امام اہل سنت کا حسن خلق
۱۹۵۳ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو حضرت نے اس میں بھر پور کردار ادا کیا اور جیل میں پابند سلاسل بھی رہے۔ اس وقت رئیس الخطباء سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ساہیوال جیل میں قید تھے۔ امام اہل سنت دیگر حضرات کے ساتھ، جن میں مفتی عبدالواحد صاحب خطیب جامع مسجد مرکزی شیرانوالہ باغ، قاضی شمس الدین، قاضی نور محمد، علامہ خالد محمود پی ایچ ڈی لندن، مولانا عبدالرحمن، حاجی قاضی عبدالرحمن صاحب اور بہت سے دیگر کارکنان اور علماء شامل تھے، ملتان جیل میں قید تھے۔ قاضی عبدالرحمن حضرت امام اہل سنت کے شاگرد ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کے قریب ایک مسجد میں امام تھے اور جیل میں بھی یہی امام تھے۔ حضرت شیخ الحدیث ان کو ہمیشہ امام صاحب کہہ کر بلاتے تھے۔ قاضی عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں سنٹر ل جیل ملتان کی چکی نمبر ۵۲ میں تھا جو اوپر والی منزل پر تھی اور حضرت امام اہل سنت چکی نمبر ۴۸ میں تھے جو نیچے والی منزل پر تھی ۔ حضرت شیخ الحدیث جیل میں کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ گوجرانوالہ شہر کا ہی ایک پہلوان محمد اسلم فردوس بوتل والا تھا۔ یہ بڑا اکھڑ مزاج تھا اور ہر شخص سے لڑتا جھگڑتا تھا، مگر حضرت شیخ سے بڑی عقیدت و محبت سے پیش آتاتھا اور جیل میں صرف حضرت امام اہل سنت کو ہی عالم سمجھتا تھا ۔
قاضی عبدالرحمن فرماتے ہیں، ہم نے امام اہل سنت سے عرض کی کہ حضرت! پہلوان اسلم کو کیسے رام کر لیا؟ یہ آپ کا گرویدہ ہے اور آپ کے علاوہ کسی اور کو خاطر میں نہیں لاتا۔ حضرت تھوڑا مسکرائے، پھر فرمایا میرے ساتھ تو بالکل صحیح گفتگو کرتا ہے اور ہمیشہ حسن خلق سے پیش آتا ہے۔ قاضی عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں: بڑوں کا احترام تو ہر کوئی کر لیتا ہے، چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا یہ حضرت شیخ ہی کی شان تھی۔
ادائیگی قرض کے لیے پریشان ہونا
قاضی عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ الحدیث نے مجھ سے سو روپے قرض لیا۔ نصرۃ العلوم کے ساتھ گلی میں مسجد تھی، میں وہاں امام تھا۔ حضرت شیخ الحدیث گکھڑ سے گوندانوالہ اڈے تک گاڑی میں آتے، وہاں سے پیدل مسجد تک آتے۔ وہاں وضو فرماتے، پھر مجھے ساتھ لے کر مدرسہ میں پڑھانے تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت سے کافی بے تکلفی تھی۔ حضرت کبھی کبھی مذاق بھی فرماتے تھے۔ میں نے پھر اس مسجد کی امامت چھوڑ دی اور پنجن کسانہ ضلع گجرات چلا گیا۔ حضرت کو اطلاع بھی نہ کی اور رابطہ بھی نہ رکھ سکا۔ تقریباً تین سال بعد مجھے ایک سو روپے کا منی آرڈر وصول ہوا۔ میں نے سوچا کہ مجھے منی آرڈر بھیجنے والا کون ہو سکتا ہے! دیکھا تو وہ منی آرڈر امام اہل سنت کی طرف سے تھا۔ ساتھ حضرت نے شکوہ بھی لکھا ہوا تھا کہ آ پ بتا کر نہیں گئے اور رابطہ بھی نہ رکھا۔ میں نے آپ سے سو روپے بطور قرض لیے ہوئے تھے، اس کی ادائیگی کے لیے کافی پریشان تھا کہ کیسے ادائیگی کروں اور کہاں کروں۔ آپ کی پنجن کسانہ میں موجودگی کی اطلاع ملتے ہی سو روپیہ منی آرڈر کر رہا ہوں۔ ملتے ہی مجھے اطلاع ضرور کردینا تا کہ میرا بوجھ ہلکا اور پریشانی ختم ہو سکے۔
قوت حافظہ
قاضی عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ بیماری کے ایام میں جب حضرت صاحب فراش ہو چکے تھے، حضرت کا حافظہ اس وقت بھی غضب کا تھا ۔ ایک دن میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو حضرت مجھ سے فرمانے لگے، امام صاحب! آپ کا ایک بھائی عبدالحلیم رشیدی ہوتا تھا، وہ کہاں ہے اور کیا کرتا ہے؟ تو میں نے عرض کی، حضرت وہ فوج میں آفیسر بن گیا تھا اور اب تو کب کا ریٹائر ہو چکا ہے۔ حضرت کے حافظہ کے متعلق میں سوچتا چلا گیا کہ کیا بلا کا حافظہ ہے کہ پچاس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود حضرت کو آج بھی میرے بھائی کا نام یاد ہے۔
حضرت شیخ الحدیث کے صاحبزادے مولانا عزیز الرحمن شاہد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت نے مجھے حکم دیا کہ بخاری شریف لاؤ۔ میں بخاری شریف لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹھ گیا۔ حضرت والد صاحب نے فرمایا، فلاں صفحہ کھولو۔ میں نے مطلوبہ صفحہ نکال لیا۔ ایک حدیث سنائی کہ اسے تلاش کرو۔ میں نے اس حدیث کو ڈھونڈ کر عرض کیا کہ حضرت حدیث مل گئی۔ حضرت نے فرمایا: دیکھ، اس حدیث پر میرے ہاتھ سے حاشیہ لکھا ہوا ہو گا۔ میں نے دیکھا تو نہ ملا۔ میں نے عرض کیا ابو جان آپ کا لکھا ہوا حاشیہ نہیں ملا۔ فرمایا دھیان سے دیکھو۔ میں نے آنکھوں کو تھوڑا سا ہاتھوں سے ملا اور دوبارہ دیکھنے لگا۔ پھر بھی نہ ملا تو میں نے عرض کیا کہ حضرت نہیں ملا۔ حضرت نے اصرار کے ساتھ فرمایا، غورسے دیکھو، ضرور مل جائے گا۔ کتاب کی جلد دوبارہ کی ہوئی تھی اور سلائی زیادہ آگے کی ہوئی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے کتاب کو اطراف سے دبایا تو حضرت شیخ الحدیث کا لکھا ہو احاشیہ مل گیا۔ میں خوش ہوا اور عرض کیا کہ حضرت آپ کا لکھا ہوا حاشیہ مل گیا ہے۔ اس پر حضرت نے فرمایا: میں نے یہ حاشیہ ۳۰ سال قبل لکھا تھا اور اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا اور مجھے اچھی طرح یاد بھی تھا، اس لیے تمہارے انکار پر دوبارہ کہا تھا کہ دھیان سے دیکھو، ضرور مل جائے گا ۔
یہ واقعہ حضرت کی بیماری کے ایام کا ہے جب درس و تدریس کا سلسلہ بھی رک گیا تھا اور حضرت نے نصرۃ العلوم میں کافی سال پہلے پڑھانا چھوڑ دیا تھا۔
طلباء سے محبت اور شفقت اور انداز تربیت
قاضی عبدالرحمن فرماتے ہیں : حضرت امام اہل سنت طلباء کو کبھی تحکمانہ انداز میںیا نام لے کر نہ بلاتے تھے بلکہ ہمیشہ مولانا کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک مرتبہ جمعہ کے دن حضرت کے پاس گکھڑ ملاقات کے لیے گئے تو حضرت نے ہمیں بٹھایا، اکرام کیا اور پر تکلف کھانا کھلایا۔ اس وقت حضرت کے صاحبزادے مولانا عبدالقدوس قارن چھوٹے بچے تھے۔ کچھ ساتھیوں نے مولانا عبدالقدوس قارن کو کچھ رقم دے دی ۔ حضرت نے پوچھا، عبدالقدوس کو پیسے کس نے دیے ہیں؟ ہم نے عرض کی: حضرت! ہم نے، تو اس پر فرمایا کہ تمہارا اپنے استاد کے بچے سے محبت کرنا اور اکرام کرنا اپنی جگہ، مگر اس طرح بچے کی عادت خراب ہو جاتی ہے۔ یہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا۔ آئندہ ایسے نہ کرنا۔ اللہ اکبر! کیسی شان تھی امام اہل سنت کی کہ طلباء کے کام کی تعریف بھی کر دی اور بچے کی اصلاح بھی کر دی۔
پابندئ وقت
حضرت شیخ الحدیث کے جانشین حضرت مولانا زاہد الراشدی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ حضرت والد صاحب اور مولانا ظفر علی خان دونوں وقت کے بہت پابند تھے اور ان دونوں حضرات کے متعلق مشہور تھا کہ لوگ ان کی آمد و رفت کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بہت سخت ہڑتال تھی۔ حضرت نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں سبق پڑھانے کے لیے گوجرانوالہ تشریف لانا تھا، لیکن کوئی گاڑی، بس وغیرہ نہیں مل رہی تھی۔ حضرت گکھڑ اسٹیشن پر تشریف لے گئے۔ وہاں بہت زیادہ رش تھا اور گاڑی کوئی نہیں تھی۔ صرف ایک انجن آیا اور لوگوں میں دھکم پیل شروع ہوگئی۔ حضرت کو دیکھ کر انجن پر کھڑے آدمی نے لوگوں کو روکا اور کہا کہ سب دور رہو، سب سے پہلے ان بزرگوں کو (حضرت شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) سوار کروں گا، کیونکہ ایک تو یہ ہماری پکی سواری ہے اور دوسرا مجھے معلوم ہے، یہ وقت کے بڑے پابند ہیں، لیٹ نہ ہو جائیں۔ کہاں ہیں آج کے اصحاب علم و دانش جو سبق پڑھانے کے لیے اتنا اہتمام فرماتے ہوں۔ واقعی یہ امام اہل سنت کا خاصہ تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔
دوران سفر ساتھیوں اورتلامذہ کا خیال
دوران سفر حضرت امام اہل سنت کھانے کے وقت اپنے تمام ساتھیوں کو یاد رکھتے۔ دیگر مہمان تو حضرت کے ساتھ ہی کھانے پر آجاتے تھے۔ اگر ڈائیور کو گاڑی کھڑی کرتے وقت یا کسی اور مصروفیت کی وجہ سے کچھ دیر ہو جاتی تو حضرت امام اہل سنت میزبان کو حکم دیتے تھے کہ بھئی ڈرائیور کو بلاؤ اور جب تک ڈرائیور دسترخوان پر آنہ جاتا، حضرت اما م اہل سنت کھانا شروع نہ فرماتے تھے۔ حضرت امام اہل سنت کے ہمراہ میر لقمان صاحب کی گاڑی اکثر مولانا محمد نواز بلوچ ڈرائیو کرتے تھے۔ مولانا محمد نواز بلوچ فرماتے ہیں کہ حضرت امام اہل سنت دوران سفر تمام ساتھیوں کا خیال کرتے تھے، بالخصوص ڈرائیور کو ساتھ بٹھاتے اور فرماتے: بھئی! اچھی طرح سیر ہو کر کھاؤ، شرمانا نہیں۔
غلط نظریات پر گرفت
مری میں حاجی محمد شعیب صاحب کے گھر وفاق المدارس کی میٹنگ تھی۔ حضرت امام اہل سنت اس سلسلہ میں مری گئے ہوئے تھے ۔ مولانا محمد نواز بلوچ فرماتے ہیں کہ وہاں کسی نے اطلاع دی کہ یہاں فکری رہتے ہیں اور اپنے مشن کی تبلیغ بھی کرتے ہیں اور اپنا تعلق نصرۃ العلوم سے بتاتے ہیں۔ ہم نے مشورہ کیا کہ ان کو بلوا لیا جائے اور حضرت شیخ سے ملاقات کروائی جائے۔ حضرت نے دوران ملاقات ان حضرات سے پوچھا، بھئی نصرۃ العلوم کو کیوں بد نام کرتے ہو؟ انہوں کہا، ہم وہاں پڑھے ہیں اور نصرۃ العلوم کے ایک استاد کا نام لیا کہ انہوں نے ہماری ذہن سازی کی ہے۔ اس پر حضرت نے فرمایا: فکری گمراہ لوگ ہیں، اگر کوئی استاد ایسا کرتا ہے تو اس کا اپنا فعل ہے۔ ہمارا نظریہ اور موقف وہی ہے جو بتا دیا ہے۔
اکابر کا احترام
حضرت اپنے اکابر اور اساتذہ کا بے حد احترام کرتے، ان کے خلاف کبھی کوئی بات سننا گوارا نہ کرتے۔ مولانا محمد نواز بلوچ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولانا محمد ریاض انور گجراتی نے حضرت قاضی شمس الدین صاحب کے متعلق کوئی بات کی تو حضرت امام اہل سنت سخت ناراض ہوئے اور مولانا گجراتی کو فوراً جھڑکتے ہوئے بات جاری رکھنے سے منع فرما دیا۔
جذبہ جہاد
۱۹۷۰ء میں آئین شریعت کا نفرنس موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہو نا تھی۔ اس کا استقبالیہ کیمپ گوجرانوالہ میں لگایا گیا۔ حضرت شیخ الحدیث اس کے نگران اور منتظم تھے۔ قافلے آرہے تھے اور حضرت شیخ الحدیث بڑی تندہی اور لگن سے ان کا استقبال فرما رہے تھے۔ ایک قافلہ مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کی قیادت میں گوجرانوالہ پہنچا۔ حضرت شیخ الحدیث نے حضرت ہزاروی کو تفسیر عثمانی اور تلوارہدیتاً پیش فرمائی اور کہا کہ حضرت ہزاروی ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر میدان میں ہیں، ہم حضرت ہزاروی کے ساتھ ہیں اور نفاذ شریعت کے لیے اپنا تن من دھن لٹانے سے گریز نہیں کریں گے۔
تکبیر اولیٰ کا اہتمام
مدرسہ نصرۃ العلوم میں حفظ کے استاد اور قاری محمد عبداللہ صاحب کے صاحبزادے قاری محمد عبید اللہ عامر فرماتے ہیں: میں نے ۱۹۸۴ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم سے دورۂ حدیث کیا۔ حدیث کے سبق میں کسی نے حضرت شیخ الحدیث کو طلباء کی شکایت لگائی کہ طلباء نماز میں سستی کرتے ہیں۔ اس پر حضرت نے فرمایا، میرا یہاں گھر نہیں ہے۔ اگر میں یہاں رہتا ہوتا تو پھر دیکھتا کہ طلباء نمازمیں کیسے سستی اور کوتاہی کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا : الحمد للہ ۵۳ برس سے میری تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی ۔
یہ بات حضرت شیخ الحدیث نے ۱۹۸۴ء میں بیان کی۔ اس کے بعدجب تک صحت ٹھیک رہی اور حضرت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے آتے رہے، اس وقت تک نماز کا با جماعت تکبیراولیٰ کے ساتھ اہتمام فرماتے رہے ۔ ۱۹۸۴ء کے بعد اگر حضرت کی صحت کا باقی زمانہ بھی شامل کر لیا جائے تو کل ۷۰ برس بنتے ہیں۔ ۷۰ برس تک تکبیراولیٰ کا اہتمام، یہ اسی کی برکت تھی کہ حضرت کی تقریر اور تحریر میں اتنا اثرتھاکہ ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں آپ کی کتب کے مطالعہ سے انقلاب آیا اور شرک و بدعت اور باطل نظریات سے توبہ کی۔
شاگردوں کا اکرام
مدرسہ ریحان المدارس میں جلسہ تھا۔ جلسہ کے بعد ویگن میں حضرت شیخ الحدیث نے واپس جاناتھا۔ قاری محمد عبید اللہ عامر نے مولانا محمد نواز بلوچ سے پوچھا کہ حضرت استاد صاحب کو چھوڑنے کے لیے ساتھ کون جا رہا ہے۔ بلوچ صاحب نے فرمایا: قاری صاحب، آپ تشریف لے جائیں۔ قاری صاحب ویگن میں پیچھے بیٹھ گئے اور حضرت اما م اہل سنت ویگن میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ گکھڑ جا کر حضرت امام اہل سنت ویگن سے اتر کر گھر کی طرف چل پڑے۔ ان کے پیچھے پیچھے قاری صاحب جاتے رہے۔ جب حضرت گھر کے دروازے پر پہنچے تو تب ان کو قاری صاحب کی آمد کا پتہ چلا تو حضرت امام اہل سنت نے فرمایا: تم کب آئے؟ قاری صاحب نے عرض کی، استاد جی! میں تو گوجرانوالہ سے آپ کے ساتھ آیا ہوں۔ فرمایا، گاڑی والا واقف ہے؟ قاری صاحب نے عرض کیا نہیں، تو حضرت امام اہل سنت نے کھانا کھلایا، پھر خود چار پائی اٹھا کر لائے اور بچھائی۔ خود بستر لگایا اور کہا کہ آرام کرو۔ پانی کا ایک لوٹا بھر کر لادیا اور کہا کہ اگر پیشاب کی حاجت ہو تو پانی بھر دیا ہے، اسے استعمال میں لے آنا۔ یہ تھی حضرت امام اہل سنت کی اپنے تلامذہ سے محبت اور شفقت۔ آج ہم اپنے رویوں پر غور کریں، پھر دیکھیں کہ یہ ہمارے اکابر تھے جن کا ہم نام لیتے ہیں اور ہم کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت امام اہل سنت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔
معاملات میں صفائی
قاری محمد عبید اللہ عامر فرماتے ہیں کہ ۱۹۸۸ء میں ایک مرتبہ میں حضرت امام اہل سنت کے ساتھ سفر میں گیا۔ حضرت شیخ نے مجھے دو ہزار روپے بطور سفری اخراجات دیے اور کہا کہ سب خرچ ساتھ ساتھ لکھتے رہنا۔ میں نے ایسے ہی کیا۔ جب سفر سے واپسی ہوئی تو میں نے سفری اخراجات کی تفصیل اور بقایا رقم حضرت کو پیش کردی۔ حضرت امام اہل سنت نے خرچ کی تفصیل پڑھی تو فرمایا کہ قاری صاحب، حساب میں کچھ گڑ بڑ ہے۔میں کانپ گیا کہ میں نے تو ایک ایک پا ئی کا حساب لکھا ہے، پھر گڑ بڑ کیسے ہوگئی۔ میں نے عرض کیا، حضرت کہاں گڑ بڑ ہے۔ میں نے تو پوری کوشش کی تھی کہ ہر خرچ لکھوں۔ حضرت نے فرمایا کہ قاری صاحب پتو کی اسٹیشن پر ایک مانگنے والے فقیر کو میں نے کچھ دینے کے لیے کہا تھا، وہ اس میں درج نہیں ہے۔ میں نے کہا، حضرت اس کو ایک روپیہ میں نے دیا تھا۔فرمایا، میں نے کہاتھا اور آپ نے میرے کہنے پر دیا تھا۔وہ میرے خرچ میں درج ہونا چاہیے تھا۔ درج نہیں ہے، یہی تو گڑ بڑ ہے۔ ایک روپیہ پر تنبیہ فرمائی۔ یہ تھی امام اہل سنت کی معاملات میں صفائی۔ ایسے ہی کاموں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے حضرت امام اہل سنت سے وہ کام لیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔
مہمان کا اکرام
حضرت انتہادرجہ کے مہمان نواز تھے۔ مہمانوں کا دل کی گہرائیوں سے اکرام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیماری کے ایام میں اپنے بیٹے مولانا عزیزالرحمن شاہد کو مہمانوں کا اکرام کرتے اور حسن اخلاق سے پیش آتے دیکھ کر حضرت شیخ الحدیث بہت خوش ہوئے اور فرمایا، مولانا! علم میں تم میرے برابر نہیں ہو، اخلاق میں تم میرے جیسے ہو۔ مہمانوں کا اکرام بھی کرتے ہو اور حسن اخلاق سے پیش آتے ہو۔ ایک دفعہ گکھڑ کے ہی حاجی نذیرصاحب حضرت شیخ الحدیث سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ حضرت خود بیمار تھے، چار پائی پر بیٹھے تھے۔ حاجی نذیر صاحب نے حضرت سے مصافحہ کیا۔ حضرت کے کمرے میں چند اور مہمانوں کے ہمراہ مولانا عزیز الرحمن شاہد بھی موجود تھے۔ چونکہ حاجی نذیر صاحب گکھڑ سے ہی تشریف لائے تھے اور وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہتے تھے، اس لیے مولانا عزیز الرحمن مہمان کے اکرام میں کھڑے ہو کر نہیں ملے، بلکہ بیٹھے بیٹھے ہی مصافحہ کر لیا۔ اس پر حضرت شیخ الحدیث نے مولانا عزیزالرحمن شاہد کو جھڑ کا اور غصہ بھی ہوئے اور یہ حدیث مبارک پڑھی : من لم یرحم صغیرنا ولم یؤقر کبیرنا فلیس منا۔ جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ پھر حضرت نے فرمایا مولانا، حاجی صاحب آپ سے بڑے ہیں، آپ کو اٹھ کر ملنا چاہیے تھا۔
اصلاح کا انداز
حضرت شیخ الحدیث کے صاحبزادے مولانا عزیز الرحمن شاہد فرماتے ہیں کہ حضرت کا اصلاح کا انداز عجیب تھا۔ جب ہم پڑھتے تھے تو کبھی کبھی اگر اچھی طرح استری کیے ہوئے، سفید اور خوبصورت کپڑے پہن لیتے، حضرت والد صاحب دیکھتے تو سمجھ جاتے کہ آج اکڑ کر چل رہے ہیں اور شان و شوکت والے کپڑے پہن کر کہیں یہ اترانے نہ لگ جائیں، چنانچہ ہمیں بلاتے اور گھر سے لے کر باہر گلی کے آخرتک نالی صاف کرواتے۔ اگر کبھی ہاتھ پر شاپر چڑھا نے لگتے تو فوراً منع کر دیتے، شاپر نہ چڑھانے دیتے اور فرماتے: پہلے اچھی طرح سے نالی کی صفائی کرو، بعد میں ہاتھ دھو لینا۔ (اللہ اکبر)
سادگی
ایک مرتبہ حضرت شیخ الحدیث رات کو کسی جلسہ میں تشریف لے گئے۔ صبح فجر کے بعد گھر تشریف لائے اور اپنی اہلیہ کو فرمایا کہ نا شتہ تیار کر دو۔ چونکہ حضرت رات گھر پر نہیں تھے، اس لیے اہلیہ محترمہ نے صبح سویرے حسب معمول آٹا وغیرہ ابھی تک گوندھا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت نے اہلیہ سے کہا کہ ناشتہ جلدی تیار کر دو۔ حضرت کی اہلیہ محترمہ ابھی آٹا گوندھ رہیں تھیں۔ انہوں نے حضرت سے عرض کی کہ آپ ابھی جہاں سے آئے ہیں، انہوں نے آپ کو ناشتہ بھی نہیں کروایا؟ حضرت تھوڑا مسکرائے، پھر فرمایا، اللہ کی بندی تو ناشتہ کی بات کرتی ہے، انہوں نے تو رات کو بھی کھانا نہیں کھلایا۔ بس جلسہ ختم ہو اتو انہوں نے مسجد کے صحن میں چار پائی لگا دی اور سلادیا تھا۔
انسانی ہمدردی
ایک دفعہ حضرت کسی جلسہ سے واپس تشریف لائے اور جلدی جلدی اپنے ٹیبل کی دراز کھولی اور وہاں سے کچھ رقم نکالی اور فوراً باہر چلے گئے۔ حضرت کی اہلیہ نے پوچھا، آپ ابھی تو آئے ہیں، پھر اتنی جلدی کہاں تشریف لے جار ہے ہیں؟ حضرت شیخ الحدیث نے فرمایا میں بس ابھی آتا ہوں۔ حضرت کی اہلیہ نے اپنے بیٹے مولانا عزیزالرحمن شاہد کو بھیجا کہ جاؤ دیکھو، آپ کے ابو کہاں جا رہے ہیں۔ حضرت باہر گئے اور ڈرائیور کو کچھ رقم دی، پھر گھر واپس تشریف لے آئے ۔ اہلیہ محترمہ نے کہا: لوگ جلسوں میں جاتے ہیں، پیسے لاتے ہیں اور آپ جلسے سے واپس تشریف لاتے ہیں تو گھر سے پیسے دے رہے ہیں۔ اس پر حضرت شیخ نے فرمایا کہ جس گاڑی پر آیا ہوں، اس کا ڈرائیور عیسائی ہے۔ راستہ میں اس کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ اس کی تنخواہ کے متعلق بھی سوال کیا تو وہ بیچارہ روپڑا تھا۔ اس کی تنخواہ کم ہے، صاحب اولاد ہے، اس کا گزارا مشکل ہوتا ہے، اس لیے میں نے کچھ رقم اس کو دی تا کہ اس کی پریشانی کچھ کم ہو سکے ۔ حضرت کا دوران سفر ملنے والے اور ملاقات کے لیے آنے والے مہمانوں سے بات چیت کرنے اور ان کے مشاغل کے متعلق معلومات حاصل کرنے کا معمول تھا ۔ اگر کوئی پریشان حال نظر آتا تو حضرت شیخ اس کے ساتھ تعاون فرماتے تھے۔
نصیحت
حضرت امام اہل سنت حق گوتھے اور اس کو اکابر کا طریقہ کا ر قرار دیتے تھے۔ حضرت کے صاحبزادے مولانا عزیز الرحمن شاہد صاحب جب گوجرانوالہ کے پوش ایریا واپڈا ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوئے تو حضرت امام اہل سنت نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : دیکھو بیٹا ! نوکری اور ملازمت نہیں کرنی۔ واپڈا ٹاؤن پوش ایریا ہے، وہاں پر امیر اور دولت مند لوگ رہتے ہیں۔ وہاں حق گوئی سے کام کرنا، بات سچ کرنا۔ ہمارے اکابر کا یہی طریقہ کا ررہا ہے۔ وہاں کی دولت کی وجہ سے، روپے پیسے کی وجہ سے کہیں زبان لڑکھڑا نہ جائے۔ اپنے اکابر کا دامن نہ چھوڑ نا، تیری زبان سے حق سچ ہی ہمیشہ نکلنا چاہیے، البتہ زبان کا لب و لہجہ نرم رکھنا۔ حضرت امام اہل سنت کا اپنا طریقہ کا ر بھی یہی تھا ۔ ہمیشہ حق گوئی ہی سے کام لیا۔ حضرت کی تحریر بھی ہمیشہ ایسی ہی ہوتی تھی کہ جب کسی باطل کے خلاف لکھنا شروع کر تے تو حضرت کے دلائل کے سامنے باطل کے دلائل کر چی کرچی ہوتے محسوس ہوتے مگر اس کے باوجود زبان اور قلم کے استعمال میں اعتدال کا دامن نہ چھوڑتے۔
طالبان سے عقیدت
بیماری کے آخری ایام میں گفتگوکا سلسلہ بھی رک گیا تھا۔ گھروالوں کی شدید خواہش تھی کہ حضرت کچھ ارشاد فرمائیں، گفتگو کریں، مگر حضرت صرف اشارہ ہی کرتے،بول نہ سکتے تھے۔ انہیں دنوں دو جہادی راہ نما حضرت سے ملاقات اور زیارت کے لیے تشریف لائے۔ حضرت کے صاحبزادے مولانا عزیز الرحمن شاہد ان سے گفتگو کر رہے تھے۔ دوران گفتگو طالبان کا ذکر آگیا۔ طالبان کا لفظ حضرت کے کانوں میں پڑنے کی دیر تھی کہ حضرت نے مہمانوں کو اپنے قریب کر لیا اور ان سے طالبان کے حالات و واقعات سننے لگ گئے اور طالبان کے متعلق سوال وجواب کرتے رہے۔ مجلس کے اختتام پر حضرت نے طالبان کے لیے بہت ساری دعائیں کی ۔
حضرت جہادی راہ نماؤں اور کارکنوں کو بڑے شوق سے ملتے اور ان کا بہت اکرام فرماتے تھے اور جہادی کارروائیاں بڑی دلچسپی سے سنتے اور اپنی دعاؤں سے بھی نواز تے تھے۔ حضر ت کے دل میں جذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اپنی خود نوشت میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں: میرے پاس بندوق پہلے سے موجود تھی، میں نے شوق جہاد میں تلوار بھی خریدلی۔ حضرت امام اہل سنت نے ایک کتابچہ ’’شوق جہاد‘‘ کے نام سے بھی تحریر فرمایا ہے۔
مہمان کا اکرام
حضرت شیخ الحدیث کے ایک قریبی عزیز خالد صاحب ٹرک ڈرائیور ہیں۔ وہ رات دو بجے گکھڑ سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ چلو حضرت شیخ صاحب سے ملاقات کر کے جاتا ہوں، حال احوال بھی معلوم ہو جائے گا۔ پھر علاقے میں جا کر عزیز رشتہ داروں کو بھی حضرت شیخ الحدیث کی طبیعت اورصحت کے بارے میں آگاہ کر دوں گا۔ انہوں نے دروازے پر دستک دی۔ حضرت نے دروازہ کھولا تو فرمایا : خالد بیٹا! اس وقت کیسے آنا ہوا۔ انہوں نے عرض کی کہ حضرت! ادھر سے گزر رہا تھا تو میں نے سوچا، آپ سے ملاقات کر کے جاتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا، گاڑی کدھر ہے؟ عرض کی کہ حضرت گاڑی سڑک پر ہے اور اس کے بعد کچھ دیر وہ حضرت کے پاس بیٹھے رہے۔ حضر ت نے ان کا اکرام کیا، بوتل وغیرہ پلائی۔ خالد صاحب دیگر اہل خانہ کو ملنے کے لیے اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ حضرت کے کمرہ میں واپس آئے تو حضرت اپنے کمرے میں موجود نہیں تھے۔ گاڑی کے پاس گئے تو دیکھا کہ حضرت شیخ الحدیث کنڈیکٹر کو بوتل پلا رہے تھے۔ خالد صاحب کہتے ہیں، میں حضرت کو وہاں کھڑا دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو گیا اور عرض کی کہ حضرت، آپ نے اس بڑھاپے میں اتنی زحمت کیوں کی؟ تو فرمایا، میں ادھر آیا تھا کہ گاڑی کے پاس کھڑا ہوتا ہوں کہ رات کا وقت ہے۔ جب ادھر آیا تو کنڈیکٹر بھی موجود تھا تو اس کو پانی پلا دیا۔ یہ میرا حق ہے۔ خالد صاحب فرماتے ہیں کہ گکھڑ سے وزیر آباد تک تو اس واقعہ کی وجہ سے میرا ہوش ٹھکا نے نہ رہا کہ اتنا بڑا شخص اپنے چھوٹوں پر اس قدر شفقت کر سکتا ہے۔ جب وزیر آباد سے گزرگئے تو کنڈیکٹر نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ بابا جی کون تھے جو بوتل لے کر آئے تھے؟ میں نے اس کو حضرت کے متعلق مختصراً بتایا تو وہ حضرت کا عقیدت مند بن گیا۔
کیاشان تھی حضرت امام اہل سنت کی۔ ایسی باتیں سننا اور پڑھنا آسان مگر عمل شاید ہمارے لیے نا ممکن ہو۔ حضرت امام اہل سنت واقعی قرون اولیٰ کی نشانی تھے۔ اللہ رب العزت حضرت کے درجات بلند فرمائے، آمین یارب العالمین۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ گوجرانوالہ، امام اہل سنت نمبر، جولائی ۲۰۰۹ء)