میرے شیخ طریقت مرشد کامل حضرت شاہ نفیس الرقمؒ کی وفات کے صدمہ کا زخم ابھی تازہ تھا کہ امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی وفات کی خبر نے دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ حضرت تقریباً ۸، ۹ سال سے صاحب فراش تھے۔ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم اور دیگر احباب کے ذریعے وقتاً فوقتاً حضرت کی صحت کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا تھا۔ ایک ایسے دورمیں جب علم، دین اور نسبتیں کاروبار اور نمود ونمایش بنتی جا رہی ہیں، حضرت امام اہل سنت جیسی ہستی کے وجود کا خیال واحساس ہی دل کی تقویت وحوصلہ کا باعث تھا۔ اس دور میں نگاہیں سلف صالحین کا طرز زندگی دیکھنے کے لیے بھٹک بھٹک کر تھک جاتی ہیں۔
حضرت کے انتقال کی خبر سن کر مجھے بار بار حضرت مولانا محمد منظور نعمانی کا خیال آتا رہا۔ حضرات انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد دنیا میں خداے واحد کی عبادت قائم کرنا ہوتا تھا، اس لیے غیر اللہ کی عظمت وپرستش کے ادنیٰ سے ادنیٰ تصور کو مٹانے اور محو کرنے کی جدوجہد انبیا کا بنیادی مشن رہا ہے۔ عرصہ سے ہمارے اہل علم نے غیر اللہ کی پرستش وعظمت یعنی شرک وبدعات کے مٹانے کا کام پس پشت ڈال رکھا ہے۔ اس فرض منصبی اور دین کے ضروری بلکہ نہایت ضروری شعبہ کے لیے بھارت میں حضرت مولانا محمد منظورنعمانی اور پاکستان میں حضرت امام اہل سنت کے بعد کوئی ہستی نظر نہیں آتی۔حضرت کی وفات کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کس قدر عظیم ہستی کھو دی۔ دین میں غلو وفساد یا افراط وتفریط کے دو بنیادی سبب ہوتے ہیں۔ ایک نفس کی انانیت وخود رائی جس کا عصری عنوان غالی سلفیت اورانکار حدیث ہے۔ یہ دونوں چیزیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں، مگر دونوں کی نفسیات، ذہنیت، اسلوب اور دلائل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دونوں مرض اسلاف پر عدم اعتماد سے پیدا ہوتے ہیں۔عموماً انسان سلفیت سے ترقی کر کے انکار حدیث تک پہنچتا ہے۔ دوسرے غیر اللہ کی پرستش اور تعظیم، یعنی شرک وبدعات۔ اس کے اسباب عموماً تمدنی وتاریخی ہوتے ہیں۔ برصغیر کے تاریخ وتمدن ہی نہیں، علوم وفنون پر بھی اصنام پرستی کی گہری چھاپ رہی ہے۔ شرک وبدعات کی ہر ہر چیز کی بنیاد ہندو متھالوجی، دیومالائی اساطیر وتصورات اور یہاں کے تمدن وتاریخ میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ صرف نام اور لیبل گئے ہیں۔
کچھ عرصہ سے برصغیر کے تینوں ممالک میں بدعات وخرافات اہل سنت کے لبادے میں جارحانہ انداز میں وارد ہو رہی ہیں اور ہمارے اہل علم اس محاذ پر غفلت کا شکار ہیں۔ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے دار العلوم دیوبند کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’آپ میں کتنے مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کے حالات وکارناموں سے واقف ہیں؟ آپ میں سے کتنے بھائیوں نے صراط مستقیم اور تقویۃ الایمان پڑھی ہے؟ آپ میں کتنے بھائی توحید وسنت کی حقیقت سے واقف ہیں؟ وہ بتلا سکتے ہیں کہ اہل جاہلیت کے ایمان باللہ کی حقیقت کیا تھی اور قرآن نے کیوں ان کو مشرک کہا؟ توحید کے کیا مراتب ہیں اور شرک کے کیا مظا ہر ہیں؟ بدعت کی جامع ومانع تعریف کیا ہے اور ا س کے کیا نقصانات ہیں؟ آپ کو ان تمام مسائل پر تیار ہونا چاہیے تھا۔ آپ کا مطالعہ، آپ کی بصیرت عوام سے اس بارے میں بہت ممتاز ہونی چاہیے تھی، مگر مجھے خطرہ ہے کہ آپ میں بہت سے بھائی ان چیزوں سے بالکل خالی الذہن ہوں گے۔‘‘ (پا جا سراغ زندگی ص ۱۲۱)
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، حضرت امام اہل سنت کا پہلا غائبانہ تعارف آپ کی مشہور اور معرکۃ الآرا کتاب ’’راہ سنت‘‘ کے ذریعے ہوا۔ بھارت میں بندہ کا واسطہ شرک وبدعات سے کم ہی پڑا۔ میرا وطن امراؤتی (ضلع مہاراشٹر) دیوبند وندوی علما اور تبلیغی جماعت کی بدولت تمام تر اہل دیوبند سے وابستہ رہا ہے، مگر جب ۱۹۷۵ء میں برطانیہ آ کر لندن کے تبلیغی مرکز کا امام بنا تو یہاں پاکستانیوں کی غالب آبادی آزاد کشمیر کے لوگوں پر مشتمل نظر آئی۔ بھارتی کشمیریوں کی بہ نسبت پاکستانی کشمیریوں میں شرک وبدعات کا زیادہ زور نظر آیا۔ برطانیہ آ کر پاکستان کے جن علماے کرام سے تعلق خاطر قائم ہوا، ان میں حضرت مولانا منظور الحق کیمل پوری آف برمنگھم بھی تھے جو بلند پایہ خطیب وواعظ تھے اور اکابر علماے دیوبند سے عشق کے درجہ کا تعلق رکھتے تھے۔ اپنے مواعظ میں شرک وبدعت کا رد ان کا خاص مشن تھا۔ مولانا نے سب سے پہلے مجھے ’’راہ سنت‘‘ پڑھنے کے لیے دی اور فرمایا کہ شرک وبدعت کو سمجھنے کے لیے یہ سب سے اچھی کتاب ہے۔ بندہ نے آج تک اس موضوع پر اس قدر مکمل ومدلل، جامع ومانع علمی انداز کی کوئی کتاب نہیں دیکھی تھی۔ اسے پڑھ کر حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز صفدرؒ کی علمی عظمت کا نقش دل پر بیٹھ گیا۔ ا س کے بعد حضرت کی بہت سی کتب نظر سے گزرتی رہیں۔ خالص علمی انداز، مسکت دلائل، پیرس کے ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کی کتب کی طرح مغز ہی مغز، حشوو زوائد سے پاک، اگر انسان میں طلب صادق ہو تو سمجھنے کے لیے کافی ووافی۔
بندہ کی حضرت امام اہل سنت سے پہلی ملاقات ۸۰ء کی دہائی کے اواخر میں لیسٹر اور شیفیلڈ میں ہوئی۔ حضرت پاکستان کے متعدد اہل علم واکابر کے جلو میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ حضرت سے بندہ کا تعارف وملاقات شیفیلڈ کے الحاج بوستان صاحب نے کرائی جو میرپور آزاد کشمیر کے باشندے اوریہاں برطانیہ میں تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں میں واحد شخص ہیں جو علماے کرام سے خاص ربط وتعلق رکھتے ہیں۔ حضرت امام اہل سنت کی شخصیت میں وجاہت وسادگی، جلال وجمال کا امتزاج نظر آیا۔ ایک طرف علمی وقار ومتانت تو دوسری طرف چھوٹوں پر انتہائی شفیق ومہربان۔ بندہ نے یہ بات بھارت میں حضرت مولانا محمد منظور نعمانی میں دیکھی تھی۔ دوسری شخصیت حضرت امام اہل سنت کی نظر آئی۔ حضرت سے پہلی ملاقات آج تک دل پر نقش ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ کسی شخصیت سے محبت پیدا ہونے اور متاثر ہونے کے لیے ایک لمحہ بہت ہے۔
اس کے بعد غالباً ۱۹۹۲ء میں قضا وقدر کے فیصلے نے لندن میں میری رہایش کے قریب ہی سیرت النبی کے ایک جلسے میں حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب سے ملاقات کرا دی۔ بفحواے حدیث ’’الارواح جنود مجندۃ‘‘ دونوں نے ایک دوسرے کو فوراً پہچان لیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، مولانا راشدی سے محبت وتعلق خاطر میں اضافہ ہی ہوتا رہا کہ ہم دونوں کا ذوق وفکر، درد وغم، کڑھن اور پریشانی ایک ہی ہے کہ مغرب کے دجالی فکر وفلسفہ، تمدن ومعاشرت اور مکارانہ سیاست سے انسانیت کو کیسے خلاصی ملے اور ملت کی سربلندی کی راہیں کیسے تلاش کریں؟ مولانا راشدی صاحب سے تعلق کی وجہ سے حضرت امام اہل سنتؒ اور آپ کے برادر خورد حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی صاحب سے ایسا رشتہ قائم ہوا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں اکابر گویا میرے اپنے گھرانے کے بزرگ ہوں، حالانکہ ان دونوں اکابر کی خدمت میں حاضری اور ان سے استفادہ کے مواقع بہت کم مل سکے، خاص طو رپر حضرت امام اہل سنتؒ سے تو اور بھی کم۔ پاکستان کے آخری سفر ۲۰۰۶ء میں گوجرانوالہ سے اسلام آباد جاتے ہوئے حضرت کے دولت کدہ پر حاضری دی۔ نہایت سادہ سے مکان میں معمولی پلنگ پر جسے کھٹیا کہنا زیادہ مناسب ہوگا، تشریف فرما تھے۔ ایسی شفقت ومحبت اور اپنائیت کا معاملہ فرمایا کہ بندہ اور بندہ کے رفقاے سفر ابراہیم مولانا مشفق الدین (کالج لندن کے پرنسپل )، مولانا بلال، مولانا عبد اللہ اور لیسٹر کے مولانا فاروق ملا زندگی بھر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔
حضرت کی زندگی امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے اس مقولے کی مصداق تھی جو آپ نے غالباً محدث شہیر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے متعلق فرمایا تھا کہ ’’صحابہ کا قافلہ جا رہا تھا، ایک شخص پیچھے رہ گیا۔‘‘ حضرت کی زندگی کے پچاس ساٹھ سال ایسے مشغول، ایسے منظم ومنضبط اوقات کے ساتھ گزرے کہ مجھے جیسوں کے لیے ہفتہ عشرہ کے لیے بھی ایسی پابندی دشوار ہے۔ شاید اسی کو کہا گیا ہے کہ الاستقامۃ فوق الکرامۃ۔ آپ نے نصف صدی سے زیادہ بخاری ومسلم جیسی کتب کی تدریس کے علاوہ مسجد اور کالج میں درس قرآن وحدیث سے عوام الناس اور نئی نسل کو مستفید فرمایا۔ نیز ہر سال علما کے لیے تفسیر قرآن کی خصوصی کلاس کو پڑھاتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی تصانیف کی طرح درس میں بھی ہر بات مستند حوالوں کے ساتھ ہوتی تھی۔ حضرت کے براہ راست وبالواسطہ شاگردوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ حضرت کی تصانیف دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ آپ برصغیر میں اس طرح مدلل اندازمیں فتنوں پر علمی کام کرنے والے ایک فرد فرید تھے۔ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ نے تقریباً چالیس سال پہلے ’’راہ سنت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھاکہ اس موضوع پر ہماری پوری جماعت نے جتنا کام کیا، حضرت شیخ الحدیثؒ نے تنہا اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے۔
ہم برصغیر کے مسلمانوں کا مزاج مردہ پرستی کا بن گیا ہے۔ ہم نے زندگی میں بہت کم کسی ہستی کی قدر کی ہے، البتہ وفات کے بعد عقیدتوں کی مالا ضرور چڑھائی۔ اس ذہنیت ومزاج (زندگی میں قدر نہ کرنا اور فائدہ نہ اٹھانا) کے خلاف جہاد مسلسل کی ضرورت ہے اور ابھی قابل قدر افراد جس کسی شعبہ میں رہ گئے ہیں، ان سے استفادہ کا ذوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھی قابل قدر افراد میں حضرت امام اہل سنتؒ کے جانشین حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب بھی ہیں۔ مولانا راشدی صاحب کی مسکنت، سادگی اور تواضع آپ کی قدر دانی اور استفادہ میں ایک حجاب ہے۔ مولانا نے اپنی ہستی کو اس طرح مٹی میں ملا رکھا ہے کہ لوگ قدر نہیں کر پاتے۔ پورے پاکستان کے علما میں مولانا راشدی منفرد شخصیت ہیں جو عصری فکر وفلسفہ کے مقابلے میں تن تنہا کام کر رہے ہیں۔ آپ برصغیر کے واحد عالم دین ہیں جن کے ہر ہفتہ عصری مسائل پر قومی اخبارات میں فکر انگیز کالم اور مضامین چھپتے ہیں۔ آپ کے کام اور جدوجہد کو اگر کسی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے تو وہ ہیں مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ ۔ عصری تقاضوں پر گہری نظر، مغرب کے فکری چیلنجز کا سامنا، مغربی فکر وفلسفہ کے توڑ کی فکر۔ پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقہ اور اخبار بین طبقہ پر جتنے اثرات مولانا راشدی نے ڈالے، پاکستان کا کوئی عالم نہیں ڈال سکا۔
مولانا کے صاحبزادے عزیزی مولوی عمار خان ناصر سلمہ میں جو صلاحیت، بلکہ میں عبقریت کہوں گا، وہ ان کے ہم عمر کسی عالم میں نظر نہیں آتی۔ بدقسمتی سے وہ کچھ عرصہ سے غامدی صاحب کے افکار سے متاثر ہو گئے ہیں۔ بندہ کے نزدیک اس میں کسی حد تک پاکستان کے علما کے جمود، فکری درماندگی اور اسلوب کا بھی قصور ہے جو ذہین وفطین نوجوانوں کو اپنے ساتھ نہیں رکھ پاتے۔ کاش وہ اپنے والد اور عظیم المرتبت دادا کا طرز اختیار کریں۔ ہمارے ہاں آج کل اکابر اکابر کا نام جپ کرجس طرح اپنے فرائض سے کوتاہی، بے حسی اور بے عملی کا جواز پیداکیا جا رہا ہے، اس کی نمایاں مثال پاکستان کے دیوبندی مفتی صاحبان کا وہ ’’متفقہ فتویٰ‘‘ ہے جس میں اسلام کی تعلیم اور دعوت واشاعت کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کو مطلقاً حرام فرمایا گیا ہے۔ دوسری طرف غامدی صاحب اور ان کے متعدد شاگرد پاکستان کے ہر چینل پر براجمان ہیں اور نئی نسل میں اپنا ذہن وفکر عام کر رہے ہیں۔ کیا فتاویٰ بازی سے اس نقصان کا ازالہ ہو جائے گا؟
بندہ آج کل دیکھ رہا ہے کہ پاکستان کے بعض علماے کرام جنھیں مولانا راشدی صاحب سے کسی طرح کی تکلیف، رشک یا پرخاش ہے، وہ عمار کا نام لے کر یا بہانہ بنا کر مولانا کی شخصیت کو مجروح کر رہے ہیں۔ انھیں مجروح کرنے کی کوشش کرنے والے شاید اپنا ہی نقصان کریں گے۔ خود غامدی صاحب کے فکر کی کجی وزیغ پر پورے پاکستان کے علماے کرام کا کام ایک طرف اور مولانا راشدی کا ایک طرف۔ بندہ کو پوری توقع ہے کہ مولانا راشدی صاحب امام اہل سنت کے صحیح جانشین ثابت ہوں گے۔ عزیزی عمار سلمہ نے اپنے عظیم المرتبت دادا کے علوم کو موضوعات کے اعتبار سے جمع کرنا شروع کیا تھا۔ خدا کرے یہ کام جلد منصہ شہو رپر آ جائے۔ اس وقت میں عمار خان صاحب کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنے عظیم المرتبت دادا کی رحلت پر لوگوں کے دلوں میں ان کی مقبولیت، مرجعیت اور محبوبیت دیکھی۔ اہل سنت کے جلیل القدر امام حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا قول مشہور ہے کہ ’’ہمارا جنازہ ہمارے بارے میں شہادت پیش کر دے گا‘‘۔ کیا یہ مقبولیت ومحبوبیت کسی فراہی، کسی اصلاحی یا کسی غامدی کے حصے میںآ سکتی ہے؟ اگر صرف اس نکتے پر غور کر لیں تو کافی ووافی ہے۔ اللہم اہدنا الصراط المستقیم۔
حضرت امام اہل سنت کی سوانح حیات چھپ رہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسی کسی مشکلات، صعوبتوں، مجاہدوں، فقر وفاقہ سے گزر کر آپ نے علم حاصل کیا۔ حضرت کی سوانح کا یہ ابتدائی حصہ نہایت سبق آموز ہے اور خاص طو رپر علماے کرام کو بار بار پڑھنا چاہیے۔ آپ کی تصانیف ان شاء اللہ تاقیامت مشعل راہ رہیں گی۔ خاص طور پر سلفیت، انکار حدیث اور بدعات کے رد میں خالص علمی اندازمیں آپ نے جو کچھ لکھا، وہ بے نظیر ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے ان سے استفادہ کرتے رہیں گے۔