قرآن حکیم کی درس وتدریس سے وابستہ ہوجانے والے خوش قسمت افراد کے مقام ومرتبہ کا صحیح صحیح عملی اظہار تو دارالجزاء ہی میں ہوگا جب وہ الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن (شکرہے اس خدائے پاک کا جس نے ہر قسم کا غم ہم سے دور کردیا) کی تلاوت کرتے ہوئے۔ رحمت خداوندی کے سایہ میں، خراماں خراماں جنت کے درجات عالیہ کی طرف محو پرواز ہوں گے۔وہ کیسا دلنشین منظر ہوگا جب خدائے رحمن کی زبان سے ’’سلام قولا من رب رحیم‘‘ کے رسیلے الفاظ ان کے کانوں میں رس گھول رہے ہوں گے اور فرشتے قطار در قطار کھڑے ہو کر ان کو ’’سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین‘‘ کے الفاظ سے سلام پیش کر رہے ہوں گے۔ یہ وہی خوش قسمت لوگ ہیں جن کی زبان تلاوت کلام پاک سے تر رہتی ہے، جن کی سوچ قرآن حکیم کے بحر ذخار میں غوطہ زن ہوکر حکمت ودانش کے موتی چن کر امت میں تقسیم کرتی ہے اور گم کردہ راہ انسانیت کے لیے روشن راہوں کاتعین کرتی ہے، جن کے شب وروز کے اعمال قرآنی تعلیمات کے سانچے میں ڈھل کر آسمان ہدایت پر مہر تاباں بن کر چمکتے ہیں، جو زندہ جاوید لوگوں کی جماعت میں شامل ہو کر تادم واپسیں اپنے نقوش کا پتہ ان الفاظ میں بتا رہے ہوتے ہیں: ’’ لوگو! ہمارے انتقا ل کے بعد ہمیں قبروں میں مت تلاش کرنا، ہم علم کے دلوں میں بسیرا کریں گے‘‘ ۔
موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی
اسی باکمال قافلہ کے ایک راہ رو، سیدی واستاذی، امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ بھی تھے جو لاکھوں قلوب میں قرآنی علوم ومعارف کی شمع روشن کرتے ہوئے اسی قافلہ حق کے ساتھ جاملے۔ ذیل میں ہم اجمالاً حضرت شیخؒ کی ان خدمات جلیلہ کا ذکرنا چاہتے ہیں جو آپ زندگی بھر قرآن حکیم کی تعلیم اور نشر واشاعت کے سلسلہ میں انجام دیتے رہے۔
۱۔حفظ قرآن کے مکاتیب کے قیام کاایک عظیم سلسلہ
حضرت شیخؒ جولائی ۱۹۴۳ء میں گکھڑ تشریف لائے تو اس وقت یہاں کے لوگوں میں حفظ قرآ ن کاذوق بالکل نہ تھا، بلکہ معروف لہجے میں ناظرہ قرآن تلاوت کرنے والے بھی شاذونادر ہی تھے۔ اس وقت کی صورت حال حضرت شیخ ؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں :
’’جب میں ۱۹۴۳ء میں جامع مسجد اہل سنت والجماعت گکھڑ میں بحیثیت امام وخطیب آیاتو ا س وقت ہمیں رمضان میں نماز تراویح میں قرآن سنانے کے لیے اس علاقہ سے کوئی حافظ صاحب نہ ملے سکے، بلکہ میانوالی سے ایک حافظ صاحب تشریف لائے اور انہوں نے ہمیں قرآن کریم سنایا جبکہ آئندہ سال تو کافی کوشش اور تگ ودو کے بعد بھی قرآن سنانے کے لیے کوئی صاحب نہ مل سکے۔ جب ماہ مبارک کا چاند نظر آیا اور نماز تراویح کا وقت ہوا، میں نے مصلی امامت پر کھڑے ہو کر انتہائی دکھ کے ساتھ یہ الفاظ کہے: لوگو! آج رمضان المبارک کامہینہ شرو ع ہو چکا ہے، لیکن افسوس آج ہمارے درمیان نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے والا کوئی حافظ موجود نہیں ہے۔‘‘
یہ بات یاد رہے کہ حضرت شیخؒ خود قرآن کے حافظ نہ تھے۔ یہ قرآن کریم کے ساتھ آپ کے والہانہ تعلق اور شفقت کا نتیجہ تھا کہ آپ رمضان میں سامع کی حیثیت سے خود قرآن سنتے تھے اور تلاوت کے دوران جوغلطی آتی، بتلا دیتے۔ کیامجال کہ تلاوت قرآن میں کوئی غلطی گزر جائے اور آپ کو پتہ نہ چل سکے۔
حفظ قرآن سے بے پروائی اور بے اعتنائی کی اس افسوس ناک صورت حال نے آپ ؒ کوانتہائی پریشان کردیا، چنانچہ قرآن کے اس عاشق صادق نے جہالت کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں حفظ قرآن کے لیے قرآنی مکاتیب قائم کرنے کا عزم مصمم کیا۔ مسبب الاسباب نے سبب پیدا فرمایا اور اپنی کتاب مبین کی خدمت کے لیے ایک نومسلم باپ کے بیٹے، راہوالی گتہ فیکٹری کے مالک محترم محمدیوسف سیٹھی کو آپ کادست وبازو بنا کر مال واسباب کی دنیا میں پرورش پانے والوں پر اس حقیقت کو واضح فرمادیا کہ جب مالک حقیقی کس خوش قسمت سے، خواہ وہ تہی دامن ہی کیوں نہ ہو، خدمت دین لینے کافیصلہ فرمائیں تووہ اسباب خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔
ان المقادیر اذاساعدت
الحقت العاجز بالقادر
مختصر یہ کہ حضرت شیخ ؒ اورسیٹھی صاحب کی کوششوں سے ملک بھر میں ہزاروں دینی مکاتب ومدارس قائم ہوئے اور آج بحمداللہ گکھڑ، گوجرانوالہ اور گردونواح کے علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں حفاظ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں بزرگ ہستیوں کی خدمات جلیلہ کوشرف قبولیت عطا فرمائے۔ ان عشاق کے اسماے گرامی ان شاء اللہ تاقیامت خادمین قرآن کی فہرست میں مہر تاباں بن کر چمکتے رہیں گے۔ حضرت شیخؒ ضعف وپیرا نہ سالی میں بھی اس عظیم جدوجہد کا تذکرہ فرماتے تو بے ساختہ آپ کی زبان فیض ترجمان سے یہ شعر جاری ہو جاتا ۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یا دکر لینا چمن بھی جب بہارآئے
اس ضمن میں حفظ قرآن کے حوالے سے حضرت شیخ ؒ کی چار اہم نصائح کاذکرکرنا بھی مناسب دکھائی دیتا ہے۔ ان میں تین نصائح تو منتظمین مدرسہ اور اصحاب اہتمام سے متعلق ہیں جب کہ ایک نصیحت کاتعلق حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرنے والے طلبہ کرام سے متعلق ہے۔ یہ نصائح درج ذیل ہیں:
۱۔ پچا س سالہ تجربہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہر بچے (غبی وغیرہ) کو حفظ نہیں کروانا چاہیے۔ (اصحاب اہتمام اور اساتذہ کو اس نصیحت کی طرف توجہ دینی چاہیے، کیونکہ بعض بچے حفظ قرآن کے لیے سالہا سال لگاتے ہیں لیکن حفظ کیاہوا حصہ جلدی بھول جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کومکمل حفظ کروانے کی بجائے قرآن کاکچھ منتخب حصہ حفظ کروایادینابہتر ہے۔)
۲۔ اساتذہ سے میری درخواست ہے کہ ناگزیر صورت میں بھی بچے کومعمولی سے معمولی سزا دیں۔ بچے کوکبھی بھی بے تحاشا نہ ماریں۔ ایسا نہ ہو کہ بچے کومار مار کرلہو لہان کر دیں اور ماں بھی دوڑتی ہوئی آئے، باپ بھی دوڑتا ہوا آئے کہ ہم نے آپ کو کوئی بکر ا تو ذبح کرنے کے لیے نہیں دیا تھا، بلکہ بچہ پڑھنے کے لیے دیا تھا۔
۳۔ حفظ قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی فکری تربیت اور اخلاقی وعملی تربیت کی طرف بھر پور توجہ دیں۔ بہتر ہے کہ بچوں کو تعلیم الاسلام زبانی یا د کر وا دیں۔
۴۔ حفاظ بچوں سے میری درخواست ہے کہ بیٹو! اگر قرآن کو حفظ کرنامشکل ہے تو حفظ کر کے یاد رکھنا مشکل تر ہے۔ قرآن کریم کوبھول نہ جانا۔ ابوداؤد اور مسند احمد کی روایت ہے کہ جس نے قرآن کو یاد کیا اور پھر بھول گیا تو قیامت کے دن اس کو کوڑھی کر کے اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس انجام بد سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے۔ آمین۔
جامع مسجد بوہڑ والی گکھڑ میں درس قرآن و حدیث
برصغیرمیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے قابل فخر صاحبزادگان حضرت شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین ؒ اور ان کے جانشین اکابر علماے دیوبند ہمیشہ اس با ت کی کوشش فرماتے رہے کہ اس خطہ میں مسلمانوں کا قرآن کے ساتھ فہم وشعور کا تعلق قائم ہو جائے، کیوں کہ اس کے بغیر وہ کفر وضلالت کے حملوں اور گمراہ کن افکار ونظریات کی یلغار سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے علما ے ہند کو قرآن فہمی میں جو ذوق اورمقام عطافرمایا تھا، وہ محتاج بیان نہیں۔ اس ضمن میں حضرت شیخؒ ، حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی کایہ مقولہ اکثر سنایا کرتے تھے: نزل القرآن فی العرب وقرئ فی مصر وکتب فی استنبول وفہم فی الھند۔ قرآن عرب میں نازل ہوا ،مصرمیں نہایت خوبصورت آواز میں پڑھا گیا اور استنبول میں عمدہ کتابت اور جلدکے ساتھ شائع ہوا اور ہندوستان میں سمجھا گیا۔
حضرت شیخ بھی علماے ہند کے اسی قافلہ حق کے مسافر تھے۔ آپ نے عامۃالمسلمین کا قرآن کے ساتھ شعوری تعلق قائم کرنے کے لیے جو ان تھک اور مثالی جدوجہدسرانجام دی، وہ ہمیشہ راہ حق مسافروں کے جذبات کو جلا بخشتی رہے گی۔ آپؒ ۹؍جولائی ۱۹۴۳ء کو جا مع مسجد اہل سنت والجماعت بوہڑوالی میں، جو اب مرکزی جامع مسجد حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے نا م سے موسوم ہے، بحیثیت خطیب تشریف لائے تو اپنی آمد کے دوسرے روزہی ۱۰؍جولائی ۱۹۴۳ کو نماز فجر کے بعد درس قرآن کامبارک سلسلہ شروع فرما دیا جو ۲۰۰۱ تک تقریباً ۵۸سال جاری رہا۔ اس مبارک سلسلہ سے ہزاروں عامۃالمسلمین کے قلوب علوم قرآنیہ سے روشن ہوئے۔ ابتدا میں آپ کو انتہائی کٹھن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ علاقہ میں بدعات ورسومات عام تھیں۔ بقول آپؒ کے گکھڑ بدعت گڑ ھ تھا۔ لوگوں میں درس قرآن کی مبارک مجلس میں شرکت کاکوئی ذوق وشوق نہ تھا، لیکن آپ نے لوگوں کی بے رغبتی اور شرکا کی قلت وکثرت کی پروا کیے بغیر درس قرآن کے اس مبارک سلسلہ کو جاری رکھا۔
اس دور میں فہم قرآن سے عامۃ المسلمین کی بے توجہی کایہ واقعہ راقم الحروف نے آپ سے کئی مرتبہ سنا۔ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جب گکھڑ بوہڑ والی مسجد میں درس قرآن کا آغاز کیا تومیرے درس میں صرف ایک آدمی حکیم اللہ رکھا بیٹھتے تھے، لیکن میرے عزیزو! میں ہمیشہ درس قرآن کے لیے بھر پور تیاری کرتا، تقریباً درجن کے لگ بھگ عربی تفاسیر کا مطالعہ کرتا اور ان عربی تفاسیر کے علمی نکات کو آسان پیرایے میں بیان کرتا۔ ایک مرتبہ ایک بے تکلف دوست نے کہا، حضرت! جب کوئی سنتا ہی نہیں تو آپ اتنی مشقت وتکلیف کیوں برداشت کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی بھائی، میں اپنا فرض نبھا ر ہا ہوں۔ یہ جملہ ارشاد فرما کر آپ اکثر اوقات طلبہ اور شرکاے مجلس کو یہ شعر بھی سنایا کرتے تھے:
حق نے کرڈالی ہیں دوہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانابھی ہے
پھر آہستہ آہستہ حضرات وخواتین میں درس قرآن میں شرکت کاوہ جذبہ پیدا ہو اکہ شرکا کی تعداد تین سو کے لگ بھگ ہوگئی۔ آپؒ کی حقیقت شناس نگاہ میں درس قرآن کی اتنی عظمت ومحبت تھی کہ شرکاے دورۂ تفسیر وشرکاے دورۂ حدیث اور اہل علم کی دیگر خصوصی مجالس میں اکثر یہ نصیحت ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ
’’میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنی اپنی وسعت وطاقت کے مطا بق درس قرآن کامبارک سلسلہ ضرور شروع کردیں۔ جس مسلمان کا قرآن سے شعوری تعلق ہو جاتا ہے، دنیاکی کوئی باطل طاقت اس کو گمراہ نہیں کرسکتی۔ یقین جانیے، قرآن کی درس وتدریس بہت بڑی سعادت ہے۔ آپ کو ایک آدمی مل جائے، دو مل جائیں، تین مل جائیں، درس کا سلسلہ شروع کر دیجیے۔‘‘
یہ نصیحت ارشاد فرما کر اپنے استاد محترم مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ مرادآباد جیل میں اسارت کے دوران حضرت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارلعلوم دیوبند ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے اور دیکھا کہ حضرت مدنی جیل میں قیدیوں کو تعلیم الاسلام پڑھا رہے ہیں۔ حضرت قاری صاحب نے دل لگی اور ازراہ مزاح کہا، حضرت آپ نے تو خوب ترقی کی ہے کہ بخاری شریف پڑھاتے پڑھاتے تعلیم الاسلام پڑھانی شروع کر دی ہے۔ حضرت مدنیؒ نے جواب دیا، ’’بھائی! کام جوپڑھانا ہوا۔ دار العلوم دیوبند میں بخاری وترمذی پڑھنے والے تھے، ان کو بخاری وترمذی پڑھاتا تھا اور یہاں مرادآباد جیل میں تعلیم الاسلام پڑھنے والے ہیں، چنانچہ ان کو تعلیم الاسلام پڑھا تا ہوں۔‘‘
اہل علم کو اس مبارک سلسلہ کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپ عامۃ المسلمین کوان مبارک مجالس میں شرکت کی بھرپور تلقین فرماتے۔ اس ضمن میں حضرت شیخؒ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’محترم سامعین! ابن ماجہ کے حوالہ سے یہ حدیث مبارکہ آپ کئی مرتبہ سن چکے ہیں کہ بغیر ترجمہ کے قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ سیکھنے کا ثواب سوررکعت نماز نفل سے بڑھ کر ہے اور ایک آیت کریمہ وترجمہ وتفسیر کے ساتھ سیکھنا، اس کا ثوا ب ہزار رکعت نماز نفل سے زیاد ہ ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ ترجمہ سیکھنا صرف علما ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے، چاہے مرد ہوں چاہے عورتیں۔ اب تو بحمداللہ گکھڑ میں بھی ۷؍۸ادارے خواتین کی دینی تعلیم کے قائم ہو چکے ہیں۔ ان میں پڑھنے پڑھانے والی معلمات سالہا سال میرے پاس پڑھتی رہیں ہیں۔‘‘
حضرت شیخؒ نے صبح کے عمومی درس میں تقریباً دس گیارہ مرتبہ قرآن مکمل فرمایا۔ آپ نے درس کا آغاز توقرآن سے کیا، لیکن بعد میں ہفتہ کے تین دن حدیث مبارکہ کے لیے مخصوص فرما دیے۔ اس سلسلہ میں درس قرآن کی تکمیل کے ایک مبارک موقع پر حضرت کے ارشاد فرمائے ہوئے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’میں پاکستان بننے سے پانچ سال قبل ۹؍جولائی ۱۹۴۳ میں گکھڑ آیا اور ۱۰ ؍جولائی کو میں نے قرآن کا درس شروع کیا۔ ہفتہ میں تین دن قرآن کادرس ہوتا رہا اور تین دن حدیث کا درس ہوتا رہا۔ الحمدللہ درس سننے والوں نے صحاح ستہ کے علاوہ مستدرک حاکم کی چار جلدیں، ابوداؤد طیالسی، الادب المفرد، الترغیب والترہیب، موارد الظمآن اور الجامع الصغیر دروس میں مرحلہ وار سنی ہیں۔ میں ان کتب کے الفاظ بھی باقاعدہ پڑھتا رہا ہوں تاکہ آپ کے کان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادا ت کے ساتھ مانوس ہو جائیں۔ میرے خیال میںآج دسویں مرتبہ قرآن مکمل ہوا ہے۔ اگر قرآن کے درس کے ساتھ حدیث کادرس نہ ہوتا تو غالباً بہت زیادہ مرتبہ قرآن مکمل ہو چکا ہوتا۔‘‘
غالباً ۲۰۰۱ء میں موسم سرما کی ایک شام کو راقم الحروف کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہواکہ صبح حضرت استاذ محترم کے درس میں شرکت کی سعادت حاصل کی جائے۔ میں یہ جذبہ لیے اپنے گاؤں سے روانہ ہوا اور نماز فجرباجماعت حضرت استاد محترم کے ساتھ ادا کی۔ لوگ تپائیاں لے کر آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ آپ نے نماز فجر کے بعدحدیث کادرس شروع کیا۔ آپ عام فہم انداز میں حدیث کی دل نشین تشریح فرمارہے تھے کہ دوران درس اچانک ہی آپ نے عوامی اندازبیان بدلااور محققانہ وعالمانہ انداز میں علم وعرفان کے موتی بکھیرنے لگے۔ ہر بات باحوالہ، کتاب کے نام، جلد نمبر اور صفحہ نمبر کے ساتھ بیان فرماتے۔ راقم یوں محسو س کررہا تھا جیسے کتب حدیث کے ایک عظیم ذخیرہ سے مزین لائبریری میں بیٹھا ہو۔ حضرت الاستاد اس حدیث کاعملی نمونہ نظر آرہے تھے: نضر اللہ امرا سمع منا حدیثا فحفظہ واداہ کما سمع۔ درس حدیث کے اختتام پرحضرت کے ارشاد فرمودہ الفاظ آج تک مجھے یاد ہیں۔ فرمایا:
’’محترم سامعین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں نے یہ محققانہ انداز بیان کیوں اختیار کیا ہے۔ اصل میں کبھی کبھار درس میں کئی علما شریک ہو جاتے ہیں۔ میں یہ انداز بیان ان کے علمی ذوق وجستجو کو بڑھانے کے لیے اختیار کرتا ہوں۔‘‘
اللہ اکبر! یہ حضرت شیخؒ کی شفقت تھی کہ مجھ جیسے علم وعمل سے تہی دامن طالب علم کے لیے یہ محققانہ عالمانہ انداز بیان اختیار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ کی علمی جستجو، تحقیق وتالیف، درس وتدریس اور پاکیزہ صفات میں سے اپنی شان کے مطابق حصہ عطا فرمائیں، آمین۔
حضرت امام اہل سنت صبح کے درس قرآن میں جن امور کا بطور خاص خیال فرماتے تھے، راقم مناسب خیا ل کرتا ہے کہ ان میں سے چند امور کا یہاں ذکر کر دیا جائے۔
۱۔ حاضرین کی ذہنی وعلمی سطح کے مطابق انداز بیان
آپ کے درس میں شریک ہونے والے حضرات وخواتین کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز تھی۔ خواتین کے لیے علیحدہ باپردہ انتظام تھا۔ آپ ہمیشہ سامعین کی ذہنی علمی وسطح کو سامنے رکھتے ہوئے اتنا آسان اور سہل انداز اختیار فرماتے کہ قرآن کی مجمل ومتشابہ آیات کی تفسیر اورمشکل مقامات بآسانی سمجھ آجاتے۔ آپ کے دروس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کے اس مشہور جملہ کی عملی تصویر نظر آئیں گے کہ کلموا الناس علی قدر عقولہم، لوگوں سے ان کی عقل کے مطا بق گفتگوکرو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخؒ کے گکھڑ کے عمومی ماحو ل کو سامنے رکھتے ہوئے صبح کا درس اور خطبہ جمعہ پنجابی زبان میں ارشاد فرمایاکرتے تھے۔ آپ پٹھان ہونے کے باوجود پنجابی روانی اور مسلسل سے بولتے تھے ۔ خودارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں نے پنجابی کتب کا مطالعہ اورمشق سے پنجابی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر لی ہے کہ ناواقف شخص پہچان نہیں سکتاکہ میں پنجابی ہوں یاپٹھان۔ میں نے پنجابی ادب کی ایسی مشکل ترین کتابوں کا مطالعہ کیاہے جو اکثر پنجابیوں کی بھی سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘ بحمداللہ آپ کے پنجابی زبان میں ارشاد فرمائے ہوئے دروس اردوزبان میں ’’ذخیرۃ الجنان فی فہم القرآن‘‘ کے نام سے مرحلہ وار زیور طبع سے آرا ستہ ہو رہے ہیں اور اس کی آٹھ جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں، گودروس میں بطور حوالہ ارشاد فرمائی ہوئی اکثر آیات مبارکہ، احادیث مبارکہ، فقہی وتاریخی کتب کے حوالہ جات کی تخریج اور پروف کی اغلاط کی تصحیح کاکام باقی ہے جو امید ہے کہ ان شاء اللہ آئندہ مراحل میں مکمل کر لیاجائے گا۔ اسی طرح آپ کے جمعۃ المبارک کے خطبات تین جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں، لیکن اس میں بھی پروف ریڈنگ کی فاش غلطیاں ہیں۔ خاص طور پر قرآن کی آیات اور احادیث کے نقل کرنے میں جو غلطیاں ہوئی ہیں، ان کی تصحیح بہت ضروری ہے۔
۲۔ عقائد واعمال کی اصلاح
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فوزوفلاح کا مدار عقائد واعمال کی اصلاح پر موقوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ کے درس میں شرکت فرمانے والے اکثر حضرات وخواتین کی گفتار وکردار میں اسلامی عقائد واعمال کی وہ مثالی اور قابل رشک پختگی اور صلابت جھلکتی ہے جس سے بخوبی معلوم ہو سکتاہے کہ آپ نے اس پیغام کوان کے دل ودماغ میں راسخ کرنے کے لیے کتنی کوششیں صرف فرمائی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کواپنی شایان شان اجر جزیل عطا فرمائے۔ آپ توحید باری تعالیٰ کو قرآ ن وسنت کے ٹھوس دلائل کی روشنی میں اس خوبصورت انداز سے بیان فرماتے کہ شرک وبدعت کے تمام اندھیرے دل ودماغ سے چھٹ جاتے اور سامعین خود کو توحید کی روشنی میں ’باب جنت‘‘ کی طرف محو پرواز دیکھتے۔ عقیدۂ توحید باری کی مٹھاس کے متعلق آپ کا یہ ملفوظ ہمیشہ اہل ایمان کے قلوب کو جلا بخشتا رہے گا کہ ’’عقیدۂ توحید کڑوا ضرور ہے، مگر سمجھ میں آجائے تو اس سے میٹھی چیز کوئی نہیں۔‘‘ اس مقدس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر آپ نے گلدستہ توحید، تبرید النواظر فی تحقیق الحاضر والناظر، تحقیق مسئلہ مختارکل اور دل کاسرور جیسی کتب تصنیف فرما کر آئندہ نسلوں پر احسان عظیم فرمایا ہے۔
آپ عقائد اسلام کے تعارف کے ضمن میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت س انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ عقیدہ حاضرین کے قلوب میں رچ بس جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ذخیرۃالجنا ن فی فہم القرآن‘‘ کی ہر جلد میں تقریباً کئی کئی مقامات پر اس عقیدہ کا تعارف کروایا گیا ہے اور اس عقیدہ پر ڈاکہ والے مرزا غلام احمدقادیانی اوراس کے پیروکاروں کے کفریہ عقائد ونظریات پرکاری ضرب لگائی گئی ہے۔ اس عقیدہ کے تحفظ کے لیے آپ نے زندانوں کو بھی آباد کیا اور کردار یوسفی کو زندہ کرتے ہوئے اپنے عمل سے استقامت کایہ پاکیزہ درس دیا۔
آپ عقائدکی تصحیح کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کی بھی بھر پور ترغیب ارشاد فرماتے۔ یہ ترغیب صرف زبانی نہیں ہوتی تھی بلکہ عملی طور پر حاضرین وسامعین کے قلوب واذہان پر نقش کرنے کی کوشش فرماتے۔ آپ کا روشن کردار اعمال صالحہ کی عملی تصویر بن کراکابر واسلاف کی تابندہ روایات کی یاد دلاتاہے اور تشنگان رشد وہدایت کے قلوب کو جلابخشتا ہے۔ آپ کی پاکیزہ گفتار وکردار سے ہزاروں بندگان خدا کے کردار اعمال صالحہ کے عملی نمونہ بن گئے۔
آپ کے درس قرآن میں تیس سال تک شرکت فرمانے والے ایک ضعیف العمر بزرگ محترم جاوید اقبال بٹ (جو کئی ماہ سے راقم الحروف کے پیچھے جامع مسجد سیدابو ایوب انصاریؓ سرفراز کالونی گوجرانوالہ میں نماز جمعہ ادا فرماتے ہیں) سے راقم الحروف نے آپ کے درس کی نمایاں خصوصیت کے بارے میں جاننا چاہا تو موصوف میرا سوال سن کر کوئی جواب ارشاد فرمانا چاہتے تھے، لیکن جواب سے پہلے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور وہ یوں مسلسل روئے جا رہے تھے جیسے ایک بچہ اپنے ماں باپ کے شفقت بھرے لمحات یاد کر کے روتا ہے۔ راقم مسجدمیں کھڑا ان کو تسلی بھی دے رہاتھا اور سوچ رہاتھا کہ یہ آنسو حضرت استاد محترم ؒ کے اہم پیغام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں: ’’میرے عزیزو! الحمدللہ ہم نے اپنے اکابر واسلاف کا قرض چکا دیا۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس امانت کا تحفظ کرو۔‘‘ جب یہ بزرگ خاموش ہوئے تومختصر جملہ میں درج ذیل جواب ارشاد فرمایا کہ ’’میں الحمدللہ تقریباً ۳۰ برس صبح کے درس میں حضرت اور حاضرین کے سامنے لکڑی کی تپائیاں اور قرآن کریم کے نسخے رکھنے والوں میں شریک رہا۔ مجھے اور میرے خاندان کواللہ تعالیٰ نے حضرت شیخؒ کے قدموں سے وابستہ فرما کر ہدایت کی دولت سے مالا مال فرمایا۔‘‘
۳۔ بدعات اور رسم ورواج پر کاری ضرب
حضرت شیخؒ اپنے دروس میں شرک وبدعت اوررسم ورواج پر ضرب کاری لگاتے تھے۔ جب حضرت جولائی ۱۹۴۳ء میں گکھڑ تشریف لائے توگکھڑ اور گردونواح میں شرک وبدعات اورجاہلانہ رسوم ورواج عام تھیں۔ آپ اپنی خودنوشت میں خود فرماتے ہیں:
’’مجھ سے پہلے گکھڑ میں حضرت مولانا علیم الدین جالندھریؒ فاضل دیوبند خطیب تھے۔ موصوف کی طبیعت بہت نرم تھی، اس لیے گکھڑ جسے بدعات گڑھ میں ان سے شرک وبدعت کے طوفان کامقابلہ پوری طرح نہ ہوسکا۔ البتہ ان سے پہلے حضرت مولانامحمود الحسن جالندھری نے خاصا کام کیا۔‘‘
حضرت شیخؒ قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں شرک وبدعت کی بھرپور تردید فرماتے تھے۔ شرک وبدعت اور رسوم ورواج کے ایوانوں میں ہمیشہ آپ کے نام سے زلزلہ برپا رہا۔ آ پ لوگوں کو توحید وسنت کا جام بھر بھر کر پلاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ گکھڑ جو بدعت گڑھ تھا، توحید وسنت کے نورسے جگمگاا ٹھا۔ حضرت شیخ ؒ اپنے الفاظ میں اس کا نقشہ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’راقم الحروف ۹ جولائی ۱۹۴۳ء کو گکھڑ پہچا اور اگلے ہی دن درس قرآن شروع کردیا اور جمعہ پڑھانے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی، لیکن ابتدائی دور شدید مخالفت کے باوجودصبر آزما گزرا۔ اللہ تعالیٰ کے کرم وفضل سے پائے استقامت میں ذرہ بھر بھی فرق نہ آیا۔‘‘
۴۔ داعیانہ اور ناصحانہ انداز بیان
حضرت شیخ ؒ کے دروس کا ایک نمایاں اورممتاز وصف جس نے ہزاروں لوگوں کے دل موہ لیے، داعیانہ اور ناصحانہ انداز بیان اور انی لکم ناصح امین کی عملی تصویر تھا۔ آپ اپنے تمام متعلقین کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے موقف میں لچک اور نرمی نہیں ہونی چاہیے، لیکن انداز گفتگو میں ہمیشہ نرمی ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں آپ کسی مخالف کی تلخ کلامی اوردل آزار گفتگو پر ناراض ہونے کی بجائے ہمیشہ تحمل، بردباری اور خیر خواہی کا رویہ اختیار فرماتے۔ حضرت شیخ کے طرز سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ تلخ وترش انداز تکلم سے متاثر ہوکر جذبات کی رو میں بہہ جانا انبیاے کرام علیہم السلام اور وارثان انبیا کا شیوہ نہیں ہے۔ آج ہم اپنے دروس اور تقاریر میں یہی داعیانہ اور ناصحانہ انداز گفتگو اختیار کریں تو یقیناًہماری گفتگو میں انبیا کے انداز تکلم کا نور چمکے گا جو ان شاء اللہ ہماری اور سامعین کی رشد وہدایت کا سبب بنے گا۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے کیا خوب فرمایا کہ حق بات حق طریقے پر اور حق کی نیت سے کہی جائے تو یقیناًاثر اند از ہوتی ہے۔ حضرت شیخؒ اسی داعیانہ اور ناصحانہ انداز بیان کی ضرورت واہمیت کے متعلق بیان فرماتے ہوئے قرآن کی اس آیت سے عموماً استشہاد فرماتے: فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی۔ (اسے نرم بات کہنا ، شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا ڈر جائے۔) اس آیت کی تلاوت کے بعد ارشاد فرماتے:
’’غور فرمائیے، اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ؑ کو فرعون جیسے متکبراور خدائی کا دعویٰ کرنے والے سرکش آدمی کے پاس پیغام ہدایت پہنچانے کے لیے بھیجا تو یہی نصیحت فرمائی کہ اس کے ساتھ نرم لہجہ میں گفتگو کرنا۔ کہیں تمہارا سخت اور ترش لہجہ اس کے لیے قبول حق میں رکاوٹ نہ بنے۔ آپ خود سوچیں کہ کیا ہم میں سے کوئی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے مقام تک پہنچنے کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ اور ہمارا مخاطب خاص طور پر مسلمان خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، ضلالت وگمراہی میں فرعون کے درجے کونہیں پہنچ سکتا تو ہمارے لیے کیسے روا ا ورجائز ہے کہ ہم پیغام رشد وہدایت پہنچانے کے لیے تندوتیز اورترش وتلخ لہجہ اختیار کریں؟‘‘
داعیانہ اورناصحانہ انداز بیان سے گفتگو کی اہمیت وافادیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اس انداز کی جھلک آپؒ کے دروس میں جا بجا نظر آتی ہے۔
۵۔ فرق باطلہ کا تعارف
آج کے پرفتن دور میں جب باطل فرقے بر سات کے مینڈکوں کی طرح عام ہیں اوروہ مختلف آوازیں نکال کر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان واعمال پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں تو اہل علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ عامۃالمسلمین کے عقائد وایمان کی حفاظت کے لیے ان کو فرق باطلہ کے فکری پس منظر، عقائد ونظریات کے تعارف، ان کے اہداف اور اس سلسلہ میں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔ حضرت شیخؒ اس ذمہ داری سے بخوبی آگاہ تھے اور موقع محل کے مطابق وہ شرکاے درس کو باطل فرقوں کی ضلالت وگمراہی سے آگاہ کرتے اور راہ ہدایت کو دلائل وبراہین کی روشنی میں واضح فرماتے۔ اس سلسلہ میں حضر ت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’پاکستان میں بہت سے باطل فرقے ہیں۔ ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی، رافضی، آغاخانی، قادیانی، بہائی، ذکری وغیرہ۔ آپ کسی سے پو چھ کر دیکھ لیں، وہ یہی کہے گا کہ ہم راہ حق پر ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں، صحیح کر رہے ہیں۔ آپ ضابطہ یاد رکھیں۔ جو شخص یا جماعت قرآن وسنت سے ہٹ گئی، اجماع امت سے ہٹ گئی، وہ گمراہی کی وادیوں میں داخل ہو چکی۔ ہدایت قرآن کریم، حدیث مبارکہ اور اجماع امت میں ہے۔ ائمہ دین، فقہاے کرام، محدثین عظام کی تعلیمات سے الگ ہو کر کوئی دین سمجھنا چاہے تو میںیہی عرض کروں گا: ایں خیال است ومحال است وجنون۔ ان بزرگوں نے دین کو سمجھا اوراس پر عمل کیا۔ ان کو چھوڑ کر کوئی دین کونہیں سمجھ سکتا۔‘‘
۶۔ سلوک وتصوف
سلوک وتصوف کا مقصد حقیقی تزکیہ نفس اور باطن کہ اصلاح ہے۔ اما م غزالی سے لے کر مولانا عبدالماجد دریا بادی تک جب بھی کسی پر عقل وخرد کا غلبہ ہواتو اسے خود کو سنبھالنے، تہافت سے بچانے اورتکمیل ذات کے لیے معرفت وسلوک کاسہارا لینا پڑا۔
فلسفی سر حقیقت نتوانست کشود
گشت رازے دگر آں راز کہ افشانی کرد
لیکن بعض نادان لوگوں نے اس سلسلہ میں افراط وتفریط سے کام لیا ہے۔ بعض نے تو اسے غیر ضروری بلکہ دینی اعتبار سے نقصان دہ خیال کرتے ہوئے کلیتاً رد کر دیا جب کہ بعض نے سلوک وتصوف کا سہارا لیتے ہوئے جاہلانہ من گھڑت قصص وواقعات اور بدعات ورسومات کو دین کادرجہ دے دیا۔ حضرت شیخؒ شریعت وطریقت دونوں کو لازم وملزوم سمجھتے ہوئے اپنے دروس میں سلوک وتصوف کامقام اور تزکیہ نفس کی اہمیت پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالنے تھے اور فرمایا کرتے تھے:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں سے دوسرا فرض منصبی ویزکیکم (اور تمہیں پاک کرتے ہیں) ہے۔ تزکیہ حقیقتاً تو رب تعالیٰ کا کام ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذریعہ ہیں۔ آپ کی پاکیزہ تعلیمات، آپ کے اخلاق حسنہ، آپ کا اعلیٰ کردار لوگوں کے دلوں میں صفائی کا ذریعہ بنا۔‘‘
دلوں کی پاکیزگی بہت ضروری ہے۔ بزرگان دین میں بیعت اور پیریدی مریدی کایہی مقصد ہے کہ دل صاف ہو جائیں۔ دل صاف ہو جائیں تو بہت کچھ حاصل ہو جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ؒ اپنے اکابر کے تصوف وسلوک سے وابستگی کوان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے:
’’ہم نے اپنے اکابر کوا س حال میں دیکھا کہ ان میں ہر ایک باطنی اصلاح اور تزکیہ نفس کے فکرمیں لگا رہتا، جبکہ ان میں بعض تو شیخ طریقت کے منصب پر فائز تھے جبکہ بعض دوسروں کے دست حق پر ست پر بیعت تھے۔ بہرحال اس سلسلہ سے ہر ایک وابستہ تھا۔‘‘
۷۔ معاملات ومعاشرت
معاملات ومعاشرت کی درستی اور اصلاح آپ ؒ کے دروس کاایک نمایاں اورممتاز وصف تھا۔ آپ ؒ معاملات کی درستی اور اصلاح کی بڑی تاکید فرماتے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت ؒ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’یادرکھیے، دین اسلام میں حقوق العباد کی ادائیگی کی بڑی اہمیت ہے- جب تک صاحب حق معاف نہیں کرے گا، رب تعالیٰ بھی معاف نہیں کریں گے۔ حق باپ کا ہو، بھائی کا ہو، چچا کاہو، پھوپھی کا ہو، بہن کاہو یاکسی اور کا، خوب یاد رکھیے حق کی معافی نہیں ہے۔ قرضہ بھی حق ہے۔ ایک سوئی بھی کسی کے ذمہ ہے تو وہ بھی بڑی بھاری ہے۔ میں معاملات ومعاشرت کی اصلاح کے ضمن میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی غنیۃ الطالبین کے حوالہ سے یہ واقعہ کئی مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ ایک نیک پرہیزگار آدمی کا انتقال ہو گیا۔ وفات کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیامعاملہ ہوا ہے۔ فرمایا، مجھے سزا تو نہیں ہوئی، لیکن جنت کے دروازے کے اندر داخلہ ممنوع ہے۔ مجھے ممانعت کی یہ وجہ بتلائی گئی ہے کہ تو نے ہمسایے سے کپڑا سینے کے لیے سوئی مانگی تھی، وہ واپس نہیں کی۔ جب تک وہ سوئی نہیں تیرے ورثا واپس نہیں کریں گے، تو جنت میں نہیں جا سکتا۔ اندازہ لگاؤ کسی کے حق کا، سوئی کتنی بھاری ہے اور یہا ں تولوگ دوسروں کی مشینیں، کارخانے، دوکانیں اور مکان غائب کر دیتے ہیں اور کوئی پروا نہیں کرتے۔‘‘
درج بالا صفحات میں آپ نے ان اہم نکات کا مطالعہ کیاجن کاحضرت شیخؒ اپنے دروس میں بطور خاص خیال کرتے تھے۔ آپ کے ۵۸سال پرمحیط درس قرآن نے سیکڑوں، ہزاروں دلوں میں شمع قرآنی کو فروزاں کیا اور آج بحمد اللہ آپ کے ہزاروں تلامذہ روزانہ اپنے اپنے دائرۂ کا ر میں درس قرآن ارشاد فرما کر آپ کے اس فیض کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گورنمنٹ ایلمنٹری کالج آف ٹیچرز میں در س قرآن
گکھڑ منڈی میں زیر تربیت اساتذہ کے لیے عرصہ دراز سے ایک ٹیچرز ٹریننگ کالج قائم ہے جس کانا م پہلے گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تھا جب کہ بعد میں اس کا نا م تبدیل کر کے گورنمنٹ ایلمنٹری کالج آف دی ٹیچرز رکھا گیا جس میں ایس وی، اوٹی، سی ٹی، پٹی سی اور بی ایڈ وغیرہ کلاسز ہوتی ہیں۔ ان کلاسز میں شریک زیرتربیت اساتذہ کے لیے کالج کے پرنسپل ملک عبدالحمید صاحبؒ نے اپنے دینی ذوق اورقرآن کی تعلیم سے محبت اورلگاؤ کی وجہ سے مستقل درس قرآن کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے ان کی نظر انتخا ب حضرت شیخ پرپڑی۔ چنانچہ ان کی دعوت اور پر خلوص تحریک پر آپ نے زیرتربیت اساتذہ کے لیے کالج میں درس قرآن کامبارک سلسلہ شروع کیا۔ اگرچہ اس عظیم نیک عمل کا آغاز اللہ تعالیٰ نے ملک صاحب کی قسمت میں لکھا تھا، تاہم آپ کے عالمانہ طرزبیان اور محققانہ طرز استدلال کی وجہ سے اس درس قرآن نے خوب شہرت پائی اور اس شہرت کی وجہ سے ملک صاحب کے بعد بھی درس کایہ سلسلہ مستقل چالیس سال جاری رہا۔ اگرچہ بعض متعصب پرنسپل صاحبان نے محض مسلکی اختلاف کی بنیادپر اپنے انتظامی دور میں اس سلسلہ در س کور وکنے کی کوشش بھی کی، لیکن وہ اپنے مقصدمیں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس درس قرآن کے سلسلہ میں جن پرنسپل صاحبان نے پوری کوشش کی، ان میں ملک عبدالحمید، میاں عمران الدین اور میاں منیرا حمد کے نام نمایاں ہیں۔
اس کالج میں زیر تربیت اساتذہ فراغت کے بعد ملازمت کے سلسلہ میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں پھیل جاتے ہیں، اس لیے ملک بھرکے جن تعلیمی اداروں میں بھی اس درس قرآن میں شریک ہونے والے اساتذہ پہنچے، وہیں ان کے ذریعے ہزاروں لاکھوں طلبہ تک قرآن حکیم کاپیغام بھی پہنچا۔ جدید علمی حلقوں میں اس درس قرآن کو بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس علمی شہرت کی بنا پر کالج کے ایک پرنسپل مرزا نثار صاحب نے محض مسلکی اختلاف کی بنا پر اس سلسلہ کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ حالانکہ حضرت درس میں اختلافی مسائل پر معاندانہ رویہ ہرگز اختیار نہ فرماتے تھے، بلکہ قرآن کا حقیقی پیغام، پیغام رشدوہدایت،سامعین تک پہنچانے کی کوشش فرماتے تھے۔ چالیس سال کے عرصہ کو محیط یہ مبارک سلسلہ قرآن حکیم کی تعلیمات سے آپ کے والہانہ شغف اور لگاؤ کانتیجہ ہی تھا۔ کوئی دنیاوی مفادآپ کے پیش نظر ہر گزنہ تھا۔ درس قرآن ے ابتدائی دور میں آ پ کو کالج کی طرف سے پندرہ روپے وظیفہ ملتاتھا اور ۱۹۹۳ء تک یہ وظیفہ پچاس روپے سے زیادہ نہ ہواا ور آخری سالوں میں یہ بھی بند کر دیا گیا، لیکن آپ کے پیش نظر تو صرف اور صرف قرآن کاپیغام نسل نو تک پہنچا نا تھا۔ آپ اس حقیقت سے بخوبی آشناتھے کہ اس ادارہ میں زیرتربیت اساتذہ کے ذریعے وہ اپنا پیغام نسل نوتک پہنچا سکتے ہیں۔ کالج آپ کی رہائش سے تقریباً ایک میل دور ہے۔ آپ چالیس سال تک روزانہ پیدل موسم گرما میں عصر کے بعد اور موسم سرما میں عشا کے بعد درس قرآن کے لیے تشریف لے جاتے۔ درس کے لیے ایک میل پیدل جانا اورایک میل پیدل واپس آنا آپ کے اخلاص وللہیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بارگاہ ایزدی سے اس عظیم خداوندی کی سرفراز ی پر آپ ہمیشہ اظہار تشکر کرتے اور اہل علم کے جذبہ کو مہمیز کرنے کے لیے اس نعمت کااظہار ان الفاظ میں فرماتے:
’’میں نے بحمداللہ تعالیٰ گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گکھڑ میں زیرتربیت اساتذہ کو پورے چالیس سال قرآن کریم کادرس دیاہے۔ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے ہزاروں اساتذہ نے اس درس سے استفادہ کیا۔ درس میں شریک ہونے والوں کی تعداد چار سے پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی تھی۔ زیر تربیت اساتذہ کے علاوہ پرنسپل اور پروفیسر حضرات بھی درس میں موجود ہوتے تھے ۔ درس قرآن کی یہ عظیم نعمت محض اللہ تبارک کا فضل واحسان ہے۔‘‘
آپ درس قرآن کے شرکا کی علمی وذہنی سطح کے مطا بق قرآن کاآفاقی پیغام ان تک پہنچانے کی کوشش فرماتے۔ درس کے شرکا کے علمی سوالات کے جوابات ارشاد فرماتے، عقائد واعمال کی اصلاح کی بھر پور کوشش فرماتے، اور ذہنوں میں ابھرنے والے شکوک وشبہات رفع فرما کر ان کو ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال کرنے کی کوشش کرتے۔ اس ضمن میں قرآن کی ایک آیت کے حوالہ سے ذہن میں ابھرنے والا ایک شبہ اوراس کا جواب حضرت شیخ ؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’ایک روز گورنمنٹ کالج گکھڑ میں درس قرآن میں میں نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت تلاوت کی۔ ولاتہنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ ( نہ تم سستی دکھانا اور نہ ہی غمزدہ ہونا اور اگر فی الواقع تم ایمان والے ہوئے توتم ہی غالب رہو گے۔ تلاوت وترجمہ کے بعد مختصر تفسیر بھی بیان کی۔ درس کے بعد ایک پروفیسر صاحب مجھ سے پوچھنے لگے حضرت ! کیا ہم ایمان والے نہیں ہیں ؟اگر ہم ایمان والے ہیں تو پھر آیت کریمہ میں مذکورہ سربلندی وکامیابی ہم سے کوسوں دور کیوں ہے؟ میں نے پروفیسر صاحب کی خدمت میں عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے سربلندی اور کامیابی کے لیے ایمان کے اقرار کے ساتھ جن چیزوں کو لازم قرا ر دیا ہے، ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ان کا ذکر قرآن کے مختلف مقامات پر ہے۔ ان میں پہلی چیز اتفاق واتحاد ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کا حکم ان الفاظ میں ارشاد فرماتے ہیں: واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا ( اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بندی نہ کرو)۔ اتفاق واتحاد کے بغیر کامیابی وسربلندی کا تصور بھی ممکن نہیں، چنانچہ اتفاق واتحاد بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دوسری چیز زمانہ کی ضرورت کے مطابق اسلحہ اور ہتھیار مہیا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا حکم بھی قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں: واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ وعدوکم۔ (جہاں تک ممکن ہو سکے، اپنے دشمنوں کے مقابلہ کے لیے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو۔) کامیابی کے لیے تیسری چیز میدان جنگ میں بہادری اور مردانہ وار دشمن سے لڑنا ہے جس کاحکم اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال میں ارشاد فرمایاہے۔ حدیث مبارکہ میں میدان جنگ سے بھاگ جانے اور پیٹھ دکھانے کو کبیرہ گناہ شمار کیاگیا ہے۔ کامیابی کے لیے چوتھی چیز اہم امور میں مشاور ت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا حکم ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں: وامرھم شوری بینہم (مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں) پانچویں چیز اولی الامر کی اطاعت ہے جس کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ مذکورہے: یایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم ( اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کر و اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں)۔ عالم اسباب میں ہم ان چیزوں پر عمل کریں گے تو کامیابی ہوگی۔ آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہ چیزیں ہمارے ایمان میں شامل ہیں؟ پروفیسر صاحب میری گفتگو سن کر بولے، حضرت! آپ کو قرآن فہمی مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کوجزاے خیر دے۔ اب یہ حقیقت مجھ پر واضح ہو گئی ہے کہ کامیابی کے لیے دعواے ایمان کے ساتھ اس کے تقاضوں پرعمل کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘
درج بالاواقعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پروردگار نے آپ کو قرآ ن فہمی کی دولت کے ساتھ ساتھ مخاطب کی نفسیات اور ذہنی سطح کے مطابق قرآن کی دعوت کے ابلاغ کا سلیقہ بھی عطا فرمایا تھا۔ اسی نوع کا ایک اورواقعہ حضرت شیخؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’گورنمنٹ کالج گکھڑ میں سورۃ عنکبوت کی درج ذیل آیت کے متعلق درس ہو رہا تھا: فاقم وجہک للدین حنیفا، فطرت اللہ التی فطرالناس علیہا، لا تبدیل لکلمات اللہ، ذلک الدین القیم، ولکن اکثرالناس لا یعلمون ( اے نبی کریم! یکسو ہو کر دین کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ یہی فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پید اکیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خلقت میں کوئی رد وبدل نہیں ہو سکتا۔ دین قیم یہی ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)۔ جن دنوں اس آیت کے متعلق درس ہو رہا تھا، ان دنوں اخبارات میں جنس کی تبدیلی کے متعلق مختلف مضامین شائع ہو رہے تھے کہ فلاں جگہ لڑکی کی جنس بد ل گئی اور وہ لڑکا بن گئی۔ درس کے بعد ایک پروفیسر صاحب نے کہا کہ حضرت مولانا! آپ فرما رہے ہیں: لا تبدیل لخلق اللہ، اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی ردوبدل نہیں ہو سکتا، حالانکہ فلاں جگہ لڑکی کی خلقت اور جنس بد ل گئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ آیت کے سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اس قرآنی جملہ میں خلقت سے مراد فطرت ہے جس کا ذکر ماقبل جملہ میں ہے: فطرت اللہ التی فطرالناس علیہا، اور پھر فطرت سے مراد دین ہے جس کا ذکر مابعد جملہ میں ہے: ذلک الدین القیم (دین قیم یہی ہے)۔ اسی بات کا ذکر بخاری ومسلم کی اس روایت میں ہے: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ۔ (ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا عیسائی یا پارسی بنا لیتے ہیں)۔ چنانچہ آیت اور حدیث میں فطرت سے مراد دین اسلام ہے، توحید باری تعالیٰ ہے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ کبھی توحید کا حکم ہو اور کبھی شرک کا، کبھی دین اسلام کے قبول کرنے کاحکم ہو اور کبھی انکار ہو۔ چنانچہ آیت میں خلقت وفطرت سے مراد جنس نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دین اسلام ہے۔ اس وضاحت کے بعد پروفیسر صاحب مطمئن ہو گئے۔‘‘
گورنمنٹ کالج گکھڑ میں ۴۰ سال تک درس قرآن کے عظیم اورمبارک سلسلہ سے یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ آپ جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں قرآن فہمی کا شعور اجاگر کرنے میں کتنی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ اپنے تمام متعلقین کو اکثر یہ نصیحت فرماتے تھے کہ:
’’جدید تعلیم یافتہ حضرات تک قرآن کاپیغام پہنچانے کے لیے آپ ترجمہ قرآن کی کلاسز شروع کر دیں۔ اس ضمن میں تین با تیں بطور خاص یادرکھیں:
۱۔ ہمیشہ بھرپور مطالعہ کریں، متعلقہ آیات کی تفسیر وتشریح کے لیے اکابر مفسرین کی آرا کو ہمیشہ سامنے رکھیں، خود رائی سے حتی الامکان خود کوبچاتے رہیں، اپنے پاکیزہ کردار وعمل سے اپنی دعوت کا عملی ثبوت مہیا کریں۔
۲۔ ان کلاسز کے شرکا کی نفسیات اور ذہنی وعلمی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے انتہائی با وقار اور شستہ انداز سے قرآن کا پیغام، پیغام رشد وہدایت ان تک پہنچائیں۔ اس سلسلے میں کبھی قلت وکثرت کی پروا نہ کریں، اپنا فرض باقاعدگی سے نبھاتے رہیں۔ نیز مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی کلاسز کے ماحول اور ان کلاسز کے ماحول میں فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں۔
۳۔ شرکا کوسوالات کاموقع بھی دیں، ان کے اذہان میں پیداہونے والے شکوک وشبہات اور اعتراضات پر کبھی خفگی اور ناراضگی کا اظہار نہ کریں، بلکہ احسن طریقہ سے ان کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔ اگر خود کوئی دقت محسوس کریں تو دیگر اکابر اہل علم سے رجوع کرنے میں کبھی شرم محسو س نہ کریں۔ قرآن کریم کا یہ ارشاد ہمیشہ پیش نظررکھیں: وفوق کل ذی علم علیم (اللہ تعالیٰ نے ہرعلم والے کے اوپر ایک علم والاپیدا فرمایا ہے۔) اگر آپ ان باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ مبارک سلسلہ جاری رکھیں گے تو اس کے فوائد وثمرات ان شاء اللہ بہت جلد ظاہر ہوں گے۔‘‘
بحمداللہ آج ملک بھرمیں کئی مقامات پر یہ مبارک سلسلہ جاری وساری ہے۔ راقم الحروف اس ضمن میں تمام اہل علم کی خدمت میں ملتمس ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں اس مبارک سلسلہ کو شروع کر دیں، کیونکہ یہ ہم پر اکابر اصحاب علم کا قرض بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی ۔ یہ مبارک سلسلہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے ساتھ ساتھ بندگارن خدا کی رشدو ہدایت کا ذریعہ بھی ہے۔
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں درس تفسیر
ذیل کی سطور میں ہم قرآن کریم کی تدریس کے حوالہ سے حضرت شیخؒ کے دواہم علمی حلقوں کاتعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
۱۔ حضرت شیخؒ ۱۹۵۴ء سے ۲۰۰۱ء تک مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ مدرسہ میں سالہا سال تک درس نظامی کے طلبہ کو پہلے پیریڈ میں قرآن کی تفسیر پڑھاتے رہے۔ اس پیریڈ میں درجہ ثالثہ سے دورۂ حدیث تک زیرتعلیم طلبہ کی شرکت تو لازمی ہوتی تھی، تاہم تفسیرکے پرچہ میں صرف درجہ موقوف علیہ اور درجہ دورۂ حدیث کے طلبہ ہی شریک ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ اتنا منظم اور باقاعدہ تھاکہ مدرسہ کی طرف سے کامیاب طلبہ کو دی جانے والی اسناد میں اس کا باقاعدہ ذکر ہوتا تھا۔
۲۔ حضرت شیخؒ شعبان اور رمضان کی سالانہ تعطیلات میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۲۵سال تک در س نظامی کے منتہی طلبہ، فضلاے درس نظامی، دینی مدارس کے مدرسین اور جدید تعلیم یافتہ حضرا ت کو دورۂ تفسیر قرآن پڑھا تے رہے۔ اس دورہ کے آغا ز کا پس منظر یہ تھا کہ ۱۹۷۶ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت نے مدرسہ نصرۃالعلوم اور اس سے متصل جامع مسجد نور کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا تو ارباب مدرسہ نے اس کے خلاف باقاعدہ احتجاجی تحریک کا اعلان کر دیا۔ چھ ماہ کی مسلسل تحریک میں تین سو کے قریب افراد گرفتا رہوئے جن میں آپ کے تین صاحبزادے، مولانا زاہدالراشدی، مولانا عبدالقدوس خان قارن اور مولانا عبدالحق خان بشیر، بھی شامل تھے۔ اسی تحریک کے دوران مدرسہ نصرۃ العلوم میں سالانہ تعطیلات ہو گئیں۔ کسی بھی مدرسہ کی حفاظت کے لیے مدرسہ کے طلبہ ایک مستحکم اور مضبوط قوت ہوتے ہیں۔ سالانہ تعطیلات کی وجہ سے جب خالی مدرسہ پر جبری قبضہ کا اندیشہ پید اہو ا تو مدرسہ کے ذمہ داران نے سالانہ تعطیلات کے دورا ن دورۂ تفسیر قرآن کا اعلان کر دیا تاکہ ان سالانہ تعطیلا ت کے دوران بھی مدرسہ طلبہ سے خالی نہ رہے۔ تفسیر قرآن کی تدریس کے لیے بھی مشیت خداوندی کے مطابق قرعہ فال حضرت شیخ ہی کے نام نکلا۔ قدر ت خدا وندی آزمایش میں بھی دینی خدمت کے مواقع پید ا فرما دیتی ہے۔ بظاہر تو مجبوری کے تحت آپؒ نے دورہ تفسیر قرآن کا آغاز فرمایا، لیکن بعد میں اس کی اہمیت وافادیت کی بنا پر اس کو مستقل طورپر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ کم وبیش ۲۵ سال تک جاری رہا۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان، افغانستان، بنگلہ دیش، برما، تھائی لینڈ کے طلبہ شریک ہو کر اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ آج ان ممالک کے علاوہ آپ کے تلامذہ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب، روس، آذربائیجان، امریکہ اور برطانیہ میں دینی خدمات سر انجا م دے رہے ہیں۔ ہر سال دورۂ تفسیر کے شرکا کی تعداد ۳۰۰سے ۵۰۰تک ہوتی تھی۔ ان میں اکثر وبیشتر فارغ التحصیل علما اور کئی ایک درس نظامی کے کہنہ مشق مدرس ہوتے۔ دورہ تفسیر کا دورانیہ تقریباً د وماہ ہوتا تھا، اس لیے اس میں جدید تعلیم یافتہ حضرات بھی بکثرت شامل ہوتے تھے۔ آپ کا انداز تفسیر بعینہ اپنے شیخ مولانا حسین علی ؒ جیسا تھا۔ ربط آیات اور رد شرک وبدعت کی جو اہمیت وانفرادیت آپ کے شیخ کا خاصہ تھا، وہی طرز اور انداز یہاں بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔ دورہ تفسیر کے بلند پایہ علمی وتحقیقی نکات کی تدوین وترتیب پر آپ کے قابل فخر فززند حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن زید مجدہم کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم علمی کام میں ان کی خصوصی مدد ونصرت فرمائے، آمین۔
دورۂ تفسیر کی خصوصیات
دورۂ تفسیر کا مقصد حضرت شیخؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’قرآن کریم کی تفسیر میں ہم ان مسائل کو نہیں چھیڑیں گے جو فرعی مسائل کہلاتے ہیں، کیونکہ اتنا وقت نہیں ہوتا۔ اگر ہم یہ بحث شرو ع کر دیں کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنی ہے یا نہیں پڑھنی، آمین جہر کے ساتھ ہے یا سر کے ساتھ ہے تو مہینہ اسی میں گزر جائے گا۔ الحمد للہ قرآن پاک میں کوئی مشکل ترکیب، کوئی صیغہ، کوئی ربط، اہم شان نزول، کوئی ایسا اہم مسئلہ ان شاء اللہ العزیز نہ چھوٹے گا۔‘‘
’’ بحمداللہ تعالیٰ ہم سب اس بات کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ دورۂ تفسیر میں مکمل قرآن شرکا کی سمجھ میں آجائے۔ ہم دورۂ تفسیر میں ترجمہ، تفسیر، ربط آیات، شان نزول، ترکیب، صرفی ونحوی اشکالات کے جوابات کا بطور خاص خیال رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ قرآن کا پیغام رشد وہدایت بلاکم وکاست سب سامعین وحاضرین تک پہنچ جائے۔‘‘
حضرت شیخؒ درج بالا دونوں تفسیری حلقوں میں تفسیر قرآن کی تدریس کے دوران ایسا عالمانہ، محققانہ اور مدلل انداز بیان اختیار فرماتے تھے کہ شرکا خود کو ایک عظیم لائبریری میں بیٹھا ہوا محسو س کرتے تھے۔ حوالہ جات کا علمی مقام اور تجزیہ، مختلف طبقات کتب حدیث کاتعارف، متعلقہ احادیث کے درجہ ومقام کی وضاحت کے التزام کے ساتھ ان کی روشنی میں قرآن کی تفسیر، لغات القرآن کے حل اور مشکل الفاظ کی وضاحت وتبیین کے لیے قاموس، تاج العروس، مختارالصحاح اور منتہی الارب جیسی کتب لغت سے استشہاد، نحوی مشکلات کے حل کے لیے شرح جامی، عبدالغفور، مغنی اللبیب، متن متین اور رضی کے باربار حوالہ جات، علم معانی سے متعلق مشکلات کے حل کے لیے دلائل الاعجاز، مختصر المعانی اور مطول جیسی کتب سے حوالہ جات، فقہی مسائل کے لیے کبیری، البحرالرائق، فتح القدیر، شامی، درمختار، ہدایہ اور عالم گیری جیسی کتب کے حوالہ جات، مختصر یہ کہ اصول تفسیر، اصول فقہ،تاریخ وسیر، منطق وفلسفہ، جغرافیہ اورسلوک وتصوف کے فنو ن سے متعلقہ سینکڑوں کتب کا تعارف اور موقع محل کے مطابق ان استشہاد اور بعض اوقات بعض قرآنی آیات کی تفسیر میں شاذ آرا کا علمی وتحقیقی جائزہ اور صحیح تفسیر کی باحوالہ وضاحت، ایسا عالمانہ اور محققانہ انداز سن کر طلبہ ورطہ حیرت میں پڑ جاتے اور بے ساختہ پکار اٹھتے کہ آپ کی شخصیت قرآن کا زندہ وجاوید معجزہ ہے اور قرآنی علوم وفنون آپؒ کے رگ وپے میں رچ بس چکے ہیں۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قارئین! یہ مبالغہ نہیں۔ اس کے عادل گواہ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور دنیا کے مختلف گوشوں میں مسند تدریس کو رونق بخشے ہوئے ہیں۔ دراصل یہ توچراغ سے چراغ جلے ہیں، ان کی روشنی میں قیامت تک تشنگان رشدوہدایت راہ پاتے رہیں گے اور حضرت شیخؒ کی روح مبارک کو اس کا ثواب پہنچتا رہے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
آپ ؒ درج بالا دونوں تفسیری حلقہ جات میں جن امور کا بطور خاص خیال رکھتے تھے، ان میں سے چند اہم امور کا ہم ذیل کی سطور میں ذکر کریں گے۔
۱۔ ربط:
قرآن مجید میں ربط سے متعلق آغاز ہی میں مفسرین کے دو مسلکوں کا ذکر یوں فرماتے تھے:
’’اس میں اختلاف ہے کہ قرآن کریم میں ربط ہے یا نہیں۔ مفسرین کرام کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ربط نہیں۔ یہ شاہی حکم ہے اور بادشاہ لوگوں کے حالات کے مناسب ان کو حکم دے گا۔ ان میں کسی ربط کی ضروت نہیں۔ اسی طرح قرآن میں کہیں حکم ہوگا کہ نماز قائم کرو، کہیں یہ ہوگا کہ جہاد کرو، کہیں یہ کہا جائے گا کہ والدین کی اطاعت کرو۔ یہ بھی شاہی حکم ہے۔
دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ بے شک شاہی حکم ہے، لیکن اس کے ساتھ ربط بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے تمام علوم میں ربط سب سے زیادہ مشکل ہے۔ اس ربط کے متعلق جن حضرات نے کوشش کی ہے، ان میں امام فخرالدین رازی، علامہ ابو السعود محمد بن محمد ابن عمادی، متاخرین میں سے حضرت حقانی، مولانا تھانوی اور ہمارے مرشد حضرت مولانا حسین علی، یہ حضرات قرآن پاک کے ربط کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔‘‘
حضرت شیخ قرآنی سورتوں، قرآنی مضامین اور رکوعات کے مابین ربط واضح کرنے کے لیے اکثر حضرت مولانا حسین علی ؒ کی کتاب ’’ بلغۃ الحیران فی ربط آیات الفرقان‘‘ یا امام رازی کی تفسیر کبیر یا حضرت تھانویؒ کی تفسیر بیان القرآن سے حوالہ نقل فرماتے تھے، جبکہ کبھی کبھار اپنے ذو ق کے مطابق بھی ربط بیان فرما دیتے تھے۔ اس ضمن میں سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر ۱۸۵ کے متعلق حضرت شیخؒ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’ارشاد باری تعالیٰ ہے: واذا سالک عبادی عنی فانی قریب، اجیب دعوۃالداع اذا دعان فلیستجیبوا لی ولیومنوا بی لعلھم یرشدون (اور جب تجھ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں سو میں قریب ہوں۔ قبول کرتاہوں دعامانگنے والے کی جب مجھ سے مانگے، تو چاہیے کہ وہ حکم مانیں میرا اور یقین لائیں مجھ پر تاکہ نیک راہ پائیں)۔ اس آیت کے ماقبل اور مابعد روزوں کے مسائل ہیں۔ ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ روزوں کے مسائل میں دعا اور پکار کا مسئلہ درمیان میں کیوں مذکور ہے؟ اس کا روزوں سے کیا ربط ہے؟ میں نے اس کا ربط کسی تفسیر میں تو نہیں پڑھا، اپنی طرف سے عرض کرتاہوں۔ ان یکن صوابا فمن اللہ والا فمنی ومن الشیطان۔ بعض علاقوں میں ماہ رمضان میں بعض لوگ چلا چلا کر ذکر اور دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کے مسائل میں آہستہ آواز سے ذکر اور دعا کے متعلق اشارہ فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خیر الذکر الخفی، بہترین ذکر وہی ہے جو آہستہ آواز سے ہو۔‘‘
درج بالا آیت کا ربط حضرت شیخؒ کے الفاظ میں نقل کرتے ہوئے ربط ہی کے حوالے سے ایک بات راقم کے ذہن میں آئی۔ راقم مناسب خیال کرتا ہے کہ اس کو بھی اہل علم کی خدمت میں عرض کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کے مسائل میں دعا اور پکار کا مسئلہ ذکر فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایاہے کہ دعاکی قبولیت کا رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے اور سحری وافطاری کے اوقات میں روزہ داروں کی دعا بارگاہ خداوندی میں بطور خاص قبول ہوتی ہے۔
۲۔ شان نزول:
آپ مختلف قرآنی آیات اور واقعات کا شان نزول بھی بیان فرماتے تھے۔ اس ضمن میں آپ مختلف تفاسیر سے استشہاد فرماتے تھے۔
۳۔ تفسیری ماخذ کی روشنی میں قرآن کی تفسیر:
آپ ؒ قرآن کی تفسیر میں تفسیری مآخذ کا بطور خاص خیال فرماتے تھے۔ تفسیری مآخذ کی روشنی میں تفسیرکا خصوصی ذوق اور ملکہ پروردگار نے آپ کو عطا فرمایا تھا۔
الف۔تفسیر القرآن بالقرآن: قرآن کی تفسیر میں ایک بنیادی اصول تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔ آپ ؒ کو اس بنیادی اصول تفسیر میں رب العالمین نے خصوصی ملکہ اور صلاحیت عطافرمائی تھی۔ جو بات بعض اکابر مفسرین نے قرآن کے بعض مقامات کی تشریح وتفسیر میں کئی صفحات میں واضح فرمائی ہے، آپ ؒ وہی بات نہایت اختصار اور اجمال کے ساتھ چند جملوں میں بیان فرما دیتے تھے۔ اس ضمن میں بطورنمونہ صرف دومثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ (البقرہ ۷) ( مہر لگادی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اوران کے لیے بڑا عذاب ہے۔) اس آیت کی تفسیر میں بعض لوگوں نے بلاوجہ جبر وقدر کی بحث چھیڑی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان بے چاروں کا کیا قصور جو مجبور محض ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے تو وہ ایمان کیوں کر لاسکتے ہیں؟ اس ضمن میں کئی لوگ فکری گمراہی کی وادیوں میں بھی جاگرے۔ اکابر اہل علم اور مفسرین نے ان کے شبہات وفکری گمراہی کے جوابات تفصیل سے دیے ۔ا س آیت سے پیداہونے والا شبہ کا کافی اور شافی جواب خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ۲۴پارہ ، سورۃ حم السجدہ میں دیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِیْ أَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَیْْہِ وَفِیْ آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَیْْنِنَا وَبَیْْنِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ (حم السجدہ ۵) ( اورانہوں نے کہا کہ جس چیز کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے، اس سے ہمارے دل پردوں میں ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اورتیرے درمیان ایک پردہ حائل ہے، لہٰذا تم اپنا کام کیے جاؤ، ہم اپنا کام کیے جائیں)۔ اب جن لوگوں نے اپنی چاہت وارادے سے اپنے عمل سے اپنے دلوں پر پردے تسلیم اور پسند کیے ہیں، کانوں میں ڈاٹیں دی ہیں ، آنکھوں کے آگے پردے لٹکائے ہیں تواللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نولہ ما تولی، جدھر کوئی جا نا چاہتا ہے، ہم ادھر ہی بھیج دیتے ہیں۔ جب وہ اس حالت پر راضی ہوئے تو رب تعالیٰ نے بھی فرمایا کہ اگر تم اسی حالت پر راضی وخوش ہوتو پھر ہمارا فیصلہ بھی تمہاری چاہت کے مطابق یہی ہے۔ خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ۔ (مہر لگادی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اوران کے لیے بڑا عذاب ہے۔)
۲۔ سورہ نوح میں ارشاد ہے: وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّاراً ۔ إِنَّکَ إِن تَذَرْہُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوا إِلَّا فَاجِراً کَفَّاراً (نوح ۲۶، ۲۷)۔ ( حضرت نوح نے عرض کی اے میرے رب !کافروں میں سے کوئی بھی اس زمین پر گھرانہ نہ چھوڑ۔ اگر تو نے انہیں چھوڑ دیاتووہ تیرے بندوں کوگمراہ کریں گے اور ان سے جواولاد ہوگی، وہ بھی بدکردار اور سخت کافر ہوگی۔) ان آیات سے بظاہر معلوم ہورہاہے کہ حضرت نوح ’’عالم ماکان ومایکون‘‘ تھے۔ اسی لیے تو بعض اہل بدعت نے اس آیت سے حضرت کے عالم ماکان ومایکون ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس ضمن میں مولولی محمدعمر اچھروی لکھتے ہیں: ’’دیکھیے حمل کا حال تو ایک طرف رہا، یہاں ابھی تخم بھی نہیں پڑا۔ تسلاً بعد نسل آپ ؑ نے معلوم کرکے عرض کر دیا کہ ان میں سے کوئی مسلمان نہ ہوگا۔‘‘ (مقیاس حنفیت) حضرت شیخؒ ان کے باطل استدلال کا جواب ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے:
’’اصل میں تفسیر القرآن بالقرآن کا اصول چھوڑنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے اس آیت کے سمجھنے میں سخت غلطی کی ہے۔ سورۃ ہود کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت نوح نے جوقوم کے لیے بددعا فرمائی تھی، وہ اس فرمان الٰہی کے بعد تھی کہ تیری قوم میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا۔ وَأُوحِیَ إِلَی نُوحٍ أَنَّہُ لَن یُؤْمِنَ مِن قَوْمِکَ إِلاَّ مَن قَدْ آمَنَ فَلاَ تَبْتَءِسْ بِمَا کَانُواْ یَفْعَلُونَ (ہود ۳۶)۔ ( اور البتہ حضرت نوح کی طرف سے یہ حکم بھیجا گیا کہ اب ہرگز ایمان نہ لائے گا تیری قوم سے کوئی مگر جو ایمان لاچکا۔ سو غمگین نہ ہو ان کاموں پر جو وہ کررہے ہیں) اس آیت سے معلو م ہوتا ہے کہ حضرت نوح نے قوم کی تباہی اورہلاکت کی دعا اس وقت مانگی تھی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ پیغام مل چکا تھا کہ اب آئندہ تیری قوم سے کوئی ایمان نہ لائے گا۔ ‘‘
ب۔ تفسیر القرآن بالحدیث: تفسیر القرآن بالقرآن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تفسیر القرآن بالحدیث میں بھی خصوصی ملکہ اور ذوق عطافرمایا تھا۔ یہ ذوق اتنااعلی او ربلندپایہ تھاکہ ایک مرتبہ دوران سبق سور ہ آل عمران کی آیت ۱۰۳ کی تفسیر کے متعلق حافظ ابن کثیر ؒ کا یہ قول نقل فرمایا کہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے اس آیت کی تفسیر سے متعلقہ احادیث کی تلاش شروع کی تو پانچ احادیث ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔ پھر فرمایا کہ تفسیر القرآن بالحدیث کے متعلق حافظ صاحب ؒ کا یہ ذوق پڑھ کرمیرے دل میں بھی یہ دلچسپی پید اہوئی چنانچہ میں نے ا س آیت کی تفسیر سے متعلقہ احادیث تلاش شروع کیں تو الحمدللہ میں سات احادیث ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔ گویا میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حافظ ابن کثیرؒ سے دو احادیث زیادہ ڈھونڈی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبولیت سے بہرہ ور فرمائیں۔
آپ کے اس فرمان سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تفسیر القرآن بالحدیث کے اصول میں کس قدر مہارت عطا فرمائی تھی۔ اسی اصول کے تحت سورۃ توبہ کی آیت ۲۴ کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیں۔
اس آیت کے ایک جملہ ’’حتی یاتی اللہ بامرہ‘‘ کی تفسیر حدیث مبارکہ کے ذخیرہ سے ڈھونڈنے کے لیے بقول آپ کے آپ کی نظر تیس سال سرگرداں رہی۔ حضرت شیخؒ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن‘‘ (اے نبی ! کہہ دیجیے اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور اپنے اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجار ت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے وہ مکان جوتمہیں پسند ہیں، اگر اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اور اس کی راہ میں جہادکرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک اللہ تعالیٰ اپنا حکم لے آئے اور اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔)
درج بالا آیت میں حتی یاتی اللہ بامرہ ( یہاں تک اللہ اپنا حکم لے آئے) سے کیا مراد ہے؟ اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ابوداؤد، نسائی، مسنداحمد، الجامع الصغیرللسیوطی اور موارد الظمان میں مذکور ایک حدیث ہمیشہ پیش نظر رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذا تبایعتم بالعینۃ واخذتم باذناب البقر ورضیتم بالزرع وترکتم الجہاد سلط اللہ علیکم ذلا لا ینزعہ حتی ترجعوا الی دینکم (ابو داؤد ۲/۱۳۴) ’’جب تم خرید وفروخت کے کام میں مصروف ہو جاؤ گے، جانوروں ہی کی دیکھ بھال میں لگ جاؤ گے اورتم کھیتی باڑی میں مصروف ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم ذلت مسلط کر دے گا، اس ذلت کو تم سے نہیں ہٹائے گا جب تک کہ تم اس اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹ آؤ۔‘‘ اس حدیث مبارکہ نے حتی یاتی اللہ بامرہ کے مفہوم کو واضح فرما دیاہے کہ اس سے مراد ذلت کا مسلط ہونا ہے اور اس ذلت کو اس وقت تک نہیں ٹالا جا سکتا جب تک دین کی طرف رجوع نہ کیا جائے۔ ‘‘
مجھے بخوبی یاد ہے کہ سورۃ توبہ کی درج با لا آیت کی تفسیر کے لیے حضرت ؒ نے ہمیں حکم فرمایا تھاکہ ابوداؤد لاؤ۔ پھر آپ نے ابوداؤد کی مذکورہ حدیث پڑھ کرسنائی اور اس کا جلد اور صفحہ نمبر بھی بتایا۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ میں جلد اور صفحہ نمبر بھول گیا۔ آپ کی وفات سے چند ماہ قبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تومیرے استفسار پر حضرت ؒ نے ابوداؤد کا ذاتی نسخہ منگوایا اور مجھے ارشاد فرمایا کہ جلد ۲ صفحہ ۱۳۴ کھو ل کر متعلقہ حدیث مجھے پڑھ کر سناؤ۔ چنانچہ میں نے آپ کے حکم کے مطابق حدیث مبارکہ پڑھ کر سنائی۔ حدیث مبارکہ سے اس خصوصی تعلق اور دلی لگاؤ کی وجہ سے آپ قرآنی آیات کی تفسیر کے لیے ایک ہی وقت میں چھ چھ، سات سات کتب حدیث کے حوالے ارشاد فرماتے تھے۔ آپ کادل مبارک حدیث مبارکہ کی عظمت ورفعت سے معمور رہتا تھا۔ کبھی کبھی آپ ؒ بڑے ذوق وشوق سے طلبہ کو یہ شعر پڑھ کرسناتے تھے:
پڑھتا ہے بخاری جو بلاعشق محمد
آتاہے بخار اس کو بخاری نہیں آتی
ج۔ تفسیر القرآن باقوا ل الصحابہ: تفسیر القرآن باقوا ل الصحابہ کے تحت آپ اکثر حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے تفسیری اقوال نقل فرماتے تھے۔ آپ ؒ دورہ تفسیر کے آغاز میں حضرت عبداللہ بن مسعود کایہ فرمان باحوالہ بخاری شریف نقل فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے صحابہ کے مجمع میں ارشاد فرمایا، ’’تم سب لوگ ہی جانتے ہو کہ قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں جس کے بارے میں مجھے معلوم نہ ہو کہ یہ آیت کب اور کس کے بارے میں نازل ہوئی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا تفسیر بیان فرمائی ہے‘‘۔ تفسیرالقرآن باقوال الصحابہ کے ساتھ ساتھ آپ ؒ تابعین، تبع تابعین، اتباع تبع تابعین، مفسرین، فقہا، محدثین اور متکلمین کے اقوال وارشادات موقع محل کے مطابق نقل فرماتے تھے۔ جب آپ ان بلند پایہ اہل علم کے اقوال نقل فرماتے تو مختلف موضوعات پر سینکڑوں کتب کا تعارف بھی سامنے آجاتا۔ آپ فقہا کے مقام ومرتبہ کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’یاد رکھیں فقہا سے زیادہ محتاط طبقہ امت میں اور کوئی نہیں ہے۔‘‘
تفسیر قرآن کے دوران جب آپ کا روے سخن مختلف آیات سے اخذ شدہ فقہی مسائل کی طرف ہوتا تو بے ساختہ اس حدیث مبارکہ کی آپ ؒ عملی تصویر نظر آتے: من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین ( اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ چاہتے ہیں، اس کو دین میں فقاہت عطافرماتے ہیں) آپ فقہی مسائل کے لیے البحرالرائق، فتح القدیر، شامی درمختار، ہدایہ اور عالمگیری جیسی اہم کتب کے حوالہ جات نقل فرماتے ۔ سورۃ بقرہ آیت ۲۵۶ اور سورۃ نساء کی آیت ۶۰ میں مذکور لفظ طاغوت کی تفسیر میں امام مالکؒ کے اس جامع قول کی روشنی میں فرمایا کرتے تھے کہ کل ما عبد من دون اللہ فہو طاغوت ( اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی بھی عبادت کی جائے، وہ طاغوت ہے)۔
د۔ ائمہ لغت کے اقوال وارشادات سے استدلال: قرآن کریم کے مشکل الفاظ کے معانی کو نہایت آسان پیرایے میں بیان فرماتے تھے۔ جس آیت کریمہ میں جو مشکل لفظ ہوتا، آپؒ ائمہ کرام کے اقوال وارشادات کی روشنی میں اس کی وضاحت فرماتے۔ اس ضمن میں آپ تاج العروس، قامو س اللغات، مختار الصحاح اورمنتہی الارب سے استشہاد فرماتے ۔ تاہم شرکا دور ہ تفسیر کومشکل الفاظ قرآنی کے حل کے لیے لغات القرآن لمولانا عبدالرشید نعمانی سے استفادہ کی بطور خاص تلقین فرمایا کرتے تھے۔ یہ کتاب چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ آپ اس کتاب کی بہت تحسین فرماتے ۔ ائمہ لغت کے اقوال وارشادات کی روشنی میں چند مشکل قرآنی الفاظ کی تشریح بطور نمونہ حضرت شیخؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
سورۃ بقرہ کی آیت ۴۶میں مذکور لفظ یظنون کے معنی ومطلب کی وضاحت میں فرماتے کہ مختار الصحاح ،منتہی الارب اور تاج العروس میںیہ صراحت مذکورہے کہ ظن کا لفظ اضداد میں سے ہے۔ یقین کے لیے بھی آتا ہے اور گمان کے لیے بھی، چنانچہ موقع ومحل کے مطابق یہاں یظنون کا ترجمہ یستیقنون کریں گے، یعنی وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں، کیونکہ بات خاشعین کی ہو رہی ہے اور خاشعین اللہ تعالیٰ سے ملنے کا گمان نہیں رکھتے بلکہ یقین رکھتے ہیں۔
سورۃ ہود آیت۲۲ میں مذکور لفظ لاجرم کے معنی کی وضاحت ان الفاظ میں ارشاد فرماتے : امام خلیل بن احمد اور سیبویہ فرماتے ہیں کہ لاجرم اصل میں مرکب بنائی ہے، جیسے خمسۃ عشر۔ اس کا معنی ہے حقا۔ آگے کا جملہ اس کا فاعل ہے، لاجرم ای حقا۔ امام فراء فرماتے ہیں کہ لاجرم محلا مبتدا ہے، اور آگے اس کی خبرہے۔
سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۶ میں ان اللہ لا یستحی ( بے شک اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا) میں لا یستحی کا کیا معنی ہے ؟ حضرت شیخؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: امام قرطبی فرماتے ہیں: لا یستحی ای لا یخشی وقیل لا یترک وقیل لا یمتنع۔ اسی طرح سورۃ النساء میں واللہ ارکسہم کا معنی ہے: واللہ ردہم اور اسی سورت میں مذکور جملہ مذبذبین بین ذلک کامعنی ہے مترددین بین ذلک۔
یہاں بطور نمونہ چند مثالیں ذکرکی گئی ہیں، ورنہ حضرت ؒ آیت میں آنے والے ہر مشکل لفظ کی لغوی تشریح کابطور خاص خیال فرماتے تھے۔
۴۔ صرفی ونحوی ابحاث:
حضرت شیخؒ دور ہ تفسیر میں اکثر فرمایاکرتے تھے کہ تین علوم تفسیر قرآن میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم صرف، علم نحو اور عربی ادب۔ جس شخص کویہ تین علوم نہیں آتے، وہ قرآن نہیں سمجھ سکتا۔ لہٰذا ان علوم میں خوب مہارت پیدا کریں۔ آپ ؒ قرآن کریم میں ہر صرفی ونحوی مشکل کو نہایت آسان پیرایے میں بیان فرماتے تھے اور نحوی مشکلات کے حل کے لیے بالعموم متن متین، رضی، مغنی اللبیب جیسی اہم کتب سے حوالہ جات نقل فرماتے۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
ؒ سورۃ البقرۃ آیت ۲۷کے ایک جملہ اتتخذنا ھزوا میں ایک نحوی اشکال کی وضاحت میں ارشاد فرماتے ہیں: اتتخذنا میں جمع متکلم کی ضمیر کا پر ھزوا مصدر کو محمول کیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضمائر تو ذوات ہوتی ہیں اور ھزوا مصدر ہے جو وصف ہوتا ہے تو وصف کا حمل ذات پر کیسے درست ہو سکتاہے؟ اس نحوی اشکال کاجواب یہ ہے کہ ھزوا اگرچہ مصدر ہے، لیکن مھزو کے معنی میں اسم مفعول ہے اور مفعول کا صیغہ ذات پر دلالت کرتاہے۔ یوں اتتخذنا میں ضمیر بھی ذات پر دلالت کرتی ہے اور ھزوا مصدر (مھزو کے معنی میں) بھی ذات پر دال ہے، چنانچہ ذات کا حمل ذات پر ہوا۔
آپ تفسیر کے سمجھنے اورسمجھانے کے لیے اور کئی نحوی مشکلات کے حل کے لیے نحاۃ کوفیین کایہ قاعدہ اکثر بیان فرماتے تھے کہ حروف جارہ مطلقاً ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
اسی طرح سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۷ میں ہے: ولکن البر من آمن باللہ والیوم الاخر والملئکۃ والکتاب والنبیین ( نیکی کرنے والا وہ شخص ہے جوایمان لائے اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور انبیا پر) اس آیت میں ایک نحوی اشکا ل کا جواب ان الفاظ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’آیت کریمہ میں لکن حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے اور البر اسم ہے اور خبر اسم پر محمول ہوتی ہے لیکن اس آیت میں ایسانہیں ہے، کیوں کہ البر تو مصدر ہے اور مصدر وصف ہوتا ہے جب کہ من ذات ہے اور ذات کاحمل وصف پر درست نہیں ہو سکتا۔ اگرذات کا حمل وصف پر کریں تو پھر معنی یہ ہوگا ’’نیکی وہ شخص ہے‘‘ حالانکہ یہ معنی درست نہیں ہے۔ چنانچہ صاحب کشاف اس نحوی مشکل کو یوں حل فرماتے ہیں کہ اس مقام پر اسم کی طرف مضاف محذوف ہے، یعنی ولکن صاحب البر من آمن۔ یوں ذات کا حمل ذات پر ہی ہوگا نہ کہ وصف پر۔ مضاف محذوف ماننے کی صورت میں اشکا ل رفع ہوجا تاہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ نیکی کرنے والا تو وہ شخص ہے جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر ، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور انبیاء پر۔ یہ معنی اور ترجمہ درست ہے۔
قرآن کی تفسیر میں آپ یہ اہم نحوی قاعدہ اکثر بیان کرتے تھے کہ جب اب ، اخ، ابن کی نسبت غیر ذوی العقول کی طرف ہو تو پھر ابن کا معنی بیٹا اور اخ کامعنی بھائی اور اب کا معنی باپ نہیں ہوتا، بلکہ ان میں ہر ایک کا معنی ہوتا ہے ’’والا‘‘، جیسے ابو الحرب (لڑائی والا)، ابو التراب (مٹی والا)، ابو ہریرہ (بلی والا)، ابو الخیر (بھلائی والا)، ابن السبیل (راستے والا ،یعنی مسافر)۔
قرآنی تفسیر میں علم صرف سے متعلق مشکلات کوبھی حل فرماتے تھے۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
سورۃ نساء کی آیت ۱۲۲ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ومن اصدق من اللہ قیلا۔ (بات میں اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور کون سچا ہو سکتا ہے؟) درج بالا ارشاد ربانی میں قیلا کے صیغہ کے متعلق حضرت شیخ فرماتے کہ یاد رکھیے، اس آیت میں لفظ قیلا، قال یقول کامصدر ہے۔ عام طور پر قال یقول کا مصدر قولاً ہی معروف ہے۔ یہ بھی درست ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی مصادر آتے ہیں۔ تاج العروس جو قاموس کی شرح ہے، اس میں قال یقول کے در ج ذیل مصادر مذکورہیں: قال یقول قولا وقیلا ومقالا ومقالۃ ومقولۃ وقالا۔ چنانچہ قال بطور مصدر بھی آتا ہے، اسی لیے بعض مدرسین اس جملہ کی ترکیب پوچھتے ہیں کہ مولانا، قال زید کی ترکیب کیاہے۔ اس مثال میں قال کا لفظ بطور مصدر کے استعمال ہو اہے اور مضاف ہے زید کی طرف۔
آپ دوران سبق اکثر یہ صرفی قاعدہ بھی بیان فرماتے کہ مصدر کے بدلنے سے معنی بدل جاتا ہے۔ مثلاً وعد یعد وعدا کا معنی وعدہ کرنا اور وعد یعد وعیدا کا معنی ڈرانا اور خوفزدہ کرنا۔ اسی صرفی قاعدہ کو ملحو ظ رکھتے ہوئے سورہ البقرۃ کی آیت ۱۲۸ کا ترجمہ کیا جاتا ہے: ’’الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلاً واللہ واسع علیم۔ (شیطان تمہیں مفلسی اور تنگ دستی سے ڈراتا ہے اور تمہیں فحش کام کرنے کا حکم دیتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے فضل اور مغفرت کا وعدہ فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا وسعت والا اور جاننے والا ہے۔) اس آیت میں یعدکم کافعل دو مرتبہ آیاہے۔ پہلی مرتبہ اس کا ترجمہ ڈرانا اور خوف زدہ کرنا کیاگیا ہے، جب کہ دوسری مرتبہ وعدہ کرنا۔ ایک ہی فعل کے دوالگ الگ ترجمے اسی صرفی قاعدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح تلا یتلو تلاوۃ کا معنی پڑھنا اور تلا یتلو تِلوا کا معنی پیچھے آنا۔ ذکر یذکر ذِکْرا کامعنی ہے زبان سے یاد کرنا اور ذکر یذکر ذُکْرا کامعنی دل میں یاد کرنا۔
اسی صرفی قاعدہ کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ھجر یھجر ھِجْرا کے معنی ہیں چھوڑنا اور ھجر یھجر ھُجْرا کا معنی ہے ہذیان بکنااور بکواس کرنا۔ اسی صرفی قاعدہ کو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کرنے کی وجہ سے شیعہ راہنما مسٹر خمینی نے بخاری شریف کے ایک جملہ کا ترجمہ کرتے ہوئے حضرت عمر فاروق پر وہ جارحانہ حملہ کیا ہے جس کی تکلیف اور درد ہر مسلمان محسو س کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حضرت عمر فاروقؓ نے ایک جملہ کہاتھا کہ ’’اھجر‘‘؟ کیا آپ ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ یہاں یہ لفظ ھِجرا مصدر سے آیا ہے، جب کہ مسٹر خمینی نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ اھجر یعنی حضرت عمر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کیا آپ ہذ یا ن بک رہے ہیں، بکواس کر رہے ہیں؟‘‘ العیاذ باللہ۔ مسٹر خمینی نے اس صرفی قاعدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اھجر کے ترجمہ میں ایسی فاش غلطی کی ہے جس کے بعد آدمی ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ تفصیل کے لیے حضرت شیخ کی تقریر بخاری ’’احسان الباری لفہم البخاری‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
سورۃ بقرۃ آیت ۱۸۴ میں مذکور ایک جملہ اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین (اور ان لوگوں پر جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، اس کا فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے)۔ یطیقونہ تو فعل مثبت ہے، لیکن اس کا ترجمہ ’’طاقت نہیں رکھتے ‘‘ نفی میں کیا گیاہے۔ اس کی وجہ حضرت شیخؒ یوں بیان فرماتے کہ ’’میں نے ایک اہم صرفی قاعدہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے فعل مثبت کا ترجمہ فعل نفی میں کیا ہے۔ یطیقونہ باب افعال سے فعل مضارع کا صیغہ ہے اور باب افعال کی ایک خاصیت سلب ماخذہے، یعنی بعض اوقات باب افعال کا ہمزہ سلب کے لیے آتاہے اور میں نے اسی خاصیت کوملحوظ رکھتے ہوئے نفی میں ترجمہ کیا ہے۔ جیسے بعض مدرسین بطورا متحان طلبہ سے اس جملہ کا ترجمہ پوچھ لیتے ہیں کہ من اکرم محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فہو کافر ومن ابغضہ فہو مومن۔ اس جملہ کو سن کر عموماً طلبہ پریشان ہو جاتے ہیں، حالانکہ اگر غور کیاجائے تو اس جملہ میں اکرم اور ابغضدونوں باب افعال سے فعل ماضی کے صیغے ہیں۔ اگر باب افعال کی خاصیت سلب ماخذ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس جملے کا ترجمہ کیاجائے تو انسان کفر تک پہنچ جاتاہے۔ و ہ ترجمہ یہ ہے کہ جس نے عزت کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی، وہ کافر ہے اور جس نے بغض رکھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مومن ہے۔ (العیاذباللہ) لیکن باب افعال کی خاصیت سلب ماخذ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترجمہ کیا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’جس نے اکرام نہ کیاحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا، وہ کافرہے اور جس نے بغض نہ رکھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے، وہ مومن ہے۔‘‘
طلبہ میں تحقیقی ذوق بیدار کرنے کے لیے آپ ہر سال دورہ تفسیر میں علم وصرف کے اہم قاعدہ کے متعلق شرکا سے سوال کرتے تھے۔ حضرت شیخؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: ’’علم صرف کا اصول یہ ہے کہ صیغہ جمع مذکر غائب کی علامت واؤ ساکنہ کے بعد الف لکھاجاتاہے، جیسے فعلوا ضربوا وغیرہ۔ لیکن قرآن میں جمع مذکر غائب کے چھ صیغے ایسے ہیں جن کے آخر میں الف نہیں لکھا ہوا، جیسے جاء و، باؤ، فاء و، تبوء و وغیرہ ۔ ان صیغہ جات کے آخر میں الف نہ آنے کی وجہ بھی ایک صرفی قاعدہ ہے ۔ وہ صرفی قاعد ہ کون سا ہے؟ یہ میرا آپ حضرات کے ذمہ قرض ہے۔ اس کے لیے آپ دوسرے حضرات سے تعاون لے سکتے ہیں، لیکن یہ بات بھی یادرکھیں کہ رسم الخط یا تجوید کا حوالہ قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ صرفی قاعدہ ہی قابل قبول ہوگا۔ ‘‘
راقم الحروف نے ایک مرتبہ امام الصرف والنحو استاد محترم مولانا محمد اشرف شاد ؒ سے اس قاعدہ کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے صرفی قاعدہ تو بیا ن نہیں کیا لیکن الخط العثمانی للقاری رحیم بخش پانی پتی ؒ کے حوالہ سے یہ ارشادفرمایا کہ قرآن حکیم کے رسم الخط اور عام رسم الخط میں فرق ہے۔ چونکہ قرآنی رسم الخط اللہ تعالیٰ کی طرف ناز ل کردہ توقیفی ہے، اسی وجہ سے ان صیغہ جات کے آخر میں واؤ جمع کے بعد الف نہیں ہے۔ جیسے صرفی قاعدہ کے مطابق مفرد کے صیغہ جات کے آخر میں الف نہیں لکھا جاتا، لیکن قرآن میں کئی ایسے مفرد صیغہ جات ہیں جن کے آخر میں الف لکھا ہوا ہے جیسے لیربوا ، لتتلوا، تتلوا الشیاطین، حالانکہ یہ صرفی اصول کے مطابق درست نہیں ہے۔ وجہ یہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے کہ قرآن کا رسم الخط اجتہادی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ (توقیفی) ہے۔ تاہم امام الصرف والنحو کا جواب حضرت الشیخ ؒ کے سوال کے مطابق نہ تھا۔ چونکہ آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ رسم الخط یا تجوید کا حوالہ قابل قبول نہیں ہے بلکہ صرفی قاعدہ ہی قابل قبول ہوگا۔ اس لیے راقم الحروف نے اس جواب کو آپ کی خدمت میں پیش نہیں کیا۔ البتہ راقم الحروف اپنی طرف سے ایک توجیہ اہل علم کی خدمت میں پیش کرتا ہے کہ اگر ا ن صیغہ جات پرغور کیا جائے تو یہ صیغہ جات جاءو ، باءو ، تبوءو مہموزاللام ہیں۔ ممکن ہے ان کے آخر میں الف نہ آنے کی وجہ یہ ہو کہ قرآن حکیم میں جہاں بھی مہموز اللام کے باب سے جمع مذکر غائب کے صیغے ہیں، ان کے آخر میں الف نہیں لکھا جاتا۔ البتہ جمع مذکر غائب کا ایک اور صیغہ عتو ایسا ہے جس کے آخر میں الف نہیں ہے اور وہ مہموزاللام بھی نہیں۔ اس کی وجہ قرآن کریم کا مخصوص رسم الخط معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ صیغہ قرآن میں چار جگہ مذکور ہے۔ تین جگہ اس کے آخرمیں الف لکھا ہوا ہے اورایک جگہ الف نہیں لکھا ہوا۔ ایک جگہ الف کا لکھا ہوا نہ ہونا رسم الخط کے توفیقی ہونے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ بخلاف درج بالا مہموزاللام صیغہ جات کے کہ وہ قرآن میں جہاں بھی مذکو ر ہیں، ان کے آخر میں الف نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
بہرحال حضرت شیخؒ طلبہ میں تحقیقی ذوق وشوق پیدا کرنے کے لیے اس نوعیت کے سوالات کیا کرتے تھے تاکہ طلبہ میں مختلف سوالات کے حل کے لیے مختلف کتب اور مختلف شخصیات سے مراجعت کی عادت پختہ ہو جائے۔
۵۔ الفاظ کے صحیح تلفظ پر تنبیہ:
آپ کے درس تفسیر کا ایک امتیازی وصف جس کو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، الفاظ کی ادائیگی میں صحت تلفظ کا خیال تھا۔ آپ بعض اوقات مشکل الفاظ کے درست تلفظ کے لیے الفاظ کے ہجے بھی کیا کر تے تھے۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ یونان ۔درست تلفظ یونان بفتح الیاء ہے، لیکن بعض لوگ اس کو یونان بضم الیاء پڑھتے ہیں جو غلط ہے۔ الفاظ کی ادائیگی میں تلفظ صحت کا خیال ضرور رکھیں۔ یونان کو ہمیشہ بفتح الیاء ہی پڑھیں نہ کہ بضم الیاء۔ تفصیل کے لیے مفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ لطاش کبریٰ ازادہ ملاحظہ فرمائیں۔
۲۔ بیت المقدس کا صحیح تلفظ البیت المقدس بصیغہ اسم مفعول ہے۔ اس کے علاوہ اس کو بیت المقدِس بھی پڑھ سکتے ہیں، جیساکہ امام نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں تصریح فرمائی ہے۔ یہ شہر جبل صہیون پر آبا د ہے۔ صِہیَون بروزن بِرزون ہے، کما قال مجد الدین فیر وز آبادی فی القاموس۔ آج کل بعض صحافی اور جدید تعلیم یافتہ حضرات جوعربی لغت سے ناواقف ہیں، وہ صِہیَون کو صَیہون لکھ دیتے ہیں جو غلط ہے۔
۳۔ حضرت ابراہیم کی دعوت توحید کی راہ میں روڑے اٹکانے والا بادشاہ وقت کون تھا؟ عام طورپر اس کا نام نمرود بن کنعان لیا جاتا ہے، لیکن نکتہ رس مفسر شیخ سلام الدین دہلویؒ صاحب کمالین فرماتے ہیں، نمروددرست نہیں ہے بلکہ اس کانام نُمروذ بن کنعان تھا۔
۶۔ جغرافیائی مقامات کی وضاحت:
آپؒ دوران تدریس قرآن میں مذکورہر مقام اورعلاقہ کی جغرافیائی وضاحت کی طرف بھر پور توجہ فرماتے تھے۔ اس ضمن میں آپ ؒ تاریخ ارض القرآن از علامہ سید سلیما ن ندوی اور قصص القرآن از مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ سے استفادہ کی تلقین فرماتے تھے۔ بطور نمونہ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
’’بنی اسرائیل بحر قلزم کوعبورکرکے وادی تیہ میں پہنچے جس کو آج کے جغرافیہ میں وادی سینائی کہتے ہیں۔ علامہ جاراللہ زمخشری ؒ تفسیر کشاف میں اس کی پیمایش کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ وادی ۳۶میل لمبی اور ۲۴میل چوڑی ہے اور یہ سطح سمند ر سے تقریباً۵ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے‘‘ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں یہودیوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پھر مصر نے لڑائی کے بعد اس حاصل کیا، لیکن جس حصہ میں تیل ہے اور جو رقبہ فوجی اہمیت کا حامل ہے، وہ ابھی تک یہود کے پاس ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ میں حضرت موسی ؑ کے اپنی قوم سے خطاب یاقوم ادخلوا لارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم ( اے میری قوم داخل ہوجاؤ اس پاک سرزمین میں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھی ہے) میں الارض المقدسہ سے کون سی پاک سرزمین مراد ہے؟ حضرت شیخؒ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’شام، لبنان، اردن، کنعان، اس وقت جوعلاقہ یہود کے پاس ہے، یہ بھی اورایشیاکا کچھ حصہ بھی۔ یہ وسیع ترعلاقہ ارض مقدس کہلاتاہے۔ اس علاقہ کوارض مقدس اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں بے شمار پیغمبر تشریف لائے اورا ن کی قبریں بھی اسی علاقہ میں ہیں۔ یہ بڑا زرخیزاو رٹھنڈا علاقہ ہے۔ ہرطرح کے پھل اس علاقہ میں وافر ہوتے ہیں۔ اس کا پانی صاف ستھرا ہے۔‘‘
۷۔ شاذاور مردود تفسیری اقوا ل کی نشان دہی:
آپ قرآنی آیات کی تفسیر میں جہاں تعامل سنت، تعامل صحابہ اور تعامل امت سے استشہاد فرماتے تھے، وہیں شاذ اور مردود تفسیر ی اقوال کابھرپور علمی تعاقب کرتے ہوئے احقا ق حق اور ابطال باطل کافریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ اس ضمن میں آپ نے مفتی نعیم الدین صاحب مراد آبادیؒ کے تفسیری حواشی پر ’’ تنقیدمتین بر نعیم الدین‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر فرمائی جس میں ان کے تحریر کردہ بعض غلط تفسیری حواشی کا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے درست موقف کو واضح فرمایا۔ آپ ؒ احمد رضا خان صاحب بریلوی کی تفسیر کنزالایمان پر ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’خدا گواہ ہے کہ لفظی ترجمہ میں جتنی غلطیاں احمد رضاخان صاحب نے کی ہیں، کسی اور نے نہیں کیں۔‘‘ جن فرق باطلہ نے اپنے بعض من گھڑ ت عقائد ونظریات کو قرآن کے دلائل کی روشنی میں درست ثابت کرنے کی کوشش کی، حضرت ؒ دوران تدریس ان کے استدلال کی حقیقت کو واضح فرماتے اور ان کے غلط عقائد ونظریات کورد فرماتے۔ قارئین ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ سورۃ الاعراف کی آیت ۳۵ میں ارشاد باری ہے: یَا بَنِیْ آدَمَ إِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْْکُمْ آیَاتِیْ فَمَنِ اتَّقَی وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُون‘‘ (اے اولاد آدم اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں سے جوبیان کریں تم پر میری آیات کو جولوگ میرے احکامات کی نافرمانی سے بچے اور انہوں نے اپنی اصلاح کرلی تو اس کے لیے نہ کوئی خوف ہوگااور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ )
قادیانیوں نے درج بالا آیت کریمہ سے اپنا کفریہ عقیدہ اجراے نبوت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کاطرز استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : یَا بَنِیْ آدَمَ إِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ۔ (اے اولاد آدم اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں سے)۔ اس پر ارشاد ربانی معلوم ہوتاہے کہ بنی آدم کے پا س پیغمبر آتے رہیں گے اور حکم ہے کہ جب پیغمبر آئے تو اس پر ایمان لاؤ، چنانچہ ہم بھی بنی آدم ہیں۔ جب ہمارے پاس پیغمبر یعنی مرزا غلام احمد قادیانی آچکا ہے، توہم اس پر اس حکم خداوندی کے مطابق ایمان کیوں نہ لائیں؟ اس باطل استدلال کاجواب حضرت شیخؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں فرمایا تھا کہ اے بنی آدم تمہارے پاس پیغمبر آتے رہیں گے، چنانچہ اس ارشاد کے مطابق پیغمبر تشریف لاتے رہے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ تشریف لائے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ کی بشارت سنائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرانام احمدبھی ہے اور محمد بھی ہے۔ جب آپ دنیامیں تشریف لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘‘ (محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں)۔ قرآن کی اس نص قطعی سے معلوم ہوتاہے کہ سلسلہ نبوت جاری نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکاہے۔ خاتم النیین کی تشریح وتوضیح آنحضرت کے اس فرمان مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ انا خاتم النیین لانبی بعدی۔ چنانچہ قادیانیوں کا یہ استدلال کہ نبوت جاری ہے بالکل باطل اوربے بنیاد ہے کیوں کہ اما یاتینکم رسل منکم کا خطاب تواللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں فرمایا تھا۔ اس فرمان کے مطابق سلسلہ نبوت چلتارہا اور آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا۔ ‘‘
۲۔ سورۃ آل عمران آیت۱۴۴ میں ارشاد باری ہے: و ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل، (محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، تحقیق آپ سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔) قادیانیوں نے درج بالا آیت سے ایک نحوی قاعدہ کا سہارا لیتے ہوئے یہ استدلال کیا ہے کہ درج بالا آیت قدخلت من قبلہ الرسل میں الرسل جمع کا صیغہ ہے اور نحو کی مشہور کتب عبدالغفور، رضی اور مغنی اللبیب میںیہ قاعدہ ہے کہ الف لام جب جمع کے صیغے پر داخل ہو تو یفید الاستغراق بالاتفاق، اس میں جمعیت کامعنی نہیں رہتا۔ اسی قاعدہ کے مطابق جمع کے صیغے رسل پر الف لام داخل ہو چکا ہے، لہٰذا نحوی قاعدہ کے مطابق اس ارشاد کا درست ترجمہ یہ ہوسکتاہے کہ آپ سے پہلے تمام رسول وفات ہو چکے ہیں اورحضرت عیسیٰ بھی رسل میں شامل ہیں، چنانچہ وہ بھی وفات ہو چکے ہیں۔
اس باطل استدلال کا جوا ب حضر ت شیخؒ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’ قادیانیوں نے جس نحوی قاعدہ کا سہارا لیا ہے، بے شک وہ نحوی قاعدہ بالکل درست ہے ، لیکن ایک اصول ہمیشہ یا د رکھیں کہ کوئی بھی قاعدہ خواہ صرفی ہویانحوی، کلی نہیں ہوتا بلکہ اکثری ہوتا ہے۔ قاعدہ کلیہ تو صرف ایک ہی ہے ان لا کلیۃ، کہ کوئی بھی قاعدہ کلی نہیں ہوتا۔ سورۃ بقرہ کی آیت ۸۷ سے بھی قادیانیوں کے اس استدلال کا باطل ہونا معلوم ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ولقد آتینا موسی الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل، (بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پھر اس کے بعد پے درپے ہم نے رسول بھیجے)۔ اس قرآنی ارشاد میں بھی جمع کے صیغہ رسل پر الف لام آیا ہے۔ اگر الرسل کا صیغہ استغراق ہی کافائدہ دیتا ہے تو پھر لامحالہ ماننا پڑے گا کہ تمام رسول حضرت موسیٰ کے بعد تشریف لائے اور حضرت موسیٰ پہلے پیغمبر ہیں۔ حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ بہت سے پیغمبر حضرت موسیٰ سے پہلے بھی تشریف لائے ہیں اور اس بات کوقادیانی بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ الرسل کے صیغہ سے ایک نحوی قاعدہ کے سہارالیتے ہوئے حضرت عیسیٰ کی وفات پر استدلال بالکل باطل ہے کیوں کہ یہ استدلال نص قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ خلا کا حقیقی معنی وفات نہیں ہے، بلکہ یہ تو مجازی معنی ہے۔ خلا کا حقیقی معنی ہے جگہ خالی کرنا۔ اس لیے علامہ آلوسی ، امام رازی نے ترجمہ یوں کیا ہے کہ پیغمبروں نے جگہ خالی کر دی ہے یعنی یاتو وفات پاگئے یا آسمانوں پر اٹھالیے گئے۔
اس ضمن میں آپ روافض، منکرین حدیث،قادیانی، آغاخانی، ذکری،بہائی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تحریک آریہ سماج کے لیڈر دیانند سرسوتی کے قرآن عظیم پر اعتراضات اور قرآنی آیات سے غلط استدلالات کا بھر پور علمی تعاقب فرماتے۔ شیعیت، جو یہودیت کی ردیف ہے، کے باطل عقائد ونظریات کی تردید کے لیے علامہ ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنۃ کے مطالعہ کی تلقین فرمایاکرتے تھے۔ اس کتاب کی تالیف کا پس منظر یہ بتاتے تھے کہ ایک رافضی نے اپنے نظریات کی تائید کے لیے منہاج الکرامۃ نامی کتاب لکھی جس میں باطل عقائدکو خوب واضح کیا، چنانچہ اس کتاب کے جواب میں امام ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ تالیف فرمائی جس کی اہمیت کے متعلق مولانا عبدالحئ لکھنوی نے اپنی کتاب التعلیقات السنیۃ میں لکھا ہے کہ لم یصنف فی الباب مثلہ، اس مسئلہ پر اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ آپ ؒ نے اپنی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ میں شیعہ کے کفر کی وجوہات کو بالتفصیل بیان فرمایا اور اس سلسلہ میں ان کے عقائد ونظریات کو ان کی بنیادی کتب سے نقل فرمایا۔
آپ دوران تفسیر کمیونسٹ حضرات کے ’’مساوی حقوق کے عادلانہ معاشی نظریہ‘‘ کی بھی بھرپور تردید فرماتے تھے اور مختلف قرآنی آیات سے ان کے غلط استدلات کی وضاحت فرماتے ہوئے درست موقف کی نشان دہی فرماتے تھے۔ مختصریہ کہ جس باطل فرقہ یا جس باطل جماعت نے اپنے باطل نظریات کو قرآنی آیات سے سچا ثابت کرنے کی کوشش کی، آپ ؒ قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں اس کا بھرپور علمی تعاقب فرماتے ہوئے اس کا رد فرماتے۔ اس ضمن میں اگر متقدمین میں سے بھی کسی شخصیت نے قرآن وسنت کی تعلیمات اور جمہور کی راہ سے ہٹ کر کوئی موقف اختیار کیا ہوتا توآپ ؒ اس شخصیت کے مقام ومرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس موقف اوراس میں موجود سقم اورکمزوری کی وضاحت کرتے ہوئے درست موقف کی نشاندہی فرماتے۔ اسی لیے آپ اکثر یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ’’میرے عزیزو! اکابر کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، اکابر کی رائے پر اعتماد کرنا۔ جتنے فرقے پہلے گمراہ ہوئے ہیں، ان کی گمراہی کا نقطہ آغاز اسی سے ہوا کہ انہوں نے قرآن وحدیث کے فہم میں اکابرو اسلاف کی راہ کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ آپ نے تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں، خوارج اور معتزلہ نے جب اکابر واسلاف کو چھوڑا ہے تو ٹھوکر پہ ٹھو کر کھائی ہے۔‘‘ اس ضمن میں حضرت شیخؒ علامہ جاراللہ زمخشری، ؒ صاحب کشاف کے تمام تر علمی مقام و مرتبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رؤیت باری تعالیٰ کے متعلق ان کے موقف کی کمزوری کو واضح فرماتے اور درست موقف کی نشاندہی فرماتے۔ حضرت شیخؒ کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’ہم جاراللہ زمخشری کی علمی طورپر قدر کرتے ہیں۔ صرفی، نحوی، معانی اور بدیع کے اصول وقواعد کے لحاظ سے جو مقام ومرتبہ کشاف کا ہے، کسی اور تفسیر کانہیں۔تاہم رؤیت باری کے اجماعی مسئلہ میں انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ ہرگز قابل قبو ل نہیں ہے۔ قرآن وسنت کے ٹھوس دلائل کی روشنی میں اہل حق کا موقف تویہ ہے کہ رؤیت باری تعالیٰ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو قیامت کے دن اپنی رویت کی نعمت سے سرفراز فرمائیں گے۔ قرآن کی ایک سے زیادہ آیات اس موقف کی صداقت پردلالت کرتی ہیں اور احادیث مبارکہ میں صحابہ کرام کے استفسار پر ’’ھل نری ربنا یوم القیامۃ‘‘ (کیا ہم قیامت کے دن اللہ کو دیکھیں گے) کے جواب میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ تم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار کروگے۔ لیکن علامہ جاراللہ زمخشری نے اس اجماعی مسئلہ میں نہ صرف اہل حق کے موقف سے انحراف کیا ،بلکہ انہوں نے سورۃ الانعام کی آیت ۱۰۳ ’’ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھواللطیف الخبیر‘‘ میں رویت باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہوئے اس موقف کے قائلین اہل حق کے بارے میں لکھاہے کہ وہ گدھوں کی طرح ہیں۔ علامہ جاراللہ زمخشری متعصب معتزلی تھے۔ رؤیت باری تعالیٰ کے اس مسئلہ پر ان کا یہ موقف پڑھ کر مجھے سخت صدمہ پہنچا ۔ اب بھی میں احترام سے ان کا نام لیتاہوں، لیکن ان کے بعض عقائد ونظریات کی وجہ سے قصداً ان کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ نہیں بولتا۔ ‘‘
علامہ جاراللہ زمخشری تو معتزلہ سے تعلق رکھتے تھے، اگر اہل سنت والجماعت کی کسی عالی قدر علمی شخصیت سے بھی کوئی تسامح ہوا تو آپ اس کی بھی نشان دہی کرتے ہوئے درست موقف کی نشاندہی فرماتے۔ حضرت شیخؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ یاد رکھیں، علما کی غلطیوں کانام دین نہیں ہے۔ بڑی سے بڑی شخصیت سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ الحمدللہ ہمارے اکابر کا طریقہ یہ ہے کہ وہ غلط موقف کی تائیدنہیں کرتے۔ اگر کسی صاحب علم بزرگ شخصیت سے کوئی غلطی ہوجائے تو بزرگ شخصیت کوبرابھلا نہیں کہتے، بلکہ ان کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی غلطی کی نشان دہی کردیتے ہیں۔
سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۴۷ کا آخری جملہ ہے: ان تتبعون الا رجلا مسحورا ( تم ایک سحرزدہ آدمی کی اتباع کر رہے ہو) یہ جملہ قرآن کی فصاحت وبلاغت سے عاجز آکر کہاکرتے تھے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم آپ کی زندگی میں آپ پر جادو وہوا یانہیں؟ اس کے متعلق بخاری شریف کی ایک روایت کے پیش نظر جمہور اہل علم کا موقف یہ ہے کہ آپ پر لبیدبن اعصم یہودی نے جادو کیا، لیکن دین کے معاملہ میں اس جادو کاقطعاً کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہاں دنیاوی معاملات میں اس کا اثر ہوا ہے۔ مثلاً آپ نے کبھی کھانا کھایا ہوتا تو آپ کویاد نہ رہتا کہ کھاناکھایا ہے یا نہیں، کبھی پانی پیا ہوتا تو یادنہ رہتا کہ پانی پیاہے یانہیں۔ یہ تو جمہور اہل علم کا موقف ہے لیکن اس سلسلہ میں امام ابوبکر جصاصؒ بھی مغالطے کاشکار ہوگئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو نہیں ہوا، کیونکہ بالفرض اگر مان لیا جائے کہ آپ پرجادو ہو اتھا تو پھر کفار کے اس قول ’’ان تتبعون الا رجلا مسحورا‘‘ کی تائید ہوتی ہے۔ ہم اس سلسلہ میں یہی عرض کرتے ہیں کہ بخاری شریف کی اس روایت سے کفار کے درج بالا قول کی بالکل تائید نہیں ہوتی لہٰذا کفار کے اس بے بنیاد قول کی تائید سے ڈرتے ہوئے حدیث مبارکہ کو نظرانداز کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ جملہ تو کفار قرآن کی فصاحت وبلاغت سے عاجز آ کر کہتے تھے، لہٰذا ان کے اس جملے کا بخاری شریف کی روایت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرآن کی تفسیر فرماتے ہوئے ہرشاذ اور کمزور تفسیر ی قول کا بھرپور علمی جائزہ لیتے ہوئے درست موقف کی نشان دہی یوں فرماتے کہ تشکیک وارتیاب کے تمام بادل چھٹ جاتے اور سامعین وحاضرین کے قلوب ایمان ویقین کے نور سے معمور ہو جاتے۔
۸۔ بدعات ورسومات کی تردید:
آپ زندگی بھر توحید وسنت کاجام بھر بھر کر پلاتے رہے، چنانچہ قرآن کی تدریس کے دوران بھی آپ عقائد باطلہ اور بدعات ورسومات کی بھر پور تردید فرماتے تھے۔ بدعت کتنابڑا جرم ہے، اس کے متعلق آپ ؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ خدانخواستہ اگرایک آدمی مسجد کی محراب میں بیٹھ کرسو بوتلیں شراب پی لے تو خود سوچیے کتنا بڑا گناہ ہے، لیکن یاد رکھیے کہ ایک بدعت کاگناہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ شراب پینے سے دین کانقشہ بدل نہیں جاتا جب کہ بدعت سے دین کا نقشہ بدل جاتاہے اور لوگ غیر دین کودین سمجھ کر اس پرعمل پیرا ہونے لگتے ہیں۔ ایک مرتبہ یہ واقعہ سنایا کہ ایک کرنل صاحب بڑی غالی اور متعصب بدعتی تھے۔ انہوں نے میری کتاب ’’راہ سنت‘‘ پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کوروشن فرمادیا۔ انہوں نے تمام بدعات ورسومات سے توبہ کی اور پھرشکریہ اداکرنے کے لیے میرے پاس بھی تشریف لائے۔ آپ کی تشریف آوری سے قبل، بقول آپ کے گکھڑ بدعت گڑھ تھا۔ پھراس مرد حق کی شبانہ روز جدوجہد سے نہ صرف گکھڑ بلکہ گردو نواح کے علاقے بھی توحید وسنت کے نور سے جگمگا اٹھے۔ آج ہر شخص خود اس حقیقت کا مشاہدہ کر سکتاہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ آپ بدعات کی تردید میں ہمیشہ نرم لب ولہجہ اختیار فرماتے۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ موقف اورنظریہ میں لچک نہیں ہونی چاہیے لیکن انداز گفتگو میں ہمیشہ نرمی ہونی چاہیے۔
چند سال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے موقع پر جلوس نکالنے کاجو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کی حقیقت اور اس کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے تھے کہ عیدمیلادکا جلوس ہمارے سامنے نکلنا شروع ہو اہے۔ اس کا بانی شیخ عنایت اللہ قادری ہے جو پہلے ہندو تھا اور رام لیلا کا جلوس نکالا کرتا تھا۔ پھراللہ تعالیٰ نے اس کو اسلام کی توفیق دی تو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاجلوس نکالنا شروع کردیا۔ آج بھی کشمیری بازار لاہورمیں اس کے مکان کے دروازے پرلکھا ہوا ہے ’’شیخ عنایت اللہ قادری، بانی جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ جن بدعات کو آج لوگ دین بنائے پھرتے ہیں، ان سے تو صحابہ کرام کے کان بھی واقف نہ تھے۔ یادرکھیں، غنیۃ الطالبین میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’ اہل سنت وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں۔‘‘ آپ ؒ ا س ضمن میں شرکاے دورہ تفسیر کو مولانا عبیداللہ مرحوم کی کتاب’’ تحفۃ الہند‘‘ کے مطالعہ کی تلقین فرمایا کرتے تھے جو بدعات کے پس منظر سے آگاہی اور تردید کے لیے بہت عمدہ کتاب ہے۔
۹۔ تقابل ادیان:
:آپ قرآنی علوم ومعارف کو شرکاے درس کے قلوب میں منتقل فرماتے ہوئے مذاہب عالم پر اسلام کی فوقیت کو اس اندا ز سے بیان فرماتے کہ دین اسلام کی صداقت وحقانیت ،دلائل وبراہین کے ساتھ واضح ہو جاتی۔ یہود ونصاریٰ یا مستشرقین ومتجددین میں سے جس نے بھی دین اسلام پر کسی نوع کاحملہ کیا ہے، آپ دورہ تفسیر میں ان اعتراضات وشبہات کے بھرپور انداز میں جوا بات ارشاد فرماتے اور سب سے بڑھ کر خود معترضین کی کتب سے اسلام کی صداقت وحقانیت پردلائل پیش فرماتے۔ آپؒ اکثرفرمایاکرتے تھے ’’ عزیزو! میں نے چومکھی لڑائی لڑی ہے۔‘‘ یعنی جس جہت سے دین اسلام پر کسی جارح نے حملہ کیا ہے، میں نے اپنی وسعت کے مطابق اس کاجوا ب دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ تفسیر قرآن کی تدریس کے دوران اسلام کی صداقت وحقانیت پر دلائل کے وہ انبار لگا دیتے کہ شرکا بزبان حال یہ بھی پکار اٹھتے کہ آپ کاعلم وعمل اور آپ کاپاکیزہ کردار بھی اسلام کی صداقت وحقانیت کی کھلی دلیل ہے۔
۱۰۔ کتب تاریخ وکتب سیر کے حوالہ جات:
آپ ؒ شرکا میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پاکیزہ جذبہ بیدار کرنے کے لیے سیرت طیبہ سے متعلق مختلف واقعات کو مختلف کتب سیر کے حوالہ سے بیان فرماتے۔ کبھی تو سیرت ابن ہشام کا حوالہ دیتے، کبھی زادالمعاد کا اور کبھی وفاء الوفاء فی اخبار دار المصطفیٰ کاحوالہ ارشاد فرماتے۔ ایک ایک حوالہ تلاش کرنے کے لیے تاریخ وسیرت کی کن کن کتابوں کی ورق گردانی کرتے اور آپ کی عقابی نگاہ کہاں کہاں تک پہنچتی، اس ضمن میں حضرت شیخؒ کے تحقیقی ذوق کا اندازہ ایک بات سے کیا جا سکتا ہے۔ فرماتے تھے کہ میدان احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کون سا دانت مبارک شہید ہوا؟ میں سالہا سال تک اس سوال کے جواب میں مختلف کتب کی ورق گردانی کرتا رہا اور بالآخر وفاء الوفاء فی اخبار دارالمصطفیٰ میں مجھے یہ ملا کہ آپ کے نیچے والے سامنے کے دو دانتوں میں سے دایاں دانت مبارک شہیدا ہوا۔ علما مدرسین اورطلبہ جب اس نوع کے واقعات سنتے تو ان میں تحقیقی ذوق بیدار ہوتا۔ آپ اس نوع کے تحقیقی واقعات بیان فرما کر بطور مزاح ارشاد فرماتے تھے، ’’میرے عزیزو! ا ب تو ذوق بھی فوت ہوچکاہے اور شوق بھی، رحمہمااللہ۔‘‘
آپ علماے ہند کے پاکیزہ کردار اور عظمت کو حاضرین کے قلب ودماغ میں راسخ کرنے کے لیے ایک تاریخی کتاب ’’علماء ہند کی شاندار ماضی‘‘ کے مطالعہ کی تلقین فرمایاکرتے تھے۔ ارشاد فرماتے تھے: ’’انگریز کے مظالم سے آگاہی کے لیے اس کتاب کامطالعہ ضرور کریں۔ روس کے مظالم سے آگاہی کے لیے المسئلۃ الشرقیۃ لمصطفیٰ کمال مصری کا مطالعہ کریں۔ المسئلہ الشرقیہ عربی میں ہے،اس کاترجمہ نیاز فتح پوری نے کیا ہے۔ نیاز فتح پوری ملحد تھا، ایک مولوی کا بیٹا تھا، عربی ادب میں ماہرتھا اور حساب میں بھی ماہر تھا، لیکن گمراہ ہو گیا۔ اس لیے میں کہاکرتاہوں کہ دعا کرو کسی مولوی کا دماغ خراب نہ ہو۔ اگر مولوی کا دماغ خراب ہو جائے تو فرعون سے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی ایک کتاب ہے ’’من ویزداں‘‘۔ کالجوں کے نصاب میں شامل تھی، شوروغل سے اس کتاب کو نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ طلبہ میں مطالعہ کاذوق وشوق پیداکرنے کے لیے کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ بحمداللہ میں نے اپنی زندگی درس ومطالعہ اور تصنیف وتالیف میں گزاری ہے۔ تحدیث بالنعمۃ کے طورپر عرض کرتاہوں کہ پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں آج کے دورمیں کسی عالم نے مجھ سے زیادہ مطالعہ نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن کی تفسیر کا ایسا فہم اور پاکیزہ ذوق وشوق عطافرمایاتھا جس کی وجہ سے کہنہ مشق اور مدرس علما اور منتہی طلبہ آپ کے دورۂ تفسیرمیں چہار طرف سے کھنچے چلے آتے تھے، حتیٰ کہ آپ کے مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے بھی علماو طلبہ آپ کے حلقہ درس میں شریک ہو کر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ آپ کے بالواسطہ یا بلاواسطہ تلامذہ دنیا کے اکثر ممالک میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ ؒ متقدمین ومتاخرین اصحاب علم کی بلند پایہ علمی تفاسیر کی روشنی میں قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح فرمایا کرتے تھے۔ احکام القرآن، تفسیر ابن جریرطبری، تفسیر کبیر، البحرالمحیط، ابن کثیر، روح المعانی، بیضاوی، مظہری، تفسیر عزیزی، جلالین، جمل، خازن، معالم التنزیل، مدارک، کشاف، ابوسعود اور بیان القرآن سے جب بار بار حوالہ جات نقل فرماتے تو شرکاے درس خود کو قرآنی علوم کے بحر زخار میں غوطہ زن محسوس کرتے۔ آپ جب خود قرآنی علوم ومعارف کے بحر زخار میں غوطہ زن ہوتے تو اس سفر میں بہت سے متقدمین آپ سے پیچھے رہ جاتے۔ آپ کو قرآنی علوم ومعارف سے کس قدر شغف تھا، اس کا اندازہ حضرت شیخؒ کے بیان کردہ ایک واقعہ سے بخوبی ہوتاہے۔
سورۃ الاعراف آیت ۸۵ میں ارشاد باری ہے: والی مدین اخاھم شعیباً قال یقوم اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ قد جاء کم بینۃ من ربکم ( اور اہل مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ؑ کو بھیجا۔ انہوں نے فرمایا، اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، جس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ تحقیق تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے) بینۃ کا معنی معجر ہ ہے اور اکثر پیغمبروں کے معجزات قرآن میں مذکور ہیں،لیکن حضرت شعیب ؑ کا معجزہ صراحت کے ساتھ قرآن میں مذکور نہیں ہے۔ اب اس فرمان میں بینۃ سے مراد تومعجزہ ہی ہے، لیکن کون سا معجز ہ؟ میں تقریباً ۳۰ سال تلاش کرتا رہا اور پھر طویل جدوجہد کے بعد مجھے بدائع الظہور فی وقائع الدہور نامی کتاب میں اس سوال کا جواب ملا کہ حضرت شعیب کوا للہ تعالیٰ نے کون سا معجزہ عطا فرمایا تھا۔ بدائع الظہور میں ہے کہ قوم شعیب نے کہا، اے شعیب! اگر یہ ہمارے بت تمہاری دعوت کی تصدیق کردیں توہم ایمان لے آئیں گے۔ حضرت شعیب ؑ نے فرمایا، اگراللہ تعالیٰ تمہارے منہ سے نکلا ہوا مطالبہ پورا کر دیں تو کیا تم واقعی ایمان لے آؤ گے؟ وہ بولے، کیوں نہیں؟ چنانچہ لوگوں کے بھرے مجمع میں حضرت شعیب بتوں کے پاس تشریف لے گئے اور بتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم کیا کہتے ہو اس دعوت کے متعلق جو میں انہیں پہنچا تاہوں؟ (یعنی اللہ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور میں اللہ کارسول ہوں) اللہ تعالیٰ نے ان بتوں کو قوت گویائی عطافرمائی اور بتوں نے بلند آواز سے کہا، لا الہ الا اللہ وانت رسول ربنا۔ کسی قرآنی لفظ کے صحیح مفہوم اور مصداق کی تلاش میں تیس تیس سال تک جستجو کرتے رہنا قرآنی علوم ومعارف سے آپ کے خصوصی شغف کانتیجہ ہی تھا۔
قرآن کے ۱۹ ویں پارہ میں ایک سورۃ کانام چیونٹی کے نام پر سورہ نمل رکھا گیا ہے۔ اس چیونٹی کا نام کیا تھا، آپ کی تحقیقی نگاہ یہاں تک بھی پہنچی۔ فرماتے تھے کہ یہ مادہ چیونٹی تھی اور لنگڑی تھی۔ اس کے دونام منذرہ اور طاعۃ تفاسیر میں مذکور ہیں۔
قرآن مجید کی تفہیم کے لیے آپ لغا ت القرآن از مولانا عبدالرشید نعمانیؒ ، تاریخ ارض القرآن از مولانا سید سلیمان ندویؒ اور قصص القرآن از مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کے مطالعہ کی بطور خاص تلقین فرماتے تھے۔
۱۱۔ اصلاح وہدایت:
آپ شرکاے دورہ تفسیر کی اصلاح اور کردار سازی کی طرف بھی بھرپور توجہ فرماتے تھے۔ کبھی تونیک اور پاکباز لوگوں کے زہد وتقویٰ کے واقعا ت سناتے اور کبھی ارشا د فرماتے کہ یقین کیجیے، جب تک آپ خود نماز باجماعت کی پابندی نہیں کریں گے،آپ کے تلامذہ پر آپ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ کبھی ارشاد فرماتے، میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کے گھرمیں بیٹھ کر وعدہ کریں کہ مدرسہ کے معاملات میں ایک پیسہ کی بھی خیانت نہیں کریں گے۔ شرکاے درس کو تلقین فرماتے کہ اصلاح باطنی کے لیے کسی اللہ والے کے دست حق پرست پر بیعت ضرور کریں۔ میں نے اپنے اکابر کو دیکھا ہے کہ ان میں سے ہرایک اسی سلسلہ رشد وہدایت سے وابستہ تھا۔ اکثر اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب ؒ اورا پنے ممتاز اساتذہ حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی، مولانا اعزاز علی، مولانا ابراہیم بلیاوی رحمہم اللہ کے واقعات سنایا کرتے تھے تاکہ شرکا کے قلوب میں ان پاکیزہ لوگوں کا پاکیزہ کردار ثبت ہو جائے۔
۱۲۔ علمی لطائف اور مزاح:
حضرت پانچ پانچ گھنٹے مسند تدریس پر متمکن قرآنی علوم ومعارف کے موتی بکھیرتے رہتے۔ جب طلبہ تھکاوٹ محسوس کرتے تو آپ مختلف تفاسیر کے حوالہ سے کوئی نہ کوئی علمی لطیفہ سنا دیتے، لیکن لطیفہ میں بھی معلومات، وقار او ر سنجیدگی کوہمیشہ پیش نظر رکھتے۔ مثلاً واذ قال موسی لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے تفسیر عزیزی کے حوالہ سے ایک ہندو اور مسلمان کا مناظرہ سنایا کرتے تھے۔ مناظرہ کا موضوع یہ تھا کہ رب ہندو ہے یا مسلمان؟ دونوں نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔ مسلمان نے کہا کہ اللہ نے تو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے، تم خود سوچو اگر اللہ ہندو ہوتا تو کیا گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا؟ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ ہندو نہیں ہے۔ مسلما ن کی یہ دلیل سن کر ہندو خاموش ہو گیا۔
گیارہویں پارہ کے پہلے رکوع میں اعراب کے مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کی دوقسمیں بیان فرمائی ہیں۔ حضر ت شیخؒ دیہاتیوں کی دونوں قسمیں بیان فرماتے ہوئے امام غزالیؒ کے حوالے سے ایک دلچسپ لطیفہ سنا یاکرتے تھے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایک امام صاحب لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ا نہوں نے سورۃ توبہ کی آیات تلاوت کیں۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے ’’الاعراب اشد کفرا ونفاقا واجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ واللہ علیم حکیم‘‘ ( دیہاتی عرب کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان میں یہ امکان زیادہ ہے کہ ان حدود کونہ سمجھ سکیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کی ہیں اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اورحکمت والا ہے)۔ ایک دیہاتی بھی نماز باجماعت پڑھ رہا تھا۔ اس کویہ آیت سن کر بڑا غصہ آیا۔ اس نے ایک ڈنڈا اٹھایا اورامام صاحب کے سر پر دے مارا۔ امام صاحب قراء ت کرتے رہے اور جب اس سے اگلی آیت پڑھی: ومن الاعراب من یؤمن باللہ والیوم الآخر ویتخذ ما ینفق قربات عند اللہ وصلوات الرسول (کچھ اعرابی ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جوکچھ خرچ کریں، اسے قرب الٰہی اور دعاے رسول کا ذریعہ سمجھتے ہیں) تو دیہاتی یہ الفاظ سن کر بہت خوش ہوا اور فوراً بولا، الان نفعک العصا، ابھی ابھی ڈنڈے کا اثر ہو گیا ہے۔
ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء والمنکر ( بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے) کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے حضرت ملاعلی قاری کے حوالہ سے، جو گیارھویں صدی کے مجدد ہیں، یہ لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ وہ چندساتھیوں کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ جب نماز کاوقت ہوتا، سب ساتھی باجماعت نماز ادا کرتے لیکن ایک صوفی قسم کا آدمی تنہا نماز اداکرتا تھا۔ ملاعلی قاری ؒ نے اس سے تنہا نماز اد ا کرنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: ان الصلوۃ تنہی (نماز تنہا پڑھنی چاہیے)
آپ از راہ مزاح فرمایا کرتے تھے کہ:
’’علامہ تاج الدین سبکی ؒ کی کتاب طبقات الشافعیہ الکبریٰ میں اولیاء اللہ کی نشانیاں درج ہیں۔ ولایت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہم سب میں پائی جاتی ہے۔ علامہ تاج الدین سبکیؒ ولی کی نشانیاں تحریر فرماتے ہوئے سترھویں نشانی تحریر فرماتے ہیں کہ وھو یقدر علی تناول طعام کثیر۔ اللہ تعالیٰ کا ولی زیادہ کھانے پر قاد رہوتا ہے۔ آپ بتائیں، یہ نشانی ہم سب میں پائی جاتی ہے یانہیں ؟لیکن یہ بھی یاد رکھنا کہ ولی زیادہ کھانا کھانے پر قادر تو ہوتاہے لیکن کھاتا نہیں۔‘‘
جب اس نوع کے دلچسپ علمی لطائف شرکاے دورہ تفسیر کوسناتے تو سب ہشاش بشاش ہوجاتے، تاہم اس طرح کے علمی لطائف ایک نوع کا وقفہ اوتازہ دم ہونے کا ایک ذریعہ ہوتے تھے، چنانچہ جلد ہی آپ شرکا کو لے کر دوبارہ علمی تحقیق کی روشن شاہراہ پر گامزن ہوجاتے اور شرکا اپنی اپنی ذہنی سطح اور استعداد کے مطابق اس چشمہ صافی سے اپنی علمی پیاس بجھاتے۔
قارئین! گزشتہ صفحات میں آپ نے قرآن کے ایک محب صادق کی قرانی علوم و معارف سے دلی وابستگی ، ذو ق وشوق، جدوجہد اور تدریسی دائرہ کار کامطالعہ فرمایا۔ یہ تو ان کی جامع شخصیت کاایک پہلو تھا، اس کے علاوہ انہوں نے تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دیتے ہوئے مختلف موضوعات پر ۴۷ کتب تالیف فرمائیں۔ نصف صدی میں فرد واحد نے گوناگوں مصروفیات کے باوجود ۴۷ کتب تالیف فرماکر تنہا ایک ادارہ کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے علاوہ آپ ؒ شاب سے شیب تک تقریباً نصف صدی مسند تدریس پر رونق افرو ز رہے۔ ہزاروں تشنگان علم نے اس چشمہ علم وعمل سے اپنی علمی پیا س بجھائی۔ عامۃالناس کی رشد وہدایت کے لیے بھی آپ کی جدوجہد ہمیشہ داعیان حق کے پاکیزہ جذبات کوجلابخشتی رہے گی۔ آپ گکھڑکے گردونواح کے مختلف دیہاتوں میں خاص طورپر جمعرات کی شام کوکئی کئی میل پیدل سفر طے کر کے پہنچتے اوران لوگوں تک توحیدوسنت کا پیغام پہنچاتے۔ آپ ؒ عجزوانکساری کا ایسا عملی نمونہ تھے کہ کبھی مجلس میں نمایاں جگہ بیٹھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپ شہرت وناموری سے کوسوں دور تھے۔ اگر چہ آپ نے طائر شہرت کے سارے پر کتر دیے تھے، لیکن پروردگار نے آپ کوعلمی وعوامی حلقوں میں وہ شہرت عطا فرمائی کہ آج ان کی درس وتدریس کے فیض سے اسلامی علوم کے مراکز آباد ہیں۔ آپ کی جامع شخصیت ایک نمایاں پہلو کہ آپ جرات واستقامت ، حق گوئی و بے باکی میں اکابر واسلاف کی تابندہ روایات کے امین ومظہر تھے ،عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اورغلبہ اسلام کی جدوجہد میں آپ زندانوں کو آباد فرما کر اپنے کردار وعمل سے سنت یوسفی کوزندہ فرمایا۔ راقم الحروف کے نزدیک آپ کی شخصیت کی سب سے نمایاں اور ممتازخوبی یہ ہے کہ آپ ؒ نے اپنی شخصیت کی تعمیر خود کی ہے۔ مادی وسائل سے خالی وعاری حالات میں آنکھ کھولنے والا بچہ علم وعمل اور جہد مسلسل کی راہ پر چلتے ہوئے بعون اللہ تعالیٰ اس مقام تک پہنچا ،جس مقام پر پہنچ کر انسان رشک ملائکہ بن جاتا ہے۔
انھیں ڈھونڈتی ہیں نگاہیں ہماری
جو خود چھپ گئے ساری محفل سجا کے
اللہ تعالیٰ آپ پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اورہم سب کو آپؒ کے تابندہ نقوش پر چلتے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ اللھم لاتحرمنا اجر ہ ولاتفتنا بعدہ۔