راقم کے جدِّ امجد حکیم حافظ احمد حسن مرحوم علیہ الرحمۃ المعروف حافظ جی عرق شربت والے گکھڑ منڈی کے محلہ نئی آبادی میں بریلوی مکتبِ فکر کی جامع مسجد حنفیہ غوثیہ المعروف دارے والی مسجد کے امام و مدرس تھے۔ راقم کے چچا جان عبداللطیف صاحب جو آج کل لاہور میں مقیم ہیں، راوی ہیں کہ میں پورے محلہ سے روٹیاں اور سالن اکٹھا کیا کرتا تھاجو اس دور میں معیوب نہ سمجھا جاتا تھا ۔ گیارھویں کا ختم اور اہلِ محلہ کی فوتگی وغیر ہ پر تو مزے ہوا کرتے تھے ۔ اسی دوران راقم کے والدِ ماجدحضرت مولوی بشیر احمد لدھیانوی علیہ الرحمۃ کو اللہ تعالیٰ نے امامِ اہل سنت شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نوّ راللہ مرقدہ کا درسِ قرآن سننے کا موقع عطا فرمایا ۔ بس درسِ قرآن سننا تھا کہ اندر ایک آگ سی لگ گئی ۔یہی آگ آگے بڑھ کر ہمارے پورے ددھیالی خاندان کے عقید ہ کی درستگی کا باعث بنی، وللہ الحمد ۔
حضرت والد رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدگی کے ساتھ امامِ اہل سنت رحمہ اللہ کا درسِ قرآن و حدیث سننا شروع کردیا اور اپنے والدِ ماجد حکیم حافظ احمد حسن ؒ کے سامنے امامِ اہل سنت ؒ کے علم و حکمت کا تذکرہ بھی شروع کردیا ۔ راقم کے جدِّ امجد ؒ اپنے لختِ جگر کو سمجھاتے اور دھمکاتے کہ تو وہابی مولوی کے پاس مت جایا کر ، مگر سختی سے منع کرنے کے لیے کوئی ٹھو س وجہ بھی موجود نہ تھی۔ راقم کے والد ماجد ؒ اپنے بقیہ بھائیوں میں سے متمول بھی تھے اور والدین کے لیے متمول بیٹے کی جائز بات کورد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ راقم کے والد ماجد ؒ کے بارہا اصرار پر حضرت جدِّ امجدؒ بھی ایک دفعہ امامِ اہل سنت ؒ کے حلقہ درس میں پہنچ گئے۔ امامِ اہل سنت ؒ کا درس سننا تھاکہ اللہ ربّ العزت نے کایا ہی پلٹ دی اور فرمانے لگے کہ آہ! ہم نے وقت ضائع کردیا۔ علم اور اس کا نور تو یہاں موجود ہے ۔
پھر حضرت والد ماجد ؒ کے ہمراہ جدِّ امجد نے بھی حضرت امامِ اہل سنتؒ کے حلقۂ درس میں باقاعدگی سے جانا شروع کر دیا۔ اس دور میں قبلہ والد صاحب ، چچا جان عبداللطیف ، تایا جان محمود الحسن حضرت جدِّ امجد اور اُن کے والد حافظ عبدالعزیز ؒ یہ سب حضرات نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے گکھڑ میں ہی ایک اور بریلوی مکتبِ فکر کی جامع مسجد عالیہ صدیقیہ میں جایا کرتے تھے۔ وہاں مولوی بشیر صاحب سیالکوٹی بریلوی جمعہ پڑھایاکرتے تھے۔ ان مولوی صاحب کے علم کا یہ حال تھا کہ ایک جمعہ میں وہ اپنے نمازیوں سے کہنے لگے کہ بھئی پتہ ہے، آئندہ کل شبِ برات ہے اور آپ لوگوں نے خوب چراغاں کرنا ہے اور یہ چراغاں زیادہ سے زیادہ اس لیے کرنا ہے کہ وہابی جلیں۔ (یعنی علم اُسے بھی تھا کہ یہ چراغاں کوئی نیکی کا کام نہیں ہے )۔ حدیثِ قدسی ہے: من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب۔ اس پر راقم کے جدِّ امجد ؒ کے والد حافظ عبدالعزیز ؒ نے فرمایا کہ بھئی، یہ مولوی تو بس ایسا ہی ہے، لہٰذا آئندہ سے جمعہ بھی برخوردار بشیر کے مولوی یعنی امامِ اہل سنت ؒ کے پیچھے پڑھا کریں گے۔ ادھر دارے والی مسجد والوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہورہا تھا کہ حافظ جی امام تو ہمارے ہیں مگر درس اور جمعہ کے لیے وہابی مولوی کے پاس جا تے ہیں ۔ بارہا منع کرنے کے باوجود بھی حافظ جی منع نہیں ہوئے ۔ با لآخر ایک دن انہوں نے یہ کہہ دیا کہ حافظ جی یا تو وہابی مولوی کا وعظ سننا چھوڑ دیںیا پھر ہماری امامت چھوڑ دیں ۔
اب چونکہ عقیدۂ توحید کی حلاوت ان کے اندر امامِ اہل سنت ؒ کے علم و عرفان سے رچ بس چکی تھی، اس عقیدہ سے ہاتھ دھونا تو ان کے لیے اتنا ہی مشکل تھا جتنا کہ انگارہ ہاتھ پر رکھنا مشکل ہوتا ہے، لہٰذا حضرت جدِّ امجد ؒ اللہ ربّ العزت کی ذاتِ اقدس پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے وَاُفَوِّضُ اَمْرِی اِلَیْ اللّٰہْ کہہ کر بریلویوں کی امامت سے مستعفی ہوگئے ۔ (ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤ تِیہِ مَنْ یَّشَاءُ) اِک در بند سو در کھلے۔ اللہ ربّ العزت نے راقم کے والد ماجد کے کاروبار بشیر اینڈ عبداللطیف ٹیکسٹائل ملز گکھڑ میں خوب برکت عطا فرما دی تھی اور جدِّ امجد ؒ چونکہ حکیم بھی تھے ، انہوں نے گکھڑ کی مسجد شاہ جمال کے ساتھ حکمت اور عرق شربت کا کاروبار بھی شروع کردیا۔ابتداء اً مسجد میں امامت اور پھر رمضان المبارک میں تراویح کا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں حضرت جدِّ امجد ؒ نے پینتیس سال شاہ جمال مسجد میں قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی۔ آخری عمر میں اسی مسجد میں بیٹھ کر اپنے پوتے یعنی راقم کے بڑے بھائی جناب حافظ قاری شبیر احمد عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ سے تراویح میں قرآن سنتے رہے ۔ حضرت قاری صاحب مدظلہ نے تقریباً بارہ سال مسلسل قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی ۔ یوں جامع مسجد شاہ جمال میں ہمیں اللہ ربّ العزت نے تین سال کم نصف صدی تک مسلسل تراویح میں قرآن سنانے کی سعادت سے نوازا ۔ (ہذا مِن فضلِ ربیّ )
۱۹۹۲ء میں حضرت جدِّ امجد ؒ داعئ اجل کو لبیک کہہ کر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت جدِّ امجد ؒ کی نمازِ جنازہ بھی حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے پڑھائی اور فرمایا کہ ایک وہ وقت تھا جب ہمارے اس پورے علاقہ میں کوئی حافظ نہ ہوتا تھا مگر صرف حکیم حافظ احمد حسن مرحوم ؒ ہی ہواکرتے تھے ۔ ایک دفعہ حاجی محمد یوسف سیٹھی ؒ مرکزی جامع مسجد امامِ اہل سنت ؒ المعروف بوہڑ والی مسجد میں جمعہ کے وقت کھڑے ہوگئے۔ اعلان کیا کہ سارے مجمع میں جو کوئی مجھے تجوید کے ساتھ صرف ایک رکوع قرآن پاک کا سنائے گا تو اُسے پچاس روپے نقد انعام دیا جائے گا۔ یہ ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ اُس دور میں پچاس روپے بہت بڑی رقم ہوا کرتے تھے ۔یہ سعادت بحمد اللہ راقم کے جدِّ امجد کو نصیب ہوئی۔ اس پر حاجی سیٹھی ؒ کہنے لگے کہ حافظ جی آپ تو لدھیانہ کے ہیں، میں نے اس علاقہ کی بات کی ہے۔ قصہ مختصر حضرت جدِّ امجد نے پچاس روپے جمعہ کے مجمع میں بطورِ انعام وصول کیے۔
حضرت امامِ اہل سنت ؒ جمعہ کی نمازسے فراغت کے بعد کچھ دیرمسجد میں تشریف فرما ہوتے ۔ لوگ مسائل وغیرہ پوچھتے۔ حضرت ؒ اصل پنجابی زبان میں جواب ارشاد فرماتے تا کہ سائلین کو مسئلہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو ۔ کبھی کبھار مجلس کے اختتام پر حضرت ؒ ہمارے غریب خانہ میں دوپہر کے کھانے کے لیے تشریف لاتے ۔ اس دوران بھی مجلس ہمیشہ علمی ہی ہوا کرتی تھی۔
حضرت امامِ اہل سنت ؒ خوش طبع بھی بہت تھے۔ علامہ زاہد الراشدی حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ گھر میں ہاتھوں کو آپس میں باندھ کر گھگھو بجارہا تھاتو میرے چھوٹے بھائی مولانا منہاج الحق خان راشد سلمہ کی بیٹی خوش ہورہی تھی۔ اس پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ فرمانے لگے کہ زاہد! یہ بھلا کیوں خوش ہورہی ہے؟ فرماتے ہیں، میں نے پوچھا کہ کیوں خوش ہورہی ہے؟ حضرت فرمانے لگے کہ یہ اس لیے خوش ہورہی ہے کہ اتنا بڑا گھگھوہے ۔ سبحان اللہ! مزاح میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی ہوا کرتی تھی۔
راقم نے بچپن میں ایک خواب دیکھا کہ ہمارے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جس کے پیدایشی طور پر دانت بھی موجود ہیں اور ڈاڑھی بھی موجود ہے ۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے راقم کے والد ماجد ؒ حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے پاس پہنچے اور خواب ذکر کیا۔ حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے تعبیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یا تو واقعی آپ کے ہاں ایسا بچہ پیدا ہوگا یا پھر جس نے یہ خواب دیکھا ہے، وہ بچہ آپ کا دین دار بنے گا ۔ اب راقم کے ماشاء اللہ دس بہن بھائی ہیں۔ اکثریت کا نام بھی حضرت امامِ اہل سنت ؒ ہی نے رکھا ہے۔ بڑی ہمشیرہ جمیلہ بی بی تھیں جو کہ اللہ ربّ العزت کو پیاری ہوچکی ہیں جو حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے قائم کردہ مدرسہ معارفِ اسلامیہ میں معلمہ تھیں اور ایک عرصہ تک قرآن و سنت کی خدمت میں مصروف رہی ہیں۔ اللہ ربّ العزت مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، آمین۔ بقیہ نوبہن بھائیوں میں سے راقم کو اللہ ربّ العزت نے نام کا عالم بنا دیا ہے، کام کا عالم بننے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ۔
میں مشکوٰۃ شریف اور دورۂ حدیث شریف کے لیے جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد چلا گیا۔ جامعہ امدادیہ میں کچھ حالات خراب ہوئے تو حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے فرمایا کہ العین حق،العین حق، العین حق کہ نظر برحق ہے ۔ پھر حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے فرمایاکہ ہمارے اس جامعہ نے بہت کم عرصہ میں بہت زیادہ ترقی حاصل کی ہے اور حاسدین کی نظر اس کو لگی ہے۔ اس پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے کافی دیر دعا بھی فرمائی۔ راقم جامعہ اسلامیہ امدادیہ سے فراغت کے بعد اپنے ہم کلا س جناب مولانا مفتی عبدالباسط صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ، جو آج کل جامعہ اشرفیہ لاہور میں انٹر نیٹ پر افتا کاکام کررہے ہیں، حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتا یا کہ ہم دورہ حدیث شریف پڑھ چکے ہیں۔ اس پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے ہمیں سندِ حدیث سے نوازا۔ حضرت امامِ اہل سنت ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے اکابر کا قرض بحمداللہ چکا دیا ہے۔ اب تمہارے کندھوں پر یہ قرض ہے۔
تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ لکھ رہا ہوں کہ ہمارے خاندان پر زندگی میں تو حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا شفقت بھر ا ہاتھ تھا ہی، جاتے جاتے بھی آپ ایک نیکی ایسی میرے ہاتھ میں تھما گئے جو ان شاء اللہ میری نجات کا سبب بنے گی۔ وہ یہ کہ حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی قبرمبارک میں نے اول تا آخر خود ہی اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے۔ قبرمبارک کا اوپر والا حصہ تقریباً ساڑھے تین فٹ چوڑا‘ تین فٹ گہرا، آٹھ فٹ لمبا رکھا اور لحد مبارک کا دہانہ تقریباً سولہ انچ کھلا اور ساڑھے سات فٹ لمبا رکھا۔ لحد مبارک کی کل پیمایش زمینی حصہ پر بتیس انچ چوڑائی، ساڑھے سات فٹ لمبائی اور چالیس انچ اونچائی رکھی۔ ظہر کے وقت جب قبر مکمل تیار ہوگئی تو سب لوگ نماز جنازہ کے لیے ڈی سی ہائی سکول کی گراؤنڈ کی طرف جارہے تھے۔ راقم نے ابھی کپڑے بھی بدلنے تھے ‘ غسل وغیرہ بھی کرنا تھا۔ اسی اثنا میں راقم کے بھائی قاری شبیر احمد عثمانی سلمہ مرقد مبارک پر تشریف لائے تو میں نے کہا کہ آپ یہاں ٹھہریں اور خود غسل وغیرہ کے لیے گھر چلا گیا۔ کپڑے وغیرہ بدل کر جب گھر سے نکلا تو ہجوم دیکھ کر یہ محسو س ہورہا تھا کہ میں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی زیارت بھی نہ کرسکوں گا ، لیکن اللہ ربّ العزت نے قبر مبارک کی کھدائی کی برکت سے جنازہ کی تیسری صف میں شامل ہونے کی سعاد ت سے نوازا اور پھر کچھ پتہ نہ چلا کہ کیسے اسٹیج پر پہنچ گیا۔
وہاں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی جو زندہ کرامت دیکھی، وہ یہ تھی کہ کثرتِ ہجوم کی وجہ سے جس ٹرالہ پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا جسد مبارک تھا، وہ ٹرالہ سر کی طرف سے چھوٹے سے پائپ کے سہارے کھڑا ہچکولے لے رہا تھااور میرا کلیجہ منہ کو آرہا تھاکہ یہ کہیں گر نہ جائے، لیکن اللہ ربّ العزت نے حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی آخری کرامت بھی دکھا دی اور وہ ٹرالہ صحیح و سالم اپنی جگہ کھڑا رہا اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا جسد مبارک معارفِ اسلامیہ کی گاڑی میں رکھ دیا گیا۔ مجھے کسی نے اٹھا کر گاڑی میں داخل کر دیا۔ اب مجھے اللہ ربّ العزت نے قبرستا ن تک حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی زیارت سے سرفراز فرمایا ۔ چہرۂ انور دیکھ کر یہ یقین ہورہا تھا کہ یہ چہرہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد سو دفعہ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے والا تھا، کیونکہ چہرۂ انور قسم بخدا چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ قبرستان پہنچے تو اب بھی اللہ ربّ العزت نے قبر مبارک تک ساتھ نصیب فرمایا۔ قبر مبارک میں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا جسدِ خاکی اتارنے والے خوش نصیبوں میں مولانا زاہد الراشدی‘ مولانا عبدالقدوس قارن‘ مولانا عبدالحق بشیر، مولانا عزیز الرحمن شاہداور حضرت ؒ کے خادم خاص میر لقمان اللہ صاحب تھے۔ انہوں نے سنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے بسم اللہ وعلیٰ ملتِ رسول اللہ پڑھتے ہوئے علم وعرفان کے سورج کو قبر مبارک میں اتار دیا تو ادھر اللہ ربّ الشمس نے دنیا کے سورج کو مغرب میں غروب فرمادیا ۔ لحد مبارک کے دہانے پر کچی اینٹیں لگانے کی سعادت اللہ ربّ العزت نے راقم کو بھی نصیب فرمائی اور پھر اُن کے اوپر گارا مٹی لگانے کی توفیق سے بھی نواز ا۔
حضرت کی وفات کے بعد مرکزی جامع مسجد امامِ اہل سنت ؒ میں حضرت کی یاد میں منعقد ہونے والے ایک اجتماع میں استاذ العلماء حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحب دامت برکاتہم نے پشاور کے کسی عالم دین کا خواب سنایا جس سے سامعین کو ایمان میں خوب ترقی نصیب ہوئی۔ قاضی صاحب نے فرمایا اس عالم دین کا خواب یہ ہے کہ دیکھتا ہوں گکھڑ کا قبرستا ن، جس میں حضرت امامِ اہل سنت ؒ آرام فرما ہیں، اس میں سے بڑے بڑے سانپ اور بچھو نکل کر باہر آرہے ہیں۔ اس پر حضرت قاضی صاحب نے فرمایا کہ جس قبرستان میں حضرت امام اہل سنت ؒ آرام فرما ہیں، اس میں بقیہ تمام مردوں سے اللہ ربّ العزت نے یقیناًعذاب ہٹا دیا ہوگا، کیونکہ ایسی شخصیت سینکڑوں سال میں ایک آدھ ہی پیدا ہوتی ہے ۔
طوالتِ مضمون سے بچتے ہوئے میری دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے مسلک و مشرب پر کاربند رہتے ہوئے دینِ حق کی خدمت کے لیے قبول فرمائے اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی جملہ خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے بخشش کا ذریعہ بناتے ہوئے درجات کی بلندیوں کا ذریعہ بنائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی وجہ سے جو خلا واقع ہوا ہے اس کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پُر فرمائے اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے وجود کی وجہ سے جتنے شرور اور فتن دبے ہوئے تھے، وہ اب بھی دبے ہی رہیں اور جس طر ح امّت کا ایک کثیر حلقہ حضرت ؒ کی موجودگی میں حضرت ؒ سے فیض یاب ہورہا تھا، اسی طرح اس حلقہ کو حضرت ؒ کے توسل سے ہمیشہ کے لیے فیض یاب ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین یا ربّ العالمین۔
الَلّٰھُمَّ لاَ تَحْرِمْناَ اَجْرَہٗ وَلاَ تَفْتِنَّا بَعْدَہْ