شخصیات
حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۲)
― مولانا محمد بھٹی
مبحث کا قانونی پہلو: نفسِ مسئلہ کی مقدور بھر تنقیح کے بعد لازم ہے کہ اس کے مضمرات و اطلاقات کا جائزہ لیا جائے۔ عنوان ہذا کا کلیدی سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقی حسن و قبح کی کوئی تکلیفی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ معتزلہ اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں،اور اشاعرہ سوال کی کایا کلپ کر دیتے ہیں۔معتزلہ کا کہنا ہے کہ جو چیز حسَن یا قبیح ہے وہ واجب،مندوب،مباح یا حرام بھی ہے جبکہ اشاعرہ حسن و قبح کو حکم کا ضمنی پہلو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو چیز واجب،مندوب،مباح یا حرام ہے وہ حسن یا قبیح بھی ہے۔گویا اشاعرہ حکم کو اخلاقیات(حسن و قبح) پر مقدم قرار دیتے ہیں...
حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۱)
― مولانا محمد بھٹی
بیشتر انسانی افعال اخلاقی اقدار سے استناد کرتے ہیں لیکن یہ اقدار کس پہ تکیہ کرتی ہیں؟ اس سوال کو جواب آشنا کرنے کے لیے کی گئیں کاوشوں نے کئی ایک دبستانِ علم اور مکاتبِ فکر کو جنم دیا ہے۔ ہماری علمی روایت کی بیشتر مذہبی و علمی جدلیات کا محور و مدار بنا رہنے والا حسن و قبح کا مسئلہ بھی اسی سوال کے جواب کی ایک کوشش تھی۔یہ مسئلہ ان چند کلامی مسائل میں سے ایک ہے جن کی صراحی آج بھی معنویت سے لبالب ہے کیونکہ انسان کو ہر آن اقدار کا مسئلہ درپیش ہے۔جب تک انسان 'زندہ' ہے اقدار یا حسن و قبح کا سوال بھی زندہ ہے کیونکہ فطرتِ انسانی کے کلبلاتے اقتضاءات ہی اسے...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۵)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی خدمات کا ایک بڑا دائرہ اسلامی فکر ہے اور دوسرا بڑا دائرہ اسلامی معاشیات ہے۔ اسلامی معاشیات پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی متعدد کتابیں ہیں، جن میں اہم ترین درج ذیل ہیں: اسلام کا معاشی نظام۔ اسلام کا نظریہ ملکیت۔ غیرسودی بینک کاری۔ مالیات میں اسلامی ہدایات کی تطبیق۔ معاش، اسلام اور مسلمان۔ انشورنس، اسلامی معیشت میں۔ اسلام کا نظام محاصل، قاضی ابویوسف کی کتاب الخراج کا اردو ترجمہ۔ اسلام میں عدل اجتماعی، سید قطب شہید کی العدالۃ الاجتماعیۃ کا اردو ترجمہ۔ آپ نے انگریزی زبان میں بھی اسلامی معاشیات سے متعلق متعدد...
طہٰ حسین: مغرب پرستی سے اسلام پسندی تک
― مولانا ابو الحسین آزاد
بیسویں صدی عیسوی کی اسلامی دنیا نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہوتے اور پھر واپس اسلام پسندی کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا۔ جن میں ایک بڑا نام طہ حسین کا بھی ہے۔اس عبقری ادیب اور عالمی شہرت کے حامل مفکر کا نام اب اردو دنیا کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ ان کی متعدد کتب کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں لیکن عرب دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی ان کے متعلق بہت سے ذہنوں میں مختلف طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انھیں ملحد، مستشرق، دین دشمن اور متجدد جیسے القابات سے یاد کرتی ہے۔دوسری طرف...
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات :ایک تجزیاتی مطالعہ (۲)
― مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
قدم عالم کا قول: شاہ صاحب کا قدم عالم کا تصور بھی ان کے تفردات میں شما رہوتا ہے۔التفہیمات الالہیۃ میں لکھتے ہیں: ( العماء) لیست عین الذات من کل وجه ولا غیرھا من کل وجه وانھا قدیمة بالزمان حادثة بالذات من جھة انھا موجودة بالذات الالھیة۔ ’’عما ء نہ تومن کل وجہ عین ذات (قدیم) ہے اور نہ اس کا غیر ہے۔وہ زمان کے لحاظ سے قدیم اور ذات کے لحاظ سے حادث ہے۔ایک حیثیت سے وہ ذات الہیہ کے ساتھ (دائمی طورپر) موجود ہے‘‘۔ اپنے اس خیال کوشاہ صاحب نے’’ الخیرالکثیر‘‘ میں بھی موکد کرنے کی کوشش کی ہے۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ شاہ صاحب نے یہ تصورپوری طرح غوروفکر...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۴)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
فکر اسلامی کی ازسر نو تشریح کی ضرورت: ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم مولانا مودودیؒ کے نام اپنے ایک خط میں اپنی تحریر ”معاصر اسلامی فکر“ کے حوالہ سے بدلتے ہوئے حالات میں فکر اسلامی سے متعلق مختلف امور ومسائل کی از سر نو تعبیر وتشریح پر بھی زور دیتے ہیں: ”ڈیڑھ دو سال پہلے آپ کی خدمت میں ”معاصراسلامی فکرکے چند توجہ طلب پہلو“ کے عنوان سے ایک مقالہ بھیجا تھا، جس کے ذریعہ آپ کے سامنے یہ احساس پیش کرنا مقصود تھا کہ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کی تشریح وتعبیر کے ذیل میں بہت سے امور پر تحریک کا موقف ازسرنو تعیین وتشریح کا طالب ہے، جب تک یہ کام نہیں انجام...
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۱)
― مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
اصحاب علم نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکر و شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن متعدد ایسے پہلو ہیں جن پر تفصیلی وتحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ان میں سے ایک پہلو شاہ صاحب کے کلامی تفردات کا ہے۔ ان کا مطالعہ دو وجہوں سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے: ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاہ صاحب، جیسا کہ شبلی نے لکھا ہے ،دور زوال وانحطاط کی سب سے عظیم و عالی دماغ شخصیت ہیں۔(۱) دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ برصغیر کی اسلامی فکری روایت پر شاہ صاحب کی فکرونظر کے نقوش دوسری کسی شخصیت کے مقابلے میں زیادہ گہرائی کے ساتھ مرتسم ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں شاہ صاحب سے قبل بر صغیر ہند...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۳)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے فکر کی ایک امتیازی خصوصیت فکری گہرائی اور فکری وسعت کے ساتھ ساتھ فکر میں موجود کلیئرٹی، وضاحت اور عصری معنویت ہے۔ ڈاکٹر صدیقی زمینی حقائق پر نصوص کی روشنی میں آزادانہ غوروفکر کرتے تھے اور آزادانہ رائے قائم کرتے تھے۔ وہ تحریک اسلامی کے ایک قدآور فکری رہنما تھے لیکن انہوں نے مولانا مودودی یا ابتدائی تحریکی مفکرین کی کھینچی ہوئی لائن کا خود کو کبھی اسیر نہیں بنایا، اس سلسلہ میں ان کے اندر زبردست خوداعتمادی اور جرأت مندی دیکھنے کو ملتی...
مولانا گیلانی اورشیخ اکبر ابن عربی (۳)
― مولانا طلحہ نعمت ندوی
مولانا کے بقول شیخ نے اپنی کتابوں میں جن کلی امور پرسیر حاصل بحثیں فرمائی ہیں ،ان میں علم کا مسئلہ بھی ہے ، جس کی تعبیر موجودہ اصطلاح میں تھیوری آف نالج (Theory of Knowledge) کے الفاظ سے کی جاتی ہے ، یعنی دین سے بغاوت کا وہ حصہ جو علم کے جھوٹے دعویٰ پر مبنی ہے ، شیخ لوگوں کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ خود اس علم اور دانش کی کیاحقیقت ہے ، ہم یہ جانتے ہیں ، وہ جانتے ہیں ،اور اپنے اسی جاننے کی بنیاد پر نہ سوچنے والوں کے قلوب میں دین کا جو احتقار پیدا ہوتا ہے ، شیخ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ خود یہ جاننا کیا چیز ہے ، اور تمہارے اس جاننے...
مولانا گیلانی اور شیخ اکبر ابن عربی (۱)
― مولانا طلحہ نعمت ندوی
یہ عنوان مختصر ہے لیکن تہ داراور وسیع المعانی، ایک طرف شیخ اکبر ابن عربی کی جامع ومعرکہ آرا شخصیت ،ایک طرف بر صغیر کے نامور عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی ، جنہیں خود ان کے رفیق دیرینہ مولانا عبدالباری ندوی نے وقت کاابن عربی قرار دیا تھا، وہ ابن عربی کے عاشق تھے بلکہ عاشق زار ، ان کے ذکر پر بے اختیار ہوجاتے، جب جب نام سنتے یا ان کے انتساب سے کسی کا نام ان کے کانوں میں پڑتا تو پھڑک اٹھتے،کاش کہ ان کے سدا بہار وپرفیض قلم سے ابن عربی کے احوال وافکار اور ان کے خیالات وآراء کی توضیح مرتب شکل میں ہوگئی ہوتی، ابن عربی پر اس دور میں برصغیر میں جیسا...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۲)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے علمی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور اجتماعی زندگی بھی گزاری اور خاص طور پر ہندوستان کی اسلامی تحریک میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی کے سلسلہ میں نہ صرف فکرمند رہا کرتے تھے بلکہ ملت کو درپیش اہم مسائل اور چیلنجز پر بہت ہی واضح اور جرأتمندانہ موقف بھی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی سے متعلق ایک واضح پروگرام اور نقشہ کار رکھتے تھے، اور اس کا اظہار مختلف مواقع پر بہت ہی شدومد کے ساتھ کیا کرتے...
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ: تعارف و خدمات
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمات، فکر اور مشن کے تعارف کے لیے ’’بزم شیخ الہند‘‘ کے نام سے ہم کچھ دوستوں نے جن میں حضرت مولانا قاری محمد یوسف عثمانی، ہمارے بھائی عبد المتین چوہان مرحوم اور دیگر رفقاء بھی شامل تھے ،بہت پہلے ایک کام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت فکری نشستیں ہوا کرتی تھیں، پھر زمانے کے ساتھ ساتھ کام ٹھنڈا پڑ گیا۔ اب ہمارے بہت باذوق ساتھی حافظ خرم شہزاد صاحب جو ما شاء اللہ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ فکر بھی ہیں اور صرف متفکر نہیں بلکہ فکر دلانے والے بھی ہیں۔...
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۱)
― ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تحریک اسلامی ہند کے ایک مایہ ناز فرزند تھے، بہت کم عمری میں تحریک سے وابستہ ہوئے اور تادم زیست وابستہ رہے، لیکن یہ وابستگی کوئی عام سی وابستگی نہ تھی، بلکہ آخر دم تک تحریک اور امت کے لیے غیرمعمولی حد تک فکرمند رہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک عظیم ماہرِ اسلامی معاشیات تھے اور عالمی سطح پر انہوں نے اسلامی معاشیات کے حوالہ سے نہ صرف ایک پہچان بنائی تھی، بلکہ دنیا بھر میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا تھا۔ عالم اسلام کا سب سے بڑا ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ بھی اسی سلسلہ میں ان کی خدمات کے اعتراف...
مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ اور اُن کی دینی خدمات
― پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق غازی
مولانا محمد علی صدیقیؒ ( 12 مارچ 1910تا 16 دسمبر 1992) المعروف مولانا محمد علی کاندھلوی یکم ربیع الاول ۱۳۲۷ ہجری بمطابق 12 مارچ 1910عیسوی بروز پیر ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ کے محلہ مولویاں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام علی احمد رکھا جب کہ آپ کے والد گرمی پیار سے آپ کو حیدر کہتے تھے۔ بعد میں آپ محمد علی کے نام سے پکارے جانے لگے۔ مولانا ؒ چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ بھائیوں کے نام بالترتیب حکیم محمد عمر، حکیم محمد عثمان اور مولانا بشیر احمد ہیں۔ مولاناؒ کے والدِ گرامی کا نام مولانا حکیم صدیق احمدؒ تھا۔ آپ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی...
مولانا مودودی کے جہادی تصورات
― احمد حامدی
مراد علی صاحب کو اللہ تعالی نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہنا ان میں سے ایک ہے۔ مراد علی، مولانا مودودی اور ان کے کام کے ساتھ اس حد تک لگاؤ رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی سے متعلق مواد دیوانہ وار جمع کرتے رہتے ہیں۔ مولانا مودودی کے کام سے واقف بھی ہیں اور واقفیت میں اضافہ کرتے رہنے کے لیے ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔ طویل اقتباسات کو یاد رکھنا اور مولانا کی آرا کو آج کے مسائل پر لاگو کرتے رہنا ان کی ایک اور خوبی ہے اور فیس بک پر موجود لوگ اس سلسلے میں ان کی کاوشوں سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کو اس حال میں قریب...
ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار
― محمد یونس قاسمی
ڈاکٹر فضل الرحمان 21 ستمبر 1919 کو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دیگر ابتدائی تعلیم اپنے گھر اورمقامی سکول سے حاصل کی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی ادب میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی میں Avecena's Psychology پر شاندار مقالہ لکھا جس پر انہیں 1949 میں ڈی فل کی ڈگری سے نوازا گیا۔ وہ 1950-1958 تک ڈرہم یونیورسٹی میں فارسی زبان اور اسلامی فلسفہ کے استاذ رہے۔ 1958 میں وہ مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، جہاں وہ 1961 تک علمی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1962 میں...
مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ کی صحافت
― محمد اویس سنبھلی
بلند پایہ مصنف، مفسر قرآن، تعلیم و تربیت اور خدمت دین کے مثالی پیکر، صاحب طرز صحافی، نیزگمشدہ بہار کی آخری یادگار مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ۲۳/جنوری ۲۰۲۲ء کو طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی آزاد ہندوستان کے اُن اہم دینی علماء سے تھے جنہوں مسلمانوں کی فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آزادی کے محض ۱۱-۱۰/ برس بعد جو سنگین مسائل مسلمانوں کے سامنے آکھڑے ہوئے، اس کا تصور، آج کے حالات میں بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے سخت ترین حالات میں جن علماء اور دانشوران قوم نے مسلمانوں کی بروقت اور صحیح رہنمائی...
مسلح تحریکات اور مولانا مودودی کا فکری منہج
― محمد عمار خان ناصر
اس گفتگو میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ عصر حاضر کے ایک معروف اور بلند پایہ مسلمان مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جو مذہبی سیاسی فکر پیش کی اور ریاست و سیاست ، سیاسی طاقت اور مذہب کے اجتماعی مقاصد کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو افکار پیش کیے ہیں، اس پورے نظامِ فکر کا آج کے دور میں ایک نمایاں اور بہت معروف رجحان ، جس کو ہم مذہبی عسکریت پسندی کا عنوان دیتے ہیں، اس کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، موجودہ دور میں پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں جو تشدد اور عسکریت پر مبنی فکر دکھائی دیتی ہے اور غلبۂ دین...
مولانا وحید الدین خاںؒ
― مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے...
مولانا وحید الدین خانؒ
― مولانا محمد وارث مظہری
مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے...
قائد اعظم کا اسلام
― خورشید احمد ندیم
قائداعظم ایک امیر آدمی تھے۔اتنے امیر کہ 1926ء میں ان کا شمار جنوبی ایشیا کے دس سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔ان کے چار مکانات کی قدر اگر آج کے حساب سے متعین کی جائے تو 1.4 سے 1.6ارب ڈالر بنتی ہے۔ قائد اعظم کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ''محمدعلی جناح...دولت‘جائیداد اور وصیت‘‘ اس سوال کا جواب دیتی ہے۔یہی نہیں‘ان کی دولت اورجائیداد کی مکمل تفصیل بھی۔قائد کا تمام سرمایہ‘آمدن‘ جائیدادسب دستاویزی ہیں۔ان کی شخصیت کی طرح‘ شفاف ریکارڈ کے ساتھ۔یہ کتاب پڑھے کئی ماہ گزر چکے لیکن ہنوز سرہانے دھری...
پروفیسر یٰسین مظہرصدیقی کی یاد میں
― ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
یادش بخیر، کوئی پچیس سال ہوتے ہیں راقم جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ میں فضیلت کا طالب علم تھا۔جامعہ کے ادارہ علمیہ نے ایک علمی مذاکرہ ”مدارس اسلامیہ کے نصاب میں اصلاح “جیسے کسی موضوع پرکیاتھا۔پہلے سیشن میں مولاناسلطان احمداصلاحی نے اپنے مقالہ میں دارالعلوم دیوبند،ندوة العلماء،مدرسۃ الاصلاح ،جامعۃ الفلاح اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سب پر تیزوتندمگرمدلل تنقیدکرڈالی ۔مقالہ ختم ہوتے ہی ایک اورفاضل کھڑے ہوئے اور فاضل مقالہ نگارکی تنقیدوں پر اعتراضات کی دندان شکن بوچھارکردی۔یہ دوسرے فاضل تھے ہمارے ممدوح پروفیسریاسین مظہرصدیقی...
مولانا انور شاه کاشمیری ؒ كے درس حدیث کی خصوصیات
― ڈاکٹر حافظ محمد رشید
مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ کی علمی زندگی کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تصنیف کے میدان کے آدمی نہیں تھے ،آپ کا اصل میدان تدریس تھا، اس لیے ان کے علمی ورثہ کے طور پر جتنی بھی کتب ملتی ہیں ان میں سے اکثر امالی و تدریسی تقریرات کی شکل میں ہیں ، جن کو ان کے بعد ان کے جلیل القدر شاگردوں نے ترتیب و تدوین سے آراستہ کیا ۔ ایک موقع پر ان کے ایک شاگرد مفتی محمود صاحب نانوتوی ؒ نے فرمایا: " ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے زیادہ کامیاب کوئی مصنف اور حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ سے بڑھ کر کوئی مدرس پیدا نہیں ہوا ۔" گویا شاہ صاحب ؒ میدان تدریس کے شاہ سوار تھے...
شیخ الہندؒ کا قومی و ملی انداز فکر
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے یہ انتہائی سعادت کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں ان کے افکار و تعلیمات کے فروغ کے لیے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں حاضری، بزرگوں کی زیارت اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بات میرے لیے دوہری سعادت کی ہے کہ اپنے دو مخدوم و محترم بزرگوں حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید رابع ندوی دامت برکاتہم کے زیرسایہ اس مجلس میں گفتگو کا اور ان کی برکات اور دعاؤں کے ساتھ کچھ عرض کرنے کا شرف مل رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کانفرنس کے...
حنفی مذہب کی تفہیم وتوجیہ میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا مسلک
― ڈاکٹر حافظ محمد رشید
برصغیر پاک و ہند میں جن شخصیات کو علمی میدان میں امتیازی مقام حاصل ہے، ان میں مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ بھی شامل ہیں ۔ ان کا بے مثال حافظہ ، وسعت مطالعہ ، مسائل کا استحضار ، دلائل کا تجزیہ و محاکمہ کرنے کی صلاحیت اور دین متین کی حفاظت و صیانت اور ترویج و اشاعت کے لیے تڑپ شاید اپنی مثال آپ ہے ۔ علم سے لگاو اور مطالعہ کی لگن پیدائشی طور پر ان کے وجود میں گوندھ دی گئی تھی جس کا ظہور اس جہان فانی میں ان کے آخری سانس تک ہوتا رہا ۔ اپنے عہد میں انہیں جن بڑے مسائل کا سامنا تھا، ان میں ائمہ احناف پر استخفاف حدیث کا الزام لگا کر ان کی مساعی جمیلہ کی بے قدری...
امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمی (۲)
― مولانا سمیع اللہ سعدی
شیعہ ابن جریر اور اس کی تاریخی حقیقت شیعہ کتب کی روشنی میں۔ اہلسنت کی کتب کی روشنی میں درج بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ابن جریر شیعہ کی شخصیت محض "افسانوی" ہے، ابوعثمان المازنی کے ایک شاگرد ابو جعفر احمد بن محمد بن رستم الطبری کو ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم الطبری بنا دیا گیا ۔اور اس بے چارے کے ذمے ایسی کتب لگ دی گئیں ،جن کا ذکر کتب رجال سے لیکر فہارس الکتب تک ان (ابو عثمان المازنی کے شاگرد)کے حالات میں نہیں ملتا ۔اسی وجہ سے شیعہ کتب میں بھی ابن جریر کے ذکر کے حوالے سے خاصا تضاد پایا جاتا ہے ،ہم پہلے اس تضاد کا ذکر کرتے ہیں ،پھر اس تضاد...
مولانا امین عثمانی ؒ: حالات وخدمات اور افکار
― ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
حالیہ دنوں میں علماء حق اٹھتے جاتے ہیں اور ان کا کوئی متبادل بھی نظرنہیں آتا۔دو ستمبر2020کواسلامی فقہ اکیڈمی انڈیاکے سیکریٹری جنرل مولاناامین عثمانی بھی اس دارفانی کوخیربادکہہ گئے ۔ذیل کی سطورمیں مختصراًان کے حالات زندگی اورخدمات کا ایک جائزہ پیش کیاجارہاہے۔ مولاناامین عثمانی، اس عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جوپانی پت(ہریانہ ) میں آبادتھا۔ان کے اجدادتصوف کے چشتی سلسلہ سے وابستہ تھے اوربہارکے مشہورصوفی شیخ شرف الدین یحیٰ منیری کی شہرت سن کران سے استفادہ کے لیے بہارچلے گئے تھے۔ان کے خاندان میں ڈاکٹرمحسن عثمانی کے علاوہ طیب عثمانی...
امام ابن جریر طبری کی شخصیت اور ایک تاریخی غلط فہمی
― مولانا سمیع اللہ سعدی
امام ابن جریر طبری عہد عباسی کے معروف مورخ و مفسر گزرے ہیں ۔اسلامی علوم کے زمانہ تدوین سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علوم اسلامیہ پر گہرے اثرات ڈالنے والوں میں سر فہرست ہیں ۔گرانقدر تصنیفات چھوڑیں ،جن میں خاص طور پر صحابہ و تابعین کے اقوال سے مزین ایک ضخیم تفسیر "جامع البیان عن تاویل آی القران "المعروف تفسیر طبری اور حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لیکر اپنے زمانے تک کی مبسوط تاریخ "تاریخ الا مم و الملوک" اپنے موضوع پر بنیادی کتب کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ تفسیر و تاریخ کے میدان میں آنے والے تقریبا تمام نامور مصنفین نے ان کتب کو ماخذ بنایا ۔امام ابن جریر...
مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور معاصر دنیا کا فہم
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
( ۱۸ ۔اگست ۲۰۱۹ء کو پریس کلب ایبٹ آباد میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو) ۔ بعد الحمد والصلٰوۃ۔ سیمینار کے منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔ مجھ سے پہلے فاضل مقررین نے حضرت سندھیؒ کی حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں پر اپنے اپنے ذوق کے مطابق اظہار خیال کیا ہے اور مجھے بھی چند معروضات آپ حضرات کے گوش گزار کرنی ہیں۔ مولانا سندھیؒ کا بنیادی تعارف یہ ہے کہ وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے قافلہ کے اہم ترین فرد تھے،...
مولانا مودودی کا تصّورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۴)
― مراد علوی
مولانا مودودی نے "مدافعانہ جنگ"پر تفصیلی بحث کے بعد اس کے مصرف پر بحث اٹھائی ہےکہ کیا یہ مقصود بالذات ہے یا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ آپ کے نزدیک دفاع بے مصرف نہیں بلکہ ایک اہم فریضہ کے لیے ناگزیر وسیلہ ہے۔ اس فریضے کو انھوں نے ''اصلی خدمت" سے موسوم کیا ہے۔ چناں چہ مولانا کے نزدیک ''مدافعانہ جنگ'' مقصود بالذات نہیں بلکہ مسلمانوں کو ''اصلی خدمت''جیسے اہم فریضہ ادا کرنے اور اجتماعی قوت مٹنے سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے تاکہ اس کے ذریعے مسلمان اندرونی اور بیرونی فتنوں سے محفوظ رہ کر اصلی خدمت کی ادائیگی کے قابل ہوسکے۔ اگر اجتماعی قوت...
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۳)
― مراد علوی
مولانا مودودی کا نظریۂ جہاد بنیادی طور پر آپ کی سیاسی فکر سے ماخوذ ہے ۔ اس وجہ سے اس پر سیاسی فکر کا گہرا ثر ہے۔ بالخصوص آپ کا تصورِ ''مصلحانہ جنگ'' اسی سے وجود پذیر ہوا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ مولانا کی فکر کا جائزہ تاریخی اعتبار سے لیا جانا چاہیے، یعنی یہ کہ مولانا کی آرا میں میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آئی ہے۔ زیرِ بحث موضوع میں ہمارے پیشِ نظر سب سے اہم تحریر مولانا کی کتاب''سود'' کا تیسرا ضمیمہ ہے جسے انھوں نے نومبر 1936ء میں لکھا تھا۔ اس میں مولانا نے جہاد کے حوالے سے اپنی قانونی پوزیشن کو واضح کیا ہے، لیکن اس کے بعد لکھی گئی تحریروں میں...
مولانا مودودی کا تصّورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (۲)
― مراد علوی
جاوید احمد غامدی کاموقف:
عمار خان ناصر صاحب نے ” جہاد ایک مطالعہ“ میں مولانا کی فکرِ جہاد کے بارے میں اگر چہ لکھا ہے کہ مولانا کی فکرِ جہاد میں ارتقا پایا جاتا ہے، لیکن آگے انھوں نے ” الجہاد فی الاسلام“ اور ” تفہیم القرآن“ کی تعبیرات کو تضاد اور پریشان خیالی سے موسوم کیا ہے۔2 مولانا نے ”الجہاد فی الاسلام“ میں ”مصلحانہ جہاد“ کے تصور کو جس اساس کھڑا کیا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو حکومتیں غیر الٰہی بنیادوں پر کھڑی ہیں، ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے۔ اس نظریے اور مولانا کی بعد کی تحریروں میں عمار صاحب کو توافق اور یکسوئی...
“مولانا وحید الدین خان: افکار ونظریات” پر ایک تبصرہ
― صدیق احمد شاہ
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا شمار جدید مذہبی سکالرز میں ہوتا ہے۔ ان کی عمرکم ہے، لیکن فکری و علمی کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس علم بھی ہے اور قاری بھی۔ بہت Prolificلکھاری ہیں، لکھتے ہیں تو خوب لکھتے ہیں۔ یہ خود بھی میرے ممد و حین میں سے ہیں اور ان کی کتابیں اور تحقیقی اور فکری مضامین ہمہ وقت میرے مطالعہ میں رہتی ہیں۔ جب بھی کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں تو موضوع کی کھائیوں اور گہرائیوں کو آشکارا کرنے کا فن خوب سر انجام دیتے ہیں۔ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ چونکہ مولانا وحیدالدین خان کے افکار و نظریات پر ہے تو اس حوالے سے ڈاکٹر زبیر...
مولانا مودودی کا تصورِ جہاد: ایک تحقیقی جائزہ (١)
― مراد علوی
مولانا مودودی نے سب سے پہلے اپنا نظریہ جہاد ''الجہاد فی الاسلام" [طبع اوّل : دسمبر ١٩٣٠ء]میں پیش کیا تھا۔ جب یہ کتاب قسطوں کی صورت میں ''الجمعیۃ'' میں شائع ہو رہی تھی، اس وقت مولانا کی عمر بائیس سال اور پانچ ماہ تھی۔1 جب دارالمصنفین اعظم گڑھ سے کتاب شائع ہوئی، اس وقت مولانا کی عمر ستائیس سال کی قریب تھی۔ تاہم مولانا کی فکر اس دور ہی سے ایک نامیاتی کل نظر آتی ہے ۔ اس ضمن میں سب سے ضروری امر یہ ہے کہ جس وقت مولانا یہ کتاب لکھ رہے تھے، اس دور کے سیاسی منظر نامے کو ملحوظ رکھا جائے ۔ مسلمان برطانوی استعمار (١٩٤٧ء-١٨٥٨ء) کی ستم رانیوں اور سقوطِ...
مولانا سید محمد میاں دیوبندی، عظیم مورخ اور مفکر
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جمعیۃ علماء ہند کے قیام کو ایک صدی مکمل ہونے پر انڈیا میں صد سالہ تقریبات کا سلسلہ جاری ہے اور جمعیۃ کے بزرگ اکابر کی یاد میں مختلف سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں۔ دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے سرگرم راہنما، مؤرخ اور مفکر حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کے حوالہ سے منعقدہ سیمینار کی مناسبت سے حضرت ی کے ساتھ عقیدت اور چند ملاقاتوں کے تاثرات پر مشتمل کچھ گزارشات قلمبند ہوگئیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ کا نام پہلی بار طالب علمی کے دور میں اس وقت سنا جب میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم...
مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی کی تصنیف ’’تخلیق عالم‘‘
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نحمده تبارك وتعالى ونصلي ونسلم على رسوله الكريم وعلٰی آلـه وأصحـابه وأتباعه أجـمعين۔ حضرت مولانا عبد اللہ لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے بزرگوں میں سے تھے جن کی ساری زندگی دینی تعلیم و تدریس میں گزری اور انہوں نے اپنی اگلی نسل کو بھی دینی خدمات کے لیے تیار کیا اور ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ علماء لدھیانہ کے اس عظیم خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو تاریخ میں تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں قائدانہ کردار کا ایک مستقل عنوان رکھتا ہے۔ انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے تعلیم حاصل کی اور...
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۴)
― مولانا عبید اختر رحمانی
مدنی اساتذہ کرام: عبدالرحمن بن ہرمز مدنی : آپ نے حضرت ابوہریرہ اورحضرت ابوسعید خدری اوردیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کی ہے،آپ کو حافظ ذہبی نے الامام الحافظ ،الحجۃ کے گراں قدر القاب سے یاد کیاہے۔ (سير أعلام النبلاء،المؤلف: شمس الدين الذهبي (المتوفى : 748هـ) الناشر: مؤسسة الرسالة،5/69) هِشَامُ بنُ عُرْوَةَ بنِ الزُّبَيْرِ بنِ العَوَّامِ الأَسَدِيُّ : آپ کو اپنے والد عروہ ،چچا زبیر،عبداللہ بن عثمان اور دیگر کبار تابعین سے روایت کاشرف حاصل ہے،حافظ ذہبی نے آپ کاالامام الثقہ شیخ الاسلام کے باعظمت القاب سے ذکر کیا ہے۔ (سير...
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۳)
― مولانا عبید اختر رحمانی
اب ہم ذیل میں چند وہ مثالیں ذکر کریں گے جن سے واضح ہوگاکہ امام صاحب نے نہ صرف ابراہیم نخعی کے قول کو ترک کیاہے بلکہ فقہاء کوفہ کو چھوڑ کر اس معاملہ مکی اورمدنی فقہ سے اورفقہاء سےا ستفادہ کیا ہے ۔۔۔۔ جوشخص امام کے پیچھے تشہد کے بقدر بیٹھے (قعدہ اخیرہ میں) اور پھر امام کے سلام پھیرنے سے قبل چلاجائے ،ایسے شخص کے بارے میں ابراہیم کی رائے یہ ہے کہ اس کی نماز نہیں ہوئی اور عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ جب وہ امام کے پیچھے تشہد کے بقدر بیٹھ چکاتواس کی نماز ہوجائے گی ،امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں عطاکاقول میراقول ہے، امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم بھی عطاء کے...
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۲)
― مولانا عبید اختر رحمانی
حضرت شاہ ولی اللہ کے دلائل کا جائزہ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنے نظریہ تخریج پر الانصاف اورحجۃ اللہ میں تفصیل سے بحث کی ہے ، اپنے موقف کی تائید کیلئے انہوں نے تین دلیلیں پیش کی ہیں، ہم ترتیب وار ان تینوں دلیلوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ (۱) حضرت شاہ صاحب کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اہل کوفہ کو اپنے مشائخ اوراساتذہ سے خصوصی لگاؤ تھااور ان کی پوری توجہات کا مرکز کوفہ کے فقہااورمشائخ تھے اوراس ضمن میں انہوں نے حضرت مسروق اورامام ابوحنیفہ کا واقعہ پیش کیا ہے۔ حضرت مسروقؒ نےایک مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ...
زوالِ امت میں غزالی کا کردار ۔ تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۲)
― مولانا محمد عبد اللہ شارق
زوالِ امت میں غزالی کاکردار اور اصل حقائق (تاریخِ اندلس کے چند دلچسپ اوراق)۔ ہم نے لکھا ہے کہ اندلس میں خلافتِ امویہ کے سقوط کے بعد جو دور شروع ہوا وہ طوائف الملوکی کا دور کہلاتا ہے، اس دور میں ریاست سات حصوں میں بٹ گئی تھی۔ ضعف وافتراق اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ اس دور میں اندلس صلیبیوں کا باج گذار بنا ہوا تھا، ڈیڑھ ڈیڑھ انچی ریاستوں کے امراء اہلِ صلیب کو باقاعدہ جزیہ دیتے تھے، پھر اسی پہ بس نہیں، مذکورہ حصوں میں سے دو حصے یکے بعد دیگرے عیسائی ہتھیا کر لے گئے۔ اس وقت جس طرح مسلمان بے سمت، تفرق وتشتت کا شکار اور آپس میں گتھم گتھ تھے، اس کی بناء...
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اور بھٹکل
― مولانا عبد المتین منیری
بات تو کل ہی کی لگتی ہے ، لیکن اس پر بھی نصف صدی بیت چکی ہے۔ ۱۸؍نومبر ۱۹۶۷ء گورنمنٹ پرائمری بورڈ اسکول کے احاطہ میں منعقد ہونے والے بھٹکل کی تاریخ کے عظیم الشان مجمع سے خطاب کرتے ہوئے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے مسلمانان بھٹکل کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ: ’’اے بھٹکل کے باشندو ! اے نوائط قوم کے چشم و چراغ ! تمہارے بزرگ یہاں کے لوگوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر آئے ، وہ تو بتیس دانتوں میں ایک زبان کی حیثیت رکھتے تھے ، کوئی ان کا ساز وسامان نہیں تھا ، کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں تھا ، اور ان کا کوئی دوست نہیں تھا...
زوالِ امت میں غزالی کا کردار تاریخی حقائق کیا ہیں؟ (۱)
― مولانا محمد عبد اللہ شارق
امام غزالی پر ایک اور اتہام۔ اپنے سابقہ مضمون "غزالی اور ابن رشد کا قضیہ" (الشریعہ، فروری ومارچ ۲۰۱۴ء) میں ہم نہایت تفصیل سے یہ عرض کرچکے ہیں کہ امام غزالی نے ایسا کچھ نہیں لکھا کہ جس سے انہیں علم، عقل اور سائنس وفلسفہ کی کاوشوں کا منکر قرار دیا جاسکے، بلکہ اس کے برعکس ان کے ہاں متواتر ایسی عبارات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کے سخت مخالف ہیں جو اسلام کو فلسفہ وسائنس اور عقلی علوم کے تمام اجزاء اور شعبوں کا مخالف کہتے ہیں۔ ہم نے ایسی کئی عبارات وہاں نقل کی ہیں جن سے قاری بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ امام غزالی کو تمدن دشمن قرار...
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کانظریہ تخریج ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۱)
― مولانا عبید اختر رحمانی
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (ولادت4/شوال 1114ہجری، وفات 29/محرم 1176 ہجری) کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ آپ نے اصلاح وتجدید کا مشعل روشن کرکے برصغیر کے مسلمانوں کے دل میں ایمان وعمل کی نئی جوت جگائی۔ جب سلطنت مغلیہ کا آفتاب لب بام تھااور مسلمانوں کی پستی وانحطاط نوشتہ دیوار نظرآرہی تھی، ایسے نازک حالات میںآپ نے برصغیر کے مسلمانوں کومایوسی کے اندھیارے میں امید کی نئی کرن دکھائی اور یہاں کے مسلمانو ں کو قرآن وحدیث کے آب حیات وچشمہ زلال سے سیراب کیا ۔ جن اختلافی مسائل پر معرکے گرم تھے،ان میں عالمانہ اورغیرجانبدارانہ نقطہ نظرپیش کیا،فقہی تنگ نظری کو...
سرسید اور ان کے روایت پسند مخالفین
― محمد ابوبکر
عالمی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں گذشتہ دنوں سرسید احمد خان کے حوالے سے ایک سیمینار وقوع پذیر ہوا۔ ایک سیشن کا کلیدی خطبہ جناب احمد جاوید نے دیا۔ میں دلی خواہش کے باوجود اس تقریب میں شریک نہ ہو سکا۔بعد ازاں فیس بک پر احمد جاوید صاحب کے خطاب کے حوالے سے بحث چھڑ گئی۔ خورشید ندیم نے ایک کالم میں اس خطاب کا خلاصہ پیش کیا۔جاوید صاحب کی شخصی تواضع اور شائستگی کے برملا اعتراف کے باوجودخورشید ندیم ان کے پیش کردہ معروضات سے غیر مطمئن نظر آئے، اگرچہ انہوں نے اس پرکوئی تجزیہ پیش نہ کیا۔اظہار الحق صاحب نے دو کالمز میں اس تقریب کو موضوع بنایا، لیکن...
علامہ اقبال اور شدت پسندی کا بیانیہ: ان کی جہادی اور سیاسی فکر کی روشنی میں
― مولانا سید متین احمد شاہ
جس طرح اردو کے مایہ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر ’’ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے‘‘ کی مشق کی گئی، اسی طرح علامہ اقبال پر بھی اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوا جو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ یہ اعتراضات شخصی بھی ہیں، ان کے کلام کے شعری، لسانی اور عروضی پہلوؤں سے متعلق بھی، فکر کی تشکیل اور اس کے اجزا سے متعلق بھی اور دیگر مختلف جہات پر بھی۔ان اعتراضات میں بہت سے وقیع اور صائب ہیں، جب کہ بعض اعتراضات سوے فہم، بعض قلت فہم، بعض مخصوص ذہنی سانچوں اور بعض حسد اور عناد کے سبب ہیں۔ 1910ء میں اقبال کے سفرِ حیدرآباد میں اردو کے نامور محقق...
مولانا سندھیؒ کی فکر اور اس سے استفادہ کی ضرورت
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور میں ’’مجلس یادگار شیخ الاسلاؒ م پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے حوالہ سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں جو گزارشات پیش کیں، انہیں تھوڑے سے اضافہ کے ساتھ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے بارے میں گفتگو کے مختلف پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ مثلاً ان کا قبول اسلام کیسے ہوا؟ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں چیانوالی کے سکھ گھرانے کے ایک نوجوان نے اسلام قبول کیا تو اس کے اسباب کیا تھے اور وہ کن حالات و مراحل سے گزر کر حلقہ بگوش اسلام...
حضرت مولانا مفتی محمود کا اسلوبِ استدلال
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کو ہم سے رخصت ہوئے چھتیس برس گزر چکے ہیں،لیکن ابھی کل کی بات لگتی ہے، ان کا چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے، وہ مختلف تقریبات میں آتے جاتے دکھائی دے رہے ہیں، ان کی گفتگو کانوں میں رس گھول رہی ہے، ان کے استدلال اور نکتہ رسی کی ندرت دل و دماغ کو سراپا توجہ کی کیفیت میں رکھے ہوئے ہے اور ان کی فراست و تدبر کے کئی مراحل ذہن کی اسکرین پر قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ مولانا مفتی محمودؒ کے بارے میں بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے اور بہت لکھنے کا ارادہ ہوتا ہے لیکن آج کل سماعت و مطالعہ کا ہاضمہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ...
حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہ کا منہج و اسلوب (۲)
― غازی عبد الرحمن قاسمی
اس مقام پر ایک وزنی سوال ہے کہ شاہ صاحب جیسے جلیل القدر عالم جن کی پہچان ہی محدث دہلوی کے نام سے ہے، ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ صحیح احادیث کے ساتھ ضعیف احادیث بھی نقل کریں اور ان سے استدلال کریں؟ علامہ زاہد الکوثری ؒ کے شاہ صاحب پر اعتراضات: علامہ زاہد الکوثریؒ (م -۱۳۶۸ھ)نے شاہ صاحب پر جواعتراضات کیے ہیں، ان میں سے ایک یہی ہے’’ کہ آپ کی نظر صرف متون حدیث کی طرف ہے ،اسانید کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔‘‘علامہ کوثری ؒ نے شاہ صاحب کی علمی خدمات کو کھلے دل سے سراہا ہے مگر اس کے بعد چند مقامات پر آپ کے بعض افکار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے گرفت...
بہار کا عالم
― محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ
ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا۔ یہ 6 ستمبر 1965ء کی بات ہے۔ اگلے روز 7 ستمبر کو پاکستان کی مایہ ناز ایئر فورس کے پائلٹ ایم ایم عالم نے صرف 10 سیکنڈ میں ہندوستان کا لڑاکا طیارہ مار گرایا جبکہ صرف 38 سیکنڈ میں مزید چار طیارے کرگس بنا کر انہیں ہواؤں سے زمین پر پٹخ دیا اور یوں محض 48 سیکنڈوں میں 5 طیارے مار گرانے کا ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ ابھی تک سے کوئی توڑ نہیں سکا۔ مستقبل کے حالات تو خدا ہی جانتا ہے۔ کیامردم خیزعلاقہ ہوگاپٹنہ کا جس نے سیدعطاء اللہ شاہ بخاری جیسا خطیب اعظم اورامیرشریعت بھی پیداکیا۔ اس پائے کی خطابت کا ریکارڈ...
حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہ کا منہج و اسلوب (۱)
― غازی عبد الرحمن قاسمی
تعارف: اس کائنات کی رنگ وبو میں بہت سے افراد واشخاص پید ا ہو ئے اور اپنی مقررہ زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوگئے،ان کی وفات کے بعد ان کا ذکر کچھ عرصہ ہوا اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ ان کے تذکرے ختم ہوگئے ،مگر کچھ ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی گزر ی ہیں جن کی علمی کاوشوں ،مجتہدانہ صلاحیتیوں اوربلندپایہ استنبا ط واستدلال سے مزین کتب کی بدولت وہ آج بھی اہل علم کے حلقہ میں زندہ ہیں ۔ان کے بیان کردہ تحقیقی مضامین اسلامیات کے محقق کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان میں نمایاں نام مجد د الملت ،حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا ہے ۔آپ ۱۷۰۳ء...
1-50 (210) | > |