ صاحب نے ’’تنویر الخواطر‘‘ کے نام سے طبع آزمائی کی۔ یہ کتاب اسی کا مدلل جواب ہے۔
(۳۵) اخفاء الذکر (مطبوعہ: ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء)
بریلوی عالم مولانا غلام رسول سعیدی نے اپنی کتاب ذکر بالجہر کے دوسرے حصہ میں حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی تالیف ’’حکم الذکر بالجہر‘‘ پر کچھ اعتراضات کیے تھے۔ اس کتاب میں اسی کا جواب دیا گیا ہے۔
(۳۶) اتمام البرہان فی رد توضیح البیان
حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی کتاب ’’تنقید متین برتفسیر نعیم الدین‘‘ کے جواب میں مولانا غلام رسول سعیدی نے ’’توضیح البیان علیٰ خزائن العرفان‘‘ لکھی جس کے جواب میں یہ کتاب لکھی گئی جو چار حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول ۱۴۰۱ھ/۱۹۸۱ء میں، حصہ دوم و سوم ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء میں جبکہ حصہ چہارم ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴ء میں طبع ہوا۔
(۳۷) شوق حدیث (مطبوعہ: ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴ء)
علم حدیث کے حصول اور اس کے حفظ کے سلسلہ میں ائمہ محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ کی خدمات اور ان کے شوق و جذبہ پر حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے یہ کتاب تالیف فرمائی۔ اس کا بھی صرف ایک حصہ شائع ہوا، جبکہ دوسرا شائع نہیں ہو سکا۔
(۳۸) الشہاب المبین علیٰ من انکر الحق الثابت بالادلۃ والبراہین (مطبوعہ: ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء)
حضرت مولانا قاضی شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بعض حواریوں کے شدید مجبور کرنے پر سواتی برادران کے خلاف ’’الشہاب الثاقب علیٰ من حرف الاقوال والمذاہب‘‘ تالیف فرمائی۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اس کتاب میں اسی کا جواب دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت قاضی صاحب نے تحریری طور پر اس بات کا اعتراف فرمایا کہ روضہ اقدس میں روح مع الجسد حیات اور عند القبر سماع کو حیات دنیوی یا حیات برزخی قرار دینے والوں کے مابین صرف نزاع لفظی ہے۔
(۳۹) اظہار العیب فی کتاب اثبات علم الغیب (مطبوعہ: ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ء)
حضرت نور اللہ مرقدہ نے ’’ازالۃ الریب‘‘ تالیف فرمائی تھی جس کے جواب میں بریلوی عالم مولانا غلام فرید ہزاروی نے ’’اثبات علم الغیب‘ لکھی۔ یہ کتاب اسی کا جواب ہے۔ مولانا غلام فرید صاحب نے اپنے مسلکی مزاج و تربیت کے عین مطابق اصل موضوع سے ہٹ کر بہت سی خارجی بحثیں کر کے اپنی کتاب کا حجم بڑھالیا تھا۔ ان میں سے ایک بحث تاریخ برصغیر پر بھی تھی جس میں انہوں نے علماے دیوبند کو انگریز کا ایجنٹ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے ان کے پیش کردہ حوالہ جات کی تحقیق اور ان کے جواب کے لیے احقر کی ڈیوٹی لگائی۔ میں نے حکم کی تعمیل میں اس کا مفصل جواب لکھا جسے حضرت شیخ ؒ نے اپنی اسی کتاب میں ’’البیان الحق لحافظ عبدالحق‘‘ کے عنوان سے تیسرے باب کی صورت میں شامل کر فرما لیا۔
(۴۰) الکلام المفید فی اثبات التقلید (مطبوعہ: ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۵ء)
غیر منصوص مسائل میں مجتہد کی تقلید عہد صحابہؓ و خلفاے راشدینؓ سے ایک اجتماعی و اتفاقی مسئلہ رہا ہے اور قرون ثلاثہ میں ہر علاقہ کے لوگ اپنے علاقہ کے فقیہ و مجتہد کی تقلید کرتے رہے ہیں۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بیان کے مطابق چوتھی صدی ہجری میں چونکہ دیگر تمام مذاہب تقریباً ختم ہو چکے تھے اور صرف مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، حنبلی اور مالی) باقی تھے، اس لیے امت نے انہی چار مذاہب پر اجماع کر لیا اور باقی مذاہب متروک ہو گئے۔ اس مرحلے پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ اب اپنے لیے نئے اجتہادی اصول وضع کرنے کی کسی کو اجازت نہیں، البتہ مکمل شرائط کے ساتھ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے کسی مجتہد مطلق کے اجتہادی اصولوں کے دائرہ میں رہ کر نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے اپنی اس کتاب میں انہی مسائل پر مدلل و مفصل بحث فرمائی ہے۔
(۴۱) المسلک المنصور فی رد الکتاب المسطور (مطبوعہ: ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ء)
مولانا محمد حسین نیلوی مرحوم نے اپنے حلقہ کے بعض حضرات کے شدید اصرار پر حضرت شیخ ؒ کی کتاب ’’تسکین الصدور‘‘ اور ’’سماع الموتی‘‘ کا جواب ’’الکتاب المسطور فی جواب سماع الموتی و تسکین الصدور‘‘ کے نام سے تالیف فرمایا جو ’’ندائے حق‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ پہلے یہ ایک جلد میں شائع ہوا تھا، بعد میں اسے خاصا پھیلا کر تین جلدوں میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب کا مواد کسی حد تک قابل توجہ یا قابل جواب تھا۔ حضرت شیخ ؒ نے اس کتاب میں اسی کی حقیقت واضح کی ہے۔
(۴۲) ارشاد الشیعہ (مطبوعہ: ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء)
یہ کتاب ایک خط کا جواب ہے جو روافض کے بارہ میں حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ حضرت شیخ ؒ نے اس کتاب میں واضح کیا ہے کہ ان کا موقف وہی ہے جو ان کے اکابر کا تھا اور اکابر رحمہم اللہ تعالیٰ تین بڑے اسباب (سب صحابہ ‘نظریہ امامت اور تحریف قرآن) کی بنیاد پر روافض کی تکفیر کرتے تھے اور ان اسباب کی وجہ سے روافض آج بھی کافر ہیں۔ اس کتاب میں ایران کے شیعہ راہنما آیت اللہ خمینی کے عقائد و نظریات اور ان کے فقہی مسائل پر بھی مدلل بحث کی گئی ہے۔
(۴۳) ختم نبوت کتاب وسنت کی روشنی میں (مطبوعہ: ۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء)
دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق ۲۹‘۳۰‘۳۱ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو دارالعلوم دیوبند میں ختم نبوت کے موضوع پر ایک عالمی سیمینار منعقد کیا گیا جس میں حضرت نور اللہ مرقدہ کو بھی شرکت اور مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ حضرت ؒ نے مقالہ تحریر فرمایا، لیکن حکومت انڈیا کی طرف سے ویزا نہ ملنے کی وجہ سے نہ تو خود تشریف لے جا سکے اور نہ مقالہ ہی بروقت ارسال کیا جا سکا۔ بعد میں اس مقالہ کو افادہ عام کے لیے شائع کر دیا گیا۔ اس میں عقیدہ ختم نبوت‘ عقیدہ نزول مسیح اور قادیانی دجل و تلبیس پر بحث کی گئی ہے۔
(۴۴) احسان الباری لفہم البخاری (مطبوعہ: ۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸ء)
حضرت نور اللہ مرقدہ بخاری شریف کی تدریس کے دوران مختلف علمی بحثیں لکھواتے رہے جنہیں ابتداءً ا حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحبؒ (فاضل و مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) اور حضرت مولانا سعید الرحمن علویؒ (فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) نے تحریر کیا اور بعد میں برادر عزیز حضرت مولانا رشید الحق خان عابد مدظلہ نے حضرت شیخ ؒ کے حکم سے متعدد اضافوں کے ساتھ مرتب کیا۔ یہ کتاب انھی تقاریر کا مجموعہ ہے۔
(۴۵) خزائن السنن (مطبوعہ: ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء)
حضرت نور اللہ مرقدہ نے ترمذی شریف پڑھاتے ہوئے طلبہ کو جو بحثیں لکھوائیں، انہیں ’’خزائن السنن‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کی پہلی جلد برادر عزیز حضرت مولانا قاری رشید الحق خان عابد مدظلہ نے مرتب کی ہے جو ابواب الطہارت، ابواب الصلوٰۃ اور ابواب الزکوٰۃ وابواب الاضاحی پر مشتمل ہے۔ دوسری جلد برادر مکرم حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن مدظلہ نے تصنیف کی ہے جو ابواب البیوع پر مشتمل ہے۔ یہ جلد ۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰ء میں طبع ہوئی۔
(۴۶) توضیح المرام فی نزول المسیح علیہ السلام (مطبوعہ: ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۶ء)
یہ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی آخری تالیف ہے جس میں احادیث صحیحہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ آسمانوں پر اٹھائے گئے، قرب قیامت میں نازل ہوں گے، دجال کو قتل کریں گے اور شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ کے مطابق چالیس سال خلافت کریں گے۔ یہی اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ اس کتاب میں حیات و نزول مسیح علیہ السلام کا انکار کرنے والے ملحدو بے دین فرقوں کا مدلل رد کیا گیا ہے۔