امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

(انتخاب و ترتیب: محمد عمار خان ناصر)


حق وباطل کی پہچان کا طریقہ

عوام الناس کو یہ بات پریشان کیے ہوئے کہ جو بھی اسلامی یا منسوب بہ اسلام فرقہ اپنے مسلک کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ قرآن وحدیث ہی کا نام لیتا اور اپنے استدلال میں قرآن وحدیث ہی کو پیش کرتا ہے۔ اب ہم کس کو صحیح اور کس کو غلط اور کس کو حق پر اور کس کو باطل پر کہیں؟ واقعی یہ شبہ اکثر لوگوں کے مغالطہ کے لیے کافی ہے، لیکن اگر انصاف، خدا خوفی اور دیانت کے ساتھ اس بات پر غور کر لیا جائے کہ یہی قرآن وحدیث حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین وبزرگان صالحین کے سامنے بھی تھے، ان کا جو مطلب ومعنی اور جو تفسیر ومراد انھوں نے سمجھی، وہی حق اور صواب ہے، باقی سب غلط اور باطل ہے۔ پس عوام کا یہ کام ہے کہ ہر باطل پرست اور خواہش زدہ سے یہ سوال کریں کہ فلاں آیت اور فلاں حدیث کی جو مراد تم بیان کر رہے ہو، آیا سلف صالحینؒ سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو صحیح وصریح حوالہ بتاؤ، چشم ما روشن دل ما شاد۔ ورنہ یہ مراد جو تم بیان کرتے ہو، اس قابل ہے کہ اسے ع اٹھا کرپھینک دو باہر گلی میں۔

عوام اس قاعدہ اور ضابطہ کے بغیر اور کسی طرف نہ جائیں۔ پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے اور قرآن وحدیث کی مراد کون سی صحیح ہے! اگر وہ ایسا نہ کریں گے اور اس میں کوتاہی کریں گے تو ضروریات دین میں غلطی کی وجہ سے کبھی عند اللہ سرخ رو نہیں ہو سکیں گے اور اپنی طاقت ووسعت صرف نہ کرنے کی وجہ سے جو گناہ قرآن وحدیث کی تحریف کرنے والوں کو ملے گا، اس میں ماننے والے بھی برابر کے شریک ہوں گے۔ (’’حق وباطل کی پہچان کا طریقہ‘‘، ماہنامہ بینات کراچی، ربیع الاول ۱۳۸۸ھ، ص ۴۹)

احادیث اور دین میں اختلاف

منکرین حدیث نے محض اپنی خواہش کے مطابق قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور حدیث کا انھوں نے بالکل انکار کر دیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم نے حدیث کا انکار اختلاف سے بچنے کے لیے کیا ہے، کیونکہ حدیث ماننے سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے رفع یدین کرو، کوئی کہتا ہے نہ کرو۔ کوئی کہتا ہے آمین بلند آواز سے کہو اور کوئی کہتا ہے آہستہ کہو۔ کوئی کہتا ہے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھو، کوئی کہتا ہے نہ پڑھو۔ سارے اختلاف حدیث کے ماننے کی وجہ سے ہیں، لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ حدیث نہ مانو۔ بے شک اختلافات موجود ہیں، مگر فروعات میں ہیں، اصول میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مثلاً اس میں اختلاف ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا ہے یا نہیں تو ایک طبقہ کہتا ہے کہ کرنا مستحب ہے اور دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ نہ کرنا مستحب ہے اور مستحب کا معنی ہے کہ کرو گے تو ثواب ملے گا، نہ کرو گے تو گناہ کوئی نہیں ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی طبقہ اصل کا تو منکر نہیں ہے کہ نمازیں پانچ نہیں ہیں یا تعداد رکعات میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فجر کے کتنے فرض ہے اور ظہر کے کتنے فرض ہیں یا عصر کے کتنے فرض ہیں یا مغرب کے کتنے فرض ہیں اور عشا کے کتنے فرض ہیں۔ اس میں تو کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور منکرین حدیث کا ایک گروہ کہتا ہے کہ نمازیں دو ہیں اور دوسرا گروہ کہتا ہے تین ہیں اور ایک گروہ کہتا ہے پانچ ہیں اور ایک گروہ کہتا ہے چھ نمازیں ہیں۔ اور رکعات کے متعلق بھی ان میں اختلاف ہے او رسجدوں میں بھی اختلاف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ایک رکعت میں ایک سجدہ ہے اور کوئی کہتا ہے کہ دو سجدے ہیں تو حدیث کے انکار سے تو اصل میں اختلاف کر بیٹھے۔ عربی زبان کا محاورہ ہے: فر من المطر وقام تحت المیزاب، کہ بارش سے بچنے کے لیے بھاگا اور پرنالے کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ بھائی، تم تو پرنالے کے نیچے کھڑے ہو گئے ہو۔ ہمارا اختلاف تو فروعات میں ہے، اصولوں میں تو نہیں ہے اور تمہارا تو اصولوں میں اختلاف ہے کہ رفع یدین کا مسئلہ فروعی ہے، اولیٰ غیر اولیٰ کا اختلاف ہے۔ البتہ بعض کم سمجھ لوگ اس پر زور لگاتے ہیں کہ جس نے رفع یدین نہیں کیا، اس کی نماز نہیں ہوتی اور لوگوں کو وہم میں ڈالتے ہیں کہ تمہاری نمازیں نہیں ہوئیں۔ یہ دین میں غلو ہے۔ سعودیہ میں تو کوئی جھگڑا نہیں ہوتا کہ وہاں کرنے والے بھی ہیں اور رفع یدین نہ کرنے والے بھی ہیں، اس لیے کہ سارے سمجھتے ہیں کہ اختلافی مسئلہ ہے مگر اصل میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لہٰذا ساتھیو یاد رکھنا کہ حدیث بھی دین کی بنیاد ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۴۶، ۲۴۷)

باطل کی تردید فرقہ واریت نہیں

ایک تفسیر ہے منہج الصادقین۔ ایران سے طبع ہوئی ہے۔ اس تفسیر میں ایک جعلی اور من گھڑت حدیث لکھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک دفعہ متعہ کرے گا، اس کو امام حسین کا درجہ مل جائے گا۔ جو دو مرتبہ متعہ کرے گا، اس کو امام حسن کا درجہ مل جائے گا۔ جو تین مرتبہ متعہ کرے گا، اس کو حضرت علی کا درجہ مل جائے گا اور جو چار دفعہ متعہ کرے گا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے کو پہنچ جائے گا۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ، العیاذ باللہ تعالیٰ) آیت کریمہ کی تفسیر میں یہ خرافات نقل کی ہیں۔ اہل حق جب ان کی یہ باتیں بیان کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ فرقہ واریت پھیلاتے ہیں۔ اور ایرانی ایسے مسائل والی کتابیں مسلسل بھیجتے رہیں اور پاکستانی شیعہ تقسیم کرتے رہیں تو کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔ بڑی عجیب منطق ہے کہ چھپوا کر بھیجنے والے فرقہ واریت پھیلانے والے نہیں ہیں اور ان کو بیچنے اور تقسیم کرنے والے بھی فرقہ واریت پھیلانے والے نہیں ہیں اور جو ان کو پڑھ کر سنا دے، وہ فرقہ واریت پھیلانے والا ہے۔ بھائی، ہم لڑائی جھگڑے کے قائل نہیں او ردہشت گردی کے سخت منکر ہیں، چاہے کوئی طبقہ بھی کرے، مگر حق کو بیان کرنا تو حق ہے۔ ان لغویات کی تردید کرنے کا تو ہمیں حق حاصل ہے۔ اسلام کے خلاف کوئی بات کرے تو ہر مسلمان کے فریضہ میں داخل ہے کہ وہ اس کی تردید کرے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۶۱، ۶۲)

بدعات اور ان کا وبال

حق کے مٹنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حق کو بیان ہی نہ کیا جائے۔ جب بیان نہ کیا جائے گا تو آنے والی نسلوں کو کیا پتہ چلے گاکہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ حق اور باطل کا ملغوبہ بنا دیا جائے، اس طرح خلط ملط کر دیا جائے کہ پتہ ہی نہ چلے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اسی واسطے بدعت کا بہت سخت گناہ ہے۔ اگر کوئی شخص مسجد میں بیٹھ کر سو بوتل شراب پی لے تو اندازہ لگاؤ کہ کس قدر گناہ ہے۔ ایک شراب، پھر مسجد میں، تو سو بوتل شراب کا مسجد میں بیٹھ کر پینے کا گناہ کس قدر ہے! مگر ایک بدعت کا گناہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس واسطے کہ گناہ کے ساتھ دین کا نقشہ نہیں بدلتا اور بدعت کے ساتھ دین کا نقشہ بدل جاتا ہے، اس لیے کہ جو چیز دین نہیں ہے، بدعت سے وہ دین سمجھ لی جاتی ہے۔ جن لوگوں نے بدعات کو سنبھالا ہوا ہے، یہ ان کا دین ہے۔ اگر اس کی مخالفت کرو تو کہتے ہیں کہ ہمارے دین کی مخالفت کی گئی ہے۔ اس واسطے سو گناہ کبیرہ ایک طرف اور ایک بدعت ایک طرف ہو تو اس کا گناہ زیادہ ہے، اس لیے کہ گناہ کرنے والا بھی سمجھتا ہے کہ میں گناہ گار ہوں۔ کبھی تو توبہ کر سکتا ہے۔اور بدعت کرنے والا اس کو کار ثواب سمجھتا ہے تو ثواب کے کام سے توبہ کیوں کرے گا۔

اس واسطے حدیث میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ان اللہ تعالیٰ قد حجب التوبۃ عن کل صاحب بدعۃ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بدعت کرنے والے پر تو بہ کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ بدعتی کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی، کیو نکہ جب وہ دین سمجھتاہے تو دین سے وہ توبہ کیوں کرے گا؟ اور بدعت کی نحوست اتنی ہو تی ہے کہ دل میں صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ جس طرح غالی کافروں میں ایمان کی صلاحیت باقی نہیں رہتی، اسی طرح شرک کے بعد بدعت ہے۔ 

مولانا عبیداللہ مرحوم پہلے پنڈت ہوتے تھے۔ لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔ بڑے پڑھے لکھے آدمی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق دی۔ ہندو ان کے خلاف ہو گئے۔ انھوں نے کتاب لکھی ہے ’’تحفۃ الہند‘‘، ہندوؤں کے واسطے تحفہ۔ ....یہ جتنی چیزیں ہیں مثلاً تیجہ، ساتواں، دسواں اور برسی منانا اور عرس یہ تمام ہندوؤں کی رسمیں ہیں جو ہمارے اندر آگئی ہیں۔ مسلمان آئے، ہندوستان میں اسلام پھیلا، مگر عورتیں جو رسمیں تھیں ساتھ لے کر چلی آ رہی ہیں۔ اب تک یہ سلسلہ بتدریج جاری ہے۔ ضرور ایک مرتبہ تحفۃ الہند پڑھو! وہی تحفۃ الہند مولانا عبیداللہ سندھی کے ایمان کا سبب بنی۔ ان کا نام پہلے بوٹا سنگھ تھا۔ یہ کتاب پڑھی تو ایمان کی توفیق ہوئی۔ یہ تمام رسمیں عورتیں حیلے بہانوں سے کرتی ہیں۔ جب تک عورتوں کا ذہن صاف نہیں ہوگا، بدعات ختم نہیں ہو سکتیں، چاہے تم حاجی بن جاؤ، نمازی بن جاؤ۔ جن گھروں میں عورتیں سمجھ دار ہیں، الحمد للہ وہاں بدعتیں نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی بھی ہیں تو بہت کم۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے کے گورنر تھے۔ کسی نے کہا حضرت! فلاں مسجد میں لوگ اکٹھے ہو کر بلند آواز سے درود شریف پڑھتے ہیں تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’’او یفعلون ذالک‘‘ کیا ایسی کارروائی یہاں ہو رہی ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں حضرت! ہو رہی ہے ۔فرمایا، جس وقت کارروائی ہو رہی ہو، مجھے آ کر اطلاع دینا۔ حضرت کا چھوٹا سا ہلکا پھلکا سا وجود تھا۔ کپڑا منہ پر ڈال لیا، نقاب پوشی کی تاکہ کوئی پہچان نہ لے۔ بڑے تیز چلتے تھے۔ جس وقت اطلاع ملنے پر وہاں پہنچے اور کپڑا منہ سے اتارا تو فرمانے لگے: ’’من عرفنی فقد عرفنی‘‘۔ جو مجھے جانتے ہیں، وہ مجھے جانتے ہیں۔ ’’ومن لم یعرفنی فانا ابن مسعود‘‘۔ اور جو نہیں پہچانتے تو میں عبداللہ بن مسعود گورنر ہوں۔ اے ظالمو! ابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مٹی کے برتن نہیں ٹوٹے، ابھی آپ کے کپڑے نہیں میلے ہوئے، اتیتم ببدعۃ ظلمآء۔ یہ تم مسجد میں اکٹھے ہو کر بلند آواز سے درود شریف پڑھتے ہو، یہ بدعتیں کرتے ہو۔ ما ارا کم الا مبتدعین۔ نہیں دیکھتا میں تم کو مگر یہ کہ تم سارے بدعتی ہو۔ فاخرجہم من المسجد۔ ایک ایک کو پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا۔ (ذخیرۃ الجنان ۱/۱۱۵ تا۱۱۷)

آج کل کے مشرک اور بدعتی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ فقہ حنفی چونکہ مشہور ہے، اس لیے یہ اپنی کڑی فقہ حنفی کے ساتھ ملاتے ہیں، ورنہ حقیقت میں مشرکوں اور بدعتیوں کا فقہ حنفی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ الحمد للہ میں نے فقہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں اس وقت باوضو ہوں اور ترمذی شریف میرے سامنے موجود ہے، میں پورے دعوے سے یہ بات کہتا ہوں کہ شرک اور بدعت کی جتنی تردید فقہ حنفی میں ہے، اتنی اور کسی فقہ میں نہیں ہے۔ فقہ حنفی کی کوئی مستند کتاب دیکھ لیں، مثلاً شامی ہے، البحر الرائق ہے۔ اور تو اور، عالمگیری ہی دیکھ لیں۔ یہ اورنگ زیب عالمگیر کے حکم سے پانچ سو علماے کرام نے مرتب کی تھی اور ہندوستان کے لیے قانون بنایا تھا۔ میں بلامبالغہ کہتا ہوں کہ وہ پانچ سو علماے کرام ایسے تھے کہ اس وقت ساری دنیا میں علم وعمل کے اعتبار سے ان میں سے ایک عالم کی بھی نظیر نہیں ملتی۔ تو عالمگیری میں دیکھ لیں، شرک اور بدعت کی کتنی تردید ہے، مگر اس کے باوجود یہ مشرک اور بدعتی اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ۳/۱۳۴)

اکثر لوگ جو شرک میں مبتلا ہیں اور بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں، یہ لاعلمی کی وجہ سے کرتے ہیں، ورنہ ان کو رب تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ عداوت نہیں ہے۔ ان کو علم ہو جائے کہ شرک کتنا بڑا گناہ ہے اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں، یہ شرک ہی ہے تو کبھی قریب نہ جائیں۔ اس طرح بدعت کے متعلق علم ہو جائے کہ کتنا بڑا گناہ ہے تو لوگ اس کے قریب نہ جائیں۔ .... عوام بے چارے جہالت کا شکار ہیں، ورنہ ان کو رب تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت نہیں ہے نہ دین سے عداوت ہے۔ البتہ کچھ لوگ شرک اور بدعات کا ارتکاب ضد کی وجہ سے کرتے ہیں تو ان کا کوئی علاج نہیں ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۰۴، ۲۰۵)

تقلید کا جواز اور ضرورت

ائمہ کرام کی تقلید ان مسائل میں ہے جومنصوص نہیں ہیں۔ کم علم اور ناسمجھ کو چاہیے کہ عالم اور سمجھ دار سے پوچھے اور اس پر عمل کرے، لہٰذا اس تقلید کوشرک کہنا سوء فہم کا نتیجہ ہے۔ ہاں! خدا ورسول کے مقابلہ میں باپ دادا کی اتباع کی جائے جیسا کہ آیت کریمہ میں ذکر ہے کہ ’’جب ان کو کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں کافی ہے ہمیں وہ چیز جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو‘‘ تو اس تقلید کے شرک اورحرام ہونے میں کیا شک ہے! کم فہم لوگ ایک بات اور بھی کہتے ہیں کہ مقلدوں نے اپنے اماموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گدی پر بٹھایا ہوا ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے اور یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں، اس لیے کہ پیغمبر معصوم عن الخطا ہوتا ہے اور مجتہد اورامام کو کوئی بھی معصوم نہیں کہتا۔ مجتہد کی بات صحیح بھی ہوتی ہے اور اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے، جبکہ پیغمبر سے غلطی نہیں ہوتی۔ تو امام، پیغمبر کی گدی پر کس طرح بیٹھ سکتا ہے یا ان کو پیغمبر کی گدی پر کون بٹھا سکتا ہے؟ کتنی غلط بات ہے جو وہ ہمارے ذمہ لگاتے ہیں۔ پھر ہمارا نظریہ ہے کہ امام کی بات اگر خدا اور رسول کے خلاف ہو تو اس کو چھوڑ دو، اس پر عمل نہ کرو۔ تویہ ہم پر محض الزام لگاتے ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ۵/۳۱۲)

گھر میں غیر محرم مردوں کا داخلہ

عورت کے ذمہ جو حقوق ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شریعت نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی غیر محرم کو خاوند کی اجازت کے بغیر گھر نہ آنے دے اور خاوند بھی کسی کو گھر آنے کی اجازت اس وقت دے جب وہ خود گھر میں موجود ہو۔ اپنی غیر حاضری میں کسی کو اجازت نہیں دے سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ حضرت، دیور اور جیٹھ یعنی خاوند کے چھوٹے بڑے بھائی بھی ہوتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا بھی تنہائی میں آنا نری موت ہے۔ ہاں اگر گھر میں ماں باپ بہن موجود ہیں یعنی گھر آباد ہے تو دیور جیٹھ آ سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس عورت کے ساتھ غیر محرم ہوگا، تیسرا شیطان ہوگا۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن میں خدا خوفی ہو اور ایسے اللہ تعالیٰ کے بندے بھی موجود ہیں، مگر شریعت نے عمومی ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ کوئی غیر محرم کسی کے گھر میں نہیں آ سکتا، حتیٰ کہ سات دس سال کے نابالغ بچے جو پہلے گھروں میں آتے جاتے ہیں، بالغ ہو جانے کے بعد ان کو بھی منع کر دیا گیا کہ اب وہ گھر میں نہیں آ سکتے، جیسا کہ سورۂ نور کے اندر اس کا حکم موجود ہے۔ عورتیں یہ نہیں کہہ سکتیں کہ ہمارے پاس ہی پلے بڑھے ہیں اور انھی گھروں میں کھیلتے رہے ہیں، کیونکہ اس وقت نابالغ تھے اور اب بالغ ہو گئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ شرعی اصولوں کی پابندی کی جائے تو ان شاء اللہ العزیز کوئی خرابی پیدا نہیں ہوگی۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسانی شرعی حدود کو پھلانگتا ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۳۷، ۳۸)

بیواؤں او ریتیموں کی پرورش کے سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری

جوان عورت اگر بیوہ ہو جائے تو اس کو شریعت بڑی تاکید کرتی ہے کہ وہ نکاح ضرور کرے، ورنہ خرابیاں پیدا ہوں گی اور یہ باتیں عام تجربے میں بھی آ چکی ہیں، البتہ بچوں کے سلسلے میں پریشانی ہوتی ہے کہ ان کی پرورش کا کیا ہوگا تو بعض نیک دل بھی ہوتے ہیں جو بچوں کی کفالت اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ اگرچہ ایسے لوگ تھوڑے ہیں، مگر ہیں ضرور۔ اگر ایسی صورت نہ ہو کہ بننے والا خاوند بچوں کی کفالت کا ذمہ نہ لے تو پھر مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بچی بالغ نہ ہو، وہ ماں کی تربیت میں رہے گی اور لڑکا سات سال تک ماں کی تربیت میں رہے گا اور اس کا خرچہ پہلے وارثوں کے ذمہ ہے۔ وہ دیں گے۔ اگر وہ خود نہ دیں تو قاضی وارثوں سے خرچہ دلوائے گا۔ اگر وارث اس پوزیشن میں نہیں ہیں تو بیت المال سے باقاعدہ وظیفہ مقرر کیا جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان بچوں کا کوئی انتظام نہ ہو اور ان کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا جائے یا وہ بچے لاوارث ہو کر بد اخلاقیوں کا شکار ہو جائیں۔ نہیں، بلکہ علاقے کے قاضی کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسلامی قانون نافذ ہو جائے تو جس جگہ جمعہ کی نماز ہوگی، وہاں پر ایک بااختیار جج قاضی اور عامل ہوگا جس کا یہ فریضہ ہوگا کہ وہ محلے میں بیوہ عورتوں اور بچوں کا خیال رکھے اور ایسے آدمیوں کو تلاش کرے کہ جن کو روزگار میسر نہیں ہے اور وہ بھوکے ہیں اور یہ تلاش کرنا اس کی ذمہ داری میں شامل ہوگا۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو حکومت کی طرف سے سزا ہوگی کہ تمہارے حلقے میں فلاں بیوہ عورت کیوں بھوکی رہی ہے، وہ یتیم بچہ کیوں بھوکا رہا ہے، فلاں بے روزگار کیوں بھوکا رہا ہے۔ لوگوں کو اسلامی قانون کی خوبیاں معلوم نہیں ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۴۴، ۴۵)

تبلیغی جماعت کا کام

ہر دور میں باطل فرقوں کی کوشش رہی ہے کہ وہ سب کوگمراہ کرکے اپنے جیسا بنا لیں۔ آج بھی وہ جس قدر نشرواشاعت اور تبلیغ کر رہے ہیں، اس کے مقابلے میں حق والوں کی تبلیغ اور نشرواشاعت صفر ہے۔ بے شک تقابل کرکے دیکھ لیں۔ اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے مولانا الیاس ؒ کی قبر پر جنہوں نے تبلیغ کاکام جاری فرمایا تھا کہ آج ان کی جماعت دنیا میں تبلیغ کررہی ہے جن کی بدولت تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۵/۲۵۲)

بعض کم فہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مجموعی طور پر ساری امت پر دعوت الی اللہ لازم ہے، مگر ایسا نہیں ہے بلکہ امر بالمعروف والنہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، یہ تو امت کے ہر فرد کا فریضہ ہے اور یہ کام انفرادی طور پر بھی باحسن وجوہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہر گھر کے سربراہ، ذمہ دار، کفیل، استاد اور صاحب اثر کا کام ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو، بیوی بچوں کو، چھوٹے بہن بھائی اور شاگرد اور زیر اثر لوگوں کو نیکی کرنے کا حکم اور ترغیب دے اور برائی سے منع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے، وہاں ساری امت کو خطاب فرمایا ہے: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر (الآیۃ) کہ ’’تم سب امتوں سے بہتر ہو جو بھیجے گئے ہو لوگوں کے لیے، نیکی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔‘‘ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو ہر امتی کا فریضہ ہے۔ گھر میں، مسجد میں، بازار میں، دوکان میں، غمی میں، خوشی میں، کہیں بھی ہو، اپنا فریضہ ادا کرے۔ اس کے لیے اجتماع، اشتہار، منادی اور باہر نکلنا، گشت کرنا اور اکٹھ کرنا ضروری نہیں۔ ایک آدمی بھی یہ کر سکتا ہے اور ایک ایک کو بھی امر ونہی کر سکتا ہے۔ اور دعوت الی اللہ ساری امت پر لازم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر (پ ۴، آل عمران، رکوع ۱۱) ’’اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم دیتی رہے بھلائی کا اور منع کرتی رہے برائی سے۔‘‘ .... اس سے معلوم ہوا کہ دعوت الی اللہ مخصوص جماعت کا کام ہے، ہر ہر مسلمان کا نہیں ہے۔ یہ کام وہی کر سکتے ہیں جو دلیل وبرہان کی روشنی میں نیکی اور بدی کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں اور موقع ومحل کی پرکھ کر سکتے ہیں۔ (’’دعوت الی اللہ کی ضرورت، اہمیت اور چند اصول‘‘، ماہنامہ نصرۃ العلوم، نومبر ۹۵ء، ص ۱۳، ۱۴)

حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ (المتوفی ۱۳۶۳ھ) نے بڑے اخلاص اور دل سوزی سے عام مسلمانوں کی دین سے دوری کا جائزہ لیا اور شب وروز اس پس ماندہ قوم کی دینی اصلاح کی ان تھک سعی کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اب دنیا کے کونے کونے میں دین کی تبلیغ کا کام بہت عمدگی سے اور بڑے وسیع پیمانہ پر ہو رہا ہے اور دن بدن اس عمدہ کام میں ترقی ہو رہی ہے۔ اللہم زد فزد

مدرسین اور طلباء جب تبلیغ کے فوائد دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کا دل بھی چاہتا ہے کہ ہم اس اجر عظیم سے محروم نہ رہیں اور اپنی زندگیاں اس نیک کام کے لیے وقف کر دیں۔ اس نیک جذبہ کی جتنی بھی قدر کی جائے، بہت ہی کم ہے، لیکن اس سلسلے میں علما وطلبا کو خوشی ہونی چاہیے کہ وہ بھی مبلغ ہیں۔ ان کو حضرت تھانویؒ کے یہ کلمات طیبات نہیں بھولنے چاہییں۔ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: ......’’مجھے اندیشہ ہے کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ مدرسین وطلبہ پڑھنا پڑھانا چھوڑ دیں بلکہ اس کو اپنے بزرگوں سے پوچھو کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے۔‘‘ ظاہر بات ہے کہ اہل حق علماے کرام تبلیغ سے کبھی بھی نہیں روکیں گے، ہاں یہ ضرور کہیں گے کہ پڑھنے اور پڑھانے کے زمانہ میں خوب محنت سے پڑھو اور پڑھاؤ، اور ایام تعطیلات میں، جن کا درس وتدریس کا کام نہیں، فارغ ہیں، وہ والدین، بیوی اور بچوں وغیرہم کے حقوق ادا کرتے ہوئے سہ روزہ، دس روزہ، چلہ اور کم وبیش وقت لگائیں اور یہ سمجھیں کہ باہر نکلنا تبلیغ کا صرف ایک شعبہ ہے تاکہ عوام کے نظریات اور مختلف علاقوں اور ملکوں کے حالات سے بھی آگاہ ہو سکیں اور جو جو کمزوریاں مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں، ان کو دیکھیں اور اصلاح کی فکر کریں اور خود اپنے اندر بھی دین کے اعمال خیر کی عادت ڈالیں۔ .... جو حضرات نئے نئے تبلیغی بنتے ہیں، ان کو بھی حضرت تھانویؒ کے یہ ارشادات پیش نظر رکھنے چاہییں کہ جو علما یا طلبا درس وتدریس کے اوقات میں باہر نہیں نکلتے تو ان کو حقارت کی نگاہ سے ہرگز نہ دیکھیں، اس لیے کہ وہ بھی مبلغ بلکہ اصل مبلغ ہیں۔ اسلام میں افراط وتفریط اور غلو بری چیز ہے۔ (’’دعوت الی اللہ کی ضرورت، اہمیت اور چند اصول‘‘، ماہنامہ نصرۃ العلوم، نومبر ۹۵ء، ص ۱۵،۱۷)

یہ جو کمی اور غیر کمی کا فرق ہے، اسلام اس کو مٹانے کے لیے آیا ہے، مگر ہم نے اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا ہوا ہے کہ یہ چوہدری ہے اور یہ کمی ہے، کیونکہ آج بھی اگر کوئی بڑا آدمی چارپائی پر بیٹھا ہو تو اس کے ساتھ کسی نیچ قوم کے آدمی کو بیٹھنے کی ہمت نہیں ہے اور اگر کوئی بیٹھ جائے تو ا س کو وہ برا سمجھتے ہیں۔ یہ افراط وتفریط اسلام میں نہیں ہے۔ اسلام میں گورا کالا، امیر غریب، بادشاہ گداگر سب انسان ہیں۔ یہ فرق یہود وہنود اور نصاریٰ وغیرہ قوموں نے تراشا ہوا ہے جن کے ہاں گورے اور کالے لوگوں کے عبادت خانے ماضی قریب تک الگ الگ رہے ہیں اور گوروں اور کالوں کے ہسپتال بھی الگ الگ رہے ہیں۔ گورے کالوں کو اپنے ساتھ بیٹھنے بھی نہیں دیتے تھے، وہ الگ بیٹھتے تھے۔ جب ہمارے تبلیغی حضرات ان ملکوں میں تبلیغ کے لیے جاتے ہیں اور گورے کالے سب مل کر اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں او ر اکٹھے نمازیں پڑھتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں تو وہ لوگ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۸۹)

دعوت الی اللہ فرض کفایہ ہے، فرض عین نہیں ہے۔ فرض عین کا مطلب ہے کہ ہر ہر آدمی پر لازم ہو۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت فریضہ کو ادا کرتی رہے تو وہ سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا۔ اس فریضہ کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے کوئی بھی گناہ گار نہ ہوگا، کیونکہ فرض کفایہ ہے۔ اور اگر کسی جگہ کوئی بھی اس فرض کو ادا نہیں کرے گا تو سب کے سب گناہ گار ہوں گے۔ البتہ اپنی اصلاح کے لیے نکلنا الگ بات ہے کہ کوئی آدمی اس نظریہ کے تحت جائے کہ اپنی اصلاح ہو جائے گی، کیونکہ جماعت میں جانے والوں کا سارا وقت نیکی کے لیے صرف ہوتا ہے اور دین کی باتیں اچھی طرح سمجھ میں آتی ہیں اور یہ بات ہے بھی حقیقت، اس میں کوئی شک نہیں۔ ... پڑھنا پڑھانا، درس دینا، اسلام کی خاطر کتابیں لکھنا بھی تبلیغ ہے اور ان کاموں کے لیے چند ہ دینا بھی تبلیغ ہے۔ تبلیغ صرف اس میں بند نہیں ہے کہ بستر اٹھا کر سہ روزہ لگانا اور دس روزہ لگانا اور چلہ لگانا۔ بے شک یہ بھی تبلیغ کا حصہ ہے، چنانچہ چھٹیوں میں ہمارے مدارس کے اساتذہ اور طلبہ بھی سہ روزہ اور دس روزہ لگانے کے لیے جاتے ہیں اور جن کو زیادہ توفیق ملتی ہے، وہ اس سے زیادہ وقت بھی لگاتے ہیں، مگر جب تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری ہو تو پھر اس کا ثواب بستر اٹھا کر پھرنے سے زیادہ ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۳/۲۱۲، ۲۱۳)

بعض سادہ قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ صرف وہ ہے جو تبلیغی جماعت والے کرتے ہیں، اور کوئی تبلیغ نہیں کرتا۔ نصرۃ العلوم میں ایک بزرگ باباجی نیک آدمی تھے۔ میرے پاس بیٹھ کر قرآن کادرس سنتے تھے۔ طلبا کی کافی تعداد ہوتی تھی۔ کافی عرصہ کے بعد مجھے کہنے لگے، مولانا! آپ بہت بڑا کام کر رہے ہیں، مگر دین کا کام نہیں کرتے۔ میں نے کہا، باباجی! دین کا کام کیا کروں ؟ کہنے لگے، آپ نے کوئی چلہ تو دیا نہیں۔ میں نے کہا، اگر میں چلہ دے دوں تو ان کو کون پڑھائے گا؟ کہنے لگا، ان کو خدا پڑھائے گا۔ بھائی اتنی سادگی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا ہر ایک کو خود نہیں پڑھاتا، اس نے پڑھانے کے اسباب بنائے ہیں۔ جو وقت نکال کر باہر جاتے ہیں، وہ بھی مبلغ ہیں، جو اپنی جگہ رہ کر اصلاح کرتے ہیں، وہ بھی مبلغ ہیں،ا وراصل جہاد اور تبلیغ قرآن پاک کی تعلیم ہے، اوراس کے مدرسے قائم کرنا۔ باقی ان کے شعبے ہیں۔ ( ذخیرۃ الجنان ۸/۴۵)

جان و مال کی حفاظت 

مومن مرد ہو یا عورت، ان کے لیے شرعاً حکم ہے کہ جہاد کی حالت کے علاوہ بھی اپنی جان کی حفاظت کرے۔ یہ جان کسی کی ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور امانت کی حفاظت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشی حرام ہے اور خود کشی کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنی جان ضائع کی ہے، کسی کا میں نے کوئی نقصان نہیں کیا۔ بھائی، یہ جان تیری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ جب میدان جہاد میں اللہ تعالیٰ کے دشمن کے مقابلے میں ہو، لڑائی جاری ہو تو پیٹھ پھیرنا حرام ہے۔ لڑنا ہے، اپنا تحفظ کر کے۔ اور عام حالات میں بلاوجہ جان ضائع کرنا حرام ہے۔ اس سلسلے میں فقہی طور پر چند مسائل سمجھ لیں۔ سخت سردی کا موسم ہے اور آدمی کو سردی سے بچاؤ کی طاقت بھی حاصل ہے، مثلاً گرم لباس پہننے کی، گرم جگہ میں رہنے کی، مگر وہ سستی کرتا ہے اور سردی سے بچتا نہیں ہے اور اس کو بخار ہو جاتا ہے، نمونیہ ہو جاتا ہے یا کوئی تکلیف ہو جاتی ہے تو یہ بیمار بھی ہوگا اور گنہگار بھی ہوگا، اس لیے کہ اس نے رب تعالیٰ کی امانت کی حفاظت نہیں کی۔ اسی طرح سخت گرمی ہے اور یہ گرمی سے بچنے کی طاقت رکھتا ہے، مگر کوشش نہیں کرتا۔ تکلیف ہو گئی ہے تو گنہگار ہوگا، اس لیے کہ اس نے رب تعالیٰ کی امانت کی حفاظت نہیں کی۔ اسی طرح اگر کوئی مرد یا عورت بوڑھا یا جوان سڑک کراس کرنا چاہتا ہے تو اسے اچھی طرح دیکھ کر گزرنا چاہیے تاکہ وہ بس وغیرہ کے نیچے نہ آ جائے۔ اگر بے احتیاطی سے گزرا اور کسی شے کے نیچے آ کر مر گیا تو یہ گنہگار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی مرد یا عورت ضرورت زیادہ جان بوجھ کر کھا لیں کہ جس کو ہضم نہ کر سکیں اور بدہضمی ہو جائے، تکلیف ہو جائے تو یہ گنہگار ہیں کہ انھوں نے رب تعالیٰ کی امانت میں خیانت کی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اتنا تھوڑا کھاتا ہے کہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتا، نماز نہیں پڑھ سکتا، روزہ نہیں رکھ سکتا تو یہ گنہگار ہے۔ اس کو اتنا کھانا چاہیے کہ جس سے جسم کی قوت برقرار رہے اور یہ نماز پڑھ سکے اور روزہ رکھ سکے۔ 

اور جس طرح جان کی حفاظت ضروری ہے، اسی طرح سامان، مال کی بھی حفاظت ضروری ہے۔ شریعت نے ہر طرح کی ہدایت دی ہیں۔ عورتیں گھروں میں اپنا سامان رکھتی ہیں، مثلاً زیور ہے، رقم ہے یا اور کوئی قیمتی چیز ہے تو اس کو حفاظت کے ساتھ سنبھال کر رکھیں اور بچوں کو بھی نہ دکھائیں، کیونکہ بچوں کی بھی طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ اگر بے احتیاطی کی وجہ سے نقصان ہو گیا تو نقصان الگ اور گناہ الگ، اس لیے کہ اس نے اپنی چیز کی حفاظت نہیں کی۔ کھلے طور پر زیور رکھنا، گھڑی رکھنا یا کوئی قیمتی چیز رکھنا کہ جس کے آنے جا نے والی عورتیں دیکھیں یا بچے دیکھیں اپنے یا غیر، یہ سخت گناہ ہے۔ عورتیں پروا نہیں کرتیں، پھر جب چیز ضائع ہو جاتی ہے تو ہر ایک پر شک کرتی ہیں اور الزام لگاتی ہیں کہ فلاں آیا تھا اور فلاں آئی تھی۔ اس طرح شک کرنا اور الزام لگانا بھی گناہ ہے۔ ..... اپنی چیز کی حفاظت کرو جس طرح دوسرے سامان کی حفاظت کرنی ہے۔ اسی طرح جب مسجد میں آؤ تو اپنے جوتوں کی بھی حفاظت کرو۔ اگر حفاظت نہ کی اور چوری ہو گئی تو جوتی بھی گئی اور گناہ بھی لکھا گیا۔ دیکھو میرا جوتا کافی پرانا ہے، کئی سال ہو گئے ہیں بنوائے ہوئے، اس کو جو لے جائے گا، بڑا بے وقوف ہوگا، لیکن میں اس کی بھی حفاظت کرتا ہوں محض اس لیے کہ حکم ہے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے: اجعل نعلیک تحت عینیک، اپنی جوتیاں آنکھوں کے سامنے رکھنا یعنی ان کی حفاظت کرنا۔ اسی طرح کمبل چادر وغیرہ کوئی بھی قیمتی شے ہے، اس کی حفاظت کرو۔ بعضے غافل قسم کے نمازی وضو کرتے وقت گھڑی اتار کر رکھ دیتے ہیں، عینک اتار کر رکھ دیتے ہیں، پھر جب کوئی اٹھا کر لے جائے تو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ... حدیث پاک میں آتا ہے کہ جس وقت تم گھر میں داخل ہو تو دروازہ بند کر دو۔ کھلا ہوگا تو کتا بلا اندر آئے گا۔ شریعت نے تمام چیزیں تفصیلاً بیان فرمائی ہیں تاکہ تمہیں کسی بھی مرحلے میں تکلیف نہ پہنچے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۱۴۸ تا ۱۵۱)

جنات اور توہمات

بعض جنات شرارتی ہوتے ہیں، وہ انسانوں کو تکلیف بھی پہنچاتے ہیں اور یاد رکھنا! مسلمان کو اتنا ضعیف الاعتقاد نہیں ہونا چاہیے کہ تھوڑی سی تکلیف آئے تو کہے مجھے جنا ت چمٹ گئے ہیں۔ خصوصاً عورتیں بڑی وہمی ہوتی ہیں کہ تھوڑی سی تکلیف لمبی ہو جائے تو کہتی ہیں کہ کسی نے میرے اوپر جادو کر دیا ہے اور گھر میں کوئی عورت آ کے چلی جائے اور اس کے بعد کوئی تکلیف ہو جائے تو فوراً اس سے کڑی ملائیں گی کہ فلاں پھیرا مار گئی ہے جس کی وجہ سے یہ تکلیف آئی ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ کسی کے آنے سے تکلیف آئے۔ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔ جنات کے چمٹنے اور جادو سے انکار نہیں ہے، مگر سو میں سے ایک آدھ واقعہ جنات کا اور ایک آدھ واقعہ جادو کا ہوتا ہے۔ اتنا نہیں جتنا لوگوں نے ذہن بنا لیا ہے اور ہر معاملے کو اس کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا ہے۔ حاشا وکلا۔ یہ شرک کی ایک قسم ہے۔ ان توہمات سے بچو۔ مسلمان کا عقیدہ بڑا پختہ ہونا چاہیے۔ تکلیف سے کون بچا ہوا ہے؟ تکلیفیں بڑوں کو بھی ہوتی ہیں، بچوں کو بھی ہوتی ہیں۔ ہماری خوراک کیا ہے اور کیسی ہے! کوئی چیز کھری ملتی نہیں، پھر صحت بھی ایسی ہی ہوگی۔ طبعی طور پر تکلیفیں انھی چیزوں کا نتیجہ ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۱۷۰، ۱۷۱)

یاد رکھنا کہ شرک کی بڑی قسمیں ہیں۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ الشرک اخفی من دبیب النمل، شرک کی بعض قسمیں چیونٹی کی چال سے بھی باریک ہوتی ہیں اور یہ شرک عموماً عورتوں میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً کسی عورت کو تکلیف ہو گئی تو کہے گی کہ فلاں عورت ہمارے گھر سے ہو کر گئی ہے جس کی وجہ سے میں بیمار ہو گئی ہوں۔ فلاں آئی تھی، اس لیے مجھے کھانسی ہو گئی ہے۔ فلاں عورت آئی تھی، اس لیے میرا بچہ مر گیا ہے۔ فلاں آئی تھی تو یہ ہو گیا۔ فلاں کا سایہ پڑ گیا تو یہ ہو گیا۔ یہ سب شرک کی قسمیں ہیں اور اس عقیدہ سے نماز روزے سب برباد ہو جاتے ہیں۔ کسی کے آنے جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بیٹیو! مسئلہ اچھی طرح سمجھ لو۔ بیماری تندرستی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ نظر کا لگ جانا بھی حق ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں مگر ہر بیماری کی کڑی اس سے ملانا کی فلاں آئی تھی تو یہ ہو گیا، یہ غلط اور شرک ہے۔ طبعی طور پر بیماریاں بھی ہوتی ہیں جو بڑوں کوبھی ہوتی ہیں بچوں کو بھی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شفا دیتے ہیں، خواہ مخواہ ہر بات پر کہنا کہ فلاں کی نظر لگ گئی اور عورتیں پھر کر گئی ہیں، توبہ توبہ۔ اللہ تعالیٰ شرک سے بچائے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۵۳)

اہل سنت والجماعت کا یہ نظریہ ہے کہ بسااوقات جنات انسان کے وجود میں داخل ہو کر اس کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں، لیکن جنات کی بیماری اتنی عام نہیں ہے جتنا ان فراڈیوں نے، فالوں اور تعویذ گنڈے والوں نے لوگوں کا ذہن بگاڑا ہوا ہے۔ ہر ایک کو کہتے ہیں کہ تجھ پر سایہ ہے اور جادو ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مسلمان کو اتنا وہمی نہیں ہونا چاہیے۔ سو مریضوں میں سے ایک دو ایسے ہوں گے جن پر جنات کااثر ہو، باقی سب طبعی بیماریاں ہیں۔ کوئی شے ہمیں خالص ملتی نہیں، خوراک ہماری کھاد والی ہے۔ دودھ مرچ اور نمک تک میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ پھر صحت کس طرح قائم رہے گی؟ بالکل غلط فہمی کا شکار نہ ہونا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے سمجھ دار اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ کچھ ویسے ذہن بگڑے ہوئے ہیں اور کچھ ان ٹھگی باز تعویذ والوں نے بے ایمان بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے۔ (ذخیرۃ الجنان، ۶/۱۶۲)

عورتوں کے لیے اجر و ثواب

عورتوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مسئلہ پیش کیا۔ کہنے لگیں، حضرت! اجر وثواب تو سارا مرد لے گئے، ہمارے لیے کیا بچا ہے؟ کیونکہ نیکی کے جتنے اہم کام ہیں، وہ تو سارے مرد کرتے ہیں۔ مثلاً مرد امام بنتے ہیں، اذان مرد نے دینی ہے جس کے ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں الگ ہیں اور آواز بلند کرنے کی نوے نیکیاں ہیں اور تکبیر کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں الگ ہیں اور آواز بلند کرنے کی ساٹھ نیکیاں ہیں۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے من اذن فہو یقیم، جو اذان دے، تکبیر وہی کہے، یہ اس کا حق ہے۔ جب تک اذان دینے والے کسی کواجازت نہ دے، دوسرا شخص تکبیر نہیں کہہ سکتا۔ اور جہاد بھی مردوں نے کرنا ہے۔ اس کا بھی بڑا درجہ ہے۔ قاضی اور جج بھی مرد بنتے ہیں اور جو قاضی اور جج حق کے فیصلے کرے، اس کا بھی بڑا درجہ ہے۔ تو امام، مجاہد، قاضی جج مرد بن گئے، عورتوں کے لیے کیا بچا ہے؟ جھاڑو پھیرنا، کپڑے دھونا، بچوں کا پیشاب صاف کرنا، ناک صاف کرنا رہ گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں نے تو سارا اجر مفت میں حاصل کر لیا ہے، بغیر کچھ کرنے کے۔ وہ اس طرح کہ جس عورت کا خاوند امام ہے، جتنا اجر اس کو ملے گا، اس کی بیوی کو بھی اتنا اجر ملے گا۔ اور جس کا خاوند موذن ہے، جتنا اجر اس کو ملے گا، اس کی بیوی کو بھی اتنا اجر ملے گا۔ جتنا اجر مجاہد کو ملے گا، اس کی بیوی کو بھی اتنا اجر ملے گا، کیونکہ عورت اپنے خاوند کی معاون ہے۔ اس کے گھر کا خیال رکھتی ہے، اس کے بچوں کی حفاظت کرتی ہے، روٹی پکا کر دیتی ہے، کپڑے دھو کر دیتی ہے۔ تو اپنے خاوند کے کاموں میں عورت کا دخل ہے، خدمت کی وجہ سے رب تعالیٰ اس کو برابر کا ثواب عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتے، لہٰذا عورتوں کو چاہیے کہ گھر کے کام ثواب سمجھ کر کریں۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۶۵)

ایمان والوں کو ایمان والی عورتیں بھی ملیں گی اور حوریں بھی ملیں گی اوردنیا کی عورتیں بھی ملیں گی اور ان دنیا کی عورتوں کا درجہ حوروں سے زیادہ ہو گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ حوریں کہیں گی کہ دیکھو! ہم جنت کی مخلوق ہیں، کوئی کستوری سے پیدا ہوئی ہوگی، کوئی کافور سے، کوئی عنبر سے اور کوئی زعفران سے، تو تم خاکی مخلوق ہو، تمہارا درجہ ہم سے زیادہ ہے اور تمہارا حسن ہم سے بھی زیادہ ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ عورتیں کہیں گی: ’’بصلواتنا وصیامنا‘‘ اس لیے کہ ہم روزے رکھتی تھیں، نمازیں پڑھتی تھیں۔ تمہیں کیا تکلیف ہوتی ہے؟ تم تو یہاں مفت کی کھاتی ہو۔ ان نمازوں اور روزوں کی برکت سے اور دین کے سلسلے میں مشکلوں میں پڑنے کی برکت سے ان عورتوں کی حوروں کے اوپر سرداری ہو گی۔ ان کا حسن و جمال حوروں کے حسن و جمال کو مات کرے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ عوتیں مومن ہوں، نماز اور روزے کی پابند ہوں۔ کتنی بڑی سہولت ہے عورتوں کے لیے کہ وہ گھر میں ہی نماز پڑھیں۔جس عورت کا خاوند نمازی ہے، روزہ رکھتا ہے، وہ مسجد میں جا کر باجماعت نماز پڑھتا ہے اور بیوی گھر میں نماز پڑھتی ہے، اس کی بیوی کو وہی ثواب ملتا ہے جو خاوند کو ملا ہے۔ اس عورت نے مسجد میں قدم بھی نہیں رکھا مگر ثواب برابر۔ بیوی اپنے خاوند کو روٹی پکا کر دیتی ہے، کپڑے دھوتی ہے اور خاوند کے گھر کی نگرانی کرتی ہے تو خاوند کے ثواب میں بیوی کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ بیبیو، بیٹیو! مسئلہ یاد رکھنا کہ نفلی نمازوں اور نفلی روزوں سے گھر کے کاموں کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۱/۷۳)

وراثت کی تقسیم

لوگ وراثت کے مسائل میں بہت کوتاہی کرتے ہیں۔ بیٹیوں کا حق نہیں دیتے، بہنوں کا حق نہیں دیتے، پھوپھیوں کا حق نہیں دیتے اور بڑے عجیب قسم کے حیلے بہانے کرتے ہیں۔ لڑکیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی تعلیم پر روپیہ خرچ کیا ہے، شادی پر بڑی رقم خرچ کی ہے۔ بھائی سوال یہ ہے کہ کیا لڑکے کی تعلیم مفت میں ہو گئی ہے اور کیا اس کی شادی پر رقم خرچ نہیں کی جاتی؟ کبھی یہ بہانہ کرتے ہیں کہ بچیاں عیدیں اور شب قدر لے جاتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے مگر لڑکے بھی تو تمہاری جیب کاٹتے ہیں، وہ کب معاف کرتے ہیں؟ اور کبھی کہتے ہیں کہ لڑکیوں نے اپنا حق معاف کر دیا ہے۔ بھائی، معاف کس طرح کیا ہے! اس کے نام مکان کی رجسٹری، نہ زمین کی رجسٹری، نہ انتقال نہ ان کا قبضہ۔ معافی کس چیز کی ہوئی ہے؟ پہلے قانونی طور پر ان کے نام رجسٹری کراؤ، انتقال کراؤ، ان کو قبضہ دو، سال دو سال وہ استعمال کریں، زمین کی پیداوار کھائیں، ان کو ان کے منافع معلوم ہوں، پھر معاف کریں تو ٹھیک ہے۔ خالی معافی کا کوئی معنی نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریز دور سے جس طرح زمین منتقل ہوتی چلی آ رہی ہے، اسی طرح ہم تو ان پر قابض ہیں۔ اگر لڑکیوں کا حصہ نہیں دیا تو بڑوں نے نہیں دیا۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ انگریز دور میں وراثت شرعی قاعدے کے مطابق تقسیم نہیں ہوتی تھی، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر انگریز دور میں لڑکیوں کو حق نہیں دیا گیا تو کیا ان کا حق ختم ہو گیا ہے، ضائع ہو گیا؟ زمینیں تمہارے پاس موجود ہیں اور ان میں ان کا حق بھی موجود ہے، وہ ان کے حوالے کرو۔ اگر بڑوں نے اپنی قبریں خراب کی ہیں تو تم اپنی قبریں خراب نہ کرو۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۳۵۷، ۳۵۸)

بعض جذباتی قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور جذبات میں آ کر غلط قدم اٹھاتے ہیں۔ ضلع گجرات سے ایک صاحب آئے۔ بظاہر بڑے دیندار معلوم ہوتے تھے۔ ان کی بیوی فوت ہو گئی تھی اور اولاد نافرمان تھی اور ان کے پاس زمین تھی۔ کہنے لگے میں ساری زمین مدارس اور مساجد کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ دیکھو بھائی، تمہاری اولاد ہے۔ فرماں بردار ہے یا نافرمان، جب تک وہ مسلمان ہیں، تم ان کو وراثت سے محروم نہیں کر سکتے۔ کہنے لگے کہ میں تو دین کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ تو تمہاری گفتگو سے معلوم ہو رہا ہے کہ تم دین کے لیے وقف کرنا چاہتے ہو اور اولاد کو محروم کرنا چاہتے ہو، یہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے۔ شریعت تمھیں تیسرے حصے تک اجازت دیتی ہے، چاہے مسجد کے لیے وقف کرو یا مدرسے کے لیے وقف کرو، چاہے یتیم خانے کے لیے وقف کرو یا کسی غریب کو دے دو، مگر ساری جائیداد نہیں دے سکتے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۳۴، ۳۵)

ماں باپ کے حقوق

فتح الباری وغیرہ تمام کتابوں میںیہ مسئلہ لکھاہوا ہے اور اس پر علماء اور محدثین کا اتفاق ہے کہ جہاد اگر فرض عین ہو تو پھرماں باپ کی اجازت کے بغیر اس میں شریک ہوسکتا ہے۔ اورفرض عین اس وقت ہوتا ہے کہ جس وقت ملک پر براہ راست حملہ ہو جائے اور اگر دوسرے علاقے میں جاکر لڑناپڑے تو پھر ماں باپ کی اجازت کے بغیرجاناحرام ہے۔ ایسا آدمی اگرمرا تو شہید تو ہوگا لیکن فوراً جنت میں نہیں جا سکتا۔ کچھ عرصہ اس کو اعراف میں رہنا پڑے گا۔ بہت سارے نوجوان جذبات میں آکر ماں باپ کی کوئی قدر نہیں کرتے آنکھیں بندہونے کے بعد پتہ چلے گا کہ ماں باپ کا کیاحق ہے۔ آج کل ماں باپ کے سامنے بعض دفعہ اولاد ایسے باتیں کرتی ہے جیسے اپنے دشمن کے ساتھ بات کررہا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک کا حکم ہے کہ ان کے سامنے اف بھی نہ کرو۔ رئیس التابعین حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ ماں باپ کے سامنے اولاد کو ایسے بات کرنی چاہیے جیسے سخت مزاج آقا کے سامنے غلام بات کرتاہے۔ لیکن آج اولاد اچھل اچھل کر حملہ کرتی ہے ۔ تجربہ شاہد ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ، ۷/۸۴)

نہی عن المنکر کے آداب و شرائط

تبلیغ کرو اورنرمی کے ساتھ سمجھاؤ۔ یہ نہیں کہ دوسروں کے سر پر ڈنڈا مارو اورکہو اوبے نماز! اوبے روز! اوشرابی! اس طرح تو لڑائی شروع ہوجائے گی۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیں تشریف فرما تھے۔ ایک آدمی آیا .... اور مسجد میں پیشاب کرناشروع کردیا۔ لوگوں نے کہا او، کیا کر رہا ہے؟ اس کے پیچھے دوڑے۔ آپ نے فرمایا، اس کو نہ روکو، کرنے دو۔ کیوں کرنے دو؟ وجہ یہ ہے کہ جب اس نے پیشاب شروع کر دیا ہے تو روکنے سے اسے تکلیف ہوگی اور دوسر ی وجہ یہ ہے کہ تم اس کے پیچھے دوڑو گے، وہ آگے دوڑے گا تو ساری مسجد کو گندا کرے گا۔ اب تو ایک جگہ ہے،یہاں سے صاف کرنا آسان ہے۔ جب اس نے پیشاب کرلیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوبلایا اور فرمایا: ’’دیکھو یہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے ذکرکے لیے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کے لیے ہیں، نیکیوں کے لیے ہیں، پیشاب پاخانے کے لیے نہیں ہیں۔‘‘ نرمی کے ساتھ اس کو سمجھایا اور جو صحابہ کرامؓ پیچھے دوڑے تھے، ان کوبھی تنبیہ فرمائی: ’’انما بعثتم میسرین لا معسرین‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں نرمی کے لیے بھیجا ہے، سختی کے لیے نہیں بھیجا۔ تو عزیزو! مسئلہ بتاؤ، سمجھاؤ نرمی کے ساتھ، ڈانگ نہ مارو۔ سختی کرنے سے فتنہ فساد ہوگا۔ (ذخیرۃ الجنان ۷/۳۰۸)

عزیزو، برخوردارو! کسی سے جھگڑا نہ کرنا۔ کافر کافر کہنا، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کافر تو کافر ہی ہوتا ہے، مگر چڑانے کے لیے، جس طرح جذباتی ساتھی کرتے ہیں، کافر کافر شیعہ کافر، یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کافر ہیں اور ان کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن چڑانا بری بات ہے۔ ہندو کافر ہیں، سکھ کافر ہیں، عیسائی کافر ہیں، یہودی کافر ہیں، پارسی کافر ہیں، ذکری کافرہیں اور یہ پاکستان میں موجود ہیں۔ رافضی بھی کافر ہیں، پاکستان کافروں سے بھرا ہوا ہے۔ مسلمان تو نام کے ہیں، کام کا مسلمان تو کوئی نہیں ہے، صرف چند گنتی کے ہیں۔ ( ذخیرۃ الجنان ۸/۱۲۹)

میں نوجوانوں کو کہا کرتا ہوں کہ بھئی، بات سنو۔ اس موقع پر ہر طبقہ ذرا جوش میں ہوتا ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو جوش میں غلط نعرے بھی لگاتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا غلط نعرہ سنو تو خاموشی اختیار کرو۔ لڑائی نہ کرو۔ لڑائی بری چیز ہے۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ باطل فرقوں کی طرف سے، کم عقل لوگوں کی طرف سے شرارتی بندے بھی مل جاتے ہیں۔ وہ ایجنٹ ہوتے ہیں۔ کسی پر پتھر پھینکا، کسی سے تو تو میں میں ہوتی ہے تاکہ جھگڑا پیدا ہو۔ اس وقت ملک کے اندر اندرونی تخریب کاریاں بھی ہیں، بیرونی تخریب کاریاں بھی ہیں۔ میں نوجوانوں کے سامنے عرض کرتا ہوں، اگر غلط جوشی کا نعرہ سنو تو خاموش ہو جاؤ۔ جھگڑا، فتنہ فساد شروع نہ کرو۔ ایسے جلوسوں کو بدعت سمجھو، گناہ ہے۔ شرکت نہ کرو، تعاون نہ کرو، لیکن کسی سے جھگڑو بھی نہیں۔ لڑائی بھی نہ کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودی بھی ہوتے تھے، عیسائی بھی ہوتے تھے، بت پرست اور مجوسی بھی ہوتے تھے، آتش پرست بھی ہوتے تھے، اپنا اپنا ساز بجاتے تھے، لیکن کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرنا۔ (خطبات امام اہل سنت ۲/۲۷۰، ۲۷۱)

اگر تمھیں اللہ تعالیٰ نے ہاتھ سے روکنے کی طاقت عطا فرمائی ہے، تمہارے پاس کوئی منصب ہے تو روکو، کیونکہ ہاتھ سے تو حکمران ہی روک سکتے ہیں، عام آدمی تو ہاتھ سے نہیں روک سکتا۔ اگر طاقت ہے تو ہاتھ سے روکے اور اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، مگر آج کا ماحول ایسا ہے کہ زبان سے روکنا اور بتانا کہ یہ برائی ہے، بڑا مشکل ہے۔ فقہاے کرامؒ نے یہ مسئلہ لکھا ہے اور بجا لکھا ہے کہ جس مقام پر حق بیان کرنے کے بدلے شر اور فتنے کا شدید خطرہ ہو، وہاں پر خاموشی بہتر ہے۔ آج تو ہماری مجالس ہی بری ہیں، الا ماشاء اللہ۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۹۳)

حدود وتعزیرات کے جتنے بھی احکام ہیں، یہ افراد کے لیے نہیں ہیں۔ قرآن پاک میں آتاہے: السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما ( المائدۃ ۶/۳۸) چو ر مرد اور چور عورت، پس تم ہاتھ کاٹ دو ان کے۔ عام آدمی میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ چور کو پکڑکر اس کے ہاتھ کاٹ دے۔ غیر شادی شدہ مردو عورت زنا کریں تو ان کو کوڑے مارنے کا حکم قرآن میں مذکور ہے، مگر حکومت کے بغیر کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ کوڑے مارے۔ یہ حکومت کاکام ہے۔ اسی طرح یہود ونصاریٰ اور دیگر کافروں سے لڑنا انفرادی کام نہیں ہے۔ یہ اجتماعی طورپر حکومت کا کام ہے، گویا کہ مسلمانوں کے پاس اتنا اقتدار ہونا چاہیے کہ جس اقتدار کے ذریعے کافروں کی سرکوبی کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے ۔ اس لیے غلط فہمی کا شکار نہ ہونا ۔ یہ حکومت کا کام ہے، تمہیں زبان سے سمجھانے کا حق ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۱/۲۳۴، و ۸/۷۷)

جہاد

بعض اوقات اہل ایمان کافروں کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لے سکتے۔ کافروں کو جب بھی موقع ملا ہے، انھوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کمی نہیں کی اور ان کو وہاں سے نکالا ہے۔ اس وقت برما میں مسلمانوں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ اگرچہ برما میں مسلمانوں کی تعداد خاصی ہے، مگر صحیح معنی میں مسلمان کم ہیں، بھرتی زیادہ ہے۔ وہاں بدھ مذہب کے لوگ ان کو کلمہ پڑھنے سے روکتے ہیں اور اپنے ساتھ مسلمان لڑکیوں کا نکاح کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ نمازیں پڑھنے سے بھی روکتے ہیں۔ کچھ بے چارے بھاگ کر بنگلہ دیش چلے گئے ہیں او رکچھ وہیں مصیبتیں جھیل رہے ہیں اور دوسرے ملکوں کے مسلمان بے غیرت بنے ہوئے ہیں، خصوصاً حکمران اور اپنے فرض کو ادا نہیں کر رہے۔ فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’امراۃ سبیت بالمشرق وجب علی اہل المغرب ان یخلصوہا‘‘، اگر کوئی مسلمان عورت مشرق کے کونے میں کافروں کے ہاتھوں قید ہو جائے تو مغرب کی طرف تمام رہنے والوں پر واجب ہے کہ اس کی مدد کریں اور اس کو رہا کرائیں۔ آج ہمارے پڑوس کشمیر، افغانستان، بوسنیا، برما میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، مگر اس وقت مسلمانوں سے بڑا بے غیرت کوئی نہیں ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کا حکمران طبقہ جہاں کہیں بھی ہے، بڑا بے غیرت ہے او ر اتنے بے غیرت ہیں کہ آواز تک بلند کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اپنا کوئی نقصان ہو تو چیختے چلاتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کے لیے اتنی آواز بھی نہیں نکال سکتے کہ اے ظالمو! ان مظلوموں پر ظلم نہ کرو۔ اس وقت برما میں بہت ظلم ہو رہا ہے، مگر کوئی ان کی خبر لینے والا نہیں ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۳/۴۲۶، ۴۲۷)

دار الاسلام اور دار الحرب کی تعریف میں فقہی طور پر خاصا اختلاف ہے۔ دار الاسلام کی ایک تعریف یہ کرتے ہیں کہ دار الاسلام اسے کہتے ہیں کہ جہاں من وعن یعنی اول تا آخر اسلامی قانون نافذ ہوں۔ اس تعریف کے مطابق پوری دنیا میں صرف وہ خطہ دار الاسلام ہے جو طالبان کے پاس ہے جو تقریباً ستائیس صوبے ہیں بتیس صوبوں میں سے۔ باقی جو پچاس یا پچپن ملک ہیں بمع سعودیہ کے، کوئی بھی دار الاسلام نہیں ہے کیونکہ کسی بھی اسلامی ملک میں اول تا آخر اسلامی قوانین نافذ نہیں۔ اور دار الحرب اسے کہتے ہیں کہ جہاں مسلمان اپنے اسلامی فرائض ادا نہ کر سکیں۔ اس تعریف کے مطابق صرف چین اور روس اس زمرے میں آتے ہیں جو مسلمانوں کو کوئی عبادت ادا نہیں کر دیتے تھے، مگر اب وہاں بھی کرنے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں مسلمانوں کو نماز روزہ اور حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے روکا جاتا ہو۔ تو اس وقت صحیح معنی میں دارالحرب بھی کوئی نہیں ہے۔ ایسے ملکوں کو دارالامن کہہ لویا دارالکفر کہہ لو۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد تمام ملکوں سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا میں مسلمانوں کی تعداد بیس کروڑ ہے اور ہندوستان میں اٹھائیس کروڑ ہے۔ ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کو نماز روزے سے منع نہیں کرتی، البتہ قربانی کے مسئلہ پر جھگڑا کرتی ہے، مگر وہ تو تھرپارکر کے علاقہ میں بھی جھگڑا ہوتا ہے جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے، حالانکہ وہ پاکستان کا حصہ ہے۔ وہاں بھی قربانی نہیں کرنے دیتے۔ وہاں بڑ اگوشت نہیں ملے گا۔ بے شک اب جا کر دیکھ لو۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۴، ۲۵۔ ۸/۱۲۵)

جنرل ضیاء الحق مرحوم کی صدارت کا آخری دور تھا۔ ۱۹۸۸ء میں انھوں نے ایک مشائخ کانفرنس منعقد کرائی اور اس کانفرنس کی صدارت کے لیے حضرت شیخ الحدیث ؒ کو دعوت دی گئی۔ آپ نے انکار کر دیا۔ ایک دن صبح کے وقت حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن ہمیں مشکوٰۃ شریف کا سبق پڑھا رہے تھے کہ کمشنر گوجرانوالہ کا فون آیا اور اس نے کہا کہ ہوائی جہاز کے ذریعے حضرت کے سفر کے تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور ان کے ساتھ اور بھی جتنے آدمی جانا چاہیں، جا سکتے ہیں۔ حضرت شیخ اس وقت اسباق پڑھا رہے تھے۔ جب اسباق سے فارغ ہوئے تو مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ نے کمشنر صاحب کا پیغام آپ تک پہنچایا۔ آپ نے جواب میں فرمایا: میں حضرت مدنی ؒ کا شاگرد ہوں۔ تمہاری مشائخ کانفرنس میں نہیں جاؤں گا۔ (روایت: حافظ محمد مشتاق ، ہرنولی، میانوالی۔ فاضل جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) 

یہی چال آج کل افغانستان میں چل رہی ہے اور طالبان کوکہتے ہیں کہ وسیع البنیاد حکومت تشکیل دو کہ تمام فریقوں کوحکومت میں شامل کرویعنی طالبان نے جن مرتدوں کو نکالا ہے ان کو واپس بلاکر شریک اقتدار کریں ۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم، ان شاء اللہ وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ جید اور سمجھ دار علماء کرام ان میں موجود ہیں اگر بالفرض انہوں نے ایسا کیا تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے کہ جس گند کو انہوں نے باہر پھینکا پھر اس کو شامل کر لیا اور اس وقت اقوام متحدہ جو بین الاقوامی خبیث اور غنڈہ ہے ، وہ ان کو اس بات پر آمادہ کررہا ہے کہ مشترکہ حکومت تشکیل دو تاکہ حق وباطل کاملغوبہ بن جائے اورجو خالص اسلام نافذ ہے وہ نہ رہے اوریہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ دنیا میں ہمیشہ حق کا راستہ روکنے کے لیے عجیب وغریب ہتھکنڈے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ، ۶؍۲۳۸)

حدیث قدسی ہے ،اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں ’’من عادٰٰی لی ولیا فود بارزتہ بالحرب‘‘ جو کوئی میرے دوست کے ساتھ دشمنی کرے تو میری طرف سے اس کو الٹی میٹم ہے جنگ کا ۔ یاد رکھو! کوئی آدمی اللہ والے کے ساتھ عداوت کر کے سکھ میں نہیں رہا ۔بہاگل پور صوبہ بہار میں مشہور مقام ہے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ وہاں تقریر کرنے کے لیے گئے ۔اس وقت لیگ اور کانگریس کا بڑا زور تھا ۔ ان بہاریوں نے کہا ہم تمہاعی تقریر نہیں سنتے ۔فرمایا تھیک ہے نہ سنو مگر میں اپنے دوستوں کو مل تو لوں ۔ اسٹیشن پر حضرت مد نی رحمہ اللہ کی داڑھہ پر انھوں نے شراب ڈالی۔آج جو بہاری ذلیل ہو رہے ہیں یہ اس اللہ کے ولی کی ناقدری کا نتیجہ ہے۔نہ بنگلہ دیش ان کو برداشت کرتا ہے اور نہ پاکستان۔نظریات کا اختلاف ہوتا رہتا ہے ۔وہ کرو لیکن توہین کا کیا مطلب ہے ۔تو انھوں نے اللہ کے ولی کی داڑھی میں شراب ڈالی تھی ،آج در بدر اور ذلیل و خوار ہو رہے ہیں تو فرمایا من رادٰی لی ولیا فقد بارزتہ بالحرب بخاری شریف کی روایت ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دشمنی کوئی آسان تو نہیں ہے ۔ جو ان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے فان اللہ عدو للکافرین کافعون کے ساتھ رب کی دشمنی ہے ۔ ولقد انزلنا اور البتہ تحقیق کے ساتھ نازل کی ہیں ہم نے تیری طرف آیات بینات۔آیتیں صاف صاف،دیکھو بزرگوں کی بات آگئی ہے اصولی طور پر حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ تقسیم ملک کے قائل نہیں تھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ اس میں بہت ساری خرابیاں ہوں گی ،اور حقیقت ہے کہ دس سال کے بعد تمہیں بھی اقرار کرنا پڑے گا ۔جس وقت پاکستان بن گیا ۔مولانا مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ، مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم نے رفیع احمد قدوائی کو نمائندہ بنا کر بھیجا۔ محمد اسماریل نواب آف چتاعی کے پاس یہ اس وقت ہندوستان میں مسلم لیگ کے بہت بڑے لیڈر تھے کہ تم مقدمہ جیت گئے اور ہم ہار گئے۔ مگر ایک بات ہماری مان کو کیونکہ وہاں تک ہماری رسائی نہیں ہے اور تو صوبے کا امیر ہے اس واسطے ہماری بات وہاں تک پہنچا دو ۔ دہلی تک رقبہ لینا اور بنگال نہ لینا ، یہ تمہارے ساتھ تیس سال بھی نہ رہے گاجو بزرگوں نے کہا تھا وہ اسی طرح حقیقت ثابت ہواہے ان بزرگوں نے جو کہا ہے وہ اسی طرح ہوا ہے ۔ ان کا وہ خطبہ جو انھوں نے سہارن پور میں دیا تھا وہ پاکستان میں طبع نہیں ہو سکتا۔میں خود اس خطبہ میں موجود تھا اپنے کانو ں سے تقریر سنی ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ہندوستان میں مسلمان کی خیر نہیں اور پاکستان میں اسلام نہیں ہو گا ۔ جو فرمایا حق فرمایا۔ وہی کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ۔ (ج اول ص:۲۳۵تا ۲۳۶)

اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے تقریباً پچپن ملک ہیں۔ ان میں سے صرف طالبان کا ملک ہے جس میں قرآن وسنت کاقانون نافذ ہے اوراللہ تعالیٰ کے دین کا غلبہ ہے۔ ا ن کا ہر فیصلہ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کے مطابق ہوتا ہے۔ قاتل کو قصاص میں قتل کیا جاتا ہے، بدکار کو شرعی سز املتی ہے، چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ قرآن کے احکام پر پورا پورا عمل کیا جاتا ہے۔ ہر طرف سکون ہے اور کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا چمن سے قندھار جو پچھتر میل کی مسافت پر ہے، اس سڑک پر جو لوگ سفر کرتے تھے، وہاں کے قبائلی افغانی جگا ٹیکس وصول کرتے تھے۔ مختلف جگہوں پر انہوں نے اڈے بنا ئے ہوئے تھے۔ چھوٹی بڑی گاڑی ٹرک بس وغیرہ جوبھی گزرتی، ٹیکس ادا کرکے جاتی اور مجبوراً اس کو دینا پڑتا تھا۔ طالبان نے وہ سارے اڈے ختم کر دیے ہیں۔ اب وہاں کوئی کسی کو پوچھ نہیں سکتا، لیکن دشمنان دین ان کو برداشت نہیں کر رہے۔ دنیاے یورپ نے ان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ طالبان کو ان کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( ذخیرۃ الجنان ۸/۶۶)

نماز میں وسوسہ

ایک ہے وسوسہ اس پر کوئی پکڑ نہیں ۔ وسوسہ یہ ہوتا ہے کہ دل میں کوئی چیز آجائے ، قصدا آدمی اس کو لاتا بھی نہیں اور نہ ہی اس پر راضی ہو تا ہے ۔ایسے خیالات آجاتے ہیں۔ ایسی چیزوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ نہیں ہے اور اگر از خود نماز میں بھی وسوسہ آجائے، کوئی قصداً نہ لائے تو نماز پر کوئی زد نہیں پڑتی، البتہ نماز میں جب خیال آئے تو فورا نکالنے کی کوشش کرے۔ اور وسوسہ سے کوئی آدمی خالی نہیں ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی شصیت کا بخاری شریف میں قول مذکور ہے فرمایا انی لاجھز جیشی و انا فی الصلوۃ۔ بسا اوقات میں اپنا لشکر بھیجتا رہتا ہوں کہ یہ لشکر ادھر بھیجوں ، وہ لشکر ادھر بھیجوں اور میں نماز میں ہوتا ہوں۔ یعنی یہ خیا ل نماز میں آتا رہتا ہے ، چونکہ جہاد کا زمانہ تھا تو نماز میں بھی خیال آتاتھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور آپ کا معمول تھا کہ آپ نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف چہرہ کرکے بیٹھتے ، تسبیحات پڑھتے تھے اور فرضوں کے بعد اجتماعی شکل میں دعاء بھی ثابت ہے۔ نفلو ں اور سنتوں کے بعد اجتماعی دعاء ثابت نہیں ہے ،تراویح کے بعد بھی دعا نہیں ہے ، صرف فرضوں کے بعدثابت ہے ہاں جب قرآن کریم ختم ہو جائے تو اس وقت سنت ہے کہ سب مل کر دعا کریں تو ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ۔اور پھر فوراً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے کی طرف چلے گئے ۔ لوگ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہے بڑے حیران ہوئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کیا تجھے معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں جلدی چلے گئے ۔یہ آ پس میں ابھی اس قسم کی باتیں کر رہے تھے کہ تھوڑی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مصلے پر بیٹھ گئے ۔فرمایا تم نے میرے جلدی جانے پر تعجب کیا ہوگا ،سا تھ کہنے لگے جی ہاں ضرور تعجب کیا ہے ۔فرمایا تذکرت و انا فی الصلوۃ فعمایا میں نماز پڑھا رہا تھا اور مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر سونے کا ایک ٹکڑا پڑا ہواہے جو کہ غریبوں مسکینوں میں تقسیم کرنا ہے اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے اس واسطے میں جلدی جلدی گیا اور گھر والوں کو کہا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے فلاں فلاں مسکین کو فورا بھیج دو ۔ایسا نہ ہو کہ یہ ٹکڑا رات کو ہمارے گھر پڑا رہے اور رب تعالیٰ مجھ سے سوال کرے کہ غریبوں کو ان کا حق پر وقت کیوں نہیں پہنچایا۔ اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے باب قائم کیا ہے ۔التفکر فی الصلوۃ۔ اگر نماز میں کوئی خیال آجائے تو نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ ہاں البتہ ارادہ اور کوشش کرے کہ خیال نہ آئیں ، ہر آدمی کوخیال آتاہے تو اگر خیال کے طورپر کوئی چیز آئی تو اس پر گرفت نہیں ہے۔ (۱/۲۶۵تا۲۶۶)

افغانستان کے طالبان 

طالبان کی جہاد کی آواز پر تما م اہل حق کے دینی مدارس کے علما وفضلا اور طلبہ نے لبیک کہی اور عملی طو رپر جہاد میں شریک ہوئے جس کا نتیجہ آج سامنے ہے۔ تحدیث بالنعمۃ کے طور پر راقم اثیم عرض کرتا ہے کہ بحمد اللہ تعالیٰ راقم کا لڑکا مولوی قاری عزیز الرحمن شاہد افغانستان میں روسیوں کے مقابلہ میں کئی محاذوں پر لڑتا رہا اور راقم کا نواسا عمران عدیل خوست کے مقام پر شہید ہوا اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے متعدد فضلا نے جہاد میں شرکت کی اور کئی شہید ہوئے۔ (’’جسے جینا نہیں آتا اسے مرنا نہیں آتا‘‘، ہفت روزہ ضرب مومن کراچی، ۴؍ ستمبر ۹۸ء)

’میں کہتا ہوں کہ رب تعالیٰ نے توفیق دی تو طالبان حکومت کرنے میں سب سے زیادہ کامیاب رہیں گے، اگرچہ ان کو مالی پریشانیاں بہت ہیں کہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، کارخانے بند پڑے ہیں۔ اگر ان کی یہ مالی پریشانیاں ختم ہو جائیں تو ان کی حکومت بہت کامیاب رہے گی اور کامیابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باقی ملکوں کے حقہ نوش اور سگریٹ نوش لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر قانون سازی کرتے ہیں کہ ان کی زمینیں بچ جائیں، کارخانے بچ جائیں۔ عیاں را چہ بیاں۔ یہ حقیقت سب پر واضح ہے اور طالبان کو قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہدایہ فقہ حنفی کی مستند کتاب ہے جو پانچویں صدی میں لکھا گیا ہے اور صدیوں سے علما اس کو پڑھتے پڑھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اس میں شریعت کے تمام احکام مذکور ہیں۔ جو مسئلہ درپیش آئے، ہدایہ اٹھاؤ، مسئلہ دیکھو اور اس پر عمل کرو۔ ان کو قانون بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو کہ فلاں حکومت کے ساتھ لڑنا ہے یا صلح کرنی ہے ، یہ سڑک بنانی ہے اور کس طرح کی بنانی ہے، ان کے متعلق سوچتے ہیں اور خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۷۱)

دوسری طرف طالبان ہیں۔ ان میں بھی غلطیاں ہوں گی۔ آخر وہ بھی انسان ہیں، معصوم تو نہیں ہیں کیونکہ پیغمبروں کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے اور غلطی کا ہو جانا انسانی لوازمات میں سے ہے، لیکن انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ہم خدائی قانون نافذ کریں گے اور اس پر وہ عمل بھی کرتے ہیں، لہٰذا طالبان کی جو مخالفت کرے گا، وہ رب تعالیٰ کی مخالفت کرے گا۔ اور ان کا خالی دعویٰ ہی نہیں ہے، بلکہ حقیقت ہے کہ وہ خلافت راشدہ کا نظام چاہتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ اور زلزلہ ان علاقوں میں آیا ہے جہاں طالبا ن کے مخالف آباد ہیں۔ اگرچہ وہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں، ہم ان کو کافر تو نہیں کہتے، مگر وہ باغی ہیں۔ احمد شاہ مسعود بڑا قابل کمانڈر ہے، اس نے روس کے خلاف جنگ لڑی ہے لیکن اقتدار کا نشہ بہت بری چیز ہے جس کی خاطر وہ غلط راہ پر چل پڑا ہے اور اہم یہ وہم اس کے ذہن پر سوار ہو گیا ہے کہ یہ پشتو بولنے والے ہم پر قابض ہونا چاہتے ہیں، کیونکہ طالبان پشتو بولنے والے ہیں اور احمد شاہ مسعود وغیرہ فارسی بولنے والے ہیں۔ بھائی زبانوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہیں تو سارے مسلمان۔ دیکھو ہمارے ملک پاکستان میں تیس زبانین بولی جاتی ہیں، حالانکہ چھوٹا سا ملک ہے۔ اسی طرح افغانستان میں فارسی بھی ہے، پشتو بھی ہے، ترکی بھی ہے۔ مسلمان کو مسلمان ہونا چاہیے، نہ رنگوں سے فرض پڑتا ہے نہ زبانوں سے۔ یہ فضول تعصب ہے اور اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۲۷۹،۲۸۰)

مسئلہ تقلید 

بعض کم فہم لوگ اس آیت کریمہ سے تقلید کے ناجائز ہونے پراستدلال کرتے ہیں۔ اس لیے مسئلہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ تقلید کی دوقسمیں ہیں۔ ایک جائز ہے جب کہ دوسری حرام ہے۔ بعض لوگ دونوں کوآپس میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جائز کونسی ہے اورناجائز کونسی ہے؟ ۔

جائز اور ناجائز تقلید 

۱۔قرآن وسنت کے مقابلہ میں کسی کی بات ماننا ، خلفائے راشدین کے مقابلہ میں کسی شخص کے قول وفعل پرعمل کرنا۔ صحابہ کرام کے مقابلہ میں کسی کی بات ماننا اور اس کی تقلیدکرنا یہ تقلید حرام اور ناجائز ہے۔ اور اسلام میں اس تقلید کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ نہ حنفی نہ مالکی نہ شافعی نہ حنبلی۔ 

۲۔اور اگر کوئی مسئلہ صراحتاً قرآن کریم سے نہیں ملتا اورحدیث پاک میں بھی اسکی صراحت نہیں ہے اورخلفاء راشدین نے بھی اس کے متعلق کچھ نہیں فرمایا اور صحابہ کرامؓ سے بھی اسکاکوئی حکم نہیں ملتا تو ایسے مسئلے میں مجتہد کی تقلید جائز ہے۔ یعنی مجتہد اجتہاد کرکے اس کا حکم بتائے توا س حکم کو ماننا جائزہے اور اس اجتہاد کاذکر خود حدیث پاک میں موجود ہے ۔ 

حدیث پاک سے اجتہاد کا ثبوت

چنانچہ آنحضرت ﷺنے جب حضرت معاذؓ کویمن کاگورنر بناکربھیجنا چاہاتو فرمایا۔ 

  • جب تیرے پاس کوئی جھگڑا آئے گا تو، تواس کاکیسے فیصلہ کرے گا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ تعالی کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
  • آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر اللہ تعالی کی کتاب میں تجھے نہ ملے تو پھر کیاکرے گا؟ حضرت معاذؓ نے کہا کہ پھر میں سنت رسول ﷺکے مطا بق فیصلہ کروں گا۔ 
  • آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر سنت رسولﷺاور کتاب اللہ میں تجھے نہ مل سکے تو پھر کیاکرے گا؟ حضرت معاذؓ نے کہا: اجتہد برای ‘‘ پھرمیں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اوراس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا۔ 

اجتہاد میں نبی کریم ﷺکی رضا ہے

آپ ﷺنے حضرت معاذؓ کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اللہ تعالی کی حمدو ثنا ہے جس نے جناب رسول اللہ ﷺکے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطافرمائی۔ جس پر اللہ تعالی کا رسول راضی ہے۔ یہ ابوداؤد شریف کی حدیث ہے۔ اس حدیث سے صراحت کے ساتھ یہ بات ثابت ہوئی کہ جو مسئلہ قرآن وسنت میں نہ مل سکے اس میں مجتہد کا قیاس کرنا اور اپنی رائے سے اس کوحل کرنا آنحضرت ﷺکی رضا کاسبب ہے۔

مجتہدین کی اتباع

اوراہل اسلام ایسے ہی مسائل میں ائمہ کرام ؒ کی تقلید کے قائل ہیں۔ یعنی ائمہ کرام ؒ کی تقلید ان مسائل میں ہے جومنصوص نہیں ہیں اور ان کے ماننے کاحکم خود قرآن کریم میں موجود ہے، فرمایا: واتبع سبیل من اناب الی ( سورۃ لقمان آیت ۱۵) جو لوگ میری طرف انابت اور رجوع کرتے ہیں توا ن کے راستے کی اتباع کر۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو بندگان خدا کی طرف رجو ع کرتے ہیں ان کی اتباع نہ صرف یہ کہ جائز ہی ہے بلکہ ضروری اور واجب ہے۔ کیونکہ امرکا صیغہ ہے اورصیغہ امر وجوب پر دلالت کرتاہے۔ 

اور سورۃ نحل میں فرمایا فاسئلو ااھل الذکر ان کنتم لاتعلمون پس اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ کم علم اورناسمجھ کو چاہیے کہ عالم اور سمجھ دار سے پوچھے اور اس پر عمل کرے۔ لہذا اس تقلید کوشرک کہنا سوء فہم کا نتیجہ ہے۔ 

اندھی تقلید کی مذمت

ہاں ! خدا رسول کے مقابلہ میں باپ، دادا کی اتباع کی جائے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ذکر ہے کہ جب انکو کہا جاتاہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ تعالی نے نازل فرمائی ہے اور رسول ﷺکی طرف تو کہتے ہیں ’’ کافی ہے ہمیں وہ چیز جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو‘‘ تو اس تقلید کے شرک اورحرام ہونے میں کیاشک ہے۔ 

کیا اما م کا درجہ پیغمبر کے برابر ہے؟

باقی کم فہم لوگ ایک بات اور بھی کہتے ہیں۔ وہ بھی سمجھ لیں کہ مقلدوں نے اپنے اماموں کو رسول اللہ ﷺ کی گدی پر بٹھایا ہوا ہے یہ بات بالکل غلط ہے۔ اور یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اس لیے کہ پیغمبر معصوم عن الخطاء ہوتا ہے۔ اور مجتہد اورامام کو کوئی بھی معصوم نہیں کہتا۔ مجتہد کی بات صحیح بھی ہوتی ہے اور اس سے غلطی بھی ہوجاتی ہے۔ اور پیغمبر سے غلطی نہیں ہوتی تو امام پیغمبر کی گدی پر کس طرح بیٹھ سکتاہے یاان کو پیغمبر کی گدی پر کون بٹھا سکتا ہے؟ کتنی غلط بات ہے، جو وہ ہمارے ذمہ لگاتے ہیں پھر ہمارا نظریہ ہے کہ امام کی بات اگر خدا اور رسول کے خلاف ہوتو اس کو چھوڑ دو اس پر عمل نہ کرو تویہ ہم پر محض الزام لگاتے ہیں۔ (ذخیرۃ الجنان ، ۵؍۰۹۔۱۲ ۳)

انسان اگر کوئی عمل کرتا ہے تو اس کا اثر پڑتا ہے۔نیکی کا اثر الگ اور برائی کا اثر الگ اور لوگ اچھی طرح اچھائی اور برائی کو محسوس کرتے ہیں ۔خواہ بندہ خود نہ کرے مگر دوسرے کی نیکی بدی کو دیکھتے ہیں،غور کرتے ہیں ،اس واسطے ہر آدمی کو اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے اور اپنی کوتاہیاں دور کرنی چاہئیں اور یاد رکھو جب آدمی دوسروں کو حق کی بات بتائے اور خود عمل نہ کرے تو ایک تو روحا نی طور پراس کا اثر کم ہوتا ہے ۔دوسرا لوگ بھی متنفر ہوتے ہیں ۔اس واسطے داعی الی اللہ کے واسطے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنی اصلاح کرے ،ایک مقام پر کسی نے سوال کیا کہ پمارے امام صاحب ٹی وی دیکھتے ہیں میں نے کہا کہ بھائی مسئلہ تو واضح ہے کہ ایسے امام کے پیچھے نماز مکروہ ہے ،ایک نے کہا کہ ہمارے امام صاحب گفتگو میں فحش گوئی کرتے ہیں ،میں نے کہا کہ نما زاس کے پیچھے بھی مکروہ ہے اور پھر یہ ایسے گناہ ہیں کہ اگر آدمی سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو پھر آگے کراہت کچھ بھی نہیں رہتی یہ مٹ جانے والے گناہ ہیں ۔ہر آدمی کو عموما اور درس دینے والوں کو خصوصا اس بات کا خیال کرنا چاہیے کیونکہ میں بھی سنا سنا کے بوڑھا ہو گیا ہوں اور تم بھی سن سن کر بوڑھے ہو گئے ہو ۔ اگر اثر نہ ہو تو پھر تو کچھ نہ ہوا ۔ اس لیے دین کی بات سن کر اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ (ج اول ص:۱۶۱)

دلوں کا تزکیہ شرعاً مطلوب ہے۔ اور جو صحیح پیری مریدی ہے --- ٹھگوں کی بات نہیں کرتا، ان کی بات کرتا ہوں جو صحیح معنی میں اللہ والے ہیں--- ان کی پیری مریدی اس آیت کریمہ کی تشریح ہے۔ جو مرشد کامل ہین، وہ اپنے مرید کی اخلاقی تربیت کریں گے۔ ان کو سبق دیں گے کہ تم یہ کام کرو اور فلاں کام چھوڑ دو، یہ وظیفہ پڑھو اور فلاں وظیفہ نہ پڑھو۔ اللہ تعالیٰ کے صالح لوگوں کی تعلیم اور تربیت سے انسان کفر وشرک سے، رسم ورواج سے، تکبر، بغض، کینہ او رحب دنیا جیسی بیماریوں سے بچ جاتا ہے اور اصلاح ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حنظلہ بن سدیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملے تو کہنے لگے، ابوبکر، میں منافق ہو گیا ہوں۔ فرمایا، سبحان اللہ، تو کس طرح منافق ہو گیا ہے؟ کہنے لگے، اس طرح کہ جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہوتا ہوں تو دل کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور جب گھر یا بازار جاتا ہوں تو دل کی کیفیت وہ نہیں رہتی، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میں منافق ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس طرح کی کیفیت تو میری بھی ہے، لہٰذا آؤ دونوں چلتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے ہیں۔ انھوں نے اپنا مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کو پیش کیا تو آپ نے فرمایا کہ دلوں کی وہ کیفیت جو میری مجلس میں ہوتی ہے، وہ اس کے بعد نہیں رہ سکتی، لہٰذا اس کیفیت کے بدلنے سے آدمی منافق نہیں ہو جاتا۔ یہ مسلم شریف کی حدیث کا خلاصہ ہے جو میں نے بیان کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اقدس میں تھوڑی دیر بیٹھنے والے کی اتنی صفائی ہو جاتی تھی کہ ساٹھ ساٹھ سال مجاہدہ اور ریاضتیں کرنے والوں کی اتنی صفائی نہیں ہوتی۔ بزرگان دین نے شرعی دائرہ میں رہ کر جو چلہ کشی کی ہے اور ریاضتیں کی ہیں، بعض سطحی قسم کے لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے غلط کیا ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے چلہ کشی نہیں کی تھی۔ بھائی! ٹھیک ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چلہ کشی نہیں کی، مگر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ضرورت ہی کیا تھی؟ شیشہ صاف ہو تو اس کو صاف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ صاف تو اس وقت کیا جا تا ہے جب اس پر میل کچیل ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شیشے ویسے ہی صاف تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے سے اتنے صیقل ہو جاتے تھے کہ ساٹھ سالہ مجاہدے سے بھی وہ کیفیت حاصل نہیں ہو سکتی، تو ان کو مجاہدے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ چلہ کشی کرتے؟ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ کیفیت باقی نہیں رہی، اس لیے دلوں کی صفائی کے لیے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھنا، کثرت کے ساتھ ذکر کرنے سے دلوں کی صفائی ہوتی ہے، لہٰذا کلمے کا ورد کرو، تیسرا کلمہ پڑھتے رہو، استغفار کرو، درود شریف پڑھو، قرآن پاک کی تلاوت کرو، قبر کو یاد کرو، آخرت کا خیال رکھو، اپنی نظر کو محفوظ رکھو۔ اس سے دلوں کی صفائی ہوتی ہے اور تزکیہ نفس شریعت میں مطلوب ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ۳/۳۴۶-۳۴۸)

حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے میں یہودیوں کے مولویوں اور پیروں نے دین کا نقشہ ایسے ہی بگاڑ کے رکھ دیا تھا جیسے آج کل اہل بدعت نے صحیح دین کا نقشہ بگاڑ دیا ہیوہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی تو پرواہ کرتے تھے لیکن بڑی باتوں کا کوئی خیال نہیں تھا ۔حضرت عیسیٰ نے سمجھانے کے لیے فرمایا کہ تم مچھروں کو چھانتے ہو اور اُونٹوں کو نگلتے ہو ۔مچھر چھان کر پیتے ہو کہ کوئی مچھر نہ پی جائیں اور بڑے بڑے اونٹوں کو نگل جاتے ہو۔ یعنی چھعتی باتوں کا خیال کرتے ہو اور بڑی باتوں پر کوئی توجہ نہیں ہے۔’’المستطرف فی کل فن مستظرف‘‘ ایک کتاب ہے اس میں وعظ اور نصیحت کی باتیں بھی ہیں اور ہنسی مذاق کی بھی ۔ اس میں ایک واقعہ لکھا ہوا ہے :

کہتے ہیں کہ ایک بندے نے ایک عورت کے ساتھ بدکاری کی ۔ وہ کنواری عورت حاملہ ہو گئی اس نے اپنیساتھی سے ذکر کیا کہ اب میری بدنامی ہو گی اب میں کیا کروں ۔اس بد کار نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کیا کہ اب مجھے کیا کرناچاہیے۔کسی نے مشورہ دیا کہ کسی دایہ سے مل کر اسقاط حمل کروا دے یعنی حمل گرا دے وہ کہنے لگا کہ حمل گرانا تو مکروہ ہے اس نے اتنا خیا ل نا کیا کہ اگر حمل گرانا مکروہ ہے تو پہلی بات یعنی بدکاری جو کی ہے اس کا کیا مسئلہ ہو گا۔ 

تو یہودی اس طرح کرتے تھے کہ چھٹی باتو کی طرف توجہ کرتے تھے اور بڑی بڑی باتوں کو نگل جایا کرتے تھے تو خضرت عیسیٰ ؑ نے سمجھانے کے لیے فرمایا کہ مچھروں کو چھانتے ہو اور اونٹوں کو نگلتے ہو تو مثالیں سمجھانے کے لیے ہوتی ہیں۔ (ج اول ص ؛۸۰ تا ۸۱)

یاد رکھنا رشتہ کرتے وقت سب سے پہلے عقیدہ دیکھو۔ بچہ بچی مشرک کافر تونہیں تاکہ اولاد کاایمان خراب نہ ہو، لیکن اب حالت یہ ہے کہ ہم لوگ شکل دیکھتے ہیں ، کوٹھیاں کاریں دیکھتے ہیں، مال دیکھتے ہیں، دنیاوی تعلیم دیکھتے ہیں، عقیدے کی طرف نگاہ کرنے والے لوگ بہت کم ہیں۔ آخرت کی فکر کرو دنیا تو گزر ہی جائے گی۔ حضرت ابوالدرداءؓ مشہور صحابی ہیں ان کی لڑکی جوان ہوگئی رشتہ داروں نے رشتہ تلاش کیا اور کہا کہ حضرت آپ لڑکی فلاں جگہ دے دیں۔ فرمایا میں لڑکی وہاں نہیں دو ں گا ، رشتہ داروں نے کہا حضرت کیوں نہیں وجہ کیا ہے۔ کیالڑکے کی شکل اچھی نہیں بیکار ہے؟ فرمایا نہیں شکل بھی اچھی ہے اور عقل بھی، پڑھا لکھا دین دار پزہیزگار ہے اور سارا گھرانہ دینداروں کا ہے ،مگر ان کے گھر میں لونڈیاں کام کرتی ہیں میری بیٹی کو ساس کی خدمت کاموقع نہیں میسر نہیں ہوگا، جس سے آخرت ماری جائے گی۔ اس لیے میں بیٹی وہاں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آخرت کاکتنا فکر ہے آج تو ایسے لوگ بھی ہیں رشتہ کرتے وقت کہتے ہیں ہماری لڑکی روٹی نہیں پکائے گی، کپڑے نہیں دھوئے گی ، جھاڑو نہیں پھیرے گی ،ا س کو ٹرے میں تیار روٹی ملنی چاہیے، یاد رکھنا اور عورتیں اس مسئلہ کو اچھی طرح یا در کھیں، یہ جو گھر کے کام ہیں مثلا بچوں کونہلانا، تیار کرنا، کپڑے دھونا ، روٹی پکانا ، اورکھلانا ، جھاڑو پھیرنا ان کا ثواب نفلی نماز روزہ سے زیادہ ہے۔ (ذخیرۃ الجنان ، ۷؍۱۴۶)

شرک و بدعت اور عوام کی جہالت

میں کہتا ہوں اگر کوئی مرد یا عورت قرآن پاک کا لفظی ترجمہ ہی پڑھ لے تو اسے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایمان کی حقیقت سمجھ آ جائے گی اور کفر وشرک کی برائی سمجھ آ جائے گی۔ آج ہمارے اندر جتنی کمزوریاں ہیں، ان کی وجہ صرف قرآن پاک سے دوری ہے۔ قرآن پاک کو سمجھا نہیں ہے۔ قرآن پاک کو سمجھنا صرف مولویوں اور طالب علموں کا کام نہیں ہے۔ قرآن پاک کا پڑھنا سمجھنا ہر مسلمان مرد عور ت پر لازم ہے۔(ذخیرۃ الجنان ۴/۱۷۴)

ولیمہ ہمت اور حیثیت کے مطابق ہے۔ تکلفات کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو آج کل لوگوں نے اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ولیموں اور جہیزوں کی وجہ سے عورتیں بوڑھی ہو گئی ہیں۔ یہ ملعون طریقے اور رسمیں ہیں، ان کے خلاف جہاد کرو۔ یہ تمہارا فرض ہے۔ اور کوشش کرو کہ کوئی بچی بیس سال سے اوپر نہ جائے، بلکہ بیس سال کی عمر تک شادی ہو جائے کیونکہ اس کے بعد طبی لحاظ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آج کل کی طب کا تو مجھے علم نہیں ہے مگر میں نے پرانی طب پڑھی ہے۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ عورت کی عمر جب زیادہ ہو جائے اور شادی نہ کی جائے تو اس کے رحم میں ٹیوبیں ہوتی ہیں، وہ ضائع ہو جاتی ہیں، جل جاتی ہیں اور عورت بچہ جننے کے قابل نہیں رہتی۔ پھر ساری زندگی علاج کراتے پھرو، کوئی فائدہ نہیں ہوگا، الا ما شاء اللہ۔ (ذخیرۃ الجنان ۴/۹۷)

حفظ قرآن

میں کہا کرتا ہوں کہ ہر بچے کو حفظ نہ کراؤ۔ پہلے تم اس کا حافظہ دیکھ لو۔ اگر حافظہ قوی ہے، قرآن پاک کو یاد رکھ سکتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ حفظ نہ کراؤ کیونکہ یاد کرنا فرض نہیں ہے، فضیلت کی بات ہے لیکن یاد کر کے بھول جانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اور میں اساتذہ کو بھی سبق دیتا ہوں کہ تم بچے کا انداز کرو، لڑکا ہو یا لڑکی۔ وہ اس طرح کہ اس کو ایک پارہ یاد کراؤ اور دیکھو کہ کتنی دیر میں یاد کیا ہے، منزل کیسی ہے۔ اگر مضبوط حافظے والا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ قرآن پاک کا ترجمہ اور دوسرے دینی علوم اس کو پڑھاؤ، کیونکہ یہ بھی دین کا حصہ ہیں۔  (ذخیرۃ الجنان ۳/۱۰۳)

آراء و افکار

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter