دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں

قاری محمد اظہر عثمان

راقم کے جدِّ امجد حکیم حافظ احمد حسن مرحوم علیہ الرحمۃ المعروف حافظ جی عرق شربت والے گکھڑ منڈی کے محلہ نئی آبادی میں بریلوی مکتبِ فکر کی جامع مسجد حنفیہ غوثیہ المعروف دارے والی مسجد کے امام و مدرس تھے۔ راقم کے چچا جان عبداللطیف صاحب جو آج کل لاہور میں مقیم ہیں، راوی ہیں کہ میں پورے محلہ سے روٹیاں اور سالن اکٹھا کیا کرتا تھاجو اس دور میں معیوب نہ سمجھا جاتا تھا ۔ گیارھویں کا ختم اور اہلِ محلہ کی فوتگی وغیر ہ پر تو مزے ہوا کرتے تھے ۔ اسی دوران راقم کے والدِ ماجدحضرت مولوی بشیر احمد لدھیانوی علیہ الرحمۃ کو اللہ تعالیٰ نے امامِ اہل سنت شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نوّ راللہ مرقدہ کا درسِ قرآن سننے کا موقع عطا فرمایا ۔ بس درسِ قرآن سننا تھا کہ اندر ایک آگ سی لگ گئی ۔یہی آگ آگے بڑھ کر ہمارے پورے ددھیالی خاندان کے عقید ہ کی درستگی کا باعث بنی، وللہ الحمد ۔ 

حضرت والد رحمۃ اللہ علیہ نے باقاعدگی کے ساتھ امامِ اہل سنت رحمہ اللہ کا درسِ قرآن و حدیث سننا شروع کردیا اور اپنے والدِ ماجد حکیم حافظ احمد حسن ؒ کے سامنے امامِ اہل سنت ؒ کے علم و حکمت کا تذکرہ بھی شروع کردیا ۔ راقم کے جدِّ امجد ؒ اپنے لختِ جگر کو سمجھاتے اور دھمکاتے کہ تو وہابی مولوی کے پاس مت جایا کر ، مگر سختی سے منع کرنے کے لیے کوئی ٹھو س وجہ بھی موجود نہ تھی۔ راقم کے والد ماجد ؒ اپنے بقیہ بھائیوں میں سے متمول بھی تھے اور والدین کے لیے متمول بیٹے کی جائز بات کورد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ راقم کے والد ماجد ؒ کے بارہا اصرار پر حضرت جدِّ امجدؒ بھی ایک دفعہ امامِ اہل سنت ؒ کے حلقہ درس میں پہنچ گئے۔ امامِ اہل سنت ؒ کا درس سننا تھاکہ اللہ ربّ العزت نے کایا ہی پلٹ دی اور فرمانے لگے کہ آہ! ہم نے وقت ضائع کردیا۔ علم اور اس کا نور تو یہاں موجود ہے ۔ 

پھر حضرت والد ماجد ؒ کے ہمراہ جدِّ امجد نے بھی حضرت امامِ اہل سنتؒ کے حلقۂ درس میں باقاعدگی سے جانا شروع کر دیا۔ اس دور میں قبلہ والد صاحب ، چچا جان عبداللطیف ، تایا جان محمود الحسن حضرت جدِّ امجد اور اُن کے والد حافظ عبدالعزیز ؒ یہ سب حضرات نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے گکھڑ میں ہی ایک اور بریلوی مکتبِ فکر کی جامع مسجد عالیہ صدیقیہ میں جایا کرتے تھے۔ وہاں مولوی بشیر صاحب سیالکوٹی بریلوی جمعہ پڑھایاکرتے تھے۔ ان مولوی صاحب کے علم کا یہ حال تھا کہ ایک جمعہ میں وہ اپنے نمازیوں سے کہنے لگے کہ بھئی پتہ ہے، آئندہ کل شبِ برات ہے اور آپ لوگوں نے خوب چراغاں کرنا ہے اور یہ چراغاں زیادہ سے زیادہ اس لیے کرنا ہے کہ وہابی جلیں۔ (یعنی علم اُسے بھی تھا کہ یہ چراغاں کوئی نیکی کا کام نہیں ہے )۔ حدیثِ قدسی ہے: من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب۔ اس پر راقم کے جدِّ امجد ؒ کے والد حافظ عبدالعزیز ؒ نے فرمایا کہ بھئی، یہ مولوی تو بس ایسا ہی ہے، لہٰذا آئندہ سے جمعہ بھی برخوردار بشیر کے مولوی یعنی امامِ اہل سنت ؒ کے پیچھے پڑھا کریں گے۔ ادھر دارے والی مسجد والوں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہورہا تھا کہ حافظ جی امام تو ہمارے ہیں مگر درس اور جمعہ کے لیے وہابی مولوی کے پاس جا تے ہیں ۔ بارہا منع کرنے کے باوجود بھی حافظ جی منع نہیں ہوئے ۔ با لآخر ایک دن انہوں نے یہ کہہ دیا کہ حافظ جی یا تو وہابی مولوی کا وعظ سننا چھوڑ دیںیا پھر ہماری امامت چھوڑ دیں ۔ 

اب چونکہ عقیدۂ توحید کی حلاوت ان کے اندر امامِ اہل سنت ؒ کے علم و عرفان سے رچ بس چکی تھی، اس عقیدہ سے ہاتھ دھونا تو ان کے لیے اتنا ہی مشکل تھا جتنا کہ انگارہ ہاتھ پر رکھنا مشکل ہوتا ہے، لہٰذا حضرت جدِّ امجد ؒ اللہ ربّ العزت کی ذاتِ اقدس پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے وَاُفَوِّضُ اَمْرِی اِلَیْ اللّٰہْ کہہ کر بریلویوں کی امامت سے مستعفی ہوگئے ۔ (ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤ تِیہِ مَنْ یَّشَاءُ) اِک در بند سو در کھلے۔ اللہ ربّ العزت نے راقم کے والد ماجد کے کاروبار بشیر اینڈ عبداللطیف ٹیکسٹائل ملز گکھڑ میں خوب برکت عطا فرما دی تھی اور جدِّ امجد ؒ چونکہ حکیم بھی تھے ، انہوں نے گکھڑ کی مسجد شاہ جمال کے ساتھ حکمت اور عرق شربت کا کاروبار بھی شروع کردیا۔ابتداء اً مسجد میں امامت اور پھر رمضان المبارک میں تراویح کا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں حضرت جدِّ امجد ؒ نے پینتیس سال شاہ جمال مسجد میں قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی۔ آخری عمر میں اسی مسجد میں بیٹھ کر اپنے پوتے یعنی راقم کے بڑے بھائی جناب حافظ قاری شبیر احمد عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ سے تراویح میں قرآن سنتے رہے ۔ حضرت قاری صاحب مدظلہ نے تقریباً بارہ سال مسلسل قرآن سنانے کی سعادت حاصل کی ۔ یوں جامع مسجد شاہ جمال میں ہمیں اللہ ربّ العزت نے تین سال کم نصف صدی تک مسلسل تراویح میں قرآن سنانے کی سعادت سے نوازا ۔ (ہذا مِن فضلِ ربیّ )

۱۹۹۲ء میں حضرت جدِّ امجد ؒ داعئ اجل کو لبیک کہہ کر ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت جدِّ امجد ؒ کی نمازِ جنازہ بھی حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے پڑھائی اور فرمایا کہ ایک وہ وقت تھا جب ہمارے اس پورے علاقہ میں کوئی حافظ نہ ہوتا تھا مگر صرف حکیم حافظ احمد حسن مرحوم ؒ ہی ہواکرتے تھے ۔ ایک دفعہ حاجی محمد یوسف سیٹھی ؒ مرکزی جامع مسجد امامِ اہل سنت ؒ المعروف بوہڑ والی مسجد میں جمعہ کے وقت کھڑے ہوگئے۔ اعلان کیا کہ سارے مجمع میں جو کوئی مجھے تجوید کے ساتھ صرف ایک رکوع قرآن پاک کا سنائے گا تو اُسے پچاس روپے نقد انعام دیا جائے گا۔ یہ ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ اُس دور میں پچاس روپے بہت بڑی رقم ہوا کرتے تھے ۔یہ سعادت بحمد اللہ راقم کے جدِّ امجد کو نصیب ہوئی۔ اس پر حاجی سیٹھی ؒ کہنے لگے کہ حافظ جی آپ تو لدھیانہ کے ہیں، میں نے اس علاقہ کی بات کی ہے۔ قصہ مختصر حضرت جدِّ امجد نے پچاس روپے جمعہ کے مجمع میں بطورِ انعام وصول کیے۔

حضرت امامِ اہل سنت ؒ جمعہ کی نمازسے فراغت کے بعد کچھ دیرمسجد میں تشریف فرما ہوتے ۔ لوگ مسائل وغیرہ پوچھتے۔ حضرت ؒ اصل پنجابی زبان میں جواب ارشاد فرماتے تا کہ سائلین کو مسئلہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو ۔ کبھی کبھار مجلس کے اختتام پر حضرت ؒ ہمارے غریب خانہ میں دوپہر کے کھانے کے لیے تشریف لاتے ۔ اس دوران بھی مجلس ہمیشہ علمی ہی ہوا کرتی تھی۔

حضرت امامِ اہل سنت ؒ خوش طبع بھی بہت تھے۔ علامہ زاہد الراشدی حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ گھر میں ہاتھوں کو آپس میں باندھ کر گھگھو بجارہا تھاتو میرے چھوٹے بھائی مولانا منہاج الحق خان راشد سلمہ کی بیٹی خوش ہورہی تھی۔ اس پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ فرمانے لگے کہ زاہد! یہ بھلا کیوں خوش ہورہی ہے؟ فرماتے ہیں، میں نے پوچھا کہ کیوں خوش ہورہی ہے؟ حضرت فرمانے لگے کہ یہ اس لیے خوش ہورہی ہے کہ اتنا بڑا گھگھوہے ۔ سبحان اللہ! مزاح میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہی ہوا کرتی تھی۔ 

راقم نے بچپن میں ایک خواب دیکھا کہ ہمارے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جس کے پیدایشی طور پر دانت بھی موجود ہیں اور ڈاڑھی بھی موجود ہے ۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے راقم کے والد ماجد ؒ حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے پاس پہنچے اور خواب ذکر کیا۔ حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے تعبیر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یا تو واقعی آپ کے ہاں ایسا بچہ پیدا ہوگا یا پھر جس نے یہ خواب دیکھا ہے، وہ بچہ آپ کا دین دار بنے گا ۔ اب راقم کے ماشاء اللہ دس بہن بھائی ہیں۔ اکثریت کا نام بھی حضرت امامِ اہل سنت ؒ ہی نے رکھا ہے۔ بڑی ہمشیرہ جمیلہ بی بی تھیں جو کہ اللہ ربّ العزت کو پیاری ہوچکی ہیں جو حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے قائم کردہ مدرسہ معارفِ اسلامیہ میں معلمہ تھیں اور ایک عرصہ تک قرآن و سنت کی خدمت میں مصروف رہی ہیں۔ اللہ ربّ العزت مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، آمین۔ بقیہ نوبہن بھائیوں میں سے راقم کو اللہ ربّ العزت نے نام کا عالم بنا دیا ہے، کام کا عالم بننے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ۔ 

میں مشکوٰۃ شریف اور دورۂ حدیث شریف کے لیے جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد چلا گیا۔ جامعہ امدادیہ میں کچھ حالات خراب ہوئے تو حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے فرمایا کہ العین حق،العین حق، العین حق کہ نظر برحق ہے ۔ پھر حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے فرمایاکہ ہمارے اس جامعہ نے بہت کم عرصہ میں بہت زیادہ ترقی حاصل کی ہے اور حاسدین کی نظر اس کو لگی ہے۔ اس پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے کافی دیر دعا بھی فرمائی۔ راقم جامعہ اسلامیہ امدادیہ سے فراغت کے بعد اپنے ہم کلا س جناب مولانا مفتی عبدالباسط صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ، جو آج کل جامعہ اشرفیہ لاہور میں انٹر نیٹ پر افتا کاکام کررہے ہیں، حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بتا یا کہ ہم دورہ حدیث شریف پڑھ چکے ہیں۔ اس پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ نے ہمیں سندِ حدیث سے نوازا۔ حضرت امامِ اہل سنت ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے اکابر کا قرض بحمداللہ چکا دیا ہے۔ اب تمہارے کندھوں پر یہ قرض ہے۔ 

تحدیث بالنعمت کے طور پر یہ لکھ رہا ہوں کہ ہمارے خاندان پر زندگی میں تو حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا شفقت بھر ا ہاتھ تھا ہی، جاتے جاتے بھی آپ ایک نیکی ایسی میرے ہاتھ میں تھما گئے جو ان شاء اللہ میری نجات کا سبب بنے گی۔ وہ یہ کہ حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی قبرمبارک میں نے اول تا آخر خود ہی اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے۔ قبرمبارک کا اوپر والا حصہ تقریباً ساڑھے تین فٹ چوڑا‘ تین فٹ گہرا، آٹھ فٹ لمبا رکھا اور لحد مبارک کا دہانہ تقریباً سولہ انچ کھلا اور ساڑھے سات فٹ لمبا رکھا۔ لحد مبارک کی کل پیمایش زمینی حصہ پر بتیس انچ چوڑائی، ساڑھے سات فٹ لمبائی اور چالیس انچ اونچائی رکھی۔ ظہر کے وقت جب قبر مکمل تیار ہوگئی تو سب لوگ نماز جنازہ کے لیے ڈی سی ہائی سکول کی گراؤنڈ کی طرف جارہے تھے۔ راقم نے ابھی کپڑے بھی بدلنے تھے ‘ غسل وغیرہ بھی کرنا تھا۔ اسی اثنا میں راقم کے بھائی قاری شبیر احمد عثمانی سلمہ مرقد مبارک پر تشریف لائے تو میں نے کہا کہ آپ یہاں ٹھہریں اور خود غسل وغیرہ کے لیے گھر چلا گیا۔ کپڑے وغیرہ بدل کر جب گھر سے نکلا تو ہجوم دیکھ کر یہ محسو س ہورہا تھا کہ میں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی زیارت بھی نہ کرسکوں گا ، لیکن اللہ ربّ العزت نے قبر مبارک کی کھدائی کی برکت سے جنازہ کی تیسری صف میں شامل ہونے کی سعاد ت سے نوازا اور پھر کچھ پتہ نہ چلا کہ کیسے اسٹیج پر پہنچ گیا۔ 

وہاں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی جو زندہ کرامت دیکھی، وہ یہ تھی کہ کثرتِ ہجوم کی وجہ سے جس ٹرالہ پر حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا جسد مبارک تھا، وہ ٹرالہ سر کی طرف سے چھوٹے سے پائپ کے سہارے کھڑا ہچکولے لے رہا تھااور میرا کلیجہ منہ کو آرہا تھاکہ یہ کہیں گر نہ جائے، لیکن اللہ ربّ العزت نے حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی آخری کرامت بھی دکھا دی اور وہ ٹرالہ صحیح و سالم اپنی جگہ کھڑا رہا اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا جسد مبارک معارفِ اسلامیہ کی گاڑی میں رکھ دیا گیا۔ مجھے کسی نے اٹھا کر گاڑی میں داخل کر دیا۔ اب مجھے اللہ ربّ العزت نے قبرستا ن تک حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی زیارت سے سرفراز فرمایا ۔ چہرۂ انور دیکھ کر یہ یقین ہورہا تھا کہ یہ چہرہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد سو دفعہ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے والا تھا، کیونکہ چہرۂ انور قسم بخدا چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ قبرستان پہنچے تو اب بھی اللہ ربّ العزت نے قبر مبارک تک ساتھ نصیب فرمایا۔ قبر مبارک میں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کا جسدِ خاکی اتارنے والے خوش نصیبوں میں مولانا زاہد الراشدی‘ مولانا عبدالقدوس قارن‘ مولانا عبدالحق بشیر، مولانا عزیز الرحمن شاہداور حضرت ؒ کے خادم خاص میر لقمان اللہ صاحب تھے۔ انہوں نے سنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے بسم اللہ وعلیٰ ملتِ رسول اللہ پڑھتے ہوئے علم وعرفان کے سورج کو قبر مبارک میں اتار دیا تو ادھر اللہ ربّ الشمس نے دنیا کے سورج کو مغرب میں غروب فرمادیا ۔ لحد مبارک کے دہانے پر کچی اینٹیں لگانے کی سعادت اللہ ربّ العزت نے راقم کو بھی نصیب فرمائی اور پھر اُن کے اوپر گارا مٹی لگانے کی توفیق سے بھی نواز ا۔ 

حضرت کی وفات کے بعد مرکزی جامع مسجد امامِ اہل سنت ؒ میں حضرت کی یاد میں منعقد ہونے والے ایک اجتماع میں استاذ العلماء حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحب دامت برکاتہم نے پشاور کے کسی عالم دین کا خواب سنایا جس سے سامعین کو ایمان میں خوب ترقی نصیب ہوئی۔ قاضی صاحب نے فرمایا اس عالم دین کا خواب یہ ہے کہ دیکھتا ہوں گکھڑ کا قبرستا ن، جس میں حضرت امامِ اہل سنت ؒ آرام فرما ہیں، اس میں سے بڑے بڑے سانپ اور بچھو نکل کر باہر آرہے ہیں۔ اس پر حضرت قاضی صاحب نے فرمایا کہ جس قبرستان میں حضرت امام اہل سنت ؒ آرام فرما ہیں، اس میں بقیہ تمام مردوں سے اللہ ربّ العزت نے یقیناًعذاب ہٹا دیا ہوگا، کیونکہ ایسی شخصیت سینکڑوں سال میں ایک آدھ ہی پیدا ہوتی ہے ۔ 

طوالتِ مضمون سے بچتے ہوئے میری دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے مسلک و مشرب پر کاربند رہتے ہوئے دینِ حق کی خدمت کے لیے قبول فرمائے اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی جملہ خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے بخشش کا ذریعہ بناتے ہوئے درجات کی بلندیوں کا ذریعہ بنائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کی وجہ سے جو خلا واقع ہوا ہے اس کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پُر فرمائے اور حضرت امامِ اہل سنت ؒ کے وجود کی وجہ سے جتنے شرور اور فتن دبے ہوئے تھے، وہ اب بھی دبے ہی رہیں اور جس طر ح امّت کا ایک کثیر حلقہ حضرت ؒ کی موجودگی میں حضرت ؒ سے فیض یاب ہورہا تھا، اسی طرح اس حلقہ کو حضرت ؒ کے توسل سے ہمیشہ کے لیے فیض یاب ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین یا ربّ العالمین۔ 

الَلّٰھُمَّ لاَ تَحْرِمْناَ اَجْرَہٗ وَلاَ تَفْتِنَّا بَعْدَہْ


مشاہدات و تاثرات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter