حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ اپنے وقت کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جن میں پرانے زمانے کے علما اور بزرگانِ دین کی جھلک واضح طور پردیکھی جاسکتی تھی۔ ایسی کثیر الجہۃ شخصیات بہت کم وجود میں آتی ہیں۔ انہوں نے علماے سلف کی طرح حصولِ علم کے لیے نہ معلوم کہاں کہاں کی خاک چھاننے کے بعد آخر میں دارالعلوم دیوبند جیسے منبعِ صافی سے علمی پیاس بجھائی، بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں علم کی تشنگی بھڑکائی۔ درس وتدریس حضرت کی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے۔ حضرت ؒ کے پاس کچھ عرصہ بیٹھنے ہی سے آپ کے راسخ فی التدریس ہونے کا اندازہ ہو جاتا اور پتا چل جاتا تھا کہ آپ دینی مدارس کی درس وتدریس کی زندگی کی ایک ایک رَگ سے بخوبی واقف ہیں۔ وسعتِ مطالعہ آپ کی زندگی کا ایک دوسرا اہم حوالہ ہے۔ یہ چیز آپ کی تالیفات کی سطر سطر سے اور آپ کے شاگرد بتاتے ہیں کہ آپ کے درس کے لمحے لمحے سے واضح طور پر ٹپکتی تھی۔ تصنیف وتالیف آپ کے تعارف کا ایک اور حوالہ ہے۔ آپ نے درجنوں کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں جن میں سے بعض تو بہت مقبول ہوئی ہیں۔ ایسے نہ معلوم کتنے لوگ ہوں گے جن کی تحقیق کا منتہا یہ ہوگا کہ آپ کی کتابوں سے مستفید ہوکر ان میں دیے گئے حوالوں کی اصل کتب سے مراجعت کرلیں۔ اہلِ علم بالخصوص حدیث پڑھانے والوں کے لیے تو ان کی کتابیں مفید بلکہ تقریباً ناگزیر ہوتی ہی تھیں، بھاری بھر کم علمی مواد کے باوجود عام پڑھے لکھے مسلمان بھی ان سے مستفید ہوتے تھے۔ ہمارے ایک نانا ( والدہ کے چچا) دینی مزاج رکھنے والے اور مطالعے کے شوقین ڈاکٹرتھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر بہت پڑھی لکھی ہستی سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ترکے میں دینی اور تاریخی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا جن کا ایک حصہ بعض ورثہ نے ہمارے والد صاحب کودے دیا تھا۔ ان میں حضرت ؒ کی بھی متعدد کتب موجود تھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں حضرت کے نام اور آپ کی کتابوں سے تعارف اسی ذخیرے کے ذریعے ہوا۔ کہنے کا مقصد یہ کہ آپ کی تصانیف اہلِ علم کے علاوہ عام صاحبِ مطالعہ مسلمانوں کے لیے بھی باعثِ افادہ تھیں۔
آپ کی تصانیف متعدد موضوعات پر ہیں ، لیکن آپ کی تصانیف میں بیشتر حصہ ان کتابوں کا ہے جن کا تعلق مختلف بعض حلقوں کی طرف سے پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہا ت کے ازالے اور اہل السنۃ والجماعۃ خصوصاً علماے دیوبند کے نقطۂ نظر کو دلائل سے ثابت کرنے سے ہے۔ اس طرح کے ردّ وقدح اور بحث ومباحثے کے نتیجے میں عام طور پر گفتگو اور لہجے میں تلخی اور درشتی پیدا ہوجاتی ہے، لیکن حضرت ؒ نے اپنے دامنِ قلم وزبان کو اس سے ہمیشہ محفوظ رکھا۔ ہمیشہ سادہ واضح انداز میں دلیل کے ساتھ بات کی۔ آپ کی بیشتر کتب کا تعلق اگرچہ بحث مباحثے اور بعض حلقوں کی تردید سے ہے، لیکن چونکہ آپ نے ہمیشہ علم اور دلیل کی زبان میں بات کی ہے، اس لیے آپ کی تصانیف میں حدیث، فقہ اور اصولِ فقہ وغیرہ کے متعلق بیش بہا مباحث زیرِ قلم آگئے ہیں جو ان اختلافی مسائل سے ہٹ کر بھی اپنی افادیت رکھتے ہیں۔ یہ مباحث بکھرے موتیوں کے طور پر آپ تصانیف میں جابجا متفرق طور پر موجود ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ کے پوتے جناب عمار خاں ناصر نے انہیں ایک لڑی میں پرونے اور مرتب کرنے کا بیڑا ا ٹھایا ہے۔
آپ کی زندگی اور جدّ و جہد کا بہت اہم پہلو عوامی دعوت اور تذکیرو نصیحت کا کام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کا مشغلہ خاص طور پر جبکہ اس کے ساتھ دیگر حلقہ ہاے فکر کے ساتھ مباحثے کا کام بھی شامل ہوجائے تو اس کی وجہ سے آدمی عوام سے کٹ کر رہ جاتاہے اور اس کی دعوتی اور واعظانہ سرگرمیاں بہت ہی سمٹ جاتی ہیں، بلکہ عموماً پبلک ڈیلنگ کا سلیقہ ہی ختم ہو جاتاہے جس کی وجہ سے عام خلقِ خدا اس سے مستفید نہیں ہو پاتی، لیکن حضرتؒ کی زندگی اس سے بہت بڑا سبق آموز استثنا ہے۔ آپ کی تدریس، تصنیف اور مجادلہ حسنہ کی سرگرمیاں آپ کو عام خلقِ خدا سے کاٹ نہیں سکیں۔ عامۃ الناس کو آپ نے کس طرح مستفید اور سیراب کیا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی اور سیرت کا بہت بڑا عنوان ہے جس پر واقفانِ حال بہت تفصیل سے روشنی ڈال سکتے ہیں۔ حضرت ؒ کے عوامی بیان کے بارے میں ایک عرصے تک احقر کا یہ تأثر رہا کہ اس میں خشک علمی زبان استعمال ہوتی ہوگی، بھاری بھر کم اصطلاحات کی کثرت ہوگی، فرقہ وارانہ مسائل کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی ہوگی، لیکن جب پہلی دفعہ ایک عام مجمع میں حضرت کا بیان سننے کا اتفاق ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ آپ کے بیان میں علمی تثبت تو ہوتا، لیکن اصطلاحی یا مدرسانہ زبان کا دور دور تک کوئی نشان نہ ہوتا۔ وعظ ونصیحت کا سادہ دل فریب انداز جو ازدل خیزد بر دل ریزد کا مصداق ہوتا۔ سنا ہے کہ گکھڑ کی مسجد میں اپنی مادری زبان پنجابی نہ ہونے کے باوجود پنجابی میں ہی درسِ قرآن اور درسِ حدیث دیتے۔ گوجرانوالہ ہی کے ہمارے ایک محترم ومکرّم دوست جناب قاری گلزار قاسمی صاحب ان بیانات اور دروس کو قلم بند کرکے اردو زبان میں منتقل کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے نافع اور مقبول بنائیں۔ آمین۔
حضرت کی زندگی کا سب سے اہم پہلو تقویٰ، استقامت، قناعت، سادگی، جہدِ مسلسل، وقت کی قدر، تواضع، شفقت، تصنع سے پاک انداز وغیرہ وہ بے شمار خوبیاں تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بزرگانِ سلف کا نمونہ بنایا تھا۔ حضرت سے طویل عرصے تک مستفید ہونے والے اور آپ کی صحبتِ طویلہ اٹھانے والے تو ان اوصافِ حمیدہ کے گواہ ہیں ہی، کبھی کبھار آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور شفقت وبرکت حاصل کرنے والے بھی انہیں بے تکلف محسوس کیے بغیراور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ آپ نے وقت کی ایسی قدر کی کہ آپ کی خدمات کے شعبوں میں سے صرف کسی ایک کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو زندگی بھر کسی اور کام کے لیے وقت ہی نہیں ملا ہوگا۔ اس کے باوجود ملنے جلنے کے انداز سے کہیں مصروفیات کا ہوا یا ’’لا مساس‘‘ والا انداز نظر نہیں آتا تھا۔ سب کام انجام پارہے تھے لیکن انہیں احساس تک نہیں تھا کہ میں بہت کچھ کر رہا ہوں۔ یہ سب وقت میں برکت کے کرشمے تھے۔ جب وقت سے برکت اٹھ جاتی ہے تو وہ صورتِ حال ہوتی ہے جو ہمارے والد صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج کے بڑے شہروں کی زندگی میں جسے کوئی کام نہ ہو، وہ بھی بہت ’مصروف‘ ہوتا ہے، اور کسی کام کے نہ ہونے کا سب سے بڑا عذر اس کے پاس یہی ہوتاہے’’ بس جی کیا کریں فرصت ہی نہیں ملی‘‘۔ حضرت ؒ ایک غیر معروف سے گھرانے میں پیدا ہوئے، اپنی لگن، دھیمی دھیمی مسلسل رفتار کی برکت سے علمی اور دینی دنیا میں ایک حوالہ بن گئے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جہاں قابلِ ذکر تعداد میں مسلمان آباد ہوں اور وہاں حضرت ؒ کا بالواسطہ یابلا واسطہ فیض نہ پہنچا ہو۔
حضرت ؒ نے جہاں درجنوں تصانیف، لاتعداد شاگردوں، بے شمار مستفیدین جن کی زندگیاں آپ کی برکت سے بدلیں اورجامعہ نصرۃ العلوم جیسے اداروں کی شکل میں گونا گوں صدقاتِ جاریہ چھوڑے ہیں، وہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان خوش قسمت لوگوں میں سے بنایا ہے جنہیں ان کے مشن کو لے کر آگے چلنے والی صالح اولاد نصیب ہوئی۔ الحمد للہ حضرت ؒ کے صاحبزادگان حضرت کی زندگی اور خدمات کے مختلف شعبوں کو باحسن طریق سنبھالے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات میں مزید برکت، نافعیت اور مقبولیت عطا فرمائیں۔ حضرت ؒ نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم کے بارے میں وصیت فرمائی تھی کہ ان کی نمازِ جنازہ وہ پڑھا ئیں۔ یہ یقیناًحضرت کی طرف سے مولانا راشدی پر اعتماد کا اظہار ہے جو ان کے لیے سند کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور سعادت بھی۔
حضرت کی نمازِ جنازہ کے لیے آنے والا انسانوں کا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر جس کی نظیریں بہت کم ملتی ہیں ، ثم یوضع لہ القبول فی الأرض کا واضح مصداق نظر آرہا تھا۔ ایک بہت بڑے میدان کا دامن جنازہ پڑھنے والوں کے لیے تنگ پڑگیا تھا۔ ہمیں تو گراؤنڈ میں جنازہ ادا کرنے کی جگہ مل گئی تھی، لیکن بتانے والوں نے بتایا کہ جی ٹی روڈ پر بھی دور دور تک جنازہ پڑھنے والے کھڑے تھے ۔ جولوگ جنازے میں شرکت سے رہ گئے، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ؒ ان بزرگوں میں سے تھے جن کا وجود ہی بہت بڑا سہارا اور تسلی کا سامان ہوتاہے۔ یہ تصور ہی بہت ہوتا ہے کہ وہ سر پر موجود ہیں۔ ان سے مل کر اور شفقتیں سمیٹ کر نئی زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ ان بزرگوں کا وجود ہی نہ معلوم کتنے فتنوں کے آگے رکاوٹ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی کامل مغفرت فرما کر انہیں درجاتِ رفیعہ عطا فرمائیں۔ اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ.