بندہ مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب مدظلہ کے حکم پر اپنی یادداشت میں محفوظ دو چار واقعات عرض کرتا ہے جن سے حضرت اقدس ؒ کے اعلیٰ اخلاق کی ایک جھلک سامنے آتی ہے۔
اس حقیر کو سب سے پہلے حضرت امام اہل سنت کی زیارت کا شرف ۱۹۶۰ء میں حاصل ہوا جب میری عمر تقریباً گیارہ برس تھی اور میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں شعبہ حفظ کا طالب علم تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے موجودہ شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب مد ظلہ اس وقت ہمارے استاد محترم حضرت قاری محمد یٰسینؒ صاحب روہتکی کے پاس قرآن پاک کی گردان کر رہے تھے۔ ۱۹۶۱ء میں جب حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کا انتقال ہوا تو مدرسہ کی پرانی مسجد میں طلبہ کرام نے قرآن خوانی کی۔ اس موقع پر حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے حضرت شاہ صاحب ؒ کے حالات اور دین کے لیے ان کی محنت اور آزادی کی جنگ میں ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا بیان فرمایا۔ یہ حضرت کا پہلا بیان تھا جو ہم نے سنا۔ اس کے بعد حضرت ؒ سے شنا سائی ہوگئی اور ان کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ نویں جماعت کے دوران میں نے حضرت کی کئی کتابیں مثلاً گلدستہ توحید، راہ سنت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور شوقِ جہاد وغیرہ پڑھ لی تھیں۔ مجھے یاد ہے، اس وقت راہِ سنت کی قیمت ڈیڑھ روپے تھی۔ اس سے بدعات سے تنفر پیدا ہو گیا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
اس وقت ہم گلی لانگریاں والی میں رہتے تھے اور ہماری فیکٹری محلہ کرشن نگر گلی نمبر ا میں تھی۔ بندہ روزانہ حضرت سے ملاقات کے لیے بازار خراداں کا راستہ اختیار کرتا تھا۔ کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا یا دم کرانا ہوتا اور کبھی خواب کی تعبیر دریافت کرنا ہوتی تو حضرت کے اسٹیشن یا لاری اڈہ سے پیدل مدرسہ تشریف لے جاتے ہوئے راستے میں پوچھ لیتا تھا۔ حضرت پوری توجہ اور تسلی سے جواب مرحمت فرماتے اور سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر تشفی فرماتے۔
یہ عاجز اپنے استاد محترم قاری محمد یٰسین صاحب ؒ کی برکت سے قرآنِ پاک اچھا پڑھ لیتا تھا۔ میرے مرشد حضرتِ اقدس جانشین شیخ التفسیر حضرت مولانا عبید اللہ خصوصی طور پر بندہ سے قرآن سنا کرتے تھے۔ اسکول میں حسنِ قراء ت کے مقابلوں میں مجھ کو بھیجا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں جاتا، اول آتا تھا۔ اسکول میں میری فیس بھی معاف تھی اور وظیفہ بھی ملتا تھا۔ یوں قرآن کے صدقے خوب کھایا پیا اور سیر و سیاحت بھی کی۔ ایک دفعہ گکھڑ کے نارمل اسکول کے ہال میں مقابلہ تھا۔ حضرت کے دوسرے صاحبزادے حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب بھی ممتحنین میں شامل تھے، گو اس وقت واقفیت نہ تھی۔ بندہ یہاں بھی اللہ جل شانہ کے فضل سے اول آیا۔ فارغ ہوکر ہم تین ساتھی حضرت کی زیارت کے لیے آپ کی رہایش گاہ پر چلے گئے۔ پوچھنے پر آمد کا مقصد عرض کیا تو اسی وقت چائے اور مٹھائی آ گئی اور بعد میں کھانا کھلاکر ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ ہمیں رخصت فرمایا۔
ایک دفعہ حضرت امامِ اہلِ سنت نے اپنے استاد مکرم حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ کی خدمت میں کپڑوں کا ایک جوڑا اور پگڑی کا کپڑا پیش فرمایا۔ حضرت مولانا نے اپنے خاص انداز میں فرمایا، حضرت! ہماری سفید پوشی کا مذاق اڑا رہے ہیں؟ جواباً حضرت محدث اعظم نے فرمایا کہ حضرت! یہ ہدیہ ہے، تو مولانا نے ہنستے ہوئے قبول فرما لیا اور ایک دوسرے ساتھی کو دے دیا۔ اس موقع پر مجھے حضرت زبدۃ العارفین حضرت مولانا عبد الہادی دین پور شریف والوں کا ایک ارشاد یاد آرہا ہے۔ حضرت ؒ فرماتے تھے کہ ہمارے اکابر کا فقر بھی اختیاری تھا، اضطراری ہرگز نہ تھا۔ جو شخص تین دفعہ اسمبلی کا ممبر بنا ہو، اس کا فقر کیونکر اضطراری ہو سکتا ہے۔ حضرت مفسرِ قرآن حضرت صوفی ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ یہ سیٹلائٹ ٹاؤن میرے سامنے بنا۔ چار سوروپے میں پلاٹ ملتا تھا۔ ساتھی کہتے تھے کہ ہم جمع کرا دیتے ہیں، مگر میں نے انکار کیا کہ مسجد کے مکان میں ہی گزارا کریں گے۔ ماہنامہ نصرۃ العلوم کے مفسر قرآن نمبر میں ایک شکریہ کا خط حضرت شیخ الاسلام ؒ نوراللہ مرقدہ کا ہے۔ حضرت صوفی صاحب ؒ نے انھیں چار سو روپے ہدیہ بھیجا تھا۔ یہ اختیار ی فقر نہیں تو اور کیا ہے؟
ایک دفعہ شیرانوالہ دروازہ لاہور میں علماے کرام کا ایک اجتماع تھا۔ کھانے کے لیے حضرت امام اہل سنت کو مدرسہ قاسم العلوم میں لے گئے۔ کھانا لایا گیا تو اس میں مچھلی چرغہ وغیرہ کئی قسم کے سالن تھے۔ حضرت شیخ نے فرمایا مجھے اختلاجِ قلب کی وجہ سے ان چیزوں سے پرہیز ہے۔ تب حضرت مولانا میا ں محمد اجمل قادری صاحب مدظلہ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت ڈاکٹر محمد اکمل سے فرمایا کہ ابا جان کا سالن فریج میں رکھا ہے، وہ لے آئیں۔ وہ لایا گیا تو مونگ کی دال تھی۔ حضرت نے بڑے مز ے سے کھائی اور فرمایا کہ بازار کے عمدہ کھانوں سے گھرکی دال بدرجہا بہتر ہے۔ ہم جیسے ظاہری ذائقوں پر مرنے والے کیا جانیں کہ باطنی حلاوت کسے کہتے ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مجلس ذکر کے قائل نہیں تھے، لیکن وہ دوسرے حضرات کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ سیٹلائیٹ ٹاؤن میں مدینہ مسجد کا افتتاح ہوا تو اس موقع پر مولانا عبید اللہ انور صاحب نے مجلس ذکر کرائی اور حضرت شیخ الحدیث بھی ان کے ساتھ وہیں بیٹھے رہے، حالانکہ وہ چاہتے تو اٹھ کر الگ کسی جگہ جا کر بیٹھ سکتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ حضرت مولانا انور ختم قرآن کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے گکھڑ میں بوہڑ والی مسجد میں گئے تو اس موقع پر بھی مجلس ذکر ہوئی، بلکہ جب حضرت شیخ الحدیث کی تصنیف ’’حکم الذکر بالجہر‘‘ چھپ کر آئی اور مولانا عبید اللہ انور کو اس کے متعلق بتایا گیا تو انھوں نے یہ کتاب منگوا کر پڑھی۔ پھر جمعرات کی مجلس میں فرمایا کہ میں نے حضرت کی کتاب پڑھی ہے، اس میں ہمارے طریقے کے خلاف کوئی بات نہیں، کیونکہ اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ سلسلہ قادریہ اویسیہ میں جو اذکار تلقین کیے جاتے ہیں، وہ میری مراد نہیں۔
۱۹۸۱ء میں حج کے مبارک موقع پر حضرت دو تین یوم ہمارے ساتھ تشریف فرما رہے۔ ۱۰ محرم کو بھی اکٹھے رہے، اور مدینہ منورہ میں بھی ملاقاتیں رہیں۔ مسائل میں رہنمائی کے ساتھ ساتھ حضرت ہماری اصلاح بھی فرماتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں ایک موقع پر بندہ کے منہ سے ایک بریلوی مکتبہ فکر کے عالم کے بارے میں ایک سخت جملہ نکل گیا۔ حضرت نے فرمایا، حاجی صاحب! اختلافِ مسلک اور مسائل میں اختلاف اپنی جگہ، مگر کسی کی ذات کے بارے میں سخت الفاظ کہنے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ تب بندہ نے توبہ و استغفار کی اور آئندہ اس سے محتاط ہوگیا۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ذرا سے اختلاف پر مخالف کو جو جی میں آئے، کہنے کا حق رکھتے ہیں۔
ہم چونکہ احادیثِ صحیحہ، صحابہ کرام سمیت پوری امت کے اجماع اور اکابرین دیوبند کی تشریحات کے مطابق آقاے نامدار سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وفات شریف کے بعد قبر میں جسم عنصری کے ساتھ برزخی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں اور روضہ اطہر پر صلوٰۃ و سلام کے سماع کے قائل ہیں، اس لیے میں نے اپنے ذوق کے مطابق حضرت سے مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پوچھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کتنی دور سے صلوٰۃ وسلام سماعت فرماتے ہیں؟ اگر میں بھول نہیں رہا تو امامِ اہلِ سنت ؒ نے فرمایا تھا کہ حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ نے لکھا ہے کہ مسجد نبوی کے اندر سے سماع فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں۔ نہ ماننے والے حضرات خدا کو کتنا قادر مانتے ہیں، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہمارے دادا پیر ؒ حضرت شیخ التفسیر امام الاولیاء حضرت لاہوری ؒ فرماتے ہیں کہ اہلِ نظرکے یہاں تو یہ مسئلہ بدیہیات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اکابر کے ساتھ وابستہ رکھے۔ آمین یا الہ العالمین۔
حضرت والا جب واپس پاکستان آنے لگے فرمایا کہ حاجی صاحب! مجھ سے زیادہ وزن تو اٹھایا نہیں جاتا، ایک پانچ کلو کا گیلن آب زم زم کا اور دو رومال مجھے لادیں۔ بندہ نے دونوں چیزیں حاضر کر دیں۔ دو چار کتابیں لے رکھی تھیں۔ یہ کل سامان تھا۔ فرمایا: ایک رومال سے تو صوفی کو خوش کروں گا، بلکہ پنجابی میں فرمایا ’’اک نال تے صوفی نو ٹھگاں گا، اک کسی داماد نو دیاں گے۔‘‘ بعد میں ، میں نے دیکھا کہ حضرت صوفی صاحب ؒ کئی سال تک وہ رومال سر پر باندھتے رہے۔ حضرت کو اپنے چھوٹے بھائی حضرت مفسرِ قرآن استاد مکرم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ؒ سے بڑی محبت تھی۔ بندہ جب بھی گکھڑ حاضر ہوتا تو فرماتے، صوفی سے ملے تھے؟ کیا حال تھا؟ احقر عرض کرتا کہ جمعہ میں حاضری ہوئی تھی، نقاہت ہے۔ احوال عرض کرتا۔ خدا کے فضل سے اس گناہگار نے دونوں بزرگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ احقر اپنے علم کے مطابق عرض کرتاہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی محبت کرنے والے دو بھائی نہیں دیکھے۔ یہ صرف دین اور علم و عمل کی برکت ہے۔
مدرسہ نصرۃ العلوم کی انتظامیہ کے پہلے صدر حافظ محمد عبد اللہ صاحب کی روایت ہے کہ جب حضرت صوفی صاحب کی شادی ہو گئی تو انتظامیہ کی طرف سے ان سے کہا گیا کہ پہلے تو آپ اکیلے تھے، اب اخراجات بڑھ گئے ہیں، اس لیے تنخواہ بڑھا لیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ نہیں، ابھی میرا گزارا ہوتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد یہی بات کہی گئی تو صوفی صاحب نے فرمایا کہ اگر ضرورت ہوئی تو بتا دوں گا اور آپ سے ہی کہوں گا، اور کس سے کہوں گا۔ بلا ضرورت مدرسے پر بوجھ ڈالنا مناسب نہیں۔ کچھ عرصے کے بعد پھر یہ بات کی گئی تو حضرت صوفی صاحب ناراض ہو گئے اور کہا کہ آپ کسی اور کو لے آئیں۔ جب میں کہہ چکا ہوں کہ ضرورت نہیں تو پھر کیوں اصرار کرتے ہیں۔
صوفی صاحب مستند طبیب بھی تھے اور طلبہ میں سے کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو وہ صوفی صاحب کے پاس جاتا اور انھیں نبض دکھا کر دوا لکھوا لیتا تھا۔ نزلے کے لیے وہ اطریفل اسطوخودوس اور پیٹ درد کے لیے کمونی کبیر لکھ کر دیتے تھے جو بازار سے لائی جاتی۔ حضرت کے عزیز احسان اللہ اور عبد الرحمن شاہ،جو میرے ہم سبق تھے، بتاتے تھے کہ رات کو صوفی صاب اٹھ اٹھ کر بیمار طالب علموں کے پاس جاتے تھے اور ان کی صحت کا حال معلوم کرتے تھے۔
حضرت صوفی صاحب فرماتے تھے کہ میں بیس سال تک حضرت لاہوری کے پاس مجلس ذکر میں جاتا رہا ہوں۔ ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے بھی بیان کیا کہ جب وہ شیرانوالہ میں طالب علم تھے تو صوفی صاحب ہر جمعرات کووہاں جاتے تھے۔ اس ناتے سے حضرت صوفی صاحب کو حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے ساتھ گہرا تعلق خاطر تھا۔ مولانا عبیداللہ انور فرماتے تھے کہ صوفی صاحب میرے ذوق کے آدمی او رمیرے آئیڈیل ہیں۔ ہمیں تلقین کرتے تھے کہ ان کی خدمت میں جایا کرو، جمعہ وہیں پڑھا کرو اور ان کے پاس بیٹھا کرو۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مولانا عبید اللہ انور اسٹیشن کے سامنے اڈھے کی طرف سے رات تقریباً ایک بجے کے قریب تنہا آ رہے ہیں۔ میں ساتھ ہو لیا۔ آگے پہنچتے تو دیکھا کہ صوفی صاحب گلی کے کنارے پر ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ میں ان کی تنہائی میں خلل انداز ہونے کے بجائے اجازت لے کر وہاں سے چلا گیا۔ تحریک مسجد نور کے دوران حضرت مولانا انور ہر ماہ یہاں تشریف لاتے تھے، حالانکہ بہت بیمار تھے اور فرماتے تھے کہ میں جان پر کھیل کر آیا ہوں۔ ڈاکٹروں نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ اپنے کمرے سے بالکل باہر نہ جائیں۔ تحریک کے دوران انھوں نے ایک مرتبہ حکومت کے خلاف بہت سخت تقریر کی اور فرمایا کہ مدرسہ عمارت کا نام نہیں، ہم جہاں بھی بیٹھیں گے، وہیں مدرسہ آباد کر لیں گے۔ مولانا انورؒ کی وفات کی خبر سے صوفی صاحب کو بہت صدمہ ہوا اور شدت غم سے ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس سے اگلا جمعہ وہ نہیں پڑھا سکے اور یہ جمعہ حضرت شیخ الحدیث نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھایا اور کہا کہ نمبر تو میرا تھا، لیکن بازی مولانا عبید اللہ انور لے گئے، حالانکہ وہ مجھ سے خاصے چھوٹے تھے۔
مولانا عبد القیوم ہزاروی کی روایت ہے کہ عائلی قوانین کے موقع پر صوفی صاحب کی راے یہ تھی کہ بغاوت کااعلان کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سراسر کفر ہے۔ وہ حضرت لاہوری کے پاس گئے تو انھوں نے کہا میں نے علما کی طرف فرض کفایہ ادا کر دیا ہے۔ حضرت لاہوری نے کہ میرا آخری وقت ہے، اور میرا آرام کا وقت ہے، لیکن مجھے اللہ کا خوف آیا کہ اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ تمہارے سامنے اللہ کا دین بدلا گیا اور تم یہود ونصاریٰ کے مولویوں کی طرح چپ بیٹھ رہے۔ حضرت لاہوری نے مارشل لا توڑ کے جلسہ کیا اور عائلی قوانین کے خلاف تقریریں کیں۔ گوجرانوالہ میں بھی عائلی قوانین کے خلاف شیرانوالہ باغ میں جلسہ رکھا گیا جس میں حضرت درخواستی اور مولانا ہزاروی نے آنا تھا، لیکن وہ نہیں آ سکے، چنانچہ صوفی صاحب کو بلایا گیا اور انھوں نے عائلی قوانین کے خلاف بڑی زبردست اور پرجوش تقریر کی۔ اس طرح کی تقریر میں نے ان سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ ایک اور موقع پر جب مولانا عبید اللہ انور پر لاٹھی چارج کیا گیا تو بھی حضرت صوفی صاحب نے عید کے اجتماع پر بڑی پرجوش تقریر کی تھی۔
صوفی صاحب کا خطبہ جمعہ بڑا پرجوش ہوتا تھا او رحکومت کے غلط کاموں پر بالکل نڈر ہو کر تنقید کرتے تھے۔ عالم اسلام کے دفاع میں امریکہ کے خلاف بولتے تھے۔ حکومت کے خلاف سخت تقریروں کی پاداش میں ہی ایوب کے دور میں جب چند ماہ کے لیے ان پر پابندی لگا دی گئی تو وہ خان پور حضرت درخواستی کے پاس خان پور چلے گئے۔ حضرت درخواستی صوفی صاحب کے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے۔ ۶۲ء میں درخواستی صاحب مولانا لاہوری کے بعد امیر بنے تو وہ گوجرانوالہ آئے۔ نصرۃ العلوم میں حیات النبی پر گفتگو کی۔ صوفی صاحب نے چائے کے لیے کہا تو فرمایا کہ تم تو میری طبیعت جانتے ہو۔ اگر بیٹھ گیا تو مغرب ادھر ہی ہو جائے گی، مجھے جہلم پہنچنا ہے۔ وہاں تقریر رکھی ہے۔ حضرت درخواستی سے حرم میں ایک آدمی ملا اور اس نے بتایا کہ میں گوجرانوالہ سے ہوں تو کہا کہ وہاں میرا ایک ہی شاگرد ہے، صوفی عبد الحمید جو وفادار ہے۔ باقی سب بے وفا ہیں۔
حضرت صوفی صاحب جمعے کے خطاب میں فرقہ وارانہ اور اختلافی مسائل بیان کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کسی نے جمعے میں ان کو رقعہ دیا رفع یدین کے بارے میں تو کہا کہ مجھے ایسے رقعے نہ دیا کرو۔ جیسے تمہارے استاذ نے نماز کا طریقہ بتایا ہے، اس طرح نماز پڑھو۔ پہلے ہی بہت انتشار ہے۔ حلال روزی کمانے پر بہت زور دیتے تھے۔ فرمایا کہ میں مشکوک پیسہ نہیں لیتا تھا۔ ایک آدمی نے مجھے کئی ہزار روپے دیے۔ میں نے پوچھا کہ کیا کام ہے تمہارا تو اس نے کہا کہ سیالکوٹ میں میرا ایک سینما ہے۔ میں نے کہا کہ میں ایسا پیسہ نہیں لیتا۔ اگر حلال کی کمائی سے سو روپے بھی دو تو بہت ہیں۔ پھروہی آدمی دوبارہ آیا او رکہا کہ میں اپنی دکانوں کے کرایے سے بچا بچا کر لایا ہوں۔ میں نے بڑی خوشی سے وہ رقم قبول کر لی۔
صوفی صاحب جب حج پر گئے تو رات کو تہجد پڑھ کر روانہ ہوئے۔ صرف مستری منیر احمد صاحب لاہور تک ساتھ گئے تھے۔ جب واپس آئے تو میں اس وقت دوپہر کا کھانا کھا کر باہر نکل رہا تھا۔ سامنے دیکھا توصوفی صاحب گلی میں داخل ہو رہے تھے۔ وہی کپڑے اور وہی قینچی جوتا۔ کوئی سامان پاس نہیں تھا۔ میں نے حسب معمول وضو کے لیے لوٹا بھر کر پیش کیا۔ صوفی صاحب نے استنجا اور وضو کیا اور مسجد میں جا کر نفل پڑھنے لگے۔ پھر سب لوگ اکٹھے ہو گئے اور صوفی صاحب نے دعا فرمائی۔
صوفی صاحب عام طور پر جنازے کے لیے نہیں جاتے تھے اور بعض دفعہ کئی کئی سال تک مدرسے کے حدود سے باہر نہیں نکلتے تھے، لیکن میرے والد او روالدہ دونوں کا جنازہ صوفی صاحب نے پڑھایا۔ والدہ کی وفات کے موقع پر میں نے حاضر ہو کر اطلاع دی اور جنازے کے لیے درخواست کی تو فرمایا کہ جنازہ کہاں ہوگا؟ میں نے بتایا کہ بڑے قبرستان میں، تو فرمایا کہ ضرور آؤں گا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو لینے کوئی دوست آ جائیں گے۔ فرمایا کہ تم میرے بچوں کی طرح ہو۔ تمہیں یاد ہے کہ تم عصر کے بعد میرے لیے لوٹا بھر کر کھڑے ہوتے تھے؟ میں تو اس وقت سے تمہارے لیے دعائیں کرتا ہوں۔ تم درخواستی صاحب کا دل بھی بہلایا کرتے تھے اور وہ ہمارے استاذ ہیں۔ ہمارا جنازہ بعد میں پہنچا، صوفی صاحب ہم سے پہلے جنازہ گاہ میں پہنچے ہوئے تھے۔
میں عرض کرتا ہوں کہ اپنی سطح کے لوگوں سے ہر کوئی احسن طرز عمل کا مظاہرہ کرلیتا ہے، لیکن اپنے سے ہر اعتبار سے چھوٹوں کا دل رکھنا کسی کسی کا کام ہے۔ آج ہم اپنے اکابر سے اور ان کے طرز عمل سے کتنے دور ہوگئے ہیں۔ بندہ طوالت سے بچنے کے لیے صرف چند واقعات تحریر کیے ہیں، ورنہ ایسے بہت سے واقعات ذکر کیے جاسکتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی وفات پر مفتی محمد حسن صاحب نے فرمایا تھا کہ ہم خود تو انسان نہیں بن سکے، لیکن اتنی بات ہے کہ ہم نے انسان دیکھے ضرور ہیں۔ میں بھی حضرات شیخین کے حوالے سے یہی بات دہرا کر اللہ تعالیٰ جل ذکرہ سے دعا کرتا کہ بے ادبی کے اس دور میں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اکابر کا ادب نصیب فرمادیں اور ان کے دامن سے وابستہ رکھیں، آمین یا الہ العالمین ۔ تحریر کے خاتمہ کے طو ر پر اپنے جذبات کی ترجمانی کے لیے مولانا محمد عمار خا ن ناصر کا شعر پیش کرتا ہوں:
اے خدا تیرے فرشتے اور جتنے کام ہوں
ان کے پاؤں دابنے کو پر یہی خدام ہوں