(خود نوشت سوانح حیات)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ‘ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد
’’ہمارے مخلص اور مہربان بزرگ جناب خان محمد خواص خان صاحب دام مجدہم اعوان مقام ہیڑاں ڈاکخانہ اہل تحصیل مانسہرہ ضلع ہزارہ نے بار بار بزرگانہ خطوط تحریر فرمائے کہ میں علماے ہزارہ کے بارے کتاب لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے تم اپنے اور برادرِ خورد صوفی عبد الحمید کے حالاتِ زندگی اور خصوصیت سے تحصیل علم سے متعلق معلومات ضبط تحریر میں لاکر بھیجو۔ موصوف سے وعدہ بھی تھا مگر ایک ضروری سفر اور بے حد مصروفیت اور اس پر مستزاد گوناگوں بیماریاں اور کچھ ایسے ہی دیگر متعدد عوارض دامن گیر ہوئے کہ محترم کو تقریباً چار پانچ سال تک خاطر خواہ جواب لکھ کر نہ بھیج سکا اور ان تمام عوارضات سے بڑھ کر یہ مانع پیش آیا کہ موصوف تو علماے ہزارہ کے حالات اپنی زندۂ جاوید کتاب میں درج فرمانا چاہتے ہیں، لیکن جب راقم نے اپنی حقیقت پر نگاہ ڈالی تو اپنے کو اس صف میں کھڑا ہونے کا اہل نہ پایا جس علماء کی صف میں موصوف غالباً محض اپنی حسن عقیدت یا بزرگانہ شفقت سے کھڑا کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اپنی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ من آنم کہ من دانم۔ اس کے بعد موصوف نے شکوہ سے بھرے ہوئے خطوط ارسال فرمانا شروع کر دیے جس میں وہ حق بجانب تھے کہ تمہاری مصروفیات تو ختم نہیں ہوں گی اور میں انتظار کر کر کے تھک گیا ہوں(محصلہ)۔ اب مجبوراً اس بزرگانہ شکوہ اور وعدہ کو ملحوظ رکھ کر راہ فرار بھی نظر نہیں آرہی اس لیے موصوف کے حکم کی تعمیل میں اختصاراً واجمالاً کچھ لکھ کر ارسال کرنا ہی ضروری سمجھا گیا، تاکہ موصوف سے تو جان چھڑائی جاسکے اپنی جگہ پوزیشن اور حقیقت کچھ ہو یا نہ ہو، آخر گلو خلاصی بھی تو ضروری ہے۔ واللہ تعالیٰ الموفق للخیر‘‘۔
خاندانی پس منظر اور ابتدائی حالات
راقم اثیم کا نام محمد سرفراز، والد کا نام نور احمد خان مرحوم، دادا کا نام گل احمد خان مرحوم، قوم سواتی (شاخ مندراوی)، جاے پیدایش ڈھکی چیڑاں داخلی، کڑمنگ بالا سابق ڈاکخانہ بٹل، علاقہ کونش تحصیل مانسہرہ، ضلع ہزارہ صوبہ سرحد (مغربی پاکستان) ہے۔ صحیح طور پر تو معلوم نہیں اور نہ کوئی تحریر موجود ہے، بزرگوں کے مختلف بیانات کی روشنی میں قدر مشترک یہ ہے کہ راقم کی ولادت ۱۹۱۴ء کے لگ بھگ ہوئی ہے۔ (عزیزم عبد الحمید مجھ سے تقریباً تین سال چھوٹا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی ولادت ۱۹۱۷ء کے لگ بھگ کی ہے) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ ہمارے والد مرحوم کی پہلی شادی اپنے حقیقی چچا محمد خان مرحوم کی لڑکی بی بی رحمت نور مرحومہ سے ہوئی۔ (یہ ہماری سوتیلی والدہ تھیں اور پاکستان بننے کے بعد ۱۹۴۹ء میں گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں ان کی وفات ہوئی اور یہیں وہ مدفون ہیں، اللہم اغفر لہا وارحمہا)۔ اس شادی کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اپنے بزرگوں سے اور خصوصًا والدہ مرحومہ سے عبد الغفور ؒ سنا ہے۔ جوانی میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً تیس سال تک ہمارے والد مرحوم کے ہاں باوجود والدہ مرحومہ کے علاج ومعالجہ کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ جب ہمارے والد مرحوم کی عمر تقریباًساٹھ سال کی ہوگئی تو ہماری سوتیلی والدہ مرحومہ اور خاندان کے بعض دیگر بزرگوں نے ہمارے والد مرحوم کو اولاد کی غرض سے اور شادی کرنے پر مجبور کیا۔ پہلے تو وہ پہلو تہی کرتے رہے مگر بالآخر وہ بھی مجبور ہوگئے۔ ڈنہّ کے مقام کے چیچی خاندان کی پندرہ سو لہ سال کی ایک خاتون سے جن کا نام بی بی بخت آور ؒ تھا، خاصی کش مکش کے بعد نکاح ہوگیا۔ دونوں کی عمروں کے نامناسب ہونے کی وجہ سے بعض رشتہ دار ابتدائی مرحلہ میں سخت مخالف تھے، بالآخر سب راضی ہوگئے۔ یہ ہماری حقیقی والدہ تھی۔
شادی کے بعد ۱۹۱۱ء کے لگ بھگ ایک لڑکی پیدا ہوئی جو ہماری بڑی ہمشیرہ ہے جس کا نام بی بی حکم جان ہے اور اپنے حقیقی پھوپھی زاد بھائی سید عبد اللہ شاصاحب ؒ ولد سید دین علی شاہ صاحب مرحوم ساکن لمبی کے نکاح میں ہے۔ صاحب اولاد ہے اور تاوقت تحریر بقید حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر دراز کرے۔ اس کے بعد تقریباً تین سال بعد راقم کی ولادت ہوئی، پھر تقریباً تین سال بعد عزیزم صوفی عبد الحمید کی ولادت ہوئی۔ اس کے بعد تقریباً ۱۹۲۰ء کے لگ بھگ ہماری چھوٹی ہمشیرہ بی بی خانم مرحومہ پیدا ہوئی (جس کی وفات ۱۹۴۴ء میں لاہور میں ہوئی اور وہ باغبانپورہ کے قبرستان میں مدفون ہے، جبکہ اس کا خاوند برادرم دولت خان ساکن اچھڑیاں وہاں ٹنکسال میں ملازم تھا)۔ ہماری یہ چھوٹی ہمشیرہ تقریباً چالیس دن کی تھی کہ ہماری حقیقی والدہ بی بی بخت آور مرحومہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوکر تقریباً پچیس سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئی اور ہم چاروں بہن بھائی اپنی حقیقی ماں کی مامتا سے محروم ہوگئے اور وہ بھی بے بسی کی حالت میں اپنے معصوم بچوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم قطعی کو لبیک کہتے ہوئی آخرت کو روانہ ہوگئی۔ اس کے دل میں کیا کیا حسرتیں ہوں گی، کون اندازہ کرسکتا ہے؟ ان تمام حسرتوں کے عوض اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس مرحمت فرمائے۔ ہم پہلے بھی اپنی سوتیلی والدہ کی گود میں رہتے تھے اور حقیقی والدہ کی وفات کے بعد تو گود ہی وہی تھی اور یہ بالکل ایک حقیقت ہے کہ ایسی نیک دل، خدمت گزار، ہمدرد اور مہربان وشفیق سوتیلی والد ہ شاید ہی کسی کو میسر ہوئی ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مرحمت فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کو اپنی رحمت کے جوار میں جگہ مرحمت فرمائے، آمین ثم آمین۔
ہم نے جب ہوش سنبھالا تو والد مرحوم کو بالکل سفید ریش دیکھا۔ ایک بال بھی سر اور ڈاڑھی میں سیاہ نہ تھا۔ بخلاف اس کے ہمارے داداجی مرحوم بھی اس وقت زندہ تھے۔ ان کی ڈاڑھی اور سر میں بال سیاہ بھی تھے اور ان کی عمر سوسال کے لگ بھگ تھی۔ جب دونوں باپ بیٹا اکٹھے ہوتے تو دیکھنے والوں کو الٹ شبہ پڑتا۔ ہمارے گھر کے قریب کوئی اور مکان نہ تھا۔ تقریباً دو فرلانگ کے فاصلہ پر ہمارے دادا صاحب مرحوم اور ان کے چھوٹے بھائی میر عالم خان مرحوم کے دو مکان تھے جو بالکل آس پاس تھے اور انہوں نے اپنی سہولت کے لیے مسجد بھی تعمیر کرلی تھی۔ بحمد اللہ تعالیٰ سبھی بزرگ متشرع اور پختہ نمازی تھے۔ ہمارے والد مرحوم اکثر نمازیں گھر ہی پڑھتے تھے اور گھر سے باہر ایک چبوترہ نماز کے لیے بنارکھا تھا او ر جانوروں سے اس کی بڑی حفاظت کیا کرتے تھے۔ تہجد اور باقی نمازوں کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ یہی حال ہماری سوتیلی والدہ مرحومہ کا تھا۔ والد مرحوم کبھی کبھی اذان خود بھی کہتے تھے مگر زیادہ تر مقابل میں دوسرے پہاڑ پر جگوڑی کے موذن کی اذان پر نمازوں اور سحری اور افطار کا انحصار ہوتا تھا۔
والد مرحوم اور اس طرح دادا مرحوم بالکل ان پڑھ تھے۔ جوانی کے دور میں والد مرحوم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ ناظرہ پڑھا تھا، اس کے بعض مقامات کبھی پڑھ لیاکرتے تھے۔ ہاں قرآن کریم کی بعض سورتیں خوب یاد تھیں۔ نماز اور تلاوت میں انہیں کو پڑھتے تھے۔ عمر گو خاصی تھی مگر بفضلہ تعالیٰ صحت قابل رشک تھی اور اپنا تمام کاروبار خود کرتے تھے۔ ایک معمر نوکر بھی رکھا تھا جو کوہ مری کے علاقہ کا تھا اور عباسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بڑا پرہیزگار، متشرع نمازی اور نہایت خدمت گزار تھا۔ ہمارے مال ومویشی اکثر وہی چرایا کرتا تھا اور ہم بھی کبھی کبھی اس کے ساتھ مال ومویشی کے چرانے میں شرکت کرتے تھے۔ پانی خاصا دور تھا اور وہ پانی بھی اکثر لاتا تھا۔ ہمارا گھر گو اکیلا تھا مگر مہمان بکثرت رہتے اور خصوصاً لمبی کے ہمارے پھوپھی زاد بھائی تو اکثر وہاں رہتے تھے۔ خوب چہل پہل رہتی۔ والد مرحوم بڑے مہمان نواز تھے۔ بٹ کس کی صاف وشفاف ندی سے خود مچھلیاں پکڑ کر لاتے اور مہمانوں کی مچھلیوں اور اس کے علاوہ مرغیوں اور گوشت سے خوب تواضع کیا کرتے تھے۔ جب کسی موقع پر کوئی مہمان نہ آتا تو خاصے پریشان دکھائی دیتے تھے، لیکن مہمانوں کے نہ آنے کا واقعہ سال میں کبھی کبھار پیش آتا تھا۔
تعلیم کا آغاز
راقم نے جب ہوش سنبھالا تو زمینداری طریقہ سے گھر کے سب کام کرتا تھا لیکن والد مرحوم کو ہماری تعلیم کی بے حد فکر تھی اور اس جنگل میں تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حسنِ اتفاق سے ہمارے پھوپھی زاد بھائی محترم مولانا مولوی سید فتح علی شاہ صاحب ولد سید دین علی شاہ صاحب مرحوم ساکن لمبی بٹل میں سکول پڑھتے تھے اور غالباً اس وقت وہ چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ والد مرحو م نے راقم کو جبکہ غالباً عمر تیرہ سال کی ہوگی، ۱۹۲۷ء کے قریب بٹل پہنچادیا اور پھوپھی زاد بھائی کے حوالہ کردیا۔ وہاں راقم کو سکول میں داخل کردیا گیا اور پہلی جماعت میں راقم نے تعلیم شروع کردی۔ رہایش ایک بڑھیا مائی کے ہاں تھی۔ راشن اپنا ہوتا تھا، پکا وہ دیتی تھی۔ نام تو اس کا یاد نہیں، ہاں اتنا یاد ہے کہ یعقوب خان صاحب مرحوم کے گھر کے قریب ہی اس مائی کا گھر تھا۔ مکئی کی روٹی اور کڑھی اس مائی کے ہاتھ کی پکی ہوئی اب تک یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو جزاے خیر دے۔
نہ معلوم کن وجوہ اور اسباب کی بناپر برادرم محترم اچانک بٹل سے ملک پور چلے گئے اور وہاں فقیرا خان صاحب مرحوم کی مسجد میں ڈیرہ ڈال دیا اور شیرپور کے مڈل سکول میں داخل ہوگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد والد مرحوم نے مجھے بھی وہاں پہنچادیا اور ملک پور کی مسجد میں چھوڑ آئے اور اس موقع پر لمبی کے اور بھی کئی احباب وہاں آگئے جن میں ہمارے دو اور پھوپھی زاد بھائی سید عبد اللہ شاہ جو ہمارے بہنوئی بھی ہیں اور پیرولی شاہ صاحب بھی تھے اور ان کے علاوہ چنارکوٹ اور کولیاں وغیرہ کے اور بھی کئی دوست جمع ہوگئے۔ رہتے تو ہم ملک پور میں تھے لیکن سکول شیر پور میں پڑھتے تھے حتیٰ کہ راقم دوسری جماعت تک شیرپور میں پڑھتا رہا اور اس اثنا میں مسجد میں قاعدہ، قرآن کریم ناظرہ اور نماز جنازہ کے ضروری مسائل سیکھ لیے۔ وظیفے مانگ مانگ کر اکتاگیا اور کئی مرتبہ چھپ کر گھر بھاگ جاتارہا۔ ایک دفعہ تو تن تنہا گلی باغ کے راستہ سے ٹنگ لائی کا خطرناک پہاڑ طے کرکے گھر پہنچ گیا اور لطف یہ کہ طبیعت میں کوئی خوف وہراس نہ تھا، لیکن برادرم محترم سید فتح علی شاہ صاحب پولیس کی طرح راقم کا تعاقب کرتے اور جب قابو آتا تو بے تحاشا پیٹتے اور ایک دفعہ تو رسی سے باندھ کر پیٹا اور پھر جکڑ کر الٹا لٹکادیا۔ والد مرحوم یاوالدہ مرحومہ جب چھڑانے کے لیے قریب آتے تو برادر محترم ان سے الجھ پڑتے اور یوں گویا ہوتے کہ اگر تم نے پڑھانا ہے تو میرے کام میں مداخلت مت کرو، ورنہ تم جانو اور تمہارا کام۔ وہ چپ ہوجاتے اور ان کی مار کے بعض نشانات ابھی تک راقم کے بدن پر موجود ہیں، لیکن بایں ہمہ کئی دفعہ راقم بھاگ کر گھر چلاجاتا لیکن وہ پھر جاکر لے آتے اور خوب پٹائی کرتے۔
برادرمحترم نے شیر پور میں مڈل پاس کرلیا اور راقم دوسری جماعت سے تیسری میں ہوگیا۔ اسی موقع پر والد مرحوم نے عزیزم صوفی عبد الحمید کو ملک پور پہنچادیا۔ یہ اس کا پہلا سفر تھا لیکن چونکہ اپنے ہی رشتہ دار چند ہم عصر ساتھی موجود تھے، اس لیے اس نے بھی کوئی زیادہ تکلیف محسوس نہیں کی۔ اس زمانہ میں اخبار زمیندار بہت عروج پر تھا اور افغانستان میں بچہ سقاء کی شورش کی شہ سرخیاں اخبارات میں نمایاں ہوتی تھیں۔ اسی زمانہ میں مانسہرہ میں محترم جناب غلام احمد صاحب عرضی نویس اور حضرت مولانا غلام غوث صاحب دامت برکاتہم کی کوشش سے ایک دینی آزاد مدرسہ اصلاح الرسوم کے نام سے قائم ہوا تھا اور برادر محترم سید فتح علی شاہ صاحب اس مدرسہ میں جاکر داخل ہوگئے اور رہایش مانسہرہ کے قریب گنڈا کی مسجد میں رکھی۔ ہم لوگ بھی ملک پور سے کوچ کرکے گنڈا چلے گئے اور مانسہرہ کے مدرسہ میں داخل ہوگئے۔ تیسری جماعت میں داخلہ لیا اور تعلیم الاسلام مصنفہ حضرت مفتی محمد کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کو خوب یاد کیا اور وہاں تقریر کا ڈھنگ بھی بتایا جاتا تھا۔ ہم نے بھی چند باتیں یاد کرلیں اور تقریر شروع کردی۔ اس درمیان پیدل ہی ہم گھر آتے جاتے تھے۔ اس وقت لاری وغیرہ کا کوئی انتظام نہ تھا اور والد مرحوم بھی اکثر ہماری خبر گیری کے لیے آتے اور دیکھ بھال کر تسلی دے کر اور کچھ رقم دے کر چلے جاتے۔ ایک مرتبہ ہمارے کپڑوں میں بے پناہ جوئیں دیکھ کر والد مرحوم روپڑے۔ ہماری برادری اور خاندان کے بعض حضرات والد مرحوم کو خوب کوستے اور طعنہ دیتے کہ اس بڑھاپے میں تجھے اللہ تعالیٰ نے اولاد دی ہے، لیکن تو ان کو گھر نہیں ٹکنے دیتا۔ چونکہ ان کو ہماری تعلیم کا بے حد شوق تھا، اس لیے وہ ان تمام طعنوں کو سن کر صبر شکر کرکے خاموش ہوجاتے۔
دادا اور والد کی وفات
اس اثنا میں ہمارے دادا مرحوم غالباً ۱۹۳۰ء کو ہماری غیرموجودگی میں رمضان مبارک کے مہینہ میں بحالت روزہ وفات پاگئے، اللہم اغفر لہ وارحمہ۔ چونکہ اس قت سواری کا انتظام نہ ہوتا تھا اور گنڈا اور ہمارے گھر میں تقریباً ۲۶ میل کی مسافت تھی، اس لیے ہمیں اطلاع نہ بھیجی جا سکی۔ ہم تین چار دن کے بعد گھر پہنچے۔ اس کے ایک سال بعد رمضان مبارک ہی کے مہینہ میں ۱۹۳۱ء کے قریب ہمارے والد مرحوم کا انتقال ہوا اور ہم دونوں بھائی اس موقع پر گھر میں ہی تھے۔ ہمارے پھوپھا سید دین علی شاہ صاحب مرحوم اور راقم وہاں سے چھ میل دور منڈی حال حاجی آباد کفن خریدنے چلے گئے اور کورے اور اچھڑیاں میں اپنے رشتہ داروں کو وفات کی اطلاع دینے کی غرض بھی تھی، لیکن ان دنوں جنگل میں کٹائی کا کام شروع تھا اور سوء اتفاق سے ان میں کوئی بھی جنازہ میں شریک نہ ہوسکا، بجز ہماری سوتیلی والدہ کے بھانجے محترم جناب حاجی گوہر آمان خان صاحب مرحوم (جن کی ۷ جولائی ۱۹۷۰ء کو وفات ہوئی تھی)۔ وہ ہمارے ساتھ ہو لیے اور شام کے قریب ہم نے والد مرحوم کو پادرے کے قبرستان میں دادا مرحوم کی قبر کے پہلو میں (اسی قبرستان میں ہماری حقیقی والدہ مرحومہ بھی مدفون ہیں) دفن کیا۔ تجہیز وتکفین اور دفن کے موقع پر ہمارے والد مرحوم کے چچا سید عالم خان مرحوم، ان کے فرزند محمد زمان خان مرحوم، ان کے فرزند صحبت خان صاحب وسعادت خان صاحب اور سید دین علی شاہ صاحب مرحوم اور برادرم فتح علی شاہ صاحب وغیرہ حضرات موجود تھے اور علی الخصوص ہمارے حقیقی چچا خان زمان خان صاحب مرحوم بھی حاضر تھے۔ مدت العمر انہوں نے شادی نہیں کی۔ افریقہ، عراق اور دیگر ممالک میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔ بڑے نمازی اور متشرع تھے۔ مزاج میں قدرے تندی تھی۔ ۱۹۳۳ء کے قریب کورے میں وفات ہوئی اور وہاں ہی قبرستان میں مدفون ہیں جہاں ہمارے بہت سے بزرگ اور عزیز( جن میں راقم کا فرزند عزیزم محمد یونس خان راشد بھی ہے) مدفون ہیں۔
والد مرحوم کی فوتیدگی کے بعد ہمارا شیرازہ کچھ ایسا بکھرا کہ اس کے بعد ہم سب بہن بھائی اور سوتیلی والدہ مرحومہ کبھی اکٹھے نہیں ہوسکے۔ کہیں دو اکٹھے ہوجاتے اور کہیں تین۔ ہماری والدہ مرحومہ اور چھوٹی ہمشیرہ بی بی خانم مرحومہ کو محترم جناب اخوی حاجی گوہر آمان خان صاحب مرحوم اچھڑیاں لے گئے۔ بڑی ہمشیرہ کو پھوپھی درمرجان صاحبہ مرحومہ لمبی لے گئیں جن کے فرزند سے والد مرحوم زندگی میں ان کی منگنی کرچکے تھے اور ہم دونوں بھائی کبھی لمبی اور کبھی اچھڑیاں اور کبھی کورے میں اور زیادہ تر مسجدوں میں وقت گزارتے۔ گھر کا اثاثہ، سامان اور جانور کچھ اس انداز سے تقسیم کیے گئے کہ آج تک وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان سے فائدہ کس نے اٹھایااور جوکچھ ہمارے حصہ میں آیا، وہ کہاں گیا۔ بہرحال یتیموں کی داستان خاصی دردناک اور طویل ہوا کرتی ہے جس سے ہمیں بھی دوچار ہونا پڑا۔ اس دور میں برادر محترم سید فتح علی شاہ صاحب کی شادی ہوچکی تھی اور وہ باوجود شوق کے تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور اکثر گھر ہی رہنے لگے۔ ہم لوگ بھی گنڈا سے نکل کر تتر بتر ہوگئے اور وہ ساتھی جو ملک پور اور اس کے بعد گنڈا میں جمع تھے، پھر سب کبھی یکجا نہ ہوسکے۔
علاقہ کونش میں تعلیم
والد مرحوم کی وفات کے بعد گھر کے اجڑ نے اور گنڈا سے نکل چکنے کے بعد تھوڑے عرصہ میں خاصی جگہیں بدلنا پڑیں۔ چنانچہ راقم کچھ عرصہ بٹل میں پڑھتا رہا۔ اس کے بعد ہروڑی پائیں میں حضرت مولانا سخی شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس رہا۔ وہاں نور الایضاح اور صرف کی ابتدائی کچھ گردانیں یاد کیں۔ اس کے بعد کھکھو میں حضرت مولانا محمد عیسیٰ صاحب کے پاس رہا اور پھر سنگل کوٹ میں مولانا احمد نبی صاحب کے پاس رہا اور نحومیر کا کچھ حصہ پڑھا۔ پھر بائی پائیں میں کچھ عرصہ رہا، لیکن ان تمام جگہوں میں تعلیم کاخاطر خواہ انتظام نہ ہونے نیز اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے وقت زیادہ صرف ہوا اور تعلیمی کام نہ ہونے کے برابر رہا اور اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے لمبی والے برادر ان کرام اس سلسلہ میں خاصے استاد ثابت ہوئے کہ جب کام کاج اور گھاس کاٹنے کے دن ہوتے تو وہ ہمیں جہاں کہیں بھی ہم ہوتے، تلاش کرکے لمبی لے جاتے اور کئی کئی دن تک کام کرواتے۔ جب کام سے فراغت ہوجاتی، وہ پھر کسی نہ کسی مسجد میں ہمیں لے جاکر چھوڑ آتے۔ اور عزیزم صوفی عبد الحمید اس درمیان اچھڑیاں اور کورے میں رہتا۔ کبھی ٹنگ لائی سے بالن لے آتا، کبھی گھاس اور شوتل کاٹ لاتا اور کبھی کوئی اور خدمت جو اس کے سپرد ہوتی، وہ سرانجام دیتا اور کبھی کبھار لمبی چلاجاتا۔ (اچھڑیاں اور لمبی کے درمیان تقریباً اٹھارہ میل کی مسافت ہے اور یہ پہاڑی علاقہ ہے)
اس اثنا میں ایک نیک دل بزرگ نے مشورہ دیا کہ تمہارا وطن میں کیا دھرا ہے؟ کہیں جاکر علم حاصل کرو۔ چنانچہ راقم نے عزیزم عبد الحمید کو ساتھ لیا اور دونوں ۱۹۳۳ ھ کے لگ بھگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ کہیں پیدل چلتے اور کہیں ریل گاڑی پر سوار ہوتے حتیٰ کہ ہم کوئٹہ بلوچستان جاپہنچے۔ وہاں کے متصل ایک بستی تھی۔ وہاں ایک پرانے طرز کا (مسجد میں) مدرسہ تھا۔ ہم وہاں داخل ہوگئے اور وہاں کوئٹہ ابتدائی کتابیں پڑھنا شروع کردیں۔ اس وقت بہترین قسم کا انگور وہاں ایک آنے کا دوسیر ملتا تھا اور یہ کوئٹہ کے (غالباً ۱۹۳۴ء میں)غرق ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد وہاں سے ہم بھاگ کھڑے ہوئے اور کلکتہ جا پہنچے۔ وہاں کچھ دن رہ کر پھرتے پھراتے پھر وطن پہنچ گئے۔ راقم لمبی پہنچ گیا اور عزیزم اچھڑیاں اور دونوں کام کاج میں مصروف ہوگئے۔ جو کام بھی ہم سے لیا جاتا، بامر مجبوری ہمیں کرنا پڑتا، لیکن کام صدق نیت سے کرتے اور راقم تو بفضلہ تعالیٰ کسی کام میں کسی کوآگے نہ بڑھنے دیتا اور اس کا وہاں خاص شہرہ تھا۔ اس کے بعد راقم پھر دوبارہ بھاگا اور اپنے ایک رفیق سفر کے ساتھ جو چٹہ بٹہ کا رہنے والا تھا، سیدھا اجمیر شریف جاپہنچا۔ وہاں سے پھر چکر لگاتا ہوا واپس لمبی جاپہنچا اور وہاں شیڑ کے مقام پر گوجروں کا امام بنادیا گیا۔
مسجد کے آس پاس کوئی گھر نہ تھا۔ کبھی کوئی نمازی آجاتا اورکبھی نہ آتا۔ راقم اکیلا ہی اذان کہہ کرنماز پڑھ لیتا اور رات کو وہاں ہی مسجد میں سوجاتا۔ کبھی تو اکیلا سوجاتا اور کبھی خلیل کاکا مرحوم گوجر راقم کا ساتھی ہوتا۔ جو کھانا وہ لوگ دے دیتے، وہ کھالیتا۔ دن کو بندوق لے کر شکار کرتا۔ چکور وہاں بکثرت ہوتے تھے۔ مکی کی فصل پر راقم کو چھ پیمانے مکی امامت کے معاوضہ میں ملی۔ کچھ پیمانے دے کر شوق جہاد میں تلوار خریدی۔ بندوق پہلے سے ہی موجود تھی۔ ان دنوں آزاد قبائل انگریز کے خلاف لڑتے تھے جن کی قیادت مشہور مجاہد حضرت مولانا اللہ داد خان صاحب دامت برکاتہم کرتے تھے۔ (موصوف راقم کی کتابیں پڑھ کر اور ان سے بے حد متاثر ہوکر گکھڑ برائے ملاقات تشریف لائے تھے اور چند دن قیام فرماکرواپس تشریف لے گئے) لمبی سے تقریباً دو میل کی مسافت پر آزاد علاقہ شروع ہوتا تھا۔ جہازوں کی بمباری کے علاوہ توپوں مشین گنوں حتیٰ کہ رات کے وقت رائفلوں کی آواز ہم بخوبی سنتے تھے۔ مولاناموصوف بمع اپنے چند ساتھیوں کے انگریز نے گرفتار کر لییے جو کافی عرصہ کے بعد بے حد مصائب اٹھاکر رہا ہوئے۔ وہ تلوار اور بندوق لمبی میں ہی تھی، اب معلوم نہیں وہ کس صاحب کے تصرف میں ہیں، والعلم عند اللہ تعالیٰ۔
طلبِ علم کے لیے شدِ رحال
اللہ تعالیٰ جزاے خیر عطافرمائے جناب سید محمود شاہ باجی مرحوم ساکن لمبی کو۔ انہوں نے ایک مرتبہ راقم کو پاس بٹھاکر بڑے نرم لہجہ اور معقول گفتگوکے ساتھ یہ نصیحت کی اور فرمایا سرفراز! تو خاصا ذہین اور محنتی آدمی ہے اور ابھی تمہاری عمر بھی کوئی زیادہ نہیں، جاکر علم حاصل کرو، تو ان گوجروں کی گرِٹ (روٹی) پر کیوں گرا ہوا ہے؟ان کے اس پیارے اور مشفقانہ انداز سے نصیحت کا دل پر گہرا اثر ہوا اور دفعۃً وہاں سے دل اچاٹ ہوگیا۔ لمبی سے روانہ ہوا اور برادرم محمد ایوب خان صاحب کو (جو ہمارے پھوپھی زاد بھائی ہیں، ہم سے تقریباً عمر میں بڑے ہیں۔ اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں چوکیدار ہیں) ساتھ لیا اور اچھڑیاں سے عزیزم عبد الحمید کو ساتھ لیا اور ہری پور جاپہنچے۔ وہاں سے کھلابٹ ہوتے ہوئے دوڑ کی ندی کے کنارہ پر پہاروں نام ایک چھوٹی سے بستی میں مقیم ہوگئے اور پکّا پیالہ میں دن کو جاکر سبق پڑھ آتے اور رات کو اپنے مستقر پر آجاتے۔ وہاں محترم جناب سکندر خان صاحب ایک معمر بزرگ تھے، وہ ہمارے کھانے اور لسی وغیرہ کا خاص اہتمام کرتے، لیکن کچھ عرصہ کے بعد عزیزم عبد الحمید پھر اچھڑیاں چلاگیا۔ (کیونکہ سوتیلی والدہ مرحومہ اور چھوٹی حقیقی ہمشیرہ مرحومہ وہاں ہی ہوتی تھیں اور یہ ان کے بغیر صبر نہ کرسکتا) اور راقم خانپور (جو کہ ہری پور سے جنوب مشرق کی طرف روہی کی ندی کے کنارے سرسبز علاقہ ہے اور راجوں کا خانپور کہلاتا ہے) چلاگیا۔ وہاں لوہاروں کی مسجد میں ٹِک گیا اور حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب سے جو اس مسجد کے امام تھے، صرف کی ابتدائی بے سلیقہ اور بے ترتیب کتابیں شروع کردیں۔ موصوف نے بکریاں رکھ رکھی تھیں۔ راقم کی صحت بڑی اچھی تھی اور استادوں اور بزرگوں کا کام بڑی محنت اور نیک دلی سے کیا کرتا تھا۔ موصوف اس جوہر کو تاڑ گئے۔ راقم دو تین میل باہر پہاڑوں میں چلاجاتا اور وہاں سے بکریوں کے لیے لانگی (وہاں کی اصطلاح میں چارہ) لاتا۔ راقم کے پاس ایک قیمتی شاہڑی تھی۔ وہ استاد محترم نے چھت کے ساتھ پنکھا بناکر لٹکا دی۔ بہانہ تو یہ کیا کہ اس کو کیڑا نہیں لگے گا، لیکن اصل مقصد یہ تھا کہ راقم بھاگ نہ جائے۔ آں محترم کے عزیزوں میں سے کسی کا باغ تھا۔ راقم کووہاں چند دن کے لیے بھیج دیا گیا۔ راقم خرمانیاں اتار تا، ان سے ٹوکریاں بھرتا اور پھر ان کو سیتا اور وہ براستہ ٹیکسلا راولپنڈی پہنچتیں اور وہاں فروخت ہوتیں۔ اس کام میں بھی راقم نے خوب محنت اور مہارت کا ثبوت دیا۔ اب وہ تو راقم کے اور زیادہ گرویدہ ہوگئے اور اپنی ہی برادری میں سے ایک لڑکی کا رشتہ راقم سے جوڑنے کی سعی شروع کردی اور جب راقم کو اس کا پتہ چلا تو بلطائف الحیل شاہڑی ان سے لی، کیونکہ اس کا وہاں چھوڑنا بھی ایک غریب طالب علم کے لیے مشکل تھا اور ان سے لینا تو مشکل تر تھا، لیکن حکمت عملی کام آگئی اور شاہڑی لے کر راتوں رات وہاں سے بھاگ نکلا۔ وہاں چند ماہ رہا، لیکن سبق صرف برائے نام تھا۔ اصل کام ان کا کام تھا۔
راقم پھر لمبی جاپہنچا۔ وہاں چند دن رہ کر پھر اچھڑیاں اور کورے گیا اور وہاں سے عزیزم عبد الحمید کو خاصی ترغیب وترہیب کے ساتھ آمادہ کیا اور دلاسا کیا اور اس کو ساتھ لے کر لاہور چلاگیا۔ وہاں مصری شاہ میں ایک ڈاڑھی منڈھے مولوی صاحب رہتے تھے جن کا نام غالباً عبد الواحد تھا اور عرب استاد ]کے نام[ سے مشہور تھے۔ صرف اور نحو میں ان کو بڑی مہارت تھی۔ عربی روانی سے بولتے تھے اور پشتو بھی بڑی فصیح اور سلیس بولتے تھے۔ اپنا خیال یہ ہے کہ وہ قبائلی تھے۔ لباس خالص عربی پہنتے تھے، عربی لباس اور عربی زبان بولنے کی وجہ سے شاید عرب استاد کہلاتے تھے۔ تعویذات ان کے بہت چلتے تھے اور انہی کی آمدنی پر وہ وقت بسرکرتے تھے۔ انہوں نے بکری بھی رکھ رکھی تھی اورہم اس کی خدمت بھی کرتے تھے۔ عرب استاد یک چشم تھے۔ سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتے تھے اور اسی وجہ سے اکثر سیاہ رنگ کی عینک استعمال کرتے تھے۔ ان کی شہرت کی وجہ سے ان کے پاس حفیظ بانڈی تحصیل مانسہرہ ضلع ہزارہ کے ایک نوعمر مولوی صاحب جن کا نام فضل الٰہی تھا، برائے تحصیل علم حاضر ہوئے اور عرب استاد سے غالباً اس وقت وہ نحو کی دقیق اور مشکل کتاب عبد الغفور اور مغنی اللبیب پڑھتے تھے اور ہمارے اسباق بالکل ابتدائی تھے۔ جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ پڑھنے کا بے حد شوق رکھتے ہیں لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی مدرسہ تک نہیں پہنچ سکتے تو انہوں نے ہمیں مرہانہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ حضرت مولانا غلام محمد صاحب مرحوم کے پاس بھیج دیا۔ اس وقت ہم تین ساتھی تھے۔ راقم،عزیزم عبدالحمید اور مولوی عبد الحق صاحب ساکن کھکھو، مگر افسوس کہ ہماری کتابیں بالکل ابتدائی تھیں اور ان کے پاس طلبہ زیادہ تھے، نیز داخلہ کے ایام بھی نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے داخلہ سے تو معذوری ظاہر کردی لیکن بایں ہمہ انہوں نے ہماری صحیح رہنمائی کردی کہ تم وڈالہ سندھواں (یہ مرہانہ سے چند میل کی مسافت پر ضلع سیالکوٹ میں خاصا مشہور قصبہ ہے) چلے جاؤ۔ چنانچہ ہم وہاں چلے گئے۔ وہاں بڑی مرکزی دومنزلہ وسیع مسجد کے ساتھ طلبہ کی رہایش کے لیے کمرے بنے ہوئے تھے اور کئی طلبہ وہاں رہتے تھے۔ وہاں حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب رحمانی رحمہ اللہ تعالیٰ (۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸ء میں حضرت کا، جبکہ آپ سرگودھا کی جامع مسجد اہل حدیث کے خطیب تھے، حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا) مدرس اور خطیب تھے۔ حضرت کا آبائی علاقہ چونیاں ضلع لاہور تھا اور دورہ حدیث شریف انہوں نے حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ سے دہلی میں پڑھا تھا۔ غضب کے ذہین، بہترین مدرس اور چوٹی کے مقرر تھے۔ مسلکاً اہل حدیث تھے، مگر خاصے معتدل۔ فروعی مسائل میں نزاع اور اختلاف کو پسند نہ کرتے تھے۔ جب ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے راقم سے داخلہ کا امتحان لیا اور نحومیر میں معرفہ اور نکرہ کی تعریف دریافت فرمائی جو راقم نے فی الفور صحیح تعریف مع مثال عرض کردی۔ اور بھی بعض سوالات کیے اور خوش ہوکر ہمیں مدرسہ میں داخل کرلیا۔ ہماری صحیح اور باقاعدہ تعلیم کا آغاز وڈالہ ہی سے ہوا۔ ہم وہاں تقریباً دو سال رہے۔ روٹیاں گھروں سے مانگ لاتے اور خوب سیر شکم ہوکر کھاتے اور محنت سے پڑھتے۔ سبعہ معلقہ، شرح جامی اور قطبی تک کتابیں راقم نے وہاں ہی پڑھیں۔ عزیز عبدالحمید کی کتابیں ابتدائی تھیں۔ ہمارے استاد محترم اس وقت مجلس احرار اسلام کے سرگرم رکن اور نڈر سپاہی اور بے باک مقرر تھے۔ ہم لوگ باقاعدہ وردی پہنتے اور تلواریں گلے میں لٹکاکر پریڈ کرتے۔ ڈسکہ، گویند کے اور لاہور کی تاریخی کانفرنسوں میں ہم نے رضاکارانہ وردیاں پہن کر شرکت کی۔ ان دنوں مسجد شہید گنج کا مسئلہ خوب زور وں پر تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد مولوی عبد الحق صاحب وہاں سے فرار ہوگئے اور اس کے کچھ عرصہ بعد ہی عزیزم عبد الحمید اپنے ایک رفیق درس مولانا سید امیر حسن شاہ صاحب ساکن تھب تحصیل باغ ضلع پونچھ کے ساتھ وڈالہ سندھواں سے بھاگ گیا اور راقم اکیلا رہ گیا۔
پھر کچھ دنوں کے بعد راقم اس کی تلاش میں نکلا۔ غربت کازمانہ تھا۔ رقم پاس نہ تھی۔ پیدل ہی وہاں سے گوجرانوالہ پھر قلعہ دیدار سنگھ پھر حافظ آباد اور پھر وہاں سے ونیکے تارڑ جاپہنچا۔ ان تمام جگہوں میں اس وقت دینی کتابوں کے درس ہوتے تھے اور بیرونی طلبہ پڑھتے تھے، مگر عزیزم کا ان جگہوں پر کوئی اتا پتا نہ چلا۔ بالآخر راقم کشتی کے ذریعہ دریاے چناب کو عبور کرکے قادر آباد پہنچا او ر وہاں سے پھر اَنھی کے مشہور درس میں جاپہنچا جہاں پہلے ماہر معقول و منقول حضرت مولانا غلام رسول صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ پڑھاتے تھے، اس کے بعد ہمارے استاد محترم ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ یادگار سلف حضرت مولانا ولی اللہ صاحب دامت برکاتہم تعلیمی خدمات انجام دیتے تھے اور بحمداللہ تعالیٰ تاہنوز پڑھا رہے ہیں۔ مختلف علاقوں سے ذہین اور پڑھنے والے طلبہ کا وہاں ہجوم رہتا تھا۔ راقم اَنھی سے چند میل دور ککّہ میں مقیم ہوگیا۔ وہاں مقام ہٹیاں کشمیر کے مولانا عبدالمجید صاحب بھی رہتے تھے۔ ہم دونوں صبح سویرے وہاں سے چل کر اَنھی آجاتے اور سبق پڑھ کر ظہر تک واپس چلے جاتے۔ میبذی وغیرہ کتابیں راقم نے وہاں ہی پڑھی ہیں۔ اَنھی میں طریقۂ تعلیم یہ تھا کہ طالب علم ہر فن کی کتاب کا خود مطالعہ کرکے اور خوب سمجھ کر کتاب کا مطلب استاد کے سامنے بیان کرتا اور غلطی پر استاد اس کی اصلاح کردیتے۔ اس طریقہ سے بمشکل ایک دو سبق ہی حل کرسکتا۔ نہایت ہی ذہین آدمی تین اسباق پڑھ سکتا تھا۔ اس طرز سے طلبہ میں مطالعہ اور کتابوں کے سمجھنے اور حل کرنے کا جذبہ بخوبی اجاگر ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد راقم وہاں سے پکھی، منڈی بہاؤالدین، ملکوال، پنڈ دادن خان، بھیرہ، خوشاب سے ہوتا ہوا شاہ پور اور پھر وہاں سے سرگودھااور وہاں سے تقریباً بیس میل دور جہان آباد پیدل پہنچا۔ وہاں سے اتنا معلوم ہوا کہ عزیزم عبد الحمید بمع اپنے رفیق کے آئے تھے اور کچھ دن یہاں رہے ہیں اور پھر چلے گئے ہیں۔ وہاں رات رہ کر راقم خوشاب، واں بھچراں، کندیاں، کلورکوٹ سے ہوتا ہوا ضلع لائل پور(فیصل آباد) کے ایک قصبہ بازار والہ پہنچا۔ وہاں بریلوی مکتب فکر کا ایک درس تھا اور بیرونی طلبہ رہتے تھے۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ دونوں مفرور ملتان میں ہیں اور مولانا عبد العلیم صاحب کے مدرسہ میں پڑھتے ہیں۔ چنانچہ راقم وہاں سے روانہ ہوکر ملتان پہنچا اور عزیزم عبدالحمید بمع اپنے رفیق کے وہاں موجود تھا۔ ملاقات ہوئی، گلہ شکوہ اور سفر کی تکلیفوں کا تذکرہ بھی ہوا اور ملاقات کرکے خوشی بھی ہوئی۔ وہاں ہم تینوں کچھ عرصہ رہے اور علم میراث کا ایک رسالہ جس کے مصنف خود مولانا موصوف تھے، پڑھا۔ مولانا بہت معمر تھے۔ ان کے فرزند مولانا عبد الحلیم اور ان کے فرزند مولانا عبد الکریم اور ان کے فرزند مولوی عبد الشکور سب زندہ تھے۔ لانگے خان کے باغ کے قریب ان کی مسجد تھی اور اس میں درسِ کتب جاری تھا۔ یہ حضرات نہ پکے دیوبندی اور نہ پختہ بریلوی، بین بین تھے۔ علم اور علماء سے بڑی عقیدت رکھتے تھے، لیکن وہاں کھانے کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ وہاں فی کس توے کی ایک روٹی سالم اور ایک آدھی ملتی تھی اور اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہمارے اوپر کے کسی بزرگ کا یہی معمول تھا۔ ہمارا اس کھانے پر بخوبی گزارہ تو نہیں ہوسکتا تھا، مگر چونکہ رمضان شریف بالکل قریب تھا، اس لیے اختتام سال کے پیش نظر ہم وہاں ہی پڑے رہے۔
جب سال ختم ہوا تو ہم تینوں وہاں سے روانہ ہوکر ملتان کے قریب ہی پیراں غائب کے مقام پر (جومین لائن کا اسٹیشن بھی ہے) پہنچے۔ وہاں کچی کچی جھونپڑیاں تھیں اور ایک امام مسجد میاں عبد اللہ صاحب سے اتفاقی ہماری ملاقات ہوگئی۔ چونکہ ہمارے ایک ساتھی امیر حسن شاہ صاحب سید تھے اور وہ لوگ سادات کی بڑی عزت کرتے تھے، اس لیے انہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور باصرار انہوں نے اپنے پاس رکھا اور رمضان شریف ہم نے سید صاحب کی برکت سے بڑاہی مزے سے گزارا۔ جب رمضان شریف ختم ہوا تو ہم ۱۹۳۷ء میں جہانیاں منڈی ضلع ملتان پہنچے۔ وہاں حضرت مولانا غلام محمد صاحب لدھیانوی دامت برکاتہم بڑی جامع مسجد میں (جس کے ساتھ طلبہ کی رہایش کے لیے خاصے کمرے تھے) خطیب اور مدرس تھے۔ موصوف حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب ؒ کے شاگرد اور فضلاے دیوبند میں سے ہیں۔ ہم نے ان سے اسباق شروع کیے۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مظفر گڑھی دامت برکاتہم (جو آج سے تقریباً باون سال پہلے دیوبند سے فارغ ہوئے) مدرس ہوکر تشریف لائے۔ راقم نے وہاں عبد الغفور ، حمد اللہ، مسلم الثبوت اور مختصرالمعانی وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ عزیزم عبد الحمید کے اسباق چھوٹے تھے۔ اس کے بعد اختتام سال کے قریب ہی رفیق سفر کے اکسانے اور باہمی مشورہ سے بلاوجہ ہی روانہ ہوگئے۔ چونکہ ان کے بھائی مولوی سید گل حسن شاہ صاحب گوجرانوالہ میں تھے، انہوں نے ان کے پاس آنا تھا، ہم بھی ساتھ ہی چلے آئے اور رمضان سے قبل ہی مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں نئے سال کے داخلہ کی منظوری لے لی۔ اس وقت حضرت مولاناعبد العزیز صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ المتوفی ۱۳۵۹ھ جو فضلاے دیوبند میں سے تھے اور وسیع النظر اور علم حدیث اور طبقات روات پر بڑی گہری نگاہ رکھنے والے تھے، وہاں مہتمم اور خطیب تھے۔ داخلہ کی منظوری کے بعد ہم دونوں بھائیوں نے رمضان مبارک میں ضلع گوجرانوالہ تحصیل حافظ آباد اور ضلع شیخوپورہ کے بہت سے دیہات کا تبلیغی اور اکتسابی دورہ کیا۔ رمضان شریف بھی ختم ہوا اور ہماری سیاحت بھی ختم ہوئی۔ ماہ شوال میں ہم انوار العلوم میں داخل ہوگئے۔ وہاں حضرت مولانا عبد القدیر صاحب دامت برکاتہم کیمل پوری صدر مدرس تھے۔ (موصوف حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مایۂ ناز شاگردوں میں سے ہیں۔ حضرت مدرسہ انوار العلوم کے بعد ڈابھیل بھی مدرس رہے۔ اس کے بعد ملک تقسیم ہوگیا اور کئی سال فقیروالی ضلع بہاول نگر میں شیخ الحدیث رہے۔ اب اس سال اپنے آبائی علاقہ غورغشتی میں شیخ الحدیث ہیں) تقریباً تین سال ہم انوار العلوم میں رہے اور یہ وہ دور تھا جس میں ہٹلر کی اتحادیوں سے جنگ عظیم چھڑی ہوئی تھی اور سرکاربرطانیہ کی قوت کی چولیں ڈھیلی دکھائی دیتی تھیں۔ اس اثنا میں ہم نے بڑی محنت اور دل جمعی سے تعلیم جاری رکھی اور محترم استاد کی خصوصی نوازشوں سے بہت استفادہ کیا۔ موقوف علیہ تک کی تمام اہم کتابیں مثلاً ہدایہ اولین، ہدایہ اخیرین، توضیح وتلویح، بیضاوی، تصریح، اقلیدس، صدرا، قاضی مبارک، شمس بازغہ، شرح نخبۃ الفکر اور مشکوٰۃ شریف وغیرہ کتابیں حضرت سے پڑھیں اور مطول و سراجی وغیرہ حضرت مولانا عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم سے پڑھیں اور باوجود غربت اور عسرت کے تعلیمی مشغلہ میں خوب انہماک رہا۔ اساتذہ کرام بھی ہم سے بڑے خوش تھے۔
ان چھ سات سالوں میں ہم نے وطن میں اپنے بزرگوں اور رشتہ داروں کو کوئی اطلاع نہ دی کہ ہم ہیں یا نہیں؟ اور ہیں تو کہاں ہیں؟ اور کرتے کیا ہیں؟ جن حضرات کو ہمارے ساتھ قدرتی اور طبعی طور پر محبت تھی، مثلاً والدہ ماجدہ اور ہمشیرگان وغیرہا تو وہ ہمارے بارے میں متفکر اور پریشان تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو غالباً ’’ولے بخیر گزشت‘‘ کا ورد کرتے ہوں گے۔ بہرحال دنیا میں بہت کچھ ہوتا ہے اور یہ زمانہ ہم پر جیسے بھی گزرا، آخر گزرگیا۔ راقم کی موقوف علیہ تک سب کتابیں ختم ہوگئی تھیں، لیکن عزیزم عبد الحمید کی باقی تھیں اور راقم اس کے لیے رکارہا اور دورۂ حدیث شریف کے لیے دارالعلوم دیوبند نہ جاسکا اور بحکم استاد محترم تقریباً ڈیڑھ سال پرائیویٹ طورپر ایک جگہ مولوی فاضل کا کورس پڑھاتا رہا۔ پچیس روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی اور کھانا اور رہایش کا انتظام اس کے علاوہ تھا۔ اسی زمانہ میں ہماری برادری کے ایک بزرگ چچا گل خان صاحب ساکن اچھڑیاں راہوالی میں ریلوے کے محکمہ میں ملازم تھے، ان کی وجہ سے ہمارا علم ہمارے بزرگوں کو ہوگیا۔ چنانچہ ہمارے خالہ زاد بھائی حاجی گوہر آمان خان صاحب مرحوم ہماری ملاقات کے لیے گوجرانوالہ آئے۔ ملاقات ہوئی، خیروعافیت کا علم ہوا۔ ہماری والدہ مرحومہ اور چھوٹی ہمشیرہ انہی کے ہاں رہتی تھیں۔ کچھ دنوں کے بعد راقم بھی وطن گیا اور خویش واقارب سے ملاقات ہوئی۔ چند دن وہاں رہا اور بعض مقامات پر تقریریں بھی کیں۔ لوگوں کا زاویہ نگاہ قدرے بدل چکا تھا اور اب وہ وقعت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
دار العلوم دیوبند میں داخلہ
رشتہ داروں کی ملاقات کرکے راقم پھر واپس گوجرانوالہ پہنچا اور ۱۹۴۱ ء میں ہم دونوں بھائی بمع چند دیگر ساتھیوں کے دارالعلوم دیوبند روانہ ہوئے۔ داخلہ کا امتحان دیا اور بفضلہ تعالیٰ ہم کامیاب رہے اور حدیث شریف کے دورہ میں شریک ہوگئے۔ بخاری شریف اور ترمذی شریف حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ؒ کے پاس اور مسلم شریف حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی ؒ کے پاس اور ابوداؤد شریف حضرت مولانا محمداعزاز علی صاحب ؒ کے پاس تھا۔ اسی طرح دیگر اسباق دوسرے اساتذہ کرام پر تقسیم تھے۔ دن رات تعلیم ہوتی اور اس سال دورۂ حدیث شریف میں ہم ۳۳۳ ساتھی تھے۔ کل تعداد اس سال ۱۹۹۵ تھی۔ ابتدائی مہینے تو بڑے آرام اور سکون سے گزرے اور طلبہ کی تقریریں بھی بڑے جوش وخروش سے ہوتی تھیں اور راقم کے بارے بلاوجہ ایک دو تقریروں کے بعد یہ تاثر قائم کرلیا گیا کہ یہ اچھا مقرر ہے بلکہ ایک موقع پر مشہور شاعر جناب علامہ مولانا محمد انور صاحب صابری نے راقم کی تقریر سن کریہ فرمایا کہ سرحدیوں میں یہ ابوالکلام کہاں سے پیدا ہوگیا ہے؟ درمیان سال میں حضرت شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ؒ نے مرادآباد میں ایک تقریر فرمائی۔ اس سلسلہ میں ان پر مقدمہ چلا اور حضرت گرفتار ہوگئے۔ طلبہ نے حضرت کی گرفتاری کے خلاف زبردست احتجاج کیا حتیٰ کہ پولیس اور فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور طلبہ نے اس موقع پر فرط عقیدت کی بناپر کئی بار جلوس نکالے اور آخری جلوسوں کی قیادت اس ناچیز کے نازک کندھوں پر ڈال دی گئی (جس کی وجہ یہ تھی کہ متحدہ ہندوستان کے گیارہ صوبے تھے اور طلبہ نے اپنی سہولت کے لیے ہرصوبے کا ایک ایک نمائندہ مقرر کردیا تھا۔ ایک زبان ہونے کی وجہ سے صوبہ سرحد اور افغانستان کا نمائندہ راقم کو چنا گیا اور پھر ان تمام نمائندوں کا صدر راقم منتخب ہوا ۔ ع
قرعہ فال بنامِ منِ مسکین زنند
اس وجہ سے ارباب دارالعلوم دیوبند، مجلس شوریٰ کے اراکین اور حکومت کے نمائندوں کا سلسلہ ہی راقم سے وابستہ ہوگیا۔ کبھی صدر مہتمم حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی ؒ سے گفتگو ہوتی اور کبھی مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب دامت برکاتہم سے اور کسی موقع پر حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب شاہجہانپوری سے صلاح ومشورہ ہوتا اور کبھی حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب دہلوی ؒ سے اور کبھی پولیس اور حکومت کا کوئی افسر اور کارندہ آجاتا اور کبھی سی آئی ڈی کا کوئی خیرخواہ مولویانہ شکل وصورت میں حالات معلوم کرنے کے لیے راقم کے ذہن کو کریدتا۔ ادھر طلبہ کی بے چینی اپنے عروج پر تھی۔ جلسوں پر جلسے اور نعروں پر نعرے لگتے۔ کافی دن اس اضطراب میں گزرگئے اور راتوں کی نیند بھی کافور ہوگئی اور آہ وزاری میں وقت گزر تا رہا کہ اے پروردگار، کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہوجائے کہ ظالم برطانیہ کو دارالعلوم دیوبند کے بند کرنے کا بہانہ مل جائے یا اس کی تعلیم پر ہی کوئی زد پڑے۔ بالآخر ایک دن حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب ؒ نے راقم کو تنہائی میں طلب فرمایا۔ دارالعلوم کے طلبہ میں سے اس وقت کوئی اور موجود نہ تھا۔ راقم تھا اور بزرگوں میں صرف حضرت مولانا مفتی محمدکفایت اللہ صاحب ؒ اور حضرت مولانا ابوالوفاء صاحب شاہ جہان پوری اور حضرت مولانا محمد یوسف صاحب گنگوہی موجود تھے۔ بند کمرے میں گفتگو ہوئی اور حضرت مفتی صاحب ؒ نے اپنے وقار، تحمل اور سنجیدگی کو ملحوظ رکھ کر بڑے سلجھے ہوئے انداز میں راقم کو مخاطب فرمایا کہ عزیز، تم اس وقت تمام طلبہ کے نمائندہ ہو اور جو بات بھی طے ہونی ہے، وہ تمہارے ساتھ ہونی ہے۔ اگر تو ہوش وحواس کو قابو میں رکھو اور ٹھنڈے دل سے ہماری بات سنو تو ہم عرض کردیں اور اگر نعرہ بازی اور جوش وخروش کا اظہار کرو تو ہمارا کچھ عرض کرنا بالکل بے سود ہے۔ راقم نے عرض کیا کہ حضرت آپ ارشاد فرمائیں، میں آپ کا ارشاد سن کر ان شاء اللہ العزیز تمام طلبہ تک پہنچا دوں گا۔ حضرت مفتی صاحب ؒ نے فرمایا کہ اس وقت بمبئی میں کانگرس کا حکومت برطانیہ کے خلاف راست اقدام کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور حکومت کے عزائم بہرکیف اچھے نہیں ہیں۔ اگر یہاں دارالعلوم میں اس قسم کی ہنگامہ آرائی ہوئی تو لامحالہ حکومت اس ہنگامہ کی کڑی کانگرس کے اس راست اقدام سے جوڑے گی اور پھر ہوسکتا ہے کہ حضرت مولانا مدنی ؒ کے مقدمہ کی نوعیت بدل جائے یا غیر معین عرصہ تک دارالعلوم بند ہوجائے یا حکومت برطانیہ کوئی اور ایسا فتنہ کھڑا کردے جس کو سنبھالنا اراکین دارالعلوم کے بس میں نہ ہو، حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ طلبہ کے اس ہنگامے کاکانگرس کے اس راست اقدام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا جوش وخروش جتنا کچھ اور جیسا کچھ بھی ہے، وہ صرف حضرت مدنی ؒ کی گرفتاری کے خلاف ایک منظم احتجاج ہے اور اپنے شیخ اور استاد محترم کے ساتھ عقیدت کا اظہار ہے۔ اس لیے مفادِ دارالعلوم اسی میں ہے کہ ہنگامہ ختم کیا جائے اور طلبہ جلسوں اور جلوسوں اور نعرہ بازی سے گریز کریں اور فوراً اپنی اپنی کلاسوں میں چلے جائیں اور ذوق وشوق سے تعلیم جاری رکھیں۔
حضرت مفتی صاحب ؒ کی بات چونکہ نہایت معقول اور رائے بڑی وزنی تھی، راقم ان کا ہم نوا ہوگیا لیکن دوہزار افراد کے قلبی جذبات کو یک لخت ٹھنڈا کردینا کس کے بس میں تھا؟ اور ان میں ہرملک کے حضرات شامل تھے۔ ہر ایک کا مزاج اور طبیعت الگ الگ تھی۔ سوچ اور سمجھ کا مادہ جدا جدا تھا اور ان میں فتنے اور فساد کو فروکرنے والے بھی تھے اور ان میں ابھارنے والے بھی تھے۔ ان میں بیشتر حضرات خیرخواہ تھے، لیکن بدقسمتی سے حکومت کے ایما سے بدخواہ بھی ان ہنگاموں میں شامل ہوگئے تھے اور ان میں پیش پیش تھے اور انتہائی غلط قسم کی حرکات پر اکساتے تھے، لیکن بفضلہ تعالیٰ باوجود نو عمری کے راقم ان کے چکمہ میں نہ آیا اور جلوس کو پر امن رکھنے کی سعی میں منہمک رہا، جبکہ ایک نازک موقع پر شرارت پسند لوگوں کی وجہ سے قریب تھا کہ تشدد کا بہانہ بناکر فوج گولی چلادیتی۔ الغرض راقم نے پیش آنے والے بعض خطرات کا تذکرہ حضرت مفتی صاحب ؒ سے کردیا اور طلبہ کے جوش وخروش اور جذبات کو دفعۃًٹھنڈا کرنے کی اہمیت ان کے پیش نظر بھی تھی۔ ہم نے اپنے تمام نمائندوں کو بلاکر سب کے سامنے حقیقت حال بیان کردی۔ باقی حضرات تو ہمارے ہم خیال ہوگئے، لیکن صوبہ بہار کا نمائندہ اس پر آمادہ نہ ہوا اور انہوں نے خاصی تیزی کا اظہار کیا اور بلاوجہ ہم پر ساز باز کا الزام لگایا۔ ادھر ارباب شوریٰ کا ہنگامی اور مختصر اجلاس ہوا اور اس کے بعد فوراً دارالحدیث میں جلسہ عام ہوا جس میں اکابر نے دارالعلوم کے مفاد کے بارے اپنے نیک اور بھرپور جذبات کا اظہار فرمایا۔ اس عمومی جلسہ کا اثر یہ ہوا کہ اکثر حضرات مطمئن ہوگئے، مگر کچھ ہنگامہ خیز طبیعتیں مطمئن نہ ہوسکیں اور انہوں نے ہنگامہ جاری رکھنے پر خاصا زور صرف کیا۔ ہوسکتا ہے کہ بعض مغلوب الحال لوگ فرط عقیدت کی وجہ سے ایسا کرتے ہوں اور غالباً کچھ لوگ حکومت کی شہ پر ایسا کرتے ہوں تاکہ تشدد کا بہانہ بناکر حکومت کو دست اندازی کا موقع مل سکے۔ بہرحال تعلیم جاری ہوگئی اور بخاری شریف اور ترمذی شریف کا بقیہ حصہ حضرت مولانا محمد اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے پورا کیا۔ جب سالانہ امتحان قریب آیا تو پھر ہنگامہ خیز طبیعتوں نے دفعۃً ہنگامہ برپاکردیا اور مطالبہ یہ رکھا کہ امتحان کے بغیر ہی ہمیں پاس تصور کیا جائے اور مفت میں سندیں مل جائیں۔ اور ہنگامہ میں غبی، بے محنت اور نالائق پیش پیش تھے مگر چونکہ یہ مطالبہ سراسر غیر معقول تھا اس لیے اراکین مدرسہ اس پر آمادہ نہ ہوئے اور معمول سے چند دن پہلے ہی دارالعلوم بند کردیا گیا اور اہتمام کی طرف سے صاف اعلان کردیا گیا کہ امتحان کسی مناسب موقع پر ان شاء اللہ تعالیٰ ہوجائے گا، اس وقت آپ حضرات چلے جائیں۔
وطن واپسی
ہم دونوں بھائی دارالعلوم سے روانہ ہوکر سیدھے اچھڑیاں پہنچے جہاں ہماری سوتیلی والدہ ؒ اور حقیقی چھوٹی ہمشیرہ بی بی خانم مرحومہ تھیں۔ سب سے پہلے ہم نے اس کی شادی کاانتظام کیا اور برادرم دولت خان صاحب ساکن اچھڑیاں سے اس کی شادی کردی۔ مہر اور بعض دیگر غیر شرعی رسموں کے بارے بعض رشتہ داروں نے کچھ بے جاپابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی مگر ہم دونوں بھائیوں نے سختی سے مزاحمت کی اور صرف دوسو روپیہ مہر مقرر ہوا۔ اس ضروری کام سے فارغ ہونے کے بعد ہم دونوں بھائی لمبی چلے گئے۔ عزیزم عبد الحمید تو وہیں رہا اور راقم وہاں سے روانہ ہوکر اچھڑیاں پہنچا اور وہاں سے رخصت ہوکر چٹہ بٹہ، متہال، ایبٹ آباد، دمتوڑ، حویلیاں پہنچا۔ ان مقامات پر اپنے دوستوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ یہ سارا سفر رمضان مبارک میں اور لطف یہ کہ پیدل طے ہوا۔ حویلیاں سے بذریعہ ریل گاڑی راقم مدرسہ انوار العلوم جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ پہنچا۔ رمضان شریف کے بعد عزیزم عبد الحمید بھی گوجرانوالہ پہنچ گیا۔ راقم کو اسی مدرسہ میں صرف پندرہ روپے ماہانہ پر اساتذہ کرام کے حکم سے مدرس مقرر کردیا گیا اور عزیزم عبدالحمید گوجرانوالہ کے قریب مقام کھیالی میں جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوگیا۔ چونکہ راقم پہلے ہی مولوی فاضل کا مکمل کورس پڑھا چکا تھا، اساتذہ کرام کو بھی اعتماد تھا اور طلبہ بھی مطمئن تھے اس لیے راقم کے پاس درجہ وسطیٰ کے اسباق شروع ہوگئے اور بحمداللہ تعالیٰ کام تسلی بخش طور پر جاری رہا۔ اسی اثنا میں دارالعلوم دیوبند سے امتحان کے لیے طلب کیا گیا اور ہم دونوں بھائی گوجرانوالہ سے روانہ ہوکر دیوبند پہنچے اور امتحان دیا اور پھر واپس آگئے۔ امتحان کے نتیجہ پر معلوم ہوا کہ بحمداللہ تعالیٰ ہم دونوں کامیاب ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد بذریعہ ڈاک ہماری سندیں بھی ہمیں موصول ہوگئیں۔ سوء اتفاق سے عزیزم عبد الحمید کھیالی میں بیمار ہوگیا اور کافی دن بیمار رہا۔ راقم پیدل ہی چل کر اس کی خبر گیری کرتا اور اختتام سال کے قریب راقم میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور بوجہ ناداری کے خاطر خواہ علاج کی سہولت میسر نہ ہوسکی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی فضل وکرم کیا اور تقریباً ایک ماہ کے بعد راقم تندرست ہوا، مگر کمزوری بے پناہ تھی۔ آخری ایک دوماہ کی تنخواہ مدرسہ کی طرف سے بیس روپے ماہانہ کردی گئی لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا او ر امتحان کے بعد سالانہ تعطیل ہوگئی اور اساتذہ کرام اور طلبہ اپنے اپنے وطن روانہ ہوگئے ۔
گکھڑ میں آمد
راقم ابھی دیوبند نہیں گیا تھا اور موقوف علیہ تک کی سب کتابیں ختم ہوچکی تھیں مگر عزیزم عبد الحمید کی کتابیں باقی تھیں۔ اس کے لیے میں بھی رکا رہا۔ اس اثنا میں دارالعلوم دیوبند کے سفیر مولانا عبد الرحمن صاحب بہاری گوجرانوالہ تشریف لائے اور راقم سے کہنے لگے کہ میں پنجابی زبان نہیں جانتا، تم میرے ساتھ گکھڑ چلو۔ راقم ان کے ساتھ گکھڑ آیا۔ سفیر صاحب کا اصل مقصد تو دارالعلوم کے لیے چندہ فراہم کرنا تھا، لیکن اہل گکھڑ نے تقریر کی فرمایش کردی چنانچہ بٹ دری فیکٹری کے سامنے کھلے میدان میں عشا کے بعد موصوف نے بھی چند منٹ اردو میں تقریر کی اور اس کے بعد راقم نے تقریباً ایک گھنٹہ پنجابی میں تقریر کی۔ بحمداللہ تعالیٰ تقریر خاصی موثر رہی اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد عالم اسباب میں یہی تقریر میرے گکھڑ آنے کا سبب قرار پائی۔ مجھ سے پہلے حضرت مولانا علم الدین صاحب جالندھری فاضل دیوبند یہاں خطیب تھے۔ موصوف کی طبیعت بہت نرم ہے، اس لیے گکھڑ جیسے بدعت گڑھ میں شرک وبدعت کے طوفان کا مقابلہ پوری طرح ان سے نہ ہوسکا۔ ہاں ان سے پہلے حضرت مولانا محمود الحسن صاحب جالندھری نے خاصا کام کیا۔ راقم مدرسہ انوارالعلوم میں مدرس تھا کہ درمیان سال میں اراکین انجمن اسلامیہ گکھڑ میں سے بعض حضرات کئی دفعہ راقم کو گکھڑ لانے کے لیے تشریف لے گئے، مگر راقم مجبور تھا۔ جب مدرسہ انوارالعلوم کا سالانہ امتحان ہوچکا اور تعلیمی سال پورا ہوگیا تو محترم جناب چودھری حاجی فخر الدین صاحب مرحوم اور محترم جناب ماسٹر کرم الدین صاحب مرحوم وغیرہ حضرات گئے اور راقم کو پینتالیس روپے ماہانہ کے مشاہرہ پر گکھڑ لے آئے اور راقم ۹ جولائی ۹۴۳اء کو گکھڑ پہنچا اور درس شروع کردیا اور جمعہ پڑھانے کی ذمہ داری قبول کی، لیکن ابتدائی دور شدید مخالفت کی وجہ سے بہت صبر آزما گزرا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی اور آہستہ آہستہ لوگ توحید وسنت سے شناسا ہونے لگے اور شرک وبدعت کی نفرت ان کے دل میں بیٹھنے لگی۔
راقم نے اراکین انجمن سے یہ شرط طے کی تھی کہ طلبہ ضرور ہوں گے، ورنہ میری تعلیم بھی ختم ہوجائے گی اور ٹھوس طریقہ سے نتیجہ خیز دینی خدمت بھی نہیں ہوسکے گی۔ میری دلجوئی کے لیے انہوں نے پانچ طلبہ منظور کیے۔ پہلے سال تو اتنے ہی طلبہ رہے، مگر پھر بحمد اللہ تعالیٰ طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی حتیٰ کہ پھر بیس سے بھی زائد طلبہ یہاں رہنے لگے اور یہ سلسلہ تقریباً تیرہ چودہ سال رہا۔ اس کے بعد راقم کا بحیثیت مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ شوال ۱۳۷۴ھ کو تقرر ہوا۔ ابتداءً ا موقوف علیہ تک مختلف علوم وفنون کی کتابیں راقم پڑھاتا رہا۔ اب کئی سال سے دورہ حدیث شریف کی دوکتابیں بخاری شریف اور ترمذی شریف اور ترجمہ قرآن کریم تو ہر سال لازم ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی ایک دو سبق راقم کے سپرد ہوتے ہیں اور تقریباً پندرہ سولہ سال سے مدرسہ نصرۃ العلوم کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ انجمن اسلامیہ گکھڑ کی طرف سے راقم کے ذمہ صرف جمعہ اور درس کی ڈیوٹی ہے، لیکن بحمداللہ تعالیٰ چھبیس سال سے راقم باقاعدہ نماز بھی حسبۃً للہ تعالیٰ پڑھا رہاہے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گکھڑ میں ۱۹۴۳ء سے قرآن پاک کا درس دیتا ہے اور یہ سب کام بحمد اللہ تعالیٰ تادم تحریر جاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیق بخشے، آمین ثم آمین۔
پہلی شادی
۲۴؍ مئی ۱۹۴۵ء کو راقم کی پہلی شادی سکینہ بی بی بنت مولوی محمد اکبر صاحب مرحوم قوم راجپوت خطیب جامع مسجد اسلام بستی گوجرانوالہ سے ہوئی جس سے سات بچے پیدا ہوئے۔ پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں۔ دو لڑکے فوت ہوگئے ہیں، عبد الرشید اور عبد الکریم۔ باقی پانچ زندہ ہیں۔ بڑا لڑکا محمد عبد المتین خان زاہد (جو زاہد الراشدی اپنا تخلص رکھتا ہے) حافظ قرآن اور مدرسہ نصرۃ العلوم کا فارغ ہے۔ اس وقت مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں مدرس اور جامع مسجد کا نائب خطیب اور شادی شدہ ہے۔ بڑی لڑکی سلمیٰ اختر کی اچھڑیاں ضلع ہزارہ میں شادی ہوئی ہے۔ اور ان سے چھوٹا عبدالقدوس خان قارن حافظ قرآن اورمستند اور اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں درجہ وسطیٰ میں پڑھ رہا ہے۔ اس سے چھوٹی لڑکی حافظہ سعیدہ اختر جو مستند قاریہ ہے اور اس وقت مشکوٰۃ شریف وغیرہ کتابیں اپنے چچا عزیزم عبد الحمید سے پڑھ رہی ہے اور مدرسہ نصرۃ العلوم میں شعبہ نسواں میں پڑھاتی بھی ہے۔ اس سے چھوٹا لڑکا عبد الحق خان بشیر چھٹی جماعت پاس ہے اور اس وقت قرآن کریم یاد کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو دین پر قائم رکھے، آمین۔
دوسری شادی
بعض اشد مجبوریوں کی وجہ سے راقم نے ۳؍ رجب ۱۳۷۱ھ/ ۳۰ مارچ ۱۹۵۲ء میں دوسری شادی اپنے والد محترم مرحوم کے چچازاد بھائی محمد فیروز خان صاحب مرحوم ساکن کورے کی لڑکی زبیدہ بی بی (سابق نام مہرانگیز) سے کی جس سے سات بچے پیدا ہوئے۔ ایک لڑکی اور چھ لڑکے۔ ایک لڑکا محمد یونس خان راشد فوت ہوگیا ہے، باقی زندہ ہیں۔ بڑا لڑکا محمد اشرف خان ماجد قرآن کریم حفظ کرچکا ہے اور اب وہ اس کو دہرارہا ہے۔ اس سے چھوٹی لڑکی طاہرہ آسیہ خاتون بھی قرآن کریم یاد کرچکی ہے۔ اس سے چھوٹے شرف الدین خان حامد اور رشید الحق خان عابد قرآن کریم یاد کررہے ہیں اور سکول میں پانچویں جماعت میں داخل ہیں۔ دو ان سے چھوٹے ہیں، عزیز الرحمن شاہد اور عنایت الوہاب خان ساجد۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو علم دین سے مالا مال کرے اوراپنی رضا کی توفیق بخشے، آمین۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے راقم کی دونوں بیویاں زندہ ہیں اور ایک ساتھ رہتی ہیں۔ ایک ہی چولہے پر اکٹھا پکاتی کھاتی ہیں اور آج تک کوئی ایسی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی جس کی وجہ سے علیحدگی کا سوال یا مطالبہ سامنے آیا ہو اور یہی حال بچوں کا ہے۔بحمد اللہ تعالیٰ آپس میں شِیر و شکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اتفاق و اتحاد سے رکھے اور اپنی مرضیات کی توفیق بخشے۔
تصنیف وتالیف
راقم کا اصل کام تو تعلیم وتدریس رہا ہے، لیکن فارغ اوقات میں محض اللہ تعالیٰ کی تائید اور توفیق سے متعدد اختلافی اور تحقیقی مسائل پر چھوٹی بڑی کئی کتابیں تالیف کی ہیں اور بحمدا للہ تعالیٰ کئی کئی بار اکثر کتابیں طبع ہوچکی ہیں اور پاک وہند کے اکابر علماے کرام نے ان کی تصدیق کی ہے اور بعض کتابوں پر ان کی زریں تصدیقات بھی طبع شدہ ہیں۔ فہرست کتب سے ان کے مضامین معلوم ہوسکتے ہیں اور یہ فہرست مطبوع مل سکتی ہے۔ اجمالی طورپر کتابوں کا نام یہاں درج کیا جا رہا ہے :
(۱) الکلام الحاوی فی تحقیق عبارۃ الطحاوی (۲) گلدستہ توحید (۳) دل کا سرور (۴) آنکھوں کی ٹھنڈک (۵) راہ سنت (۶) باب جنت (۷) ہدایۃ المرتاب (۸) ازالۃ الریب (۹) احسن الکلام (۱۰) طائفہ منصورہ (۱۱) مقام ابی حنیفہ (۱۲) صرف ایک اسلام (۱۳) چراغ کی روشنی (۱۴) علم غیب اور ملا علی قاری (۱۵) تسکین الصدور (۱۶) درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ (۱۷) تبلیغ اسلام حصہ اول (۱۸) انکار حدیث کے نتائج (۱۹) عیسائیت کا پس منظر (۲۰) چالیس دعائیں (۲۱) آئینہ محمدی (۲۲) بانی دارالعلوم دیوبند (۲۳) مسئلہ قربانی (۲۴) عمدۃ الاثاث (۲۵) تنقید متین برتفسیر نعیم الدین (۲۶) شوق جہاد وغیرہ۔
اس کے علاوہ بعض کتابوں کے ترجمے اور بعض کے مقدمات بھی لکھے ہیں، مثلاً رسالہ تراویح مولانا غلام رسول صاحب مرحوم کا ترجمہ مع مقدمہ، اعفاء اللحیۃ کا ترجمہ مع مقدمہ، تحقیق الدعاء بعد الجنازہ کا مقدمہ، البیان الازہر ترجمہ فقہ اکبر (یہ ترجمہ عزیزم صوفی عبد الحمید نے کیا ہے ) کا مقدمہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ کچھ کتابیں ابھی طبع نہیں ہوسکیں۔ بعض کے مسودات لکھے جاچکے ہیں، لیکن کم فرصتی اور علالت کی وجہ سے ذمہ داری کے ساتھ نظر ثانی کا موقع میسر نہیں ہے اور بعض کے مضامین گو جمع کر لیے گئے ہیں مگر خاطر خواہ ترتیب ابھی تک نہیں دی جاسکی، مثلاً ختم نبوت،نزول مسیح علیہ السلام، سماع موتی، مسئلہ تراویح، رفع یدین و آمین بالجہر وغیرہ پر رسالہ، الکلام المفید، شوق حدیث، عبارات اکابر وغیرہ۔ ان میں بعض رسالے مرتب ہیں اور امید ہے کہ ان شاء اللہ العزیز جلدی ہی طبع ہوجائیں گے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیر خدمت کو قبول فرماکر راقم کے گناہوں کا کفارہ بنائے اور ان کو اخروی نجات کا ذریعہ بنائے، آمین۔
عزیزم عبد الحمید
عزیزم کے دورہ حدیث شریف تک کا تعلیمی تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔ زائد بات جو قابل ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ عزیزم نے دارالمبلغین لکھنؤمیں امام اہل السنت حضرت مولانا عبد الشکور صاحب ؒ کی سرپرستی میں باطل فرقوں کے ساتھ مناظرہ کے فن کی تکمیل کرکے سند حاصل کی۔ اس کے بعد راقم کی مرضی کے خلاف طبیہ کالج حیدر آباد دکن میں چارسال کا کورس مکمل کرکے طبیب مستند کی سند حاصل کی اور پھر گوجرانوالہ میں کچھ عرصہ حکمت کی دوکان بھی کرتا رہا، لیکن راقم جس چیز کو پسند کرتا تھا یعنی تعلیم وتدریس، اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اس کا رجحان ومیلان کردیا اور مدرسہ نصرۃ العلوم کی بنیاد واجرا کے بعد وہ اس کا مہتمم مقرر ہوا اور جامع مسجد نور کا خطیب ہے اوربفضل اللہ تعالیٰ درس وجمعہ پر موثر تبلیغ کی برکت سے بہت لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے اور مدرسہ کا کام بھی بحمدا للہ تعالیٰ بہت عمدہ پیرایہ سے ہورہا ہے اور خصوصی وعمومی درس اور طلبہ کے اسباق کے علاوہ اس کی کوشش سے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ اور شاہ رفیع الدین صاحب ؒ کی نادر کتابیں بڑی صحت کے ساتھ طبع ہوئی ہیں، مثلاً الطاف القدس، تکمیل الاذہان، مجموعہ رسائل، اسرار المحبۃ اور تفسیر آیۃ النور وغیرہ۔ اور فیوضات حسینیہ کا ترجمہ اور مقدمہ اس کے علاوہ ہے۔
بڑ ے اصرار کے ساتھ راقم نے گکھڑ میں عزیزہ غلام زہرہ بنت مہر کریم بخش صاحب کے ساتھ ۱۲؍ ذوالحجہ ۱۳۸۲ھ/۷؍ مئی ۱۹۶۳ ء میں اس کی شادی کرائی جس سے چار بچے پیدا ہوئے ہیں۔ عزیزہ میمونہ (تقریباً آٹھ سال کی عمر ہے اور یہ بڑی ہے)، عزیزم محمد فیاض، محمد ریاض اور عزیزہ عاتکہ جو شیر خوار ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت اور درازئ عمر کے ساتھ دین کا علم عطافرمائے۔ آمین ثم آمین۔
۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں حصہ
جب ۱۹۵۳ء میں پاکستان میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو بحمد اللہ تعالیٰ ہم دونوں بھائیوں نے اس میں بھرپور حصہ لیا اور بالآخر گرفتار کر لیے گئے۔ راقم پہلے گرفتار ہوا اور چند دن گوجرانوالہ کی جیل میں رکھنے کے بعد اسی سلسلہ کے قیدیوں کو نیوسنٹرل جیل ملتان منتقل کردیا گیا۔ تحریک ختم نبوت سے وابستہ حضرات چار اضلاع (گوجرانوالہ، سیالکوٹ، سرگودھا اور کیمل پور) کے وہاں جمع تھے اور جیل میں خوب تعلیم و تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ تقریباً نوماہ راقم جیل میں رہا اور سخت گرمی کے زمانہ میں جولائی کے مہینہ میں رمضان مبارک کے روزے ملتان جیل میں ہم نے رکھے اور ’’صرف ایک اسلام‘‘ کا مسودہ نیو سنٹرل جیل ملتان ہی میں تیار کیا گیا اور عزیزم عبد الحمید اور بعض دیگر دوست چونکہ دیر سے گرفتار کیے گئے تھے، اس لیے گوجرانوالہ کی جیل ہی میں رہے اور ہم سے کچھ عرصہ پہلے ہی رہا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اس عمل کو آخرت کی نجات کا ذریعہ بنائے اور سب مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت پر قائم ودائم رکھے، آمین۔
حج کی سعادت
اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے جہاں ہم پر اور بہت سی نوازشیں فرمائیں، وہاں یہ کرم بھی اس نے کیا کہ دونوں کو حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ عزیزم عبد الحمید تو شادی سے پہلے ہی حج کر آیا تھا اور راقم کو ۱۳۸۸ھ میں حج کی توفیق نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل وکرم سے اس حج کو حج مبرور کرے اور ہماری کوتاہیوں کے لیے اس کو ذریعہ کفارہ بنائے۔ بے شک ہمارے گناہ بھی بے حد ہیں، لیکن اس کی رحمت بے پایاں آخربے حساب ہے ۔
مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتادے حساب کرکے مجھے
نہایت ہی اختصار کے ساتھ اپنی فانی اور مستعار زندگی کے کچھ ضروری حالات لکھ دیے گئے۔ اللہ تعالیٰ بقیہ زندگی کو اپنی رضا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور دین کی خدمت میں گزارنے کی توفیق اور اس پر استقامت مرحمت فرمائے، آمین۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وعلیٰ اٰلہ واصحابہ وازواجہ وجمیع امتہ اٰمین یارب العالمین۔
احقر ابوالزاہد محمد سرفراز خطیب جامع گکھڑ
۵ رجب ۱۳۹۱ ھ /۲۷ اگست ۱۹۷۱ء